اشکنازی یہود

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(اشکنازی یہودی سے رجوع مکرر)

اشکنازی یہود
Ashkenazi Jews
(יהודי אשכנז یہودے اشکناز اشکنازی عبرانی)
ویلنا گاؤن
ایمی نویتھر
ہینرک ہینی
مائر امشیل روتشیلڈ
مارک چاگل
موسی ایسرلس
البرٹ آئنسٹائن
سارہ برنہارٹ
سگمنڈ فرائڈ
حناہ زینس
میخائیل بوت وین نک
شولم الیکھیم
گولڈا مائیر
فیلیکس مینڈلسوہن
کل آبادی
(10[1]–11.2[2] ملین)
گنجان آبادی والے علاقے
 ریاستہائے متحدہلاکھ 60 – 50 [3]
اسرائیل کا پرچم اسرائیل20 لاکھ 80 ہزار[1][4]
 روس1،94،000–50،00،000
 ارجنٹائن3،00،000
 مملکت متحدہ~ 2،60،000
 کینیڈا~2،40،000
 فرانس2،00،00
 جرمنی2،00،00
 یوکرین1،50،000
 آسٹریلیا1،20،000
 جنوبی افریقا80،000
 بیلاروس80،000
 مجارستان75،000
 چلی70،000
 برازیل30،000
 نیدرلینڈز30،000
 مالدووا30،000
 پولینڈ25،000
 میکسیکو18،500
 سویڈن18،000
 لٹویا10،000
 رومانیہ10،000
 آسٹریا9،000
 نیوزی لینڈ5،000
 آذربائیجان4،300
 لتھووینیا4،000
 چیک جمہوریہ3،000
 سلوواکیہ3،000
 استونیا1،000
زبانیں
تاریخی : یدیش
جدید: مقامی زبانیں، بنیادی طور پر: انگریزی، عبرانی، روسی
مذہب
یہودیت، کچھ سیکولر، لادین
متعلقہ نسلی گروہ
دیگر یہودی اور سرزمین شام،[5][6][7][8] اطالوی لوگ، آئیبری قوم اور دیگر یورپی[9][10][11][12][13] سامری قوم،[7] آشوری قوم،[7][8]

اشکنازی (Ashkenazi) جنہیں اشکنازی یہود (Ashkenazi Jews) (عبرانی: אַשְׁכְּנַזִּים‎‎، اشکنازی عبرانی تلفظ: [ˌaʃkəˈnazim]، واحد: [ˌaʃkəˈnazi]، جدید عبرانی: [aʃkenaˈzim, aʃkenaˈzi]; اور יְהוּדֵי אַשְׁכֲּנַז یہودے اشکناز، لفظی معنی ، "جرمنی کے یہود")،[14] بھی کہا جاتا ہے ایسے یہود ہیں جو رومی عہد میں یورپ اور جرمنی کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ ان علاقوں میں بھی ان لوگوں نے لکھنے پڑھنے اور بودوباش میں عبرانی روایات کو قائم رکھا۔ ان کو مسیحی بادشاہوں کی طرف سے نفرت کا سامنا بھی تھا جو ان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کا سبب بنتا تھا۔ اسی لیے یہ لوگ اٹھارہویں صدی کے آخر تک معاشی طور پر مستحکم نہ ہو سکے۔

1881ء وسطی یورپ کی یہودی آبادی کا سب سے بڑا حصہ کالے پھر سرخ اور گلابی رنگ سے نمایاں کیے گئے

اشکنازی یہود تارکین وطن کی آبادی جو یہودیوں کی تارکین وطن کی ایک الگ اور یکجا برادری کے طور پر مقدس رومی سلطنت کے پہلے ہزاریہ کے اختتام کے وقت وقوع پزیر ہوئی۔ ان تارکین وطن اشکنازی یہودیوں کی روایتی زبان یدیش مختلف بولیوں پر مشتمل ہے۔ اشکنازی تمام تر وسطی اور مشرقی یورپ میں  پھیلے اور وہاں برادریاں قائم کیں جو قرون وسطی سے لے کر حالیہ دنوں تک ان کے بسنے کے بنیادی علاقے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں ان بے وطنوں کی اپنی ایک علاقائی اور تارک وطن اشکنازی تشخص پروان چڑھنے لگا۔ قرون وسطی کے اخر میں اشکنازی آبادی کا زیادہ تر حصہ مسلسل جرمن علاقوں سے باہر پولستان اور لتھووینیا میں (بشمول موجودہ  بیلاروس اور یوکرائن) مشرقی یورپ کی طرف منتقل ہوتا چلا گیا۔ اٹھارہویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے اوائل تک جو یہود جرمنی ہی میں رہے یا واپس جرمنی آئے ان کی  ثقافتی اقدار نے دھارا بدلا۔ حثکالا (یہودی نشاة ثانیہ) کے زیر اثر، جدوجہد آزادی، دانشورانہ اور ثقافتی بدلاؤ کے لیے انھوں  نے آہستہ آہستہ یدش زبان کا استعمال ترک کر دیا اور اپنی مذہبی زندگی اور ثقافتی تشخص کی نئی جہتوں کو پروان چڑھانے لگے۔" یورپ میں  قیام کے دوران میں اشکنازیوں نے یورپی ثقافت میں اپنا اہم حصہ ڈالا اور فلسفہ، ادب، آرٹ، موسیقی اور سائنس کے تمام شعبوں میں  قابل ذکر اور غیر متناسب اضافہ کیا۔" (ایرک ہوبسبام) – ہولوکاسٹ (مرگ انبوہ)، یعنی یہودی نسل کشی اور دوسری عالمی جنگ کے  دوران تقریباً ساٹھ لاکھ یہود کے بڑے پیمانے پر قتل عام نے اشکنازی تارکین وطن کی ثقافت اور تقریباً ہر اشکنازی یہودی خاندان کو متاثر کیا۔[15][16][17][18]

گیارہویں صدی عیسوی تک اشکنازی دنیا کی کل یہودی آبادی کا تقریباً 3 فیصد تھے، جبکہ 1931ء کے اپنے عروج کے دنوں میں دنیا کی کل یہودی آبادی کا 92% شمار کیے گئے۔ ہولوکاسٹ سے تھوڑا عرصہ قبل تک یہود کی مجموعی تعداد ایک کروڑ ستاسٹھ لاکھ تھی۔ اشکنازیوں کی عصری آبادیاتی شماریات وقت کے ساتھ متغیر ہوتی رہتی ہیں جو کم و بیش ایک کروڑ سے ایک کروڑ بارہ لاکھ کے درمیان میں رہی۔ سرجیو ڈیلا پرگولا نے سپین اور پرتگال کے وہ یہود( سفاردی )جنہیں 1492ء میں بے دخل کیا گیا اور ( مزراہی) صہیونیت پر یقین رکھنے والے یہود کو سرسری حساب میں شمار کرتے ہوئے دعوی کیا کہ اشکنازی دنیا کی کل یہودی آبادی کا 74 فیصد سے کم ہیں -[19][20][21][21][1]

جننیاتی اشکنازی مطالعہ —اشکنازی مادری اور پدری نسب پر تحقیق کرتے ہوئے ان کے مغربی ایشیائی ماخذ کے اشارے ملتے ہیں۔ لیکن اشکنازی لوگ اپنی یورپی نسبت کے متعلق ایک مختلف اور بحث طلب سوچ رکھتے ہیں کہ ان میں یورپی جننیات کی ملاوٹ مادری نسبتوں سے ہی آئی ہیں۔ عام طور پراشکنازی یہود، سفاردی یہود کے بر خلاف  ہیں جو وبیرین جزیرہ نما کے یہودیوں کی نسل سے ہیں (اگرچہ اس جزیرہ نما میں دوسرے یہود بھی موجود ہیں)۔ ان میں کچھ عبرانی حروف کے تلفظ اور مذہبی رسومات کی ادائیگی میں کچھ اختلافات ہیں۔

یہود کے کسمپرسی کے دور کے  خاتمے کی بعد منافقین کو روکنے کے لیے کسی کے مذہب بدل کر یہودیت اختیار کرنے کو یہود کی جانب سے باقاعدہ تسلیم نہیں کیا جاتا یا اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی جو ایک تاریخی نظریہ ہے جس پر دوبارہ عمل ہو رہا ہے۔ اور یہ بحث تو کافی عام ہو چکی ہے کہ یہودی کون ہے؟ اور کون نہیں، چہ جائیکہ اشکنازی یہودی کا تعین کیا جائے، جس کے لیے مذہبی، لسانی، نسلی اور ثقافتی تعریف کے معیار پر پورا اترنا ضروری ہے اب جبکہ زیادہ تر یہودی آبادی مشرقی یورپ سے امریکا، مغربی اور شمالی یورپ کی جانب ہجرت کر چکے ہیں عہدحاضر سے قبل کی ان کی خود ساختہ تنہائی بھی ختم ہو چکی ہے جس نے ان کو ایک الگ ثقافتی مذہبی اور قومی شناخت دی تھی۔لفظ اشکنازی اپنی تاریخی ارتقا کے منازل طے کرنے کے بعد اب دوبارہ اہمیت حاصل کر چکا ہے خاص کر اسرائیل میں جہاں اس لفظ کو اب روایتی معنوں میں نہیں لیا جاتا۔ دنیا بھر میں اکثر یہودی برادری آج بھی دو کنیساؤں میں منقسم ہے جہاں اشکنازی اور سفاردی روایات کی مطابق عبادت سر انجام دی جاتی ہیں -اگر چہ  یہ امتیاز اب رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے لیکن غیر اسرائیلی سفاردی یہود کو ایک الگ مذہبی شناخت اور امتیاز حاصل ہے جبکہ اشکنازیوں نے کھیل، ثقافت ، تنوت نور، اداکاری، سیاست، معاشیات اور صیہونیت میں اپنا مقام بنایا ہے -چنانچہ شائد اسی لیے الحاداور سیاسی محرکات کا وقوع پزیر ہونا اشکنازیوں میں کہیں زیادہ ہے -جبکہ دوسری جانب ایک دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ اسرائیلی اشکنازی اور سفاردی یہود کے خصوصیات غیر اسرائیلی یہود سے قطعا جدا ہیں، اسرائیلی اشکنازی یہود میں روایتی[ [قدامت پسند]] یہودیت اب بھی موجود ہے اور اسرائیل کی بڑی سیاسی قوتوں میں مذہبی سفاردی پارٹی شاس بھی ہے۔

نام کا ارتقا[ترمیم]

لفظ اشکناز عہد نامہ قدیم کے انجیلی کردار اشکناز بن گومر بن خافط بن يافث بن نوح سے لیا گیا ہے - اشکناز ،منائیاں ،ارارات اور اورارتو جنہیں خدا نے بابل کے خلاف لڑنے کے لیے بلایا انجیل کی کتاب یرمیاہ (51:27) میں مملکتوں کو ظاہر کرتا ہے - جبکہ اشکناز ان میں سے شمال بعید کی ایک مملکت تھی- تلمود کے رسالہ یومہ میں گومر کو بنام جرمنیہ پکارا گیا ہے البتہ شمال مغربی شام کے یہودی ادب میں جرمنیکا کے نام سے اس کی نشان دہی کی گئی جو بعد میں بگڑ کر جرمنیہ بنا- نام اشکناز چھٹی صدی عیسوی کے سکانڈزا کے علاقے کے ساتھ بھی منسلک رہا جو جرمنیک قبیلوں کا منبع ہے - [22]آرمینیائی تاریخ کی 10 ویں صدی عیسوی تک یہود کبھی کبھار لفظ اشکناز آدیابن،خزر ،جزیرہ نما کریمیا اور مشرقی یورپی علاقوں کے لیے بھی استعمال کرتے تھے، عباسی دور کے یہودی فلسفی سعيد بن يوسف الفيومی سلاوی ، مشرقی اور وسطی یورپی علاقوں کے لیے لفظ اشکناز استعمال کیا کرتے تھے -جدید دور کے مؤرخوں میں بوداپست اور ویانا کے یہودی تاریخ دان اور تلمودی آثارقدیمہ کے بانی پروفیسر اسمعیل کراؤس نےخزریہ کے علاقے کو اشکناز کا نام دیا-

ابتدائی قرون وسطی کے زمانے میں وسطی اور مشرقی یورپ کے یہوو کے لیے یہ نام استعمال کیا جاتا رہا ہے - یہودی آبادکاری والے علاقوں کے انجیلی ناموں کے القابات کے مطابق اسپین کو سفارد کہا گیا ہے (عبدیاہ 20) فرانس کو تسارفت اور بوہیمیا کو کنعان (سلاطین۔1 : 17-9)- قرون وسطی متوسطہ تک راشی جیسے تلمودی مفسروں نے جرمنی کو اشکناز نامزد کرنا شروع کر دیا تھا جس کا پرانا نام لوتارنژیہ تھا-

تاریخ[ترمیم]

یورپ میں اشکنزم سے قبل کی تاریخ[ترمیم]

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الأَرْضِ أُمَمًا مِّنْهُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذَلِكَ وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ [23]

اور اس وقت کو یاد کرو جب تیرے رب نے خبر کردی تھی کہ ضرور بھیجتا رہے گا یہود پر قیامت تک ایسے شخص کو کہ دیا کرے ان کو عذاب بیشک تیرا رب جلد عذاب کرنے والا ہے اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔اور ہم نے دنیا میں ان کی مختلف جماعتیں کر دیں بعض ان میں نیک تھے اور بعض ان میں اور طرح تھے اور ہم ان کو خوش حالیوں اور بدحالیوں سے آزماتے رہے کہ شاید باز آجائیں-


قدیم شام میں ابتدا سے ہی اشکنازیوں کی تاریخ پراسراریت میں لپٹی چلی آ رہی ہے اور یہود کی ایک الگ برادری کے طور ان کے ابھرنے پر بہت سی قیاس آرائیوں نے جنم لیا- اٹلی اور جنوبی یورپی علاقوں کے راستے قدیم شام سے ان کے انخلا کا نظریہ یہود میں سب سے زیادہ پسندیدہ اور مشہور رہا- تاریخی دستاویزات اور نوشتے جنوبی یورپ میں یہود کی موجودگی کی قبل از مسیحی دور کی تصدیق کرتے ہیں - 212 ق م میں جب کاراکلا نے روم میں تمام آزاد لوگوں کو شہریت سے نوازا تو یہود کو اس نعمت سے محروم رکھا گیا- یہود کے ہر فرد کو حکمران جولین کے دور حکومت363ء سے پہلے تک جزیہ دینا پڑتا تھا لیکن بعد میں انھیں ثقافتی اور مذہبی تعلقات استوار کرنے اور مقامی پیشے اختیار کرنے کی آزادی دے دی گئی لیکن 380ء میں مسیحیت کے روم اور قسطنطنیہ کا سرکاری مذہب قرار دئے جانے کے بعد یہود آنوسی ہوکر مسیحی ہوئے یا ایک بار پھر ہتک آمیز سلوک کیا جانے لگا-

یونان میں یہود کی تاریخ کی ابتدا 480 ق م سے 8 ق م کے دور میں ہوتی ہے جب ٹکسالی و کلاسیکی یونانی ثقافت کو اپنے تاریک دور کے بعد باضابطہ تشکیل دیا جا رہا تھا- یونانی مورخ ہیرودوت یہود کو سلطنت فارس پر حملہ میں معاونت کیوجہ سے بحری ٹیکس گزار 'فلسطینی شامی' کہا کرتا تھا - یونانی طرز زندگی بہت سے خوش حال یہود کے لیے پرکشش تھی اگرچہ یونانی شرک یہودی توحید پر زیادہ اثرانداز نہ ہو سکا- ایتھنز کے قدیم علاقے اگورہ کے کنیسہ کی تاریخ 267ءسے 396 ء کے دور کی ہے - مقدونیہ کے تاریخی علاقے استوبی کا کنیسہ 4ء میں ایک پرانے کنیسہ کی جگہ دوبارہ تعمیر کیا گیا لیکن 5ء میں اس کو سرکاری کلیسا میں تبدیل کر دیا گیا- یونانی هلنیستی یهودیت انتطاکیہ اور اسکندریہ میں خوب پھیلی لیکن بعد میں یونانی بولنے والے ان یہود میں سے باالرضا یا آنوسی ہو کر نے مسیحیت اختیار کرلی- کروشیا کے مختلف علاقوں میں جہاں قدیم رومی چھاونیاں قائم تھیں وہاں وقتا فوقتا قبروں کی کھدائی کے دوران میں ایسے قطبے برآمد ہوتے رہے جو 2ء-3ء میں یہود کی موجودگی کی تصدق کرتی ہیں -انتطاکیہ طرسوس،مرسین کیپادوکیا کے یہود اور اطالوی و هلنیستی علاقوں کے یہود شامی فوجی کمک کیساتھ پانونیا پہنچے اور اپنا کنیسہ اور برادری قائم کرلی- کھدائی سے پتہ چلتا ہے کہ یہود پہلے پہل لشکرگاہ کے قریب مگر علاحدہ احاطہ بند علاقوں میں رہتے رہے اور اپنے ہم خیال اور ہم مذہب فوجی مرتبوں میں ہی شادیاں کرتے رہے - رافائيل پاتائی بیان کرتا ہے کہ رومی مبصروں کے قطبوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعد ازاں یہودی اور شامیوں کی رسومات، طرز لکھائی و خطاطی اور ناموں میں فرق بہت حد تک ختم ہو گیا تھا حتی کہ بعد ازاں شامی اور یہودی میں تفریق بہت مشکل ہو گئی تھی -433ءمیں جب پانونیا ہن قبیلے کے حوالے کیا گیا تو چھاونیوں کی فوج و آبادیاں واپس روم چلی گئیں البتہ پانونیا ہی کے علاقوں میں کچھ صدیوں بعد بھی یہود کے رهنے کے کچھ مبہم آثار ملے -

زمانہ قدیم اور قرون اولی میں رومی سلطنت سے باہر مستقل یہودی موجوگی کے آثار جرمنی اور مشرقی یورپ کے علاقوں میں ابھی تک نہیں ملے - البتہ اس زمانے میں جرمنی اور گال کے علاقوں میں یہود خانہ بدوش تاجروں و دستکاروں کے قلیل وقتی آثار ملتے ہیں - گال(موجودہ شمالی فرانس اور جنوبی جرمنی) کے علاقوں میں قرون وسطی میں جا کر قابل ذکر یہودی آبادی ابھری جبکہ بریتانیہ ویلنس اور اورلینز میں 5ء اور 6ء میں موجود تھیں - اس زمانے میں سے لے کر قرون وسطی تک یہاں کے اکثر یہود غالب یونانی ثقافت میں ضم ہو کر مسیحیت اختیار کرتے رہے - فرانکیوں کے بادشاہ داگوبرت اول نے اپنے ملک میروونجئین سے یہود کو 629ء میں بیدخل کر دیا اور انھیں کو سخت مخالف کے احکام کیوجہ سے سابقہ رومی علاقوں میں نئے مشکلات کا سامنہ کرنا پڑا-

800ء میں شارلیمین کے فرانکی سلطنت کو شمالی اطالیہ اور روم تک وسعت دینے کے بعد فرانکیہ پر اتحاد اور استحکام کا ایک مختصر زمانہ آیا جس نے یہودی تاجروں کو الپس کے شمال میں آبادکاری کے مواقع دئے - شارلیمین نے یہود کو وہی حقوق دئے جو یہود کو کبھی رومی سلطنت میں حاصل تھے ساتھ ہی جنوبی اطالیہ کے یہود مذہبی ظلم وستم کی وجہ سے وسطی یورپ اور فرانکی علاقوں کیجانب ہجرت کرنے لگے - جہاں پرانہوں نے مالیات ،تجارت اور قرض دہی کے پیشے اختیار کیے چونکہ کلیسا کیجانب سے مسیحیوں پر سود کی لین دین پر پابندی تھی- شارلیمین کے زمانے سے آج تک شمالی یورپی یہودی زندگی بہترین انداز سے رقم کی گئی ہے -11ء تک جب راشی نے اپنی تاریخی تبصرے لکھے تو اشکنازی اپنے تلمودی علم اور ہلاخاہ (یہودی شریعت) پر دسترس کی وجہ سے مشہور ہو چکے تھے - یہ لوگ اپنی یہودی فقہ اور عبرانی لسانیات اور ادب میں مہارت کی کمی کیوجہ سے سفاردی اور اسلامی علاقوں کے یہودی علماء کے زیر عتاب بھی رہے تھے - قرون وسطی میں یہودی و لاطینی زبانوں کی دیسی جرمن الفاظ کیساتھ ملاپ کی وجہ سے یدش وجود میں آئی- جو ایک جرمنک زبان تھی جوعبرانی حروف میں لکھی جاتی تھی اور عبرانی آرامی سلاو اور رومی زبانوں کے انتہائی زیر اثر رہی تھی-

متوسطہ اور اخیر قرونِ وسطی کی ہجرتیں[ترمیم]

8ء اور 9ء کے تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ الپس اور کوہ پائرینیس کے شمال میں یہودی برادریاں موجود تھیں - 11 صدی ء تک جنوبی یورپی اور مشرق وسطیٰ کے یہود معاشی مواقعوں کی رغبت میں اور مسیحی حکمرانوں کی دعوت پر شمالی علاقوں خصوصاً دریائے رائن کے ساتھ آباد ہونا شروع ہوئے - یعقوب بن یکوطئیل(جو ایک امیر اور نیک راہب سمجھا جاتا تھا، اس نے اپنے ملک کے یہود کو جبراّ تبدیلی مذہب سے بچانے کے لیے پاپائے روم سے ذاتی درخواست کی جس کے بعد)فلانڈر کے بلدوین پنجم نے یعقوب بن یکوطئیل کو تیس یہودی خاندانوں کیساتھ اپنے علاقوں میں آباد ہونے کی دعوت دی[24]، یونہی نارمن نے فتح انگلینڈ کے بعد یہود کو مدعو کیا اسی طرح ویلیم اول عرف حرامی ویلیم نے بھی فتح کے بعد انھیں اپنے علاقے میں قیام کی دعوت دی- بشپ رودیجر ہزمان نے رومی شہنشاہ ہنری چہارم کی منظوری سے دریائے رائن کے کنارے آباد مینز کے یہود کو اشپیر میں قیام کے لیے مدعو کیا- ان تمام دعوتوں اور آبادکاریوں کے پیچھے یہود کے اقتصادی اصلاحات ،معاشی ترقی شروع کرنے، محصولات کو بہتر بنانے اور تجارت کو وسعت دینے میں مہارت کار فرما تھی- چنانچہ ہمیشہ کی طرح یہود بازاروں، کلیساؤں کے قریب اور اندرونِ شہرمنتقل ہوتے گئے جہاں اگرچہ وہ شاہی اور کلیسا کے طاقت کے قریب تو رہے لیکن انتظامی خود مختاری سے بھی نوازے گئے -

راہبانہ یہودیت اور بابل کی تلمودی ثقافت جو اس کی بنیاد ہے 11 صدیء میں دونوں جنوبی اٹلی میں جڑ پکڑتی گئیں اور وہاں سے شمال میں اشکنازیوں میں پھیلی-

پہلی صلیبی جنگ کے دوران میں رائنستان کے شہر متز میں یہود کا قتل عام ، اگستے میجیٹ کی تصویر

صلیبیوں کو اپنی جنگوں کے لیے سرمایہ درکار ہوتا تھا جو وہ سود پر بطور قرض یہود سے لیتے جبکہ کیتھولک مسیحیت میں سود لینا ناجائز تھا یوں یہود مالدار اور مسیحی ان کے مقروض ہوتے جا رہے تھے چنانچہ صلیبیوں نے مسلم شمنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہود کو مسلمان جیسا بے ایمان قرار دینا اور سرعام قاتلانِ عیسیٰ کہنا شروع کر دیا جب صلیبی ہتھیاروں سے مسلح ہو چکے تو انھوں نے صلیبی مہم میں توسیع کی اور مسلمانوں کیساتھ ساتھ یہود کو بھی دشمنوں کی فہرست میں شامل کرکے انکا قتلِ عام کیا - 1096 ء میں دریائے رائن کے کنارے کلون سے لے کر مینز تک صلیبیوں کے ہاتھوں یہود کے اس قتل عام کو رائنستان کی خونریزی یا عبرانی میں 'ہربان شوم ' کہتے ہیں -ڈیوڈ نرنبرگ کے مطابق "رائنستان کی خونریزی جدید یہودی تاریخ نویسی میں انتہائی اہم مقام رکھتی ہے اور اسے اکثر سام دشمنی(ضدِ یہود)کی پہلی مثال قرار دیا جاتا ہے جس کی انتہا ہولوکاسٹ (مرگ انبوہ) تھی چنانچہ اس کو کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا-"

1095ء میں صلیبی جنگوں کے آغاز کیوجہ سے، 1290ء میں انگلینڈ سے، 1394ء میں فرانس سے ،15ء صدی میں جرمنی کے کچھ علاقوں سے بیدخل کیے جانے کیوجہ سے یہود کو مشرقی جانب پولستان 10ء صدی میں، لتھوینیا 10ء صدی میں اور روس 12ء صدی میں ہجرت کرنا پڑی- کئی صدیوں پر محیط اس زمانے میں یہودی اقتصادی سرگرمیاں درج ذیل عوامل کیوجہ سے تجارت، کاروباری انتظام اور معاشی خدمات مہیا کرنے پر مرکوز رہیں :

یورپی مسیحیوں کی طرف سے بعض یہودی سرگرمیوں پر پابندی جیسے مسیحیوں سے سود لینا، اعلیٰ شرح خواندگی، سوداگروں کا دوسرے خطوں اور ملکوں میں فقط اپنے خاندانی افراد پر اعتماد، تقریباً تمام مردوں کاتعلیم یافتہ ہونا-

پولش لتھوینیا کی دولت مشترکہ اپنی سب سے بڑی حدودکے زمانے میں

15 ء صدی تک پولستان کی اشکنازی یہودی برادری یورپ کی سب سے بڑی آبادی تھی جو بعد میں روس، آسٹریا اور پرشیا (جرمنی) کے زیر تسلط آیا اور ہولوکاسٹ تک اشکنازی یہودیت کا مرکز رہا- وسطی اور مشرقی یورپ کا ماحول اجنبی کیلئ سازگار نہ تھا چنانچہ ایک طویل عرصہ تک یہود کا اس خطّے کی ثقافتوں میں انضمام نہ ہو سکا اور الگ تھلگ رہتے رہے اگرچہ کہیں کہیں توہین و تحقیر کیوجہ سے کچھ لوگ اپنی ثقافتوں کو ترک کر کے مقامی ثقافتوں میں سمو بھی گئے - مزید برآں یہود شتیتل(یہودی پاڑہ) میں رہا کرتے تھے،جہاں وہ مردوں کے لیے مضبوط تعلیمی نظام کو برقرار رکھا کرتے، راہبانہ قیادت کی تعظیم اور رہنمائی لیا کرتے، اپنے پڑوسیوں کی طرز زندگی کو حقارت اور بیزاری سے دیکھتے تھے اور ان تمام رجحانات میں ضد سامیت (سام دشمنی)کی شدت کیساتھ مزید اضافہ ہوا۔

قرون وسطی کے حوالے[ترمیم]

11ویں صدیء کے پہلے نصف میں بغداد کے مشہور یہودی عالم گاؤن ہائے بن شریرہ ایک بھیجے گئے سوال کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ اشکناز سے پوچھا گیا ہے بلاشبہ جس سے مراد جرمنی تھا - بعد کے نصف حصہ میں مشہور یہودی مفسر راشی تلمود پر تبصرہ کرتے ہوئے اشکناز کی زبان اور ملک کا حوالہ دیتے ہیں - 12 صدیء کے بعد سے لفظ اشکناز کافی تواتر سے استعمال ہوتا رہا ہے -شہر وتری کے سمہاح بن سموئیل کی یہودی فقہ کی کتاب وتری ماحزور میں مملکتِ اشکناز کا حوالہ بہ لحاظ رسوماتِ کنیسہ اور دوسرے معنوں میں دیا گیا ہے - اشکناز کی زمین اور زبان کے حوالے 13 صدی ء کی تحاتھریروں میں بہت ملتے ہیں - مثلاً فتاویٰ سلمان بن ادرت(جلد 1 نمبر 395) ، فتاویٰ اشہربن یحیٰ (صفحہ ٦ ،4) ، اس کی ھلاخا کی فقہ (براکوت 1،12 ایڈیشن ولنا صفحہ 10) اشہربن یحیٰ کے بیٹے یعقوب بن اشہر کی کتاب طور اوراخ کھایم (باب 59)، فتاوی اسحاق بن شیث (193،2٦8۔ 270)- مِدراش کی تالیف کے دوران میں کتاب رباح میں راہب برکیاہ اشکناز، رِفاتح اور ٹوگرماح کا ذکر بطور جرمن قبیلے یا جرمن خطوں کے کرتا ہے - فلسطینی یہود کے یونانی بولی میں شائد یہ لفظ موجود ہوتا ہو یا اس کا متن جرمنیکا سے بگڑ کر موجودہ شکل میں آیا ہو- برکیاہ کا یہ نظریہ تلمود پر مبنی ہے (یوما 10 الف، میگلاہ 71 ب) جہاں گومر ولد اشکناز کا ترجمہ جرمامیہ کیا گیا ہے جس سے واضح طور پر تلفظ کی یکسانی کی بنیاد پر مراد جرمنی ہی ہے -

ورمز کے یہودی پیلا نشان زیب تن کیے ہوئے

بعد ازاں لفظ اشکناز جنوبی اور مشرقی جرمنی کیساتھ مخصوص ہو گیا جہاں کے رسومات مغربی جرمنی اور پولستان سے مختلف تھے - اشعيا ہوروطز اور دوسروں کی دعائیہ کتابوں کی دعائیہ نظموں میں اشکناز اور پولستان کا ذکر بھی ملتاہے -

16ویں صدی ء میں پولستانکے شہر خه‌اوم کے صوفی راہب ایلیاہ کے مطابق اشکنازی یہود 11صدیء میں یروشلم میں رہا کرتے تھے -ان کی حکایت کے مطابق ایک جرمن زبان بولنے والے فلسطینی یہودی نے دوسرے جرمن جس کا تعلق ڈولبرجر خاندان سے تھا کی جان بچائی -احسان لوٹانے کے لیے جب پہلی صلیبی جنگ میں شہہ سوار (نائٹ) یروشلم کا محاصرہ کرنے پہنچے تو ڈولبرجر خاندان کے لوگوں نے اس یہودی خاندان کی جان بچائی اور اسے اپنے ساتھ رائنستان کے شہر ورمز لے آئے - جرمنی میں یہودی برادریوں کی موجودگی کے مزید ثبوت 11صدیء میں جرمنی سے یروشلم بھیجے گئے ہلاخا کے شرعی سوالات ہیں -

جدید تاریخ[ترمیم]

جرمن یہود کی کچھ برادریوں کی تاریخ کے بارے میں مواد اجتماعی طور پر رائن، میموربخ اور لائبسبریف کے ذیل میں جن دستاویزات میں محفوظ کیا جاتا رہا ہے وہ اب داؤد ساسون کی مجموعہ کا حصہ ہیں - جرمن یہودی تاریخ کے اساسی تجرید میں موجودہ دور کے ہینرخ گاریٹزنے بعنوان "Volksthümliche Geschichte der Juden." شامل کیا ہے - یروشلم کے عوامی معاملات کے مرکز میں  سفاردی یہودیت پر ایک مضمون میں دانیال ایلازارنے پچھلے ہزار سال کی یہودی آبادیاتی تاریخ کا خلاصہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ 11 صدی ء کے اختتام تک دنیائے  یہود میں 97% سفاردی جبکہ 3% اشکنازی تھے - 16 صدی ء کے اختتام تک  قیدیوں کی آزادی کے معاہدے کا خلاصہ کرتے ہوئے مرسی پادری جو خود بھی ترکوں  کے ہاتھوں قید ہوا تھا ایک تیونسی عبرانی سائمن اسکنازی جو گائتا پہنچتے ہوئے قید کیا گیا اور جس نے دوسروں کی مالی امداد بھی کی کا حوالہ دیتے ہیں کہ 17 ویں صدی میں سفاردی اشکنازیوں سے 3:2 کے تناسب سے بڑھے ہوئے تھے جبکہ یورپی یہود کی خلافت عثمانیہ میں رهنے والے یہود کے بہتر حالات زندگی کی بدولت 18 ویں صدی تک اشکنازی سفاردیوں سے 2-3 کے تناسب سے گٹھ چکے تھے - 1931 ء تک اشکنازی دنیائے یہود کے 92 فیصد تک پہنچ چکے تھے - یہ عوامل سراسر جنوبی سے مغربی یورپ اور وسطی سے مشرقی یورپ یہودی ہجرت کی آبادیاتی اسلوب کو ظاہر کرتے ہیں - 1740ء کے یروشلم کے یہودی آبادگاہ میں آباد ہونے والے پہلے خاندان نے لتھوینیا سے ہجرت کی -

مغرب کے پولستان بیلارس اور روس جیسے علاقوں سے بعد میں آنے والی نسلوں کو بہتر سیاسی و سماجی ماحول ملا- فروغ پزیر اشاعتی صنعت اور سینکڑوں کی تعداد میں انجیلی تبصروں کی چھپائی کی وجہ سے اہم یہودی مراکز اور ہسادی تحریک میں ترقی ممکن ہوئی- نئی اقوام کے درمیان میں دو صدیوں کی تقابلی برداشت کے بعد مشرق کے پروگروم (قتلِ عام بہ بلوائی) اور دوسرے علاقوں کی معاشی مواقع کے جواب میں 19 اور 20 صدی میں بڑے پیمانے پر مغربی جانب نقل مکانی ہوئی - 1750ء کیبعد اشکنازی یہود کی تعداد امریکی یہود میں سب سے زیادہ ہے -یورپی روشن خیالی کے پس منظر میں یہودی خلاصی فرانس میں شروع ہوئی اور مغربی و وسطی یورپ میں پھیل گئی-قرون وسطی کے ایسی تمام پابندیاں بشمول شناختی لباس، جزیہ، اختیار پیشہ پر پابندی اور غیر یہودی برادریوں سے علاحدہ شتیتل، یہودی محلہ یا پاڑہ میں سکونت جنھوں نے یہودی حقوق کو محدود کر رکھا تھا منسوخ کر دی گئیں - ایسے قوانین بنائے گئے جن کے تحت مقامی ملکوں کے شہریوں میں یہودیوں کو ضم کیا گیا اشکنازیوں کو اپنے پرانے آبائی نام رکھنے کی اجازت ملی- اس عوامی زندگی میں شمولیت نے اشکنازی ثقافت ، حثکالا یا یہودی روشن خیالی کو بڑھاوا دیا جس کا اپنا مقصد جدید یورپی اقدار کو یہودی زندگی میں شامل کرنا تھا-جہاں جہاں یہود کو معاشرتی آزادی نہ مل سکی وہاں انھوں نے سوشلزم اختیار کی - ان دونوں عوامل نے مل کرصہیونیت کے لیے جدید یورپ میں راستہ ہموار کیا-

ہولوکاسٹ (مرگِ انبوہ)[ترمیم]

18 جنوری 2009ء کے اسرائیلی حملے کے بعدفلسطینیوں کے حق میں ملبورن کے منکرین ہولوکاسٹ لوگوں کا تیسرا احتجاج
1920ء کا اخباری خاکہ :جمہوریہ ویمار کا اعلان کرنے والے اور اس کے دوسرے چانسلر جرمن ڈیموکریٹک یہودی سیاست دانفلپ شائڈیمناور سنٹر پارٹی کے رکن اور جنگ مخالف یہودی سیاست دان ماتیاس ارتسبرگرجس نے جنگ عظیم اول کے اختتام پر بدنام زمانہ صلح نامہ پر دستخط کیے
ماؤتھاسین کے فوجی توجہی کیمپ میں برہنہ سوویت جنگی قیدی

تجدید پسندان مرگ انبوہ (جو خود کو ترمیم پسندکہلواتے ہیں مگر  یہود  اور مرگ انبوہ پر مکمل یقین رکھنے والے ان کو منکرینِ مرگ انبوہ کہتے ہیں) اس بات پر شک کا اظہار کرتے ہیں کہ مرگ انبوہ میں ساٹھ لاکھ سے زیادہ  یہود قتل ہوئے تھے یا اسے سرے سے کہانی سمجھتے ہیں مگر زیادہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مرگ انبوہ پر نئے سرے سے تحقیق ہونا چاہئیے کہ اس میں مرنے والوں کی اصل تعداد کیا تھی۔ ان کے خیال میں یہ ساٹھ لاکھ سے بہت کم تھی اور اتنی بڑی تعداد کا ذکر پہلی دفعہ مرگ انبوہ کے کئی سال بعد سامنے آیا جس کا مقصد اسرائیل کے وجود کو بہانہ مہیا کرنا تھا۔ انکار ِ مرگِ انبوہ اکثر یورپی و بحر اوقیانوسی ممالک میں اب باقاعدہ قابلِ سزا جرم ہے۔ ڈنمارک کے اخبار جائلینڈ پوسٹن کیطرف سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کیبعدایرانی صدر احمدی نژاد اور ایران تجدید پسندانِ مرگِ انبوہ کے علم بردار بنکر سامنے آئے۔ حتیٰ کہ 11 دسمبر 2006ء کو بین الاقوامی کانفرنس برائے نظر ثانی برنظریہ عالم بابت ہولوکاسٹ منقعد کی گئی۔

جیساکہ درج بالا تاریخی حوالوں سے ثابت ہوا کہ یورپ سے باربار کی ذلت آمیز یہودی بیدخلی کیبعد یورپی (اشکنازی) یہود نے ہمیشہ اقتصادی اور تجارتی پیشے اختیار کرکے اربابِ اقتدار سے قریب تر ہوتے رہے۔ پہلی جنگ عظیم کی جرمن شکست کے محرکات میں سے (دائیں بازو کی نظریات والوں کے نزدیک) وہ یہود ریپبلکن تھے جنھوں نے دورانِ جنگ ہی 19-1918ء کے جرمن بغاوت میں بادشاہت کا تختہ الٹ کر جرمن فوج کو شکست سے دوچار اور اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کیا۔ چنانچہ جب نازی اقتدار میں آئے تو انھوں نےجمہوریہ ویمار کو مجرمینِ نومبر کا شاخسانہ قرار دیا جنھوں نے اقتدارکے حصول کے لیے عوام سے غداری کر کے جرمن مفاد کی پیٹھ میں چھرا گھونپاتھا۔ نازی پہلی جنگ عظیم کے بعد قائم ہونیوالیجمہوریہ ویمار کو بدعنوانی کی دلدل، قومی تذلیل ،ایماندار حزبِ اختلاف کو بے رحم ایذارساں ریاست گردانتے تھے اور ان 14 سالوں کو یہود ، مارکسیت کے معتقدین اور بولشیوک ثقافتی اقتدار کے سال قرار دیتے تھے۔ برلن میں 1918ء-1916ء تک برطانوی فوجی مشن کے سربراہ جنرل نیل مالکومنے جرمن فوج کے کوارٹر ماسٹر جنرل ایرک لوڈنڈورف سے جنگ کے بعد 1919ء میں ایک ضیافت کے دوران میں جرمن شکست کے اسباب کے متعلق پوچھا ۔ لوڈنڈورف نے گھر کے محاذ کی ناکامی کیساتھ ساتھ کئی اور عذر بھی گِنوائے۔ پھر جنرل مالکوم نے پوچھا

جنرل کیا آپکی پیٹھ میں چھراگھونپا گیا؟"جنرل لوڈنڈورف نے چمکتی آنکھوں سے یہ فقرہ فوراً اچک لیا اور دھراتے ہوئے پوچھا "پیٹھ میں چھراگھونپا گیا؟" پھر تائید کرتے کہا "ہاں، یہی ،بالکل یہی،میں اسی لفظ کی تلاش میں تھا ، واقعی ہماری پیٹھ میں چھراہی تو گھونپا گیا-

[25]

1919ء میں سام دشمن تنظیم Deutschvölkischer Schutz und Trutzbund کے لیڈر الفریڈ روتھ کی کتاب "فوج میں یہود" میں یہودی مردم شماری کے نتائج اکھٹے کیے گئے جن کے مطابق فوج میں زیادہ تر یہود موقع پرست، منافع خور یا جاسوس تھے۔ یہودی سازش کی فرد جرم میں برلن کا پیدائشی اور میونخ کا رہائشی یہودی صحافی اور نقاد کرٹ آئزنر جو 191٦ء کے بعد سے جنگ کے ناجائز ہونے کے متعلق لکھتا رہا اور جس کا میونخ کی بغاوت میں بہت بڑا ہاتھ تھا جنگ کیبعدقتل کر دیا گیا۔ نئی وجود میں آئی جرمن ریاست ویمار کے عبوری صدر فریڈرک ایبرٹ واپس آنے والے غازیوں کو سلامی دینے کی تقریب میں کہتے جاتے "دشمن نے تمھیں شکست نہیں دی، دشمن نے تمھیں شکست نہیں دی" اگرچہ اب جرمن اور غیر جرمن سکالر اور مؤرخین اس تصور کو یکسر مسترد کرتے آ رہے ہیں اور وسائل کی کمی کو جرمن مغلوبیت کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ [26] تاہم یہود کے مطابق دوسری جنگِ عظیم کے آغاز تک یورپ میں رہنے والے اندازہً 80لاکھ یہود اشکنازی تھے جس میں سے 60 لاکھ کو منظم طریقے سے قتل کیا گیا۔ 91% پولش یہود کو، 60% یوکرینی یہود کو، 50–90 % جرمنی، ہنگری اور بالٹک ریاستوں کے سلاو یہود کو، 25 % سے زیادہ فرانس کے یہود کو قتل کیا گیا۔ کچھ ممالک میں بشمول یونان ہالینڈ اور سابقہ یوگوسلاویہ میں سفاردی برادریاں اسی طرح کی نسل کشی کا شکار ہوئے۔ چونکہ اکثر متاثرین اشکنازیوں سے تھے اس لیے دنیا یہود میں ان کی تعداد 1931ء کے 92% سے کم ہوکر آجکل84% فیصد ہو گئی ہے۔ ہولوکاسٹ یدش کی ترقی اور پیشرفت پر بھی اثرانداز ہوا چونکہ متاثرین ہولوکاسٹ کی اکثریت تقریباً 50 لاکھ یدش بولنے والے قتل ہوئے تھے، جو جنگ کیبعد امریکا برطانیہ ارجنٹینا کینیڈا آسٹریلیا اور اسرائیل منتقل ہو گئے۔ اسرائیل کی موجودہ کل آبادی کا 35% اور یہودی آبادی کا 45% اشکنازی ہیں۔

اسرائیل[ترمیم]

اسرائیل میں لفظ اشکنازی کی اصطلاح اب اپنے اصلی معنوں سے ہٹ کر اُن یہود کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جوکبھی یورپ میں آباد رہے ہوں اگرچہ اِنکا نسلی پس منظر سفاردی کیوں نہ ہو۔ مزراہی ،یمنی ،کُرد یا کسی بھی غیر اشکنازی پس منظر کے یہود جِنکا جزیرہ نما آئبیریا سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا اب سفاردی ہی کہلاتے ہیں۔ اشکنازی اور غیر اشکنازی خاندانوں کی آپسی شادیوں کی وجہ سے اور ذیلی نسلی امتیازات کو زیادہ خاطر میں نہ لانے کیوجہ سے مِلے جُلے نسلی پس منظر کے یہود اب کافی عام ہوتے جا رہے ہیں۔

اشکنازی یہود پر واجب ہے کہ اپنے مذہبی ھلاخائی معملات میں چیف اشکنازی راہب(مفتی اعظم) کی تقلید کریں جو انتخابات کیساتھ بدلتا رہتا ہے - اس لحاظ سے مذہبی اشکنازی یہودی ایک اسرائیلی ہوتا ہے جو مخصوص سیاسی و مذہبی مفادات و نظریات کا حامی ہوتا ہے -یہ اپنے فرقے کا چیف راہب(رئیس العلماء یا مفتی اعظم) اس وقت بنتا ہے جب اسی کے فرقے کی باقی پارٹیوں میں سے اس کی مذہبی پارٹی کو اسرائیلی رائدہندگان کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو جائے، اگرچہ رائدہندگان کے توازن کا نقشہ ہر الیکشن میں بدلتا رہتا ہے - اشکنازی یہود کے مذہبی مفادات بہت سی چھوٹی چھوٹی مذہبی پارٹیاں لے کر چلتی ہیں، یہ چھوٹی پارٹیاں ملکر ایک بڑے اتحاد بناتی ہیں جس سے ایک پیچیدہ اسرئیلی معاشرہ کو وجود ملتا ہے۔ اس معاشرے میں سماجی، معاشی، لسانی اور مذہبی مفادات کی بنیاد پر 120 نشستی اور یک ایوانی كنيست(اسرائیلی مجلس شوریٰ) کے انتخابات کے لیے مقابلہ ہوتا ہے -

اشکنازی نسب کے لوگ اسرائیلی یہود کے 5۔46 % اور تمام اسرائیلیوں کے 35-36% بنتے ہیں - اپنے یورپی کردار کے مطابق انھوں نے اسرئیل کے وجؤد میں آنے کیبعد بھی معاشیات، ذرائع ابلاغ اور سیاست میں ایک خاطر خواہ کردار ادا کیا ہے - شروع کی دہائیوں میں اشکنازی اور سفاردی یہود کے درمیان میں سخت ثقافتی تنازعات نے جنم لیا جس کی جڑیں ابھی بھی اسرائیلی معاشرے میں خال خال موجود ہیں - تاہم تمام یہودی مہاجرین پگھلاتی ہنڈیاکے نظریہ پر متفق ہوئے اور اپنی اپنی زمانۂ جلاوطنی کی متفرق شناختیں چھوڑ کر اسرائیلی شناخت میں ضم ہو گئے -

اسرائیل اور یشوو کے چند چیف اشکنازی راہب(مفتی اعظم)

تعریف[ترمیم]

یہودی کون ہے؟[ترمیم]

یہودی کون ہے؟ (عبرانی: מיהו יהודיتلفظ [ˈmihu jehuˈdi]) یہودی تشخص اور شناخت کے بارے میں ایک بنیادی سوال ہے۔ یہ سوال یہودی خیالات برائے تشخص پر مبنی ہے، جس کی ثقافتی، مذہبی، سیاسی، نسبی اور خاندانی جہتیں ہیں۔ یہودی قانون کے مطابق ایک شخص یہودی صرف اس صورت میں سمجھا جاتا ہے اگر اس کی ماں یہودی ہے یا وہ باقائدہ قبول یہودیت کرے۔ تنظیم نو یہودیت میں کچھ استثنا بھی شامل کیے گئے ہیں، جس میں ماں کی بجائے پدرنسلی شخصیات کو بھی قبول کیا جا سکتا ہے۔ [27][27][28][29][30][31][32][33][34][35][36][37][38]

تعریف بمذہب[ترمیم]

مذہبی یہود ھلاخا اور مذہبی قوانین کے علاوہ منہاگ کے رسومات بھی اپناتے ہیں - مختلف جغرافیائی خطوں کے مذہبی یہودی گروہوں نے مختلف رسومات اطوار اور تشریحات اختیار کیے - کچھ مسائل پر قدامت پسند یہود کو اپنے آباء کے رسومات و طریق ہی اختیار کرنا ہوتے ہیں، جبکہ ان رسومات کو پسند ناپسند یا کسی بھی وجہ سے چھوڑنے یا اپنانے کے انتخاب کو نہیں مانتے - چنانچہ آباء و اجداد کے تعین و نشان دہی کو کٹر یہود مذہبی وجوہات کیوجہ سے اہم سمجھتے ہیں تاکہ صرف ان کے ہی رسومات پر عمل کرسکیں - ایسا اکثر اس وقت بھی ہوتا ہے جب مختلف نسلوں کے یہود آپس میں شادی کرتے ہیں، جب ایک غیر یہودی یہودیت اختیار کرتا ہے اور پہلی بار اختیار کرنے کے لیے مذہبی رسومات چنتا ہے، جب غیر مذہبی یا بے عمل یہودی واپس روایتی یہودیت کی طرف لوٹتا ہے تب وہ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ اس کے خاندان میں کیا کیا جاتا رہا تھا- اس لحاظ سے "اشکنازک"سے مراد خاندانی نسب اور رسومات ہیں جو اس کے ساتھ منسلک رہتی ہیں -بہر حال اصلاحگر یہودیت ( ترقی پسند و آزاد خیال) جو منہاگ کی تقلید کو غیر ضروری گردانتی ہے نے اشکنازی یہودیت سے ہی جنم لیا-

مذہبی لحاظ سے اشکنازی یہودی ایک ایسا یہودی ہے جس کی خاندانی روایات، رسومات اور اطوار اشکنازی روش کے پابند ہوں - اوائل قرون وسطی سے قبل تک جب اشکنازی برادریوں نے پہلے پہل ظاہر ہونا شروع کیا، یہودی مذہبی اختیار و تحکیم کے مراکز اسلامی دنیا بغداد اور سپین میں ہوا کرتے تھے - اشکناز (جرمنی) جغرافیائی اعتبار سے اتنا دور تھا کہ اس نے اپنی الگ منہاگ بنا ڈالی تھی - اشکنازی عبرانی بھی دوسری عبرانی سے جدا تھی -

اس سلسلے میں اشکنازی کا ہم عصر سفاردی ہے، چونکہ اکثر غیر اشکنازی قدامت پسند یہودی سفاردی اختیار و تحکیم کی تقلید کرتے ہیں چاہے نسلی اعتبار سے وہ سفاردی ہوں یا نہیں - روایتی اعتبار سے ایک سفاردی مزراہی عورت جو کسی  قدامت پسند یا حریدی اشکنازی یہودی خاندان میں شادی کرتی ہے اپنے بچوں کو اشکنازی یہودی طریقوں پر پالتی ہے ; اس کے برعکس ایک اشکنازی عورت جو ایک سفاردی یامزراہی آدمی سے شادی کرتی ہے اس سے توقع کی جاتی ہے کہ سفاردی دین اختیار کرے اور اسی پر اپنے بچوں کی بھی پرورش کرے تاکہ وہ اور بچے وراثت میں سفاردی شناخت حاصل کر سکیں، اگرچہ عملی طور پر بہت سے خاندان اس کے برعکس سمجھوتہ کرلیتے ہیں -  ایک  نو یہودی  عام طور پر اپنے بیت دین جس نے اس کا مذہب تبدیل کروایا ہو اسی کے دین پر چلتا ہے ۔ دنیا بھر کے یہودی انضمام کے بعد قدامت پسند یہود سے باہر اسرائیل، شمالی امریکا اور دیگر مقامات پر اشکنازی یہود کی مذہبی تعریف دھندلاہٹ کی شکار ہے۔

اشکنازی اور سفاردی یہودیت کے درمیان موجود فقہی اختلافات سے موجودہ مذہبی ترقی و  پیشرفت بہت  بالاتر ہے  ۔ شمالی امریکی شہروں میں شوراہ تحریک اور ظہورِ "یہودیت بعد از فرقہ بندی تحریک" (بقدر مسلم سلفیت) جیسے سماجی رجحانات اکثر مختلف نسلی پس منظر کے کم عمر یہود کو قریب لاتے ہیں، حالیہ برسوں میں قبالہ، میں لی جانے والی دلچسپی میں بہت اضافہ ہوا ہے، جسے بہت سے اشکنازی یہود  یشیوا کی چار دیواری سے باہر مطالعہ کرتے ہیں ۔ ایک اور نیا  رجحان جو مقبولیت کی جانب بڑھ رہا ہے وہ   تجدید یہودیت تحریک اور  کرلیباخ کے  انداز میں منیان جن کا اصل اشکنازی ہے اس میں وہ بےخود اور وجدانی عبادت ہے جس میں عبادت گزار اپنے حواس سے باہر نکل جاتا ہے  ۔

تعریف بثقافت[ترمیم]

ثقافتی طور پر ایک اشکنازی یہودی کو  یدشکییت کے تصور سے شناخت کیا جا سکتا ہے جس کا مطلب یدش زبان میں "یہودیت "ہے ۔ یدشکییت خصوصاّ اشکنازی یہود کے یہودیت کا خاص معیار ہے  ۔ حثکالا اور یورپ میں  آزادیِ یہود سے پہلے  میں مردوں کے لیے اس کا مطلب تورات اور تلمود کا مطالعہ تھا ،جبکہ عام طور پر مردوں اور عورتوں کے لیے یہودی قانون کے زیر اثر  خاندانی اور اجتماعی زندگی میں پابندی تھا ۔ رائنستان سے  ریگا سے رومانیہ تک، زیادہ تر یہود کھلے عام دُعا  اشکنازی عبرانی میں اور  اپنی سیکولر زندگی کی بات چیت کی یدش میں کرتے تھے۔  لیکن جدید، یدشکییت نہ صرف قدامت پسند یہودیت اور حسیدیت ، بلکہ وسیع احاطہ تحاریک، نظریات، طریقوں اور روایات جن میں اشکنازی یہود شرکت کرتے رہے ہیں کو  اب گھیرے میں لیے ہوئے ہے  اور کسی نہ کسی طرح ان میں یہودیت کا احساس برقرار رکھا ،  اگرچہ یہود کی ایک بہت چھوٹی تعداد  اب بھی  یدش بولتی ہے  ، یدشکییت کو اب  آدابِ گفتگو، انداز مزاح میں اور باہمی  تنظیم کے نمونوں  میں شناخت کیا جا سکتا ہے۔  موٹے طور پر ،  یہودی وہ ہے جو  ثقافتی طور پر  یہود کے ساتھ تعلق  رکھے ،  یہودی اداروں کی حمایت کرتا ہے،  یہودی کتب اور مجلے پڑھتا ہے،  یہودی فلم اور تھیٹر دیکھتا ہے  ،  اسرائیل جاتا ہے ،  تاریخی کلیساؤں کے دورے کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔  یہ ایک تعریف ہے جس کا اطلاق  یہودی ثقافت پر  عام طور پر اور اشکنازی یدشکییت پر  خاص طور پر ہوتا ہے۔

اشکنازی یہود مشرقی یورپ سے دور منتقل ہوتے گئے جیسے اسرائیل جانے والے عالیہ  ، کچھ  شمالی امریکا ہجرت کیے،  دیگر نے انگریزی بولنے والے علاقوں کی طرف ہجرت کی  ؛ کچھ نے مغربی  یورپ (خاص طور پر فرانس) اور لاطینی امریکا ، جغرافیائی تنہائی جس نے اشکنازم کو جنم دیا تھا اسی نے دیگر ثقافتوں اور غیر اشکنازی یہود کیساتھ ( جو خود اب  جغرافیائی خطوں میں قید نہیں)  کے ساتھ اختلاط  کرنے کے لیے رستہ  دیا ہے ، ۔بہت سے اشکنازی یہود کے لیے عبرانی نے بنیادی  یہودی زبان کے طور پر  یدش کی جگہ لے لی ہے، اگرچہ بہت سے  حسیدیت اور  ہاریدی گروپ روز مرہ کی زندگی میں اب بھی یدش ہی  استعمال کرتے  میں ۔ (متعدد اشکنازی یہود انگریزی اور روسی بولنے والے ہیں  ، اگرچہ، انگریزی اور روسی اصل میں یہودی زبانیں نہیں ہیں ۔)

فرانس کی مرکب یہودی برادری  کی جاری ٹھیٹھ  واپس لوٹتی  ثقافتی آمیخْتَگی باقی یہود کے درمیان میں دنیا بھر میں بھی  جاری ہے ۔ اگرچہ فرانس نے اپنی اصل یہودی آبادی کو  قرون وسطی میں  ،  فرانسیسی انقلاب کے وقت نکال دیا تھا، وہاں دو الگ یہودی آبادیاں تھیں ۔ ایک  سفاردی  یہود پر مشتمل ، جو اصل میں کلیسا کی جانب سے تفتیش عقاید مذہبی (درمادکرن) کی وجہ سے پناہ گزین ہوئے  اور  جنوب مغرب میں مرکوز  ہوئے جبکہ دوسری یہودی  برادری  اشکنازی تھی جو بنیادی طور پر ایک جرمن بولی  یدش (جو خود  جرمن زبان ہی کی ایک بولی تھی) بولتے تھے، وہ سابقہ جرمن الزاس میں مرکوز ہوئے، ۔ (ایک تیسری برادری  پرونسی یہود کی تھی جو  کمتات  ونیسین میں رہتے تھے تکنیکی اعتبار سے وہ  فرانس سے باہر رہتے تھے اور بعد میں  سفاردی یہود میں جذب ہو گئے ۔) یہ  دو فرقے  اس قدر ایک دوسرے سے علاحدہ اور مختلف  تھے  کہ قومی اسمبلی  نے انھیں الگ الگ  1790ء اور 1791ء آزادی دی ۔

لیکن آزاد کیے جانے کے بعد خاصکر 1890ء الفرڈ ڈریفس کے معاملے کے بعدمتحدہ فرانسیسی یہودیت کا احساس ابھرنے لگا - 1920ء سے 1930ء کے درمیان میں اشکنازی یہود پناہ گزین بڑی تعداد میں یورپ سے سام دشمنی ،روسی انقلاب، معاشی بحران اور کسادِ عظیم کیوجہ سے آئے - 1930ء تک پیرس میں متحرک اور پررونق یدش ثقافت تھی اور بہت سارے یہود متنوع سیاسی تحاریک میں شریک ہوتے - وچی فرانس اور ہولوکاسٹ کیبعد فرانسیسی یہودی آبادی کی تعداد میں مشرقی اور وسطی یورپ سے آئے اشکنازی پناہ گزینوں کیوجہ سے اضافہ ہوا بعد ازاں سفاردی مہاجرین اور شمالی افریقہ سے فرانسیسی بولنے والے دیگر پناہ گزینوں کیوجہ سے بھی اضافہ ہوا-

اس کے بعد، 1990ء کی دہائی میں، پھر سے  ایک اور اشکنازی یہود کی لہر سابق سوویت یونین ممالک اور وسطی یورپ سے  پہنچنا  شروع ہوئے۔جس کا نتیجہ ایک تکثیری یہودی برادری ہوا جس میں اب بھی دونوں اشکنازی اور سفاردی ثقافتوں کے کچھ مختلف عناصر پائے جاتے ہیں  ۔ لیکن فرانس میں ان دونوں فرقوں اور ثقافتوں میں تفریق اور شناخت کرنا  زیادہ سے زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے اور ایک علاحدہ فرانسیسی یہودیت ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔

تعریف با النسل[ترمیم]

نسلی لحاظ سے  ،  اشکنازی یہود وہ ہیں جس کے خاندان کی جڑ کا پتہ لگایا جاسکے جنھوں نے وسطی یورپ  میں سکونت اختیار کی،  تقریباً ایک ہزار سال  تک اشکنازم   یورپ میں تولیدی اعتبار سے الگ تھلگ آبادی تھے ،  باوجود ان اوامر کے کہ یہ مختلف ممالک میں رہے،  کچھ نے غیر مذہب سے قبول یہودیت  یا اخراج از یہودیت کی، کچھ نے سکونت منتقل کی یا   دیگر یہودی گروپوں میں آپسی شادی کی ۔ انسانی ماہرین جینیات دلیل دیتے ہیں کہ جن جینیاتی تغیرات کی نشان دہی اشکنازی یہود میں ہوئی ہے وہ اعلیٰ تعدد کی ہیں برخلاف عام یورپی آبادی کے چاہے  وہ ہو پدری لکیر کے نشان کنندہ (كروموسوم_واي هاپلوتیپ)ہوں یا مادری  لکیر کے نشان کنندہ (مائٹوکونڈریا) ہوں ۔[39]   20ء صدی کے وسط کے بعد سے بہت سے اشکنازی یہودیوں نے  آپس میں ،دیگر یہودی برادریوں میں  اور دوسری قوموں اور مذاہب کے لوگوں کیساتھ شادیاں کیں۔ پشتونوں کی طرح سخت گیر اور قدامت پسند یہودی تارکین وطن جو اپنے قرب و جوار سے الگ تھلگ زندگی گزارتے تھے اور شادیاں اکثر اپنی انہی بستیوں کے ہم نسلوں میں ہی میں کیا کرتے ان میں اکثر جینیات کی بنیاد پر بیماریاں جنم لیتی تھیں، اکثر دانشور ان دونوں قوموں کی یہ قدیم مشترکہ عادت سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ دونوں قوموں کا اصل اور ماخذ ایک ہی ہے ، چنانچہ اب اسرائیل میں اس سے قطع نظر کہ زوجین کس نسل سے ہیں ان میں جنیاتی تنوع کے لیے شادی سے قبل انھیں مشورے دیے جاتے ہیں تاکہ یہود کی مستقبل کی نسل میں عیوب و پیچیدگیاں نہ ہوں- سفنگولیپید کی ٹے-ساکس اور گاوچر  کی بیماریاں جو نایاب ہیں پر اشکنازیوں میں پھیل رہی ہیں اور عام یورپیوں کی نسبت ان میں 100 گنا زیادہ پہنچ رکھتی ہیں ، اسی طرح نیمن-پِک (خصوصا قسم - 1) بیماری کا پھیلاو بہت تیز ہے- اگر چہ یہ اپنے مریضوں میں اعلیٰ ذہانت کے آثار بھی بتلاتا ہے جو شائد اشکنازیؤن کی آبادی اور امتیازی سائنس کے شعبوں میں نوبل ایوارڈ کے فاتحین کے اعلیٰ تناسب کا ایک عنصر بھی ہے - ثقافتی عمرانیات کے ماہر گریگوری کوچران ، جیسن ہارڈی ، ہنری ہا رپینڈنگ مندرجہ ذیل مفروضے کی وکالت کرتے ہیں سفنگولیپیداشکنازیوں کے عصبی خلیوں میں ذخیرہ ہوتا ہے اور اس مادہ کی بیماریوں کے لیے حساس ہوتا ہے جس سے وہ بنا ہوتا ہے- حد سے زیادہسفنگولیپید موت کا یا پھر کم از کم ایک قسم کی سخت بیماری کا باعث تو ضرور بنتا ہے جس میں کہ تولید ناممکن ہوتی ہے - اگر جین متماثل اور سفنگولیپید کی زیادتی کا شکار ہو تو موت واقع ہوتی ہے جبکہ اگر جین متخالف ہو تو چاہےسفنگولیپید کی زیادتی ہی کیوں نہ ہو مہلک حد تک نہیں پہنچتا- سفنگولیپید کی زیادتی عصبی سگنلز (اشاروں) کی ترسیل میں تسہیل کرتی ہے اور دندریت کے بڑھوتری کو فروغ دیتی ہے یوں عصبی خلیوں کی شاخیں جتنی زیادہ ہوں قابلیت اور ذہانت اتنی ہی بہتر ہوتی ہے-

2006ء ایک مطالعہ سے معلوم ہوا  کہ اشکنازی یہود  ایک واضح ، یکساں جینیاتی ذیلی جماعت ہے ۔ حیران کن  طور پر ، ماخذ کی جگہ سے قطع نظر ، اشکنازی یہود کو   ایک ہی  جینیاتی دستہ میں  ڈالا جا سکتا ہے–یعنی  کہ ، اس سے قطع نظر کہ اشکنازی یہود کا بانی  پولستان ، روس ، ہنگری ، لتھوانیا یا کسی بھی دوسری  تاریخی یہودی آبادی کی طرف سے آیا  ، ان کا تعلق ایک ہی نسلی جماعت ہے۔ تحقیق  یورپ میں کثرت سے یہودی آبادی کی   آپسی شادیوں کو مظاہر کرتی ہے   اور اس خیال کو کہ اشکنازی یہود ایک نسلی جماعت ہے  کو مزید تقویت دینے  میں مدد دیتی ہے ۔  علاوہ ازیں  ، اگرچہ یہود کی اشکنازی نسل کے درمیان میں  آپسی شادیوں کا رجحان تیزی سے عام ہو گیا ہے، بہت سے حاریدی  یہود خاصکر  حاسیدی یا حاریدی فرقوں کے اراکین خصوصی طور پر ساتھی اشکنازی یہود سے شادی کرنے کو جاری رکھے ہوئے ہیں  ۔ یہ رجحان اشکنازی جین کو غالب رکھتا ہے  اور محققین کو قدرے آسانی کے ساتھ  اشکنازی یہودی جین کے مطالعے میں  مدد دیتا ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان حاریدی یہود کے اکثر انتہائی بڑے خاندان ہوتے ہیں ۔

رسم و رواج ، قوانین اور روایات[ترمیم]

مشہور مصنف آسائیل لبوٹزکی فوجی خدمت کے دوران میں تیفیلن باندھے تلاوت کر رہے ہیں
سفاردی روایت کیمطابق سفید تالیت
کالی پٹیوں والا تالیت راسخ الاعتقاد اشکنازی روایت کیمطابق

قدامت پسند اشکنازی یہود کے ھلاخائی طور طریقے سفاردیوں کے طریقوں سے مختلف ہو سکتے ہیں خصوصا روایات کے معملات میں ۔ یہ اختلافات موسٰی اسریلس کی شولخان عاروخ کی تشریح میں ہی میں بیان کردئے گئے ہیں۔مشہور اختلافات میں سے چند درج ذیل ہیں-

  • عیدفسح کا منانا ۔ اشکنازی یہود روایتی طور پر پھلیاں ، اناج، باجرا اور چاول کھانے سے گریز کرتے ہیں جبکہ سفاردی یہ سب کھانے سے نہیں روکتے-
  • اشکنازی یہود آزادانہ دودھ اور مچھلی ملا کر کھاتے ہیں جبکہ کچھ سفاردی اس سے پرہیز کرتے ہیں-
  • سفاردیوں کی نسبت اشکنازی بیوہ اور شادی شدہ عورتوں کے ویگ کے استعمال کی اجازت دے دیتے ہیں-
  • گوشت کی کشروت کے معاملے میں سفاردیوں کے پابندیاں زیادہ سخت ہیں جو بیتھ یوسف کے تحت ہیں - چنانچہ جو گوشت اشکنازیوں کے یہاں کوشر ہو وہ سفاردیوں کے یہاں نامقبول ہو سکتا ہے- ذبح کرنے کے سخت قواعد کے باوجود سفاردی یہود جانور کے پچھلے حصہ کی ھلاخائی طریقے سے عرق النساء کی نس نکالنے کے بعد اس کے گوشت کے کھانے کی اجازت دیتے ہیں جبکہ بہت سے یہود اس کو کھانے کے قائل نہیں ہیں اور یہ مسلکی اختلاف کی وجہ سے نہیں بلکہ مذبح خانے ایسی صلاحیت پیدا نہیں کرسکی جس کے طریقے سے مناسب طور پر اس نس کو دور کیا جاسکے اور چنانچہ اسے غیر کوشر گوشت کے طور پر فروخت کرنا شروع کر دیا-
  • اشکنازی نومولود بچوں کے نام فوت ہوئے رشتہ داروں کے ناموں پر رکھتے ہیں جبکہ حیات رشتہ داروں کے نام پر نہیں رکھتے- اس کے برعکس سفاردی اپنے بچوں کے نام دادا اور جد امجد کے ناموں پر رکھتے ہیں چاہے وہ زندہ ہوں یا وفات ہو چکے ہوں- البتہ اشکنازیوں میں اس دستور میں ایک قابل ذکر استثنی ہالینڈ کے شت اشکنازی کا بچوں کو نام دینے کی روایت ہے جو بصورت دیگر سفاردیوں کیساتھ منسوب کیا جاتا ہے-
  • اشکنازی تیفیلن سفاردی تیفیلن سے مختلف ہوتے ہیں ، روایتی اشکنزی عبادت میں یہ جسم کی جانب لپیٹ کر باندھا جاتا ہے - اشکنازیتیفیلن کھڑے ہو کر باندھتے ہیں جبکہ سفاردی اسے بیٹھ کر باندھنا پسند کرتے ہیں-
  • اشکنازیوں کا عبرانی لب و لجہ دیگر یہودی جماعتوں سے مختلف ہے خاص طور پر عبرانی حرف ' ת' یا ' ܬ' بمطابق عربی حرف 'ت' کی ادائیگی میں-
  • عبادتی چادر یا اوڑھنی جسے یہود تالیت کہتے اورعبادت کے دوران میں اوڑھتے ہیں ، اسے اکثر یہودی مرد شادی کے بعد اوڑھتے ہیں جبکہ مغربی یورپی اشکنازی مرد اسے بار متسواہ کے بعد اوڑھتے ہیں جبکہ سفاردی اور مزراہی یہودیت میں یہ چادر بچپن سے ہی اوڑھی جاتی ہے-

لفظ'اشکنازی'  بطورخاندانی نام[ترمیم]

اشکنازی کئی مشہور لوگوں کا خاندانی نام ہے مثلاً ولادیمیر اشکنازی۔ تاہم اس خاندانی نام کے زیادہ تر لوگوں کا تعلق سفاردیوں سے ہے، خاص طور پر سوری یہودی برادری سے۔ اشکنازی نام کے حامل سفاردی یہود کے آباء اشکنازی رہے جو سفاردی علاقوں اور ملکوں میں جابسے- یہ نام 'اشکنازی' بطور عرف سفاردیوں نے ان لوگوں پر رکھے جو بعد میں خاندانی نام بنا جبکہ کچھ لوگوں نے اسے مختصر کر کے 'اش' رکھ لیا-

سفاردیوں سے تعلقات[ترمیم]

اشکنازیت اور سفاردیت کے مابین تعلقات ہمیشہ گرم جوش نہیں رہے- شمالی افریقی سفاردی اور بربر یہود اسرئیل کے بننے کیبعد ایک دہائی تک اشکنازیوں کیجانب سے دوسرے درجے کے شہری گردانے جاتے رہے ، جس کی وجہ سے مزاحمتی تحاریک جیسے کالے تیندوے نے جنم لیا جس کی رہنمائی ایک مراکشی یہودیہ سعدية مارسيانونے کی - جبکہ آج کل دونوں فرقوں کے درمیان میں تعلقات دوبارہ بہتر ہو رہے ہیں [40] جبکہ کئی دفعہ تو اشکنازی برادریوں نے معنی خیز تعداد میں سفاردی نوواردوں کو قبول کیا ہے،جسکہ نتیجہ کبھی کبھار آپسی شادیوں میں ہوا-[41][42]

اشکنازی یہودی ذہانت[ترمیم]

ملاحظہ کریں اشکنازی یہود کی غیر معمولی ذہانتاشکنازی یہودی ذہانت

قبیلہ خذر- نظریہ، امر یا مفروضہ[ترمیم]

صفحہ دیکھیں قبیلہ خذر-اشکنازی مفروضہ

خذری دریافت شدہ "موسوی سکہ" سکندونویا کے علاقے سپیلنگ کے خزانہ سے جو 1999ء میں دریافت ہوا اور 7ویں صدی عیسوی کا ہے۔ اس پر ہمیشہ کی طرح مسلم متن "محمد اللہ کے رسول ہیں " کی بجائے "موسی خدا کے رسول ہیں " کنندہ ہے

19 ویں صدی عیسوی کے اخائر  میں،  یہ تجویز کیا گیا کہ آج کی اشکنازی یہودیت  اصل میں اور  جنیاتی طور  پر ایک  تاریخی و قدیم خذری قبیلہ کے  یہودی تارکین وطن کی ایک بستی ہے  جس  نے آج کل روس اور یوکرائن کے قفقازکہلانے والے علاقوں سے مغرب کی جانب  آج کل کے فرانس اور جرمنی کہلانے والے علاقوں  کی جانب  ہجرت کی تھی (جو اشکنازی یہود کے بارے موجودہ رائج نظریہ یعنی اشکنازیوں نے مشرقی یورپ سے فرانس اور جرمنی کی جانب ہجرت کی تھی کے برخلاف ہے)۔سام پسندی کے معتقدین اس مفروضے کی  تاریخی ذرائع سے تصدیق   اوراس کے حق میں کسی قسم کے جینیاتی مطالعہ کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں، لیکن اس مفروضے کی  اب بھی ان سام مخالف  دانشوروں کی جانب سے حمایت ہوتی  ہے جنھیں اس نظریہ کو علمی ضمیر میں رکھنے میں کامیابی ہوتی ہے جبکہ یہ نظریہ  سام دشمنی اور  صیہونی مخالفت  کے ساتھ وابستہ ہے۔ 2013ء  کے ایک بین الجنیاتی (ٹرانس جینوم)  مطالعے جو 9ممالک کی 13 یونیورسٹیوں اور اکادمیوں سے  30 جنیاتی سائنسدانوں کی طرف سے کیا گیا اور اب تک دستیاب معلومات و شماریات کا سب سے بڑا مجموعہ تھا، کے تشخیص کے دوران میں  اشکنازی یہودیت میں قبیلہ خذر کے  جینیاتی ماخذ پائے  جانے کا کوئی ثبوت نہیں پایا گیا  ۔ چنانچہ  اس  مطالعہ کے  مطابق  اشکنازی  یہودیت کا  مطالعہ  فقط  یہ  ثابت  کرتا  ہے  کہ چونکہ خود ساختہ  اشکنازی  یہود اور  قدیم خذری  سلطنت کے  علاقے  میں  آج  کے  موجوہ لوگوں درمیان میں ربط موجود نہیں اس لیے پچھلے نتائج کی طرف رجوع کرنا  پڑے گا  یعنی اشکنازی یہود  نسبی، نظریاتی و مذہبی  بنیاد  پر کسی وقت مصری بنی اسرائیلی  ،مشرقی وسطی اور پھر یورپی آبادیوں کے لوگ رہے ہیں  ساتھ یہ بھی کہ ان اشکنازیوں کا حالیہ یہودی آبادیوں کے نسب  میں معقول حصہ ہے  اور ایسے  ہی  اس بات کا  کوئی  اشارہ  نہیں  کہ  قفقازی  علاقے  یا  اس کے  شمال  کے  باشندوں  کی  اشکنازی یہود میں کوئی  معنی  خیز جینیاتی  شراکت  ہے -لیکن سام مخالف دانشوروں کے حساب سے  یہ  نتیجہ سام پسندمصنفین  کا  اخذ  کردہ  ہے اورتعینی تعصب  کی ایک شکل ہے   یقینا  اس  میں  سام دشمنی  کی  طرح سام پسندی  کا  تعصب  ہو  سکتا  ہے -

قبیلہ خذر اور یاجوج ماجوج [ترمیم]

اشکنازی مرد اور مزراہی عورت

مندرجہ ذیل مضمون دی چرچ ٹائمز 24 جنوری 1992ء کو بشپ ہیوگ مونٹےفیورے (جس کا تعلق مشہور یہودی خاندان مونٹے فیورے سے تھا اور بعد میں مسیحیت اختیار کی )کی جانب سے شائع ہوا -

یہودی دنیا سفاردی اور اشکنازی میں منقسم ہے۔ سفاردیوں کا نام سفارد ( ہسپانیہ ، اسپین )میں رہنے کی وجہ سے پڑا پھر انھیں وہاں سے بے دخل کر دیا گیا اور وہ بحیرہ روم کے کنارے اٹلی ،یونان ،ترکی اور وسطی یورپ میں جابسے ،خوش حال یہودیوں نے ان کے معززین سے شادیاں کیں اور یوں ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا حتی کہ بعد میں انہی کی نسلوں کو وہاں سے بے دخل کیا گیا-

اشکنازی مشرقی یورپ کا سب سے بڑا یہودی گروہ ہے ، انجیل انھیں يافث کی اولاد بتاتا ہے جو آرمینیا اور کوہ ارارات کے گرد آباد ہوئے - پچھلی صدی میں روس اور مشرقی یورپ میں یہود کی تعداد زیادہ رہی جو فرانس اور جرمنی سے وہاں دھکیلے گئے اور صدیوں پہلے جن کی ان ملکوں میں اصل تعداد نہ ہونے کے برابر تھی -قرون وسطی میں ترک قبیلہ خذر کی 11ء صدی سے 13ء صدی تک مملکت بحیرہ اسود سے  بحیرہ قزوین تک اورقفقاز( کوہ کاف) سے  دریائے وولگا تک پھیلی ہوئی تھی- اور وہ فاتح مسلمانوں اور بازنطینی مسیحیوں درمیان میں پھنسے لیکن مزاحمت کرتے رہے حتیٰ کہ انھوں نے یہودیت  اختیار کرکے اشکنازی آبادی میں بہت بڑا اضافہ کیا- مملکت کے خاتمے کے بعد انھوں نے تجارتی راہداریوں پر سکونت اختیار کی اور تجارت شروع کی- کچھ روس میں رہے، کچھ بلقان گئے، کچھ لتھوینیا، پولنڈ اور جرمنی چلے گئے - تمام ثبوت اسی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ مشرقی یورپ کے یہود کا سب سے بڑا ماخذ یہی لوگ ہیں - یدش زبان پولش، مشرقی جرمن اور عبرانی زبانوں کا آمیزہ ہے جبکہ فرانسیسی اور رهنیش ( مغربی جرمن ) کے الفاظ اس میں نہیں ملتے - ان کی طوطہ ناک جیسی مشابہات شامیوں جیسی نہیں البتہ کوہ کافیوں جیسی ضرور ہے -آرتھر کوسٹلر نے 1978ء میں اپنی کتاب "The Thirteenth Tribe " ۔ میں ان خیالات کا اظہار کیا تھا جو یہودی عوام کے لیے دشمن کے طعنہ جیسے بدمزہ تھے

"خالص یہودی نسل (بنی اسرائیل) جیسی کوئی چیز اب وجود نہیں رکھتی ہر علاقے کے یہودیوں میں وہاں کے غیر یہودی لوگوں کے خدوخال اور اطوار پائے جاتے ہیں - تاریخ اور عمرانیات ملکر اس مشہور خیال کو رد کرتے ہیں کہ موجودہ یہودی خالصتاً تاریخی بنی اسرائیل کی اولاد ہیں - شامیر مغربی کنارے میں روسی نژاد یہودیوں کی آبادکاری میں مصروف ہے، روسی اصل میں ترک خذر قبیلہ کا قتل عام کرتے رہے -ہٹلر کا ہالوکاسٹ (مرگ انبوہ) اصل میں غیر نسلی اسرائیلی یہودیوں کے خلاف رہا۔میکسویل ایک نسلی چیک یہودی تھا"

۔

جیسا کہ تعریف باالنسل میں بتایا گیا کہ تمام یہود خاصکر اشکنازی خود کو ممتاز نسل تصور کرتے ہیں چنانچہ صدیوں بعد موجودہ یہودی بالادستی کو اشکنازیوں کی مرہونمنت سمجھتے ہیں اسی لیے تمام دوسرے یہود یعنی مزراہی، سفاردی وغیرہ بھی اس ممتاز نسل اشکنازیوں سے ازدواج کے خواہش مند ہوتے ہیں جبکہ وہ خود بھی آپسی ازدواج کو ہی ترجیح دیتے ہیں، جو سالہا سال کی مجبورا یہود سے باہر غیر مذہبوں سے شادیوں کے بعد اب اسرائیل میں دوبارہ رواج پاتا جا رہا ہے - جس کی وجہ سے ان میں سفنگولیپید  کی نیمن پِک  ، ٹے-ساکس اور گاوچر جیسی بیماریاں اشکنازیوں میں دونوںذہانت اور اموات کا سبب بن رہی ہیں - اکثر مسلم علما ان ہی عوامل کو احادیث میں یاجوج و ماجوج کی خصوصیات سے تشبیہ دیتے ہیں - جبکہ سفنگولیپید کی بیماریوں کو وہ کیڑا بتلاتے ہیں جو ان اشکنازیوں (یاجوج ماجوج) کی گردن میں جنم لے کر انھیں ہلاک کرنے کا باعث بنے گا-

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ "Ashkenazi Jews"۔ جامعہ عبرانی یروشلم۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اکتوبر 2013 
  2. "First genetic mutation for colorectal cancer identified in Ashkenazi Jews"۔ The Gazette۔ Johns Hopkins University۔ 8 ستمبر 1997۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولا‎ئی 2013 
  3. Gabriel E. Feldman (May 2001)۔ "Do Ashkenazi Jews have a Higher than expected Cancer Burden? Implications for cancer control prioritization efforts"۔ Israel Medical Association Journal۔ 3 (5): 341–46۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 ستمبر 2013 
  4. CBS Statistical Abstract of Israel, 2009۔ "Table 2.24 – Jews, by country of origin and age"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مارچ 2010 
  5. Nicholas Wade (9 جون 2010)۔ "Studies Show Jews' Genetic Similarity"۔ نیو یارک ٹائمز۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2013 
  6. "High-resolution Y chromosome haplotypes of Israeli and Palestinian Arabs reveal geographic substructure and substantial overlap with haplotypes of Jews" (PDF)۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2013 
  7. ^ ا ب پ "Reconstruction of Patrilineages and Matrilineages of Samaritans and Other Israeli Populations From Y-Chromosome and Mitochondrial DNA Sequence Variation" (PDF)۔ 8 مئی 2013 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2013 
  8. ^ ا ب "Jews Are The Genetic Brothers Of Palestinians, Syrians, And Lebanese"۔ Science Daily۔ 2000-05-09۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جولا‎ئی 2013 
  9. Seldin MF, Shigeta R, Villoslada P، وغیرہ (ستمبر 2006)۔ "European population substructure: clustering of northern and southern populations"۔ PLoS Genet.۔ 2 (9): e143۔ PMC 1564423Freely accessible۔ PMID 17044734۔ doi:10.1371/journal.pgen.0020143۔ 09 جولا‎ئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2021 
  10. Adams SM, Bosch E, Balaresque PL، وغیرہ (دسمبر 2008)۔ "The genetic legacy of religious diversity and intolerance: paternal lineages of Christians, Jews, and Muslims in the Iberian Peninsula"۔ American Journal of Human Genetics۔ 83 (6): 725–736۔ PMC 2668061Freely accessible۔ PMID 19061982۔ doi:10.1016/j.ajhg.2008.11.007 
  11. M. D. Costa and 16 others (2013)۔ "A substantial prehistoric European ancestry amongst Ashkenazi maternal lineages"۔ Nature Communications۔ 4۔ PMC 3806353Freely accessible۔ PMID 24104924۔ doi:10.1038/ncomms3543۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2016 
  12. "Jewish Women's Genes Traced Mostly to Europe – Not Israel – Study Hits Claim Ashkenazi Jews Migrated From Holy Land"۔ The Jewish Daily Forward۔ 12 اکتوبر 2013۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2016 
  13. Shai Carmi, Ken Y. Hui, Ethan Kochav, Xinmin Liu, James Xue, Fillan Grady, Saurav Guha, Kinnari Upadhyay, Dan Ben-Avraham, Semanti Mukherjee, B. Monica Bowen, Tinu Thomas, Joseph Vijai, Marc Cruts, Guy Froyen, Diether Lambrechts, Stéphane Plaisance, Christine Van Broeckhoven, Philip Van Damme, Herwig Van Marck، وغیرہ (ستمبر 2014)۔ "Sequencing an Ashkenazi reference panel supports population-targeted personal genomics and illuminates Jewish and European origins"۔ Nature Communications۔ 5۔ doi:10.1038/ncomms5835۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 ستمبر 2014 
  14. Ashkenaz, based on یوسیفسیوسیفس۔ Antiquities of the Jews۔ 1 ، Perseus Project AJ1.6.1، ۔ خطا: {{Cite Josephus}} کے استعمال کے دوران |link= parameter is deprecated. To hide Josephus' name, use |author-mask=0۔ and his explanation of Genesis 10:3, is considered to be the progenitor of the ancient Gauls (the people of Gallia, meaning, from Austria, France and Belgium)، and the ancient Franks (of, both, France and Germany)۔ According to Gedaliah ibn Jechia the Spaniard, in the name of Sefer Yuchasin (see: Gedaliah ibn Jechia, Shalshelet Ha-Kabbalah، Jerusalem 1962, p. 219; p. 228 in PDF)، the descendants of Ashkenaz had also originally settled in what was then called Bohemia, which today is the present-day Czech Republic. These places, according to the Jerusalem Talmud (Megillah 1:9 [10a]، were also called simply by the diocese "Germamia." Germania، Germani، Germanica have all been used to refer to the group of peoples comprising the German Tribes, which include such peoples as Goths, whether Ostrogoths or Visigoths, Vandals and Franks, Burgundians, Alans, Langobards, Angles, Saxons, Jutes, Suebi and Alamanni. The entire region east of the Rhine River was known by the Romans as "Germania" (Germany)۔
  15. Henry L. Feingold (1995)۔ Bearing Witness: How America and Its Jews Responded to the Holocaust۔ Syracuse University Press۔ صفحہ: 36۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2017 
  16. Eric Hobsbawm (2002)۔ Interesting Times: A Twentieth Century Life۔ Abacus Books۔ صفحہ: 25 
  17. Glenda Abramson (ed.)، Encyclopedia of Modern Jewish Culture، Routledge 2004 p. 20.
  18. T. C. W. Blanning (ed.)، The Oxford History of Modern Europe، Oxford University Press, 2000 pp. 147–148
  19. Yaacov Ro'i, "Soviet Jewry from Identification to Identity"، in Eliezer Ben Rafael, Yosef Gorni, Yaacov Ro'i (eds.) Contemporary Jewries: Convergence and Divergence، BRILL 2003 p. 186.
  20. Dov Katz, "Languages of the Diaspora"، in Mark Avrum Ehrlich (ed.)، Encyclopedia of the Jewish Diaspora: Origins, Experiences, and Culture, Volume 1، ABC-CLIO 2008 pp. 193ff.، p. 195.
  21. ^ ا ب "The Jewish Population of the World (2010)"۔ Jewish Virtual Library۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2017  ، based on American Jewish Year Book۔ American Jewish Committee۔ 05 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2017 
  22. en:Encyclopaedia Judaica
  23. سورۃ الاعراف، آیات 167 تا 168
  24. The New Cambridge Medieval History: Volume 1, C.500-c.700 page 567
  25. Wheeler-Bennett, John W. (Spring 1938)۔ "Ludendorff: The Soldier and the Politician"۔ Virginia Quarterly Review۔ 14 (2): 187–202۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 مارچ 2017 
  26. Richard S. Levy (2005)۔ Antisemitism: A Historical Encyclopedia of Prejudice and Persecution۔ Santa Barbara: ABC-CLIO۔ صفحہ: 623–624۔ ISBN 1-85109-439-3 
  27. ^ ا ب "آرکائیو کاپی"۔ 02 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مارچ 2017 
  28. You're still Jewish – even if your mother isn't | The Independent
  29. Who Is A Jew?
  30. Chelsea Clinton Gives Birth to (Non-Jewish) Baby Girl | The Jewish Press - JewishPress.com | Jewish Press News Briefs | 4 Tishri 5775 – September 27, 2014 | JewishPress.com
  31. http://www.myjewishlearning.com/article/converting-infants-and-children/
  32. Why Is Jewishness Matrilineal? - Maternal Descent In Judaism - Questions & Answers
  33. Raised Christian, But Jewish by Birth – The Forward
  34. http://www.reformjudaism.org/practice/ask-rabbi/i-have-jewish-mother-and-christian-father-what-am-i
  35. "آرکائیو کاپی"۔ 23 اکتوبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مارچ 2017 
  36. http://www.mfa.gov.il/mfa/aboutisrael/state/pages/acquisition%20of%20israeli%20nationality.aspx
  37. Genetic citizenship: DNA testing and the Israeli Law of Return | Journal of Law and the Biosciences | Oxford Academic
  38. Jewish Law - Articles ("The Establishment of Maternity & Paternity in Jewish and American Law")
  39. Michael Balter (3 جون 2010)۔ "Tracing the Roots of Jewishness"۔ Science۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اکتوبر 2013 
  40. "Did You Know 25% of Chabad in Montreal are Sefardi?"۔ The Chabad Sociologist۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 نومبر 2013 
  41. Shahar, Charles. "A Comprehensive Study of the Ultra Orthodox Community of Greater Montreal (2003)۔" Federation CJA (Montreal)۔ 2003.

مزید دیکھیے[ترمیم]

  • سفرادیم
  • بیرونی روابط[ترمیم]