مندرجات کا رخ کریں

ہارون

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(ہارون علیہ السلام سے رجوع مکرر)

کام جاری صارف:Tahir697

ہارون
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1396 ق مء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قدیم مصر   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1274 ق مء [2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد الیعزر [3]،  اتمر [3]  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد عمران/عمرام   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ یوکابد   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
مناصب
کاہن   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 
الیعزر  
عملی زندگی
پیشہ کاہن ،  نبی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان کنعانی زبانیں   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں سنہری بچھڑا [4]  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ہارون (/ˈærən/ یا /ˈɛərən/)[5] ایک نبی ، ایک اعلیٰ کاہن اور موسیٰ کا بڑا بھائی تھا۔[6][7] ہارون کے بارے میں معلومات صرف مذہبی متون سے ملتی ہیں جیسے کہ عبرانی بائبل، نئے عہد نامہ (لیوک، اعمال اور عبرانیوں)اور قرآن مجید۔ عبرانی بائبل بیان کرتی ہے کہ موسیٰ کے برعکس، جو مصری شاہی دربار میں پلے بڑھے،[8][9] ہارون اور اس کی بڑی بہن مریم دریائے نیل کے شمال مشرقی علاقے میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہے۔ جب موسیٰ نے پہلی بار مصری بادشاہ سے بنی اسرائیل کی غلامی کے بارے میں سامنا کیا، ہارون نے فرعون کے لیے اپنے بھائی کے ترجمان کے طور پر کام کیا۔ سینا میں موسیٰ کو دیے گئے قانون کے ایک حصے نے ہارون کو اپنے اور اس کی مرد اولاد کے لیے کہانت عطا کی اور وہ بنی اسرائیل کا پہلا اعلیٰ کاہن بن گیا۔[10][11][12] لیویٹیکل پادریوں یا کوہانیم کو روایتی طور پر مانا جاتا ہے اور ان کے لیے ہارون سے براہ راست پٹریلینی نسل کا ہونا ضروری ہے۔[13] نمبروں کی کتاب کے مطابق، ہارون کی موت 123 سال کی عمر میں، کوہ ہور پر، بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کے چالیسویں سال میں ہوئی۔[14] استثناء، تاہم، ان واقعات کو Moseroth پر رکھتا ہے.[15][16]

ہارون (انگریزی:، Aaron عبرانی:אַהֲרֹן، ) عمران اور یوکابد[17] کے بیٹے موسی اور مریم (کُلثُم، کلثوم)[18] کے بھائی تھے۔ جن کے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ موسی کے ساتھ فرعون کے پاس گئے تھے۔ یہودیوں، [19] مسیحیوں[20] اور مسلمانوں[21] کے عقائد کے مطابق خدا کے مبعوث کردہ پیغمبر تھے۔ هارون بہت فصیح زبان تھے۔[22] اور موسی کے عرصہ نبوت میں ان کے وزیر اور مددگار رہے۔[23] هارون موسی سے تین برس عمر میں بڑے تھے اور روایات کے مطابق جب موسی کے ہمراہ فرعون سے گفتگو کے لیے گئے تو اس وقت ان کی عمر تراسی برس کی تھی، [24] ہارون سرزمین فلسطین کے مقام کوہ میں اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔[25] ان کے چار بیٹے تھے جن کے نام الیعزر، ناداب، ابیہو اور اتامر بیان کیے گئے ہیں۔

یہودی عقائد کے مطابق ہارون دنیا کے سب سے پہلے کاہن تھے اور ان کے بعد کے تمام کاہن ان کے بیٹے ہیں۔ ھارون کی بیٹیاں اور ھارون کی بہنیں یہودیت میں یہودی خواتین کی روحانی راہنما تسلیم کی جاتی ہیں۔ یہودی بادشاہ ہیرودیس کے عہد میں ایک زکریا نام کا کاہن تھا جس کی بیوی کے بارے میں روایت کیا گیا ہے کہ وہ ہارون کی بیٹیوں میں سے تھی اور اس کا نام الیسبع تھا۔ جبکہ مورخین کی ایک کثیر تعداد اس بات کی قائل نہیں کہ الیصابات ہارون کی بہن تھی کیونکہ اس کے اور ھارون کے زمانے میں بہت زیادہ فاصلہ تھا۔

حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہا السلام) کا ذکر قرآن میں

[ترمیم]

قرآن عزیز میں حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کا ذکر بیشمار مقامات میں آیا ہے۔ چونکہ ان کے بیشتر حالات نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبارک حالات سے بہت زیادہ مطابقت رکھتے ہیں اور ان واقعات میں غلامی اور آزادی کی باہم معرکہ آرائی اور حق و باطل کے مقابلہ کی بے نظیر داستان و دیعت ہے نیزان کے اندر بصائر و مواعظ کا نادر ذخیرہ جمع ہے ‘ اس لیے قرآن عزیز نے حسب ضرورت اور حسب موقع و محل جگہ جگہ اس قصہ کے اجزاء کو مجمل اور مفصل طریقہ پر بیان کیا ہے۔ مندرجہ ذیل نقشہ سے ” اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ “ اس واقعہ کی اہمیت کا بھی صحیح اندازہ ہو سکے گا اور اس اولوالعزم پیغمبر کی عظمت شان کا بھی۔
اس نقشہ کے دو حصہ ہیں : پہلے حصے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہا السلام) یا بنی اسرائیل اور فرعون کے واقعات کن کن سورتوں اور کتنی آیات میں مذکور ہیں اور دوسرا حصہ یہ واضح کرتا ہے کہ قرآن عزیز میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہا السلام) کے نامہائے مبارک کتنی جگہ مذکور ہیں اور ان کی مجموعی تعداد کیا ہے ؟
نقشہ۔ 1
بقرہ
٤٧ تا ٦١‘ ٦٣ تا ٧٥‘ ٨٣ تا ٨٧‘ ٩٢‘ ٩٣‘ ١٠٨‘ ٢٢‘ ١٣٦‘ ٢٤٣‘ ٢٤٦ تا ٢٥١
نساء
١٥٣ تا ١٥٦‘ ١٦٤
مائدہ
١٢‘ ١٣‘ ٢٠ تا ٢٥‘ ٣٢‘ ٤٥‘ ٧٠‘ ٧١‘ ٧٨‘ ٧٩
انعام
٨٤ تا ٩٠‘ ١٤٦‘ ١٥٤‘ ١٨٩
اعراف
١٠٣ تا ١٥٧‘ ١٥٩ تا ١٧١
انفال
٥٤
یونس
٧٤ تا ٩٣
ھود
٩٦ تا ٩٩‘ ١١٠
ابراہیم
٥‘ ٦‘ ٨
نحل
١٢٤
بنی اسرائیل
٢ تا ٧‘ ١٠١ تا ١٠٤ کہف ٦٠ تا ٨٢ مریم ٥١ تا ٥٣ طہٰ ٩٠ تا ٩٨ انبیا ٤٨‘ ٤٩ مومنین ٤٥ تا ٤٩ فرقان ٣٥۔٣٦ شعرا ١٠ تا ٦٦ نمل ٧ تا ١٤ قصص ٣ تا ٤٨ عنکبوت ٣٩‘ ٤٠ سجدہ ٢٣‘ ٢٤ احزاب ٢٩ صافات ١١٤ تا ١٢٢ مومن ٢٣ تا ٤٥ زخرف ٣٦ تا ٥٦ دخان ١٧ تا ٣٣ جاثیہ ١٦‘ ١٧ الذاریات ٣٨ تا ٤٠ قمر ٤١ تا ٥٥ صف ٥ جمعہ ٥‘ ٦ تحریم ١١ حاقہ ٩‘ ١٠ مزمل ١٥‘ ١٦ النازعات ١٥ تا ٢٥ فجر ١٠ تا ١٣ ٹوٹل = ٥١٤
نقشہ۔ ٢ موسیٰ (علیہ السلام) ہارون (علیہ السلام) بقرہ ١٣ بقرہ ١ آل عمران ١

نساء ٣ نساء ١ مائدہ ٣ ٠ ٠ انعام ٣ انعام ١ اعراف ٢١ اعراف ٢ یونس ٨ یونس ١ ہود ٣ ــــ٠ ٠ ابراہیم ٣ ٠ ٠ بنی اسرائیل ٣ ٠ ٠ کہف ٢ ٠ ٠ مریم ١ مریم ٢٠ طہٰ ١٧ طہٰ ٣ انبیا ١١ انبیا ١ مومنون ٢ مومنون ١ فرقان ١ فرقان ١ شعرا ٨ شعرا ٢ نمل ٣ ٠ ٠ قصص ١٨ قصص ١ عنکبوت ١

سجدہ ٢ ٠ ٠ احزاب ٢ ٠ ٠ صافات ٢ صافات ٢ مومن ٤ ٠ ٠ شوریٰ ١ فصلت ١ زخرف ١ ٠ ٠ احقاف ٢

ذاریات ١ ٠ ٠ نجم ١ ٠ ٠ صف ١ ٠ ٠ النازعات ١ ٠ ٠ اعلیٰ ١

ٹوٹل = ١٠٧

نسب

[ترمیم]

حضرت ہارون (علیہ السلام) کا نسب چند واسطوں سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) تک پہنچتا ہے ان کے والد کا نام عمران اور والدہ کا نام یوکابد تھا۔ باپ کا سلسلہ نسب یہ ہے :
عمران بن قاہت بن لاوی بن یعقوب (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حقیقی اور بڑے بھائی تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
وَ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰی ثَلٰثِیۡنَ لَیۡلَۃً وَّ اَتۡمَمۡنٰہَا بِعَشۡرٍ فَتَمَّ مِیۡقَاتُ رَبِّہٖۤ اَرۡبَعِیۡنَ لَیۡلَۃً ۚ وَ قَالَ مُوۡسٰی لِاَخِیۡہِ ہٰرُوۡنَ اخۡلُفۡنِیۡ فِیۡ قَوۡمِیۡ وَ اَصۡلِحۡ وَ لَا تَتَّبِعۡ سَبِیۡلَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿سورہ اعراف آیت:142﴾

ہارون علیہ السلام اور گو سالہ پرستی کا واقعہ

[ترمیم]

جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پروردگار عالم سے راز و نیاز میں مصروف اور بنی اسرائیل کے لیے آئین الٰہی ( توراۃ ) حاصل کرنے میں مشغول تھے اور نیچے وادی سینا میں بنی اسرائیل نے سامری کی قیادت میں خود ہی اپنا معبود (گوسالہ) منتخب کر کے اس کی سمادھ لگالی اور پرستش شروع کردی۔ جمہور مفسرین کی تفسیر کے مطابق واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب طور پر توراۃ لینے کے لیے تشریف لے جانے لگے تو بنی اسرائیل سے یہ فرمایا کہ میرے اعتکاف کی مدت ایک ماہ ہے مدت پوری ہونے پر فوراً تمھارے پاس پہنچ جاؤں گا ‘ ہارون ((علیہ السلام)) تمھارے پاس موجود ہیں یہ تمھارے احوال کے نگران رہیں گے مگر طور پر جا کر وہ مدت تیس کی بجائے چالیس دن ہو گئی اس تاخیر سے ایک شخص سامری نے فائدہ اٹھایا۔ اس نے جب یہ دیکھا کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تاخیر سے مضطرب ہو رہے ہیں تو اس نے کہا کہ اگر تم اپنے وہ تمام زیورات میرے پاس لے آؤ جو تم نے مصریوں سے مستعار لیے تھے اور پھر واپس نہ کرسکے تو میں تمھارے فائدہ کی ایک بات کر دوں۔ سامری گو ظاہر میں مسلمان تھا مگر اس کے دل میں کفر و شرک کی نجاست بھری ہوئی تھی پس جب بنی اسرائیل نے تمام سونے کے زیورات لا کر اس کے حوالے کر دیے تو اس نے ان کو بھٹی میں ڈال کر گلا دیا اور اس سے گوسالہ (بچھڑا) کا جسم تیار کیا اور پھر اپنے پاس سے ایک مشت خاک اس کے اندر ڈال دی ‘ اس ترکیب سے گوسالہ میں آثار حیات پیدا ہو گئے اور وہ بچھڑے کی آواز ” بھائیں بھائیں “ بولنے لگا۔ اب سامری نے بنی اسرائیل سے کہا کہ موسیٰ ((علیہ السلام)) سے غلطی اور بھول ہو گئی کہ وہ خدا کی تلاش میں طور پر گیا تمھارا معبود تو یہ موجود ہے۔ صفحات گذشتہ میں یہ اچھی طرح واضح ہو چکا ہے کہ صدیوں تک مصر کی غلامی نے بنی اسرائیل میں مشرکانہ رسوم و عقائد کو پھیلا دیا تھا اور وہ اس رنگ میں کافی حد تک رنگے جا چکے تھے اور گوسالہ پرستی مصر کا قدیم عقیدہ تھا اور ان کے مذہب میں اس کو بہت اہمیت حاصل تھی اسی لیے ان کے ایک بڑے دیوتا (حورس) کا منہ گائے کی شکل کا تھا اور وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ کرہ زمین گائے کے سر پر قائم ہے۔ 1 ؎ سامری نے جب بنی اسرائیل کو ترغیب دی کہ وہ اس کے بنائے ہوئے گوسالہ کو اپنا معبود سمجھیں اور اس کی پوجا کریں تو انھوں نے بآسانی اس کو قبول کر لیا۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے یہ دیکھا تو بنی اسرائیل کو سمجھایا کہ ایسا نہ کرو یہ تو گمراہی کا راستہ ہے مگر انھوں نے ہارون (علیہ السلام) کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ جب تک موسیٰ ((علیہ السلام)) نہ آجائیں ہم اس سے باز آنے والے نہیں۔

یہاں جب یہ نوبت پہنچی تو اللہ تعالیٰ کی مصلحت کا تقاضا ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس واقعہ سے مطلع کر دے ‘ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا : موسیٰ تم نے قوم کو چھوڑ کر یہاں آنے میں اس قدر جلدی کیوں کی ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا خدایا اس لیے کہ تیرے پاس جلد حاضر ہو کر قوم کے لیے ہدایت حاصل کروں اللہ تعالیٰ نے اس وقت ان کو بتایا جس کی ہدایت کے لیے تم اس قدر مضطرب ہو وہ اس گمراہی میں مبتلا ہے حضرت موسیٰ نے یہ سنا تو ان کو سخت رنج ہوا اور غصہ و ندامت کے ساتھ قوم کی طرف واپس ہوئے اور قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا یہ تم نے کیا کیا ؟ مجھ سے ایسی کون سی تاخیر ہو گئی تھی جو تم نے یہ آفت برپا کی ؟ یہ فرماتے جاتے تھے اور غیظ و غضب میں کانپ رہے تھے ‘ حتیٰ کہ ہاتھ سے توراۃ کی الواح بھی گرگئیں۔ بنی اسرائیل نے کہا کہ ہمارا کوئی قصور نہیں مصریوں کے زیورات کے جو بوجھ ہم ساتھ لیے پھر رہے تھے وہ سامری نے ہم سے مانگ کر یہ سوانگ بنا لیا اور ہم کو گمراہ کر دیا۔ ” شرک “ منصب نبوت کے لیے ایک ناقابل برداشت شے ہے اس لیے ‘ اور نیز اس لیے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بہت گرم مزاج تھے انھوں نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کی گردن پکڑ لی اور داڑھی کی جانب ہاتھ بڑھایا تو حضرت ہارون (علیہ السلام) نے فرمایا برادر میری مطلق خطا نہیں ہے میں نے ان کو ہرچند سمجھایا مگر انھوں نے کسی طرح نہیں مانا اور کہنے لگے کہ جب تک موسیٰ ((علیہ السلام)) نہ آجائے ہم تیری بات سننے والے نہیں بلکہ انھوں نے مجھ کو کمزور پا کر میرے قتل کا ارادہ کر لیا تھا جب میں نے یہ حالت دیکھی تو خیال کیا کہ اب اگر ان سے لڑائی کی جائے اور مومنین کا ملین اور ان کے درمیان میں جنگ برپا ہو تو کہیں مجھ پر یہ الزام نہ لگایا جائے کہ میرے پیچھے قوم میں تفرقہ ڈال دیا اس لیے میں خاموشی کے ساتھ تیر ا منتظر رہاپیارے بھائی تو میرے سر کے بال نہ نوچ اور نہ داڑھی پر ہاتھ چلا اور اس طرح دوسروں کو ہنسنے کا موقع نہ دے۔ ہارون (علیہ السلام) کی یہ معقول دلیل سن کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ ان کی جانب سے فرو ہو گیا اور اب سامری کی جانب مخاطب ہو کر فرمایا : سامری تو نے یہ کیا سوانگ بنایا ہے ؟ سامری نے جواب دیا کہ میں نے ایسی بات دیکھی جو ان اسرائیلیوں میں سے کسی نے نہیں دیکھی تھی یعنی غرق فرعون کے وقت جبرائیل (علیہ السلام) گھوڑے پر سوار اسرائیلیوں اور فرعونیوں کے درمیان میں حائل تھے ‘ میں نے دیکھا کہ ان کے گھوڑے کے سم کی خاک میں اثر حیات پیدا ہوجاتا ہے ‘ اور خشک زمین پر سبزہ اگ آتا ہے تو میں نے جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے قدموں کی خاک سے ایک مٹھی بھر لی اور اس خاک کو اس بچھڑے میں ڈال دیا اور اس میں زندگی کے آثار پیدا ہو گئے اور یہ ” بہاں بہاں “ کرنے لگا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اچھا اب تیرے لیے دنیا میں یہ سزا تجویز کی گئی کہ تو پاگلوں کی طرح مارا مارا پھرے اور جب کوئی انسان تیرے قریب آئے تو اس سے بھاگتے ہوئے یہ کہے کہ دیکھنا مجھ کو ہاتھ نہ لگانا ‘ یہ تو دنیوی عذاب ہے اور قیامت میں ایسے نافرمانوں اور گمراہوں کے لیے جو عذاب مقرر ہے وہ تیرے لیے وعدہ الٰہی کی صورت میں پورا ہونے والا ہے۔ اے سامری یہ بھی دیکھ کہ تو نے جس گوسالہ کو معبود بنایا تھا اور اس کی سمادھ لگا کر بیٹھا تھا ہم ابھی اس کو آگ میں ڈال کر خاک کیے دیتے ہیں اور اس خاک کو دریا میں پھینکے دیتے ہیں کہ تجھ کو اور تیرے ان بیوقوف مقتدیوں کو معلوم ہوجائے کہ تمھارے معبود کی قدر و قیمت اور طاقت و قوت کا یہ حال ہے کہ وہ دوسروں پر عنایت و کرم تو کیا کرتا خود اپنی ذات کو ہلاکت و تباہی سے نہ بچا سکا۔ بدبختو یہ معمولی بات بھی نہ سمجھ سکے کہ تمھارا معبود صرف وہی ایک خدا ہے جس کا نہ کوئی ساجھی ہے نہ کوئی شریک اور وہ ہر شے کا عالم و دانا ہے : { وَ لَقَدْ جَآئَکُمْ مُّوْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْم بَعْدِہٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّ اسْمَعُوْا قَالُوْا سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا وَ اُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعِجْلَ بِکُفْرِھِمْ قُلْ بِئْسَمَا یَاْمُرُکُمْ بِہٖٓ اِیْمَانُکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ } [26] ” اور پھر دیکھو ‘ یہ واقعہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) سچائی کی روشن دلیلوں کے ساتھ تمھارے پاس آیا لیکن جب چالیس دن کے لیے تم سے الگ ہو گیا تو تم بچھڑے کے پیچھے پڑ گئے اور ایسا کرتے ہوئے یقیناً تم (شیوہ ایمان میں ثابت قدم نہ تھے) ایمان سے منحرف ہو گئے تھے اور پھر جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے (دین الٰہی پر قائم رہنے کا) تم سے عہد لیا تھا اور کوہ طور کی چوٹیاں تم پر بلند کردی تھیں (تو تم نے اس کے بعد کیا کیا ؟ تمھیں حکم دیا گیا کہ) جو کتاب تمھیں دی گئی ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جاؤ اور اس کے حکموں پر کار بند رہو تم نے (زبان سے) کہا سنا اور (دل سے کہا) نہیں مانتے اور پھر ایسا ہوا کہ تمھارے کفر کی وجہ سے تمھارے دلوں میں گوسالہ پرستی رچ گئی اے پیغمبر ان سے کہو (دعوت حق سے بے نیازی ظاہر کرتے ہوئے) تم اپنے جس ایمان کا دعویٰ کرتے ہو ‘ اگر وہ یہی ایمان ہے تو افسوس اس ایمان پر کیا ہی بری راہ ہے جس پر تمھارا ایمان تمھیں لے جا رہا ہے “ { وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰی مِنْم بَعْدِہٖ مِنْ حُلِیِّھِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ اَلَمْ یَرَوْا اَنَّہٗ لَا یُکَلِّمُھُمْ وَ لَا یَھْدِیْھِمْ سَبِیْلًا اِتَّخَذُوْہُ وَ کَانُوْا ظٰلِمِیْنَ وَ لَمَّا سُقِطَ فِیْٓ اَیْدِیْھِمْ وَ رَاَوْا اَنَّھُمْ قَدْ ضَلُّوْا قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَ یَغْفِرْلَنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ وَ لَمَّا رَجَعَ مُوْسٰٓی اِلٰی قَوْمِہٖ غَضْبَانَ اَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْم بَعْدِیْ اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّکُمْ وَ اَلْقَی الْاَلْوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْہِ یَجُرُّہٗٓ اِلَیْہِ قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَ کَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ فَـلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآئَ وَ لَا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ قَالَ رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَ لِاَخِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُھُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ ذِلَّۃٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ وَ الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْ بَعْدِھَا وَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ رَبَّکَ مِنْم بَعْدِھَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ وَ لَمَّا سَکَتَ عَنْ مُّوْسَی الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ وَ فِیْ نُسْخَتِھَا ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلَّذِیْنَ ھُمْ لِرَبِّھِمْ یَرْھَبُوْنَ } [27] ” پھر ایسا ہوا کہ موسیٰ کی قوم نے اس کے (پہاڑ پر) چلے جانے کے بعد اپنے زیور کی چیزوں سے (یعنی زیور کی چیزیں گلا کر) ایک بچھڑے کا دھڑ بنایا جس سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی اور اسے (پرستش کے لیے) اختیار کر لیا (افسوس ان کی عقلوں پر) کیا انھوں نے اتنی (موٹی سی) بات بھی نہ سمجھی کہ نہ تو وہ ان سے بات کرتا ہے نہ کسی طرح کی رہنمائی کرسکتا ہے ؟ وہ اسے لے بیٹھے اور وہ (اپنے اوپر) ظلم کرنے والے تھے پھر جب ایسا ہوا کہ ( افسوس و ندامت سے) ہاتھ ملنے لگے اور انھوں نے دیکھ لیا کہ (راہ حق سے) قطعاً بھٹک گئے ہیں تو کہنے لگے اگر ہمارے پروردگار نے ہم پر رحم نہیں کیا اور نہ بخشا تو ہمارے لیے تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے اور جب موسیٰ خشم ناک اور افسوس کرتا ہوا اپنی قوم میں لوٹا تو اس نے کہا ” افسوس تم پر کس برے طریقہ پر تم نے میرے پیچھے میری جانشینی کی ‘ تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں ذرا بھی صبر نہ کرسکے “ اس نے (جوش میں آ کر) تختیاں پھینک دیں اور ہارون کو بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگا ‘ ہارون نے کہا ” اے میرے ماں جائے بھائی (میں کیا کروں) لوگوں نے مجھے بے حقیقت سمجھا ‘ اور قریب تھا کہ قتل کر ڈالیں ‘ پس میرے ساتھ ایسا نہ کر کہ دشمن ہنسیں ‘ اور نہ مجھے ( ان) ظالموں کے ساتھ شمار کر “ موسیٰ نے کہا ” پروردگار میرا قصور بخش دے (کہ جوش میں آگیا) اور میرے بھائی کا بھی (کہ گمراہوں کو سختی کے ساتھ نہ روک سکا) اور ہمیں اپنی رحمت کے سایہ میں داخل کر تجھ سے بڑھ کر کون ہے جو رحم کرنے والا ہو۔ “ خدا نے فرمایا ” جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا کی ‘ ان کے حصے میں ان کے پروردگار کا غضب آئے گا ‘ اور دنیا کی زندگی میں بھی ذلت و رسوائی پائیں گے ہم افترا پردازوں کو (ان کی بدعملی کا) اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ہاں جن لوگوں نے برائیوں کے ارتکاب کے بعد (متنبہ ہو کر) توبہ کرلی ‘ اور ایمان لے آئے تو بلاشبہ تمھارا پروردگار توبہ کے بعد بخش دینے والا رحمت والا ہے اور جب موسیٰ کی خشم ناکی فرو ہوئی ‘ تو اس نے تختیاں اٹھالیں ان کی کتابت میں (یعنی ان حکموں میں جو ان پر لکھے ہوئے تھے) ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے جو اپنے پروردگار کا ڈر رکھتے ہیں۔ “

{ وَ مَآ اَعْجَلَکَ عَنْ قَوْمِکَ یٰمُوْسٰی قَالَ ھُمْ اُولَآئِ عَلٰٓی اَثَرِیْ وَعَجِلْتُ اِلَیْکَ رَبِّ لِتَرْضٰی قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَکَ مِنْم بَعْدِکَ اَضَلَّھُمُ السَّامِرِیُّ فَرَجَعَ مُوْسٰٓی اِلٰی قَوْمِہٖ غَضْبَانَ اَسِفًا قَالَ یٰقَوْمِ اَلَمْ یَعِدْکُمْ رَبُّکُمْ وَعْدًا حَسَنًا اَفَطَالَ عَلَیْکُمُ الْعَھْدُ اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ یَّحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِیْ قَالُوْا مَآ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَکَ بِمَلْکِنَا وَ لٰکِنَّا حُمِّلْنَا اَوْزَارًا مِّنْ زِیْنَۃِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰھَا فَکَذٰلِکَ اَلْقَی السَّامِرِیُّ فَاَخْرَجَ لَھُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ فَقَالُوْا ھٰذَآ اِلٰھُکُمْ وَ اِلٰہُ مُوْسٰی فَنَسِیَ اَفَـلَا یَرَوْنَ اَلَّا یَرْجِعُ اِلَیْھِمْ قَوْلًا وَّ لَا یَمْلِکُ لَھُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا وَ لَقَدْ قَالَ لَھُمْ ھٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ یٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِہٖ وَ اِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَ اَطِیْعُوْٓا اَمْرِیْ قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْہِ عٰکِفِیْنَ حتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰی قَالَ یٰھٰرُوْنُ مَا مَنَعَکَ اِذْ رَاَیْتَھُمْ ضَلُّوْٓا اَلَّا تَتَّبِعَنِ اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ قَالَ یَبْنَؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَ لَا بِرَاْسِیْ اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ وَ لَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ قَالَ فَمَا خَطْبُکَ یٰسَامِرِیُّ قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوْا بِہٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَۃً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُھَا وَ کَذٰلِکَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ قَالَ فَاذْھَبْ فَاِنَّ لَکَ فِی الْحَیٰوۃِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ وَ اِنَّ لَکَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَہٗ وَانْظُرْ اِلٰٓی اِلٰھِکَ الَّذِیْ ظَلْتَ عَلَیْہِ عَاکِفًا لَنُحَرِّقَنَّہٗ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّہٗ فِی الْیَمِّ نَسْفًا اِنَّمَآ اِلٰھُکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَسِعَ کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًا } [28] ” اور (جب موسیٰ طور پر حاضر ہوا تو ہم نے پوچھا ) ” اے موسیٰ کس بات نے تجھے جلدی پر ابھارا اور تو قوم کو پیچھے چھوڑ کر چلا آیا ؟ موسیٰ نے عرض کیا وہ مجھ سے دور نہیں میرے نقش قدم پر ہیں اور اے پروردگار میں نے تیرے حضور آنے میں جلدی کی کہ تو خوش ہو ‘ فرمایا مگر ہم نے تیرے پیچھے تیری قوم کی (استقامت کی) آزمائش کی اور سامری نے اسے گمراہ کر دیا پس موسیٰ خشم ناک اور افسوس کرتا ہوا قوم کی طرف لوٹا اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو (یہ تم نے کیا کیا ؟ ) کیا تم سے تمھارے پروردگار نے ایک بڑی بھلائی کا وعدہ نہیں کیا تھا ؟ پھر کیا ایسا ہوا کہ تم پر بڑی مدت گذر گئی ( اور تم اسے یاد نہ رکھ سکے ؟ ) یا یہ بات ہے کہ تم نے چاہا کہ تمھارے پروردگار کا غضب تم پر نازل ہو اس لیے تم نے مجھ سے ٹھہرائی ہوئی بات توڑ ڈالی ؟ انھوں نے کہا ہم نے خود اپنی خواہش سے عہد شکنی نہیں کی بلکہ (ایک دوسرا ہی معاملہ پیش آیا ‘ مصری) قوم کی زیب وزینت کی چیزوں کا ہم پر بوجھ پڑا تھا (یعنی بھاری بھاری زیوروں کا جو مصر میں پہنے جاتے تھے ہم اس بوجھ کے رکھنے کے خواہش مند نہ تھے) وہ ہم نے پھینک دیا (بس ہمارا اتنا ہی قصور ہے) چنانچہ اس طرح (جب سونا فراہم ہو گیا تو) سامری نے اسے آگ میں ڈالا اور ان کے لیے ایک (سنہرا بچھڑا بنا کر) نکال لایا محض ایک دھڑ جس سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی ‘ لوگ یہ دیکھ کر بول اٹھے یہ ہے ہمارا معبود اور موسیٰ کا بھی مگر وہ بھول میں پڑ گیا (افسوس ان کی سمجھ پر ) کیا انھیں یہ (موٹی سی) بات بھی دکھائی نہ دی کہ بچھڑا (آواز تو نکالتا ہے مگر) ان کی بات کا جواب نہیں دے سکتا اور نہ انھیں فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اور ہارون نے اس سے پہلے انھیں (صاف صاف) جتا دیا تھا ” بھائیو یہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تمھاری (استقامت کی) آزمائش ہو رہی ہے تمھارا پروردگار تو خدائے رحمن ہے۔ دیکھو میری پیروی کرو اور میرے کہے سے باہر نہ ہو۔ مگر انھوں نے جواب دیا : جب تک موسیٰ ہمارے پاس واپس نہ آجائے ہم اس کی پرستش پر جمے ہی رہیں گے بہرحال موسیٰ نے (اب ہارون سے) کہا اے ہارون جب تو نے دیکھا کہ یہ لوگ گمراہ ہو گئے ہیں تو کیا بات ہوئی کہ انھیں روکا نہیں ؟ کیا تو نے پسند کیا کہ میرے حکم سے باہر ہوجائے ؟ ہارون بولا اے میرے عزیز بھائی میری داڑھی اور سر کے بال نہ نوچ ( میں نے اگر سختی میں کمی کی تو صرف اس خیال سے کہ) میں ڈرا کہ کہیں تم یہ نہ کہو ‘ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میرے حکم کی راہ نہ دیکھی تب موسیٰ نے (سامری سے) کہا سامری یہ تیر ا کیا حال ہوا ؟ کہا میں نے وہ بات دیکھ لی تھی جو اوروں نے نہیں دیکھی تو میں نے فرشتہ کے نقش قدم (کی مٹی) سے ایک مٹھی بھر لی پھر اس کو (ڈھلے ہوئے بچھڑے میں) ڈال دیا ‘ میرے جی نے ایسی ہی بات مجھے سجھائی موسیٰ نے کہا اگر ایسا ہے تو پھر جا ‘ زندگی میں تیرے لیے یہ ہونا ہے کہ کہے میں اچھوت ہوں اور (آخرت میں عذاب کا) ایک وعدہ ہے جو کبھی ٹلنے والا نہیں اور دیکھ تیرے (گڑھے ہوئے) معبود کا اب کیا حال ہوتا ہے جس کی پوجا پر جم کر بیٹھ رہا تھا ہم اسے جلا کر راکھ کر دیں گے اور راکھ سمندر میں اڑا کر بہا دیں گے ‘ معبود تو تمھارا بس اللہ ہی ہے اس کے سوا کوئی نہیں ‘ وہی ہے جو ہر چیز پر اپنے علم سے چھایا ہوا ہے۔ “ آیات مسطورہ بالا میں حسب ذیل آیت کی تفسیر کے متعلق مفسرین کے درمیان میں کلام ہے : { قَالَ فَمَا خَطْبُکَ یٰسَامِرِیُّ قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوْا بِہٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَۃً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُھَا وَ کَذٰلِکَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ } [29] ” موسیٰ نے کہا ” پس اے سامری تیر ایہ کیا معاملہ ہے ؟ “ سامری نے کہا ” میں نے اس چیز کو دیکھا جس چیز کو انھوں نے نہیں دیکھا پس میں نے ” رسول “ کے نشان سے ایک مٹھی بھر لی پھر اس کو ڈال دیا اور میرے جی نے یہی سجھا دیا۔ “ دراصل اس آیت میں چند باتیں زیر بحث ہیں اور انھی کے فیصلہ پر کل واقعہ کی تفسیر کا مدار ہے : سامری نے وہ کیا شے دیکھی جو دوسروں نے یعنی بنی اسرائیل نے نہیں دیکھی ؟ قَـبَضْتُ قَبْضَہً سے کیا مراد ہے ؟ " اَثَرْ الرَّسُوْلِ میں ” رسول “ سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں یا جبرائیل فرشتہ ؟ نَـبَذْتُھَا سے کیا مراد ہے ؟ واقعہ کی گذشتہ تفصیلات سے اگرچہ جمہور کی رائے معلوم ہو چکی ہے تاہم مختصر طور پر اس کو حضرت شاہ عبد القادر دہلوی کی زبانی پھر سن لیجئے : ” جس وقت بنی اسرائیل پھٹے دریا میں پیٹھے (گھسے) پیچھے فرعون ساتھ فوج کے پیٹھا (داخل ہوا) جبرائیل بیچ میں ہو گئے کہ ان کو ان تک نہ ملنے دیں ‘ سامری نے پہچانا کہ یہ جبرائیل ہیں ان کے پاؤں کے نیچے سے مٹھی بھر مٹی اٹھالی وہی اب سونے کے بچھڑے میں ڈال دی ‘ سونا تھا کافروں کا مال لیا ہوا فریب سے ‘ اس میں مٹی پڑی برکت کی ‘ حق اور باطل مل کر ایک ” کرشمہ “ پیدا ہوا کہ رونق جاندار کی اور آواز اس میں ہو گئی ایسی چیزوں سے بہت بچنا چاہیے اسی سے بت پرستی بڑھتی ہے۔ “ [30] اس تفسیر کے متعلق صاحب روح المعانی ارشاد فرماتے ہیں : ” آیت کی یہ تفسیر وہ ہے جو صحابہ ‘ تابعین ‘ تبع تابعین اور جلیل القدر مفسرین سے منقول ہے۔ “ [31] اس تفسیر کے خلاف دوسری تفسیر مشہور معتزلی ابو مسلم اصفہانی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں آیت کا مطلب یہ ہے کہ سامری نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ جواب دیا کہ مجھ کو بنی اسرائیل کے خلاف یہ بات سوجھی کہ آپ حق پر نہیں ہیں اور ساتھ ہی میں نے آپ کا کچھ اتباع کر لیا تھا اور پیروی اختیار کرلی تھی ‘ مگر میرا دل اس پر نہ جما اور آخر کار میں نے اس اتباع اور پیروی کو بھی ترک کر دیا اور اسی طریق کار کو میرے نفس نے بہتر جانا ‘ گویا ابو مسلم کے نزدیک آیت { بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوْا } [32] کے معنی یہ ہے کہ سامری بنی اسرائیل کے عقیدے کے خلاف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حق پر نہیں سمجھتا تھا اور { فَقَبَضْتُ قَبْضَۃً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ } [33] میں ” رسول “ سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور اَثَرِ الرَّسُوْلِ سے مراد پیروی اور اتباع ہے اور قَبْضَۃً تھوڑی سی پیروی اور فَنَبَذْتُھَا سے ترک اتباع مراد ہے ابو مسلم نے اپنی اس تفسیر کے ثبوت میں لغت عرب سے کچھ استشہادات بھی پیش کیے ہیں اور جمہور کی تفصیل پر کچھ اشکالات بھی وارد کیے ہیں جس کا جواب سید محمود آلوسی نے اپنی تفسیر میں تفصیل کے ساتھ دیا ہے۔ بایں ہمہ ابو مسلم کی اس تفسیر کو امام رازی نے تفسیر کبیر میں قوی ‘ راجح اور صحیح تسلیم کیا ہے وہ فرماتے ہیں : ” یہ واضح رہے کہ ابو مسلم نے جو تفسیر بیان کی ہے اس میں مفسرین کی مخالفت تو ضرور پائی جاتی ہے لیکن حسب ذیل چند وجوہ کے پیش نظر تحقیق سے قریب تر اسی کی تفسیر ہے۔ “ (تفسیر کبیر جلد 6 ص 7٠) چنانچہ علمائے عصر میں سے مولانا ابو الکلام آزاد نے بھی ترجمان القرآن میں اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔ 1 ؎ زیر بحث آیت سے متعلق قرآن عزیز کے سیاق وسباق کے مطالعہ اور اس سلسلہ میں صحیح احادیث نبوی کی تفتیش و تحقیق کے بعد حق اور راجح بات یہ ہے کہ اس مسئلہ میں نبی معصوم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی ایسی تصریح منقول نہیں ہے جس کے بعد ایک جانب کو قطعیت حاصل ہوجائے اور دوسری جانب باطل قرار پائے اور غالباً اسی وجہ سے مشہور محدث و مفسر حافظ عماد الدین ابن کثیر نے اس سلسلہ کی تمام روایات کو سامنے رکھنے کے بعد اگرچہ جمہور کی تائید کی ہے اور ابو مسلم کی تائید نہیں کی بلکہ اس کی تفسیر کو نقل بھی نہیں کیا تاہم جمہور کی تفسیر کو وہ حیثیت نہیں دی جو صاحب روح المعانی نے ذکر فرمائی ہے یعنی یہ کہ جمہور کی تفسیر نصوص حدیثی سے ثابت ہے اور اس لیے دوسرا احتمال بے شبہ الحادو زندقہ ہے چنانچہ انھوں نے آیت کی تفسیر کرنے کے بعد صرف یہ فرمایا : ( (ھذا ھو المشہور عند کثیر من المفسرین او اکثرہم)) [34] ” یہ وہ تفسیر ہے جو بہت سے مفسرین بلکہ اکثر مفسرین کی نسبت سے مشہور ہے۔ “ اور اسی طرح ان کے مشہور معاصر مفسر ابو حیان اندلسی نے البحر المحیط میں ابو مسلم کی تفسیر کو اگرچہ ” قیل “ 2 ؎ کہہ کر نقل کیا ہے مگر اس کے خلاف ایک جملہ بھی نہیں لکھا اور سکوت فرمایا۔ پس ان جلیل القدر مفسرین کے اس طرز تحریر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اگرچہ جمہور کی تفسیر ہی کو صحیح یا راجح سمجھتے ہیں مگر دوسرے احتمال کے متعلق یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ نصوص قطعیہ کے خلاف ہے اور ایسا احتمال ہے جس کی پشت پر الحادو زندقہ کی کار فرمائی ہے۔ البتہ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس آیت کا سیاق وسباق اور قبول و عدم قبول حق کے متعلق اس سلسلہ کی تمام آیات قرآن کا اسلوب بیان ‘ دونوں ہی ابو مسلم کی تفسیر کا قطعاً انکار کرتے اور اس کو تاویل محض ظاہر کرتے ہیں اس لیے کہ آیت زیر بحث کے جملہ بَصُرْتُ [35] 2 ؎ کوئی قول کمزور سمجھا جاتا ہے تو اس کو ” قیل “ کہہ کر بیان کیا جاتا ہے۔ بِمَا لَمْ یُبْصِرُوْا بِہٖ میں بصارت سے بصارت عینی کی جگہ بصیرت قلبی مراد لینا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مخاطب ہوتے ہوئے بھی ” الرسول “ کہہ کر ان کو غائب کے قائم مقام بنانا اور قَبَضْتُ قَبْضَۃً کے معنی مٹھی بھر لینا کی بجائے تھوڑا سا اتباع کرلینا بیان کرنا اور جملہ نَــبَذْتُھَا سے ترک اتباع مراد لینا ‘ یہ سب علاحدہ علاحدہ جملہ کے اعتبار سے اگرچہ محاورات عرب میں قابل تسلیم ہیں لیکن پورے نظم کلام کے پیش نظر ابو مسلم کی تفسیر لچر تاویل سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی اور سیاق وسباق شہادت دے رہے ہیں کہ اس جگہ وہی معنی راجح ہیں جو جمہور کا مختار ہیں۔ کیا یہاں یہ اصولی سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اگر سامری کو صرف یہ بتانا تھا کہ میں دل سے آپ کا معتقد نہیں تھا مگر مصلحتاً کچھ دنوں کے لیے آپ کی پیروی کر رہا تھا اور اب اس کو بھی ترک کر دیا تو اس صاف اور سادہ بات کے لیے قرآن عزیز کو ایسے ذو معنی اور مبہم اظہار بیان کی کس لیے ضرورت پیش آئی کہ بقول مولانا آزاد ” مفسرین کو یہ موقع مل گیا کہ انھوں نے یہودیوں میں مشہور روایت کو ٹھیک ٹھیک آیت زیر بحث پر چسپاں کر دیا۔ “، 1 ؎ پس جمہور کی تفسیر یہود کی روایت نہیں ہے بلکہ خود قرآن کا بولتا ہوا بیان ہے اور صاف اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سوال پر سامری کا جواب ضرور کسی ایسے واقعہ سے تعلق رکھتا ہے جو حیرت زا بھی تھا اور کج فطرت انسانوں کی گمراہی کے لیے اس کو آلہ کار بھی بنایا جا سکتا تھا۔ رہا یہ سوال کہ یہ عجیب و غریب معاملہ ایک باطل پرست کے ہاتھ سے کس طرح ظہور پزیر ہوا تو اس کے متعلق سب سے بہتر جواب شاہ عبد القادر کی وہ تعبیر ہے جو موضح القرآن سے گذشتہ سطور میں نقل کی گئی ‘ یعنی جب ایک باطل کو کسی دوسرے حق کے ساتھ ملایا جائے تو اس کے امتزاج سے ایک کرشمہ پیدا ہوجاتا ہے جو اس ترکیب کا خاصہ اور اس کا حقیقی مزاج کہلاتا ہے ‘ مثلا آپ گلاب کے عطر کو چرکین کے کچھ اجزاء کے ساتھ مخلوط کیجئے تو گلاب کی نفیس اور لطیف خوشبو چرکین کی قابل نفرت بدبو کے ساتھ مل کر ایک ایسی کیفیت پیدا کر دے گی ‘ جس سے بے شبہ نفس چرکین کی بو سے بھی زیادہ دل و دماغ پر برا اثر پڑے گا اور یہ حالت ہوجائے گی کہ ایک سلیم المزاج انسان چرکین کے ایک ڈھیر پر کھڑا ہونا منظور کرسکتا ہے لیکن اس مخلوط بو کو ایک لمحہ کے لیے بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اسی لیے اسلام نے حق و باطل کے ایسے امتزاج کو حرام قرار دیا ہے کہ اس سے سخت گمراہی پھیلتی ہے۔ بہرحال جمہور کی تفسیرہی صحیح اور قرآن عزیز کے اسلوب بیان کے مطابق ہے۔

اردن میں کوہ حور پر موجود حضرت ہارون علیہ السلام کا مزار مبارک

حضرت ہارون (علیہ السلام) کی وفات

[ترمیم]

گذشتہ واقعات میں یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ جب بنی اسرائیل نے ارض مقدس میں داخل ہونے سے انکار کر دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ ان کو یہ اطلاع کردی تھی کہ چالیس سال تک اب تم کو اسی سرزمین میں بھٹکنا پڑے گا اور سرزمین مقدس میں ان افراد میں سے کوئی بھی داخل نہ ہو سکے گا جنھوں نے داخل ہونے سے اس وقت انکار کر دیا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی بتایا کہ موسیٰ اور ہارون (علیہا السلام) بھی تمھارے پاس ہی رہیں گے کیونکہ ان کی اور آنے والی نسل کی رشد و ہدایت کے لیے ان دونوں کا یہاں موجود رہنا ضروری ہے چنانچہ جب بنی اسرائیل ” تیہ “ کے میدان میں گھومتے اور پھرتے پھراتے پہاڑ کی اس چوٹی کے قریب پہنچے جو ” ہور “ کے نام سے مشہور تھی تو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو پیغام اجل آپہنچا ‘ وہ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خدا کے حکم سے ” ہور “ پر چڑھ گئے اور وہیں کچھ روز عبادت الٰہی میں مصروف رہے اور جب حضرت ہارون (علیہ السلام) کا وہاں انتقال ہو گیا تب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کی تجہیز و تکفین کے بعد نیچے اترے اور بنی اسرائیل کو ہارون (علیہ السلام) کی وفات سے مطلع کیا۔ توراۃ میں اس واقعہ کو اس طرح ادا کیا ہے : اور بنی اسرائیل کی ساری جماعت قادس سے روانہ ہو کر کوہ ہور پہنچی اور خداوند نے کوہ ہور پر جو ادوم کی سرحد سے ملا ہوا تھا ‘ موسیٰ اور ہارون سے کہا ‘ ہارون اپنے لوگوں میں جا ملے گا کیونکہ وہ اس ملک میں جو میں نے بنی اسرائیل کو دیا ہے جانے نہیں پائے گا اس لیے کہ مریبہ کے چشمے پر تم نے میرے کلام کے خلاف عمل کیا ‘ لہٰذا تو ہارون اور اس کے بیٹے الیعزر کو اپنے ساتھ لے کر کوہ ہور کے اوپر آ جا اور ہارون کے لباس کو اتار کر اس کے بیٹے الیعزر کو پہنا دینا ‘ کیونکہ ہارون وہیں وفات پاکر اپنے لوگوں میں جا ملے گا اور موسیٰ نے خداوند کے حکم کے مطابق عمل کیا اور ساری جماعت کی آنکھوں کے سامنے کوہ ہور پر چڑھ گئے اور موسیٰ نے ہارون کے لباس کو اتار کر اس کے بیٹے الیعزر کو پہنا دیا اور ہارون نے وہیں پہاڑ کی چوٹی پر رحلت کی تب موسیٰ اور الیعزر پہاڑ سے اتر آئے جب جماعت نے دیکھا کہ ہارون نے وفات پائی تو اسرائیل کے سارے گھرانے کے لوگ ہارون پر تیس دن تک ماتم کرتے رہے۔ “ [36]

بنی اسرائیل کا ہارون علیہ السلام کی شہادت کا موسیٰ علیہ السلام پر الزام لگانا

[ترمیم]

بنی اسرائیل کی ایذاء رسانی پر مذمت کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے :
{ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰی فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا وَ کَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْھًا } [37] ” اے ایمان والو تم ان بنی اسرائیل کی طرح نہ بنو جنھوں نے موسیٰ کو ایذا پہنچائی ‘ پھر اللہ نے اس کو اس بات سے بری کر دیا جو وہ اس کے متعلق کہتے تھے اور موسیٰ اللہ کے نزدیک صاحب وجاہت ہے۔ “
سورہ احزاب کی اسی آیت کے شان نزول میں ابن ابی حاتم نے حضرت علی ؓ سے دوسری روایت نقل کی ہے حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہا السلام) پہاڑ (ہور) پر گئے مگر حضرت ہارون (علیہ السلام) کا وہیں انتقال ہو گیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تنہا واپس ہوئے بنی اسرائیل نے دیکھا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تہمت رکھی کہ اس نے ہارون ((علیہ السلام)) کو قتل کر دیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس تہمت سے بہت دکھ پہنچا تب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ ہارون (علیہ السلام) کی نعش کو بنی اسرائیل کے سامنے پیش کریں ‘ فرشتوں نے فضا میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کی نعش بنی اسرائیل کے مجمع میں پیش کی اور انھوں نے یہ دیکھ کر اطمینان حاصل کیا کہ واقعی ہارون (علیہ السلام) پر قتل کا کوئی نشان نہیں ہے۔

مزید دیکھیے

[ترمیم]

موسیٰ ابن عمران

حوالہ جات

[ترمیم]

  1. مصنف: ماٹس کنٹور — صفحہ: 25 — ISBN 978-0-87668-229-6
  2. مصنف: ماٹس کنٹور — صفحہ: 34 — ISBN 978-0-87668-229-6
  3. عنوان : שְׁמוֹת — باب: 23 — فصل: 6
  4. https://bibeltext.com/study/exodus/32.htm
  5. John C. Wells (2008)۔ Longman Pronunciation Dictionary (3rd ایڈیشن)۔ Longman۔ ISBN 9781405881180 
  6. Ibn Hisham 1967, p. 604; §=897
  7. Exodus 6:16-20, 7:7
  8. سانچہ:Qref
  9. سانچہ:Qref
  10. (Luke 1:5
  11. Acts 7:40
  12. Hebrews 5:4, 7:11, 9:4)
  13. Rockwood 2007, p. 1
  14. Mark Leuchter Mark Leuchter (2021)۔ "How All Kohanim Became Sons of Aaron"۔ TheTorah.com۔ TheTorah.com۔ اخذ شدہ بتاریخ June 29, 2021 
  15. McCurdy 1906, p. 3
  16. Deuteronomy 10:6
  17. خروج 4:14
  18. خروج 12:8
  19. احبار 15:1
  20. اعمال 15:21
  21. قرآن 20:44
  22. خروج 4:14؛ قرآن 28:34
  23. قرآن 20:30
  24. خروج 7: 7
  25. گنتی 20:23
  26. (البقرۃ : 2/92‘ 93)
  27. (الاعراف : 7/148 تا 154)
  28. (طٰہ : 2٠/83 تا 98)
  29. (طٰہ : 2٠/95‘ 96)
  30. (موضح القرآن ‘ سورة طٰہ)
  31. (روح المعانی جلد 16 ص 229)
  32. (سورہ طٰہ : 2٠/96)
  33. (طٰہ : 2٠/96)
  34. (جلد 3 سورة طہ)
  35. 1 ؎ ترجمان القرآن ‘ جلد 2‘ ص 456‘ 457‘
  36. (گنتی باب 2٠‘ آیات 22۔ 29)
  37. (الاحزاب : 33/69)