قبر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
قبر

جب کوئی مسلمان فوت ہو جاتا ہے تو اس کی جس جگہ دفن کیا جاتا ہے اس کو قبر کہتے ہیں۔

اسلام میں[ترمیم]

زیارت قبور[ترمیم]

زیارتِ قبور جائز و مستحب بلکہ مسنون ہے۔ بلکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شہدائے احد کی زیارت کو تشریف لے جاتے اور ان کے لیے دعا کرتے اور یہ فرمایا بھی ہے کہ تم لوگ قبروں کی زیارت کرو، وہ دنیا میں بے رغبتی کا سبب ہے اور آخرت یاد دلاتی ہے۔

اسلام کے ابتدائی دور میں جن امور سے کچھ مختصر مدت کے لیے روک دیا گیا تھا اور وہ منع تھے۔ وہ قبور کی زیارت تھی، اس منع کی بہت سی دلیلیں تھیں یہاں تک کہ اسلامی سماج کی وسعت اور اس کی ترقی کے ساتھ اس بات کے لیے ایک مناسب ماحول پیدا ہوا، لھذا پیغمبر اکرم نے کچھ مدت کے بعد زیارت قبور کو جائز قرار دیا اور مسلمانون کو زیارت قبور کے آداب اور اس کی کیفیت سے آگاہ کیا۔

زیارت قبور سے رکاوٹ اٹھانے کی کیفیت اور تاریخ[ترمیم]

اختصار کے ساتھ جو کچھ بیان ہوا، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ابتدائی دور میں قبور کی زیارت سے منع کیا لیکن یہ رکاوٹ زیادہ دیر تک نہ رہی اور مناسب زمینہ فراھم ہوتے ہی ہجرت کے ساتویں سال میں عمرہ حدیبیہ کے دوران میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اور وہاں ان کی قبر شریف کی مرمت کی ،[1] نبی محمد نے ان کے مزار پر ایسے گریہ کیا کہ جو مسلمان آنحضرت کے ساتھ تھے وہ بھی متاثر ہوئے اور انھوں نے بھی گریہ کیا آنحضرت نے فرمایا :خداوند نے محمد کو اپنی ماں کی قبر مطہر کی زیارت کی اجازت دی ہے آنحضرت نے یہ بھی فرمایا کہ میں پہلے آن لوگوں کو قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا لیکن اب قبور کی زیارت کے لیے جاو۔[2]

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛’’زوروالقبورفانھا تذکرکم الآخرۃ‘‘(مسلم)’ قبروں کی زیارت کرو وہ تمھیں آخرت کی یاد دلائے گی

قبرستان میں جاکر پہلے تو ان کو سلام کہنا چاہیے، اس کے الفاظ حدیث میں یہ آتے ہیں: “السلام علیکم یا اھل الدیار من الموٴمنین والمسلمین وانا انشاء اللہ بکم للاحقون، نسأل اللہ لنا ولکم العافیة۔” اور پھر جس قدر ممکن ہو ان کے لیے دُعا و اِستغفار کرے اور قرآن مجید پڑھ کر ایصالِ ثواب کرے۔ بعض روایات میں سورہٴ یٰسین، سورہٴ تبارک الذی، سورہٴ فاتحہ سورہٴ زلزال، سورہٴ تکاثر اور سورہٴ اِخلاص اور آیت الکرسی کی فضیلت بھی آئی ہے۔

حافظ سیوطی نے “شرح الصدور” میں اس مسئلے پر متعدّد روایات نقل کی ہیں کہ میّت ان لوگوں کو جو اس کی قبر پر جائیں، دیکھتی اور پہچانتی ہے اور ان کے سلام کا جواب دیتی ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: “جو شخص اپنے موٴمن بھائی کی قبر پر جائے، جس کو وہ دُنیا میں پہچانتا تھا، پس جاکر سلام کہے تو وہ ان کو پہچان لیتا ہے اور اس کا جواب دیتا ہے۔” یہ حدیث “شرح صدور” میں حافظ ابنِ عبد البر کی “استذکار” اور “تمہید” کے حوالے سے نقل کی ہے اور لکھا ہے کہ محدث عبد الحق نے اس کو “صحیح” قرار دیا ہے۔(ص:88)

قبرستان میں عورتوں کا جانا[ترمیم]

عورتوں کا قبروں پر جانا واقعی اختلافی مسئلہ ہے، اکثر اہلِ علم تو حرام یا مکروہِ تحریمی کہتے ہیں اور کچھ حضرات اس کی اجازت دیتے ہیں، یہ اختلاف یوں پیدا ہوا کہ ایک زمانے میں قبروں پر جانا سب کو منع تھا، مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی، بعد میں حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دے دی اور فرمایا: “قبروں کی زیارت کیا کرو، وہ آخرت کی یاد دِلاتی ہیں۔”

  1. عورتوں کے قبرستان جانے پر اختلاف ہے، صحیح ہے یہ کہ جوان عورت کو تو ہرگز نہیں جانا چاہیے، بڑی بوڑھی اگر جائے اور وہاں کوئی خلافِ شرع کام نہ کرے تو گنجائش ہے۔
  2. … خاص وقت کا کوئی تعین نہیں، پردہ کا اہتمام ہونا اورنامحرموں سے اختلاط نہ ہونا ضروری ہے۔

بزرگوں اور صالحین کی زیارت میں ان ہی سماجی اثرات کے پیش نظر غیر مسلمان قومیں، اپنے تاریخی اشخاص کے مقبروں کی زیارت کے لیے ایک دوسرے سے مقدم ہوتے ہیں اسی لیے پوری دنیا میں مختلف شخصیات کے مقبروں کو کسی دینی اور دنیاوی امتیازات کے بغیر عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ ہر انسان ایسے افراد کی قبروں کی زیارت اور ان کا احترام کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے جو حق ان کا انسانیت کے اوپر ہے گویا جو بھی انسان ان کی عزت و احترام کے لیے کرتا ہے وہ اس کی فطرت کی آواز ہے۔ پس قبور کی زیارت ان امور میں سے ہے جس کی تائید قرآن، سنت اور عقل سے حاصل ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک فطری بات ہے کیونکہ انسان ہمیشہ انسانوں کی زیارت اور عزت کرنا چاھتا ہے جن کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے زیارت قبور کے دنیوی فواید کے علاوہ اخروی فایدے بھی ہیں جو اسلامی تعلیمات کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ اور ان تعلیمات کو بہترسمجھ لینے کے بعد ایک مستحب عمل کے طور پر بیان ہوئے ہیں جس کے اخروی فواید ہمیشہ مسلمانوں کے مطمح نظر رہے ہیں اسی لیے اسے جائز اور مستحب جانا گیا ہے۔

زیارت قبور کا مستحب طریقہ[ترمیم]

قبر کی زیارت کو جانا چاہیے تو مستحب یہ ہے کہ پہلے اپنے مکان میں دو رکعت نماز نفل پڑھے، ہر رکعت میں بعد فاتحہ آیت الکرسی ایک بار اور قل ہو اللہ تین بار پڑھے اور اس نماز کا ثواب میت کو پہنچائے، اللہ تعالٰی میت کی قبر میں نور پیدا کرے گا اور اس شخص کو بہت بڑا ثواب عطا فرمائے گا۔ اب قبرستان کو جائے تو راستہ میں فضول باتوں میں مشغول نہ ہو۔ جب قبرستان پہنچے جوتے اتارے اور پائنتی کی طرف سے جا کر اس طرح کھڑا ہو کر قبلہ کو پیٹھ ہو اور میت کے چہرے کی طرف منہ، س رہانے سے نہ آئے کہ مے ّت کے لیے باعث تکلیف ہے یعنی مے ّت کو گردن پھیر کر دیکھنا پڑتا ہے کہ کون آیا اور اس کے بعد یہ کہے:

السلام علیکم یا اھل القبور یغفر اللہ لنا ولکم انتم لنا سلف ونحن بلاثر

یا یوں کہے:

السلام علیکم اھل دارقوم مومنین انتم لنا سلف وانا ان شآ ء اللہ بیکم لا حقون

اور سورۃ الفاتحہ و آیت الکرسی اور سورئہ اذا زلزلت و الھاکم التکاثر oپڑھے۔ سورۃ ملک اور دوسری سورتیں بھی پڑھ سکتا ہے اور اس کا ثواب مردوں کو پہنچائے اور اگر بیٹھنا چاہے تو اتنے فاصلہ سے بیٹھے کہ اس کے پاس زندگی میں نزدیک یاد ور جتنے فاصلے پر بیٹھ سکتا تھا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ابن سعد الطبقات الکبری، ج 1۔، ص 94، بیروت دار الکتب العلمیۃ، طبع اول 1410ھ
  2. صالحی، شامی سبل الھدی، ج 8، ص 384۔ بیروت دار الکتب العلمیۃ طبع اول، 1414ھ