مندرجات کا رخ کریں

جودی پہاڑ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(کوه جودی سے رجوع مکرر)
جودی، کودی، کردُو
شرناق سے دیکھا جانے والا پہاڑی سلسلہ
بلند ترین مقام
بلندی2,089 میٹر (6,854 فٹ)
جغرافیہ
مقامصوبہ شرناق، جنوب مشرقی اناطولیہ علاقہ، ترکی
سلسلہ کوہاناطولیہ
پہاڑ کی چوٹی پر نوح کی کشتی کا اتراؤ کی عکاسی (تیرہویں صدی)

جودی پہاڑ (عربی: الجوديّ al-Ǧūdiyy، آرامی: קרדוQardū،[1] کرد: Cûdî‏، کلاسیکی سریانی: ܩܪܕܘ Qardū،[1] ترکی زبان: Cudi)، ابتدائی مسیحی اور اسلامی روایت کے مطابق (قرآن، سورہ ھود:44 کے مطابق)، یہ پہاڑ نوح کے نزول کا مقام تھا۔ جہاں طوفان نوح کے بعد کشتی آکر رُکی تھی۔

اسلامی روایات

[ترمیم]

جودی اسم علم ہے ایک پہاڑ کا نام ہے جس پر کشتی نوح آکر ٹھہر گئی تھی، اس کا نام سورۂ ہود کی آیت 44 میں آیا ہے۔
جودی پہاڑ کہاں ہے جس پر کشتی ٹھہری تھی‘ اس کے بارے میں معجم البلدان میں لکھا ہے کہ یہ ایک پہاڑ ہے جو دجلہ سے مشرقی جانب ہے جزیرہ ابن عمر پر محیط ہے اور یہ شہر موصل کے مضافات میں ہے (جو عراق کے شہروں میں سے ہے) یہ جزیرہ ابن عمر برقعبدی کی طرف منسوب ہے۔ محقق ابن جزری امام التجوید والقرأۃ کی نسبت بھی اسی کی طرف ہے۔[2] نوح (علیہ السلام) کا ظہور اس سرزمین میں ہوا تھا جو دجلہ و فرات کی وادیوں میں واقع ہے اور دجلہ و فرات آرمینیا کے پہاڑوں سے نکلتے ہیں اور بہت دور تک الگ الگ بہہ کر عراق زیریں میں باہم مل جاتے ہیں اور پھر خلیج فارس میں سمندر سے ہم کنار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح آرمینیا کے یہ پہاڑ ” اراراط “ کے علاقہ میں واقع ہیں لیکن قرآن کریم نے اس جگہ کا نام لیا جہاں کشتی ٹھہری تھی اور ” جودی “ تھا۔ جودی پہاڑی آج بھی اس نام سے قائم ہے اس کا محل وقوع حضرت نوح (علیہ السلام) کے وطن اصلی عراق، موصل کے شمال میں جزیرہ ابن عمر کے قریب آرمینیہ کی سرحد پر ہے، یہ ایک کوہستانی سلسلہ ہے جس کے ایک حصہ کا نام جودی ہے، اسی کے ایک حصہ کو اراراط کہا جاتا ہے، موجودہ تورات میں کشتی ٹھہرنے کا مقام کوہ اراراط کو بتلایا ہے، ان دونوں روایتوں میں کوئی ایسا تضاد نہیں، مگر مشہور قدیم تاریخوں میں بھی یہی ہے کہ نوح (علیہ السلام) کی کشتی جودی پہاڑ پر آکر ٹھہری تھی۔ قدیم تاریخوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ عراق کے بہت سے مقامات میں اس کشتی کے ٹکڑے اب تک موجود ہیں جن کو تبرک کے طور پر رکھا اور استعمال کیا جاتا ہے۔[3]

قرآن میں ذکر

[ترمیم]

قرآن میں جودی کا ذکر یوں آیا ہے:
وَقِیلَ یَااٴَرْضُ ابْلَعِی مَائَکِ
ترجمہ: حکم دیا گیا کہ اے زمین! اپنے پانی نگل جاؤ

وَیَاسَمَاءُ اٴَقْلِعِی وَ
ترجمہ: اور آسمان کو حکم ہوا ”اے آسمان ہاتھ روک لے“
غِیضَ الْمَاءُ
ترجمہ: ”پانی نیچے بیٹھ گیا“۔
وَقُضِیَ الْاٴَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُودِیِّ
ترجمہ: ”اور کشتی کوہ جودی کے دامن سے آلگی“۔
وَقِیلَ بُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ
ترجمہ: ”اس وقت کہا گیا: دور ہو ظالم قوم “۔[4]

* طوفان نوح کے حالیہ انکشافات*

کوہ جودی، جو ترکی میں واقع ہے، جس کی بلندی 2,089 میٹر (6,854 فٹ) ہے۔ یہ جنوب مشرقی اناطولیہ کے علاقے میں ایک پہاڑ ہے۔ اس پہاڑ کو ترکی میں "جودی" یا "کودی" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نام حضرت نوحؑ کی کشتی سے بھی جڑا ہوا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طوفان کے بعد اسی پہاڑ پر جا کر ٹھہری تھی۔ ظاہر ہے پانی پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ گیا تھا۔ طوفان نوح کیا تھا آج سمجھ میں اتا ہے کہ یہ کلاؤڈبرسٹ تھا جس سے زمین پر 2 کلومیٹر اور 89 میٹر پانی کھڑا ہو گیا تھا اور زمین پر ہر شے ڈوب گئی تھی

سعودی عرب کے پہاڑی سلسلوں میں آج بھی پہاڑوں سے پانی اترنے کے نشانات نظر آتے ہیں۔ میں نے خود نجد کے شہر الریاض کے قریب وادی حنیفہ میں پہاڑ پر گھونگے اور سپیاں دیکھی ہیں جو اس بات کا واضع ثبوت ہے کہ ان وادیوں میں عرصے تک ٹھہرے رہا اور بیالوجیک لائف وجود میں آگئی تھی یاد رہے کہ کشتی نوح کی باقیات کوہ جودی کی چوٹی پر آج بھی محفوظ ہیں۔

جب نوح علیہ السلام کشتی بنا رہے تھے، مگر وہاں، جہاں پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ گرد و پیش زمین خشک تھی آسمان بالکل صاف، نہ بادل تھے نہ بارش کی کوئی آہٹ۔ لیکن نوحؑ کے کانوں میں وحی کی بازگشت تھی. "ایک طوفان آنے والا ہے۔ زمین ڈوب جائے گی۔ سرکش غرق ہوں گے۔" یہ عام آدمی کے لیے ایک دیوانے کا خواب ہو سکتا تھا، مگر نوحؑ کے لیے یہ رب کا وعدہ تھا۔ اللہ کا حکم تھا: "کشتی بناؤ" اور وہ بنانے لگے۔ درختوں کو کاٹا گیا، لکڑیاں جوڑی گئیں، کیل ٹھونکے گئے۔ اور وہ تین منزلہ کشتی خشکی پر اٹھنے لگی۔ قوم کے سردار روز گزرتے، ہنستے، طعنے دیتے اور کہتے: "کیا سمندر اب تمھارے خوابوں سے نکلے گا؟" نوحؑ نے جواب دیا، جو قرآن میں آج بھی محفوظ ہے:

وَ یَصۡنَعُ الۡفُلۡکَ ۟ وَ کُلَّمَا مَرَّ عَلَیۡہِ مَلَاٌ مِّنۡ قَوۡمِہٖ سَخِرُوۡا مِنۡہُ ؕ قَالَ اِنۡ تَسۡخَرُوۡا مِنَّا فَاِنَّا نَسۡخَرُ مِنۡکُمۡ کَمَا تَسۡخَرُوۡنَ ۔

"اور نوح (علیہ السلام) کشتی بناتے رہے اور جب بھی ان کی قوم کے سردار اُن کے پاس سے گزرتے ان کا مذاق اڑاتے۔ نوح (علیہ السلام انھیں جوابًا) کہتے: اگر (آج) تم ہم سے تمسخر کرتے ہو تو (کل) ہم بھی تم سے تمسخر کریں گے جیسے تم تمسخر کر رہے ہو"(سورہ ہود: 38) یہ کشتی نہیں بن رہی تھی، یہ یقین لکڑی سے جوڑ بنا رہا تھا ، توکل کے کیلوں سے جُڑی ہوئی یہ کشتی، صبر کے پانی سے سیراب کی گئی تھی۔ نوحؑ نے قوم کے قہقہوں کو نہیں سنا، صرف رب کے حکم کو سنا۔ طوفان آیا۔ وہی زمین جسے لوگ خشک سمجھتے تھے، سمندر بن گئی۔ جو کل مذاق کر رہے تھے، آج مدد کے لیے چیخ رہے تھے۔ لیکن وقت گذر چکا تھا۔ دروازہ بند ہو چکا تھا۔ نجات صرف اُس کشتی میں تھی، جو وقت پر اللہ کے حکم پر بنائی گئی تھی۔ نوحؑ علیہ السلام پیغمبر تھے ، مگر ہم خاتم النبیین ﷺ کے اُمتی ہیں۔ ہمارے لیے بھی احکام ہیں، ہدایات ہیں اور کچھ طوفان ہمارے ایمان، وقت، نسل اور اقدار کو بہا لے جانے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ آج ہمیں بھی خشکی پر اپنی کشتی بنانی ہے محنت کی، دعا کی، علم کی اور نیت کی۔ بہت مذاق اڑے گا رکاوٹیں آئیں گی، تاخیر بھی ہوگی۔ مگر حکم ہو چکا ہے۔ کشتی بنانی ہے۔ اپنے ایمان کو بچانا ہے۔ پانی کا انتظار تو بس ڈوبنے کا دوسرا نام ہے۔ یہ ایمان کا سفر ہے۔ یہی بندگی کا امتحان ہے۔ اس سال یعنی اگست ستمبر میں جو سیلاب آیا تھا وہ اس طوفان کا ادنہ سا نمونہ تھا جس سے پاکستان میں کھربوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔

الدعاء یا اللہ تعالی ہمارے جان و مال کی حفاظت فرما اور ناگہانی آفات سے بچا۔ آمین یا رب العالمین Please visit us at https://engineernazirmalik.blogspot.com Cell: 0092300860 4333

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب Jane Dammen McAuliffe (2001)۔ Encyclopaedia Of The Quran, Volume 1۔ Brill Academic Pub۔ ص 146–147۔ ISBN:978-90-04-11465-4
  2. تفسیر انوارالبیان مولانا عاشق الہٰی ,سورہ ہود آیت 49
  3. تفسیر معارف القرآن مفتی محمد شفیع سورہ ہود آیت44
  4. القرآن، سورہ ھود:44