دین محمد چوراہی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سید دین محمد چوراہی کا شمار ضلع جہلم کے نقشبندیہ اولیاء کرام میں ہوتا ہے۔ آپ ایک بلند پایہ عالم و فاضل تھے۔

خواجہ دین محمد چوراہی
ذاتی
پیدائش(27 رجب 1231ھ)
بمقام تیزی علاقہ تیراہی افغانستان
وفات(6 ذی القعد 1325ھ بمطابق 11 دسمبر 1907ء)
مذہباسلام
والدین
سلسلہنقشبندیہ
مرتبہ
مقامچورہ شریف تحصیل جنڈ اٹک
پیشرونور محمد تیراہی

ولادت[ترمیم]

خواجہ دین محمد شاہ کی ولادت 27 رجب 1231ھ میں بمقام تیزی علاقہ تیراہی افغانستان میں ہوئی۔ آپ خواجہ نور محمد نقشبندی کے تیسرے صاحبزادے اور خواجہ فقیر محمد چوراہی کے برادر اصغر تھے۔ جب آپ کی ولادت ہوئی تو آپ کے والد بزرگوار نے اپنے بڑے بھائی سید احمد گل کو آپ کے ولایت کی خبر دی اور فرمایا کہ میرا یہ لڑکا بہت سعادت مند ہو گا۔ اس کے چہرے سے ولایت کے آثار نمایاں ہیں۔

تعلیم[ترمیم]

دین محمد شاہ کو ابتدائی زمانے میں ظاہری تعلیم سے کوئی رغبت نہیں تھی۔ آپ ہمہ وقت ذکر الہی میں مشغول و مصروف رہتے تھے۔ آپ کے والد گرامی نے خواجہ محمد امین جو استاد کلاں کے نام سے مشہور تھے سے فرمایا کہ میرے فرزند سید دین محمد شاہ کو اگر آپ توجہ سے پڑھائیں تو امید ہے کہ وہ صاحب علم ہو جائے گا۔ چنانچہ اس دن کے بعد سے آپ مولانا محمد امین کے پاس حصول علم کے لیے جانے لگے۔ ابھی آپ نے صرف سات سپارے ہی پڑھے تھے کہ گھر واپس آ گئے۔ اس بات کا ذکر کسی نے حضرت خواجہ فقیر محمد چوراہی شاه سے کیا توانہوں نے کہا کہ خواہ سید فیض اللہ شاه تیراہی کا فرمان یاد ہے کہ انھوں نے فرمایا تھا کہ جو خواجہ امین سے ایک سبق پڑھے گا ہرگز علم سے بے بہرہ نہ رہے گا۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ ان شاء الله تعالی کے فضل وکرم سے دین محمد صاحب علم ہو گا۔ اس کے بعد دوبارہ آپ خواجہ محمد امین کے پاس گئے اور آپ نے قرآن مجید خواجہ محمد امین سے پڑھا۔ آپ نے کتب تصوف اپنے چچا سید گل محمد سے پڑھیں۔ آپ کو دینی کتب کے مطالعے کا بے حد شوق تھا۔ عوام و خواص میں حضرت ملا کے لقب سے پہچانے جاتے تھے۔ قوت حافظ اس قدر تیز تھا کہ جو کتاب آپ کی نظر سے گذر جاتی اس کے مضامین آپ کو کافی عرصہ تک یاد رہتے۔ آپ نے تمام عمر درس و تدریس میں گزاری۔ کنزالد قائق اور تفسیر قرآن پر آپ کو مکمل عبور حاصل تھا۔

بيعت و خلافت[ترمیم]

خواجہ دین محمد اپنے والد گرامی خواجہ سید نور محمد شاه تیرانی کے دست حق پرست پر بیعت سے مشرف ہوئے اور انہی سے خرقہ خلافت پایا۔ حضرت باواجی نے آپ کو اپنی حیات میں بی جانشین مقرر فرمادیا تھا۔ [1]

چورہ شریف سکونت[ترمیم]

سید نور محمد تیراہی نے 1284ھ میں موضع چورہ شریف تحصیل جنڈ ضلع اٹک کی طرف ہجرت کی۔ آپ نے اس جگہ کو اپنا روحانی مرکز بنا لیا اور مخلوق خدا کو رشد و ہدایت کے سرچشمے سے سیراب کرنے لگے۔ یہ ہجرت آپ نے مع صاحبزادگان اور اہل خاندان کے ساتھ سے کی تھی۔ [2]

زیارت حرمین شریفین[ترمیم]

خواجہ دین محمد شاہ 1290ھ میں حج بیت اللہ شریف کی ادائیگی کے لیے تشریف لے گئے۔ حج کی ادائیگی کے بعد زیارت روضہ رسول کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے لیے تشریف لے گئے۔ مدینہ منورہ میں آپ کا معمول تھا کہ زیادہ وقت رسول اللہ کی بارگاہ میں حاضر رہتے تھے۔

اتباع سنت[ترمیم]

خواجہ دین محمد چوراہی کی ہر ادا سنت مصطفے کے مطابقت ہوا کرتی تھی۔ جب دوستوں میں تشریف فرما ہوتے تو پابندی مصطفے کا درس دیا کرتے اور فرماتے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ ہے نہ گزارہ۔ آپ نے اپنے تمام معاملات کو شریعت کے سانچے میں ڈھالا ہوا تھا۔ اگر کوئی غیر مقلد بھی دیکھ لیتا تو بے اختیار کہنے پر مجبور ہو جاتا کہ ابھی دنیا میں اللہ کے مقبول بندے موجود ہیں۔ آپ کا فرمان ہے کہ مرشد کامل کے بغیر اتباع سنت مصطفے کامل نصیب نہیں ہوتی۔

کرامات[ترمیم]

سید خواجہ دین محمد چوراہی صاحب کرامت بزرگ تھے۔ آپ کی چند کرامات درج ذیل ہیں۔

  1. ایک دفعہ چورہ شریف اورگردونواح کے علاقے میں کافی عرصہ سے بارش نہ ہونے کے سبب گرمی اپنے عروج پر تھی جس کی وجہ سے لوگ سخت پریشان تھے۔ آپ کے دربار کے کچھ یاران طریقت جمع ہو کر حاضر خدمت ہوئے اور عرض کی حضور ایک عرصہ سے باران رحمت کا نزول نہیں ہوا۔ خدا کی بارگاہ میں التجا فرمائیں کہ بارش ہو جائے۔ آپ نے فرمایا اچھا نماز ظہر کے بعد سب دعا کریں گے۔ جب نماز ظہر کے بعد آپ نے اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا کی تو ابھی دعا کیے ہوئے تھوڑی دیر بھی نہ گذری تھی کہ باران رحمت کا نزول ہو گیا۔ جس سے مخلوق خدا کو سکون ملا اور گرمی کی شدت کم ہو گئی۔ تمام لوگ خدا کی بارگاہ میں سجدہ شکر بجالائے۔
  2. آپ کا ایک مرید حافظ عمرانی والا ایک ہندو کے سودی قرض سے تنگ آ کر آپ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہو کر طالب دعا ہوا۔ آپ نے دعا فرمائی اور ارشاد فرمایا حافظ صاحب غم نہ کرو خدا کے فضل و کرم سے وہ ہندو تم سے سود وصول نہ کر سکے گا۔ چند ماہ بعد اس ہندو نے انگریز کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا تو جج نے پوچھا دعوی اصل کا ہے یا سود کا۔ ہندو فورا کہنے لگا کہ جناب دعوی اصل کا ہے۔ جج نے اس وقت حکم نامہ جاری کر دیا کہ اصل رقم ادا کر دی جائے۔ اس طرح حافظ کو سود نہ ادا کرنا پڑا اور سودی رقم اور سود خور ہندو سے جان چھوٹ گئی۔ اس کے بعد سے حافظ صاحب مسلسل آپ کی خدمت میں حاضری دیتے رہے۔

وصال[ترمیم]

خواجہ دین محمد چوراہی کا وصال 6 ذی القعد 1325ھ بمطابق 11 دسمبر 1907ء کو چورہ شریف ضلع اٹک میں ہوا۔ آپ کا مزار چورہ شریف تحصیل جنڈ ضلع اٹک میں مرجع خاص و عام ہے۔ آپ کے وصال پر ایک مرید نے یوں قطعہ

جناب خواجہ دین محمد چوزیں دا رفتا نقل مکان یافت بسا حلقش خواجہ سروشم بگفتا بس بہشت جاوداں یافت

اولاد[ترمیم]

خواجہ دین محمد چوراہی کے چار صاحبزادے تھے۔

  1. خواجہ محمد دیدار شاہ
  2. خواجہ محمد عادل شاه
  3. حضرت شاہ
  4. حضرت سید شاہ

خلفا[ترمیم]

خواجہ دین محمد چوراہی کے لاتعداد مرید تھے۔ جن میں سے آپ نے چند کو خلافت کا منسب بھی عطا کیا۔ چند خلفا کے نام درج ذیل ہے۔

  1. مفتی غلام رسول امرتسری
  2. مولوی احمد دین خونی چک
  3. مفتی غلام مصطفی امرتسری
  4. مولوی محمد احسن سہالوی
  5. سید چنن شاه تڑہ ریاست کپورتھلہ
  6. سید گلاب شاه شیخوپوری
  7. مولوی عبد السلام امرتسری
  8. مولوی کرم داد ضلع گجرات
  9. سید حسین بلیری
  10. جمیل شاہ
  11. حاجی شاہ
  12. خلیفہ نظام الدین جاتر یکے مولوی محمد یوسف مدد کالس
  13. مولوی احسن اللہ امرتسری
  14. احمد شاہ کشمیری موضع شراق واڑہ
  15. خلیہ عبد الوہاب شراق واڑہ مولوی نور حسین بھاگ والا
  16. منشی غلام علی پشاوری
  17. خواجہ محمد دیدار شاہ چوراہی (پسر)
  18. خواجہ محمد عادل شاه (پسر)
  19. حضرت شاہ (پسر)
  20. حضرت سید شاہ (پسر) [3]


حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ اولیائے پوٹھوہار مولف مقصود احمد صابری صفحہ 517 ، 518
  2. تذکرہ اولیائے پوٹھوہار مولف مقصود احمد صابری صفحہ 497
  3. تذکرہ اولیائے پوٹھوہار مولف مقصود احمد صابری صفحہ 518 تا 520