ببر شیر کا شکار

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ایشیائی ببر شیر, جو کبھی بحیرہ روم سے برصغیر تک پھیلے ہوئے تھے آج صرف 500 سے کچھ زائد تعداد میں بھارتی گجرات کے گیر جنگلات تک محدود ہیں۔[1]

آج افریقا کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں پائے جانے ببر شیروں کی آبادی بیسویں صدی کے وسط سے 50 فیصد کم ہو چکی ہے ۔[2][3][4] 2002-2004 کے کیے گئے سروے میں وہاں ان کی تعداد 16500 سے 47000 کے قریب تھی جبکہ 1950ء میں ان کی آبادی ایک لاکھ سے چار لاکھ ہوا کرتی تھی۔ اس کمی کی بنیادی وجہ انسانی مداخلت اور بیماریاں ہیں۔[2][5][6] مسکن سے علیحدگی اور انسان سے سامنا ہونا ان کی کمی کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ہیں۔ باقی ماندہ انواع جغرافیائی طور سے الگ تھلگ ہیں جس کے سبب اختلاط نا ہونے سے جینیاتی تنوع کم ہوتی ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت نے اسے خطرے سے دوچار فہرست میں ڈالا ہے جبکہ ایشیائی ببر شیروں کو انھوں نے اس سے زیادہ خطرے والے زمرے میں رکھا ہے۔[7] مغربی افریقی ببر شیر اور وسطی افریقی نوع جغرافیائی طور پر الگ الگ ہیں جس کی وجہ سے ان میں انفرادی طور پر اختلاط کا امکان کم ہی رہتا ہے۔ مغربی افریقہ میں 2002ء-2004ء والے سروے میں ببر شیروں کی تعداد 850-1160 بتائی گئی۔ مغربی افریقی ببر شیروں کی الگ الگ سب سے بڑی آبادی کے معاملے پر اختلاف ہے ؛ برکینا فاسو ارلئ سنگو کے ماحولیاتی نظام میں ان کی تعداد 100 سے 400 بتائی جاتی ہے۔[2] ایک سروے شمالی مغربی افریقہ کے وازا نیشنل پارک کے بارے میں ان کی تعداد 14 تا 21 بتاتا ہے۔[8]

شکار شدہ کالے یال والا ببر شیر ،سوٹک پلین،مئی 1910 کینیا

دونوں افریقی اور ایشیائی ببر شیروں کی تحفظ کے لیے مزید بہتر اقدامات کی ضرورت ہے جن میں نیشنل پارکوں میں بہتری جیسی چیزیں شامل ہیں۔ ان بہترین محفوظ پناہ گاہوں میں نمیبیا کا ایٹوشا نیشنل پارک، تنزانیہ کا سرنگیٹی نیشنل پارک اور جنوبی افریقا کا کروگر نیشنل پارک مشہور ہیں۔ اسی طرح ایساو ببر شیروں کی بقا کے لیے سمبرو نیشنل ریسرو، بفیلو نیشنل ریسرو اور سہبا نیشنل ریسرو شمالی کینیا میں فعال ہیں۔[9] ان علاقوں کے علاوہ دیگر مقامات میں ببر شیروں اور انسانی آبادیوں میں سامنا ہونے کی اطلاعات ہیں جس سے ببر شیروں کی آبادی کو خطرات ہیں۔[10] بھارت میں ایشیائی ببر شیروں کی آخری پناہ گاہ گیر فارسٹ نیشنل پارک ہے جہاں 1974ء میں محض 180 ببر شیر تھے لیکن 2010ء میں یہ تعداد بڑھ کر 400 تک جا پہنچی۔[11] افریقا میں انسانی آبادی ببر شیروں کے علاقوں کے آس پاس ہی رہی ہیں لہذا انھیں جان و مال کا خطرہ ضرور رہتا ہے۔[12] ایشیائی ببر شیروں کو مدھیا پردیش کے کونو سینکیوری میں دوبارہ متعارف کروانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ اس منصوبہ کے لیے ضروری ہے کہ ان ببر شیروں کو دیگر انواع سے اختلاط نا دیا جائے تاکہ کہ ان کی الگ نسلی پہچان قائم رہے۔[13]

بربری ببر شیروں کو ایام رفتہ میں چڑیا گھر والا جانور کہا جاتا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ چڑیا گھروں کے اکثر ببر شیر ان کی نسل میں سے تھے۔ کینٹ کے علاقے میں موجود برطانوی چڑیا گھر کے ببر شیر کبھی مراکشی سلطان کی تحویل میں ہوتے تھے۔[14] ادیس ابابا کی چڑیا گھر کے گیارہ ببر شیر بھی اسی نسل کے ہیں جو وہاں کے بادشاہ کی تحویل سے لیے گئے تھے۔ جامعہ آکسفورڈ ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہی ہے جس سے ان بربری ببر شیروں کی نسل بڑھا کر وہ دوبارہ ان کے قدرتی ماحول میں چھوڑ دیے جائیں گے یہ انھیں مراکش کی اٹلس پہاڑیوں میں چھوڑیں گے۔[15]

ببر شیروں کی تعداد میں کمی کی دریافت کے بعد بہت ساری تنظیمیں انھیں بچانے کے لیے مشترکہ اور مربوط کام کر رہی ہیں۔ یہ نوع ان انواع میں شامل ہیں جنھیں سپیشیس سروائیول اینڈ ایکویریم کے منصوبہ بقاء کے لیے چنا گیا ہے۔ یہ منصوبہ 1982ء میں ایشیائی ببر شیروں کے لیے شروع کیا تھا لیکن اس میں اس وقت رکاوٹ آئی جب انھیں معلوم ہوا کہ امریکی چڑیا گھروں کے ببر شیر حقیقتا خالص ایشیائی ببر شیر نہیں ہیں بلکہ ان کی افریقی ببر شیروں سے اختلاط ہو چکی ہے۔ افریقی ببر شیروں کے لیے یہ منصوبہ 1993ء میں شروع ہوا لیکن اس میں کئی مشکلات حائل ہیں جیسا کہ بہت سے ببر شیروں کی نسل میں خالصیت نہ ہونا ہے۔[16]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Darshan Desai (23 June 2003)۔ "The Mane Don't Fit"۔ Outlook India Magazine۔ Outlookindia.com۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2010 
  2. ^ ا ب پ
  3. H. Bauer، S. Van Der Merwe (2002)۔ "The African ببر شیر database"۔ Cat news۔ 36: 41–53 
  4. P. Chardonnet (2002)۔ Conservation of African ببر شیر (PDF)۔ Paris, France: International Foundation for the Conservation of Wildlife۔ 25 دسمبر 2018 میں شیر.pdf اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2020 
  5. "AWF Wildlife: ببر شیر"۔ African Wildlife Foundation۔ 25 دسمبر 2018 میں شیر اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2007 
  6. "NATURE. The Vanishing ببر شیرs"۔ PBS۔ 25 دسمبر 2018 میں شیرs/introduction/545/ اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2011 
  7. "Panthera leo ssp. persica"۔ لال فہرست برائے خطرہ زدہ جاندار نسخہ 2010.4۔ بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت۔ 2008 
  8. P. N. Tumenta، J. S. Kok، J. C. van Rijssel، R. Buij، B. M. Croes، P. J. Funston، H. H. de Iongh، H. A. Udo de Haes (2009)۔ "Threat of rapid extermination of the ببر شیر (Panthera leo leo) in Waza National Park, Northern Cameroon"۔ African Journal of Ecology۔ 48 (4): 1–7۔ doi:10.1111/j.1365-2028.2009.01181.x 
  9. "Winning with ببر شیرs"۔ The East African Magazine۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مئی 2016 
  10. John Roach (16 July 2003)۔ "ببر شیرs Vs. Farmers: Peace Possible?"۔ National Geographic News۔ National Geographic۔ 25 دسمبر 2018 میں شیرs.html اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 ستمبر 2007 
  11. Vasant K. Saberwal، James P. Gibbs، Ravi Chellam، A. J. T. Johnsingh (1 June 1994)۔ "ببر شیر‐Human Conflict in the Gir Forest, India"۔ Conservation Biology۔ Blackwell Science Inc۔ 8 (2): 501–7۔ ISSN 1523-1739۔ doi:10.1046/j.1523-1739.1994.08020501.x۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مئی 2014 
  12. A. J. T. Johnsingh (2004)۔ "WII in the Field: Is Kuno Wildlife Sanctuary ready to play second home to Asiatic ببر شیرs?"۔ Wildlife Institute of India Newsletter۔ 11 (4)۔ 27 ستمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 نومبر 2010  "آرکائیو کاپی"۔ 17 جولا‎ئی 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مئی 2016 
  13. "Barbary ببر شیر News"۔ 17 دسمبر 2005 میں شیر_news.htm اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2007