مولانا محمد امیر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مولانا محمد امیر
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1927ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
درہ آدم خیل   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 30 دسمبر 2012ء (84–85 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پشاور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت جمیعت علمائے اسلام   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد مفتی محمد قاسم بجلی گھر   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعه اسلاميه دارالعلوم سرحد   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم ،  امام   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان پشتو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معروف مذہبی سکالر، خطیب اور شعلہ بیاں مقرر۔ مولانا بجلی گھر کے نام سے مشہور ہوئے۔ مولانا محمد امیر جمعیت علماء اسلام کے اہم رہنما رہے اور صوبائی سطح پر نائب امیر مقرر کیے گئے لیکن سن انیس سو ترانوے کے بعد وہ جماعت کے کاموں میں زیادہ متحرک کردار ادا نہیں کر پائے۔ مولانا ،مفتی محمود کے قریبی ساتھیوں میں سے رہے۔

بجلی گھر[ترمیم]

مولانا محمد امیر کا نام مولانا بجلی گھر یا بجلی گھر ملا ایسے پڑا کہ وہ پشاور صدر کے قریب ایک علاقے جس کا نام بجلی گھر تھا اور یہاں مسجد بجلی گھر میں وہ خطیب تھے جس وجہ سے انھیں مولانا بجلی گھر کہا جانے لگا تھا۔ مولانا محمد امیر المعروف مولانا بجلی گھر روز مرہ کے معاملات پر حکومت اور پالیسی سازوں پر طنزیہ انداز میں تنقید کی وجہ سے لوگوں میں مقبول تھے۔ مولانا بجلی گھر کی آڈیو کیسٹ پشاور اور دیگر علاقوں میں اس قدر مقبول تھیں کہ گھروں اور دکانوں کے علاوہ ان کی تقاریر کی کیسٹ پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی سنی جاتی ہیں۔

تقاریر[ترمیم]

مولانا محمد امیر پشتو زبان میں تقریر یا خطبہ دیا کرتے تھے اسی لیے پاکستان میں اور پاکستان سے باہر جہاں جہاں پشتو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں مولانا بجلی گھر کی تقاریر لوگ ضرور سنتے ہیں۔ مولانا بجلی گھر مختلف موضوعات پر تقاریر کرتے تھے اور اپنے بیانات میں حکمرانوں پر کڑی تنقید بھی کرتے تھے جسے لوگ بہت پسند کرتے تھے۔ مولانا بجلی گھر کا انداز بیان دیگر مذیبی رہنماؤں سے یکسر مختلف تھا اور جمعہ کی نماز کے خطبہ میں بھی عام فہم انداز میں لوگوں کے مسائل طنز و مزاح کے انداز میں بیان کرتے تھے۔ مساجد میں ان کی تقاریر سننے کے لیے لوگ دور دور سے آتے تھے ۔۔ وہ تین مختلف ادوار میں حکمرانوں کے خلاف تقاریر کرنے پر جیل بھی گئے ۔

وفات[ترمیم]

یکم جولائی 2012ء کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔