عبدالغفور پشاوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

حافظ عبد الغفورنقشبندی پشاوری

نام و نسب[ترمیم]

آپ کا نام عبد الغفور اور والد کا نام صالح محمد۔ آپ آبائی وطن کشمیر میں 1052ھ کو پیدا ہوئے۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد در س نظامی کی تکمیل کی، جب علم ظاہری سے آراستہ ہو گئے تو روحانی تسکین کے لیے مرشد کامل کی تلاش میں نکلے، کشمیر میں سید علی ہمدانی کے خانقاہ پر حاضر ہو کر روحانی فیوضات و برکات و وافر حصہ پایا۔ کشمیر کے گرد و نواح میں بہت سے مشائخ کو ملے اور سلوک و معرفت کے علم کو سبقاً سبقاً پڑھا۔ کشمیر سے روانہ ہو کر لاہور آئے۔ ان دنوں لاہور علما و مشائخ کا مسکن تھا اور علم و ادب کا مرکز۔ وہاں کے علما اور مشائخ کی صحبت سے فیضیاب ہوکر پشاور تشریف لائے۔ شیخ محمد عمر پشاور کتاب ظواہر السرائر میں فرماتے ہیں کہ "پشاور میں علاوہ دوسرے علما مشائخ کی صحبت کے جناب حافظ محمد اسماعیل صاحب غوری کی صحبت بابرکت سے خوب فائدہ اٹھایا۔ انہی کے ارشاد کی تکمیل کرتے ہوئے آپ دوبارہ لاہور تشریف لے گئے اورشیخ سعدی لاہوری سے طریقہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے۔ اپنے شیخ محترم کی صحبت میں مسلسل اڑھائی برس گزار کر منازل سلوک و تصوف عملاً طے کیے۔ گیارہ برس کے بعد شیخ سعدی لاہوری نے آپ کو ہر چہار سلاسل یعنی قادری، چشتی، نقشبندی اور سہروردی میں خلافت عطا فرما کر اڑھائی سال کے بعد رخصت کر دیا"۔

فلاحی کام[ترمیم]

آپ کی تبلیغی مساعی اوراصلاح عام کے لیے صوبہ سرحد میں پشاور ( جو اس وقت کابل کا مضافات تھا) کو اپنا مرکز بنا کر تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ خانقاہ قائم کر کے لنگر دینا شرو ع کیا۔ سینکڑوں بھوکے پیٹ بھر کر کھانا کھاتے۔ بیسیوں برہنہ کپڑے پہنتے اور بہت سے روحانی تعلیم کی تکمیل کرتے۔ نیز بہت سے آپ کے مبلغ دیہاتوں میں پھر کر امر باالمعروف کر کے واپس اپنے مرکز پر آتے۔ ان کے کھانے پہننے کا سب انتظام خانقاہ کی طرف سے ہوتا۔ آپ کے معاصرسید سخی شاہ محمد غوث اپنی کتاب ’’ در بیان کسب سلوک و بیان طریقت و حقیقت ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں جس کو صاحب خزنیۃ الاصفیاء نے نقل کیا کہ "حافظ عبد الغفور پشاوری تمام رات ’’ حبس دم ‘‘ اور ’’ مراقبہ ‘‘ میں بسر کرتے، دنیا اور اہل دنیا کی طرف التفات نہ کرتے، ہمیشہ مساکین اور مسافروں کی خدمت میں مصروف رہتے۔ آپ کے ’’لنگر‘‘ کے پانچ سو آدمی روزانہ کھانا کھاتے، جناب حافظ صاحب کھانا دینے کے علاوہ ضرورت مندوں کو کپڑے اور نقدی بھی مرحمت فرماتے"۔

ترویج سنت[ترمیم]

آپ خود تبلیغ کے لیے گاؤں گاؤں، قریہ قریہ، شہر شہر پھرتے، بدعات اور رسومات بدکے خلاف عملاً کوشش کرتے عقدبیوگاں کرواتے، صرف نکاح پر شادیاں کرواتے، لوگوں میں جو دشمنیاں اور خصومتیں ہوتیں ان کا تصفیہ کروا کر ان کو بھائی بنا دیتے۔ اگرچہ آپ کو ان مسائل کے حل کرنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ان مشکلات پر قابو پالیتے۔ اشاعت سنت نبی کریم علیہ التحیۃ التسلیم آپ کا خاص وصف تھا۔ اگرکوئی شخص حضور اکرم سید دوعالم مالک و مختار احمد مجتبٰے محمدمصطفے ٰ ﷺ کی سنت مطہر ہ کی پابندی نہ کرتا تو آپ اس کو سمجھاتے، اگر نہ سمجھتا تو پھر سختی کرتے اور اس معاملہ میں کسی بڑے سے بڑے حکمران کی اور دولت مند کی بھی پروا نہ کرتے۔

وصال[ترمیم]

ّآپ کی وفات بزمانہ اورنگزیب 14 شعبان المعظم 1116ھ میں ہوئی۔ مزار پشاور چھاؤنی میں تھانہ شرقی کے سامنے مرجع عوام ہے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ علما ومشائخ سرحد ،جلد اول،صفحہ 68 تا73 محمد امیر شاہ قادری،مکتبہ الحسن یکہ توت پشاور