ربی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سلسلہ مضامین
یہودیت

  

باب یہودیت


ربی (רבי) یہودی عالم و معلم۔ قدیم عبرانی میں اس لفظ کے معنی سردار یا معلم کے ہوتے ہیں۔ تورات کے معلمین کو کہتے ہیں۔ عربی میں اس کے لیے حاخام کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو حکیم (חכם) سے ماخوذ ہے۔ عرب ممالک میں یہودی پیشواؤوں کو اسی لقب سے پکارا جاتا ہے۔ یہود کے علما کو احبار بھی کہا جاتا ہے، جس کی واحد حبر ہے، یہود اپنے علما اور فقہا کے لیے ربی‘ ربانی اور احبار کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔

درجات و القاب[ترمیم]

  • جاؤون (הרב הגאון ہرب ہجاون)۔ اس کے اقوال اور تجاویز اکثر یہودیوں کے نزدیک قابل قبول ہوتی ہیں۔
  • صدیق (הרב הצדיק ہرب ہصديق)۔ اخلاقی امور کا نگراں۔
  • مرن (מרן)۔ صدر یشیفہ جو دیگر ربیوں کو تعلیم بھی دیتا ہے اور یہودی معاشرہ کا سردار بھی ہوتا ہے۔
  • ادمور (אדמו"ר مختصر) (אדוננו מורנו ורבנו ادوننو مورنو وربنو ہمارے استاذ ہمارے ربی)۔ حسیدی یہودی معاشرہ کا سردار۔

احبار[ترمیم]

الحبر عالم کو کہتے ہیں اس لیے کہ لوگوں کے دلوں پر اس کے علم کا اثر باقی رہتا ہے۔ اور افعال حسنہ میں لوگ اس کے نقش قدم پر چلتے ہیں اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علی ابن ابی طالب نے فرمایا کہ علما تا قیامت باقی رہیں گے اگرچہ ان کی شخصیتیں اس دنیا سے فنا ہو جاتی ہیں لیکن ان کے آثار لوگوں کے دلوں پر باقی رہتے ہیں حبر کی جمع احبار آتی ہے۔ قرآن میں ہے :۔ اتَّخَذُوا أَحْبارَهُمْ وَرُهْبانَهُمْ أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّهِ [ التوبة/ 31] انھوں نے اپنے علما اور مشائخ کو اللہ کے سوا خدا بنا لیا ہے۔[1]

یعقوب (اسرائیل ) کے بارہ بیٹوں میں سے ایک بیٹے کا نام لاوی تھا۔ لاوی کی نسل یعنی بنی لاوی کو یہودی قوم کے مرکزی عبادت خانہ یعنی ہیکل میں کاہنوں کے ساتھ مل کر مختلف خدمات انجام دینے کے لیے چنا گیا تھا (کتاب گنتی 5،6:3) ان کی خدمات کی تفصیل توریت کے عہد نامہ قدیم کی کتاب احبار میں درج ہیں۔

بائبل کے عربی ترجمہ میں اس کتاب کو الاویین ( لاوی کی جمع ) اور انگریزی ترجمہ میں Leviticus کا نام دیا گیا ہے لیکن اردو ترجمہ میں اسے احبار کہہ کر پکارا گیا ہے۔ یہ لفظ حبر (عقلمند ) کی جمع ہے۔ بنی لاوی کے لیے لازم تھا کہ وہ راست بازی اور عقل مندی کو کام میں لاتے ہوئے اپنی دینی خدمات انجام دیں۔

بنی اسرائیل کا قبیلہ بنی لاوی مذہبی خدمات کے سوا کوئی کام کاج نہ کرتا تھا۔ اس کے عوض میں بنی اسرائیل کے باقی گیارہ قبائل بنی لاوی کو عشر یا اپنی آمدنی کا دسواں حصہ دیتے تھے۔ اس کے علاوہ مخصوص قربانیوں کا گوشت یا عام قربانیوں کا مخصوص گوشت جیسے کندھے کا، وہ بھی بنی لاوی کا حق ہوتا تھا۔ بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ وہ اپنے شہروں کے ساتھ ساتھ بنی لاوی کے لیے بھی شہر بسائے اور اُن کے اطراف کی اراضی بھی بنی لاوی کی ملکیت ہوتی تھیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مفردات القرآن، امام راغب اصفہانی