خير محمد بلوچ ندوی
خیر محمد ندوی بلوچ فرزند سید محمد 18 دسمبر 1909 میں مکران، بلوچستان کے علاقے "سرباز" میں پیدا ہوئے، میٹرک تک تعلیم پانے کے بعد ندوۃ العلوم لکھنؤ گئے اور فارغ التحصیل ہو کر وطن لوٹے۔ محکمہ تعلیم سے طویل مدت تک وابستہ رہے اور پرائمری اسکول میں ہیڈماسٹر کی خدمت پر مامور ہوئے۔
آپ بلوچ ایجوکیشنل سوسائٹی کے بانیوں میں سے ہیں جس کے زیر اہتمام ایک پرائمری، ایک سکینڈری اسکول اور ایک کالج (بلوچ کالج) چل رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو قومیانے سے پہلے تک آپ ان تینوں اداروں کے مہتمم رہے _
اگست 1978 سے ایک بلوچی رسالہ "سوغات" کا اجرا کیا نیز ایک رسالہ "اومان" 1956_61 کا اجرا کیا جو بلوچی زبان کا پہلا ادبی رسالہ تھا-
مولانا ندوی 1909ء کو گوادر میں پیدا ہوئے، آپ کا آبائی تعلق ایران کے سرباز نامی علاقے سے تھا، آپ کا خاندان اٹھارویں صدی کے آخر میں رضا شاہ کبیر کے ظلم وجبر سے نقل مکانی پر مجبور ہو گیا، کچھ عرصہ گوادر میں رہ کر پھر کراچی منتقل ہو گئے، ابتدائی دینی تعلیم کراچی میں حاصل کی، مزید اعلی دینی تعلیم کے لیے ندوۃ العلماء لکھنؤ کا رخ کیا، جہاں سے فراغت پا کر 1933ء کو کراچی واپسی ہوئی ۔
ویسے تو آپ کی تعلیمی، سیاسی، سماجی اور ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے، جن کے تذکرے کے لیے کئی صفحات درکار ہیں، اس لیے سردست آپ کی شخصیت و خدمات کا صرف ایک پہلو زیر بحث لایا جائے گا اور وہ ہے بلوچی زبان و ادب میں آپ کی متنوع و بے شمار خدمات کا پہلو ؛ چونکہ صرف اسی ایک پہلو سے بھی آپ کی خدمات ہمہ جہت اور متنوع ہیں لہٰذا آسانی کی خاطر بلوچی زبان کے فروغ کے سلسلے میں آپ کی جدوجہد کو چند دائروں میں تقسیم کرکے اس کا مختصر جائزہ
پیش کریں گے۔
(الف): بلوچی میں اخبار و جرائد کا اجرا:
مولانا خیر محمد ندوی نے بلوچی زبان کو فروغ و استحکام بخشنے کے واسطے مختلف زمانوں میں درج ذیل اخبار و جرائد نکالے:
(1)… کراچی سے “ینگ بلوچستان ” کے نام سے اخبار
(2)…ماہنامہ “اومان”1951ء تا 1961ءکو اس وقت نکالا، جب بلوچی رسم الخط بھی وجود میں نہیں آیا تھا۔
(3)…ماہنامہ “اولس”، میر جعفر خان جمالی کے ہاتھ سے افتتاح کروایا۔
(4)…ماہنامہ” سوغات” کراچی، 1978ء کو یہ دینی تبلیغی مجلہ جاری فرمایا۔
(ب): ریڈیو پاکستان پر بلوچی پروگراموں کا سلسلہ:
(1)… مولانا خیر محمد ندوی نے “بلوچ ایجوکیشنل سوسائٹی ” کے توسط سے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کراچی میں بلوچوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے، لھذا ان کے لیے ریڈیو پاکستان میں بلوچی زبان میں پروگراموں کے لیے وقت مختص کیا جائے، چنانچہ آپ کی کوششوں سے 25 دسمبر 1949ء کو ریڈیو پاکستان سے پہلی مرتبہ بلوچی پروگراموں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ آپ اس پروگرام کے انچارج متعین ہو گئے۔
(2)…1955ء کو ایک وفد کے ہمراہ آپ نے وفاقیوزیر اطلاعات پیر علی محمد راشدی سے مطالبہ کیا کہ بلوچی زبان کا مرکزی ہیڈ کوارٹر کوئٹہ ہے لھذا وہاں سے بھی بلوچی پروگرام شروع کیے جائیں، یہ مطالبہ بھی منظور ہوا۔
(ج): بلوچی مشاعروں و مذاکروں کا اہتمام:
مولانا ندوی نے بلوچ ادیبوں اور شاعروں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے مختلف
مواقع فراہم کیے، مشاعرے منعقد کیے، چنانچہ 1955ء میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا، بطور مہمان خصوصی وفاقی وزیر پیر علی محمد راشدی نے شرکت کی، اسی مشاعرے میں انھوں نے کوئٹہ سے ریڈیو پاکستان پر بلوچی پروگرام کی اجازت دی تھی۔
(د): بلوچی اکیڈمیوں کا قیام:
مولانا خیر محمد ندوی نے ایسے سماجی علمی اور تحقیقی ادارے اور انجمنیں قائم کیں، جہاں سے بلوچی زبان کی ترویج و اشاعت کا کام ہو سکے۔ مثلا:
(1)…قاضی سربازی اکیڈمی، 1990ء کو قائم کیا۔
(2)…بہت پہلے 1950ء کو “بلوچ ایجوکیشنل سوسائٹی ” قائم کیا جس کے تحت متعدد تعلیمی ادارے وجود میں آئے، جیسے: 1950ء میں بلوچ پرائمری اسکول کا قیام، 1961ء میں بلوچ سیکنڈری اسکول، 1966ء میں بلوچ انٹر میڈیٹ کالج؛ بدقسمتی سے بھٹو حکومت میں یہ تمام تعلیمی ادارے قومی ملکیت میں لیے گئے ۔
(ر): بلوچی زبان میں تصنیفی خدمات :
مولانا خیر محمد ندوی رحمہ اللہ کو تصنیف وتالیف کا عمدہ ذوق تھا، اپنے سیّال اور علم ریز قلم سے بلوچی زبان و ادب کو بیش بہا ذخیرے سے نوازا، خصوصا دینی ادب کے حوالے سے بلوچی زبان میں ان کا کام تجدیدی نوعیت کا ہے۔ بلوچی زبان کے فروغ و ترویج کے حوالے سے آپ کی تصنیفی خدمات کا مختصر خاکہ حسب ذیل ہے :
(1)…سب سے پہلے “بلوچی قاعدہ” لکھنے کا اعزاز آپکو حاصل ہے۔
(2)…مختلف مضامین و نظموں ہر مشتمل “کچکول” شائع کیا۔
(3)…اسی نوعیت کی ایک کتاب اخلاق ءِ گلدان”
(4)…فضائل اعمال از شیخ زکریا کاندھلوی کا بلوچی ترجمہ: عملانی فضیلتاں۔
(5)…بلوچی معلم(بلوچی اردو بول چال)۔
(6)…استاد ءِ ادب۔
(7)…حنفی نماز۔
(8)…قرآن مجید کا بلوچی ترجمہ و تفسیر، دراصل آپ کے ہم زلف مولانا قاضی عبد الصمد سربازی رحمہ اللہ نے قرآن مجید کے ترجمہ و تفسیر کا کام شروع کیا تھا، ایک پارہ کی تفسیر اور انیس پاروں کا ترجمہ لکھنے کے بعد وہ ریاست قلات میں قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) متعین ہوئے اور کچھ عرصے بعد وفات پا گئے، تو ان کے اس نا مکمل کام کو مولانا خیر محمد ندوی رحمہ اللہ نے پایہ تکمیل تک پہنچایا، یوں گیارہ پاروں کا ترجمہ اور 29 پاروں کی تفسیر آپ کا وہ گراں مایہ کارنامہ ہے جس پر بلوچی زبان کا دینی ادب صدیوں تک ناز کرے گا۔
بلوچی زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے سلسلے میں یہ مولانا ندوی کی خدمات کا ایک مختصر تذکرہ ہے، مولانا رحمہ اللہ 26 نومبر 2000ء کو کراچی میں وفات پا گئے