رشید ساقی
عبد الرشید ساقیؔ 17 جنوری 1926ء کو وزیر آباد (ضلع گوجرانوالہ ) میں میاں فرزند علی کے ہاں پیدا ہوئے۔ 1943ء میں میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں میں پاس کرنے کے باوجود مالی تنگدستی کے باعث تعلیمی سلسلہ باقاعدی طور پر جاری نہ رکھ سکے اور ملازمت کی تلاش میں راولپنڈی آ نکلے۔ عملی زندگی کا آغاز کنٹرولر آف ملٹری اکاؤنٹس آفس میں بطور ایل ڈی سی کیا۔ اپنی محنت اور علمی استعداد بڑھانے کے طفیل جنوری 1986 ء میں ڈپٹی کنٹرولر آف ملٹری اکاؤنٹس کی حیثیت سے ریٹائرہوئے۔ ملازمت کے دوران ہی آپ نے مختلف سالوں میں منشی فاضل، ایف اے، بی اے اور ایم اے اردو کی ڈگریاں حاصل کیں۔شعر و شاعری اورادب کے حوالے سے آپ کی زندگی میں تین اہم شخصیات نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ ساتویں جماعت میں تھے جب محلے کے امام مسجد صاحب نے قرآن پاک کے ساتھ ساتھ شیخ سعدیؒ کی”گلستان“ اور ”بوستان“ بھی پڑھوا دیں۔دسویں جماعت میں پہنچے تو ایک اور مہربان شخصیت نے ہاتھ تھام لیا اور دنیائے شعر و ادب میں باقاعدہ طور پر داخل ہونے کے لیے حوصلہ افزائی کی اور راولپنڈی آنے کے بعد”انجمستان“ والے انجم رضوانی کے خلقہ تلامذہ میں شامل ہو گئے۔ رشید ساقی کے اب تک چار شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ”تقدیسِ قلم“ (مجموعہ نعت 2002ء)سوزِ دروں (غزلیں 2003ء)، ذوقِ سفر (غزلیں 2005ء) اور حدیث شو ق(مجموعہ نعت 2008) شامل ہیں جبکہ غزلوں کی دو کتابیں ”حاصلِ عمرِ رواں“ اور ”چشم نظارہ طلب“اشاعت کے آخری مراحل میں ہیں اس کے علاوہ چھ شعری مجموعوں کا مزید کلام موجود ہے۔ رشید ساقی ؔ کے دونوں نعتیہ مجموعوں کو وزارتِ مذہبی امور حکومت ِ پاکستان اوّل انعام سے نواز چکی ہے رشید ساقی ؔکی نعت گوئی کے حوالے سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی ایک طالبہ ناہید صادق ایم فل سطح کا تحقیقی مقالہ بھی لکھ رہی ہیں، 4 دسمبر 2019ء کو راولپنڈی میں وفات پاگئے،