فراز واہلہ
[1] پاکستان کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے خلاف چلنے والی تحریک میں شاید حراست میں لیے جانے والے سب سے کم عمر شخص فراز واہلہ تھے جوگرفتاری کے وقت صرف تین یا چار برس کے تھے۔[2]
فراز واہلہ پنجاب میں تحریکِ بحالیِ جمہوریت یعنی ایم آر ڈی کے احتجاج کی تاریخی تصویر میں پیپلز پارٹی کا پرچم اٹھائے نظر آنے والے بچے ہیں۔ وہ اپنے والد ایڈووکیٹ ایم ایس واہلہ کے ساتھ تھے۔
یہ تصویر فراز واہلہ کو برسوں بعد ایک صحافی نے لا کر دی۔
اب تقریباً تین دہائیوں بعد فراز واہلہ اس تحریک میں اپنے والد اور اپنی شمولیت کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ان کے والد انھیں ان احتجاجی مظاہروں میں لے جاتے اور ان کو پیپلز پارٹی کا پرچم پکڑا کر آگے کردیتے تھے، حالانکہ اس وقت وہ بہت چھوٹے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ کبھی ان موقعوں پر ’لاٹھی چارج ہو جاتا یا آنسو گیس پھینک دی جاتی، مجھے یاد ہے کہ میں روتا تھا اور میرے ابو مجھے بچانے کی کوشش کرتے تھے۔ کبھی پولیس ہمیں پکڑ کر لے جاتی تھی۔
ان کو یاد ہے کہ ایک موقع پر ان کو گرفتار کر کے تھانے کے لاک اپ میں ڈال دیا گیا تھا اور شاید یوں وہ اس تحریک کے گرفتار ہونے والے سب سے کم عمر شخص بن گئے۔
’مجھے پولیس نے لے جا کر لاک اپ میں دوسروں کے ساتھ بند کر دیا۔ پھر ایک افسر آئے اور انھوں نے پوچھا کہ اس بچے کو کیوں بند کیا ہوا ہے؟ پھر انھوں نے مجھے نکالا اور میں تھانے کے صحن میں کھیلتا رہا۔‘
ان کے والد پنجاب میں ایم آر ڈی کے سرگرم رہنما تھے اور اکثر پولیس فراز کو اور ان کی والدہ کو تھانے لے جاتے تاکہ ان کے والد کو مجبوراً آکر گرفتاری دینی پڑتی۔ ’یہ سلسلہ بچپن سے ہی شروع ہو گیا تھا۔‘
فراز واہلہ بتاتے ہیں کہ کیونکہ ان کو پرچم پکڑا کر جلوسوں میں آگے کیا جاتا تھا اس لیے وہ اس مزاحمتی تحریک کی ایک علامت بن گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ شاید ان کے والد انھیں اس لیے بھی ساتھ لے جاتے تھے کہ وہ چاہتے کہ یہ پیغام دیا جائے کہ آمریت کے خلاف مزاحمت پاکستان کی آنے والی نسلوں اور مستقبل کے لیے ضروری تھی۔
وہ اپنے والد کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’میں ان کا اکلوتا بیٹا تھا لیکن پھر بھی وہ سمجھتے تھے کہ مجھے ان مظاہروں میں لے جانا اہم تھا۔ میں گوجرہ کے علاوہ ان کے ساتھ لاہور اور لاڑکانہ بھی گیا۔ ہمیں چھپ چھپ کر جانا پڑتا تھا۔‘
فراز واہلہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد آمریت کے خلاف اور جمہوریت کے لیے جد وجہد تو کرتے رہے لیکن تحریک کے بیشتر کارکنوں کی طرح ان کو بھی اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔
’ان کی ازدواجی زندگی تباہ ہوئی، ان کا اپنا کیریئر تباہ ہوا۔ اور ایک وقت ایسا آیا جب انھوں نے مایوس ہو کر سیاست چھوڑ دی۔ بعد میں انھوں نے مجھ سے اکثر یہ بھی کہا کہ کاش میں تم کو بچپن میں زیادہ وقت دیتا۔‘
تو کبھی فراز واہلہ کے دل میں یہ بات آئی کہ کاش وہ اس تحریک کے علم بردار نہ بنائے جاتے اور کاش جمہوریت کی جد و جہد کی علامت نہ بنتے؟
’جب میں چودہ پندرہ سال کا تھا اور اس وقت اس سارے عمل کے نتائج اور مضمرات سامنے آ رہے تھے، تو میں کبھی کبھی سوچا کرتا تھا کہ وہ ایک بہت بڑی غلطی تھی، جہاں تک میرے خاندان کا تعلق تھا۔ میں سوچتا کہ ایسا نہ ہوتا تو شاید میری امی خوش رہتیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو خاندانی طور پر زیادہ خوش حال اور خوش ہوتے اور ہمارا بچپن اچھا گزرتا۔ مگر اب مجھے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک تربیت تھی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ذاتی خوشی کی قربانی کا احساس ان کے والد کو تھا ’ابو مجھے بتاتے کہ ان کو افسوس تھا کہ وہ مجھے وقت نہیں دے پاتے اور ہمیں ان ساری مصیبتوں سے گذرنا پڑتا مگر وہ کہتے تھے کہ ہمارے مستقبل کے لیے اچھا ہے، تمھارے مستقبل کے لیے اچھا، پاکستان کے مستقبل کے لیے اچھا ہے۔‘
تو جب ان کو اتنے برس بعد یہ تصویریں ملیں تو ان کے والد کا کیا رد عمل تھا ان کو دیکھنے پر؟
’وہ خاموش رہے۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ اس پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتے، میرح حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہتے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جو سب کچھ ان کے ساتھ ہوا وہ میرے ساتھ بھی ہو۔‘ لیکن فراز واہلاہ نے کہا کہ جب انھوں نے خود جنرل پرویز مشرف کے خلاف چلنے والی تحریک میں حصہ لیا تو ان کے والد نے انھیں منع نہیں کیا۔ ’انھوں نے مجھے روکا نہیں، لیکن حوصلہ افزائی بھی نہیں کی۔‘
فراز واہلہ کہتے ہیں کہ تحریک کے بیشتر کارکنوں کی طرح ان کے والد کو بھی برسوں تک اپنے موقف کی قیمت چکانی پڑی ’کیونکہ جنرل ضیاء کے مرنے کے بعد ان کا دور تو ختم نہیں ہوا۔ ان کے باقیات تو طاقتور عہدوں پر تھے اور ہیں۔ ان کا اثر اب بھی ہے۔‘
اپنے والد کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’افسوس یہ ہے کہ اُن جیسا آدمی نظام کی وجہ سے تباہ ہوا۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد نے بعد میں مایوس ہو کر سیاست چھوڑ دی، لیکن ان کی سیاسی جد وجہد کی وجہ سے ان کا قانونی کیرئیر بھی خراب ہوا۔ ’لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کے لیے فہرست میں ان کا نام میرٹ پر شامل کیا گیا لیکن پھر وہ فہرست میں سے نکال دیا گیا۔ ابو عدالت میں گئے، ہائی کورٹ نے کہا یہ نا انصافی ہوئی لیکن پھر بھی احکامات پر عمل نہیں ہوا، سپریم کورٹ میں گئے، انھوں نے بھی یہی کہا۔ چھ سات سال لگے لیکن عمل نہیں کیا گیا۔ وہ آزاد جج چاہتے ہی نہیں تھے۔ پھر ابو نے کہا کہ بس اب وکالت کروں گا، انسانی حقوق کا کام کروں گا۔‘
فراز واہلہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے والد کا ان کو احتجاجی جلسوں میں لے جانا ایک بہادر فعل تھا ’میں ان کا اکلوتا بیٹا تھا، بچہ تھا۔ اس وقت جب اتنے مظالم کیے جا رہے تھے، کوڑے لگائے جاتے، پھانسیاں ہو رہی تھیں۔۔۔ وہ بتانا چاہتے تھے کہ یہ ہمارے مستقبل کے لیے اہم جدوجہد ہے۔‘
فراز واہلہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ان کی عمر کے نوجوانوں کو زیادہ تر بحالی جمہوریت کی اس تحریک کے بارے میں معلوم ہی نہیں تھا ’کیونکہ ضیاء دور میں صحافیوں پر بھی اتنی سختیاں کی گئیں کہ یہ چیزیں دب گئیں۔ لوگ ڈرتے تھے۔ یہ تصویریں بھی اتنے سال بعد ایک صحافی نے دیں، وہ بھی بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ایم آر ڈی ایک مثالی تحریک تھی ’اس کی اہمیت کا یوں اندازہ لگائیں کہ دنیا کی بڑی پر امن احتجاجی تحریکوں میں سے ایک تھی اور اس کو کس طرح سختی سے کچلا گیا۔ پھر بھی یہ ہماری تاریخ کا حصہ نہیں ہے، یہ ہمارے نصاب کا حصہ نہیں ہے۔ یہ ایسی تحریک تھی جس پر فخر کیا جا سکتا ہے۔ مگر فخر کرنے کا بھی حق نہیں ہے ہماری قوم کو، اسے سامنے ہی لانے نہیں دیتے۔‘
فراز واہلہ کی ایک کہانی ہے لیکن مارشل لا کے خلاف اس مزاحمتی تحریک میں شریک ہر فرد کی زندگی اور خاندان اس جد وجہد سے متاثر ہوئے اور اس کی یادیں ان کی زندگیوں کا اب بھی اہم حصہ ہیں۔