مغربی یورپ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سرد جنگ کے دوران مشرقی و مغربی یورپ، بالترتیب وارسا پیکٹ اور نیٹو کے تحت

مغربی یورپ (western europe) کے عام معنوں میں ان تمام ممالک کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ہے جو یورپ کے مغربی حصے میں واقع ہیں۔ یہ اصطلاح مختلف ادوار میں مختلف معنوں میں استعمال ہوتی رہی ہے اور اس کی معنوں میں جغرافیائی کے علاوہ سیاسی و ثقافتی عناصر بھی اہمیت کے حامل ہیں۔

مغربی و مشرقی یورپ میں پہلا امتیاز رومی سلطنت کی تاریخ سے ملتا ہے۔ رومی موجودہ تقریباً پر چھا گئے لیکن اس کے باوجود مغربی خطوں کی زبان لاطینی تھی جبکہ مشرقی خطے یونانی بولتے تھے۔ یہ زبان و ثقافت کا فرق دونوں خطوں میں پہلا امتیاز ثابت ہوا اور بعد ازاں رومی سلطنت کی تقسیم سے یہ مزید واضح ہو گیا۔

ایکسپیڈیشن 29 کے عملے نے 2011 میں مغربی یورپ کے راستے پر آئی ایس ایس پر سوار ویڈیو لی تھی۔

بعد ازاں مسیحیوں رومن کیتھولک اور مشرقی آرتھوڈوکس فرقوں میں تقسیم اور بعد ازاں مسلم سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں مشرقی یورپ کی فتح بھی دونوں خطوں کے درمیان امتیازات میں مزید اضافے کا باعث بنی۔

یورپی نشاۃ ثانیہ (Renaissanceمارٹن لوتھر کی پروٹسٹنٹ تحریک، عہدِ روشن خیالی (Age of Enlightment)، انقلاب فرانس اور صنعتی انقلاب (Industrial Revolution) ایسے اہم مواقع تھے جنھوں نے مغربی یورپ کی ثقافت اور الگ پہچان کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ دریافتوں کے عہد (Age of Discovery) میں مغربی یورپ کے ممالک نے افریقا، ایشیا، جنوبی اور شمالی امریکا کو غلام بنا لیا اور یوں اس دور کو نوآبادیاتی دور (Colonial Era) بنا دیا۔ قبضے کے بعد ان ممالک سے لوٹی گئی دولت کے ذریعے مغربی یورپ مالی و ثقافتی اعتبار سے مشرقی یورپ سے بہت آگے نکل گیا۔ یہ تمام تاریخی واقعات یورپ کی اس سیاسی، ثقافتی، لسانی اور تاریخی تقسیم پر گہرے اثرات رکھتے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے حتمی مراحل میں یورپ کا مستقبل 1945ء کی یالتا کانفرنس میں اتحادیوں کے مابین طے پایا جس میں وزیر اعظم برطانیہ ونسٹن چرچل، صدر امریکہ فرینکلن ڈی روزویلٹ اور سوویت یونین کے سربراہ جوزف اسٹالن شامل تھے۔

بعد از جنگ عظیم سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام کے درمیان سرد جنگ کے نتیجے میں یورپ دو بڑے حلقہ ہائے اثر میں بٹ گیا جس میں مشرقی حصہ سوویت یونین کے زیر اثر تھا جبکہ مغربی حصے کے تقریباً تمام ممالک امریکا کے زیر اثر تو نہیں کہے جا سکتے لیکن کم از کم مارشل پلان کے تحت اس سے اقتصادی امداد ضرور لیتے تھے اور سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ تھے۔ ان میں بیشتر نے نیٹو (NATO) میں شمولیت اختیار کر لی اور کچھ یورپی اتحاد یا اس کی حریف ایفٹا (European Free Trade Association) کا حصہ بن گئے۔

مغربی یورپ ان ممالک پر مشتمل تھا اور ہے:

  •  مملکت متحدہ اور  فرانس، جنگ عظیم کے فاتحین میں شامل تھے۔
  •  نیدرلینڈز،  بلجئیم اور  لکسمبرگ، وہ ممالک جو نازی جرمنی کے زیر قبضہ آئے اور مغربی اتحادیوں نے انھیں آزادی دلائی۔
  • وفاقی جمہوریہ  جرمنی، جو عام طور پر مغربی جرمنی کے نام سے جانا جاتا تھا، جرمنی کے تین قابض علاقوں سے تشکیل پایا جو مغربی اتحادی (امریکا، برطانیہ اور فرانس) کے تحت تھے۔ اب پورا جرمنی مغربی یورپ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
  •  اطالیہ، سابق محوری قوت، جس نے مغربی اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے اور اس پر قبضہ کر لیا گیا۔
  •  جمہوریہ آئرلینڈ، 1922ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ جنگ میں کسی فریق کی حمایت نہیں کی۔ نیٹو میں شامل نہیں ہوا البتہ 1973ء میں یورپی اتحاد کا حصہ بنا۔
  • شمالی ممالک کا معاملہ کچھ الگ رہا۔

 ڈنمارک اور  ناروے نازی جرمنی کے قبضے میں تو آ گئے لیکن انھیں اتحادیوں نے آزادی نہیں دلائی۔ جنگ کے دوران  آئس لینڈ، جو اس وقت ایک بادشاہ کے تحت ڈنمارک کا حصہ تھا، پر برطانیہ اور امریکہ نے حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔ جنگ کے دوران آئس لینڈ نے مکمل آزادی کا اعلان کر دیا۔

  •  سویڈن نے جنگ کے دوران مکمل طور پرغیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا۔
  •  فن لینڈ روس کے خلاف جرمنی کا ساتھی تھا اور شکست کھا گیا تاہم اس پر قبضہ نہیں کیا گیا۔ بلکہ سوویت اتحاد اور فن لینڈ کے مابین معاہدہ طے پا گیا۔
  •  آسٹریا جنگ عظیم دوم سے قبل ہی سے جرمنی کے قبضے میں تھا جبکہ سویٹزرلینڈ نے جنگ کے دوران غیر جانبدارانہ کردار ادا کیا۔ جنگ کے بعد آسٹریا بھی غیر جانبدار رہا۔ بعد ازاں آسٹریا نے یورپی اتحاد میں شمولیت اختیار کی لیکن نیٹو کا حصہ نہیں بنا۔ سویٹزرلینڈ نے یورپی اتحاد اور نیٹو دونوں کی رکنیت لینے سے انکار کر دیا اور ایفٹا میں شمولیت اختیار کر لی۔

یہ ممالک بھی جغرافیائی یا سیاسی طور پر "مغربی یورپ" کا ہی حصہ شمار کیے جاتے ہیں: