تصدق حسین خالد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اردو کے ممتاز شاعر

ولادت[ترمیم]

12 جنوری 1901ء کو پشاور میں پیدا ہوئے،

تعلیم[ترمیم]

گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور 1924ء میں انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔

عملی زندگی[ترمیم]

وہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں بطور ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر متعین رہنے کے بعد 1935ء میں قبل از وقت پنشن پاکر اعلی تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور لندن یونیورسٹی سے بی اے آنرز اور پی ایچ ڈی کے امتحانات پاس کیے۔ 1945ء میں وہ بیرسٹر کی حیثیت سے واپس آ گئے اور لاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس شروع کی۔ وہ 1935ء سے 1937ء تک پنجاب مسلم لیگ کے پبلسٹی سیکریٹری بھی رہے،

شاعری[ترمیم]

ان کے ابتدائی کلام میں غالب اور اقبال کا رنگ غالب ہے۔ پھر کئی نئے اسلوب اختیار کیے۔ ان کا شمار آزاد اردو نظم کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر تصدق حسین خالد کے شعری مجموعے سرودنو اور لامکاں نا لامکاں کے نام سے شائع ہوئے۔

تصدق حسین خالد نے اپنے ذوقِ تربیت اور تخلیقی ارتقا کی جو کہانی سرودنو کے دیباچے میں بیان کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تجربات کا آغاز 1926ئ میں ہو چکا تھا۔ٹسدق حسین نے ایسی فضا پیدا کر دی کہ آنے والی نظم کو کسی حجاب اور تحفظِ ذہنی کے بغیر اس صنف کو تکمیل دیا جائے۔

تصانیف[ترمیم]

  • اقبال اور اُس کا پیغام ()مُرتّبین،ڈاکٹر میاں تصدق حسین خالد ، میاں محمد رفیق خاور ،لاہور،گیلانی الیکٹرک پریس،1938ء،70 ص (اقبالیات) مقدمہ از مولانا عبد المجید سالک
  • سرود نو لاہور،الکتاب، (1944ء) ، (شاعری)
  • لا مکاں تا لامکاں (1976ء) کراچی

وفات[ترمیم]

13 مارچ 1971ء کو تصدق حسین خالد لاہور میں وفات پاگئے۔ وہ لاہور میں دارالعلوم اسلامیہ ، شادمان لنک روڈ میں آسودۂ خاک ہیں۔

انتخاب کلام[ترمیم]

راہ دیکھی نہیں اور دور ہے منزل میری

کوئی ساقی نہیں میں ہوں مری تنہائی ہے

دیکھنی ہے مجھے حیرانی سے تاروں کی نگاہ

دور ان سے بھی کہیں دور مجھے جانا ہے

اس بلندی پہ اڑے جاتا ہے تو سن میرا

کہکشاں گرد سی دیتی ہے دکھائی مجھ کو

رفعت گوش سے سنتا ہوا مبہم سا شرار

میری منزل ہے کہا یہ کبھی سوچا ہی نہیں

اس کی فرصت ہی کسے دل میں مگر رہتا ہے

درد وہ درد کہ ہے جس سے کمنا بیتا

جانے کچھ راہ مرے ساتھ ہوا تھا لیکن

رہ گیا دور کہیں ہار کے ہمت اپنی

زہرہ کہنے لگی اے بزم فلک کے قاصد

زرد رو پہلی ہی منزل میں ہوا تو کیوں کر

جب کہ وہ خاکئی بے مایہ بڑھے جاتا ہے

پست ہر ایک بلندی کو کٹے جاتا ہے

بھڑکے اک آہ کہا چاند نے یوں زہرہ سے

اے نگار رخ زیبائے بہار افلاک

میں بھی حیران ہوں اس ہمت عالی پہ کہیں

حسن سلمیٰ کے تصور کا یہ اعجازؔ نہ ہو

یہ جواں حوصلگی پردہ در راز نہ ہو