قوم الیاس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

قوم الیاس بنی اسرائیل کی بعلبک بستی کا بادشاہ اور اس کی رعایا بت پرست ہو گئے تھے۔ اور ان ہی کی ہدایت کے لیے الیاس (علیہ السلام) نبی ہوئے اور ان لوگوں کی بت پرستی کے سبب سے ان لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرایا ہے۔ اسے قوم الیاس کہا گیا ۔

قرآن میں ذکر[ترمیم]

  • وَإِنَّ إِلْيَاسَ لَمِنْ الْمُرْسَلِينَ
  • اور الیاس بھی پیغمبروں میں سے تھے۔
  • إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَلَا تَتَّقُونَ
  • جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ڈرتے کیوں نہیں؟

قوم الیاس کا بت[ترمیم]

حضرت الیاس علیہ السلام بعض کے نزدیک حضرت ہارون کی نسل سے ہیں۔ اللہ نے ان کو ملک شام کے ایک شہر "بعلبک" کی طرف بھیجا۔ وہ لوگ "بعل" نامی ایک بت کو پوجتے تھے۔ حضرت الیاس نے ان کو خدا کے غضب اور بت پرستی کے انجام بد سے ڈرایا۔[1] ابن عساکر نے ابن عباس سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وان الیاس لمن المرسلین “ (اور الیاس (علیہ السلام) بھیجے ہوؤں میں سے ہیں) ان لوگوں نے اس کا بعلبک نام رکھا) کیونکہ وہ بعل کی عبادت کرتے تھے اور ان کی جگہ کا نام البدء تھا تو اس کا بعلبک نام پڑ گیا۔

بعل کے مجاور[ترمیم]

بعل سے مراد وہ بت ہے جسے حضرت الیاس نے توڑ اور ان لوگوں کے پاس سے بھاگ گئے۔ یہ بت سونے کا تھا ‘ اس کی لمبائی بیس ہاتھی اس کے چار منہ تھے اس کی وجہ سے لوگ آزمائش میں مبتلا ہوئے ‘ یہ قوم بعل کی پرستش میں مبتلا تھی ‘ اس کی تعظیم اس حد تک کرتے تھی کہ اس کی نگرانی اور خدمت کے لیے چار سو مجاور مقرر کر رکھے تھے جن کو وہ انبیا کہتے تھے۔ شیطان بعل کے پیٹ میں گھس کر بولتا تھا اور یہ خدام کان لگا کر اس کا کلام سنتے تھے۔ شیطان کوئی گمراہ کن قانون مجاورں کے دلوں میں ڈال دیتا تھا اور مجاور وہ حکم لوگوں کو بتا دیتے تھے ‘ اسی لیے ان مجاروں کو انبیا کہا جاتا تھا۔[2]

قوم الیاس کا علاقہ[ترمیم]

قوم الیاس فلسطین کے مغربی وسطی علاقہ سامرہ (SAMARIA) میں آباد تھی اور چونکہ بعل کی پوجاکرتی تھی۔ یہی لوگ شام کے علاقہ میں اہل بعلبک کہلاتے اسی وجہ سے ان کے شہر کا نام بعلبک پڑ گیا۔ بائبل کی کتاب سلاطین میں ہے کہ بادشاہ اخی اب کی بیوی ازابیل نے بعل نام کے ایک بت کی پرستش شروع کی تھی۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) نے انھیں بت پرستی سے روکا اور معجزے بھی دکھلائے۔ لیکن نافرمان قوم نے ہدایت کی بات ماننے کی بجائے حضرت الیاس (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے منصوبے کو ناکام بناکر خود انہی پر بلائیں مسلط فرمائیں اور حضرت الیاس (علیہ السلام) کو اپنے پاس بلالیا۔ اسرائیلی روایتوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انھیں آسمان پر زندہ اٹھالیا گیا تھا۔ لیکن کسی مستند روایت سے اس بات کی تائید نہیں ہوتی۔[3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تفسیر عثمانی مفسر مولانا شبیر احمد عثمانی،الصافات،125
  2. تفسیر مظہری، قاضی ثناء اللہ پانی پتی
  3. تفسیر آسان قرآن مفتی تقی عثمانی ،الصافات،123