ترک ایک قدیم قوم ہے جو وسطی ایشیا اور ترکی میں آباد ہے۔ یہ لوگ ترکی زبان اور اس کی قریبی زبانیں بولتے ہیں۔ آج کل ان کی زیادہ آبادی ترکیہ، ازبکستان، ترکمانستان اور کرغیزستان میں رہتی ہے۔ قازقستان کی بھی کچھ آبادی ترکی النسل ہے۔
ترک قوم دنیا کے مختلف مقامات پر آباد ہے۔ ذیل کی جدول میں ترک آبادی، ممالک اور مردم شماری دی گئی ہے۔ (ملین میں) :
ترک
ترکوں کا ذکر سب سے پہلے چھٹی صدی عیسوی میں ایک خانہ بدوش قوم کی صورت میں ملتا ہے۔ انھوں نے ایک بہت طاقت ور سلطنت قائم کی تھی، جو منگولیا Mangolia اور شمالی چین کی سرحد سے لے کر بحیرہ اسود تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس خانہ بدوش سلطنت کا بانی جسے تومین Tumen اور ترکی کتبوں میں بومن Bumin تھا۔ اس کا بھائی ستیمی Istami جسے چنیوں نے شتی می Shetiemi اور طبری نے سنجیو خاقان لکھا ہے۔ اس نے مغربی جانب فتوحات حاصل کیں۔ گمان ہوتا ہے دونوں بھائی ایک دوسرے سے علحیدہ اور خود مختار تھے۔ اس لیے چینیوں نے مزکورہ سلطنٹوں کو شمالی ترکوں اور مغربی ترکوں کی سلطنت کہہ کر ایک دوسرے سے ممتیز کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان قدیم ترکوں کا اپنے مشرقی اور مغربی خانہ بدوش پیشروں سے کیا تعلق ہے؟ اس آراء کا اظہار کیا گیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پچھلی صدیوں میں ترک موجود تھے، اگرچہ قدرتی طور پر ان کے نام مختلف تھے۔ اس نظریہ کی وضاحت ان متفرق ترکی الفاظ سے مدد لی گئی ہے، جو زمانہ قبل مسیح سے باقی چلے آئے ہیں۔
سیتھائی اور دوسری اقوام کو بھی ترک النسل بتایا جاتا ہے۔ جب کہ چینیوں نے ترکوں کو ہیونگ نوHiung nu کی اولاد یعنی ہن نژاد بتایا ہے اور یہ ہنوں کے مشرقی ہمسایہ تھے، جنھوں نے ہنوں کو پہلی صدی عیسوی کے اواخر میں منگولیاسے نکال دیا تھا۔ اگرچہ حتمی طور پر یہ ثابت نہیں ہوا ہے کہ ہن منگول تھے اور قدیم منگولیMangolieanes اور ہن زبانوں میں بعض ترکی عناصر کا پتہ چلتا ہے کہ صوتی نقطۂ نظر سے ارتقا کی تقریباََ اس سطح پر ہے جس پر قدیم ابتدائی التائی زبان تھی۔
بقول ٹامسن Thomsen کے ’ترک‘ کے معنی قوت و باس کے ہیں۔ کہا جاتا ہے یہ غالباََ ایک قبیلہ کا نام تھا، بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ ایک حکمران خاندان کا نام تھا۔ کتبوں میں ترک کا مفہوم بظاہر سیاسی ہے نہ کہ جنسی، عبارت میرے ترک، میرے ’لوگ‘ کی رہنمائی کرتا ہے۔ ترکوں کے ساتھ اوغوز یا توغوز اکثر آیا ہے۔ یہ علاحدہ قبیلوں یا خاندانوں کی تعداد کے لحاظ کبھی ان کی حثیت ترکوں اور ان کے دشمنوں کی ہے اور بعض مرتبہ خان کی قوم کی حثیت سے آیا ہے۔
شمالی سلطنت
چھٹی صدی عیسوی کے دوسرے نصف حصہ میں چین میں سوئی Sui خاندان نے اقتدار حاصل کر لیا۔ اس خاندان کے زیراثر 581ءمیں دونوں سلطنتوں میں ایک آخری اور قظعی اقتراق پیدا ہو گیا اور ان دونوں سلطنتوں کو ٹانگ Tang خاندان کی برائے نام سیادت تسلیم کرنی پڑی۔ پچاس سال کی محکومی کے بعد شمالی ترکی سلطنت نے (630ءتا 682ء کے لگ بھک) آزادی حاصل کرلی اور یہ سلطنت 744ءتک باقی رہی۔
745ءکے لگ بھگ منگولیا کی حکومت اوغوز کے ہاتھوں سے نکل کر اویغوز کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ ایغوز کا ذکر پہلے پہل شمالی ترکوں کے صمن میں ملتا ہے۔ گو صرف ایک ہی فقرہ ان کے متعلق ہے کہ ’وہ دریائے سلنگا Slanga کے کنارے آباد ہیں‘۔ ترکوں کے ان اوغوزی دشمنوں کو کا الگ خاغان تھا جو شہنشاہ چین کا باج گزار تھا۔
یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ اویغوز لوگ اوغوز کے قبائلی وفاق میں شامل تھے اور کلمات اویغوز اور اوغوز میں خفیف سا فرق ہے، جیسا کہ لہجوں اور بولیوں میں ہوا کرتا ہے۔ تومسن Thomsen بھی اس خیال سے متفق ہے۔ تاہم اورخون Orkhon کا وہ کتبہ جو رام شئٹ Ramsted نے شائع کیا ہے، اس میں وہ خاغان جس نے 746ء تا 759ءتک حکومت کی ہے، اپنے آپ کو اون (10) اویغوز اور قوقوز (9) اوغوز پر حکمران بتاتا ہے۔ اگرچہ چینی ماخذوں کی رو سے اویغوز قبیلوں کی تعداد بھی نو تھی۔
840ءمیں قرغیزوں نے اویغوزوں کی سلظنت کا خاتمہ کر دیا۔ ان اویغوز نے جو سے نکالے گئے، نویں صدی کے قریب دو نئی سلطنتوں کی بنیاد رکھی۔ ایک کانجو میں اور دوسری بیش بلق اور تراخواجہ میں۔ پلیٹ اورچارنس کے مطابق اس علاقہ کو جو اب چینی ترکستان کہلاتا ہے ترکی تہذیب میں ڈھال نے کا سب سے پہلے زیادہ تر اویغوز نے ہی انجان دیا۔ تاہم یہ امر مشبہ ہے، ممکن ہے یہ عمل ایغوز کے پیشتروں ہی کے زمانے میں متعمدبعہ ترقی کرچکا ہو۔ کیوں کہ عرب کاشغر اور ان سب ممالک کو ابتدا ہی سے خالص ترکی علاقے سمجھتے رہے ہیں۔
مذکورہ بالا الذکر دو ترکی سلطنتوں میں ایک (کانجو Kan djou والی ) پر 1028ءمیں قبیلہ تنگت کا قبضہ ہو گیا۔ جب کہ دوسری منگولی عہد تک باقی رہی۔ 824ءمیں کانجو کے اویغوزوں کے سامنے قتائی سلطنت کے بانی اپاؤکی Apaoki نے جس نے کچھ عرصہ قبل قرغیزوں کو منگولیا سے نکال باہر کیا تھا، یہ تجویز پیش کی کہ وہ دریائے اورخون کے کنارے اپنے قدیم گھروں میں واپس آجائیں۔ لیکن اویغوز اس وقت تک نئے وطن کے حالات و ماحول سے مانوس ہو چکے تھے اور دوبارہ خانہ بدوش نہیں بناچاہتے تھے، اس لیے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔
قرقیزپر قتائی کی فتحیابی درحقیقت میں منگولیا میں ترکی حکومت کے خاتمہ اور منگولی عناصر کی حکومت کا آغاز تھا کی نشادہی کرتی ہے۔ قرقیز ترکی النسل قوموں میں سے آخری قوم تھے جو منگولیا میں آباد تھے، تنہا ایسے جن کی یادیں اب تک وہاں باقی رہی ہیں۔ چنانچہ منگولیا عہد سے پہلے کی سب قبریں قرغیز قبریں کہلاتی ہیں۔ (ترک۔ معارف اسلامیہ)
مغربی سلطنت
نوشیروان عادل (531 تا 579) ساسانی حکمران نوشیروان عادل نے مغربی ترکوں سے جن کا حکمران ایل خان تھا، دوستانہ تعلقات قائم کریئے اور ان کی مدد سے افغانستان میں ہنوں کو شکست دی اور اس کے بعد اس نے خزر قبائل پر فوج کشی کی اور ان کی طاقت کو پارہ پارہ کر دیا۔ اس سے بھی ترکوں کی طاقت میں خاطرخواہ اضافہ ہوا اور افغانستان میں ہنوں کے خالی کردہ علاقوں پر ترک برائے جمان ہو گئے۔ یہی وجہ ہے تھی جس کے سبب ترکوں اور نوشیروان میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ 765ءمیں ترکوں کے سردار ویزابول Dizabul نے نوشیروان سے اتحاد کی کوشش کی اور نوشیرواں کے دربار میں اپنا ایک سفیر بھیجا، لیکن نوشیروان نے یہ درخواست مسترد کردی اور سفیر کو زہر دے کر ہلاک کر وادیا۔ اس واقع کے بعد ترکوں نے زورشور سے یلغار شروع کردی، مگر نوشیروانی عہد ایرانی حکومت کے عروج کا عہد تھا۔ لہذ انوشیروان نے بھی جوابی کارروائی کی اور ترکوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ ترکوں نے اپنی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے رومی حکومت سے اتحاد کی کوشش کی، مگر قیصر جسٹین Jasttain اس کے لیے راضی نہیں ہوا۔ مگر چارسال کے بعد 275ءمیں ترکوں سے باضابطہ اتحاد کر لیا اور ترکوں نے ایرانی مملکت پر زور شور سے حملہ شروع کر دیے۔ نوشیروان کے جانشین ہرمزد کے سپہ سالار بہرام چوبین نے ترکوں کو کئی جنگوں کے بعد انھیں سخت شکست دی، مگر ترکوں کا ایرانی مملکت کے شمالی حصہ پر قبضہ بدستور برقرار رہا۔ (ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم،106 تا 110)
تانگ Tang خاندان نے افغانستان میں ترکوں کی مغربی سلطنت کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا اور اپنا اقتدار پامیر کے مغربی علاقوں تک قائم کر لیا۔ تقریباََ سوسال (659ءتا 751ء) تک ہندوکش کے شمال جنوب کی سولہ بادشاہیاں چینیوں کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرتی تھیں، جو حقیقی کی بجائے برائے نام تھا۔ (افغانستان۔ معارف اسلامیہ)
چین کے تانگ Tang خاندان کی ترکوں نے سیادت قبول کرلی تھی۔ مگر مغربی ترکوں نے جلد ہی شمالی ترکوں کے بعد اپنی آزادی اور اقتدار دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور کچھ عرصہ (659ءتا 751ء) کے لیے شمالی ترکوں کے زیر نگر ہو گئے۔ مگر شمالی ترک مغربی ترکوں کو مستقل مفتعاد بنا نہیں سکے۔ مغربی ترک قبیلوں میں تیورگیش سب سے ممتاز تھے اور ان کے سرداروں نے آخر میں خانیت کے اختیار اپنے ہاتھوں میں لے لیے تھے۔ تیورگیش Turgesh سلطنت کا خاتمہ121ھ/739ء میں نصر بن سیار کی قیادت میں عربوں کے ہاتھوں ہوا۔ (ترک۔ معارف اسلامیہ)
بوزنطنی ذرائع سے پتہ کرتا ہے کہ576ءمیں ترکوں نے خاکنائے کریما Tauric Bosporus فتح کر لیا تھا۔ 581ءمیں وہ خرسون Chersoneses کی دیواروں کے سامنے پہنچ گئے، لیکن جزیرہ نما کریما Tauric Peninsula پر ان کی حکومت زیادہ نہیں رہی۔ 590ءکے قریب وہاں بوزنطینی حکومت دوبارہ قائم ہو چکی تھی۔ 568ء سے 598ءتک کے وقائع بوزنطنی ماخذ میں ملتے ہیں۔ 568ءمیں زمرخوس Zenarchos کی سرکردگی میں ترکوں کے پاس بوزنطی شفارت پھیجی گئی، زمرخوس نے نہر اتل Atal (والگا Volga) کو غبور کیا اور مغڑبی ترکوں کے پاس قاغان کی قیام گاہ جو شہر کوچا Kuca کے شمال میں آق تاغ (سفید پہاڑوں) میں تھی۔ ساسانیوں کے خلاف مشترکہ فوجی اقدام کے بارے میں گفت شنید ہوتی رہی۔ مگر کوئی دیر پا اتحاد قائم نہیں ہوا۔ چند سال کے بعد ترک بونطیوں اور ایرانیوں سے جنگ میں مصرف ہو گئے۔ (ترک۔ معارف اسلامیہ)
جب ترکوں نے قوم آلان Alans کو فتح کیا تو ساسانی سلطنت کی حدودیں ترکی علاقہ سے نہ صرف وسطہ اشیاء بلکہ بحیرہ خزر سے آملیں۔ غالباََ یہی ترک تھے جن کے خلاف دربند کی سدیں تعمیر ہوئیں۔ خزر نے ترکی خانہ بدوش سلطنت کی روایات کو قائم رکھا۔ انھوں نے ساتویں صدی عیسویں میں بہت قوت حاصل کرلی تھی۔ بحیرہ خزر کے مشرقی علاقوں میں ساسانیوں نے اپنے ترک ہمسایوں کے خلاف مدافعتی قلعے تعمیر کیے۔ صوبہ جرجان کی حفاظت کے لیے آجری سد بنائی گئی۔ لیکن یہ ترکوں کے فاتحانہ حملون کی روک تھام نہ کرسکیں۔ جرجان اور طبرستان کے درمیانی سرحد پر ایک اور اس لیے دیوار تعمیر کی گئی تھی کہ صوبہ جرجان ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ کتاب ال آغانی کے مطابق رود گرگان کے ترکوں نے ایرانیوں کی زبان اور مذہب اختیار کر لیا تھا۔ اس لیے ساسانیوں کے زمانے میں غالباََ چھٹی صدی عیسوی میں ترک اس علاقہ کو فتح کرچکے ہوں گے۔ (ترک۔ معارف اسلامیہ)
ترکوں میں اشاعت اسلام
98ھ/716ء میں عربوں اور جرجان کے ترکوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ اس میں اگرچہ ترک کامیاب رہے۔ اس زمانے میں ساسانی سرحدیں دریائے مرغاب تک تھیں اور آمو دریا کے کنارے جو محاربات ہوئے اس میں عموما َترک کامیاب رہے، لیکن اس علاقے میں ترک جو اب ساسانیوں کے سرپرست ہو گئے تھے۔ عربوں کے خلاف معرکہ آرائیوں میں اتنے زیادہ کامیاب نہیں رہے۔ عربوں نے امن و آتشی کی مہمات بھی ترکوں کے پاس بھیجیں۔ خلیفہ ہشام (105ھ / 724ء تا 125ھ / 743ء) نے ترکوں کے بادشاہ کو دعوت اسلام دی تھی۔ (ترک۔ معارف اسلامیہ)
اگرچہ ہجرت کی پہلی صدیوں میں ترکی حملہ آوروں کے خلاف دفاعی جنگ کے علاوہ ترکی علاقے فتح کرنے کے لیے فوج کشی بھی کی گئی، تاہم مسلمانوں کی جنگی کامیابیوں کے قبول اسلام پر بہت کم اثر ہوا۔ اس لیے جو اصول رسول اللہ ﷺ نے حبشیوں کے لیے وضع کیا تھا اس کا اطلاق ترکوں پر بھی کیا گیا، یعنی جب تک وہ تم سے تعرزض نہ کریں تم بھی ان سے تعرض نہ کرو۔ (ترک۔ معارف اسلامیہ)
کفار ترکوں کی آخری یورش 291ھ/904ء میں پسپا کر دی گئی، بالاآخر ترکوں نے چوتھی ہجری / دسویں عیسوی میں اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنا شروع کیا اور 283ھ/299ء میں مسلم ترک پہلی دفع بخارا میں فاتحانہ داخل ہوئے۔ اس سے بھی اہم سلجوقی ترکوں کے ہاتھوں پانچویں ہجری / گیارویں عیسویں میں ایشیائے کوچک کو فتح کیا گیا اور ایلک خانیہ یا آل افراسیاب کا قبول اسلام، جو ایک کثیر تعداد میں یعنی دو لاکھ ترک قوم کا قبول اسلام تھا اور یہ سلسلہ جاری رہا، حتیٰ وسطہ ایشیا میں اسلام کی اشاعت میں کفار قرہ ختائی سلطنت کی تاسیس سے کوئی رکاوٹ نہیں ہوئی۔ یہ سلطنت بارہویں صدی میں وجود میں آئی تھی۔ اس وقت خان بلاساغون کی ریاست ان بلاد میں انتہائی شمالی علاقہ میں تھی۔ جب اس سلطنت کے حصہ بخرے ہو گئے، تو اس وقت بھی دریائے ایلی EYli کے شمال میں اسلامی سلطنتیں موجود تھیں۔ (ترک۔ معارف اسلامیہ)
سلطنت مغول
سلطنت مغول کا قیام بہ نسبت خود مغولوں کے ترکوں کے لیے بہت اہم ثابت ہوا۔ بشتر مغول ترکوں میں ضم ہو گئے، اس طرح نہ صرف ترکوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، بلکہ خصوصیت کے ساتھ سیاسی حثیت سے ان کے لیے تقویت کا باعث بن گئے۔ چودویں صدی میں التون اردو Golden Horde کی تاسیس کو ترکوں کی سیاسی تاریخ میں خاص اہمیت حاصل ہو گئی اور اس سلطنت کے انحلال کے بعد جو سلطنتیں وجود میں آئیں، جو اگرچہ تارتاری تھیں مگر اسلام اور ترکوں کے اثرات کے تحت تھیں۔ سائبیریا میں دریائے ارتش Artish کے کنارے جدید شہر ٹوباسک Tobolsk کے پاس ایک نئی تارتاری سلطنت قائم ہوئی۔ اب بجائے یلغمار کے یہ ملک اسلام کی سرحدی چوکی بن گیا۔ کلمہ تارتار جو پہلے مغولوں کے لیے استعمال ہوتا تھا، اب ترکی قوم کا نام ہو گیا اور ترکوں میں بالاآخر اسلام کا عمل پندرہویں صدی میں مکمل ہوا اور سولویں صدی کے نصف اول میں جزیرہ نما بلقان اور بحیرہ اسود کے شمالی ساحل سے لے کر چینی سرحدوں تک کے تمام ممالک مسلم ترکوں کے زیر اثر تھے۔ (ترک۔ معارف اسلامیہ)
ترک قبائل
ترکوں کے مختلف قبائل کے بارے میں یعنی ان کے نام عادات و رسوم کے بارے میں زیادہ تر حوالے مسلم جغرافیہ دانوں کے مرحوم منت ہیں۔ اگرچہ ترکی کتبوں چینی سالناموں اور بوزنطی ذرائع اور ماخذ سے ان میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ ان کی عادات اطوار کے زیادہ تفصیلی حالات صرف تیسری صدی ہجری / نویں صدی عیسویں میں صرف عرب جغرافیہ نگاروں سے ملتے ہیں۔ اس جغرافیائی ادب میں ترک نام محض ایک قبائل کے ایک گروہ یا زبانوں کی ایک شاخ کے لیے استعمال ہوا ہے نہ کہ اور خون کے کتبوں اور چینی تواریخ کی طرح ایک ہی قبیلے یا ایک ہی مملکت کے لیے۔ ابوزیدالبلخی خصوصیت کے ساتھ پانچ قبیلوں کا ذکر کرتا ہے جو ایک ہی زبان بولتے تھے۔ ان میں تغزغز، خرخیز، (تغیر غیز) کیماک، غز (اغوز) اور قرلق Karluk (عربی خلخ) (فارسی خلج) ہیں۔ ان میں تغزغز انتہائی شمال مشرق میں آباد تھے۔ اویغوز اور قرلق بلاد اسلام کے نزدیک ترین ہمسائے تھے۔ جب کہ اوغوز مسلم علاقوں سے مستصل علاقے میں آباد تھے۔ یعنی فاراب اور اسیجاب کے علاقوں یعنی جرجان کے مسلم علاقے سے مستصل۔
محمود کاشغری نے ترک قبائل کی تعداد بیس بتائی ہے۔ جو دس دس قبیلوں کے دو گروہ میں تقسیم تھے۔ ایک شمالی اور ایک جنوبی میں مستقیم تھے۔ شمالی گروہ کے یہ قبائل بجناک، قفجاق، اعز، یماک، بشغرف، بسمل، قانی، بیاقو، تتار اور قرقز تھے۔ جنوبی گروہ کے یہ قبائل جگل، تخسی، یغما، اعراق، جرق، جمل، ایغر، تنکت،ختامی اور توغاج (ماچین) تھے۔
شمالی قبائل میں قامی، بیاقو اور بسمل کی اپنی زبانیں تھیں۔ جنوبی گروہ کے دس قبائل جگل، تخسی، یغما، اعراق، جرق، جمل، ایغر، تنکت،ختامی اور توغاج ان قبائل میں سے تھے، جو ترکی زبان نہیں بولتے تھے۔ گو وہ ترکی خوب اچھی طرح جانتے تھے۔ قیر قیز، قفجاق، اغوز، تخسی، یغما، جگل، اعراق اور جرق کی بولیاں خالص ترک تھیں۔ یماک اور بشکر کی بولیاں ترکی کے قریب تھیں۔ (ترک۔ معارف اسلامیہ)
ترکوں کے لیے بلاد اسلام میں غالباََ اغوز کا کلمہ استعمال ہونے لگا تھا۔ کیوں کہ اوغوز بلاد اسلام کے قریبی ہمسائے تھے۔ بقول رشید الدین کے ان اغوز قبائل کی تعداد چوبیس تھی اور محمود کاشغری کے ہاں اکیس قبائل کے نام رشیدالدین کے ناموں میں مشترک ہیں۔ لیکن محمود کاشغری ان قبائل کی تعداد اکیس مانتا ہے۔ کاشغری کے بعد کے زمانے میں ترک اور ترکمان کی اصلاحات دومختلف گروہ کے لیے استعمال ہونے لگیں۔ کیوں کہ مغرب کی طرف ہجرت کرجانے کی وجہ سے ان کی مماثلت دوسرے ترکوں کے ساتھ بالکل معدوم ہو چکی تھی۔ منگولوں کے عہد تک اوغوز نام کی بجائے ترکمان کا رواج نہیں ہوا تھا۔ (ترکمان۔ شاہکار اسلامی انسایئکلوپیڈیا)
دور انحاط
سولویں صدی عیسوی میں ترک ممالک کی اقتصادی زندگی سابقہ ادوار کے مقابلے میں ایک معتدیہ زوال کی مظہر تھی۔ بدوات نے زراعت اور خصوصاََ شہروں کے علمی الراغم ترقی کی تھی۔ ان ملکوں کے مستقبل کو اس حقیقت سے بھی بہت نقصان پہنچا کہ دنیا کی تجارت نے اب اور راستہ اختیار کرلئے۔ ترکوں میں نہ اقتصادی حثیت سے اس کی صلاحیت تھی اور نہ ہی ذہنی حثیت سے کہ وہ روس کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرسکیں۔ سترویں صدی میں روس نے یہ اصول وضع کر لیا تھا کہ شمالی اشیاء کے تمام ممالک روس اور چین کے درمیان ہونا چاہیے۔ لیکن اس بندوبست کی تکمیل فروری 12 تا 25 1888ء میں سینٹ پیٹربرگ کے معاہدے سے ہوئی۔ اس طرح وسطہ اشیاء میں روس نے غازان 1552ء میں اس کی ابتدا کی تھی اور انیسویں صدی کے وسط تک وہ وسطہ اشیاء پر مکمل قبضہ کرچکا تھا۔ (ترک۔ شاہکار اسلامی انسایئکلوپیڈیا)
1917ء اشتراکی انقلاب کے بعد اور خصوصاً1924ءقومیت کے اصول پر عمل شروع ہوا تو روس کی اشتراکی حکومت نے ترکی اقوام کی جمہورائیں اور خود مختار علاقے تشکیل دیے۔ اس طرح ان کی قومی اور مسلم وحدت ختم کرکے انھیں نسلی اور لسانی گروہ میں رکھنے کی کوشش کی۔ ترکوں نے انھیں بے دلی سے قبول کیا۔ گو روس کو قابل ذکر کامیابی نہیں ہوئی۔ اس کی نسبت انیسویں صدی میں ترکوں کو متحدہ کرنے میں عثمانیہ کہیں زیادہ کامیاب رہے۔ اگر عثمانیوں کا دور انحاط نہیں ہوتا تو وہ باآسانی ترکوں کو منظم کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔ مگر بین الاقوامی سازشوں کی بدولت عثمانیوں کو مکمل کامیابی نہیں ہوئی، اگرچہ وہ ترکوں کو متحد کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہے اور انھوں نے روسیوں اور اشتراکیوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی اور ترکی نے روس میں اشتراکی انقلاب کے دوران اور اس سے پہلے ترکوں کے لیے اپنی سرحدیں کھولدیں اور ہزاروں ترک ہجرت کر کے ترکی میں آبسے۔
1990ءمیں روس میں اشترکییت کے زوال کے بعد وہاں کی جمہوریائیں آزاد ہوئیں تو ترکی جمہوریائیں بھی آزاد ہوئیں ہیں۔ وہ اگرچہ لادینیت پر کار بند ہیں، لیکن وہاں مذہب جو اشتراکی دور میں شجر ممنوعہ تھا، اب لوگوں کا وہاں مذہب کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے، مگر حکومتی پابندیاں انھیں انتہا پسندی کی طرف لے جا رہی ہیں۔