چیچنیا میں خواتین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
چیچنیا کی خواتین روس سے جنگ کے دوران 1994ء میں دست بہ دعا ہیں کہ دار الحکومت گروزنی پر دشمن افواج کا قبضہ نہ ہو۔

چیچنیا سوویت اتحاد کے اواخر میں ایک نو آزاد مملکت کے طور پر وجود میں آیا تھا، اگر چیکہ اس آزادی کو صرف افغانستان کی طالبان حکومت نے اپنے دور اقتدار میں تسلیم کیا تھا۔ یہ بعد میں خوں ریز جنگوں کے بعد روس میں دو بارہ شامل شامل کر لیا گیا تھا۔

چیچن باشندوں کو اغوا کر کے انھیں لاپتا کرنے، انھیں غیر قانونی طور پر حراست میں لے کر جسمانی اذیتیں دینے اور ان کے خلاف بدترین تشدد کرنے نیز بڑے پیمانے پر خواتین کی عصمت دری کرنے کے واقعات اس دور میں بہت دیکھے گئے تھے۔ تاہم کہ عالمی برادری اپنے انسانی حقوق کی آواز اٹھانے کے اپنے فرائض کو پورا نہیں کیا تھا اور چیچنیا میں انسانیت کا بد ترین دور یوں ہی چلتا رہا تھا۔ [1] اس سے چیچنیا میں خواتین (انگریزی: Women in Chechnya) بری طرح سے متاثر ہوتی رہی ہیں۔

ملک میں خواتین کا کردار اور کیفیت[ترمیم]

جنگ اور خانہ جنگی کے حالات کی وجہ سے عورتوں کا کردار پوری طرح تبدیل ہو گیا ہے۔ جنگ نے عام مردوں کو روزمرہ کی زندگی سے الگ کر دیا ہے، لہذا مردوں کے روایتی کام اب عورتیں کرتی ہیں۔ جنگ کے دوران کئی مرد مارے گئے یا غائب ہو گئے۔ صحیح تعداد بتانا مشکل ہے۔ بمباری، فوجی آپریشن، زبردستی کی نقل مکانی وغیرہ کی وجہ سے غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جمہوریۂ چیچنیا میں ہر بیس خواتین کے تناسب میں صرف ایک مرد پایا گیا ہے۔ لہذا کسی لڑکی کو شریک حیات کی تلاش میں پہلی مشکل ہے: چننے کے اختیار کی کمی۔ لہذا چیچنیا میں کئی لڑکیاں کسی مرد کی دوسری یا تیسری بیوی کی حیثیت سے بیاہی جاتی ہیں۔ کچھ خواتین ہیں جن کے شوہر مارے گئے اور ان کے ساتھ صرف بچے ہیں۔ ایسی خواتین کی شادی مشکل ہے، کیونکہ ان سے کم عمر کی لڑکیاں پہلے سے علاقے میں موجود ہیں۔[2]

جمہوریہ چیچنیا کے صدر رمضان قادریوف نے 2011ء میں خواتین کو سر پوش اوڑھنے کا حکم دے رکھا تھا اور انھوں نے اس ضمن میں اسلامی تعلیمات کی پاسداری کرنے کی ہدایت کی۔ لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مغربی میڈیا ادارے ان کے خلاف مہم چلا رہے اور ان کے اقدامات کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے تعبیر کر چکے ہیں۔[3]

اس سے قبل ایک اور چیچن صدر نے اپنے ملک کے مردوں پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی بیگمات کو انٹرنیٹ کے ذریعے سے پیغام رسانی کی موبائل ایپلیکیشن 'واٹس ایپ' کے استعمال سے روک دیں۔[4]

خواتین کا ان کے لیے منفی سوچ اور جابرانہ رویے کے خلاف احتجاج[ترمیم]

اس علاقے میں کئی وجہوں سے خواتین بر سر احتجاج رہتی آئی ہیں۔ 2015ء میں اعلیٰ سرکاری افسر کے خواتین کے خلاف بیان دینے پر چیچنیا کی خواتین نے احتجاج کا انوکھا طریقہ اپنا لیا۔ خواتین احتجاج کے طور پر انسٹاگرام پر اپنی ناک منہ چڑھائے ہوئے تصاویر اپ لوڈ کر رہی تھیں۔چیچنیا کے اس 47 سالہ پولیس چیف کے 17 سالہ لڑکی سے اس کی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر ملک میں ایک بحث چھڑ گئی۔پولیس سربراہ کے اس اقدام کے حامیوں اور مخالفین میں الفاظ کی جنگ ہوئی۔اعلیٰ سرکاری افسراستاخو نے پولیس سربراہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اسے کم عمر لڑکی سے شادی کرنے کا پورا حق حاصل ہے کیوں کہ ہمارے ملک کی خواتین جب 27 سال کی ہوتی ہیں تو ان کے چہروں پر جھریاں پڑ جاتی ہیں اور چھایوں سے ان کے چہرے بگڑ جاتے ہیں، ہمارے ملک کی خواتین 27 سال کی عمر میں 50 سال کی لگتی ہیں۔[5] اس طرح سے چیچنیا میں کئی منفی رویے اور بیانات سماج میں دیکھے جاتے رہے ہیں اور ان کے ساتھ ذیلی حیثیت کا برتاؤ ہوتا رہا ہے، جس کا وہاں کی خواتین کبھی احتجاج کیا ہے اور کبھی حالات کو بہ طور مجبوری و ناہمواری کے، حسبہ قبول کیا ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "چیچنیا جنگِ آزادی کی خونچکاں داستان"۔ 12 فروری 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مارچ 2020 
  2. چیچنیا میں جنگ کے دس سال
  3. "چیچنیا:اشتہارات میں ننگے سر خواتین کو ڈھانپنے کے لیے مہم، حکومت کا پردے کے حکم پر سختی سے عمل درآمد سے انکار"۔ 22 مارچ 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مارچ 2020 
  4. مرد، خواتین کو 'وٹس ایپ' سے دور رکھیں: چیچن رہنما
  5. چیچن خواتین کایہ انوکھااحتجاج کس بات پ رہے