صالح

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(صالح علیہ السلام سے رجوع مکرر)
پیغمبر
صالح
گ

معلومات شخصیت
مقام پیدائش ثمود
وفات 2400 ق م
عمان
والدین ارفکشاد (پدر)

صالح علیہ السلام ایک نبی کا نام ہے جن کا قرآن مجید اور بائبل کے عہدنامہ قدیم میں ذکر آیا ہے۔ یہ قومِ ثمود کی طرف مبعوث کیے گئے۔ آپ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کی نسل میں سے ہیں آپ کا سلسلۂ نسب کچھ یوں ہے:-

صالح بن عبیر بن سیّاف بن ماشیح بن عبید بن خاضر بن ثمود بن عرم بن سام بن نوح ہے۔

اس سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ آپ نوح علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔

واقعہ[ترمیم]

آج سے کم سے کم چار ہزار سال پہلے حجاز مقدس اور تبوک کے درمیان حجر نامی جگہ میں ایک قوم قوم ثمود آباد تھی یہ جگہ اج کل مدائن صالح کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ایک پہاڑی علاقۂ ہے۔ اس قوم نے بہت ترقی کی ان کی ترقی کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ پہاڑوں میں گھر بنا کر رہتے تھے جس کی وجہ سے دشمن کبھی ان سے جیت نہ پاتے۔

حضرت صالح (علیہ السلام) کا ذکر قرآن عزیز میں[ترمیم]

قرآن عزیز میں حضرت صالح (علیہ السلام) کا نام نو جگہ آیا ہے ‘ حسب ذیل اعداد اس کی تصدیق کرتے ہیں :
سورة
آیات
اعراف
٧٣‘ ٧٥‘ ٧٧
ہود
٦١‘ ٦٢‘ ٦٦‘ ٨٩
شعرا
١٤٢
نمل
٤٥
حضرت صالح (علیہ السلام) جس قوم میں پیدا ہوئے اس کو ثمود کہتے ہیں اور ثمود کا ذکر نو (٩) سورتوں میں کیا گیا ہے۔ ذیل کا نقشہ اس کو واضح کرتا ہے :
اعراف ہود حجر نمل فصلت النجم القمر الحاقہ الشمس

حضرت صالح (علیہ السلام) اور ثمود کا نسب نامہ[ترمیم]

علمائے انساب قوم ثمود کے پیغمبر حضرت صالح (علیہ السلام) کے نسب نامہ میں مختلف نظر آتے ہیں۔مشہور حافظ حدیث امام بغویؒ نے آپ کا نسب اس طرح بیان کیا ہے : صالح بن عبید بن آسف بن ماشح بن عبید بن حادر بن ثمود ‘ اور وہب بن منبہؒ مشہور تابعی اس طرح نقل کرتے ہیں : صالح بن عبید بن جابر بن ثمود۔ [1] اگرچہ بغویؒ زمانہ کے اعتبار سے وہبؒ سے بہت بعد میں ہیں اور وہب تورات کے بہت بڑے عالم بھی ہیں۔تاہم حضرت صالح (علیہ السلام) سے ثمود تک نسب کی جو کڑیاں بغویؒ نے جوڑی ہیں علمائے انساب کے نزدیک وہی تاریخی حیثیت سے راجح اور قرین صواب ہیں۔
اس نسب نامہ سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اس قوم کو (جس کے ایک فرد حضرت صالح (علیہ السلام) بھی ہیں) ثمود اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے نسب نامہ کا جد اعلیٰ ثمود ہے ‘اور اسی کی جانب یہ قبیلہ یا قوم منسوب ہے۔ ثمود سے حضرت نوح (علیہ السلام) تک بھی دو قول ہیں ‘ اوّل : ثمود بن عامر بن ارم بن سام بن نوح (علیہ السلام) ۔ دوم : ثمود بن عاد بن عوص بن ارم بن نوح (علیہ السلام) ۔ سید محمود آلوسیؒ صاحب تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ امام ثعلبیؒ دوسرے قول کو راجح سمجھتے ہیں۔ [2] بہرحال ان دونوں روایتوں سے یہ باتفاق ثابت ہوتا ہے کہ قوم ثمود بھی سامی اقوام ہی کی ایک شاخ ہے اور غالباً بلکہ یقیناً یہی وہ افراد قوم ہیں جو عاد ِ اولیٰ کی ہلاکت کے وقت ہود (علیہ السلام) کے ساتھ بچ گئے تھے اور یہی نسل عاد ثانیہ کہلائی ‘اور بلاشبہ یہ قوم بھی عرب ِ بائدہ (ہلاک شدہ عربی نسل) میں سے ہے۔

ثمود کی بستیاں[ترمیم]

ثمود کہاں آباد تھے اور کس خطہ میں پھیلے ہوئے تھے ؟ اس کے متعلق یہ طے شدہ امر ہے کہ ان کی آبادیاں حجر میں تھیں ‘حجاز اور شام کے درمیان وادی قریٰ تک جو میدان نظر آتا ہے یہ سب ان کا مقام سکونت ہے ‘اور آج کل ” فج الناقہ “ کے نام سے مشہور ہے۔ ثمود کی بستیوں کے کھنڈر اور آثار آج تک موجود ہیں ‘ اور اس زمانہ میں بھی بعض مصری اہل تحقیق نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ‘ان کا بیان ہے کہ وہ ایک ایسے مکان میں داخل ہوئے جو ” شاہی حویلی “ کہی جاتی ہے ‘ اس میں متعدد کمرے ہیں اور اس حویلی کے ساتھ ایک بہت بڑا حوض ہے اور یہ پورا مکان پہاڑ کاٹ کر بنایا گیا ہے۔ عرب کا مشہور مؤرخ مسعودی لکھتا ہے :
( (ورممھم باقیۃ واٰثارھم بادیۃ فی طریق من ورد من الشام)) [3] ” جو شخص شام سے حجاز کو آتا ہے اس کی راہ میں ان کے مٹے ہوئے نشان اور بوسیدہ کھنڈر پڑتے ہیں۔ “
حجر کا یہ مقام جو حجرِ ثمود کہلاتا ہے شہر مدین سے جنوب مشرق میں اس طرح واقع ہے کہ خلیج عقبہ اس کے سامنے پڑتی ہے اور جس طرح عاد کو عاد اِرَم کہا گیا ہے۔(حتی کہ قرآن عزیز نے تواِرَمْ کو ان کی مستقل صفت ہی بنادیا) اسی طرح ان کی ہلاکت کے بعد ان کو ثمود ارم یا عاد ثانیہ کہا جاتا ہے۔ مشرق خصوصاً عرب کے بارے میں یورپ کے مستشرقین ١ ؎ جس طرح اپنی حذاقت و مہارت تاریخ کا ثبوت دیا کرتے ہیں اور تحقیق کے نام سے غلط دعاوی کرنے کے عادی ہیں ‘اسی طرح انھوں نے ثمود کو بھی اپنی تحقیق کا تختہ مشق بنایا ہے ‘وہ سوال کرتے ہیں کہ ثمود کی اصل کیا ہے اور ان کا وجود کب ہوا اور کس زمانہ میں ہوا ؟اس سوال کے جواب میں ان کے دو گروہ ہیں ‘ ایک فریق کہتا ہے کہ یہ یہود کا ایک گروہ تھا۔جو فلسطین میں داخل نہیں ہوا تھا اور یہیں بس گیا تھا ‘مگر یہ قول نہ صرف پایہ تحقیق سے گرا ہوا ہے۔بلکہ قطعاً غلط اور مہمل ہے ‘ اس لیے کہ تمام مورخین باتفاق آراء یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ابھی وہ زمانہ قریب بھی نہ آیا تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر نکلتے کہ ثمود کی آبادیاں ہلاک و تباہ ہو چکی تھیں اور ان کا قلع قمع ہو چکا تھا ‘نیز قرآن عزیز تصریح کرتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قوم فرعون نے جھٹلایا تو آل فرعون ہی میں سے ایک مرد مومن نے یہ کہہ کر اپنی قوم کو ڈرایا کہ تمھاری اس تکذیب کا نتیجہ کہیں وہی نہ ہو جو تم سے پہلے قوم نوح ‘عاد اور ثمود اور ان کے بعد کی قوموں کا اپنے پیغمبروں کی تکذیب کی وجہ سے ہوا تھا۔
١ ؎ یورپ میں جو علما مشرق کی تاریخ اور مشرقی علوم سے شغف رکھتے اور ان کے متعلق مباحث و نظریات قائم کرتے ہیں۔ ان کو مستشرق کہتے ہیں ‘ان میں سے بعض اگرچہ حقیقتاً حذاقت و مہارت رکھتے ہیں ‘مگر اکثر محض ظنی اور تخمینی بلکہ من گھڑت نظریے قائم کرکے مشرق سے یا تعصب کا ثبوت دیتے ہیں یا اپنی کم مائیگی علم کا۔
مستشرقین کی دوسری جماعت کہتی ہے کہ یہ عمالقہ میں سے تھے اور فرات کے مغربی ساحل سے اٹھ کر یہاں آباد ہو گئے تھے۔
ان میں سے بعض کا یہ خیال ہے کہ یہ ان عمالقہ میں سے تھے جن کو مصر کے بادشاہ احمس نے خارج البلد کر دیا تھا اور چونکہ مصر کے زمانہ میں فن سنگ تراشی میں انھوں نے کمال حاصل کر لیا تھا ‘اس لیے حجر جا کر پہاڑوں اور پتھروں کو تراش کر بے نظیر عمارات تعمیر کیں اور عام رائج طریقہ پر بھی عالیشان محل بنائے۔ مگر ہم عاد کے واقعہ میں یہ ثابت کر آئے ہیں کہ عاد وثمود سامی اقوام میں سے ہیں اور یہ کہ اہل عرب ان کو محض یہود کی غلط تقلید میں عمالقہ میں سے کہہ دیتے ہیں ‘حالانکہ عملیق بن اُد ‘ کا اس نسل سے کوئی رشتہ نہیں ملتا۔ اس لیے یہ قول بھی صحیح نہیں ہے۔
ان تمام آراء کے خلاف محققین کی رائے یہ ہے کہ یہ عاد کا بقیہ ہیں اور یہی صحیح اور راجح قول ہے ‘اور اہل حضرموت کا یہ دعویٰ کہ ثمود کی آبادیاں اور محلات عاد کی صنائی کا نتیجہ ہیں ‘اس قول کا مخالف نہیں ہے کہ ثمود فن تعمیر میں ید طولیٰ رکھتے تھے اور یہ عمارات ان کی اپنی تعمیر ہیں ‘اس لیے کہ عاد اولیٰ اور عاد ثانیہ بہرحال عاد ہیں۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کا اپنی قوم سے یہ خطاب بھی اسی کا مؤید ہے :
{ وَ اذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآئَ مِنْم بَعْدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَکُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُھُوْلِھَا قُصُوْرًا وَّ تَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًا }[4] ” اور تم اس وقت کو یاد کرو کہ تم کو خدا نے عاد کے بعد ان کا قائم مقام بنایا اور تم کو زمین پر جگہ دی کہ تم اس کی سطح اور نرم حصوں پر محلات بناتے ہو اور تم کو زمین پر جگہ دی کہ تم اس کی سطح اور نرم حصوں پر محلات بناتے ہو اور سنگ تراشی کرکے پہاڑوں میں مکان تراشتے ہو۔ “
رہا ثمود کے زمانہ کا مسئلہ ‘ سو اس کے متعلق کوئی فیصلہ کن منضبط وقت نہیں بتایا جا سکتا ‘اس لیے کہ تاریخ اس بارہ میں غیر مطمئن ہے ‘البتہ یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان کا زمانہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے کا زمانہ ہے اور وہ اس جلیل القدر پیغمبر کی بعثت سے بہت پہلے ہلاک ہو چکے تھے۔ یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ ثمود کی آبادیوں کے قریب بعض ایسی قبریں پائی جاتی ہیں کہ جن پر آرامی زبان کے کتبے لگے ہوئے ہیں اور ان کتبوں پر جو تاریخ کندہ ہے۔وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت سے پہلے کی ہے ‘تو اس سے یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ یہ قوم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد وجود میں آئی ہے ‘حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
یہ دراصل ان لوگوں کی قبریں ہیں۔جو اس قوم کی ہلاکت کے ہزاروں برس کے بعد اتفاقاً یہاں آکر بس گئے اور انھوں نے اپنے بزرگوں کے آثار کی قدامت ظاہر کرنے کے لیے آرامی خط میں ( جو قدیم خط ہے) اپنے کتبے لکھ کر لگا دیے تاکہ یادگار رہیں ورنہ وہ قبریں نہ ثمود کی ہیں اور نہ ان کا یہ زمانہ ہے۔ مصر کا مشہور عیسائی مؤرخ جو رجی زیدان اپنی کتاب ” العرب قبل الاسلام “میں اسی کے قریب قریب لکھتا ہے ‘ کہتا ہے :
” آثار و کتبات کے پڑھنے سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے۔وہ یہ ہے کہ صالح (علیہ السلام) کی قوم کی بستیاں ولادت مسیح سے کچھ پہلے نبطیوں کے اقتدار میں آگئی تھیں ‘یہ لوگ بطرہ کے ساکنین میں سے تھے ‘(جن کا ذکر عنقریب کتاب میں آنے والا ہے)اور ان کے آثار اور ٹیلوں کو بہت سے مستشرقین نے خود دیکھا ہے اور مقدمہ کتاب میں اس کا ذکر تفصیل سے کرچکا ہوں ‘ان ہی کے آثار کو انھوں نے پڑھا ہے جو پتھروں پر کندہ ہیں۔ان میں سب سے زیادہ اہم وہ کھنڈر ہیں جو قصر بنت ‘ قبرباشا ‘ قلعہ اور برج کے ناموں سے موسوم ہیں۔ان پر جو کچھ تحریر ہے وہ نبطی تحریر میں ہے اور ان میں سے بعض یا سب کی سب وہی تحریریں ہیں جو قبروں پر کندہ ہیں۔
مستشرقین نے یہاں جو کچھ پایا ان میں سے حسب ذیل ایک کتبہ بھی ہے۔جو پتھر پر نبطی حروف میں کندہ ہے اور ولادت مسیح (علیہ السلام) سے قریب زمانہ کا مکتوب ہے ‘(کندہ عبارت کا مضمون یہ ہے) ” مقبرہ کمکم بنت وائلہ بنت حرم نے اور کمکم کی بیٹی کلیبہ نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے بنوایا ہے۔اس کی بنا بہت اچھے مہینوں میں شروع کی گئی ہے ‘یہ نبطیوں کے بادشاہ حارث کی تخت نشینی کانواں سال ہے ‘وہ حارث جو اپنے قبیلے کا عاشق صادق ہے۔ پس ” عمی ذوالشریٰ و عرشہ “ ؟ لات ‘ عمند ‘ منوت اور قیس کی ان پر لعنت ہو جو ان قبروں کو فروخت کرے یا رہن رکھے ‘یا ان سے کسی جسم کو یا عضو کو نکالے ‘ یا کمکم ‘اس کی بیٹی اور اس کی اولاد کے علاوہ کسی کو دفن کرے۔ اور جو شخص بھی اس پر لکھے ہوئے کی مخالفت کرے اس پر ذوالشریٰ ‘ ہبل ‘ منوت کی پانچ لعنتیں ہوں ‘اور جو ساحر اس کے خلاف کرے اس پر ایک ہزار درہم حارثی کا تاوان واجب ہے۔مگر یہ کہ اس کے ہاتھ میں کمکم ‘ کلیبہ یا اس کی اولاد میں سے کسی کے ہاتھ کی تحریر ہو جس میں اس اجنبی قبر کے لیے صاف اور صریح الفاظ میں اجازت موجود ہو ‘ اور وہ اصل ہو جعلی نہ ہو۔اس مقبرہ کو وہب اللاۃ بن عبادہ نے بنایا۔ “ [5]

اہل ثمود کا مذہب[ترمیم]

ثمود اپنے بت پرست پیشرو وں کی طرح بت پرست تھے ‘خدائے واحد کے علاوہ بہت سے معبودانِ باطل کے پرستار اور شرک میں مبتلا تھے ‘اس لیے ان کی اصلاح اور احقاق حق کے لیے انہی کے قبیلہ میں سے حضرت صالح (علیہ السلام) کو ناصح پیغمبر اور رسول بنا کر بھیجا گیا تاکہ وہ ان کو راہ ِ راست پر لائیں ‘ان کو خدا کی نعمتیں یاد دلائیں جن سے صبح و شام وہ محظوظ ہوتے رہتے ہیں اور ان پر واضح کریں کہ کائنات کی ہر شے خدا کی توحید اور یکتائی پر شاہد ہے اور یقینی دلائل اور مسکت براہین کے ساتھ ان کی گمراہی کو ظاہر کریں اور بتائیں کہ پرستش و عبادت کے لائق ذات احد کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں ہے۔

قرآن عزیز میں قصص کا مطلب[ترمیم]

قرآن عزیز کی یہ سنت ہے کہ وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے گذشتہ اقوام اور ان کے ہادیوں کے واقعات و حالات بیان کرکے نصیحت و موعظت کا سامان مہیا کرتا ہے ‘اس کا موضوع حکایات و قصص بیان کرنا نہیں ہے۔بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ خدائے تعالیٰ نے جب انسان کو عقل کی روشنی عطا فرمائی ہے تو اس کی ہدایت ونجات ِ اخروی کا کیا سامان مہیا کیا ہے تاکہ وہ ان اسباب کی مدد سے اپنی عقل سے کام لے اور خدا کی مرضیات و نامرضیات کو پہچانے ؟ اس نے بتایا کہ خدائے تعالیٰ کی یہ سنت جاریہ ہے کہ وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے ان ہی میں سے پیغمبر اور رسول بھیجتا ہے ‘وہ ان کو حق کی راہ بتاتے اور ہر قسم کی گمراہی سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔اور تائید میں اقوام وامم کے واقعات بیان کرتا اور تاریخ ماضی کو دہراتا ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ جن اقوام نے اپنے رسولوں کی ہدایات کو تسلیم کیا انھوں نے دنیا و آخرتکی فلاح پائی اور جن امتوں نے ان کی تلقین کا انکار کیا ‘ ان کا مذاق اڑایا اور ان کو جھٹلایا تو خدائے تعالیٰ نے اپنے سچے رسول کی تصدیق کے لیے کبھی بطور خود اور کبھی قوم کے مطالبہ پر ایسی نشانیاں نازل فرمائیں۔
جو نبیوں اور رسولوں کی تصدیق کا باعث بنیں اور ” معجزہ “ کہ لائیں۔لیکن اگر قوم نے اس نشانی ” معجزہ “ کے بعد بھی تکذیب کو نہ چھوڑا اور بغض وعناد سے وہ انکار پر اڑے رہے تو پھر ” عذاب الٰہی “نے آکر ان کو تباہ و ہلاک کر دیا اور ان کے واقعات کو آنے والی اقوام کے لیے عبرت و موعظت کا سامان بنادیا۔ { وَ مَا کَانَ رَبُّکَ مُھْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّھَا رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِنَاج وَ مَا کُنَّا مُھْلِکِی الْقُرٰٓی اِلَّا وَ اَھْلُھَا ظٰلِمُوْنَ } [6] ” اور تیرا رب بستیوں کو اس وقت تک ہلاک کرنے والا نہیں جب تک نہ بھیج دے ان کے صدر مقام میں اپنا رسول جو پڑھ کر سنائے۔اُنکو ہماری آیات اور ہم (اُس وقت تک) بستیوں کو ہلاک نہیں کرتے جب تک ان کے بسنے والے خود ہی ظلم پر نہ اتر آئیں۔ “

معجزہ کی حقیقت[ترمیم]

” معجزہ “ لغت میں عاجز کردینے اور تھکا دینے والی چیز کو کہتے ہیں اور اسلامی اصطلاح میں ایسے عمل کا نام ہے۔جو سلسلہ اسباب کے بغیر عالم وجود میں آجائے ‘اس کو عام بول چال میں ” خرق عادت “ بھی کہتے ہیں ‘ اور اسی بنا پر اس جگہ یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ کیا ” عادت اللہ “ (جس کو ناموس فطرت بھی کہا جاتا ہے) کا ٹوٹنا ممکن ہے ؟ دوسرے الفاظ میں اس سوال کی تعبیر اس طرح کی جا سکتی ہے کہ کیا قانون قدرت میں تبدیلی ممکن ہے ؟ اس سوال کا حل یہ ہے کہ معجزہ کی یہ تعبیر کہ وہ خارق عادت شے کا نام ہے ‘غلط تعبیر ہے اس لیے کہ خدائے تعالیٰ کے قوانین قدرت یا نوامیس فطرت دراصل دو قسموں میں تقسیم ہیں ‘عادتِ عام اور عادت خاص ‘ عادت عام سے قدرت کے وہ قوانین مراد ہیں۔جو باہم اسباب و مسببات کے سلسلہ میں جکڑے ہوئے ہیں مثلاً آگ جلاتی ہے اور پانی خنکی پہنچاتا ہے ‘اور عادت خاص کا مطلب یہ ہے کہ اسباب و مسببات میں علاقہ پیدا کرنے والے یدِ قدرت نے کسی خاص مقصد کے لیے سبب اور مسبّب کے درمیانی رشتہ کو کسی شے سے الگ کر دیا یا بغیر سبب کے مسبّب کو وجود بخش دیا ‘جیسا کہ جلنے کے اسباب موجود ہونے کے باوجود کسی جسم کا آگ سے نہ جلنا ‘ یا دو تین انسانوں کے قابل خوراک سے سو دو سو انسانوں کا شکم سیر ہوجانا اور اپنی اصل مقدار کی حد تک پھر بھی باقی بچ جانا۔
یہ دونوں باتیں چونکہ عام نگاہوں میں قانون قدرت کے خلاف ہیں۔اس لیے جب یہ اور اسی طرح کی کوئی شے رونما ہوتی یا اس کے وجود پزیر ہوجانے کی اطلاع دی جاتی ہے۔تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ قدرت کے قانون یا عادت اللہ کے خلاف ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ قوانین فطرت کی پہلی قسم یعنی عام عادت کے خلاف تو ہوتا ہے۔مگر عادت خاص کے خلاف نہیں ہوتا اور وہ بھی قانون قدرت ہی کی ایک کڑی ہوتی ہے جو عام حالات سے الگ کسی خاص مقصد پورا کرنے کے لیے ظاہر کی جاتی ہے ‘اور اس جگہ وہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس طرح خدائے تعالیٰ اپنے سچے رسول اور پیغمبر کی صداقت و حقانیت کی تصدیق کرتا اور جھٹلانے والوں کو یہ باور کراتا ہے کہ اگر یہ مدعی رسالت اپنے دعوے میں صادق نہ ہوتا تو خدا کی تائید کبھی اس کے ساتھ نہ ہوتی ‘پس عام قانون قدرت سے جدا رسول و پیغمبر کا یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ درحقیقت یہ اس کا اپنا فعل نہیں ہے بلکہ یہ خدا کا فعل ہے جو عادت خاص کی صورت میں نبی کے ہاتھوں ظہور پزیر ہوا تاکہ اس کی صداقت کی دلیل بن سکے۔ اور اس میں شک نہیں کہ اگر کسی نبی اور پیغمبر کو معجزہ نہ بھی دیا جاتا تب بھی پیغمبر کی پیغمبرانہ زندگی ‘کتاب ہدایت کی موجودگی اور عقلی دلائل وبراہین کی روشنی میں اس کی صداقت پر ایمان لانا از بس ضروری ہوتا اور اس کا انکار مذہب کی اصطلاح میں کفر و جمود مانا جاتا تاہم یہ بھی ایک حقیقت تامہ ہے کہ آفتابِ صبح سے زیادہ روشن عقلی و نقلی دلائل کے باوجود عوام کی فطرت اکثر و بیشتر حق و صداقت کے قبول کے لیے بھی دلائل سے زیادہ ایسے امور سے جلد متاثر ہوتی ہے جو عقل کو حیران اور دماغ کو مرعوب کرکے ان پر یہ ظاہر کر دے کہ دعوائے نبوت کے ساتھ نبی کا یہ عمل بلاشبہ خدا کی دی ہوئی ایسی طاقت رکھتا ہے۔جس کا مقابلہ انسانی طاقت سے بالاتر ہے اور اس کے مظاہرہ کے سامنے عاجزو درماندہ ‘اور وہ یقین کرلیتے ہیں کہ بیشک وشبہ اس ہستی کو خدا کی تائید حاصل ہے اور اس لیے یہ جو کچھ بھی کہتا ہے خدا کی جانب سے کہتا ہے۔
تب اس مرحلہ پر پہنچ کر ” عقلیین “ کا یہ کہنا کہ معجزہ دلیل نبوت نہیں ہے۔سر تا سر باطل اور حق تعالیٰ کی صداقت کو جھٹلانا ہے جو کسی طرح بھی ایمان کی علامت نہیں ہو سکتی۔خلاصہ یہ ہے کہ جب تک نبی اور رسول معجزہ نہ دکھلائے نبی کی صداقت اس پر موقوف نہیں ہے لیکن اگر منکرین کے مطالبہ پر یا از خود پیغمبر خدا معجزہ کا مظاہرہ کرے تو یقیناً معجزہ دلیل نبوت ٹھہرے گا اور اس کا انکار صداقت و حقانیت کا انکار اور کفر و جحود کہلائے گا۔ پس ہر خاص و عام کے لیے یہ اعتقاد ضروری ہے کہ انبیا ورسل سے جو معجزات ثبوت اور دلالت کے اعتبار سے قطعی اور یقینی ثابت ہو چکے ہیں۔ان پر ایمان لائے اور ان کے وجود اور ان کی حقیقت کا اعتراف کرے۔ اس لیے کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار درحقیقت اسلام سے انکار ہے۔ البتہ یہ حقیقت کبھی فراموش نہ ہونی چاہیے کہ کسی شخص سے صرف اس قسم کے خارق عادت عمل صادر ہونے کا نام معجزہ نہیں ہے اور محض اس عمل کے بروئے کار لانے سے وہ نبی نہیں ہو سکتا اس لیے کہ نبی اور رسول کے لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس کی تمام زندگی اس طرح آزمائش و امتحان کی کسوٹی پر اتر چکی ہو کہ اس کا کوئی شعبہ زندگی ناقص اور قابل اعتراض نہ ہو بلکہ اس کی تمام تر زندگی میں اخلاق کی بلندی ‘ گناہوں سے معصومیت اور صداقت گفتار و کردار کا کمال ہی پایا جاتا ہو ‘پھر اگر ایسا شخص دعوائے نبوت کرتا اور اپنے دعوے کی صداقت میں علمی دلائل وبراہین کے علاوہ خدا کے نشانات (معجزات) بھی پیش کرتا ہے تو بلاشبہ وہ نبی ہے اور بلاریب اس کا یہ فعل ” معجزہ “ ہے۔ ہم نے ابھی کہا کہ ” معجزہ “ درحقیقت نبی کا اپنا عمل نہیں ہوتا بلکہ وہ خدائے تعالیٰ کا فعل ہے جو نبی کے ہاتھوں سے ظاہر ہوتا اور معجزہ کہلاتا ہے ‘یہ اس لیے کہ نبی و رسول بھی ایک انسان اور بشر ہی ہوتا ہے اور کسی انسان کی قدرت میں یہ نہیں ہے کہ وہ خدائے تعالیٰ کے قوانین عام و خاص میں دخل اندازی یا دراندازی کرسکے ‘یہ تو خدا ہی کی مرضی پر ہے کہ اگر وہ چاہے اور مناسب حال اور تقاضاء وقت سمجھے تو نبی اور رسول کے ہاتھ پر ایسے فعل کا ظہور کرا دے جو اس کے قوانین فطرت کی عادت خاص کی قسم میں داخل ہوں ‘اور اگر نہ چاہے تو نبی و رسول کے لیے بھی اس کا اظہار ناممکن اور محال ہے۔
غزوہ بدر میں جبکہ تین سو تیرہ کے مقابلہ میں سازو سامان سے مسلح ایک ہزار دشمنوں کا لشکر مسلمانوں پر یلغار کرنے آیا تھا۔تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی جانب مٹھی بھر خاک پھینک دی۔ جس کی وجہ سے ہر لشکری کی آنکھ میں خاک کے ریزے پہنچے اور وہ بے چین ہو کر آنکھیں ملنے لگا اور اس طرح مسلمانوں کو حملہ کرکے فتح حاصل ہو گئی ‘اس واقعہ کا مختصر اور معجزانہ انداز میں قرآن عزیز نے جس طرح تذکرہ کیا ہے وہ ہمارے اس دعوے کی قوی اور یقینی دلیل ہے :
{ وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی } [7] ” اور تم نے (اے محمد ! ) وہ مٹھی بھر خاک نہیں پھینکی تھی جو تم نے (اپنے ہاتھ سے ) پھینکی ‘ لیکن وہ تو (حقیقت میں) اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھی۔ “
غور فرمایئے کہ اس مقام پر نبی کے اس عمل کا (جو ان کے ہاتھوں انجام پایا تھا) کس عجیب و غریب انداز سے معجزہ ہونا ثابت کیا گیا ہے ‘کہا جاتا ہے کہ اے پیغمبر ! مٹھی بھر خاک بیشک تمھارے ہاتھ سے پھینکی گئی۔اس لیے کہ تمھارے ہاتھ میں تھی ‘لیکن مٹھی بھر خاک کا یہ اثر کہ دشمن کے محاذ کی دوری اور دشمن کے اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود ان سب کی آنکھوں میں جھونک دی گئی تمھارے ہاتھ سے ناممکن تھا ‘یہ درحقیقت خدا کا فعل تھا کہ اس کے یدقدرت نے ان تمام دشواریوں کو یک لخت ختم کر کے اس مٹھی بھر خاک کو اس حالت تک پہنچا دیا کہ دشمنوں کا پورا لشکر ہزیمت کھا کر فرار ہو گیا۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کو آپ کے سامنے اس طرح واضح کیا گیا کہ معجزہ نبی کا اپنا فعل نہیں ہوتا بلکہ وہ براہ راست خدا کا فعل ہوتا ہے۔جو نبی کے ہاتھوں سے اس کی تائید میں کیا جاتا ہے۔ { وَمَا کَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِج فَاِذَا جَائَ اَمْرُ اللّٰہِ قُضِیَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْمُبْطِلُوْنَ } [8] ” اور کسی رسول کی طاقت میں نہیں کہ وہ کوئی نشانی (معجزہ) لاسکے خدا کی اجازت کے بغیر ‘ پس جب خدا کا حکم آ پہنچتا ہے تو حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اس موقع پر جھٹلانے والے خسارہ میں پڑجاتے ہیں۔ “
{ وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ لَئِنْ جَآئَھُمْ اٰیَۃٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِھَاط قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰہِ وَ مَا یُشْعِرُکُمْلا اَنَّھَآ اِذَا جَآئَتْ لَا یُؤْمِنُوْنَ } [9] ” اور وہ اللہ کی سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آجائے تو اس پر ضرور ایمان لے آئیں گے (اے محمد ! ) آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں تو اللہ ہی کے قبضے میں ہیں۔اور (اے مسلمانو ! تم کو خبر نہیں کہ ان کے پاس اگر یہ نشانیاں آبھی جائیں تو یہ ایمان لانیوالے نہیں ہیں۔ “
معجزہ سے متعلق ہماری یہ بحث اسی شخص کے لیے باعث تسکین ہے جو مذہب کے اس بنیادی عقیدہ کا قائل ہو کہ تمام اشیاء کے خواص ان کے اپنے ذاتی خواص نہیں ہیں۔ بلکہ کسی پیدا کرنے والے نے ان کو عطا کیے ہیں۔پس جو شخص اس عقیدہ کا حامی ہے وہ بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ آگ میں جلانے کی خاصیت پیدا کرنے والے نے عام قانون قدرت اس کے لیے یہی رکھا ہے کہ جو شے اس سے چھو جائے لیکن یہ عقلاً ناممکن نہیں ہے کہ وہ کسی اہم مقصد کی تکمیل کے لیے آگ کی اس خاصیت کو کسی خاص حالت میں سلب کرلے اور وہ اس کے قانون قدرت کی خاص حالت یا خاص عادت شمار ہو۔ لیکن جو شخص اس بنیاد ہی کو تسلیم نہیں کرتا اور ہر شے کے خواص کو اس طرح اس کے ذاتی خواص مانتا ہے کہ کسی حالت اور کسی وقت میں بھی اس خاصیت کا اس شے سے جدا ہونا ممکن نہیں ہے تو اس شخص سے اوّل یہ طے کرنا چاہیے کہ کیا عقل یہ باور کرسکتی ہے کہ جو شے خود اپنے وجود میں دوسرے کی محتاج ہو اس کا کوئی خاصہ بھی ذاتی اور غیر منفک ہو سکتا ہے ؟

ناقۃ اللّٰہ[ترمیم]

غرض حضرت صالح (علیہ السلام) قوم (ثمود) کو بار بار سمجھاتے اور نصیحت فرماتے رہے ‘مگر قوم پر مطلق اثر نہیں ہوا بلکہ اس کا بغض وعناد ترقی پاتا رہا اور ان کی مخالفت بڑھتی ہی رہی اور وہ کسی طرح بت پرستی سے باز نہ آئی ‘اگرچہ ایک مختصر اور کمزور جماعت نے ایمان قبول کر لیا اور وہ مسلمان ہو گئی مگر قوم کے سردار اور بڑے بڑے سرمایہ دار اسی طرح باطل پرستی پر قائم رہے اور انھوں نے خدا کی دی ہوئی ہر قسم کی خوش عیشی اور رفاہیت کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے کفرانِ نعمت کو شعار بنا لیا ‘وہ حضرت صالح (علیہ السلام) کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کرتے کہ صالح ! اگر ہم باطل پرست ہوتے ‘ خدا کے صحیح مذہب کے منکر ہوتے اور اس کے پسندیدہ طریقہ پر قائم نہ ہوتے تو آج ہم کو یہ دھن دولت ‘سرسبز و شاداب باغات کی فراوانی ‘ سیم و زر کی بہتات ‘بلندو عالی شان محلات کی رہائش ‘ میوہ جات اور پھلوں کی کثرت ‘شیریں نہروں اور عمدہ مرغزاروں کی افزائش حاصل نہ ہوتی ‘تو خود کو اور اپنے پیرؤوں کو دیکھ اور پھر ان کی تنگ حالی اور غربت پر نظر کر اور بتلا کہ خدا کے پیارے اور مقبول کون ہیں۔ ہم یا تم ؟
حضرت صالح (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ تم اپنی اس رفاہیت اور عیش سامانی پر شیخی نہ مارو اور خدا کے سچے رسول اور اس کے دین برحق کا مذاق نہ اُڑاؤ ‘اس لیے کہ اگر تمھارے کبروغرور اور عناد کا یہی حال رہا تو پل بھر میں یہ سب فنا ہوجائے گا ‘ اور پھر نہ تم رہو گے اور نہ تمھارا یہ سازو سامان ‘بیشک یہ سب کچھ خدا کی نعمتیں ہیں۔بشرطیکہ ان کو حاصل کرنے والے اس کا شکر ادا کریں اور اس کے سامنے سر نیاز جھکائیں اور بلاشبہ یہی سامان عذاب ولعنت ہیں اگر ان کا استقبال شیخی اور غرور کے ساتھ کیا جائے ‘اس لیے یہ سمجھنا سخت غلطی ہے کہ ہر سامان عیش خوشنودی الٰہی کا ثمرہ ہے۔ثمود کو یہ بھی حیرانی تھی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ہی میں کا ایک انسان خدا کا پیغمبر بن جائے اور وہ خدا کے احکام سنانے لگے ‘ وہ سخت تعجب سے کہتے :
{ ئَ اُنْزِلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ مِنْم بَیْنِنَا } [10] ” کیا ہماری موجودگی میں اس پر (خدا کی) نصیحت اترتی ہے ؟ “
یعنی اگر ایسا ہونا ہی تھا تو اس کے اہل ہم تھے نہ کہ صالح ‘اور کبھی اپنی قوم کے کمزور افراد کو (جو مسلمان ہو گئے تھے) خطاب کر کے کہتے :
{ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّہٖ } [11] ” کیا تم کو یقین ہے کہ بلاشبہ صالح اپنے پروردگار کا رسول ہے ؟ “ اور مسلمان جواب دیتے :
{ قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ } [12] ” انھوں نے کہا بیشک ہم تو اس کے لائے ہوئے پیغام پر ایمان رکھتے ہیں “
تب یہ متکبرین غصہ میں کہتے : { اِنَّا بِالَّذِیْٓ اٰمَنْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْنَ } [13] ” بلاشبہ ہم تو اس شے کا جس پر تمھارا ایمان ہے انکار کرتے ہیں “
بہرحال حضرت صالح (علیہ السلام) کی مغرور اور سرکش قوم نے ان کی پیغمبرانہ دعوت و نصیحت کو یوں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور خدا کے نشان (معجزہ) کا مطالبہ کیا تب صالح (علیہ السلام) نے درگاہ الٰہی میں دعا کی اور قبولیت کے بعد اپنی قوم سے فرمایا کہ تمھارا مطلوبہ نشان اونٹنی کی شکل میں یہ موجود ہے۔ دیکھو ! اگر تم نے اس کو ایذا پہنچائی تو پھر یہی تمھاری ہلاکت کا نشان ثابت ہوگی اور خدائے تعالیٰ نے تمھارے اور اس کے درمیان پانی کے لیے باری مقرر فرما دی ہے ایک دن تمھارا ہے اور ایک دن اس کا ‘لہٰذا اس میں فرق نہ آئے۔ قرآن عزیز نے اس کو ” ناقۃ اللّٰہ “ (خدا کی اونٹنی) کہا ہے۔تاکہ پیش نظر رہے کہ یوں تو تمام مخلوق خدا ہی کی ملکیت ہے ‘مگر ثمود نے چونکہ اس کو خدا کی ایک نشانی کی شکل میں طلب کیا تھا اس لیے اس کی موجودہ خصوصیت اور اعزاز نے اس کو ناقۃ اللّٰہ کا لقب دلایا ١ ؎ اور نیز اس کو ” لَکُمْ اٰیَۃً “ کہہ کر یہ بھی بتایا کہ یہ نشانی اپنے اندر خاص اہمیت رکھتی ہے۔لیکن بدقسمت قوم ثمود زیادہ دیر تک اس کو برداشت نہ کرسکی اور ایک روز سازش کرکے قدار بن سالف کو اس پر آمادہ کر لیا کہ وہ اس کے قتل میں پہل کرے اور باقی اعانت کریں۔ اور اس طرح ناقہ کو ہلاک کر ڈالا۔حضرت صالح (علیہ السلام) کو جب یہ معلوم ہوا تو آبدیدہ ہو کر فرمانے لگے۔ بدبخت قوم ! آخر تجھ سے صبر نہ ہو سکا اب خدا کے عذاب کا انتظار کر ‘تین روز کے بعد وہ نہ ٹلنے والا عذاب آئے گا اور تم سب کو ہمیشہ کے لیے تہس نہس کرجائے گا۔
سید آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی [14] میں تحریر فرماتے ہیں کہ ثمود پر عذاب آنے کی علامات اگلی صبح ہی سے شروع ہوگئیں یعنی پہلے روز ان سب کے چہرے اس طرح زرد پڑ گئے۔جیسا کہ خوف کی ابتدائی حالت میں ہوجایا کرتا ہے اور دوسرے روز سب کے چہرے سرخ تھے گویا خوف و دہشت کا یہ دوسرا درجہ تھا اور تیسرے روز ان سب کے چہرے سیاہ تھے اور تاریکی چھائی ہوئی تھی ‘یہ خوف و دہشت کا وہ تیسرا مقام ہے جس کے بعد موت ہی کا درجہ باقی رہ جاتا ہے ‘تین دن کی ان علامات عذاب نے اگرچہ ان کے چہروں کو واقعی زرد ‘سرخ اور تاریک بنادیا تھا ‘لیکن ان رنگوں کی ترتیبی خصوصیت یہ صاف بتارہی ہے کہ ان کے دلوں کو صالح (علیہ السلام) کے سچے ہونے کا یقین تھا اور صرف حسد و بغض سے انکار کرتے تھے ‘اب جبکہ خدا کے حکم کے خلاف ” جرم “ کرچکے اور اس کی پاداش میں صالح (علیہ السلام) سے عذاب کی ہولناک خبر سنی تو ان پر خوف و دہشت کے وہ فطری رنگ اور نقوش نمایاں ہونے لگے جو موت کے یقین کے وقت خوف و دہشت سے مجرموں کے اندر پیدا ہوا کرتے ہیں۔ بہرحال ان تین دنوں کے بعد وقت موعود آپہنچا اور رات کے وقت ” ایک ہیبت ناک آواز “ نے ہر شخص کو اسی حالت میں ہلاک کر دیا۔جس حالت میں وہ تھا ‘عزیز نے اس ہلاکت آفریں آواز کو کسی مقام پر صاعقہ (کڑک دار بجلی) اور کسی جگہ رجفۃ (زلزلہ ڈال دینے والی شے) اور بعض جگہ طاغیہ (دہشت ناک) اور بعض جگہ صیحہ (چیخ ) فرمایا۔اس لیے کہ یہ تمام تعبیرات ایک ہی حقیقت کے مختلف اوصاف کے اعتبار سے کی گئی ہیں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ خدائے تعالیٰ کے اس عذاب کی ہولناکیاں کیسی گوناگوں تھیں ‘تم ایک ایسی کوندنے والی بجلی کا تصور کرو جو بار بار اضطراب کے ساتھ چمکتی ‘ کڑکتی اور گرجتی ہو اور اس طرح کوند رہی ہو کہ کبھی مشرق میں ہے تو کبھی مغرب میں ‘اور جب ان تمام صفات کے ساتھ چمکتی ‘ کوندتی ‘ گرجتی ‘ لرزتی ‘ لرزاتی ہوئی کسی مقام پر ایک ہولناک چیخ کے ساتھ گرے تو اس مقام اور اس کے نواح کا کیا حال ہوگا ؟ یہ ایک معمولی اندازہ ہے اس عذاب کا جو ثمود پر نازل ہوا اور ان کو اور ان کی بستیوں کو تباہ و برباد کرکے سرکشوں کی سرکشی اور مغروروں کے غرور کا انجام ظاہر کرنے کے لیے آنے والی نسلوں کے سامنے عبرت پیش کر گیا۔
١ ؎ قرآن عزیز سے اس سلسلہ میں صرف دو باتیں ثابت ہیں ایک یہ کہ ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے نشان (معجزہ) طلب کیا اور حضرت صالح (علیہ السلام) نے ” ناقہ “ کو بطور نشانی پیش کیا ‘دوسرے یہ کہ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو یہ ہدایت کردی تھی کہ وہ اس کو ضرر نہ پہنچائے اور پانی کی باری مقرر کرلے کہ ایک روز ” ناقہ “ کا اور دوسرا قوم کا ‘اور اگر اس کو نقصان پہنچایا تو یہی قوم کی ہلاکت کا نشان ہوگا چنانچہ انھوں نے ” ناقہ “ کو ہلاک کر دیا اور خدا کے عذاب سے خود بھی ہلاک ہو گئے۔ اس سے زائد جو کچھ ہے اس کا مداریا ان روایات حدیثی پر ہے جو اخبار آحاد کے درجہ میں شمار ہیں اور یا بائبل اور تاریخ قدیم کی روایات پر ‘جہاں تک اخبار آحاد کا تعلق ہے محدثین کے نزدیک ان میں سے بعض صحیح روایات ہیں اور بعض ضعیف ‘اس لیے حافظ عماد الدین ابن کثیر نے سورة اعراف کی تفسیر میں ” ناقۃ اللّٰہ “کے وجود میں آنے کی روایات کو سند روایات کے اصول پر نقل نہیں فرمایا بلکہ ایک تاریخی واقعہ کی طرح تحریر فرمایا ہے۔
واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ قوم ثمود جب حضرت صالح (علیہ السلام) کی تبلیغ حق سے اکتا گئی تو اس کے سرخیل اور سر کردہ افراد نے قوم کی موجودگی میں مطالبہ کیا کہ اے صالح ! اگر تو واقعی خدا کا فرستادہ ہے تو کوئی نشانی دکھا تاکہ ہم تیری صداقت پر ایمان لے آئیں۔حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ نشان آنے کے بعد بھی انکار پر مصر اور سرکشی پر قائم رہو ‘قوم کے ان سرداروں نے بتاکید وعدہ کیا کہ ہم فوراً ایمان لے آئیں گے۔تب حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہی سے دریافت کیا کہ وہ کس قسم کا نشان چاہتے ہیں۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ سامنے والے پہاڑ میں سے یا بستی کے اس پتھر میں سے جو کنارہ پر نصب ہے ایک ایسی اونٹنی ظاہر کر کہ جو گابھن ہو اور فوراً بچہ دے۔حضرت صالح (علیہ السلام) نے درگاہ الٰہی میں دعا کی اور اسی وقت ان سب کے سامنے پہاڑ یا پتھر میں سے حاملہ اونٹنی ظاہر ہوئی اور اس نے بچہ دیا۔یہ دیکھ کر ان سرداروں میں سے جندع بن عمرو تو اسی وقت مشرف باسلام ہو گیا اور دوسرے سرداروں نے بھی جب اس کی پیروی میں اسلام لانے کا ارادہ کیا تو ان کے ہیکلوں اور مندروں کے مہنتوں ذؤاب بن عمرو اور جناب اور ان کے کاہن رباب بن صفر نے ان کو اس سے باز رکھا اور اسی طرح باقی دوسروں کو بھی اسلام لانے سے روکا۔
اب حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کے تمام افراد کو تنبیہ کی کہ دیکھو یہ نشانی تمھاری طلب پر بھیجی گئی ہے ‘خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ پانی کی باری مقرر ہو ‘ایک دن اس ” ناقہ “ کا ہوگا اور ایک دن ساری قوم اور اس کے سارے چوپاؤں کا ‘ اور خبردار اس کو کوئی اذیت نہ پہنچے اگر اس کو آزار پہنچا تو پھر تمھاری بھی خیر نہیں ہے۔ قوم نے اگرچہ اس حیرت انگیز معجزہ کو دیکھ کر ایمان قبول نہ کیا لیکن دلوں کے اقرار نے اس کو آزار پہنچانے سے باز رکھا ‘اور یہ دستور جاری رہا کہ پانی کی باری ایک روز ناقہ کی رہتی اور تمام قوم اس کے دودھ سے فائدہ اٹھاتی اور دوسرے روز قوم کی باری ہوتی اور ” ناقہ “اور اس کا بچہ بغیر روک ٹوک چراگاہوں میں چرتے اور آسودہ رہتے ‘مگر آہستہ آہستہ یہ بات بھی ان کو کھٹکنے لگی اور آپس میں صلاح و مشورے ہونے لگے کہ اس ناقہ کا خاتمہ کر دیا جائے تو اس باری والے قصے سے نجات ملے ‘کیونکہ ہمارے چوپاؤں کے لیے اور خود ہمارے اپنے لیے یہ قید ناقابل برداشت ہے۔ یہ باتیں اگرچہ ہوتی رہتی تھیں لیکن کسی کو اس کے قتل کرنے کی ہمت نہ پڑتی تھی ‘ مگر ایک حسین و جمیل مالدار عورت صدوق نے خود کو ایک شخص مصدع کے سامنے اور ایک مالدار عورت عُنَیزہ نے اپنی ایک خوبصورت لڑکی کو قدار کے سامنے یہ کہہ کر پیش کیا کہ اگر وہ دونوں ” ناقہ “ کو ہلاک کر دیں تو یہ تمھاری ملک ہیں ‘ تم ان کو بیوی بنا کر عیش کرو۔ آخر قدار بن سالف اور مصدع کو اس کے لیے آمادہ کر لیا گیا ‘اور طے پایا کہ وہ راہ میں چھپ کر بیٹھ جائیں اور ” ناقہ “جب چراگاہ جانے لگے تو اس پر حملہ کر دیں گے اور چند دوسرے آدمیوں نے بھی مدد کا وعدہ کیا۔
غرض ایسا ہی کیا گیا اور ” ناقہ “کو اس طرح سازش کرکے قتل کر ڈالا اور بچہ یہ دیکھ کر بھاگ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور چیختا اور بولتا ہوا پہاڑ میں غائب ہو گیا۔اور پھر آپس میں حلف کیا کہ رات ہونے پر ہم سب صالح (علیہ السلام) اور اس کے اہل و عیال کو بھی قتل کر دیں گے اور پھر اس کے اولیاء کو قسمیں کھا کر یقین دلائیں گے کہ یہ کام ہمارا نہیں ہے۔
صالح (علیہ السلام) کو جب یہ خبر ہوئی تو حسرت و افسوس کے ساتھ قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ آخر وہی ہوا جس کا مجھے خوف تھا ‘اب خدا کے عذاب کا انتظار کرو جو تین دن کے بعد تم کو تباہ کر دے گا اور پھر بجلی کی چمک اور کڑک کا عذاب آیا اور اس نے رات میں سب کو تباہ کر دیا ‘اور آنے والے انسانوں کے لئیتاریخی عبرت کا سبق دے دیا۔اس واقعہ کے ساتھ ساتھ محدث ابن کثیرؒ نے چند روایات حدیثی بھی بیان فرمائی ہیں ‘ مثلاً : غزوہ تبوک کے موقع پر جب آپ کا گذر حجر پر ہوا تو صحابہ ؓ نے ثمود کے کنوئیں سے پانی بھرا اور آٹا گوندھ کر روٹیاں تیار کرنے لگے ‘نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوا تو پانی گرا دینے اور ہانڈیاں اوندھی کردینے اور آٹا بیکار کردینے کا حکم فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ یہ وہ بستی ہے جس پر خدا کا عذاب ہوا ‘یہاں نہ قیام کرو اور نہ یہاں کی اشیاء سے فائدہ اٹھاؤ ‘آگے بڑھ کر پڑاؤ ڈالو ایسا نہ ہو کہ آگے بڑھ کر پڑاؤ ڈالو تم بھی کسی بلا میں مبتلا ہو جاؤ۔[15]
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم ان حجر کی بستیوں میں خدا سے ڈرتے ‘عجز وزاری کرتے اور روتے ہوئے داخل ہوا کرو ‘ورنہ ان میں داخل ہی نہ ہوا کرو ‘کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی اپنی غفلت کی وجہ سے عذاب کی مصیبت میں مبتلا ہو جاؤ۔[16]اور ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجر میں داخل ہوئے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے نشانیاں طلب نہ کیا کرو (دیکھو) صالح (علیہ السلام) کی قوم نے نشان طلب کیا تھا اور وہ ” ناقۃ “ پہاڑ کی کھو سے نکلتی اور اپنی باری میں کھا پی کر وہیں واپس چلی جاتی اور جو اس کی باری کا دن تھا اس میں قوم ثمود کو اپنے دودھ سے سیراب کرتی تھی ‘مگر ثمود نے آخر کار سرکشی کی اور ” ناقۃ “کی کونچیں کاٹ کر اس کو ہلاک کر دیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ خدا نے ان پر ” چیخ کا عذاب “مسلط کر دیا اور وہ اس عذاب سے گھروں کے اندر ہی مردہ ہو کر رہ گئے ‘صرف ایک شخص ابو رغال نامی باقی بچا جو حرم میں گیا ہوا تھا۔ لیکن جب وہ حدود حرم سے باہر آیا تو فوراً اسی عذاب کا شکار ہو گیا۔حافظ ابن کثیرؒ نے یہ تینوں روایات سند کے ساتھ مسند احمد سے نقل کرکے ان کی توثیق کی ہے۔[17] اس پوری تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ قرآن عزیز سے یہ تو یقین کے ساتھ ثابت ہے کہ ” ناقۃ اللہ “خدا کا ایک نشان تھی اور اپنے اندر ضرور کوئی ایسی خصوصیت رکھتی تھی۔جس کی وجہ سے وہ ایسا نشان کہلا سکے جس کا ذکر قرآن عزیز اس اہمیت کے ساتھ کر رہا ہے ھٰذِہٖ نَاقَۃُ اللّٰہِ لَکُمْ اٰیَۃً “ [18] ” یہ ناقۃ اللہ تمھارے لیے نشان ہے “اور پھر پانی کی باری جس طرح ” ناقۃ “ اور قوم ثمود کے درمیان تقسیم فرمائی وہ خود ایک مستقل دلیل ہے کہ یہ ” ناقہ “ ضرور اپنے اندر ایسی حیثیت رکھتی تھی۔جو نشان الٰہی کہلا سکے لیکن یہ بات کہ ” ناقۃ “ کا وجود کس طرح ہوا اور کن وجوہ سے ” نشان الٰہی “ یا ” معجزہ نبی پر ہے قرآن عزیز اس سے ساکت ہے۔البتہ مختلف صحیح اخبار آحاد سے اس واقعہ پر ضرور روشنی پڑتی ہے جس کی تفصیل ابن کثیر سے بھی نقل ہو چکی۔مگر واقعہ کی تفصیلی صراحت و وضاحت وہاں بھی موجود نہیں ہے۔بلکہ کتب تفسیر میں اسرائیلیات سے منقول ہے یا ضعیف روایات سے اخذ کی گئی ہے ‘ لہٰذا مناسب یہی ہے کہ واقعہ کے اجمال و تفصیل میں فرق مراتب کا ضرور خیال رکھا جائے ‘جس قدر قرآن عزیز نے تصریح کی ہے وہ بغیر کسی تاویل کے واجب الاعتقاد ہے اور جس قدر صحیح روایات سے (اگرچہ وہ آحاد ہی کے درجہ کی ہیں) اس اجمال کی تفصیل کا پتہ ملتا ہے۔وہ اجمال کی تفصیل کی حیثیت سے قابل قبول ہیں ‘گو قرآن عزیز کی تصریحات کے درجہ کو نہ پہنچ سکیں اور ان سے زیادہ باقی تفصیلات کی حیثیت وہی ہے جو عام تاریخی وقائع اور اسرائیلیات کی حیثیت ہے۔ ایک طرف ثمود پر یہ عذاب نازل ہوا اور دوسری جانب صالح (علیہ السلام) اور ان کے پیرو مسلمانوں کو خدا نے اپنی حفاظت میں لے لیا اور ان کو اس عذاب سے محفوظ رکھا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) حزن وملال کے ساتھ ہلاک شدگان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمانے لگے :
{ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ وَ لٰکِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ } [19] ” اے قوم ! بلاشبہ میں نے اپنے پروردگار کا پیغام تم تک پہنچایا اور تم کو نصیحت کی لیکن تم تو نصیحت کرنے والوں کو دوست ہی نہ رکھتے تھے۔ “
ہلاک شدہ قوم کی جانب حضرت صالح (علیہ السلام) کا یہ خطاب اسی طرح کا خطاب تھا۔جس طرح بدر میں مشرکین مکہ کے سرداروں کی ہلاکت کے بعد مردہ نعشوں کے گڑھے پر کھڑے ہو کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا :
حدیث:( (یَا فُلَانَ بْنِ فُلَان وَ فُلَانَ بْنِ فُلَان اَیُسِرُّکُمْ اَنَّکُمْ اَطَعْتُمُ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَاِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَھَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَرَبُّکُمْ حَقًّا)) [20] ” اے فلاں بن فلاں اور فلاں بن فلاں کیا تم کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پسند آئی ؟بلاشبہ ہم نے وہ سب کچھ پالیا جو ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا تھا ‘پس کیا تم نے بھی وہ پایا جو تمھارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا ؟ “ اس قسم کے خطاب کے بارے میں علما کی چند رائیں ہیں :
1اس قسم کا خطاب انبیا ۔ کی خصوصیات میں سے ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس کلام کو بلاشبہ مردوں کو سنوا دیتا ہے اگرچہ وہ جواب دینے سے قاصر ہیں۔اس لیے جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کی لاشوں کو اس طرح مخاطب کیا تو حضرت عمر بن خطاب ؓ نے تعجب سے پوچھا کیا یہ سن رہے ہیں ؟آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ”ہاں ! تم سے زیادہ مگر جواب سے عاجز ہیں۔ “
2 یہ طریق خطاب حزن وملال کے اظہار کے لیے ہوتا ہے ‘مثلاً تم نے کسی شخص کو متنبہ کیا کہ اس باغ میں نہ جانا ‘سانپ بڑی کثرت سے ہیں ‘ڈسے جانے کا خطرہ ہے ‘مگر وہ شخص باغ میں گیا اور ڈسا گیا تو جب یہ تنبیہ کرنے والا اس کی نعش پر پہنچتا ہے۔تو بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے ‘افسوس کیا میں نے تجھ سے نہ کہا تھا کہ باغ میں نہ جانا ورنہ ڈسا جائے گا آخر وہی ہوا۔
3 اس قسم کے خطاب کے اصل مخاطب وہ زندہ انسان ہوتے ہیں جو ان مردہ نعشوں کو دیکھ رہے ہیں تاکہ ان کو عبرت حاصل ہو اور وہ اس قسم کی سرکشی کی جرأت نہ کرسکیں۔

قوم کی ہلاکت اور صالح (علیہ السلام) کا قیام[ترمیم]

یہ ایک تاریخی سوال ہے کہ جب ثمود ہلاک و برباد ہو گئے تو صالح (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والے مسلمانوں نے کہاں سکونت اختیار کی ؟ اس سوال کا جواب یقینی اور حتمی طور پر دینا تو قریب قریب ناممکن ہے البتہ غالب گمان یہ ہے کہ وہ قوم کی ہلاکت کے بعد علاقہ فلسطین میں آکرآباد ہوئے اس لیے کہ حجر کے قریب یہی مقام ایسا تھا۔جو سرسبز و شاداب اور مویشیوں کے پانی اور چارہ کے لیے بہترین تھا اور فلسطین کے علاقہ میں یہ جگہ نواحی رملہ ہوگی یا کوئی دوسرا مقام ؟علمائے تفسیر اس کے جواب میں متعدد اقوال پیش فرماتے ہیں :
1 وہ فلسطین کے علاقہ میں رملہ کے قریب آباد ہوئے۔خازن نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔
2 وہ حضر موت میں آکر آباد ہوئے اس لیے کہ ان کا اصل وطن یہی تھا یا اس لیے کہ یہ احقاف ہی کا ایک حصہ ہے ‘یہاں ایک قبر ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہ صالح (علیہ السلام) کی قبر ہے۔
3 وہ ثمود کی ہلاکت کے بعد ان ہی بستیوں میں آباد رہے ‘یہ عام مورخین کی رائے ہے۔
4 وہ قوم کی ہلاکت کے بعد مکہ معظمہ تشریف لے آئے اور وہیں مقیم ہو گئے اور وہیں انتقال فرمایا ‘اور ان کی قبر مبارک کعبہ سے غربی جانب حرم ہی میں ہے ‘سید آلوسیؒ اسی کو راجح سمجھتے ہیں۔
سید آلوسی نے اپنی تفسیر میں ایک قول نقل کیا ہے۔جس میں بتایا ہے کہ صالح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے جو مسلمان ان کے ساتھ عذاب سے محفوظ اور نجات یافتہ رہے ان کی تعداد تقریباً ایک سو بیس تھی اور ہلاک شدہ تقریباً ڈیڑھ ہزار گھرانے تھے۔ اب اس تمام این وآں کے بعد اس کلام بلاغت نظام ” قرآن عزیز “کی آیات کا مطالعہ فرمایئے۔جو ان واقعات کا حقیقی سرچشمہ ہیں اور عبرت و موعظمت کا بے نظیر سامان مہیا کرتی ہیں۔ { وَ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًام قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗط قَدْ جَآئَ تْکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْط ھٰذِہٖ نَاقَۃُ اللّٰہِ لَکُمْ اٰیَۃً فَذَرُوْھَا تَاْکُلْ فِیْٓ اَرْضِ اللّٰہِ وَ لَا تَمَسُّوْھَا بِسُوْٓئٍ فَیَاْخُذَکُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۔وَ اذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآئَ مِنْم بَعْدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَکُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُھُوْلِھَا قُصُوْرًا وَّ تَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًاج فَاذْکُرُوْٓا اٰ لَآئَ اللّٰہِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ ۔ قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّہٖط قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ ۔قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْٓا اِنَّا بِالَّذِیْٓ اٰمَنْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْنَ ۔فَعَقَرُوا النَّاقَۃَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّھِمْ وَ قَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۔فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ ۔ فَتَوَلّٰی عَنْھُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ وَ لٰکِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ۔ } [21] ” اور (اسی طرح) ہم نے قوم ثمود کی طرف اس کے بھائی بندوں میں سے صالح کو بھیجا ‘اس نے کہا ” اے میری قوم کے لوگو !ا للہ کی بندگی کرو ‘اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ‘دیکھو تمھارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل تمھارے سامنے آچکی ہے ‘یہ خدا کے نام پر چھوڑی ہوئی اونٹنی تمھارے لیے ایک (فیصلہ کن) نشانی ہے ‘پس اسے کھلا چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں جہاں چاہے چرے ‘اسے کسی طرح کا نقصان نہ پہنچاؤ کہ (اس کی پاداش میں) عذابِ جانکاہ تمھیں آپکڑے اور وہ وقت یاد کرو کہ خدا نے تمھیں قوم عاد کے بعد اس کا جانشین بنایا اور اس سر زمین میں اس طرح بسا دیا کہ میدانوں سے محل بنانے کا کام لیتے ہو اور پہاڑوں کو بھی تراش کر اپنا گھر بنا لیتے ہو (یہ اس کا تم پر احسان ہے) پس اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد کرو ‘اور ملک میں سرکشی کرتے ہوئے خرابی نہ پھیلاؤ “قوم کے جن سر برآوردہ لوگوں کو (اپنی دولت و طاقت کا ) گھمنڈ تھا انھوں نے مومنوں سے کہا ‘اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جنھیں (افلاس و بیچارگی کی وجہ سے) کمزور و حقیر سمجھتے تھے ”کیا تم نے سچ مچ کو معلوم کر لیا ہے کہ صالح خدا کا بھیجا ہوا ہے ؟ (یعنی ہمیں تو ایسی کوئی بات اس میں دکھائی دیتی نہیں) “ انھوں نے کہا ” ہاں ! بیشک جس پیام حق کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے ‘ہم اس پر پورا یقین رکھتے ہیں “اس پر گھمنڈ کرنے والوں نے کہا ”تمھیں جس بات کا یقین ہے ہمیں اس سے انکار ہے “غرض کہ انھوں نے اونٹنی کو کاٹ ڈالا اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی۔ انھوں نے کہا ” اے صالح ! اگر تم واقعی پیغمبروں میں سے ہو ‘تو اب وہ بات ہم پر لا دکھاؤ جس کا تم نے ہمیں خوف دلایا تھا “ پس ایسا ہوا کہ لرزا دینے والی ہولناکی نے انھیں آلیا۔ اور جب ان پر صبح ہوئی تو گھروں میں اوندھے منہ پڑے تھے ! پھر صالح ان سے کنارہ کش ہو گیا ‘اس نے کہا ” اے میری قوم کے لوگو ! میں نے اپنے پروردگار کا پیام تمھیں پہنچایا اور نصیحت کی ‘مگر افسوس تم پر ! تم نصیحت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ “
{ وَ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًام قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗط ھُوَ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَکُمْ فِیْھَا فَاسْتَغْفِرُوْہُ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِط اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ۔ قَالُوْا یٰصٰلِحُ قَدْ کُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھٰذَآ اَتَنْھٰنَآ اَنْ نَّعْبُدَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا وَ اِنَّنَا لَفِیْ شَکٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَیْہِ مُرِیْبٍ ۔ قَالَ یٰقَوْمِ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ اٰتٰنِیْ مِنْہُ رَحْمَۃً فَمَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰہِ اِنْ عَصَیْتُہٗقف فَمَا تَزِیْدُوْنَنِیْ غَیْرَ تَخْسِیْرٍ ۔ وَ یٰقَوْمِ ھٰذِہٖ نَاقَۃُ اللّٰہِ لَکُمْ اٰیَۃً فَذَرُوْھَا تَاْکُلْ فِیْٓ اَرْضِ اللّٰہِ وَ لَا تَمَسُّوْھَا بِسُوْٓئٍ فَیَاْخُذَکُمْ عَذَابٌ قَرِیْبٌ ۔ فَعَقَرُوْھَا فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِکُمْ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍط ذٰلِکَ وَعْدٌ غَیْرُ مَکْذُوْبٍ ۔ فَلَمَّا جَآئَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا صٰلِحًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا وَ مِنْ خِزْیِ یَوْمِئِذٍط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیْزُ ۔وَ اَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ ۔ کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْھَاط اَ لَآ اِنَّ ثَمُوْدَاْ کَفَرُوْا رَبَّھُمْط اَلَا بُعْدًا لِّثَمُوْدَ ۔ } [22] ” اور ہم نے قوم ثمود کی طرف اس کے بھائی بندوں میں سے صالح کو بھیجا۔ اس نے کہا ” اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ‘وہی ہے جس نے تمھیں زمین سے پیدا کیا اور پھر اسی میں تمھیں بسا دیا ‘پس چاہیے کہ اس سے بخشش مانگو اور اس کی طرف سے رجوع ہو کر رہو۔ یقین کرو میرا پروردگار (ہر ایک کے) پاس ہے ‘اور (ہر ایک کی) دعاؤں کا جواب دینے والا ہے ! “ لوگوں نے کہا ” اے صالح ! پہلے تو تو ایک ایسا آدمی تھا کہ ہم سب کی امیدیں تجھ سے وابستہ تھیں ‘پھر کیا تو ہمیں روکتا ہے کہ ان معبودوں کی پوجا نہ کریں۔جنھیں ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ؟ ( یہ کیسی بات ہے ؟ ) ہمیں تو اس بات میں بڑا ہی شک ہے ‘جس کی طرف تم دعوت دیتے ہو کہ ہمارے دل میں اترتی نہیں “ صالح نے کہا ”اے میری قوم کے لوگو ! کیا تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل روشن پر ہوں اور اس نے اپنی رحمت مجھے عطا فرمائی ہو تو پھر کون ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں میری مدد کرے گا اگر میں اس کے حکم سے سرتابی کروں ؟ تم (اپنی توقع کے مطابق دعوت کار دے کر) مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے تباہی کی طرف لے جانا چاہتے ہو ‘اور اے میری قوم کے لوگو ! دیکھو یہ اللہ کی اونٹنی (یعنی اس کا نشان)تمھارے لیے ایک (فیصلہ کن) نشانی ہے ‘پس اسے چھوڑدو ‘ اللہ کی زمین میں چرتی رہے ‘اسے کسی طرح کی اذیت نہ پہنچانا ‘ورنہ فوراً عذاب تمھیں آپکڑے گا “ لیکن لوگوں نے (اور زیادہ ضد میں آکر) اسے ہلاک کر ڈالا۔ تب صالح نے کہا ”(اب تمھیں صرف) تین دن کی مہلت ہے ‘ اپنے گھروں میں کھا پی لو ‘ یہ وعدہ ہے جھوٹا نہ نکلے گا “پھر جب ہماری (ٹھہرائی ہوئی) بات کا وقت آپہنچا تو ہم نے صالح کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے ‘اپنی رحمت سے بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے نجات دے دی (اے پیغمبر ! ) بلاشبہ تیرا پروردگار ہی ہے جو قوت والا اور سب پر غالب ہے !اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کا یہ حال ہوا کہ ایک زور کی کڑک نے آلیا۔ جب صبح ہوئی تو سب اپنے گھروں میں اوندھے پڑے تھے (وہ اس طرح اچانک مرگئے) گویا ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے۔تو سن رکھو کہ ثمود نے اپنے پروردگار کی ناشکری کی ‘ اور ہاں سن رکھو کہ ثمود کے لیے محرومی ہوئی ! “
{ وَ لَقَدْ کَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ وَ اٰتَیْنٰھُمْ اٰیٰتِنَا فَکَانُوْا عَنْھَا مُعْرِضِیْنَ۔وَ کَانُوْا یَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا اٰمِنِیْنَ ۔ فَاَخَذَتْھُمُ الصَّیْحَۃُ مُصْبِحِیْنَ ۔ فَمَآ اَغْنٰی عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ۔ } [23] ” اور دیکھو حجر کے لوگوں نے بھی رسولوں کی بات جھٹلائی ‘ہم نے اپنی نشانیاں انھیں دکھائیں ‘مگر وہ روگردانی ہی کرتے رہے ‘وہ پہاڑ تراش کر گھر بناتے تھے کہ محفوظ رہیں لیکن (یہ حفاظتیں کچھ بھی کام نہ آئیں) ایک دن صبح کو اٹھے تو ایک ہولناک آواز نے آپکڑا ‘اور جو کچھ انھوں نے اپنی سعی و عمل سے کمایا تھا وہ کچھ بھی ان کے کام نہ آیا۔ “
{ کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ صَالِحٌ اَ لَا تَتَّقُوْنَ ۔اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ ۔ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ۔ وَمَا اَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍج اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ اَتُتْرَکُوْنَ فِیْ مَا ہَاہُنَا اٰمِنِیْنَ ۔ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ ۔وَّزُرُوْعٍ وَّنَخْلٍ طَلْعُہَا ہَضِیْمٌ ۔ وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فَارِہِیْنَ ۔ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ۔وَلَا تُطِیْعُوْا اَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ ۔ الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ ۔ قَالُوْا اِنَّمَا اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ۔ مَا اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَاج صلے فَاْتِ بِاٰیَۃٍ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ ۔قَالَ ہٰذِہٖ نَاقَۃٌ لَّہَا شِرْبٌ وَّلَکُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ۔ وَلَا تَمَسُّوْہَا بِسُوْٓئٍ فَیَاْخُذَکُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَظِیْمٍ۔ فَعَقَرُوْہَا فَاَصْبَحُوْا نَادِمِیْنَ ۔فَاَخَذَہُمُ الْعَذَابُط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃًط وَّمَا کَانَ اَکْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۔وَاِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ ۔ } [24] ” جھٹلایا ثمود نے پیغام لانے والوں کو جب کہا ان کو ان کے بھائی صالح نے کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں تمھارے پاس پیغام لانے والا ہوں معتبر ‘سو ڈرو اللہ سے اور میرا کہا مانو اور نہیں مانگتا میں تم سے اس پر کچھ بدلہ ‘میرا بدلہ ہے اسی جہان کے پالنے والے پر ‘کیا چھوڑے رکھیں گے تم کو یہاں کی چیزوں میں بے خوف ‘باغوں اور چشموں میں اور کھیتوں میں اور کھجوروں میں جن کا خوشہ نرم ہے اور تراشتے ہو پہاڑوں میں گھر تکلف کے ‘سو ڈرو اللہ سے اور میرا کہا مانو ‘ اور نہ مانو حکم بے باک لوگوں کا جو خرابی کرتے ہیں۔ ملک میں اور اصلاح نہیں کرتے ‘بولے تجھ پر تو کسی نے جادو کیا ہے ‘تو بھی ایک آدمی ہے جیسے ہم ‘سو لے آ کچھ نشانی اگر تو سچا ہے ‘کہا یہ اونٹنی ہے اس کے لیے پانی پینے کی ایک باری اور تمھارے لیے باری ایک دن مقرر ‘اور مت چھیڑیو اس کو بری طرح سے پھر پکڑ لے تم کو آفت ایک بڑے دن کی ‘پھر کونچیں کاٹیں اس اونٹنی کی پھر کل کو رہ گئے پچھتاتے پھر آپکڑا ان کو عذاب نے البتہ اس بات میں نشانی ہے اور ان میں بہت لوگ نہیں ماننے والے اور تیرا رب وہی ہے زبردست رحم کرنے والا۔ “
{ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صَالِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ فَاِذَا ہُمْ فَرِیْقَانِ یَخْتَصِمُوْنَ۔قَالَ یَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ بِالسَّیِّئَۃِ قَبْلَ الْحَسَنَۃِج لَوْلَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِکَ وَبِمَنْ مَّعَکَط قَالَ طَائِرُکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ ۔ وَکَانَ فِی الْمَدِیْنَۃِ تِسْعَۃُ رَہْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ ۔ قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰہِ لَنُبَیِّتَنَّہٗ وَاَہْلَہٗ ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِیِّہٖ مَا شَہِدْنَا مَہْلِکَ اَہْلِہٖ وَاِنَّا لَصَادِقُوْنَ ۔وَمَکَرُوْا مَکْرًا وَّمَکَرْنَا مَکْرًا وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ ۔ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ مَکْرِہِمْلا اَنَّا دَمَّرْنَاہُمْ وَقَوْمَہُمْ اَجْمَعِیْنَ ۔فَتِلْکَ بُیُوْتُہُمْ خَاوِیَۃًم بِمَا ظَلَمُوْاط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ۔ وَاَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ ۔ } [25] ” اور ہم نے بھیجا تھا ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو کہ بندگی کرو اللہ کی پھر وہ تو دو فرقے ہو کر لگے جھگڑنے ‘کہا اے میری قوم کیوں جلدی مانگتے ہو برائی کو پہلے بھلائی سے۔کیوں نہیں گناہ بخشواتے اللہ سے شاید تم پر رحم ہو جائے ‘بولے ہم نے منحوس قدم دیکھا تجھ کو اور تیرے ساتھ والوں کو ‘کہا تمھاری بری قسمت اللہ کے پاس ہے۔تمھارا کہنا صحیح نہیں بلکہ تم جانچے جاتے ہو اور تھے اس شہر میں نو شخص کہ خرابی کرتے ملک میں اور اصلاح نہ کرتے بولے کہ آپس میں قسم کھاؤ اللہ کی البتہ رات کو جا پڑیں ہم اس پر اور اس کے گھر پر پھر کہہ دیں گے اس کا دعویٰ کرنے والے کو ہم نے نہیں دیکھا جب تباہ ہوا اس کا گھر اور ہم بیشک سچ کہتے ہیں اور انھوں نے بنائی ایک خفیہ تدبیر اور ہم نے بنائی ایک پوشیدہ تدبیر اور ان کو خبر نہ ہوئی۔پھر دیکھ لے کیسا ہوا انجام ان کے فریب کا کہ ہلاک کر ڈالا ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو سب کو ‘سو یہ پڑے ہیں ان کے گھر ڈھیے ہوئے بسبب ان کے انکار کے ‘البتہ اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں ‘اور بچا دیا ہم نے ان کو جو یقین لائے تھے۔اور بچتے رہے تھے۔ “
{ وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنَاہُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰی عَلَی الْہُدَی فَاَخَذَتْہُمْ صَاعِقَۃُ الْعَذَابِ الْہُوْنِ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ۔وَنَجَّیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ ۔ } [26] ” اور جو ثمود تھے سو ہم نے ان کور اہ بتائی پھر ان کو پسند آیا اندھا رہنا راہ سوجھنے سے ‘پھر پکڑا ان کو کڑک نے ذلت کے عذاب کی ‘بدلہ اس کا جو کماتے تھے اور بچا دیا ہم نے ان لوگوں کو جو یقین لائے تھے اور بچ کر چلتے تھے (برائی سے) “
{ وَفِیْ ثَمُوْدَ اِذْ قِیْلَ لَہُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰی حِیْنٍ ۔ فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّہِمْ فَاَخَذَتْہُمُ الصَّاعِقَۃُ وَہُمْ یَنْظُرُوْنَ ۔فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّمَا کَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَ ۔ } [27] ” اور نشانی ہے ثمود میں جب کہا ان کو فائدہ اٹھالو ایک وقت تک پھر شرارت کرنے لگے اپنے رب کے حکم سے ‘پھر پکڑا ان کو کڑک نے اور وہ دیکھتے تھے پھر نہ ہو سکا ان سے کہ اٹھیں اور نہ ہوئے کہ بدلہ لیں۔ “
{ وَاَنَّہٗ اَہْلَکَ عَادَانِ الْاُوْلٰی ۔ وَثَمُوْدَاْ فَمَا اَبْقٰی ۔ } [28] ” اور یہ کہ اس نے غارت کیا عاداول کو ‘اور ثمود کو پھر کسی کو باقی نہ چھوڑا۔ “
{ کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِالنُّذُرِ ۔ فَقَالُوْا اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُہٗلا اِنَّا اِذًا لَّفِیْ ضَلَالٍ وَّسُعُرٍ ۔ ئَاُلْقِیَ الذِّکْرُ عَلَیْہِ مِنْم بَیْنِنَا بَلْ ہُوَ کَذَّابٌ اَشِرٌ ۔ سَیَعْلَمُوْنَ غَدًا مَّنِ الْکَذَّابُ الْاَشِرُ ۔ اِنَّا مُرْسِلُوا النَّاقَۃِ فِتْنَۃً لَّہُمْ فَارْتَقِبْہُمْ وَاصْطَبِرْ ۔ وَنَبِّئْہُمْ اَنَّ الْمَائَ قِسْمَۃٌم بَیْنَہُمْج کُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ ۔ فَنَادَوْا صَاحِبَہُمْ فَتَعَاطٰی فَعَقَرَ ۔ فَکَیْفَ کَانَ عَذَابِیْ وَنُذُرِ ۔اِنَّا اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَکَانُوْا کَہَشِیْمِ الْمُحْتَظِرِ ۔وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ ۔ }[29] ” جھٹلایا ثمود نے ڈر سنانے والوں کو ‘پھر کہنے لگے کیا ایک آدمی ہم میں کا اکیلا ہم اس کے کہے پر چلیں گے تو ہم غلطی میں پڑے اور آگ میں جھکے کیا اتری اسی پر نصیحت ہم سب میں سے ‘کوئی نہیں یہ جھوٹا ہے بڑائی مارتا ہے اب جان لیں گے کہ کل کو کون ہے جھوٹا بڑائی مارنے والا ‘ہم بھیجتے ہیں اونٹنی ان کے جانچنے کے واسطے سو انتظار کر ان کا اور سہتارہ اور سنا دے ان کو کہ پانی کی تقسیم ہے ‘ان میں ہر ایک (فریق) اپنی باری پر پہنچے پھر پکارا انھوں نے اپنے رفیق کو پھر ہاتھ چلایا اور کاٹ ڈالا ‘پھر کیسا ہوا میرا عذاب اور میرا ڈرانا۔ہم نے بھیجی ان پر ایک (خوفناک) چیخ ‘پھر رہ گئے جیسے روندی ہوئی باڑ کانٹوں کی ‘اور ہم نے آسان کر دیا قرآن کو سمجھنے کے لیے پھر ہے کوئی سوچنے والا ؟ “
{ کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَعَادٌ بِالْقَارِعَۃِ ۔ فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُہْلِکُوْا بِالطَّاغِیَۃِ ۔ } [30] ” جھٹلایا ثمود اور عاد نے اس کھڑ کھڑانے والی (بات) کو سو جو ثمود تھے سو غارت کردیے گئے اچھال کر (سخت بھونچال سے) “
{ کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰہَا ۔ اِذِ انْبَعَثَ اَشْقٰہَا۔فَقَالَ لَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ نَاقَۃَ اللّٰہِ وَسُقْیٰہَا۔فَکَذَّبُوْہُ فَعَقَرُوْہَا ٥ ص لا فَدَمْدَمَ عَلَیْہِمْ رَبُّہُمْ بِذَنْبِہِمْ فَسَوّٰہَا ۔ وَلَا یَخَافُ عُقْبٰـہَا ۔ } [31] ” جھٹلایا ثمود نے اپنی شرارت سے جب اٹھ کھڑا ہوا ان میں کا بدبخت ‘پھر کہا ان کو اللہ کے رسول نے خبردار رہو اللہ کی اونٹنی سے اور اس کے پانی پینے کی باری سے پھر انھوں نے اس کو جھٹلایا پھر پاؤں کاٹ ڈالے اس کے پھر الٹ مارا ان کے رب نے بسبب ان کے گناہوں کے پھر برابر کر دیا سب کو اور اللہ نہیں ڈرتا پیچھا کرنے سے۔ “

چند عبرتیں[ترمیم]

1 ” ناقۃ اللہ “ اگرچہ صالح (علیہ السلام) کی صداقت رسالت کا ایک نشان تھی ‘ تاہم قرآن عزیز کی تصریح ہے کہ وہ ثمود کے لیے آزمائش اور ابتلا اور نتیجہ وثمرہ میں ان کی ہلاکت کا نشان ثابت ہوئی۔
{ اِنَّا مُرْسِلُوا النَّاقَۃِ فِتْنَۃً لَّہُمْ فَارْتَقِبْہُمْ وَاصْطَبِرْ } [32] ” بیشک ہم بھیجنے والے ہیں ناقہ کو ان کی آزمائش اور امتحان کے لیے پس تو ان کے انتظار میں رہ اور صبر اختیار کر۔ “
2 سنت اللہ یہ رہی ہے کہ اگر وہ اپنے پیغمبر کو کسی قوم کی ہدایت کے لیے بھیجے اور قوم اس کی ہدایت پر کان نہ دھرے تو ضروری نہیں کہ وہ قوم ہلاک ہی کردی جائے لیکن جو قوم اپنے نبی سے اس وعدہ پر نشان طلب کرے کہ اگر ان کا مطلوبہ نشان ظاہر ہو گیا تو وہ ضرور ایمان لے آئیں گے اور پھر وہ ایمان نہ لائے تو اس قوم کی ہلاکت یقینی ہوجاتی ہے اور خدائے تعالیٰ اس کو معاف نہیں کرتا تا آنکہ وہ تائب ہوجائے اور خدا کے دین کو قبول کرلے اور یا عذاب الٰہی سے صفحہ ہستی سے مٹ کر دوسروں کے لیے عبرت کا سبب بن جائے۔
3 مگر اس سنت اللہ سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام رسالت مستثنیٰ ہے۔ اس لیے کہ آپ نے تصریح فرمائی کہ میں نے خدائے تعالیٰ سے دعا مانگی کہ وہ میری امت (امت دعوت ہو یا امت اجابت) میں عذاب عام مسلط نہ فرمائے اور اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمالی۔اور قرآن عزیز میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس تصریح کی یہ کہہ کر تصدیق بھی فرمادی :
{ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَ اَنْتَ فِیْھِمْ } { وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَ اَنْتَ فِیْھِمْ } [33] ” اے رسول اس حال میں کہ تو ان میں موجود ہے خدائے تعالیٰ ان (کافروں ) پر عام عذاب مسلط نہ کرے گا۔ “
4 یہ مہلک غلطی اور نفس کا دھوکا ہے کہ انسان ‘ خوش عیشی ‘رفاہیت اور دنیوی جاہ و جلال کو دیکھ کر یہ سمجھ بیٹھے جس قوم یا جس فرد کے پاس یہ سب کچھ موجود ہے۔وہ ضرور خدائے تعالیٰ کے سایہ میں ہے اور یہ کہ ان کی یہ خوش عیشی اس کی علامت ہے کہ خدائے تعالیٰ کی خوشنودی ان کے ساتھ ہے۔
یہ دھوکا اور غلطی اس لیے ہے کہ اس واقعہ میں جگہ جگہ یہ تصریح موجود ہے کہ بعض مرتبہ زیادہ سے زیادہ رفاہیت اور خوش عیشی زیادہ سے زیادہ عذاب و ہلاکت کی پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے ‘اگرچہ قوموں کے لیے اس کی مدت چند ماہ یا چند سال نہیں بلکہ گھبرا دینے والی مدت ہی کیوں نہ ہو مگر ہمہ قسم کی دنیوی کامرانیوں اور خوش عیشیوں کے ساتھ ساتھ جب ظلم ‘سرکشی اور غرور کسی قوم کا مستقل شعار بن جائے تو سمجھو کہ اس کی تباہی و ہلاکت کا وقت قریب آپہنچا۔ { اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ} [34] ” تیرے خدا کی پکڑ بہت سخت ہے “
البتہ ان تمام رفاہیتوں کے ساتھ اگر قوم کے اکثر افراد خدا کے شکر گزار ہوں ‘اس کے بندوں کے ساتھ انصاف کرنے والے اور باہم حسن نیت اور خیر خواہی پر عامل ہوں تو بلاشبہ وہ مقبول بارگاہ الٰہی ہیں اور ان ہی کو دنیا و آخرت کی کامرانیوں کی بشارت ہے ‘اور ان ہی کے لیے یہ دنیوی عیش خدا کی بے غایت نعمتوں کی علامت ہے۔ { وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْص وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِنْم بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًاط یَّعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا }[35] ” اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کر لیا ”جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں “یہ کہ ان کو زمین کی خلافت دے گا۔جیسا کہ ان سے اگلوں کو خلیفہ بنایا تھا اور ان کے لیے ان کا دین مضبوط کر دے گا جو اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا (جن کی شان یہ ہوگی کہ) وہ میری بندگی کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو (کسی حیثیت سے بھی) شریک نہ کریں گے۔ “
{ وَ لَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ } [36] ” اور بلاشبہ ہم نے نصیحت کے بعد زبور میں لکھ دیا کہ زمین کی وراثت میرے نیک بندوں کو حاصل ہوگی۔ “
یہ آیات صراحت کر رہی ہیں کہ حکومت و دولت کا وعدہ ” وراثت “ کی حیثیت سے صرف انہی کا حصہ ہے جو مومن بھی ہیں اور خدا کے احکام پر عامل بن کر صالحین (نیکوکاروں) کی صف میں بھی شامل ہیں یعنی جن کی اجتماعی زندگی کا قالب ایک ساتھ ان دونوں صفات سے متصف ہے ان کے لیے بلاشبہ یہ حکومت و دولت اللہ کا انعام و اکرام ہے۔ اور اگر یہ نہیں ہے تو پھر ” حکومت و دولت “ کے لیے مومن و کافر کی کوئی تخصیص نہیں ‘خدا کی حکمتوں اور مصلحتوں کے پیش نظریہ دنیوی اسباب کی شکل میں چلتی پھرتی چھاؤں ہے اور ایسی ” حکومت و دولت “ کے لیے ہرگز یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کے ساتھ اللہ کی خوشنودی اور اس کا فضل و کرم بھی شامل حال ہو۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تفسیر ابن کثیر سورة اعراف)
  2. (جلد ٩ ص ١٤٢)
  3. (ج ٣ ص ١٣٩)
  4. (الاعراف : ٧/٧٤)
  5. (” العرب قبل الاسلام “ص ٨٠)
  6. (القصص : ٢٨/٥٩)
  7. (الانفال : ٨/١٧)
  8. (غافر : ٤٠/٧٨)
  9. (الانعام : ٦/١٠٩)
  10. (ص : ٣٨/٨)
  11. (الاعراف : ٧/٧٥)
  12. (الاعراف : ٧/٧٥)
  13. (الاعراف : ٧/٧٦)
  14. (جلد ٨ ص ١٤٥‘ ١٤٦)
  15. (مسند احمد : ٢/١١٧)
  16. (مسند احمد : ٢/١١٤ و صحیح البخاری ‘ کتاب الصلوٰۃ ‘ باب الصلوٰۃ فی مواضع الخسف والعذاب ‘ حدیث ٤٤٣ و صحیح مسلم ‘ کتاب الزہد ‘ باب النہی عن الدخول علی اہل الحجر ‘ حدیث : ٢٩٨)
  17. (تاریخ ابن کثیر جلد ١ ص ١٣٨‘ ١٣٩)
  18. (ھود : ١١/٦٤)
  19. (الاعراف : ٧/٧٩)
  20. (بخاری ‘ ج ٢ باب المغازی)
  21. (الاعراف : ٧/٧٣ تا ٧٩)
  22. (ھود : ١١/٦١ تا ٦٨)
  23. (الحجر : ١٥/٨٠ تا ٨٤)
  24. (الشعراء : ٢٦/١٤١ تا ١٥٩)
  25. (النمل : ٢٧/٤٥ تا ٥٣)
  26. (فصلت : ٤١/١٧‘ ١٨)
  27. (الذاریات : ٥١/٤٣ تا ٤٥)
  28. (النجم : ٥٣/٥٠‘ ٥١)
  29. (القمر : ٥٤/٢٣ تا ٣٢)
  30. (الحاقۃ : ٦٩/٤‘ ٥)
  31. (الشمس : ٩١/١١ تا ١٥)
  32. (القمر : ٥٤/٢٧)
  33. (الانفال : ٨/٣٣)
  34. (بروج : ٨٥/١٢)
  35. (النور : ٢٤/٥٥)
  36. (الانبیاء : ٢١/١٠٥)