شعیب
خطیب الانبیاء | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
شعیب | |||||||
(عربی میں: شُعَيْب) | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | ت 2076 ق ھ (ت 1392 ق م) مدین |
||||||
وفات | ت 1952 ق ھ (ت 1272 ق م) ماحص |
||||||
اولاد | صفورہ ، زوجہ موسیٰ | ||||||
مناصب | |||||||
اسلامی نبی | |||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | واعظ ، گلہ بان ، اسلامی نبی | ||||||
درستی - ترمیم |
مضامین بسلسلہ انبیائے اسلام |
---|
معلومات |
آدم علیہ السلام -
ادریس علیہ السلام - نوح علیہ السلام - ہود علیہ السلام - صالح علیہ السلام - ابراہیم علیہ السلام - لوط علیہ السلام - اسماعیل علیہ السلام - اسحاق علیہ السلام - یعقوب علیہ السلام - یوسف علیہ السلام - ایوب علیہ السلام - ذو الکفل علیہ السلام - شعيب علیہ السلام - موسیٰ علیہ السلام - ہارون علیہ السلام - داؤد علیہ السلام - سلیمان علیہ السلام - یونس علیہ السلام - الیاس علیہ السلام - الیسع علیہ السلام - زکریا علیہ السلام - یحییٰ علیہ السلام - عیسیٰ علیہ السلام - محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم - |
منسوب معجزات |
نظریات |
◈ ◈ |
شعیب علیہ السلام، اللہ تعالی کے بھیجے گئے ایک نبی تھے اور آپ موسیٰ علیہ السلام کے سسر بھی تھے۔ قرآن مجید کے مطابق شعیب علیہ السلام مدین کی طرف بھیجا گئے تھے۔ آپ کو اس وقت مدین بھیجے گئے تھے۔ جب اہل مدین ناپ طول میں کمی کرتے تھے اور قسم قسم کے سرکشیوں او نافرمانیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔
شعیب میکیل کے بیٹے تھے اور میکیل یشجر کے اور یشجر مدین کے اور مدین ابراہیم ( علیہ السلام) کے بیٹے تھے۔ شعیب (علیہ السلام) نابینا (ہو گئے) تھے چونکہ اپنی قوم سے خطاب کرنے میں آپ کو کمال تھا اس لیے آپ کا لقب خطیب الانبیاء ہوا۔ آپ کی قوم کافر بھی تھی اور ناپ تول میں بھی کمی کرتی تھی۔ ابن عساکر نے عبد اللہ ابن عباس : کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب شعیب (علیہ السلام) کا ذکر کرتے تھے تو فرماتے تھے وہ خطیب الانبیاء تھے اس لیے کہ اپنی قوم سے خطاب اچھے اسلوب سے کرتے تھے۔[1]
سوا شعیب (علیہ السلام) کے اور کوئی نبی دو امتوں کی ہدایت کے لیے نہیں بھیجا گیا ایک امت ان کی یہ قبیلہ ہے جس کا نام مدین ہے اور شعیب (علیہ السلام) بھی اسی قبیلہ میں کے ہی اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے شعیب (علیہ السلام) کو اس قبیلہ کا بھائی فرمایا ہے اور دوسری امت بن کے رہنے والے لوگ ہیں جن کو سورة شعرا میں اصحاب الایکہ فرمایا ہے اور بعضے مفسر کنویں والے لوگوں کو بھی جن کو سورة فرقان اور سورة قاف میں اصحاب الرس فرمایا ہے ان کی ہی امت میں شمار کر کے یوں کہتے ہیں کہ شعیب (علیہ السلام) تین امتوں کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے ہیں لیکن حافظ عماد الدین ابن کثیر نے کہا اصحاب الایکۃ ایک ہی امت کے لوگ میں جن میں کم تولنے اور کم ناپنے کا رواج تھا اور اسی ایک امت کی ہدایت کے لیے شعیب (علیہ السلام) بھیجے گئے ہیں یہ لوگ پیڑوں کی بھی پوجا کیا کرتے تھے اس واسطے ان کو اصحاب الایکہ یعنے پیڑوں والے کہہ کر جو سورة شعرا میں بتا دیا ہے اکثر مفسروں کا قول یہی ہے کہ شعیب (علیہ السلام) نے بڑی عمر پائی ہے موسیٰ (علیہ السلام) کے وقت تک زندہ تھے۔ اور ایک شخص قبطی کو مار کر مصر سے مدین کو جب موسیٰ (علیہ السلام) گئے تو ان کی ملاقات شعیب (علیہ السلام) سے ہوئی اور وہ دو بہنیں جن کا قصہ سورة قصص میں ہے شعیب (علیہ السلام) کی بیٹیاں تھیں جن میں سے ایک کا نکاح حضرت موسیٰ سے ہوا شعیب (علیہ السلام) نابینا تھے [2]
حضرت شعیب (علیہ السلام) کا ذکر قرآن میں
قرآن حکیم میں حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا تذکرہ اعراف ‘ ہود اور شعراء میں قدرے تفصیل سے کیا گیا ہے اور حجر اور عنکبوت میں مختصر ہے ان سورتوں میں حجر کے علاوہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا نام گیارہ جگہ مذکور ہے ‘ ذیل کا نقشہ اس کی تصدیق کرتا ہے : اعراف 85‘ 88‘ 90‘ 92 (2 مرتبہ) ھود 84‘ 87‘ 91‘ 94 شعرا ١٧٧ عنکبوت ٣٦ ٹوٹل : ١١
قوم شعیب
حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بعثت مدین یا مدیان میں ہوئی تھی مدین کسی مقام کا نام نہیں بلکہ ” قبیلہ “ ١ ؎ کا نام ہے ‘ یہ قبیلہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے مدین کی نسل سے تھا جو ان کی تیسری بیوی قطورا سے پیدا ہوا ‘ اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ خاندان بنی قطورا کہلاتا ہے ۔ ” مدین “ اپنے اہل و عیال کے ساتھ اپنے سوتیلے بھائی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے پہلو ہی میں حجاز میں آباد ہو گیا تھا یہی خاندان آگے چل کر ایک بڑا قبیلہ بن گیا اور شعیب (علیہ السلام) بھی چونکہ اسی نسل اور اسی قبیلہ سے تھے اس لیے ان کی بعثت کے بعد یہ ” قوم شعیب “ کہلایا ۔
مدین یا اصحاب ایکہ
یہ قبیلہ کس مقام پر آباد تھا ؟ اس کے متعلق عبدالوہاب نجار کہتے ہیں کہ یہ حجاز میں شام کے متصل ایسی جگہ آباد تھا جس کا عرض البلد افریقہ کے جنوبی صحرا کے عرض البلد کے مطابق پڑتا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ شام کے متصل معان کے حصہ زمین پر آباد تھا ۔ قرآن عزیز نے اس قبیلہ کی آبادی کے متعلق ہم کو دو باتوں سے تعارف کرایا ہے : ایک یہ کہ وہ ” امام مبین “ پر آباد تھا : { وَ اِنَّھُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِیْنٍ } [3] ” اور لوط کی قوم اور مدین دونوں بڑی شاہراہ پر آباد تھے۔ “ عرب کے جغرافیہ میں جو شاہراہ حجاز کے تاجر قافلوں کو شام ‘ فلسطین ‘ یمن بلکہ مصر تک لے جاتی اور بحر قلزم کے مشرقی کنارے سے ہو کر گذرتی تھی قرآن اسی کو امام مبین (کھلی اور صاف شاہراہ ) کہتا ہے ‘ کیونکہ صیف (گرمی) اور شتاء (سردی) کے دونوں زمانوں میں قریشی قافلوں کے لیے یہ متعارف اور بڑی تجارتی سڑک تھی جس کا سلسلہ بَرّی مسافت کے ساتھ بحری کے بھی ڈانڈے ملا دیتا تھا۔ دوسرے یہ کہ وہ ” اصحاب ایکہ “ (جھنڈ والے) تھے ‘ عربی میں ایکہ ان سرسبز و شاداب جھاڑیوں کو کہتے ہیں جو ہرے بھرے درختوں کی کثرت کی وجہ سے جنگلوں اور بنوں میں اگی رہتی ہیں ‘ اور جھاندے کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ ان دونوں باتوں کے جان لینے کے بعد مدین کی آبادی کا پتہ آسانی سے معلوم ہو سکتا ہے وہ یہ کہ مدین کا قبیلہ بحر قلزم کے مشرقی کنارہ اور عرب کے مغرب شمال میں ایسی جگہ آباد تھا جو شام کے متصل حجاز کا آخری حصہ کہا جا سکتا ہے اور حجاز والوں کو شام ‘ فلسطین بلکہ مصر تک جانے میں اس کے کھنڈر راہ میں پڑتے تھے اور جو تبوک کے بالمقابل واقع تھا۔ [4] مفسرین اس بارے میں مختلف ہیں کہ مدین اور اصحاب ایکہ ایک ہی قبیلہ کے دو نام ہیں یا دو جدا جدا قبیلے ہیں ‘ بعض کا خیال ہے کہ دونوں جدا جدا قبیلے ہیں ‘ مدین متمدن اور شہری قبیلہ تھا اور ” اصحاب ایکہ “ دیہاتی اور بدوی قبیلہ جو جنگل اور بن میں آباد تھا اس لیے اس کو ” بن والا “ یا ” جنگل والا “ کہا گیا اور آیت اِنَّھُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِیْنٍ میں ” ھما “ ضمیر تثنیہ سے یہی دونوں مراد ہیں نہ کہ مدین اور قوم لوط ۔ اور دوسرے مفسرین دونوں کو ایک ہی قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ آب و ہوا کی لطافت ‘ نہروں اور آبشاروں کی کثرت نے اس مقام کو اس قدر شاداب و پر فضا بنادیا تھا اور یہاں میووں ‘ پھلوں اور خوشبودار پھلوں کے اس قدر باغات اور چمن تھے کہ اگر ایک شخص آبادی سے باہر کھڑے ہو کرنظارہ کرتا تھا تو اس کو یہ معلوم ہوتا کہ یہ نہایت خوبصورت اور شاداب گھنے درختوں کا ایک جھنڈ ہے ‘ اسی وجہ سے قرآن عزیز نے اس کو ” ایکہ “ کہہ کر تعارف کرایا۔ ان مفسرین میں سے حافظ عمادالدین ابن کثیر کا یہ خیال ہے کہ یہاں ” ایکہ “ نام ایک درخت تھا ‘ اہل قبیلہ چونکہ اس کی پرستش کرتے تھے لہٰذا اس کی نسبت سے ” مدین “ کو ” اصحاب ایکہ “ کہا گیا ‘ نیز چونکہ یہ نسبت نسبی نہ تھی بلکہ مذہبی تھی اس لیے جن آیات میں ان کو اس لقب سے یاد کیا گیا ہے ان میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کو ” اَخُوْھُمْ “ ان کا بھائی یا اسی قسم کے نسبی علاقہ سے یاد نہیں کیا ۔ البتہ جن آیات میں قوم شعیب (علیہ السلام) کو مدین کہہ کر یاد کیا ہے ‘ ان میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بھی ان کے نسبی رشتہ میں منسلک ظاہر کیا ہے۔ بہرحال راجح یہی ہے کہ مدین اور اصحاب ایکہ ایک ہی قبیلہ ہے جو باپ کی نسبت سے مدین کہلایا اور زمین کی طبعی اور جغرافی حیثیت سے ” اصحاب ایکہ “ کے لقب سے مشہور ہوا۔
زمانہ بعثت اور ایک غلطی کا ازالہ
عبدالوہاب نجار اپنی کتاب ” قصص الانبیاء “ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ابو العباس احمد قلقشندی نے ” صبح الاعشیٰ “ جلد 4 ص 16 میں تحریر کیا ہے : ( (ثم ملک بعدہ یعنی یوثام ‘ ابنہ احازست عشرۃ سنۃ ایضا وکانت الحرب بینہ وبین ملک دمشق وفی زمنہ کان شعیب (علیہ السلام))) ” پھر یوثام کے بعد آحاز نے بھی سولہ سال تک حکومت کی اور اس کے اور دمشق کے بادشاہ کے درمیان جنگ رہی اور اسی زمانہ میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی ۔ “ قلقشندی کی عبارت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے صدیوں بعد پیدا ہوئے یعنی سات سو برس بعد آٹھویں صدی کے اوائل میں ‘ کیونکہ آحاز کی حکومت کا یہی زمانہ تھا ‘ حالانکہ یہ بالکل غلط اور خلاف واقعہ ہے ‘ اس لیے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بڑے ہیں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کا زمانہ پایا ہے یا نہیں یہ بات البتہ اختلافی ہے۔ اسی بنا پر قرآن عزیز نے سورة اعراف میں حضرت نوح ‘ حضرت ہود ‘ حضرت صالح ‘ حضرت لوط اور حضرت شعیب (علیہم السلام) کے ذکر کے بعد فرمایا { ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْم بَعْدِھِمْ مُّوْسٰی } [5] اور اسی طرح سورة یونس ‘ سورة حج ‘ سورة ہود اور سورة عنکبوت میں بیان کیا گیا ۔ تو قلقشندی سے اس جگہ لغزش ہو گئی ہے کہ اس نے شعیاء (علیہ السلام) کی جگہ شعیب (علیہ السلام) تحریر کر دیا بلاشبہ آحاز کی حکومت کا زمانہ شعیاء نبی کا زمانہ ہے۔ [6]
دعوت حق
بہرحال شعیب (علیہ السلام) جب اپنی قوم میں مبعوث ہوئے تو انھوں نے دیکھا کہ خدا کی نافرمانی اور معصیت کا ارتکاب صرف افراد و احاد میں ہی نہیں پایا جاتا بلکہ ساری قوم گرداب ہلاکت میں مبتلا ہے اور اپنی بد اعمالیوں میں اس قدر سرمست و سرشار ہے کہ ایک لمحہ کے لیے بھی ان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے معصیت اور گناہ ہے بلکہ وہ اپنے ان اعمال کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔ ان کی بہت سی بد اخلاقیوں اور نافرمانیوں سے قطع نظر جن قبیح امور نے خصوصیت کے ساتھ ان میں رواج پالیا تھا وہ یہ تھے : بت پرستی اور مشرکانہ رسوم و عقائد۔ خریدو فروخت میں پورا لینا اور کم تولنا یعنی دوسرے کو اس کے حق سے کم دینا اور اپنے لیے حق کے مطابق لینا بلکہ اس سے زیادہ۔ " تمام معاملات میں کھوٹ اور ڈاکہ زنی ۔ قوموں کے عام رواج کے مطابق دراصل ان کی رفاہیت ‘ خوش عیشی ‘ دولت و ثروت کی فراوانی ‘ زمین اور باغوں کی زرخیزی اور شادابی نے ان کو اس قدر مغرور بنادیا تھا کہ وہ ان تمام امور کو اپنی ذاتی میراث اور اپنا خاندانی ہنر سمجھ بیٹھے تھے ‘ اور ایک ساعت کے لیے بھی ان کے دل میں یہ خطرہ نہیں گذرتا تھا کہ یہ سب کچھ خدائے تعالیٰ کی عطاء و بخشش ہے کہ شکر گزار ہوتے اور سرکشی سے باز رہتے ‘ غرض ان کی فارغ البالی نے ان میں طرح طرح کی بد اخلاقیاں اور قسم قسم کے عیوب پیدا کر دیے تھے۔ آخر غیرت حق حرکت میں آئی اور سنت اللہ کے مطابق ان کو راہ حق دکھانے ‘ فسق و فجور سے بچانے اور امین و متقی اور بااخلاق بنانے کے لیے انھی میں سے ایک ہستی کو چن لیا اور شرف نبوت و رسالت سے نوازکر اس کو دعوت اسلام اور پیغام حق کا امام بنایا۔ یہ ہستی حضرت شعیب (علیہ السلام) کی ذات گرامی تھی ۔ خدا کی توحید اور شرک سے بیزاری کا اعتقاد تو تمام انبیا (علیہم السلام) کی تعلیم کی مشترک بنیاد اور اصل ہے جو حضرت شعیب (علیہ السلام) کے حصہ میں بھی آئی تھی مگر قوم کی مخصوص بد اخلاقیوں پر توجہ دلانے اور ان کو راہ راست پر لانے کے لیے انھوں نے اس قانون کو بھی اہمیت دی کہ خرید وفر وخت کے معاملہ میں یہ ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ جو جس کا حق ہے وہ پورا پورا اس کو ملے کہ دنیوی معاملات میں یہی ایک ایسی بنیاد ہے جو متزلزل ہوجانے کے بعد ہر قسم کے ظلم ‘ فسق وفجور اور مہلک خرابیوں اور بد اخلاقیوں کا باعث بنتی ہے۔ الحاصل حضرت شعیب (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کی بداعمالیوں کو دیکھ کر سخت دکھ محسوس کیا اور رشدو ہدایت کی تعلیم دیتے ہوئے قوم کو انہی اصول کی طرف بلایا جو انبیا (علیہم السلام) کی دعوت و ارشاد کا خلاصہ ہے۔ انھوں نے فرمایا ” اے قوم ایک خدا کی عبادت کر اس کے علاوہ کوئی پرستش کے قابل نہیں اور خریدو فروخت میں ناپ تول کو پورا رکھ ‘ اور لوگوں کے ساتھ معاملات میں کھوٹ نہ کر ‘ کل تک ممکن ہے کہ تجھ کو ان بداخلاقیوں کی برائیوں کا حال معلوم نہ ہوا ہو ‘ مگر آج تیرے پاس خدا کی حجت ‘ نشانی اور برہان آچکا اب جہل و نادانی عفو و درگزر کے قابل نہیں ہے ‘ حق کو قبول کر اور باطل سے بازآ ‘ کہ یہی کامرانی اور کامیابی کی راہ ہے اور خدا کی زمین میں فتنہ و فساد نہ کر جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی صلاح و خیر کے تمام سامان مہیا کر دیے اگر تجھ میں ایمان و یقین کی صداقت موجود ہے تو سمجھ کہ یہی فلاح و بہبود کی راہ ہے اور دیکھ ایسا نہ کر کہ دعوت حق کی راہ کو روکنے اور لوگوں کو لوٹنے کے لیے ہر راہ پر جا بیٹھے اور جو آدمی بھی ایمان لائے اس کو خدا کی راہ اختیار کرنے پر دھمکیاں دینے لگے اور اس میں کج روی پیدا کرنے کے درپے ہوجائے اے افراد قوم اس وقت کو یاد کرو ‘ اور خدا کا احسان مانو کہ تم بہت تھوڑے تھے پھر اس نے امن و عافیت دے کر تمھاری تعداد کو بیش از بیش بڑھا دیا۔ اے میری قوم ذرا اس پر بھی غورکر کہ جن لوگوں نے خدا کی زمین پر فساد پھیلانے کا شیوہ اختیار کیا تھا ان کا انجام کس قدر عبرت ناک ہوا ‘ اور اگر تم میں سے ایک جماعت مجھ پر ایمان لے آئی اور ایک جماعت ایمان نہیں لائی تو صرف اتنی ہی بات پر معاملہ ختم ہوجانے والا نہیں ‘ بلکہ صبر کے ساتھ انتظارکر ‘ تاآنکہ اللہ تعالیٰ ہمارے درمیان آخری فیصلہ کر دے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ “ حضرت شعیب (علیہ السلام) بڑے فصیح وبلیغ مقرر تھے ‘ شیریں کلامی ‘ حسن خطابت ‘ طرز بیان اور طلاقت لسانی میں بہت نمایاں امتیازرکھتے تھے ‘ اسی لیے مفسرین ان کو خطیب الانبیاء کے لقب سے یاد کرتے ہیں پس انھوں نے نرم وگرم ہر طریقہ سے قوم کو رشد و ہدایت کے یہ کلمات ارشاد فرمائے مگر اس بدبخت قوم پر مطلق کوئی اثرنہ ہوا ‘ اور چند ضعیف اور کمزور ہستیوں کے علاوہ کسی نے پیغام حق پر کان نہ دھرا ‘ وہ خودبھی اسی طرح بداعمال رہے اور دوسروں کی راہ بھی مارتے رہے ‘ وہ راستوں میں بیٹھ جاتے اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس آنے جانے والوں کو قبول حق سے روکتے اور اگر موقع لگ جاتا تو لوگوں کو لوٹ لیتے اور اگر اس پر بھی کوئی خوش قسمت حق کو پر لبیک کہہ دیتا تو اس کو ڈراتے ‘ دھمکاتے اور طرح طرح سے کج روی پر آمادہ کرتے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دعوت حق کا سلسلہ برابر جاری رہا تو ان میں سے سربرآوردہ اشخاص نے کہ جن کو اپنی شوکت و طاقت پر غرور تھا ‘ حضرت شعیب (علیہ السلام) سے کہا ” اے شعیب دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہو کر رہے گی یا ہم تجھ کو اور تجھ پر ایمان لانے والوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے اور تیرا دیس نکالا کریں گے یا تم کو مجبور کریں گے کہ پھر ہمارے دین میں واپس آجاؤ۔ “ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا ” اگر ہم تمھارے دین کو غلط اور باطل سمجھتے ہوں تب بھی زبردستی مان لیں یہ تو بڑا ظلم ہے اور جبکہ ہم کو خدائے تعالیٰ نے تمھارے اس دین سے نجات دے دی تو پھر ہم اس کی طرف لوٹ جائیں تو اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ ہم نے جھوٹ بول کر خدائے تعالیٰ پر بہتان باندھا یہ ناممکن ہے ہاں اگر اللہ کی (جو ہمارا پروردگار ہے) یہی مرضی ہو تو وہ جو چاہے گا کرے گا ‘ ہمارے رب کا علم تمام اشیاء پر چھایا ہوا ہے ‘ ہمارا تو صرف اسی پر بھروسا ہے۔ اے پروردگار تو ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق اور سچائی کے ساتھ فیصلہ کر دے تو ہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ “ قوم کے سرداروں نے جب شعیب (علیہ السلام) کا عزم و استقلال دیکھا تو ان سے روئے سخن پھیر کر اپنی قوم کے لوگوں سے کہنے لگے ” خبردار اگر تم نے شعیب ((علیہ السلام)) کا کہنا مانا تو تم ہلاک و برباد ہوجاؤ گے۔ “ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا ” دیکھو خدائے تعالیٰ نے مجھ کو اس لیے بھیجا ہے کہ میں مقدور بھر تمھاری اصلاح کی سعی کروں اور میں جو کچھ کہتا ہوں اس کی صداقت اور سچائی کے لیے خدا کی حجت اور دلیل اور نشانی بھی پیش کر رہا ہوں ‘ مگر افسوس کہ تم اس واضح حجت کو دیکھ کر بھی سرکشی و نافرمانی پر قائم ہو اور مخالفت کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو تم سے چھوٹا ہوا ہو پھر میں تم سے اپنی اس رشد و ہدایت کے بدلہ میں کوئی اجرت بھی نہیں مانگتا اور نہ کوئی دنیوی نفع کا طالب ہوں میرا اجر تو اللہ کے پاس ہے ‘ اور اگر تم اب بھی نہ مانو گے تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں خدا کا عذاب تم کو ہلاک و برباد نہ کر ڈالے ‘ اس کا فیصلہ اٹل ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ اس کو رد کر دے۔ “ قوم کے سردار تیوری چڑھا کر بولے ” شعیب کیا تیری نماز ہم سے یہ چاہتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے دیوتاؤں کو پوجنا چھوڑ دیں اور ہم کو اپنے مال و دولت میں یہ اختیار نہ رہے جس طرح چاہیں معاملہ کریں ‘ اگر ہم کم تولنا چھوڑدیں لوگوں کے کاروبار میں کھوٹ نہ کریں تو مفلس و قلاش ہو کر رہ جائیں ۔ پس کیا ایسی تعلیم دینے میں تجھ کو کوئی متین اور سچا رہبر کہہ سکتا ہے ؟ “ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے نہایت دل سوزی اور محبت کے ساتھ فرمایا ” اے قوم مجھے یہ خوف لگ رہا ہے کہ تمھاری یہ بے باکیاں اور خدا کے مقابلہ میں نافرمانیاں کہیں تمھارا بھی وہی انجام نہ کر دیں ‘ جو تم سے پہلے قوم نوح ‘ قوم ہود ‘ قوم صالح ‘ اور قوم لوط کا ہوا ‘ اب بھی کچھ نہیں گیا ‘ خدا کے سامنے جھک جا ‘ اور اپنی بد کرداریوں کے لیے بخشش کی طلب گار بن اور ہمیشہ کے لیے ان سے تائب ہوجا ‘ بلاشبہ میرا پروردگار رحم کرنے والا اور بہت ہی مہربان ہے وہ تمھاری تمام خطائیں بخش دے گا ۔ “ قوم کے سرداروں نے یہ سن کر جواب دیا ” شعیب ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ تو کیا کہتا ہے ؟ تو ہم سب سے کمزور اور غریب ہے ‘ اگر تیری باتیں سچی ہوتیں تو تیری زندگی ہم سے زیادہ اچھی ہوتی اور ہم کو صرف تیرے خاندان کا خوف ہے ورنہ تجھ کو سنگسار کر چھوڑتے تو ہرگز ہم پر غالب نہیں آسکتا۔ “ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا ” افسوس ہے تم پر کیا تمھارے لیے خدا کے مقابلہ میں میرا خاندان زیادہ ڈر کا باعث بن رہا ہے حالانکہ میرا رب تمھارے تمام اعمال کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور وہ دانا و بینا ہے۔ خیر اگر تم نہیں مانتے تو تم جانو ‘ تم وہ سب کچھ کرتے رہو جو کر رہے ہو عنقریب خدا کا فیصلہ بتادے گا کہ عذاب کا مستحق کون ہے اور کون جھوٹا اور کاذب ہے تم بھی انتظار کرو اور میں بھی انتظار کرتا ہوں ؟ “ آخر وہی ہوا جو قانون الٰہی کا ابدی و سرمدی فیصلہ ہے یعنی حجت وبرہان کی روشنی آنے کے بعد بھی جب باطل پر اصرار ہو اور اس کی صداقت کا مذاق اڑایا جائے اور اس کی اشاعت میں رکاوٹیں ڈالی جائیں تو پھر خدا کا عذاب اس مجرمانہ زندگی کا خاتمہ کردیتا اور آنے والی قوموں کے لیے اس کو عبرت و موعظت بنادیا کرتا ہے ۔
نوع عذاب
قرآن عزیز کہتا ہے کہ نافرمانی اور سرکشی کی پاداش میں قوم شعیب (علیہ السلام) کو دو قسم کے عذاب نے آگھیرا ایک زلزلہ کا عذاب اور دوسرا آگ کی بارش کا عذاب یعنی جب وہ اپنے گھروں میں آرام کر رہے تھے تو یک بیک ایک ہول ناک زلزلہ آیا اور ابھی یہ ہول ناکی ختم نہ ہوئی تھی کہ اوپر سے آگ برسنے لگی اور نتیجہ یہ نکلا کہ صبح کو دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کل کے سرکش اور مغرور آج گھٹنوں کے بل اوندھے جھلسے ہوئے پڑے ہیں۔
{ فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ } [7]
” پھر آپکڑا ان کو زلزلے نے پس صبح کو رہ گئے اپنے اپنے گھروں کے اندر اوندھے پڑے۔ “
{ فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَہُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِط اِنَّہٗ کَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ } [8]
” پھر انھوں نے شعیب کو جھٹلایا پس آپکڑا ان کو بادل والے عذاب نے (جس میں آگ تھی) بیشک وہ بڑے ہول ناک دن کا عذاب تھا۔ “
{ وَ اِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْٓ اَرٰکُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَھُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ وَ مَآ اَنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیْظٍ قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُکَ تَاْمُرُکَ اَنْ نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا اِنَّکَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ قَالَ یٰقَوْمِ اَرَئَیْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ رَزَقَنِیْ مِنْہُ رِزْقًا حَسَنًا وَ مَآ اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَکُمْ اِلٰی مَآ اَنْھٰکُمْ عَنْہُ اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَ مَا تَوْفِیْقِیْٓ اِلَّا بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْہِ اُنِیْبُ وَ یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شِقَاقِیْٓ اَنْ یُّصِیْبَکُمْ مِّثْلُ مَآ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ ھُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍ وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْکُمْ بِبَعِیْدٍ وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَہُ کَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَ اِنَّا لَنَرٰکَ فِیْنَا ضِعِیْفًا وَ لَوْ لَا رَھْطُکَ لَرَجَمْنٰکَ وَ مَآ اَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیْزٍ قَالَ یٰقَوْمِ اَرَھْطِیْٓ اَعَزُّ عَلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ اتَّخَذْتُمُوْہُ وَرَآئَکُمْ ظِھْرِیًّا اِنَّ رَبِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ وَ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ مَنْ یَّاْتِیْہِ عَذَابٌ یُّخْزِیْہِ وَ مَنْ ھُوَ کَاذِبٌ وَ ارْتَقِبُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ رَقِیْبٌ وَ لَمَّا جَآئَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا وَ اَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْھَا اَ لَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ کَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ } [9]
” اور ہم نے (قبیلہ ) مدین کی طرف اس کے بھائی شعیب کو بھیجا اس نے کہا اے میرے قوم کے لوگو اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو ‘ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم خوش حال ہو ( یعنی خدا نے تمھیں بہت کچھ دے رکھا ہے پس کفران نعمت سے بچو) میں ڈرتا ہوں کہ تم پر عذاب کا ایسا دن نہ آجائے جو سب پر چھاجائے گا۔ اور اے میری قوم کے لوگو ناپ تو ل انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو لوگوں کو ان کی چیزیں (ان کے حق سے ) کم نہ دو ‘ ملک میں فساد پھیلاتے نہ پھرو ‘ اگر تم میرا کہا مانو تو جو کچھ اللہ کا دیا ( کاروبار میں) بچ رہے ‘ اسی میں تمھارے لیے بہتری ہے اور دیکھو (میرا کام تو نصیحت کردینا ہے) میں کچھ تم پر نگہبان نہیں (کہ جبراً اپنی راہ پر چلا دوں) “ لوگوں نے کہا ” اے شعیب کیا تیری یہ نمازیں (جو تو اپنے خدا کے لیے پڑھتا ہے ) تجھے یہ حکم دیتی ہیں کہ ہمیں آکر کہے : ان معبودوں کو چھوڑ دو جنھیں ہمارے باپ دادا پوجتے رہے ہیں ‘ یا یہ کہ ہمیں اختیار نہیں کہ اپنے مال میں جس طرح کا تصرف کرنا چاہیں کریں بس تم ہی ایک نرم دل اور راست باز آدمی رہ گئے ہو “ شعیب نے کہا ” اے میری قوم کے لوگو کیا تم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل روشن رکھتا ہوں اور اس کے فضل و کرم کا یہ حال ہو کہ اچھی (سے اچھی ) روزی عطا فرمارہا ہو (تو پھر بھی میں چپ رہوں اور تمھیں راہ حق کی طرف نہ بلاؤں) اور میں یہ نہیں چاہتا جس بات سے تمھیں روکتا ہوں اس سے تمھیں تو روکوں اور خود اس کے خلاف چلوں ‘ میں تمھیں جو کچھ کہتا ہوں اسی پر عمل بھی کرتا ہوں میں اس کے سوا کچھ نہیں چاہتا کہ جہاں تک میرے بس میں ہے اصلاح حال کی کوشش کروں ‘ میرا کام بنتا ہے تو اللہ ہی کی مدد سے بنتا ہے ‘ میں نے اسی پر بھروسا کیا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اے میری قوم کے لوگو میری ضد میں آکر کہیں ایسی بات نہ کر بیٹھنا کہ تمھیں بھی ویسا ہی معاملہ پیش آجائے جیسا قوم نوح کو یا قوم ہود کو یا قوم صالح کو پیش آچکا ہے اور قوم لوط (کا معاملہ) تم سے کچھ دور نہیں ‘ اور دیکھو اللہ سے (اپنے گناہوں کی) معافی مانگو اور اس کی طرف لوٹ جاؤ۔ میرا پروردگار بڑا ہی رحمت والا بڑا ہی محبت والا ہے “ لوگوں نے کہا ” اے شعیب تم جو کچھ کہتے ہو اس میں سے اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم ہم لوگوں میں ایک کمزور آدمی ہو ‘ اگر (تمھارے ساتھ ) تمھاری برادری کے آدمی نہ ہوتے تو ہم ضرور تمھیں سنگسار کردیتے ‘ تمھاری ہمارے سامنے کوئی ہستی نہیں “ شعیب نے کہا ” اے میری قوم کے لوگو کیا اللہ سے بڑھ کر تم پر میری برادری کا دباؤ ہوا ؟ اور اللہ تمھارے لیے کچھ نہ ہوا کہ اسے پیچھے ڈال دیا ؟ (اچھا) جو تم کرتے ہو میرے پروردگار کے احاطہ (علم) سے باہر نہیں ‘ اے میری قوم کے لوگو تم اپنی جگہ کام کیے جاؤ ‘ میں بھی اپنی جگہ سرگرم عمل ہوں بہت جلد معلوم کرلو گے کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کرے گا اور کون فی الحقیقت جھوٹا ہے ‘ انتظار کرو میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرتا ہوں “ اور پھر جب ہماری ٹھہرائی ہوئی بات کا وقت آپہنچا تو ایسا ہوا کہ ہم نے شعیب کو اور ان کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی رحمت سے بچا لیا اور جو لوگ ظالم تھے انھیں ایک سخت آواز نے آپکڑا ‘ پس جب صبح ہوئی تو اپنے اپنے گھروں میں اوندھے پڑے تھے (وہ اس طرح اچانک ہلاک ہو گئے) گویا ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے تو سن رکھو کہ قبیلہ مدین کے لیے بھی محرومی ہوئی جس طرح ثمود کے لیے محرومی ہوئی تھی۔ “
قبر شعیب (علیہ السلام)
حضرموت میں ایک قبر ہے جو زیارت گاہ عوام و خواص ہے۔ وہاں کے باشندوں کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ شعیب (علیہ السلام) کی قبر ہے حضرت شعیب (علیہ السلام) مدین کی ہلاکت کے بعد یہاں بس گئے تھے اور یہیں ان کی وفات ہوئی۔ حضرموت کے مشہور شہر ” شیون “ کے مغربی جانب میں ایک مقام ہے جس کو ” شبام “ کہتے ہیں ‘ اس جگہ اگر کوئی مسافر وادی ابن علی کی راہ ہوتا ہوا شمال کی جانب چلے تو وادی کے بعد وہ جگہ آتی ہے جہاں یہ ” قبر “ ہے۔ یہاں مطلق کوئی آبادی نہیں ہے اور جو شخص بھی یہاں آتا ہے صرف زیارت ہی کے لیے آتا ہے۔
بصائر وعبر
پچھلی امتوں اور قوموں کے یہ واقعات کہانیاں نہیں بلکہ عبرت بیں نگاہوں کے لیے سرمایہ صد ہزار عبرت ہیں۔ اگر زیادہ غور و فکر سے بھی کام نہ لیا جائے تب بھی بآسانی مسطورہ بالا واقعات سے ہم حسب ذیل نتائج اخذکر سکتے ہیں :
سورة اعراف میں مذکور ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ بلاشبہ تمھارے پاس تمھارے رب کی حجت وبینہ آچکی
{ قَدْ جَآئَتْکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ } [10]
مگر قرآن عزیز نے دیگر انبیا (علیہم السلام) کی طرح حضرت شعیب (علیہ السلام) کے کسی معجزہ ”
آیۃ اللہ “ کا ذکر نہیں کیا۔ علما نے اس سے دو نتیجے نکالے ہیں : ایک یہ کہ اگر نبی اور پیغمبر کسی قسم کا معجزہ نہ بھی لائے اور صرف خدا کے پیغام کے لیے روشن دلائل وبراہین کی حجت ہی پیش کرے تو یہ روشن برہان ہی اس کا سب سے بڑا اور عظیم الشان معجزہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اس مقام پر ”
بینہ “ کی تفصیلات کو خدا کے سپرد کرنا چاہیے ‘ اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ شریعت کے روشن دلائل کے علاوہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بھی خدا کی جانب سے دوسرے انبیا (علیہم السلام) کی طرح کوئی نشان (آیت اللّٰہ) بطور معجزہ عطا کیا گیا ہو اور اگرچہ قرآن نے اس جگہ اس کی تصریح نہیں کی ‘ مگر شعیب (علیہ السلام) کے اس خطاب میں اسی جانب اشارہ ہو۔
ہماری غلطیوں میں سب سے بڑی مہلک غلطی عرصہ سے یہ رہی ہے کہ ہم قرآن عزیز کی تعلیم سے یکسر غافل ہونے کی وجہ سے یہ سمجھ بیٹھے کہ اسلامی زندگی کے ارکان میں صرف ” عبادات “ ہی اہم رکن ہیں اور معاملات میں درست کاری اور اصلاح معاشرت کو اسلام میں کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں فساق امت کا تو ذکر ہی کیا ‘ اکثر اتقیاء اور پرہیزگار بھی حقوق العباد اور معاملات میں بے پروا نظر آتے ہیں مگر حقوق العباد کی حفاظت ‘ معاشرتی درست کاری اور معاملات میں
دیانت و امانت کو اسلام میں کس درجہ اہم شمار کیا گیا ہے ‘ وہ اس سے ظاہر ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک جلیل القدر پیغمبر کی بعثت کا مقصد اسی کو قرار دیا اور ان کو انہی امور کی اصلاح حال کے لیے رسول بنا کر بھیجا ۔
" خریدو فروخت میں دوسروں کے حق کو پورا نہ دینا انسانی زندگی میں ایسا روگ لگا دیتا ہے کہ یہ بد اخلاقی بڑھتے بڑھتے تمام حقوق العباد کے بارے میں حق تلفی کی خصلت پیدا کردیتی ہے اور اس طرح انسانی شرافت اور باہمی اخوت و مودت کے رشتہ کو منقطع کر کے لالچ ‘ حرص ‘ خود غرضی اور خست و دناءت جیسے رذائل کا حامل بنادیا کرتی ہے۔ اسی لیے خدائے برتر کا ارشاد ہے :
{ وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ وَاِذَا کَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ }
[11]
” ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جو دوسروں سے جب لیتے ہیں تو پورے پیمانے سے لیتے ہیں اور جب خود اپنی چیز دیتے ہیں تو ناپ تول میں کمی کرتے ہیں اور کم تولتے اور ناپتے ہیں۔ “
پس اَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ [12] کہہ کر اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ ناپ تول میں انصاف صرف اشیاء کی خریدو فروخت ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ انسانی کردار کا یہ کمال ہونا چاہیے کہ خدا اور اس کے بندوں کے تمام حقوق و فرائض میں ایک اصل کو بنیاد کار بنائے اور کسی موقع اور کسی حالت میں بھی عدل و انصاف کی ترازو کو ہاتھ سے نہ جانے دے اور خریدو فروخت کے درمیان ناپ تول میں کمی نہ کرنا اور انصاف کو برقرار رکھنا گویا ایک کسوٹی ہے۔ جو انسانی زندگی کے معمولی لین دین میں عدل و انصاف نہیں برتتا اس سے کیا توقع ہو سکتی ہے کہ وہ اہم معاملات دینی و دنیوی میں عدل و قسط کو کام میں لائے گا ؟
اصلاح حال کے بعد خدا کی زمین میں فساد پیدا کرنے سے بڑھ کر کوئی جر م نہیں ہے اس لیے کہ ظلم ‘ کبر ‘ قتل اور عصمت ریزی جیسے بڑے بڑے جرائم کی بنیاد اور اصل یہی رذیلہ ہے۔
با طل کی ایک بڑی شنا خت یہ ہے کہ نہ وہ اپنے لیے دلائل کی رو شنی رکھتا ہے اور نہ روشن دلائل کو برداشت کرتا ہے بلکہ جب اس کے سامنے روشنی آتی ہے تو وہ منہ پھیر لیتا اور آنکھیں بند کرلیتا ہے اور اس کی موجودگی کو برداشت نہ کرتے ہوئے دلائل کا جو اب غصہ ‘ دھمکی اور قتل سے دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ تم انبیا (علیہم السلام) اور ان کے پیرو ان حق کی زندگی اور پھر ان کے مقابل اور مخالف باطل پرستوں کی زندگی کا موازنہ کرو اور تاریخ کے اوراق سے واضح شہادت لو تو تم کو قدم قدم پر یہ حقیقت آشکارا اور روشن نظر آئے گی کہ انبیا (علیہم السلام) روشن دلائل دے رہے ہیں ‘ آیات اللہ اور خدا کی نشانیاں دکھا رہے ہیں ‘ محبت اور رحم کے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں اور اپنی دعوت و تبلیغ پر مخاطبین پر ما لی دباؤ نہ ڈالنے کا اطمینان دلا رہے ہیں مگر ان تمام باتوں کے باوجود دوسری جانب سے ان کو کہا جا رہا ہے کہ ہم تمھارا دیس نکالا کر دیں گے ‘ ہم تم کو سنگسار کر دیں گے ‘ ہم تم کو قتل کر دیں گے ‘ اور اگر خدا کے پیغمبر آخری طور پر یہ کہتے ہیں کہ اگر تم ہماری آواز پر لبیک نہیں کہتے تو کم از کم ہمارے وجود کو برداشت کرو اور اتنا تو صبر کرو کہ خدا تمھارے اور ہمارے درمیان حق و باطل کا خود فیصلہ کر دے تو دوسری جانب سے اس کے جواب میں بھی انکار ‘ تمسخر اور یہ مطالبہ پیش ہوتا ہے کہ بس اب تم اپنی نصیحت ختم کرو اور اگر سچے ہو تو جس عذاب سے ڈرتے ہو ‘ وہ ابھی لے آؤ ورنہ تو ہم ہمیشہ کے لیے تمھارا اور تمھارے مشن کا خاتمہ کر دیں گے۔
حق و باطل کا یہی وہ آخری مرحلہ ہے جس کے بعد خدائے تعالیٰ کا وہ قانون جس کو قانون پاداش عمل کہا جاتا ہے ایسی سرکش اور متکبر قوموں کے لیے دنیا ہی میں نافذ ہوجاتا ہے اور ان کو ہلاک و تباہ کر کے آنے والی نسلوں اور قوموں کے لیے سامان عبرت و موعظت مہیاکر دیتا ہے۔
مزید دیکھیے
حوالہ جات
- ↑ تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی
- ↑ تفسیر احسن التفاسیر۔ حافظ محمد سید احمد حسن
- ↑ (حجر : ١٥/٧٩)
- ↑ (معجم البلدان جلد ٥ ص ٤١٨)
- ↑ (الاعراف : ٧/١٠٣)
- ↑ (قصص الانبیاء للنجار ص ١٨٥)
- ↑ (سورہ الاعراف : ٧/٧٨)
- ↑ (سورہ الشعراء : ٢٦/١٨٩)
- ↑ (سورہ ھود : ١١/٨٤ تا ٩٥)
- ↑ (سورہ الاعراف : ٧/٨٥)
- ↑ (سورہ المطففین : ٨٣/١ تا ٣)
- ↑ (سورہ ہود : ١١/٨٥)