کالب بن یفنہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کالب بن یفنہ
موسیٰ، یشوع اور کالب
نام: کالب
قومیت: بنی اسرائیل کے یہوداہ قبیلے کی
والد: یفنہ یا یفنہ
خاندان: قنز (بھائیغتنی ایل(سوتیلا بیٹا اور سگا بھتیجا)
عکسہ بنت کالب (بیٹی)
قابلِ احترام: اسلام، یہودیت اور مسیحیت

کالب (کبھی کبھی کالیب بھی لکھا جاتا ہے۔כָּלֵב، طبرابی ادائیگی: Kālēb؛ عبرانی اکیڈمی:Kalev) ایک شخصیت کا نام ہے جس کا ذکر عبرانی بائبل میں آیا ہے۔ عبارت میں وہ بنی اسرائیل کے میدان تیہ تک سفر کے دوران قبیلہ یہوداہ کے نمائندہ کے طور مذکور ہے۔ ان کا ایک ذکر قرآن مجید میں بھی پایا گیا، اگرچہ ان کے نام کا ذکر نہیں ہے۔

نام[ترمیم]

یہودی دائرۃ المعارف کے مطابق، چونکہ” کالب“ کے نام کا مطلب کتا بنتا ہے، یہ سوچا گیا ہے کہ یہ کتا [کالب] کے قبیلہ کا ٹوٹم(علامتِ شخص) تھا۔[1] مضبوط لغت میں درج ہے کہ ”کالب“ شاید ”قلیب“ مطلب کتا۔ (انگریزی: Keleb)(عبرانی: כָּ֫לֶב‎) کی ایک شکل ہے۔ یا ان کا ایک ہی قَوی معنی بنتا ہے۔[2] جبکہ نئی امریکی مضبوط لغت میں درج ہے کہ ”قلیب“(انگریزی: Keleb) ”غیر یقینی ماخذ“ ہے۔[3]

نام کا اصل عبرانی تلفظ /ˈkɑːlɛb/ یا /ˈkɑːlɛv/ ہے؛ جدید انگریزی تلفظ کی ادائیگی /ˈkləb/ ہے۔

کالب میدان تیہ میں داخل ہونے سے پہلے اسرائیل کے صحرا میں 40 سال تک موجود رہا جس سے وہ ایک بہت بااثر کردار ثابت ہوتا ہے۔

== بائبل کا نقطۂ نظر ==# کالب ابن یفنہ یا یفنہ بارہ جاسوس میں سے ایک تھا جنہیں موسیٰ نے کنعان کے حالات دریافت کرنے بھیجا تھا۔ جس کا ذکر کتاب گنتی 13:3 میں آیا ہے:

(٣)چنانچہ موسٰی نے خداوند کے ارشاد کے موافق دشتِ فادان سے ایسے آدمی روانہ کئے جو بنی اسرائیل کے سردار تھے۔[4]

موسٰی نے اُن کو روانہ کیا تھا تاکہ ملک کنعان کا حال دریافت کریں اور اُن بارہ افراد (جاسوسوں) سے موسیٰ نے کہا کہ” تم ادھر(کنعان) جنوب کی طرف جاکر پہاڑوں میں چلے جانا۔ اور دیکھنا کہ وہ ملک کیسا ہے اور جو لوگ وہاں بسے ہوئے ہیں وہ کیسے ہیں۔ زورآور ہیں یا کمزور اور تھوڑے سی مقدار میں ہیں یا بہت۔ اور جس ملک میں وہ آباد ہیں وہ کیسا ہے۔ اچھا ہے یا برا؟ اور جن شہروں میں وہ رہتے ہیں وہ کَیسے ہیں؟۔ آیا وہ خیموں میں رہتے ہیں یا قلعوں میں۔ اور وہاں کی زمین کیسی ہے زرخیز ہے یا بنجر اور اس میں دریافت ہیں یا نہیں۔ تمھاری ہمت بندھی رہے اور تم اُس ملک کا کچھ پھل لیتے آنا“[5] کیونکہ یہ موسم انگور کی پہلی فصل کا تھا تو انھیں موسیٰ نے حکم دیا تھا کہ انگور کا ایک گُھچا وہاں سے توڑ کر لانا۔ اور یہ بارہ لوگ چالیس دن کے بعد اُس ملک کا حال دریافت کرکے لوٹے [6] جو ملک انھوں نے دریافت کیا تھا وہ نقب یا اس کے آس پاس کا علاقہ تھا اور نے انھوں نے موسیٰ کو جواب دیا کہ ”وہاں کے لوگ بہت زورآور ہیں خُداوند کی تمام نعمتیں وہاں موجود ہیں“۔ موسیٰ نے کہا ”ہم ان پر ایک دم حملہ کریں گے“ انھوں نے گھبراتے ہوئے جواب دیا ”ہم ان سے جنگ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے کیونکہ جو لوگ وہاں بسے ہوئے ہیں وہ زورآور ہیں اور ان کے شہر بڑے بڑے اور فصیلدار ہیں۔ اور ہم ایک ایسے ملک سے گذرے جو اپنے باشندوں کو کھا جاتا ہے۔ اور ہم نے بنی عناق کو بھی وہاں دیکھا جو جبار ہیں اور جباروں کی نسل سے ہیں اور ہم تو اپنی ہی نگاہ میں ایسے تھے جیسے ٹڈے ہوتے ہیں اور ایسے ہی ان کی نگاہ میں تھے۔“[7] لیکن تمام جاسوس افراد چیخنے لگے کہ ”ہم ان سے جنگ نہیں کرسکتے۔ ہائے کاش مصر میں ہی موت آجائے! یا کاش اِس بیابان ہی میں مرتے! “۔ تب مُوسٰی اور ہارون بنی اسرائیل کی ساری جماعت (جاسوس) کے سامنے اوندھے منہ ہو گئے اور یشوع ابن نون اور کالِب ابن یفنہ جو اُس ملک کا حال دریافت کرنے والوں میں سے تھے اپنے اپنے کپڑے پھاڑ کر۔ بنی اسرائیل کی ساری جماعت سے کہنے لگے کہ ”وہ ملک جس کا حال دریافت کرنے کو ہم اُس میں سے گُذرے نہایت اچھا ملک ہے۔ اگر خدا ہم سے راضی رہے تو وہ ہم اُس مُلک میں پہنچائے گا اور وہی مُلک جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے ہم کو دے گا۔ فقط اتنا ہو کہ تم خداوند سے بغاوت نہ کرو اور نہ اس ملک کے لوگوں سے ڈرو۔ وہ تو ہماری خوراک ہیں۔ ان کی پناہ اُن کے سر پر سے جاتی رہی ہے اور ہمارے ساتھ خُداوند ہے۔ سو ان کا خوف نہ کرو“۔[8]
2.کالب ابن حصرون، فارص کا پوتا اور یہوداہ کا پر پوتا۔[9] تلمود کے مطابق یہ کالب مندرجہ بالا جاسوس کالب ایک ہی ہیں۔ یہ کالب نسل و نسب سے بنی اسرائیلی ہے۔ جو ایک نامعقول بات ہے کہ یہ کالب اور جاسوس کالب ایک ہی ہیں۔

قرآن کا نقطۂ نظر[ترمیم]

کالب کا مقبرہ، تمنت حرس

کالب بن یفنہ کا اشارہ سورہ المائدہ 20-26 میں آیا ہے۔* وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاء وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّن الْعَالَمِينَ(20)يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ(21) قَالُوا يَا مُوسَى إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىَ يَخْرُجُواْ مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُواْ مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ(22) قَالَ رَجُلاَنِ مِنَ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُواْ عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ وَعَلَى اللّهِ فَتَوَكَّلُواْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ(23) قَالُواْ يَا مُوسَى إِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُواْ فِيهَا فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ(24) قَالَ رَبِّ إِنِّي لا أَمْلِكُ إِلاَّ نَفْسِي وَأَخِي فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ(25) قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً يَتِيهُونَ فِي الأَرْضِ فَلاَ تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ(26)

* ترجمہ:
اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب موسٰی (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! تم اپنے اوپر (کیا گیا) اﷲ کا وہ انعام یاد کرو جب اس نے تم میں انبیاء پیدا فرمائے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ (کچھ) عطا فرمایا جو (تمہارے زمانے میں) تمام جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیا تھا(20) اے میری قوم! (ملکِ شام یا بیت المقدس کی) اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اﷲ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پشت پر (پیچھے) نہ پلٹنا ورنہ تم نقصان اٹھانے والے بن کر پلٹو گے(21)انہوں نے (جوابًا) کہا: اے موسٰی! اس میں تو زبردست (ظالم) لوگ (رہتے) ہیں اور ہم اس میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے یہاں تک کہ وہ اس (زمین) سے نکل جائیں، پس اگر وہ یہاں سے نکل جائیں تو ہم ضرور داخل ہو جائیں گے(22)ان (چند) لوگوں میں سے جو (اﷲ سے) ڈرتے تھے دو (ایسے) شخص[ممکنہ طور پر کتاب گنتی کی روشنی میں یشوع اور اس کا ساتھی کالب] بول اٹھے جن پر اﷲ نے انعام فرمایا تھا (اپنی قوم سے کہنے لگے:) تم ان لوگوں پر (بلا خوف حملہ کرتے ہوئے شہر کے) دروازے سے داخل ہو جاؤ، سو جب تم اس (دروازے) میں داخل ہو جاؤ گے تو یقیناً تم غالب ہو جاؤ گے، اور اﷲ ہی پر توکل کرو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو(23)انہوں نے کہا: اے موسیٰ! جب تک وہ لوگ اس (سرزمین) میں ہیں ہم ہرگز کبھی وہاں داخل نہیں ہوں گے، پس تم اور تمہارا رب (ایک ساتھ) جاؤ اور جنگ کرو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں(24) (موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میں اپنی ذات اور اپنے بھائی (ہارون علیہ السلام) کے سوا (کسی پر) اختیار نہیں رکھتا پس تو ہمارے اور (اس) نافرمان قوم کے درمیان (اپنے حکم سے) جدائی فرما دے(25)(ربّ نے) فرمایا: پس یہ (سرزمین) ان (نافرمان) لوگوں پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے، یہ لوگ زمین میں (پریشان حال) سرگرداں پھرتے رہیں گے، سو (اے موسٰی! اب) اس نافرمان قوم (کے عبرت ناک حال) پر افسوس نہ کرنا(26) [10]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. http://jewishencyclopedia.com/articles/3918-caleb "Caleb" اخذ کردہ: 15 اپریل 2017
  2. Strong's Exhaustive Concordance http://biblehub.com/hebrew/3612.htm اخذ کردہ: 15 اپریل 2017
  3. NAS Exhaustive Concordance, 'Keleb' http://biblehub.com/nasec/hebrew/3611.htm اخذ کردہ: 15 اپریل 2017
  4. گنتی 13:3
  5. گنتی 20-13:17
  6. گنتی 14:34
  7. گنتی 33-13:28
  8. گنتی9 -14:5
  9. کتاب تواریخ اول 2:18
  10. القرآن سورہ المائدہ 20-26

بیرونی روابط[ترمیم]

 ہیو چشولم، مدیر (1911ء)۔ "Calebدائرۃ المعارف بریطانیکا (11ویں ایڈیشن)۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس  * The Jewish Encyclopedia, 1908