اشکنازی نسب کا خضری مفروضہ
اس صفحے میں موجود سرخ روابط اردو کے بجائے دیگر مساوی زبانوں کے ویکیپیڈیاؤں خصوصاً انگریزی ویکیپیڈیا میں موجود ہیں، ان زبانوں سے اردو میں ترجمہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کریں۔ |
اشکنازی نسب کا خضری مفروضہ، جسے عام طور پر ناقدین خضری مفروضہ کہتے ہیں،[1]:369[2]:VIII[3][4] ایک مفروضہ ہے کہ اشکنازی یہودی خضری قبیلہ کی اولاد ہیں ، ترکوں کا ایک کثیر النسل اتحاد تھا جسنے 650ء میں ایک نیم خانہ بدوش خانیت تشکیل دی جو مشرقی یورپ سے وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی تھی اور جو ساتویں صدی سے نویں صدی تک قائم رہی۔ یہ مفروضہ قرون وسطی کے ذرائع اور خذری خط کتابت پر مبنی ہے کے مطابق، 8ء صدی سے 9ء صدی میں کسی وقت خذر کے حکمران اشرافیہ نے ربیائی یہودیت اختیار کی یہ دعوی یہوداہ حالیوی اور ابراہیم ابن داؤد کی طرف سے کیا گیا ہے۔[5] خذر خانیت میں اقبال یہودیت کا دائرہ کار ابھی تک غیر یقینی ہے :اشکنازی برادری کو خذر قبیلہ کیساتھ جوڑنے والے ثبوت ادنٰی، قلیل اور متضاد تشریحات کا باعث ہیں۔ تاریخ کے علم میں یہ مفروضہ کا پیچیدہ رہا ہے - اگرچہعصر حاضر کے اکثر دانشور اس کو مسترد کرتے ہیں یہ مفروضہ ماضی میں کافی زیر تنقید و بحث رہا ہے جبکہ اب بھی اس کے قریب الفہم اور معقول ہونے کے حمائتی موجود ہیں۔ انیسویں صدی کے اخیر میں، ارنسٹ رنن اور دیگر دانشوروں نے اندازہ لگایا کہ اشکنازی یہودیوں کی ابتدا ترک پناہ گزینوں سے ہوئی جنھوں نے خذری خانیت کے انہدام پر مغربی یورپ کیجانب ہجرت کی اور اپنی آبائی خذری زبان کو یدش سے بدل دیا جبکہ یہودیت پر ساتھ ہی ساتھ عمل پیرا رہے۔ اگرچہ اس وقت کے بعد سے کئی دانشور وقفے وقفے سے، خذر-اشکنازی مفروضے کیجانب یاد دہانی کراتے رہے، اس مفروضے نے 1976ء بڑے پیمانے پر عوامی توجہ آرتھر کوستلر کی کتاب تیرھواں قبیلہ کی اشاعت کیبعد حاصل کی ۔[6] ایرن ایلہائیک نے اس مدعا کو حال ہی میں دوبارہ میں پھر سے زندہ کیا، جس نے 2012ء میں اس مفروضہ کو بری از الزامی کے لیے ایک مطالعہ منعقد کرایا۔ شکوک و شبہات کے باوجود، اس نے 2016ء میں یدش ماہر پال وکسلر کے لسانی نظریات کا حدودی استعمال کرتے جینیاتی تجزیے کا ایک نیا طریقہ کا تیار کیا اور اس مفروضے کے تصور کو پھر سے مرتب کیا۔[7]
یہودیوں پر جینیاتی مطالعے نے اشکنازی یہودی کے خذری نژاد ہونے کے کوئی ٹھوس ثبوت مہیا نہیں کیے جبکہ ثبوت کے برخلاف ان کے مخلوط قریب مشرقی /بحیرہ روم/جنوبی یورپی ماخذ ہیں۔[8]
اس مفروضے کو اینٹی-صیہونیوں کی جانب سے کئی بار استعمال کیا جاتا رہاہے تاکہ یہودیوں کے قدیم اسرائیل سے آبائی تعلقات کے دعوی کو للکارا جاسکے اور یہود مخالف رویوں میں بھی کردار ادا کیا ہے ۔
کوستلر، تیرھواں قبیلہ اور عصر حاضر کے خیالات
[ترمیم]خضری-اشکنازی قیاس وسیع تر عوامی توجہ کا مرکز آرتھر کوستلر کی 1976ء کی کتاب تیرھویں قبیلے کی اشاعت کے بعد بنی، جس میں پچھلے سام پرستی کے دعووں کو ردکرتے ہوئے شکنازیوں میں خذری وراثت کے موجود ہونے دعوے کیے گئے۔[9] کوستلر کے کام کا دونوں مثبت اور منفی جائزہ لیا گیا۔ برطانیه میں اسرائیل کے سفیر نے کتاب کی مذمت کرتے اسے "فلسطینیوں کی مالی امداد یافتہ سام دشمن فعل قرار دیا "، جبکہ برنارڈ لیوس نے دعوی کیا ہے کہ اس نظریہ کو کسی بھی قسم کے ثبوت کی حمایت حاصل نہیں اور تمام سنجیدہ دانشوروں نے اسے رد کر دیا ہے -[10] رافیل پتائی ، نے تاہم،کچھ حمائتی خیالات درج کیے ہیں کہ خذر باقیات نے مشرقی یورپ کے یہودی برادریوں کی بڑھوتری میں کردار ادا کیا ہے [11] اور کئی غیر پیشہ ورمحققین جیسے بورس الٹشولر (1994ء) اور کیون ایلن بروک، [12] نے مقالہ کو عوام کی نظروں میں رکھا۔ کوستلر کا کہنا تھا کہ یہ نظریہ یورپی نسل پرستیت پر مبنی سام دشمنی کو کم کریگا ۔[13]
اس نظریہ کو یہودی قومیت کے تصور کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہاہے ۔،[14] حال ہی میں مختلف قسم کے نقطہ ہائے نظر جیسے لسانیات (پال وکسلر )[15] تاریخدانی ( شولوموسینڈ)[16] اور جینیاتی آبادی (ایرن الہائیک) نے اسے پھر سے زندہ کر دیا گیا ہے۔[17] وسیع تعلیمی نقطہ نظر سے، دونوں کا خیالات کہ تمام تر قبیلہ خذر نے اکٹھے اقبال یہودیت کی اور یہ تجویز کہ کچھ خذری لوگوں نے بنیادی اشکنازی یہودیت کی جانب ہجرت کی ابھی تلک انتہائی متنازع مسائل ہیں ۔[18]
نوٹ
[ترمیم]- ↑ Peter Golden، Haggai Ben-Shammai، András Roná-Tas، مدیران (2007)۔ The World of the Khazars: New Perspectives. Selected Papers from the Jerusalem 1999 International Khazar Colloquium۔ BRILL۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مارچ 2017
- ↑ Boris Zhivkov (2015)۔ Khazaria in the Ninth and Tenth Centuries۔ BRILL۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مارچ 2017
- ↑ "Terra Incognita: The return of the Khazar myth"۔ The Jerusalem Post | JPost.com۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مئی 2016
- ↑ Jon Entine۔ "Israeli Researcher Challenges Jewish DNA links to Israel, Calls Those Who Disagree 'Nazi Sympathizers'"۔ Forbes۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مئی 2016
- ↑ Golden 2007a, p. 149
- ↑ Sand 2010, p. 240.
- ↑ Batya Ungar-Sargon 'The Mystery of the Origins of Yiddish Will Never Be Solved,' آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ tabletmag.com (Error: unknown archive URL) Tablet 23 جون 2014
- ↑ G Atzmon، L Hao، I Pe'er، وغیرہ (جون 2010)۔ "Abraham's children in the genome era: major Jewish diaspora populations comprise distinct genetic clusters with shared Middle Eastern Ancestry"۔ Am. J. Hum. Genet.۔ 86: 850–9۔ PMC 3032072۔ PMID 20560205۔ doi:10.1016/j.ajhg.2010.04.015 الوسيط
|last1=
و|last=
تكرر أكثر من مرة (معاونت); الوسيط|first1=
و|first=
تكرر أكثر من مرة (معاونت); الوسيط|pmc=
و|PMC=
تكرر أكثر من مرة (معاونت); الوسيط|pmid=
و|PMID=
تكرر أكثر من مرة (معاونت); الوسيط|DOI=
و|doi=
تكرر أكثر من مرة (معاونت); - ↑ Golden 2007a, p. 9
- ↑ Lewis 1987, p. 48 :'Some limit this denial to European Jews and make use of the theory that the Jews of Europe are not of Israelite descent at all but are the offspring of a tribe of Central Asian Turks converted to Judaism, called the Khazars.
- ↑ Patai & Patai 1989, p. 71 : "it is assumed by all historians that those Jewish Khazars who survived the last fateful decades sought and found refuge in the bosom of Jewish communities in the Christian countries to the west, and especially in Russia and Poland, on the one hand, and in the Muslim countries to the east and the south, on the other.
- ↑ Brook 2009
- ↑ Michael Scammell (2009)۔ Koestler: The Literary and Political Odyssey of a Twentieth-Century Skeptic۔ Random House Publishing Group۔ صفحہ: 546۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مارچ 2017 الوسيط
|author=
و|last=
تكرر أكثر من مرة (معاونت) - ↑ Toch 2012, p. 155,n.4 ۔
- ↑ Wexler 2007, pp. 387–398 ۔
- ↑ Sand 2010, pp. 190–249 ۔
- ↑ Elhaik 2012, pp. 61–74 ۔
- ↑ Golden 2007, pp. 9–10 ۔