حافظ محمود خان شیرانی
حافظ محمود شیرانی | |
---|---|
پیدائش | محمد میکائیل 5 اکتوبر 1880ء |
وفات | 16 فروری 1946ء (65 سال) ٹونک، بھارت،ریاست ٹونک، موجودہ ضلع ٹونک، راجستھان، بھارت |
پیشہ | نقاد، محقق، مورخ |
نمایاں کام | مقالات حافظ محمود شیرانی |
حافظ محمود خان شیرانی (پیدائش: 5 اکتوبر 1880ء– وفات: 14 فروری1946) (اس اعتبار سے تو مانا جا سکتا ہے کہ حافظ صاحب کی عمر 65 سال تھی مگر اسلامی تاریخیں تو کچھ اور ہی بتاتیں ہیں۔اکتوبر 1880 میں شوال 1297 ہجری بنتا ہے جو بالکل ٹھیک ہے مگر آپ کی وفات کی جو اسلامی تاریخ مظہر صاحب نے حافظ صاحب کے حالاتِ زندگی میں لکھی وہ ربیع الاول 1366 ہجری ہے۔اب اگر آپ 1297 سے 1366 تک کا حساب لگائیں تو علم ہوگا کہ آپ کی عمر 69 یا 68 سال بنتی ہے۔اور تو اورسید ہاشم صاحب فرید آبادی کی کہی ہوئی تاریخ جو رسالہ "ہماری زبان" میں شائع ہوئی وہ قل موت العالم موت العالم کے مطابق تھی جو علم ابجد کے مطابق 1366ہی بنتی ہے۔باقی اللہ عزوجل بہتر جانے ۔ ) اردو زبان کے مایہ ناز محقق اور شاعر (اگرچہ ان کی شاعری نہایت کم ہے اور اس میدان میں انھوں نے کم ہی رغبت دکھائی) تھے۔
وہ معروف رومانوی شاعر اختر شیرانی کے والد تھے۔ انھیں پنجاب میں اردو کے نام سے لکھی گئی کتاب کے سبب بے حد شہرت حاصل ہوئی۔ ان کے اسی کام کو دیکھ کر اردو کی تاریخ کے حوالے گجرات میں اردو اور بنگال میں اردو وغیرہ سامنے آئے۔ انھوں نے اسلامیہ کالج لاہور اور اورینٹل کالج لاہور میں اردو کی تدریس کی۔ ان کے وفات کے بعد شائع ہونے والے مقالے مقالاتِ حافظ محمود شیرانی میں ان کے فرزند لکھتے ہیں کہ بعض اوقات علامہ اقبال بھی ان سے بعض اصلاحات کے متعلق دریافت کیا کرتے تھے نیز اورینٹل کالج سے جب انھیں نکالا جا رہا تھا تو علامہ اقبال نے ان کی قابلیت کو دیکھ کر ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی گزارش کی جسے بعد میں منظور کیا گیا۔ اردو ادب کے علاوہ وہ قدیم چیزوں کو جمع کرنے کا بھی شوق رکھتے تھے۔ ان کی وفات ٹونک میں ہی ہوئی ان کے خاندان والے تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے آئے۔
تصانیف
[ترمیم]- تنقید شعرالحجم، دہلی،انجمن ترقی اردو ہند،1942ء
- خالق باری ،دہلی،انجمن ترقی اُردو (ہند)،1944ء
- پرتھی راج رسا ،دہلی،انجمن ترقی اُردو (ہند)،1943ء
- قرآن پاک کی ایک قدیم تفسیر، دہلی،دیوان پریس،1932ء، (تفاسیرِ قرآن) فارسی میں تفسیر ہے،صرف دیباچہ اُردو میں لکھا گیا ہے
- پنجاب میں اُردو حصہ اول لکھنؤ،مکتبہ کلیان بشیریت گنج، لکھنؤ، اُترپردیش اُردو اکادمی،بار اول 1980ء، بار دوم 1990ء ،اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان،1988ء
اُردو تحقیق کا معلم اول
[ترمیم]اُردو تحقیق کو جدید سائنسی اُصولوں پر وضع کرنے میں حافظ محمود شیرانی کا کردار بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ ”اُردو تحقیق کا معلم اول“ [1]کے عنوان سے محمد عثمان بٹ کا مضمون 2021ء میں سامنے آیا۔ اُردو کے کلاسیکی سرمایہ کو سامنے لانے میں اُن کے نمایاں کردار کو اُنھوں نے واضح کیا۔حافظ محمود شیرانی کا کمال یہ تھا کہ اُنھوں نے اُردو تحقیق میں بنیادی مآخذ کی اہمیت کو واضح کیا۔
محمد عثمان بٹ لکھتے ہیں:
”اُردو تحقیق کے میدان میں وہ پہلے محقق ہیں جنھوں نے اولین مآخذ کی اہمیت کو بھرپور انداز سے اجاگر کیا۔ اُنھوں نے اُردو کے کلاسیکی سرمائے کا ازسرنو جائزہ لیا اور پہلے سے موجود اُردو تحقیق کی روایت سے ہٹ کر اُردو کے اُس سرمائے کا تحقیقی و تنقیدی بنیادوں پر مقام متعین کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔“[1]
ح== حوالہ جات ==
- ^ ا ب محمد عثمان بٹ (27 اپریل 2021ء)۔ "اُردو تحقیق کا معلم اول"۔ اُردو پوائنٹ۔ پاکستان۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2023ء
- واحد الزّمان؛ «حافظ محمود شيراني: شاهنامہ شناس بزرگ ِهند»، سہ ماہی «نقد و تحقیق»، شاپا: 2563-2454، مدیر و سردبیر: سید نقی عباس (کیفی)، جلد 1، شماره 1، صص 102-95، دهلی نو، 2015م۔ (فارسی)
أ ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ك ل م ن ه و ى ء