اسرائیل (لقب)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سلسلہ مضامین
یہودیت

  

باب یہودیت

اسرائیل نبی یعقوب کا لقب، جس کا ذکر قرآن مجید میں ایک مقام پر آیا ہے۔ سورة آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے ؛

كُلُّ الطَّعامِ كانَ حِلاًّ لِبَنِي إِسْرائِيلَ إِلاَّ ما حَرَّمَ إِسْرائِيلُ عَلى‏ نَفْسِهِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُنَزَّلَ التَّوْراةُ۔

ہر قسم کا کھانا بنی اسرائیل کے لیے حلال تھا، سوائے ان چیزوں کے جنہیں اسرائیل نے تورات کے نازل ہونے سے پہلے اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا۔

عہد نامہ عتیق میں یعقوب علیہ السلام کے اسرائیل لقب رکھے جانے کے بارے میں اس طرح سے ذکر آیا ہے کہ جب یعقوب اپنے بھائی کے پاس گئے اور راستے میں ایک ندی کو پار کرنے والے تھے تو ایک آدمی ان کے ساتھ گتہم گتھا ہو گیا اور یعقوب کے ساتھ رات بھر کشتی کرتا رہا لیکن دونوں میں سے کوئی ایک بھی غالب نہ ہو سکتا تھا۔ پو پھٹنے پر اس نے کہا “ مجھے جانے دے کیونکہ پو پھٹ چلی ہے“ یعقوب نے اس سے کہا “ جب تک کہ تو مجھے برکت نہ دے میں تجھے نہیں جانے دونگا “ تب اس شخص نے پوچھا کہ تیرا نام کیا ہے؟ تو انھوں نے جواب میں کہا کہ “یعقوب “ تب اس نے کہا کہ تیرا نام آگے کو یعقوب نہ ہوگا بلکہ اسرائیل ہوگا۔ کیونکہ تو نے خدا اور آدمیوں کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالب رہا۔ (پیدائش 22؛ 26 تا 29 )

اسرائیل کے معنی اللہ کی طرف رات کے وقت چلنے یا بڑھنے کے ہیں۔ اور شاید یہ لقب اسرائیل اس لیے پڑا کہ عہد نامہ عتیق کے مطابق جناب یعقوب علیہ السلام نے ایک بار خواب دیکھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ “ ایک سیڑھی زمین پر کھڑی ہے اور اس کا سر آسمان تک پہنچا ہوا ہے۔ اور خدا کے فرشتے اس پر سے چڑھتے اترتے ہیں۔ اور خداوند اس کے اوپر کھڑا کہہ رہا ہے کہ میں تیرا خداوند تیرے باپ ابراہام کا خدا اور اضحاق کا خدا ہوں۔ میں یہ زمین جس پر تو لیٹا ہے، تیری نسل کو دوں گا۔ ( پیدائش 28 ؛ 13، 14)

یعقوب علیہ السلام کی نسل بنی اسرائیل کہلائی۔ سینکڑوں برس ادھر ادھر بھٹکنے کے بعد بیسویں صدی میں قوم اپنی سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ قرآن مجید میں متعدد بار بنی اسرائیل کا ذکر آیا ہے اور ایک مکمل سورة بھی اسی نام سے ہے۔ ان کا مذہب یہودیت ہے جس کی بنا پر انھیں یہودی کہا جاتا ہے۔ [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا - ج4، ص148- قاسم محمود، عطش درانی-مکتبہ شاہکار، لاہور