ضلع اوکاڑہ کی تحصیل بصیرپور کا قصبہ۔ بصیرپور ریلوے لائن پر 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا قدیم نام منڈی ہیرا سنگھ تھا۔ اسے سکھ دور میں نکئی مثل کے بانی ہیرا سنگھ نے آباد کیا تھا۔ ہیر ا سنگھ جاٹ قوم کا سندھو تھا اور تحصیل چونیاں کے علاقے میں قصبہ بھڑوال کا رہائشی تھا۔ پنجاب میں طوائف الملوکی کے دور میں لُوٹ مار شروع کی اور رفتہ رفتہ ایک بڑا جتھہ تیار کر لیا۔ اس نے اتنی طاقت اکٹھی کر لی کہ نکئی مثل کا بانی بنا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کی رانی راج کور اسی مثل کے ایک سردار بھگوان سنگھ کی بہن تھی۔ انگریزی عہد میں یہاں ریلوے اسٹیشن قائم ہوا۔ آج بھی یہاں سے لاہور تا سمہ سٹہ اور کراچی کے لیے تین چار ریل گاڑیاں روزانہ گزرتی ہیں۔ ریلوے اسٹیشن کے قیام کے بعد یہاں غلہ منڈی قائم ہوئی۔ اس وجہ سے اسے ترقی ملی۔ قیامِ پاکستان سے قبل یہاں سکھ اور ہندو معقول تعداد میں آباد تھے، جو 1947ء میں نقل مکانی کر کے بھارت چلے گئے اور ان کی جگہ مسلمان مہاجرین آکر آباد ہوئے۔ 1992ء میں منڈی ہیرا سنگھ کا نام تبدیل کر کے یہاں کی مقامی سیاسی و سماجی شخصیت مرزا احمد بیگ (مرحوم)کے نام پر منڈی احمد آباد رکھ دیا گیا۔ وہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو کے دستِ راست تھے۔ 1992ء میں مرزا احمد بیگ کی وفات ہوئی، تو ان کی یاد میں قصبہ کا نام میاں منظور احمد وٹو نے ان کے نام سے منسوب کر دیا۔یہاں تھانہ، دفتر یونین کونسل،ریڈیو سعودی عرب شعبہ اردو[2] کا دفتر طلبہ و طالبات کے ڈگری کالجز، ہائی اسکول، ہسپتال، دفتر زراعت، وٹرنری ہسپتال، مسلم کمرشل بنک اور کواپر یٹو بنک کی شاخیں اور منشا بک سنٹر موجود ہیں۔ مین بازار، ریلوے بازار، پُل بازار اور سبزی منڈی یہاں کے کاروباری مراکز جبکہ سوڈھی والا، ٹبہ تغریل، محلہ کریم آباد، ٹھٹھہ بلوچاں اور محلہ بہرم خاں رہائشی بستیاں ہیں۔ یہاں میا ں عبد الکریم نامی بزرگ کا مزار بھی ہے، جن کا ہر سال 11 تا 13 چیت عُرس ہوتا ہے۔ منڈی احمد آباد کی آبادی 1998ء کی مردم شماری کے مطابق 16273 نفوس پر مشتمل تھی۔ اب اس کی آبادی 20 ہزار کے لگ بھگ ہے۔[3]