کنہیا لال ہندی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کنہیا لال ہندی
معلومات شخصیت
پیدائش جون1830ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جلسر ،  ضلع ایٹاہ ،  اتر پردیش   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 23 فروری 1888ء (57–58 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور ،  برطانوی پنجاب   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی روڑکی کالج آف انجینئرنگ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مورخ ،  شاعر ،  سول انجیئنر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تاریخ پنجاب ،  تاریخ لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

رائے بہادر کنہیا لال ہندی (پیدائش: جون 1830ء - وفات: 23 فروری 1888ء) برطانوی دور کے نامور مورخ اور شاعر تھے۔ ان کی تالیفات تاریخ پنجاب اور تاریخ لاہور کافی شہرت رکھتیں ہیں۔

حالات زندگی[ترمیم]

کنہیا لال جون 1830ء میں جلیسر، ضلع ایٹاہ، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ ان کا باپ ہرنرائن ایک روشن خیال ماتھر گوت کا کائستھ تھے۔ جب کنہا لال پانچ برس کے ہو گئے تو ان کے والد نے انھیں جلیسر کے اسکول میں داخل کرا دیا۔ وہ یہاں سات برس تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔ اس کے بعد انھیں ثانوی تعلیم کے لیے آگرہ بھیج دیا گیا۔ یہاں تین سال تک انھوں نے ریاضی، ہندی اور انگریزی کی تعلیم حاصل کی۔ اس درمیان میں قابلیت کی بنا پر اسے وظیفہ بھی ملتا رہا۔ میٹرک پاس کرنے پر انجینئری کی تعلیم کے لیے کنہیا لال کو روڑکی کالج آف انجینئری میں داخلہ مل گیا اور داخلہ کے ساتھ ان کے وظیفے میں بھی اضافہ ہو گیا۔ انجینئری کورس پاس کرنے کرنے پر ان کا تقرر لاہور میں بحیثیت اسسٹنٹ انجینئر میں ہو گیا اور وہ غالباً جون 1850ء میں لاہور آ گئے۔ تعلیم کے دوران ان کی شادی سندر دیوی نامی لڑکی سے ہو گئی تھی۔ لاہور کی آب و ہوا انھیں اتنی پسند آئی کہ وہ یہیں مستقل طور پر سکونت پزیر ہو گئے۔ افسرانِ بالا اس کی کارکردگی سے بہت خوش تھے۔ انھوں نے فارغ اوقات میں اپنا مطالعہ اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ ابتدا میں انھوں نے اپنے پیشہ ورانہ فن سے متعلق ریاضی اور انجینئری کی چند کتابیں لکھیں جن میں بعض انگریزی میں تھیں۔ پھر انھوں نے اخلاق پر ایک منظوم کتاب لکھی اور اسے حکام کی خدمت میں پیش کیا۔[1] وہ یکے بعد دیگری کتابیں لکھ کر خود ہی چھپواتے رہے اور زیادہ تر کتابیں مفت تقسیم کرتے تھے۔ نتیجہً ان کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہو گیا اور اس کی کتابوں کی طلب بڑھ گئی۔ وہ بار با کتابیں چھپواتے اور مفت بانٹتے تھے۔ ان کی شعری کتب میں گلزار ہندی (نظم فارسی)، بندگی نامہ (نظم، مامقیماں (ترکیب بند)، یادگار ہندی (نظم فارسی)، مناجات ہندی (دیوان اردو)، مخزن التوحید (دیوان فارسی)، نگاریں نامہ (فارسی زبان میں ہیر رانجھا کا قصہ) اور اخلاق ہندی (اردو نظم) شامل ہیں۔ ان کاموں سے فراغت پا کر انھوں نے تاریخ کا موضوع منتخب کیا اور فارسی نظم میں ظفر نامہ المعروف رنجیت نامہ لکھا۔ چونکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے حالات قلم بند کرتے ہوتے ہوئے سکھ دور کی پوری تاریخ ان کی نظر سے گذر چکی تھی، اس لیے کنہیا نے افادہ عام کے لیے اردو نثر میں تاریخ پنجاب لکھی۔ اس کتاب میں اس نے سکھوں کے اچھے کاموں کی تعریف اور غلط کاموں پر تنقید کی ہے جس سے اس کی افتادِ طبع کا اندازہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کتاب کی اشاعت پر سکھوں نے کافی احتجاج کیا، چنانچہ انھوں نے اشاعتِ ثانی کے موقع پر نظرثانی کرکے اس کتاب میں بعض تبدیلیاں کر دیں۔ اس تاریخ میں انھوں نے انگریزوں کے خلاف مصحلتاَ کچھ نہیں لکھا۔ تاریخ پنجاب کے بعد اس نے تاریخ لاہور تالیف کی اور اس کی تالیف سے فارغ ہو کر وہ چند ہی سال زندہ رہا۔ اس کی نگرانی میں لاہور کی جو سرکاری عمارتیں تعمیر ہوئیں وہ اس کی ہنرمندی کا ثبوت ہیں۔ مثال کے طور پر ریلوے اسٹیشن، پل اور میو ہسپتال وغیرہ۔حکومتِ انگلشیہ نے انھیں رائے بہادر کے خطاب سے نوازا۔ کنہیا لال جون 1885ء میں اپنی پچپن سالہ مدتِ ملازمت کرنے کے بعد سبکدوش ہو گئے اور اس کے بعد پونے تین سال بعد 23 فروری 1888ء میں وفات پا گئے۔[2]

ذاتی زندگی[ترمیم]

انھوں نے اپنے بیٹے سیوا رام، بیٹی ہردیوی اور پوتی رادھکا کو بھی انگلینڈپڑھنے بھیجا۔ہردیوی بعد میں اخبار ”بھارت بھگتی“ الہ آباد، پنجاب کی مدیرہ تھی، اس کی شادی بیرسٹر روشن لال سے ہوئی۔وہ قومی تحریکوں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ نثر بھی لکھتی تھی۔رسالہ ”زمانہ“ دربار نمبر 1912ء میں بھی ان کا مضمون شائع ہوا۔ وہ 1916ء میں فوت ہوئیں۔سیوا رام باپ کے مرنے بعد واپس آیا تو دو سال یعنی 1891ء بعد خود بھی چل بسا۔کنہیا لال کی پوتی رادھکا دیوی 1919 ء فوت ہوئیں۔وہ مشہور بیرسٹر سچدانند سنگھ ، ممبر آف دی لیجسلیٹو کونسل وائسرائے، کی بیوی تھی۔[3]

مطبوعات[ترمیم]

  • تاریخ پنجاب
  • مناجات ہندی
  • تاریخ لاہور
  • اخلاق ہندی
  • یاد گار ہندی
  • بندگی نامہ
  • گلزار ہندی[4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. کلبِ علی خاں فائق، مقدمہ، مشمولہ: تاریخ پنجاب، مجلس ترقی ادب لاہور، جون 2004ء، ص 11
  2. کلبِ علی خاں فائق، مقدمہ، مشمولہ: تاریخ پنجاب، مجلس ترقی ادب لاہور، جون 2004ء، ص 12
  3. تاریخ پنجاب۔ مجلس ترقی اردو 
  4. Kanhaiya Lal Hindi (Author of Tareekh-e-Punjab / تاریخ پنجاب)