عبد الرحمن ابراہیم ابن سوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبد الرحمن ابراہیم ابن سوری
عبد الرحمن ابن سوری کا خاکہ، جس پر ان کا نام عبد الرحمن درج ہے۔

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1762ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1829ء (66–67 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مونروویا   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فوجی افسر ،  فوجی افسر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
عہدہ امیر   ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عبد الرحمن ابراہیم ابن سوری (پیدائش: 1762ء، وفات: 1829ء) مغربی افریقہ کے ایک مسلمان حاکم جنھیں غلام بنا کر ریاستہائے متحدہ امریکا لے جایا گیا تھا، ابن سوری کا تعلق جمہوریہ گنی کے فولانی قبیلہ سے تھا۔ وہ فوتا جلون کے قریب کسی مقام سے گرفتار ہوئے اور چالیس سال قید غلامی میں رہے، بعد ازاں سنہ 1828ء میں سلطان مراکش ابو الفضل عبد الرحمن کی درخواست پر صدر امریکا جان کوئنسی ایڈمز اور سیکریٹری آف سٹیٹ ہنری کلے کے حکم سے آزاد ہوئے۔

افریقہ میں[ترمیم]

1762ء کے قریب ٹمبو، فوتا جلون شہر میں (جو اس وقت جمہوریہ گنی میں شامل ہے) پیدا ہوئے، 1774ء میں روایتی اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مالی کے شہر ٹمبکٹو روانہ ہوئے۔ حصول تعلیم کے بعد لشکر میں شامل ہو گئے۔ لشکر کے سالار ان کے والد ہی تھے، لشکر میں ترقی کرتے کرتے دو ہزاری منصب حاصل کر لیا۔ 1788ء میں کسی مقامی قبیلہ سے جنگ ہوئی اور فتح کی اطلاع لے کر اپنے والد کے پاس روانہ ہوئے، راستہ میں ان پر حملہ ہوا اور گرفتار کر لیے گئے، جس کے بعد غلاموں کی منڈی میں انھیں بیچ دیا گیا، اس وقت ان کی عمر چھبیس سال تھی۔

سفر امریکا[ترمیم]

ایک بحری جہاز کے قیدخانہ میں چھ ماہ گزارنے کے بعد نیو اورلینز پہنچے، جہاں انھیں نچز، مسیسپی کے ایک روئی مزارع تھامس فوسٹر کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا۔

امریکا میں[ترمیم]

کاشتکاری کا سابقہ تجربہ رکھنے کی وجہ سے ابن سوری اپنے آقا کے یہاں کپاس کی زراعت کے حقیقی نگران بن گئے۔ 1794ء میں تھامس فوسٹر کی ایک دوسری باندی آئزابیلا سے شادی کی، جس سے پانچ لڑکے اور چار لڑکیاں ہوئیں۔[1] اس دوران میں انھوں نے کاشتکاری میں بہترین لیاقت و صلاحیت حاصل کر لی اور اپنا نجی سبزیوں کا کھیت لگایا اور اس سے حاصل ہونے والی پیداوار کو مقامی بازار میں فروخت کرنے لگے۔

اسی اثناء میں ان کی ملاقات ایک آئرش جراح ڈاکٹر جان کوٹس کوکس (John Coates Cox) سے ہوئی۔ ڈاکٹر کوکس ایک انگریزی جہاز پر خدمات انجام دیتے تھے، ایک مرتبہ یہ اپنے جہاز سے پچھڑ کر ابن سوری کے وطن ٹمبو پہنچ گئے اور بیمار ہو گئے، ڈاکٹر کوکس نے ابن سوری کے خاندان میں چھ مہینے گزارے، شفایاب ہونے کے بعد ان لوگوں نے ڈاکٹر کوکس کی امریکا واپسی کے لیے ایک جہاز تیار کیا۔ جب ڈاکٹر کوکس کی ابن سوری سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے تھامس فوسٹر سے انھیں خریدنے کی کوشش کی لیکن فوسٹر نے انکار کر دیا، کیونکہ فوسٹر کا خیال تھا کہ ابن سوری ان کی کپاس زراعت کے لیے ناگزیر ہیں۔ تاہم ڈاکٹر کوکس اپنی وفات سنہ 1829ء تک مسلسل کوشش کرتے رہے لیکن ابن سوری کو آزادی نہیں مل سکی اور کوکس کی وفات کے بعد بھی ابن سوری کی غلامی برقرار رہی۔

افریقہ واپسی کی جد و جہد[ترمیم]

تاہم ابن سوری بھی اپنی آزادی اور افریقہ واپسی کی کوشش کرتے رہے، 1826ء میں انھوں نے افریقہ میں اپنے ایک رشتہ دار اینڈریو مارشاک کو خط لکھا، اینڈرو نے اس خط کی ایک نقل امریکی سینیٹر تھامس ریڈ کو روانہ کر دی جو اس وقت ان کے شہر میں آئے ہوئے تھے۔ چونکہ خط عربی زبان میں لکھا ہوا تھا، اس لیے ان کو خیال گذرا کہ یہ کسی مراکشی مسلمان کا لکھا ہوا ہے، چناں چہ انھوں نے یہ خط مراکش میں واقع امریکی سفارت خانہ بھیج دیا۔ جہاں سے یہ خط سلطان مراکش ابو الفضل عبد الرحمن بن ہشام کو پہنچا، خط پڑھنے کے بعد سلطان نے امریکی صدر جان کوئنسی ایڈمز اور سیکریٹری آف سٹیٹ ہنری کلے سے ان کی رہائی کی درخواست کی۔ بالآخر تھامس فوسٹر بلا قیمت ان کی رہائی پر راضی ہو گیا لیکن ایک شرط رکھی کہ رہائی کے بعد ابن سوری افریقہ واپس چلے جائیں، امریکا میں نہ رہیں۔

لیکن آزادی ملنے کے بعد ابن سوری اور ان کی بیوی آئزابیلا نے امریکا چھوڑنے سے قبل اپنے بچوں کی رہائی کی خاطر عطیات جمع کرنے کے لیے امریکا کی متعدد ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی کا دورہ کیا، اس دورہ میں عطیات جمع کرنے کے لیے انھوں نے ذرائع ابلاغ کا خوب استعمال اور ذاتی طور پر سیاست دانوں سے ملاقات اور رہائی کا مطالبہ کیا۔ یہ خبر فوسٹر تک پہنچ گئی، اس نے اس دورہ کو معاہدہ کی خلاف ورزی قرار دیا، نیز ابن سوری کی رہائی اور ان کے دورہ کی وجہ سے صدر امریکا کوئنسی ایڈمز کو صدارتی انتخابات کے دوران میں اپنے حریف اور مستقبل کے صدر اینڈریو جیکسن کی جانب سے بھی مخالفت اور تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا۔

دس ماہ میں ابن سوری نے اپنے بچوں کی رہائی کے لیے درکار قیمت کا نصف حصہ ہی جمع کر پائے، بالآخرانھیں مونروویا جانا پڑا جہاں چار مہینے کے بعد وہ بخار میں مبتلا ہوئے اور 67 سال کی عمر میں وفات پائی۔ لیکن اپنی وفات تک وہ فوتا دجلون اور اپنے بچوں کو نہیں دیکھ سکے۔

بعد از مرگ[ترمیم]

ابن سوری کی وفات کے بعد ان کی بیوی آئیزابیلا نے جمع شدہ عطیات کے ذریعہ دو بچوں کو قید غلامی سے رہائی دلائی، یہ دونوں اپنی والدہ کے ساتھ مونروویا ہی میں قیام پزیر ہو گئے۔ اسی سال تھامس فوسٹر کی بھی وفات ہو گئی، تو بقیہ افراد ورثاء میں تقسیم کر دیے گئے۔ آج بھی ابن سوری کی نسل مونروویا اور ریاستہائے متحدہ میں مقیم ہے اور 2006ء میں پورا خاندان فوسٹر کے کھیت میں یکجا ہوا تھا۔ ابن سوری نے دو خود نوشت سوانحی کتب بھی تحریر کیں، نیز ان کا ایک تصویری خاکہ امریکی کانگریس کی لائبریری میں بھی موجود ہے۔
1976ء میں تاریخ کے ایک پروفیسر ٹیری الفرڈ نے ابن سوری پر "Prince Among Slaves" کے عنوان سے ایک بہترین کتاب شائع کی، جس میں ابن سوری کی مفصل سوانح نیز ان کے معاصرین کی شہادتیں اور تاریخی دستاویزات یکجا کی ہیں۔ 2007ء میں "Prince Among Slaves" ہی کے نام سے اندرے کیلن نے ابن سوری کی زندگی پر مشتمل ایک دستاویزی فلم تیار کی۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]