ظہیر دہلوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ظہیر دہلوی

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1835ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی ،  مغلیہ سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1911ء (75–76 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حیدر آباد [3]،  ریاست حیدرآباد ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ محمد ابراہیم ذوق   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  مصنف [4]،  صحافی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

راقم الدولہ سید ظہیر الدین حسین المعروف ظہیر دہلوی)پیدائش: 1835ء - وفات: 18 مارچ 1911ء) برطانوی ہندوستان میں پیدا ہونے والے اردو زبان کے نامور شاعر، صحافی اور ادیب تھے۔ شاعری میں شیخ محمد ابراہیم ذوق کے شاگرد تھے۔

حالات زندگی[ترمیم]

ظہیر دہلوی 1835ء[5] میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام سید ظہیر الدین حسین اور ظہیر تخلص تھا۔ ظہیر دہلوی کا سلسلۂ نسب کرمان (ایران ) کے شاہ نعمت اﷲ ولی کے توسط سے حضرت علی بن ابی طالب تک پہنچتا ہے۔ ان کے افراد خاندان نسل در نسل مغلیہ سلطنت سے وابستہ رہے اور بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ ظہیر کے دادا میرامام علی شاہ فنِ خوشنویسی میں یکتا ئے زمانہ تھے۔اسی طرح ان کے صاحبزادے یعنی ظہیر کے والد سید جلال الدین حیدر بھی اس فن میں لاثانی تھے۔ بہادر شاہ ظفر نے خط نسخ میں میرامام علی شاہ کی شاگردی اختیار کی۔ ان کے بعد سید جلال الدین حیدر سے فن خوشنویسی میں بہادر شاہ ظفر نے باقاعدہ اصلاح لی اور انھیں صلاح الدولہ مرصع رقم خان بہادر کے خطاب سے نوازا۔ سید جلال الدین حیدر کے شاگردوں میں دلّی کے کئی خوش نویس استاد شامل ہیں۔مرزا زین العابدین عارف نے بھی ان سے یہ فن سیکھا تھا۔ بارہ سال کی عمر میں انھوں نے فارسی کی درسی کتابیں اور عربی کی چند ابتدائی کتابیں پڑھنے پائے تھے کہ مغلیہ دربار میں ملازم ہو گئے اور ترقی کرکے بہادر شاہ ظفر کے داروغۂ ماہی ومراتب مقرر ہوئے اور راقم الدولہ خطاب پایا۔ شعر و سخن کا شوق کم سنی سے تھا۔ ملک الشعرا محمد ابراہیم ذوق کے شاگرد تھے۔ جنگ آزادی 1857ء کے بعد پہلے بریلی پھر ریاست رام پور چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعد بلند شہر سے نکلنے والے اخبار جلوۂ طور کے ایڈیٹر ہو گئے۔ ریاست الورکے مہاراجا نے ان کے مضامین کو بہت پسند کیا اور ان کو الور بلا لیا۔ وہاں کی سازشوں سے دل برداشتہ ہو کر ریاست جے پور چلے گئے، جہاں وہ تقریباً انیس برس مقیم رہے۔ پندرہ برس ریاست ٹونک میں رہے۔ عمر کے آخری برسوں میں ریاست حیدر آباد چلے گئے۔ انھوں نے شاعری میں چار دیوان یادگار چھوڑے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی کتابوں میں داستان غدر بہت مشہور ہوئی۔ ظہیر دہلوی 18 مارچ 1911ء میں ریاست حیدرآباد میں انتقال کر گئے۔[6]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. The Hindu — اخذ شدہ بتاریخ: 14 جنوری 2019
  2. http://classify.oclc.org/classify2/ClassifyDemo?owi=4536066733 — اخذ شدہ بتاریخ: 14 جنوری 2019
  3. https://www.amazon.in/Dastan-Ghadar-Mutiny-Zahir-Dehlvi/dp/0670088919 — اخذ شدہ بتاریخ: 14 جنوری 2019
  4. https://www.goodreads.com/author/show/17575178.Zaheer_Dehlvi — اخذ شدہ بتاریخ: 14 جنوری 2019
  5. ظہیر دہلوی، 1857ء کے چشم دید واقعات المعروف داستانِ غدر، اریب پبلیکیشنز، نئی دہلی، 2006ء، ص 19
  6. "داستان غدر"۔ گڈ ریڈز