اختر شمار

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

معروف شاعر، ماہر تعلیم، کالم نگار، ایف سی یونیورسٹی، لاہور  شعبہ اردو کے صدر تھے۔ اس سے پہلے وہ جامعہ عین شمس اور جامعہ الازہر میں بھی تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں۔


ڈاکٹر اختر شمار 1960 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا شمار موجودہ دور کے نامور پاکستانی اردو شاعروں میں ہوتا ہے۔ وہ دو درجن کتب کے مصنف تھے۔ کچھ عرصہ قبل ان کا شعری کلیات *اختر شماریاں* کے عنوان سے شائع ہوا۔ان کا تدریسی و تخلیقی سفر تین دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ 2003 میں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کی نگرانی میں *حیدر دہلوی: احوال و آثار* کے موضوع پر پی ایچ۔ ڈی کی۔ 2003 ہی میں انھوں نے فورمین کرسچیئن کالج یونیورسٹی لاہور کے شعبہ اردو کے سربراہ کی حیثیت سے جوائن کیا۔ 2008 سے 2012 تک مصر کی جامعہ عین الشمس اور جامعہ الازہر کی پاکستان چیئر پر خدمات انجام دیں۔ انھیں پاکستان کا پہلا ادبی اخبار *بجنگ آمد* جاری کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ ان کی دیگر کتابوں میں *روشنی کے پھول* *کسی کی آنکھ ہوئے ہم* *یہ آغاز محبت ہے* *جیون تیرے نام* *ہمیں تیری تمنا ہے* *آپ سا کوئی نہیں* *تمھی میری محبت ہو* *دھیان* *عاجزانہ*  (اردو شاعری) *اکھیاں دے وچ دل* *میلہ چار دیہاڑے* (پنجابی شاعری) *پنجابی ادب رنگ* *بھرتری ہری ایک عظیم شاعر* *میں بھی پاکستان ہوں* *ہم زندہ قوم ہیں* *لاہور کی ادبی ڈائری* *موسیٰ سے مُرسی تک* وغیرہ (نثری تحریریں) شامل ہیں۔

  *نمونہ کلام*

اس                                                                 

۔۔۔۔۔۔۔۔                                                                                      ذرا     سی    دیر     تھی   بس    اک    دیا  جلانا  تھا

اور    اس   کے    بعد    فقط    آندھیوں   کو    آنا   تھا

میں  گھر   کو  پھونک   رہا  تھا  بڑے   یقین کے  ساتھ

کہ      تیری     راہ    میں    پہلا      قدم     اٹھانا   تھا

وگرنہ   کون   اٹھاتا   یہ    جسم   و   جاں   کے   عذاب

یہ      زندگی      تو    محبت     کا     اک     بہانہ   تھا

یہ   کون  شخص   مجھے   کرچیوں   میں   بانٹ   گیا

یہ       آئنہ     تو     مرا     آخری    ٹھکانہ    تھا

پہاڑ      بھانپ      رہا       تھا    مرے    ارادے    کو

وہ   اس   لیے   بھی   کہ   تیشہ    مجھے    اٹھانا   تھا

بہت     سنبھال    کے    لایا    ہوں   اک    ستارے   تک

زمین     پر    جو      مرے     عشق     کا    زمانہ    تھا

ملا    تو     ایسے    کہ    صدیوں    کی    آشنائی   ہو

تعارف   اس     سے    بھی     حالانکہ     غائبانہ   تھا

میں اپنی خاک میں رکھتا ہوں جس  کو  صدیوں  سے

یہ    روشنی     بھی    کبھی     میرا  آستانہ   تھا

میں ہاتھ ہاتھوں میں اس کے نہ دے سکا  تھا  شمارؔ

وہ   جس   کی   مٹھی   میں   لمحہ  بڑا   سہانا  تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔

سبھی کچھ خوبصورت ہے جہاں پر

ہمیں واپس بھی  جانا  ہے کیا  کریں

اس کے نزدیک  غمِ ترکِ وفا  کچھ  بھی نہیں

مطمئن ایسا ہے وہ جیسے ہوا کچھ بھی نہیں

اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی  مٹی  جاتی  ہیں

اس کو کھو کر تو مرے پاس رہا کچھ بھی نہیں

چار دن  رہ  گئے  میلے   میں  مگر  اب  کے  بھی

اس نے آنے کے لیے خط میں لکھا کچھ بھی نہیں

کل بچھڑنا ہے تو پھر عہد وفا سوچ کے باندھ

ابھی  آغازِ محبت  ہے   گیا  کچھ  بھی  نہیں

میں تو اس  واسطے  چُپ  ہوں  کہ  تماشا  نہ  بنے

تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلا کچھ بھی نہیں

اے شمارؔ آنکھیں  اسی  طرح  بچھائے  رکھنا

جانے کس وقت وہ آ جائے پتا کچھ بھی نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانے کس  دیس  جا  بسے  اختر

ہائے وہ لوگ خوش کلام سے لوگ

وقت نے  تو  یہی  سکھایا  شمار

آج  ہے   آج   ؛   کل   نہیں  کوئی

جانے سے پیش تر جو  بتایا  نہیں اُسے

وہ سو رہا تھا میں نے جگایا نہیں اسے

میں کیا کہوں کے کیسی تھی وہ شامِ الوداع

بس  دیکھتا  رہا   تھا۔۔۔۔۔۔۔   بلایا  نہیں  اسے

میں گزرتا تو وہاں جاں سے گزرتا چُپ چاپ

یہ  ہٙوا  کیسے   مدینے   سے   گذر  جاتی  ہے

آپؐ کی ہی   یاد  ہو  اب  زندگی

اب مجھے خود کو بھلانا چاہیے

کہاں رکے ہیں اب بھی یزیدیوں کے ظلم وستم

ہمارے  سامنے  کشمیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی   کہانی  ہے

دیکھے کسی کی ایک جھلک اور اُس کے بعد

پہروں کسی کو  بیٹھ کے سوچا  کرے کوئی

کاغذ پہ یہ  اشعار  ہیں  یا  خون  کے چھینٹے

یا رنگ پہ آیا ہُوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فن کار کا دکھ ہے

روز  منایا  کرتے  تھے

اک تہوار محبت تھی

بیٹھا رہے تو سامنے میرے اسی طرح

دل چاہتا ہے شام  سہانی نہ ختم ہو

میرے لفظوں کی سادگی پہ نہ جا

شعر  کی  تازگی۔۔۔۔۔۔۔  تعارف   ہے

ریزہ ریزہ   ہونے  لگا   ہوں  میں  ہر  پل

کھا جائیں گے مجھ کو پاکستان کے دکھ

مت کسی کا گلہ  کرو بھائی

سب پہ راضی رہا کرو بھائی

میرا دروازہ  کھولتا  تھا کوئی

یا کہ دستک پہ بار بار تھا میں

دل  جھاڑ  ذرا  اور   ہمیں  ڈھونڈنے والے

ہوں گے کسی تصویر پرانی میں کہیں ہم

عدالت ہی لگانی ہے تو ان جلووں کوبھی پوچھو

قصور ان کا بھی ہوگا  مجھ کو دیوانہ بنانے میں

ایک جیسے تھے سبھی اس شہر میں

مجھ کو سب سے  مختلف  ہونا  پڑا

تیری قُربت میں کبھی سوچا نہیں تھا میں نے

تیری فُرقت کا زمانہ  بھی  مجھے دیکھنا  تھا

ایک  تجھ  پر  اثر  نہیں  کوئی

جھوم اٹھے مرے کلام سے لوگ

میں بہت جلد بھنور میں تجھے یاد  آوں گا

اتنا خوش باش نہ رہ مجھ سے کنارہ کرکے

تجھے میں مل نہ پایا وقتِ رخصت

جیوں گا جب   تلک یہ  غم  رہے  گا

ٰ

پیدائش[ترمیم]

17 اپریل 1960ء کو پیدا ہوئے،[1] ڈاکٹر اختر شمار کا آبائی تعلق گاؤں سہال نزد چکری ضلع راولپنڈی سے تھا ، ان کے والد گرامی بہت عرصہ پہلے ملتان میں آباد ہو گئے تھے ،

تعلیم[ترمیم]

ڈاکٹر صاحب نے بی اے تک تعلیم ملتان میں حاصل کی ، ایم اے اردو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے کیا۔۔پی ایچ ڈی پنجاب یونیورسٹی میں ڈاکٹر خواجہ ذکریا کی زیر نگرانی حیدر دہلوی پر کی جس کی تحقیق کے لیے وہ بھارت بھی تشریف لے گئے.

تدریس[ترمیم]

ڈاکٹر اختر شمار نے اپنے تدریسی سفر کا آغاز گورنمنٹ کالج قصور سے کیا بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے ہوتے ہوئے ایف سی کالج تک پہنچے ، ڈاکٹر صاحب نے " حیدر دہلوی: احوال و آثار" کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی،

ایف سی یونیورسٹی لاہور میں شعبہ اردو کے چیئرپرسن کے طور پر کام کر رہے تھے ۔ اسے قبل وہ جامعۃ الازہر (مصر) می10ء تا 2013ء) پڑھاتے رہے، چیئرمین ادبیات اردو، عین الشمس یونیورسٹی (مصر) بھی رہے،

صحافت[ترمیم]

اسی کی دہائی کے اواخر میں لاہور شفٹ ہو گئے مختلف اخبارات و رسائل میں کام کرنے کے علاوہ " بجنگ آمد" کے نام سے اپنا جریدہ جاری کیا

ادبی سفر[ترمیم]

پروفیسر ڈاکٹر اختر شمار (الپیال راجپوت) کے شعری سفر کی باقاعدہ ابتدا 1984ء میں قارئینِ ادب کو ہائیکو کی پوشاک پہ کاڑھے ’’روشنی کے پھول‘‘ پیش کرنے سے ہوئی تھی۔ 1992ء میں انھوں نے ’’کسی کی آنکھ ہوئے ہم‘‘ کی روح افزا نوید سنائی۔ 1993ء میں ’’یہ آغازِ محبت ہے‘‘ کا مزید اقرار سامنے آیا۔ 1994ء میں ’’جیون تیرے نام‘‘ تک نوبت جا پہنچی۔ 1996ء میں ’’ہمیں تیری تمنا ہے‘‘کی صورت میں یہ محبت مزید یا شدید نوعیت اختیار کر گئی۔ 1996ء ہی میں ڈاکٹر اختر شمار نے اپنی مادری زبان میں ’’اکھیاں دے وچ دل‘‘ کا مژدہ سنایا۔ اکیسویں صدی کے پہلے ہی سال انھوں نے ایک بار پھر ’’آپ سا نہیں کوئی‘‘ کی تائید کی۔ 2002ء میں بھی ان کے انتخاب کا لبِ لباب: ’’تمھی میری محبت ہو‘‘ والا تھا۔ 2005ء اور 2007ء میںان کے شعری ’’دھیان‘‘ کی یک سوئی برابر محسوس ہوتی رہی۔ 2010ء میں ایک بار پھر ڈاکٹر صاحب نے پنجابی کا ’’میلہ چار دیہاڑے‘‘ انجوائے کیا۔ ان کے نثری پلڑے میں ’’مسلم تہذیب و فکر کا مطالعہ‘‘( 2002ء)’ ’پنجابی ادب رنگ‘‘ (2002ء)’’انتخابِ جمال‘‘ (2003ء) ’’بھرتری ہری:ایک عظیم شاعر‘‘ (2004ء)، ’’مَیں بھی پاکستان ہوں‘‘ (2010ء)،’’ہم زندہ قوم ہیں‘‘ (2005ء)، ’’ویلے دی اکھ‘‘ (2009ء) ،’’دنیا مسافرخانہ اے‘‘(2010ء) ،’خطوں میں دفن محبت‘‘ (2010ء)، ‘’آدابِ خود آگاہی‘‘ (2011ء)، ’’موسیٰ سے مرسی تک‘‘ (2013ء)، ’’لاہور کی ادبی ڈائری‘‘ (2014ء )، ’’جی بسم اللہ‘‘ (2016ء) تیزی سے شامل ہوتے چلے گئے۔پھر اسی برس ان کا پی ایچ۔ڈی کا مقالہ بھی’ ’حیدر دہلوی: احوال و آثار‘‘ کے نام سے کتابی شکل اختیار کر گیا۔اور اب 2017ء میں وہ اپنی اس ’’عاجزانہ‘‘ پیش کش کے ساتھ اُردو کی شعری دنیا میں حاضر رہے۔ ان کی شعرنگری میں حمد، نعت، سلام، مناجات، غزل، نظم، گیت، ترانے جیسی خوش رُو اصناف کا بسیرا ہے۔[2][3][4][5]

تصانیف[ترمیم]

  • ہمیں تیری تمنا ہے (شعری مجموعہ/1996ء)
  • جیون تیرے نام (شعری مجموعہ/1994ء[6]
  • جی بسم اللہ (صوفیانہ تحاریر)[7]
  • اختر شماریاں (شعری کلیات)[8]
  • عشقِ درویش” (اپنے مرشد، صوفی ناظر حسین، کے احوال)۔[9]
  • عاجزانہ (شاعری)
  • اردو جنرل مع معروضی سوالات (برائے سی ایس ایس)

لاہور کی ادبی ڈائری (لاہور کی ادبی تاریخ)

اعزازات[ترمیم]

پہلی پیر الپاءؒ کانفرنس 2019ء کے موقع پر جب الپیال پی ایچ ڈیز کو اعزازی شیلڈ سے نوازا گیا تو آپ کا نام سرفہرست تھا، مرحوم نے شیلڈ وصول کرتے وقت حاضرین کانفرنس کو مخاطب کرتے ھوئے چند تاریخی الفاظ کہے جو قبیلہ کا اثاثہ رہیں گے.

{{"میں (پروفیسر ڈاکٹر اختر شمار) نے اپنی زندگی میں بین الاقوامی سطح پر کئی معروف اداروں اور شخصیات سے لاتعداد اعزازی شیلڈز وصول کر چکا ہوں۔ لیکن جتنی طمانیت مجھے منج راجپوت الپیال قبیلہ کے اس پلیٹ فارم سے اپنے برادری کے درمیان اور بابا جی پیر الپاءؒ کے قدموں میں ملنے والے اس اعزاز نے دی وہ شاید کے آج تک مجھے نہ ملی ھو،"}}

راشدہ یوسف نے یونیورسٹی آف سرگودھا میانوالی کیمپس سے" اختر شمار کی ادبی خدمات" کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر ایم فل (اردو) کی ڈگری حاصل کی۔۔

وفات[ترمیم]

وہ عارضہ جگر میں مبتلا تھے اور لاہور کے ہسپتال میں زیر علاج تھے ،[10] 8 اگست 2022ء کو بعد نماز تہجد 63 سال کی عمر میں وفات پا گئے،[11]

ڈاکٹر اختر شمار کا جنازہ 11 بجے ان کی لاہور رہائش گاہ پر ادا کیا گیا۔ اس کے بعد ان کی تدفین آبائی گاؤں چکری سہال میں کی گئی، [12]

حوالہ جات[ترمیم]