معرکۂ استالن گراد
معرکۂ استالن گراد بسلسلۂ دوسری جنگ عظیم | |||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
سلسلہ مشرقی محاذ (روسی جنگ عظیم) | |||||||||
عمومی معلومات | |||||||||
| |||||||||
متحارب گروہ | |||||||||
نازی جرمنی رومانیہ اطالیہ مجارستان کرویئشا |
سوویت یونین | ||||||||
قائد | |||||||||
ایڈولف ہٹلر فریڈرک پالاس |
جوزف استالن ویزیلی چویکوف | ||||||||
قوت | |||||||||
ابتدائی: 2 لاکھ 70 ہزار 500 ٹینک 600 طیارے، وسط ستمبر تک 1600 سوویت جوابی کارروائی کے وقت: 10 لاکھ 11 ہزار 675 ٹینک 732 طیارے (402 قابل پرواز) |
ابتدائی: ایک لاکھ 87 ہزار 400 ٹینک 300 طیارے سوویت جوابی کارروائی کے وقت: 11 لاکھ 3 ہزار 1463 ٹینک 1115 طیارے | ||||||||
نقصانات | |||||||||
7 لاکھ 50 ہزار ہلاک و زخمی 91 ہزار گرفتار طیارے: 900 |
4 لاکھ 78 ہزار 741 ہلاک و لاپتہ 6 لاکھ 50 ہزار 878 زخمی و بیمار 40 ہزار سے زائد شہری ہلاک 4341 ٹینک 2769 لڑاکا طیارے | ||||||||
درستی - ترمیم |
معرکۂ استالن گراد دوسری جنگ عظیم کا سب سے اہم موڑ تھا اور اسے انسانی تاریخ کی خونی ترین جنگ سمجھا جاتا ہے، جس میں تاریخ کی سب سے زیادہ دو طرفہ ہلاکتیں ہوئیں۔ یہ جنگ عسکری و شہری پر دونوں سطح پر فریقین کی جانب سے ظلم و سفاکیت کی مثال ہے۔ اس معرکے میں نازی جرمنی کی جانب سے استالن گراد شہر (جو اب وولگو گراد کہلاتا ہے) کا محاصرہ، شہر کے اندر لڑائی اور سوویت اتحاد کا جوابی حملہ شامل ہیں جن کے نتیجے میں شہر کے گرد جرمنی کی چھٹی افواج اور محوری قوتیں (Axis Powers) مکمل تباہی کا شکار ہوئیں۔ دونوں جانب کی کل ہلاکتوں کی تعداد کا اندازہ تقریباً 20 لاکھ لگایا گیا ہے۔ اس معرکے کے نتیجے میں محوری قوتوں کو تقریباً 8 لاکھ 50 ہزار جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا، جو مشرقی محاذ پر ان کی کل افرادی قوت کا ایک چوتھائی تھا۔ علاوہ ازیں رسد و ساز و سامان کا بھی بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ محوری قوتیں اس زبردست نقصان سے کبھی باہر نہ آ سکیں اور بالآخر انھیں مشرقی یورپ سے طویل پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ سوویت اتحاد کے لیے، جسے جنگ میں زبردست شکستوں اور جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا، استالن گراد میں فتح انتہائی اہمیت کی حامل تھی۔ یہ اسی شکست کا نتیجہ تھا کہ 1945ء میں نازی جرمنی کو دوسری جنگ عظیم میں مکمل شکست ہو گئی۔
گو کہ یہ معرکہ جنگ عظیم کا ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے لیکن اسے جرمن اور سوویت افواج کے نظم و ضبط کے باعث بھی یاد رکھا جاتا ہے۔ سوویت جنھوں نے جرمن جارحیت کے خلاف پہلے استالن گراد کا دفاع کیا، کے لیے جنگ میں ایک ایسا موقع بھی آیا ہے کہ محاذ پر آنے والے نئے فوجیوں کی متوقع عمر ایک دن سے بھی کم ہو گئی لیکن اس کے باوجود انھوں نے پسپائی کی بجائے مزاحمت کی راہ اختیار کی۔ دوسری جانب انتہائی خراب موسمی حالات اور چاروں طرف سے گھرنے کے باوجود جرمن سپاہیوں نے زبردست نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا اور بالآخر ایڈولف ہٹلر کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے۔