ابو حمزہ سکری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابو حمزہ سکری
معلومات شخصیت
پیدائشی نام محمد بن ميمون المروزي
کنیت أبو حمزة
لقب السكري
عملی زندگی
طبقہ السابعة
وجۂ شہرت: عالم مرو
ذہبی کی رائے ثقة
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو حمزہ محمد بن میمون سکری آپ ایک ثقہ محدث اور حدیث نبوی کے راوی ہیں۔آپ اہل مرو سے تھے۔ آپ نے سنہ 167 ہجری میں وفات پائی ۔

سیرت[ترمیم]

ابو حمزہ السکری مسلم ائمہ میں سے ہیں اور حدیث کے ثقہ راوی ہیں، عبد اللہ ابن المبارک نے ان کے بارے میں کہا: "ابو حمزہ السکری ایک گروہ(جماعت ) ہے۔" ابن المبارک سے ان ائمہ کے بارے میں پوچھا گیا جن کے بارے میں انھوں نے کہا تھا: تو اس نے ابوبکر اور عمر کا ذکر کیا، یہاں تک کہ وہ ابو حمزہ پر ختم ہو گئے اور ابو حمزہ اس وقت زندہ تھے۔ ابو حمزہ السکری چینی نہیں بیچتے تھے لیکن ان کے الفاظ کی مٹھاس کی وجہ سے ان کا نام السکری رکھا گیا۔ ابو حمزہ اپنی سخاوت کے لیے مشہور تھے، ان کے پڑوسیوں میں سے کوئی شخص بیمار ہو جاتا تو مریض کے خرچ کے برابر صدقہ کر دیتے تھے، اس بیماری کی وجہ سے جو اس سے چھن جاتی تھی۔ روایت ہے کہ ابو حمزہ کا ایک پڑوسی اپنا مکان بیچنا چاہتا تھا تو اس نے اسے چار ہزار درہم میں بیچنے کی پیشکش کی تو اس سے کہا گیا: کیا اس گھر کی اتنی قیمت نہیں ہے؟ اس نے کہا: اس گھر کی قیمت دو ہزار درہم ہے۔انھوں نے کہا دو ہزار گھر کے اور دو ہزار ابو حمزہ کے پڑوسی ہونے کی وجہ سے ہیں۔ جب ابو حمزہ کو معلوم ہوا تو اس نے پیغام بھیجا کہ وہ چار ہزار درہم میں مکان فروخت نہ کرے اور خود اس میں رہے۔ وہ اپنی پرہیزگاری کی وجہ سے مشہور تھا کہ: "میں تیس سال سے مطمئن نہیں ہوا جب تک کہ میرے پاس کوئی مہمان نہ ہو۔" ابو حمزہ نے فوراً ان کی دعوت قبول کر لی۔[1] ابو حمزہ کی وفات 167ھ میں ہوئی.[2]

روایت حدیث[ترمیم]

شیوخ: زیاد بن علاقہ، عبد العزیز بن رفیع، ابو اسحاق، منصور بن معتمر، عاصم بن بہدلہ، عاصم الاحول، سلیمان الاعمش، عبد الکریم جزری، عبد الملک بن عمیر، جابر جعفی، مطرف بن طریف اور دیگر محدثین۔ تلامذہ: راوی: عبد اللہ بن مبارک، ابو تمیلہ، فضل سینانی، عتاب بن زیاد، علی بن حسن بن شقیق، عبدان بن عثمان، سلام بن واقد، فضل بن خالد بلخی نحوی اور دوسرے، جن میں سے آخری نعیم بن حماد الحافظ تھے۔

جراح اور تعدیل[ترمیم]

علمائے حدیث میں ان کا درجہ: امام احمد بن حنبل کہتے ہیں: "مجھے ان کی حدیث سے کوئی مسئلہ نہیں، وہ مجھے حسین بن واقد سے زیادہ محبوب ہیں۔" عباس الدوری نے کہا: "ابو حمزہ ثقہ تھے۔" احمد بن شعیب نسائی نے کہا: ثقہ ہے اور : عبد اللہ بن المبارک نے کہا: ابو حمزہ صاحب حدیث۔حدیث کے مصنف ہیں اور انھوں نے کہا: سکری اور ابراہیم بن طہمان کے پاس مستند کتابیں ہیں۔ " .[3]

وفات[ترمیم]

آپ نے 167ھ میں مرو میں وفات پائی ۔

حوالہ جات[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]