فقہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بسم اللہ الرحمن الرحیم

بسلسلہ شرعی علوم
علم فقہ

فقہ سے مراد ایسا علم جس میں اُن شرعی احکام سے بحث ہوتی ہو جن کا تعلق عمل سے ہے اور جن کو تفصیلی دلائل سے حاصل کیا جاتا ہے۔ فقہ شریعت اسلامی کی ایک اہم اصطلاح ہے۔

لغوی معنی[ترمیم]

فقہ کا لغوی معنی ہے : ’’کسی شے کا جاننا اور اُس کی معرفت و فہم حاصل کرنا۔‘‘

لفظ "فقہ" قرآن مجید میں[ترمیم]

قرآن حکیم میں درج ذیل مواقع پر یہ فقہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے :

  • وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَآفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ

اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ "دین کی تعلیم فقہ" (سمجھ) حاصل کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ بھی محتاط ہو جاتے۔

  • قَالُواْ يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِّمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفًا وَلَوْلاَ رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ وَمَا أَنتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ

وہ بولے، اے شعیب! تمھاری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں۔

  • أَيْنَمَا تَكُونُواْ يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِ اللّهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِكَ قُلْ كُلًّ مِّنْ عِندِ اللّهِ فَمَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا

’’آپ فرما دیں (حقیقۃً) سب کچھ اللہ کی طرف سے (ہوتا) ہے۔ پس اس قوم کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھنے کے قریب ہی نہیں آتےo‘‘

  • ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ

تو اُن کے دلوں پر مُہر لگا دی گئی سو وہ (کچھ) نہیں سمجھتے۔

لفظ "فقہ" حدیث نبوی میں[ترمیم]

حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی فقہ کا لفظ سمجھ بوجھ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ معاویہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
مَنْ يُرِدِ اﷲُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ۔[1]

اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔

نیزآپﷺنے ارشاد فرمایا: "فَقِيهٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ"۔[2]
ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے بھاری ہوتا ہے۔
کیونکہ عابد کی عبادت بلا بصیرت ہوتی ہے، اس لیے شیطان کو اسے گمراہی کے گڑھے میں دھکیلنا اور شکوک وشبہات کے جال میں پھانسنا بہت آسان ہوتا ہے؛ جب کہ فقیہ اس کی سازشوں اور چالوں سے واقف ہوتا ہے اور وہ اس کے دامِ فریب میں عام طور پر نہیں آتا ہے،

لفظ "فقہ" شرعی اصطلاح میں[ترمیم]

صاحب الاشباہ والنظائر نے فقہ کی عظمت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: اسی لیے شرعی اصطلاح میں "فقہ" کا لفظ علمِ دین قران کریم کا علم حاصل کرنے کے لیے مخصوص ہے۔[3]

امام ابو حنیفہ فقہ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

الفقہ : معرفة النفس، مَالَهَا وما عليها۔[4]
فقہ نفس کے حقوق اور فرائض اور واجبات جاننے کا نام ہے۔ بالعموم فقہا کرام فقہ کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

العلم بالأحکام الشرعية العملية من أدلتها التفضيلية۔[5]

احکام فرعیہ شرعیہ عملیہ کو تفصیلی دلائل سے جاننے کا نام فقہ ہے۔

"شرعی احکام" سے مکلف کے افعال پر شریعت کی جانب سے جو حکم اور صفت مرتب ہوتی ہے وہ مراد ہے، جیسے کسی عمل کا فرض، واجب، مستحب یامباح یا اسی طرح حرام ومکروہ ہونا اور تفصیلی دلائل کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ کس دلیل شرعی پر مبنی ہے، کتاب اللہ پر، سنت رسول پر، اجماع پر یا قیاس وغیرہ پر؛ اسی طرح حکم اور دلیل کے درمیان میں ارتباط کو جاننا بھی فقہ میں شامل ہے۔

علامہ ابن خلدون نے فقہ کی تعریف میں لکھا ہے:افعال مکلفین کی بابت اس حیثیت سے احکام الہٰی کے جاننے کا نام فقہ ہے کہ وہ واجب ہیں یامحظور، ممنوع وحرام، مستحب اور مباح ہیں یامکروہ۔[6]

لیکن کیوں۔مکرو ہے کیسے مکرو ہے جب اللہ پاک خد فرما رہے ہیں کے اے ایمان والوں کیا تم نہی جانتے کے میں نے تمھارے لیے قران مجید سے کھلی کھلی دلیلیں چھوڑ رکھی ہیں کیا تم کو فرعون کے بارے میں۔اج سے 1400سو یا 1423 سال پہلے ہی سے فرما دیا گیاہوا نہی ہے فقہ مومن کا لقب ہے اور اللہ پاک نے انسان کو غلتی کرنے والا انسان بی کہا ہے لیکن مافی کی اجازت بی دے ہے سرف سود کہانے والوں کی کوئی مافی نہی حقوق اللہ میں جوعبادتیں کرنے والیں ہیں یاں جو نہی کم عبادت گزار ہیں ان سب میں سود کھانے والوں کے لیے جنگ کا ذیکر آیا ہے قرآن کریم میں اور کسی گناہ کے بارے میں جنگ کا نہی کہا اللہ نے یہ سب تعلیم والے عالم جانتے ہیں تو پھر وہ خد اپنی دلیلیں کیوں بناتے ہیں کیا وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی نہی کر رہے ایسہ کہنے سے اللہ تعالیٰ نے تو ہر انسان کے لیے الیدا الہدا سب کچھ فرانس دیا ہوا ہے اور حدیث نبی میں بی یہ ہی بات ساف صاف سابت ہے کے سود کی اجازت نہیں کسی بھی طرہاں اور ناہی سود کی اجازت توریت زبور انجیل میں ہی اللہ اکبر اللہ نے نہی دی کسی بھی مذہب میں سود کی اجازت نہیں دی ہمارے خدا نے تو پھر یہ سب کچھ سود کے کارو بار کیوں

مندرجہ بالا تعریفات واضح کرتی ہیں کہ فقۂ اسلامی سے مراد ایسا علم و فہم ہے، جس کے ذریعے قرآن و حدیث کے معانی و اشارات کا علم ہو جائے اور احکامات کی مخصوص دلائل کے ذریعے معرفت حاصل ہو، جیسے نماز کی فرضیت کا علم اَقِيْمُو الصَّلٰوۃ کے ذریعے حاصل ہوا، زکوٰۃ کی فرضیت کا علم اٰتُوا الزَّکٰوۃَ کے ذریعے حاصل ہوا۔

علم فقہ کا موضوع[ترمیم]

مکلّف آدمی کا کردار ہے جس کے احکام سے اس علم میں بحث ہوتی ہے، مثلاً انسان کے کسی کیردار کا صحیح، سے مراد عدل پسند اور شرعی فرض اور واجب، سنت ومستحب، یاحلال وحرام ہونا وغیرہ۔۔۔۔۔[7]

فقہ کی غرض وغایت[ترمیم]

سعادت دارین کی کامیابی اور علم فقہ کے ذریعہ شرعی احکام کے مطابق عمل کرنے کی قدرت۔[8]

فقیہ[ترمیم]

فقیہ (انگریزی: Jurist) اس پیشہ ور کو کہتے ہیں جو قانون کا مطالعہ کرتا ہے یا دوسری صورت میں قانون سے متعلق کوئی رائے تیار کرتا ہے، جو بعد میں صلح و مشورہ کے کام دیتی ہے یا نیا قانون نافذ کرنے میں کام آتی ہے-

ضرورت فقہ[ترمیم]

انسان کی مکمل زندگی میں عقائد، خاس دو ہیں اور دو سے ذیادا ہیں حقوق اللہ عبادات، حقوق الباب معاملات اور معاشرت وغیرہ سے متعلق شرعی احکام و مسائل ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں قرآن، حدیث اور صحابہ وغیرہ کے اقوال میں بکھرے پڑے ہیں، اب ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ میں ہر مسئلہ بلاواسطہ قرآن، حدیث اور آثار صحابہ وغیرہ سے خود ہی تلاش کرلوں گا یہ ایک ممکن اور بے حد ضروری ہے اس لیے ناممکن کچھ نہی اس کی وجوہات بہت ساری ہیں مثلاً:

  1. انسان کی اپنی اپنی لامتناہی مصروفیات
  2. شریعت کے تمام احکام عربی زبان میں ہیں اور ہر انسان عربی زبان سے واقف نہیں ہوتا ہے تو اس کے معانی مختلف ہونے کی وجہ سے صحیح معنی تک اس کا پہنچنا دشورا نہی ہوتا کیوں کے اردو زبان میں ترجمہ تکریبن مکمل ہو چکا ہے اس لیے اب معنی سمجھنہ مشکل نہی رہا اور اللہ نے۔خد قران مجید میں اجازت دی ہے کے۔یہ تماری حدایت کے لیے ہے قرآن مجید کی کلام کو۔پڑھو سمجھو اپنی زبان میں اسان کر کے اور دوسروں کو بی سمجھاو اس لیے تو یہ مدارس بنے ہیں اور بڑے بڑے عالم لوگ۔ہیں اب تو مشکل کچھ رکھا نہی اللہ تعلئ نے
  3. شریعت کے بعض احکام ایسے ہیں جو آیات قرآني اور احادیثِ صحیحہ سے صراحۃ ثابت ہیں لیکن بعض احکام ایسے ہیں کہ جن میں کسی قدر ابہام و اجمال ہے اور بعض آیات و احادیث ایسی ہیں جو چند معانی کا احتمال رکھتی ہیں اور کچھ احکام ایسے ہیں جو بظاہر قرآن کی کسی دوسری آیت یا کسی دوسری حدیث سے متعارض معلوم ہوتی تو وہاں اجتہاد و استنباط سے کام لینا پڑتا ہے اور خود زبان نبوت سے اس کی تائید و تصویب بھی ہوتی ہے (ترمذی، باب ماجاء فی القاضی کیف یقضی، حدیث نمبر:1249) اور اجتہاد و استنباط ہر ايك كے بس كی بات نہیں؛ ایسے موقع پر عمل کرنے والے کے لیے الجھن اور دشواری یہ پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنا عمل شریعت کے مطابق کیسے بنائے؟ کس پر عمل کرے اور کونسا راستہ اختیار کرے؟ اسی الجھن کی وجہ سے خود صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موجودگی میں بلاواسطۂ نبی قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ كچھ خاص صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جاکر قرآنی تعلیمات مستقل طور پر سمجھا کرتے تھے کیوں کے اللہ پاک نے خلیفہ حق سب کو نہی دیا خلیفہ حق اللہ کے چنے ہوئے انسان کے الہام کے تور پر بی ہوتا ہے کیوں کیوں کے کچھ ایسی چیزیں ہیں جو سرف اللہ اپنے خاس بندوں کو ہی عطافرماے ہے جیسے امام مہدی علیہ اسلام

جنوں نے اپنی بادشاہی دنیاہ اللہ کی رضا کے لیے چھوڑی کیوں کے وہ سرف امن پسند اور سیرت نبی سے پیار کرنے والے ہیں اب ان کو بی کچھ اومتے مسلمہ کے عالم کی رے اپنی اپنی ہے لیکن انسان کی سوچ سے اللہ کے احکامات اور نظام تو نہی چینج ہوتے اس لیے ہر انسان کا یہ فرض ہے کے وہ یہ دیکھے اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے ۔[9]

اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد ہر شخص قرآن و حدیث سے بغیر کسی واسطے کے کوئی مسئلہ اپنے لیے تجویز نہیں کرتا تھا بلکہ جو عالم صحابہ کرام تھے ان سے مسئلہ معلوم کرکے عمل کیا کرتا تھا اسی طرح ہر زمانہ میں ہوتا رہا۔ بہرحال بعض حضرات ہر زمانے میں ایسے رہے جو قرآن و حدیث کے علوم میں ماہر، فہم و بصیرت میں اعلیٰ، تقویٰ اور طہارت میں فائق اور حافظہ و ذکاوت میں اوقع تھے لوگ ان ہی سے مسائل معلوم کرکے عمل کرتے اور اپنی فہم و بصیرت پر بالکل اعتماد نہیں کرتے اور اگر ہر کوئی خود ہی اپنے مسئلہ کو قرآن و حدیث میں تلاش کرنے لگے تو گویا ایسا ہی ہو جائے گا جیسے کہ ہر شخص اپنے مرض کا علاج خود ہی طبی کتابوں میں تلاش کرلے ڈاکٹر وغیرہ کی اس کو ضرورت ہی نہیں اگر ایسا ہوا تو کیا ہر مریض اپنے مرض کا علاج ان كتابوں ميں تلاش کر پائے گا؟ ہرگز نہيں؛ بالکل اسی طرح دینی و شرعی مسئلہ کو سمجھیں کہ اس کا حل ہر کوئی نہیں کر سکتا۔ بہرحال جو لوگ قرآن و حدیث کو مکمل طور پر سمجھے ہیں اور اپنی مکمل زندگی کو مسائل کے حل کرنے اور قرآن و حدیث کے مطابق اس کو ڈھالنے میں وقف کر دیا اور ہر مسئلہ کا جواب قرآن و حدیث اور اس کے مطابق اصول کی روشنی میں بتایا ان میں مقبول چار حضرات کے مکاتب فکر ہوئے ہیں جن کے نام یہ ہیں، امام ابو حنیفہ امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل، ان حضرات کے بعد ان کے شاگرد حضرات ہر ایک کا مسئلہ قرآن و حدیث اور ان حضرات کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق بتلایا کرتے تھے اسی طرح یہی معمول اب تک چلا آیا اور آئندہ بھی چلتا رہے گا۔ ان چاروں حضرات نے مسائل کے حل کرنے میں جو طرز عمل اختیار فرمایا وہ اس طرح ہے۔

عظمت فقہ[ترمیم]

صاحب الاشباہ والنظائر نے فقہ کی عظمت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "الفقۃ أشرف العلوم قدراً وأعظمھا أجرا وأتمھا عائدۃ وأعمھا فائدۃ وأعلاھا مرتبہ یملا العیون نوراً والقلوب سروراً والصدور انشراحاً"۔[10]

علم فقہ تمام علوم میں قدرومنزلت کے اعتبار سے بڑھا ہوا ہے اور اجر کے اعتبار سے بھی اس کا مرتبہ اونچا ہے، علم فقہ اپنے مقام ورتبہ کے اعتبار سے بھی بہت بلند ہے اور وہ آنکھوں کو نور اور جلا بخشتا ہے، دل کو سکون اور فرحت بخشتا ہے اور اس سے شرح صدر حاصل ہوتا ہے۔ اور صاحب درمختار نے علم فقہ کی عظمت کا یوں تذکرہ کیا ہے۔ "وخیرعلوم علم فقہ ؛لانہ یکون الی العلوم توسلاً ؛فان فقیھا واحداً متورعاً علی الف ذی زھد تفضل واعتلیٰ، تفقہ فان الفقہ افضل قائد الی البر والتقوی وأعدل قاصد وکن مستفیدا کل یوم زیادۃ من الفقہ واسبح فی بحور الفوائد"۔[11]

تمام علوم میں قدرومنزلت اور مقام ورتبہ کے اعتبار سے سب سے بہتر علم فقہ ہے، اس لیے کہ علم فقہ تمام علوم تک پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے، اسی وجہ سے ایک متقی فقیہ ہزار عابدوں پر بھاری ہوتا ہے، علم فقہ کو حاصل کرنا چاہیے، اس لیے کہ علم فقہ نیکی اور تقویٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور ہردن علم فقہ سے مستفید ہوتے رہنا چاہیے، اس کے سمندر میں غوطہ زنی کرنا چاہیے۔

فقہ اور عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم[ترمیم]

  1. قرآن و حدیث کی بنیاد براہِ راست فرمانِ باری پر ہے، فرق یہ ہے کہ قرآن مجید میں الفاظ و معانی دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور حدیث میں الفاظ اور تعبیر رسول اللہﷺ کی طرف سے ہے؛ پس قرآن و حدیث کا سرچشمہ ذاتِ خداوندی ہے اور واسطہ رسول اللہﷺ کا ہے، اس لیے اس کے ذریعہ جو علم حاصل ہوگا وہ معصوم ہوگا، یعنی غلطیوں اور خطاؤں سے محفوظ اور اجتہاد کے ذریعہ جو احکام اخذ کیے جاتے ہیں، ان میں خطاء کا احتمال موجود ہوتا ہے اور جب محفوظ طریقہ علم موجود ہو تو غیر محفوظ اور غلطی کا احتمال رکھنے والے ذریعہ علم کی ضرورت نہیں رہتی؛ اسی لیے عہدِ نبوی میں احکامِ فقہیہ کا مدار کتاب و سنت پرتھا۔
  2. پھر چونکہ مکی زندگی میں آپ کے مخاطب زیادہ تر کفار و مشرکین تھے اور ابھی سب سے اہم مسئلہ ان کے دلوں میں ایمان کا پودا لگانے کا تھا؛ اس لیے زیادہ توجہ اعتقادی اور اخلاقی اصلاح کی طرف تھی، مکہ میں نبوت کے بعد آپ کا قیام بارہ سال پانچ مہینہ، تیرہ دن رہا ہے، قرآنِ مجید کی ایک سو چودہ سورتوں میں سے زیادہ تر سورتیں مکہ ہی میں نازل ہوئیں؛ کیونکہ بیس سورتوں کے مدنی ہونے پر اتفاق ہے اور بارہ کے مکی یا مدنی ہونے کی بابت اختلاف ہے، باقی بیاسی سورتیں بالاتفاق مکی ہیں۔

مکی زندگی میں قرآن کا خاص موضوع دعوتِ ایمان اور اصلاحِ عقیدہ تھا، ہاں بعض اُصولی احکام اور بعض متفق علیہ برائیوں کی مذمت سے متعلق ہدایاتِ زندگی میں بھی دی گئیں، جیسے قتل ناحق کی ممانعت، [12] لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی مذمت (التکویر:)، زناکی حرمت (المؤمنون)، یتیموں کے ساتھ بدسلوکی کی ممانعت اور ناپ تول کو درست رکھنے کی ہدایات [13] غیر اللہ پر جانور یا نذر کی ممانعت، [14] ان ہی جانوروں کا گوشت کھانے کی اجازت جن پر ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو، [15] عبادات میں بالاتفاق "نماز" مکی زندگی میں فرض ہو چکی تھی اور زکوٰۃ کے بارے میں اختلاف ہے؛ لیکن زکوٰۃ کا ذکر مکی آیات میں بھی ملتا ہے؛ ممکن ہے کہ مکہ میں اجمالی حکم دیا گیا ہو اور مدنی زندگی میں اس کی تنفیذ عمل میں آئی ہو، عملی زندگی سے متعلق احکام عام طور پر مدنی زندگی میں ہی دیے گئے ہیں۔

  1. قرآنِ مجید میں جو فقہی احکام آئے ہیں، ان میں بعض اپنے منشا و مراد کے اعتبار سے بالکل واضح ہیں، جیسے: نماز، روزہ، زکوٰۃ، وغیرہ کا فرض ہونا، زنا، قتل، تہمت تراشی کی حرمت، میراث کے احکام، نکاح میں محرم اور غیر محرم رشتہ داروں کی تعیین، یہ عقیدہ کے درجہ میں ہیں اور ان کا انکار موجب کفر ہےــــــ اوربعض میں ایک سے زیادہ معنوں کا احتمال اور اختلافِ رائے کی گنجائش ہے؛ لہٰذا ان مسائل میں استنباط میں اختلافِ رائے کی وجہ سے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کی جا سکتی۔

قرآن کا طرزِ بیان فقہی اور قانونی کتابوں جیسا نہیں ہے کہ ایک موضوع سے متعلق تمام مسائل ایک ہی جگہ ذکر کر دیے گئے ہوں؛ بلکہ قرآن میں حسب ضرورت ایک موضوع سے متعلق احکام مختلف مقامات پر آیا کرتے ہیں اور فقہی احکام کے ساتھ ترغیبات و ت رہیبات اور ان احکام کی حکمتوں اور مصلحتوں پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے؛ تاکہ انسان کو اس کے تقاضے پر عمل کرنے کی رغبت ہو؛ کیونکہ قرآن مجید کا اصل مقصد ہدایت ہے۔

  1. حدیث نبوی کے سلسلہ میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ رسول اللہﷺ کی دو حیثیتیں تھیں، ایک بشری اور دوسرے نبوی؛ چنانچہ آپ کی بشری حیثیت کو قرآن نے پوری تاکید سے بیان کیا ہے:

"قُلْ إِنَّمَاأَنَابَشَرٌ مِثْلُكُمْ"۔[16] کہدو کہ میں تمھاری طرح کا ایک بشر ہوں۔۔.۔

اس حیثیت سے آپﷺ نے جو بات فرمائی ہو، اس کی حیثیت حکم شرعی کی نہیں ہوگی؛ جیسا کہ آپ نے ابتداً اہلِ مدینہ کو کھجور میں "تابیر" یعنی کھجور کے مادہ درخت میں نر درخت کے ایک خاص حصہ کو ڈالنے سے منع فرمایا تھا؛ لیکن جب اس کی وجہ سے پیداوار گھٹ گئی تو آپﷺ نے اپنی ہدایت کو واپس لے لیا اور فرمایا: "أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ"۔

تم زیادہ جانتے ہوں اپنے دنیوی معاملہ کو[17] لیکن یہ فرق کرنا بہت دشوار ہے کہ آپ کے کون سے احکام بشری حیثیت سے تھے، اس لیے جب تک اس پر کوئی واضح دلیل موجود نہ ہو، آپ کے تمام فرمودات اور معمولات کی حیثیت شرعی ہی ہوگی۔

  1. آپ کے بعض افعالِ طبعی نوعیت کے ہیں، مثلاً: آپ کے استراحت کا انداز، کسی غذا کا آپ کو پسند آنا اور کسی غذا کا آپ کو پسند نہ آنا، چلنے، بیٹھنے، گفتگو کرنے، ہنسنے اور مسکرانے کی مبارک ادائیں، ان میں جن اُمور کو باختیار عمل میں لایا جا سکتا ہو، وہ بھی مستحب کے درجہ میں ہوں گے اور جو باتیں آدمی کے ارادہ و اختیار سے باہر ہیں، ان سے شرعی حکم متعلق نہیں ہوگا؛ کیونکہ حکم شرعی کا تعلق ارادہ و اختیار اور قوت و استطاعت سے ہے۔
  2. بعض افعال آپ نے بطورِ وقتی تدبیر کے کیے ہیں، جیسے میدانِ جنگ میں جگہ کا انتخاب، راستہ کا انتخاب، فوجوں کی صف بندی، وغیرہ، یہ احکام بحیثیت امیر آپ کی طرف سے تھے اور اُس وقت جو صحابہ موجود تھے، ان پر اس کی اطاعت فرض تھی، آئندہ ان اُمور کے سلسلہ میں مناسب حال تدبیر کا اختیار کرنا درست ہوگا۔
  3. جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ اس عہد میں احکامِ شرعیہ کا اصل ماخذ تو قرآن و حدیث ہی تھا؛ لیکن آپ سے اجتہاد کرنا بھی ثابت ہے، ایک خاتون آپ کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا کہ میری والدہ کا انتقال ہو گیا، ان کے ذمہ نذر کے روزے باقی تھے، کیا میں ان کی طرف سے روزے رکھ لوں؟ آپﷺ نے فرمایا اگر تمھاری ماں پر کسی کا قرض باقی ہوتا تو کیا اسے ادا کرتیں؟ انھوں نے کہا: ہاں! آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کا قرض زیادہ قابل ادائیگی ہے:

"فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى"۔[18] دیکھیے! یہاں حضورﷺ نے اجتہاد و قیاس سے کام لیا ہے؛ البتہ اگر آپ سے اجتہاد میں لغزش ہوجاتی تو اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے متنبہ کر دیا جاتا؛ چنانچہ غزوۂ بدر کے قیدیوں کے سلسلہ میں آپﷺ نے فدیہ لے کر رہا کردینے کا فیصلہ فرمایا، اس فیصلہ پر اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے تنبیہ نازل ہوئی (الانعام:67،68) اسی طرح غزوۂ تبوک کے موقع سے آپ نے پیچھے رہ جانے والے منافقین کی معذرت اپنے اجتہاد سے قبول کی اور اس پر اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے تنبیہ ہوئی۔[19]

پس آپﷺ نے اجتہاد بھی فرمایا ہے، فرق یہ ہے کہ اگر آپ سے اجتہاد میں کوئی لغزش ہوجاتی تو آپﷺ کو اس پر تنبیہ فرمادیا جاتا؛ اس لیے آپﷺ کا اجتہاد بھی نص کے حکم میں ہے۔

  1. آپ کے عہد میں صحابہؓ نے بھی اجتہاد کیا ہے، آپﷺ کی عدم موجودگی میں تو کیا ہی ہے؛ کیونکہ خود آپﷺ نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اجازت دی تھی کہ اگر قرآن و حدیث میں حکم نہ ملے تو اجتہاد سے کام لو اور صحابہؓ نے آپ کے ارشاد پر عمل بھی کیا، مثلاً حضرت علی کے پاس یمن میں ایک لڑکے کے سلسلہ میں تین دعویدار پہنچے، حضرت علیؓ نے پہلے تو ہر ایک کو راضی کرنے کی کوشش کی کہ وہ دوسرے کے حق میں دستبردار ہو جائے؛ لیکن جب کوئی اس پر آمادہ نہ ہوا تو قرعہ اندازی کرکے جس کے حق میں قرعہ نکلا اس کو لڑکا حوالہ کر دیا اور باقی دونوں سے کہا کہ وہ دونوں کو ایک ایک تہائی دیت ادا کرے:

"وممن حكم باجتهادہ"۔[20]

رسول اللہﷺ کی عدم موجودگی میں صحابہؓ کے اجتہاد کے اور بھی متعدد واقعات موجود ہیں۔

  1. بعض اوقات حضورﷺ کی موجودگی میں بھی صحابہؓ نے اجتہاد فرمایا ہے، اس کی واضح مثال آپﷺ کی موجودگی میں غزوہ بنوقریظہ کے موقع سے بنو قریظہ کے معاملہ میں حضرت سعد بن معاذؓ کا فیصلہ کرنا ہے؛ اسی طرح امام احمدؓ نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے نقل کیا ہے کہ آپﷺ کی خدمت میں ایک مقدمہ آیا، آپ نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو اس کا فیصلہ کرنے کا حکم فرمایا؛ انھوں نے معذرت بھی کرنی چاہی؛ لیکن آپﷺ نے حکم دیا اور فرمایا کہ اگر صحیح فیصلہ کرو گے تو دس نیکیاں ملیں گی اور اگر کوشش کے بعد غلطی ہو جائے، تب بھی ایک نیکی ضرور ہی حاصل ہوگی۔[21]
  2. عرب چونکہ اصل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُمت تھے، اس لیے بہت سی روایات و رواجات، صالح، منصفانہ اور شریفانہ بھی پائے جاتے تھے، جیسے: قصاص، دیت، قسامت، مقدمات کے ثابت کرنے کا طریقہ، نکاح میں حرام رشتے وغیرہ؛ لیکن بہت سے طریقے غیر شریفانہ اور غیر منصفانہ تھے، شریعتِ اسلامی نے عام طور پر پہلی قسم کے احکام کو باقی رکھا اور دوسری قسم کے احکام کی اصلاح فرمائی؛ یہاں اختصار کے ساتھ کچھ اصلاحی ہدایات و ترامیم کا ذکر کیا جاتا ہے:

زمانۂ جاہلیت منہ میں ایک طریقہ "نکاح شغار" کا تھا، دو مرد ایک دوسرے سے اپنی محرم خاتون کا نکاح کرتے تھے اور ایک نکاح کو دوسرے کے لیے مہر ٹھہراتے تھے، رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرمایا؛ اسی کو نکاحِ شغار کہا جاتا تھا۔[22]

والد کی وفات کے بعد لڑکا سوتیلی ماں سے اپنا نکاح کرلیتا تھا؛ اگر وہ خود نکاح نہ کرتا تو اسے یہ حق ہوتا کہ کسی اور سے نکاح کر دے اور مہر وصول کرلے یا اسے نکاح کرنے سے روک دے؛ یہاں تک کہ اس کی موت ہو جائے اور یہ اس کے مال کا وارث ہو جائے (احکام القرآن للجصاص:1/106،202) قرآن نے اس طریقہ کی مذمت فرمائی اور اس سے منع کر دیا۔[23]

نکاح میں دو بہنوں کو جمع کیا جاتا تھا اور غیر محدود تعداد ازدواج کی اجازت تھی؛ یہاں تک کہ جب غیلان ثقفی مسلمان ہوئے تو ان کی دس بیویاں تھیں، قرآن نے دو بہنوں کو جمع کرنے اور چار سے زیادہ نکاح کرنے کو منع فرمادیا۔ زمانۂ جاہلیت میں منھ بولے بیٹے اور بیٹی کوبھی اپنی اولاد کا درجہ دیا جاتا تھا، نکاح کے معاملہ میں بھی اور میراث کے معاملہ میں بھی، اللہ تعالٰیٰ نے اس کی تردید فرمائی: "وَمَاجَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ" (الأحزاب:4)

زمانۂ جاہلیت میں عورت کے مہر پر ولی قبضہ کرلیتا تھا، قرآن مجید نے کہا کہ عورت کا مہر عورت کو دیا جائے "وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً" [24]

طلاق کی کوئی تعداد متعین نہ تھی، جتنی چاہتے طلاق دیتے جاتے اور عورت کو نکاح سے آزاد بھی نہ ہونے دیتے [25] قرآن نے طلاق کو تین تک محدود کر دیا۔[26]

"ایلا" سال دوسال کا بھی ہوا کرتا تھا، جو ظاہر ہے کہ عورت کے لیے نہایت ہی تکلیف دہ بات تھی، قرآن مجید نے چار ماہ کی مدت مقرر کردی کہ اگر قسم کھا کر اس سے زیادہ بیوی سے بے تعلق رہے تو طلاق واقع ہو جائے گی۔[27]

ظہار یعنی بیوی کو محرم کے کسی عضو حرام سے تشبیہ دینے کو طلاق تصور کیا جاتا تھا [28] قرآن نے اسے طلاق تو قرار نہیں دیا؛ لیکن اس پر کفارہ واجب قرار دیا۔[29]

عدت سال بھر ہوا کرتی تھی، قرآن نے وضع حمل اور غیر حاملہ کے لیے وفات کی صورت میں چار ماہ دس دن اور طلاق کی صورت میں جوان عورت کے لیے تین حیض اور دوسروں کے لیے تین ماہ قرار دی۔ اسلام سے پہلے وارث اور غیر وارث دونوں کے لیے جتنے مال کی چاہے وصیت کرسکتے تھے، اسلام نے وارث کے لیے وصیت کو غیر معتبر قرار دیا اور وصیت کی مقدار ایک تہائی تک محدود کر دیا۔[30]

میراث کا قانون بڑا ظالمانہ تھا، صرف ان مردوں کو جو جنگ میں لڑنے کے قابل ہوتے، انھیں میراث دی جاتی تھی اور نابالغوں کے لیے میراث میں حصہ نہیں تھا، اسلام نے عورتوں اور نابالغ بچوں کو حق میراث عطا کیا۔ عرب سود کو درست سمجھتے تھے، اسلام نے نہایت سختی کے ساتھ اس کو منع کر دیا۔ مال رہن کا قرض دینے والا مالک ہوجاتا تھا؛ اگر مقروض نے وقت پر قرض ادا نہیں کیا، اسلام نے اس بات کی تو اجازت دی کہ اگر مقروض قرض ادا نہیں کرے تو بعض صورتوں میں مال کو فروخت کرکے اپنا قرض وصول کرلے اور باقی پیسہ واپس کر دے؛ لیکن یہ درست نہیں کہ پورے مال رہن کا مالک ہو جائے۔[31]

زمانۂ جاہلیت میں ایک طریقہ یہ تھا کہ خرید و فروحت کے درمیان میں اگر بیچی جانے والی شے کو چھوڑدیا یا اس پر کنکری پھینک دی تو اس کے ذمہ اس کا خریدنا لازم ہو گیا، جس کو منابذہ، ملامسہ، بیع حصاۃ کہا کرتے تھے، رسول اللہﷺ نے اس طریقہ پر خرید و فروخت کو منع فرمایا [32] بیع ملامسہ وغیرہ کی بعض اور تعریفیں بھی کی گئی ہیں جسے بیع کے لفظ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ لوگ کسی سامان کی قیمت کو بڑھانے کے لیے مصنوعی طور پر بولی لگادیتے تھے، اس کو"نجش" کہتے ہیں، آپﷺ نے اس کوبھی منع فرمایا۔

قتل اور جسمانی تعدی میں لوگ صرف قاتل اور ظالم ہی سے بدلہ نہیں لیتے تھے؛ بلکہ اس کے متعلقین اور پورے قبیلہ کو مجرم کا درجہ دیتے تھے، قرآن نے اس کو منع کیا اور صرف مجرم کو سزاوار ٹھہرایا۔ حج میں قریش مزدلفہ سے آگے نہیں جاتے تھے اور اسے اپنے لیے باعثِ ہتک سمجھتے تھے، قرآن مجید نے سبھوں کو عرفات جانے کا حکم دیا [33] بلکہ وقوفِ عرفہ کو حج کارکنِ اعظم قرار دیا گیا۔ پس زمانۂ جاہلیت کے بہت سے احکام میں شریعتِ اسلامی نے اصلاح کی اور جو رواجات عدل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھے، ان کو کالعدم قرار دے دیا۔

فقہ اور خلافتِ راشدہ[ترمیم]

یہ عہد 11/ہجری سے شروع ہوکر 40/ہجری پرختم ہوتا ہے۔

  1. اس عہد میں احکامِ شریعت کے اخذ و استنباط کا سرچشمہ قرآن مجید اور حدیثِ نبوی کے علاوہ اجماعِ اُمت اور قیاس تھا؛ چنانچہ عمرنے قاضی شریح کو جو خط لکھا، اس میں حسب ذیل نصیحت فرمائی:

"جب کتاب اللہ میں کوئی حکم پاؤ تو اس کے مطابق فیصلہ کرو، کسی اور طرف توجہ نہ کرو؛ اگر کوئی ایسا معاملہ سامنے آئے کہ کتاب اللہ میں اس کا حکم نہ ہو، تو رسول اللہﷺ کی سنت کے مطابق فیصلہ کرو؛ اگر کتاب اللہ میں نہ ملے اور نہ سنتِ رسول میں، تو جس بات پر لوگوں کا اجماع ہو اس کے مطابق فیصلہ کرو، نہ کتاب اللہ میں ہو، نہ سنتِ رسول میں اور نہ تم سے پہلوں نے اس سلسلہ میں کوئی رائے ظاہر کی ہو، تو اگر تم اجتہاد کرنا چاہو تو اجتہاد کے لیے آگے بڑھو اور اس سے پیچھے ہٹنا چاہو، تو پیچھے ہٹ جاؤ اور اس کو میں تمھارے حق میں بہتر ہی سمجھتا ہوں"۔[34]

  1. حضرت ابوبکرؓ بھی اس بات کے لیے کوشاں رہتے تھے کہ جن مسائل کے بارے میں قرآن و حدیث کی کوئی نص موجود نہ ہو، ان میں اہم شخصیتوں کو جمع کیا جائے اور ان سے مشورہ کیا جائے اور اگر وہ کسی بات پر متفق ہوجائیں تو اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے [35] چنانچہ ابوبکر صدیق کی خلافت پر جو اتفاق ہوا، وہ آپ ہی کی پہل پر؛ اسی طرح بعض مسائل پر اجماع منعقد ہونے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سعی کو دخل رہا ہے، جیسے مانعین زکوٰۃ سے جہاد، رسول اللہﷺ کی متروکات میں میراث کا جاری نہ ہونا، رسول اللہﷺ کا آپ کی جائے وفات پردفن کیا جانا، قرآن مجید کی جمع و ترتیب، وغیرہ۔
  2. چونکہ رسول اللہﷺ کے بعد غیر منصوص مسائل میں اجتہاد کے سوا چارہ نہیں تھا؛ اس لیے صحابہ کے درمیان میں اختلافِ رائے بھی پیدا ہوا، بعض مواقع پر کوشش کی گئی کہ لوگوں کو ایک رائے پر جمع کیا جائے؛ لیکن اس کے باوجود نقاطِ نظر کا اختلاف باقی رہا، صحابہ کا مزاج یہ تھا کہ وہ اس طرح کے اختلافات کو مذموم نہیں سمجھتے تھے اور پورے احترام اور فراخ قلبی کے ساتھ دوسرے کو اختلاف کا حق دیتے تھے، اس کی چند مثالیں یہاں ذکر کی جاتی ہیں:

عمر اور عبد اللہ بن مسعودکے نزدیک بیوہ حاملہ عورت کی عدت ولادت تک تھی اور غیر حاملہ کی چار مہینے دس روز، علی اور عبد اللہ بن عباس کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ولادت اور چار ماہ دس دنوں میں سے جو مدت طویل ہو وہ عدتِ وفات ہوگی۔ عمر اور عبد اللہ بن مسعودکے نزدیک مطلقہ عورت کی عدت تیسرے حیض کے غسل کے بعد پوری ہوتی تھی اور زید بن ثابت کے نزدیک تیسرا حیض شروع ہوتے ہی عدت پوری ہوجاتی تھی، ابوبکر اور عبد اللہ بن عباس کی رائے یہ تھی کہ باپ کی طرح دادا بھی سگے بھائیوں کو میراث سے محروم کر دے گا، عمر، علی اور زید بن ثابت کو اس سے اختلاف تھا۔ ایک بڑا اختلاف عراق و شام کی فتوحات کے وقت پیدا ہوا، عبد الرحمن بن عوف اورعمار بن یاسر کا نقطہ نظر یہ تھا کہ مالِ غنیمت کے عام اُصول کے مطابق اسے مجاہدین پر تقسیم کر دیا جائے اور عمر، عثمان اورعلی وغیرہ کی رائے تھی کہ اسے بیت المال کی ملکیت میں رکھا جائے؛ تاکہ تمام مسلمانوں کو اس سے نفع پہنچے اور طویل بحث و مباحثہ کے بعد اسی پرفیصلہ ہوا۔ عثمانِ غنی کا فتویٰ یہ تھا کہ خلع حاصل کرنے والی عورت پر عدت واجب نہیں، صرف فراغتِ رحم کو جاننے کے لیے ایک حیض گذارنا ضروری ہوگا، دوسرے صحابہ مکمل عدت گذارنے کو واجب قرار دیتے تھے۔ اس طرح کے بیسیوں اختلاف عہدِ صحابہ میں موجود تھے، کتبِ فقہ اور خاص کر شروحِ حدیث ان کی تفصیلات سے بھری پڑی ہیں اور موجودہ دور کے معروف صاحب علم ڈاکٹر رواس قلعہ جی نے صحابہ کی موسوعات کو جمع کرنے کا کام شروع کیا ہے، اس سے مختلف صحابہ کی فقہ اور ان کا فقہی ذوق اور منہج استنباط واضح طور پرسامنے آتا ہے۔

  1. عمرنے لوگوں کو بعض اختلافی مسائل میں ایک رائے پر جمع کرنے کی خاص طور پر کوشش فرمائی؛ چنانچہ بعض مسائل پر اتفاق رائے ہو گیا اور جن میں اتفاق نہیں ہو سکا، ان میں بھی کم سے کم جمہور ایک نقطہ نظر پرآ گئے، ان میں سے چند مسائل یہ ہیں:

اس وقت تک شراب نوشی کی کوئی سزا متعین نہیں تھی، عمرنے اس سلسلہ میں اکابر صحابہ سے مشورہ کیا، علی نے فرمایا کہ جب کوئی شخص شراب پیتا ہے تو نشہ میں مبتلا ہوتا ہے؛ پھر نشہ کی حالت میں ہذیان گوئی شروع کرتا ہے اور اس میں لوگوں پر بہتان تراشی بھی کر گزرتا ہے؛ اس لیے جو سزا تہمت اندازی (قذف) کی ہے، یعنی اسی (80) کوڑے، وہی سزا شراب نوشی پر بھی دے دی جانی چاہیے؛ چنانچہ اسی پر فیصلہ ہوا (مؤطا امام مالک، حدیث نمبر:709) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے بھی اسی (80) کوڑے کا مشورہ دیا تھا۔ اگر کوئی شخص لفظ بتہ کے ذریعہ طلاق دے، تو اس میں ایک طلاق کا معنی بھی ہو سکتا ہے اور تین طلاق کا بھی؛ چنانچہ ہوتا یہ تھا کہ طلاق دینے والے کی نیت کے مطابق فیصلہ کیا جاتا تھا، حضرت عمرؓ کا احساس یہ تھا کہ بعض لوگ اس گنجائش سے غلط فائدہ اُٹھاتے ہیں اور غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ میری نیت ایک طلاق کی تھی، اس لیے انھوں نے اس کے تین طلاق ہونے کا فیصلہ فرمایا۔ رسول اللہﷺ سے نمازِ تراویح کی رکعات کی تعداد صحیح طور پرثابت نہیں ہے؛ کیونکہ آپ نے اس نماز کے واجب ہوجانے کے اندیشے سے دو تین شب کے علاوہ صحابہؓ کے سامنے یہ نماز ادا نہیں فرمائی، مختلف لوگ تنہا تنہا پڑھ لیتے تھے، حضرت عمرؓ نے ایک جماعت بنادی، ان پر حضرت ابی بن کعبؓ کو امام مقرر کیا اور تراویح کی بیس رکعتیں مقرر فرمادیں، جو آج تک متوارثاً چلا آ رہا ہے۔

  1. صحابہ اور خاص کر حضرت عمرؓ نے بعض فیصلے شریعت کی مصلحت اور اس کے عمومی مقاصد کو سامنے رکھ کر بھی کیے ہیں، جیسے: حضرت عمرؓ نے اپنے عہد میں "مولفۃ القلوب" جو زکوٰۃ کی ایک اہم مد ہے، کو روک دیا تھا؛ کیونکہ مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی تھی اور اسلام کی شوکت قائم ہو گئی تھی؛ لہٰذا ان کے خیال میں اب اس مد کی ضرورت باقی نہیں تھی۔

حضرت عمرؓ کے دور میں ایک شدید قحط پڑا کہ لوگ اضطرار کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے، اس زمانہ میں حضرت عمرؓ نے چوری کی سزا موقوف فرمادی؛ اسی طرح حضرت حاطب بن بلتعہ کے غلاموں نے قبیلہ مزینہ کے ایک شخص کی اُونٹنی چوری کرلی، آپؓ نے ان غلاموں کے ہاتھ نہیں کاٹے، حضرت عمرؓ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اس وقت لوگ حالتِ اضطرار میں ہیں اور اضطراری حالت میں چوری کرنے سے حد جاری نہیں ہوگی؛ کیونکہ انسان اختیاری افعال کے بارے میں جواب دہ ہے، نہ کہ اضطراری افعال کے بارے میں۔ حضورﷺ نے بھٹکی ہوئی اُونٹنی کو پکڑنے سے منع فرمایا؛ کیونکہ وہ خود اپنی حفاظت کرسکتی ہے؛ یہاں تک کہ اُس کا مالک اُس کو پالے، حضرت ابوبکر و عمرؓ کے دور میں اسی پر عمل رہا؛ لیکن حضرت عثمان غنیؓ نے اپنے زمانہ میں ایسی اُونٹنی کو پکڑلینے اور بیچ کراس کی قیمت کو محفوظ رکھنے کا حکم دیا تآنکہ اس کا مالک آجائے (شرح الزرقانی علی المؤطا لمالک:3/129) کیونکہ اخلاقی انحطاط کی وجہ سے اس بات کا اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ بدقماش لوگ ایسی اونٹنی کو پکڑلیں؛ گویا منشا اونٹنی کی حفاظت تھا، طریقہ کار، زمانہ کے حالات کے لحاظ سے بدل گیا۔ اسی طرح اگر کوئی شخصی مرضِ وفات میں اپنی بیوی کو طلاق بائن دے دے، تو شریعت کے عمومی اُصول کا تقاضا تو یہی تھا کہ مطلقہ کو اس مرد سے میراث نہ ملے؛ لیکن چونکہ اس کو بعض غیر منصف مزاج لوگ بیوی کو میراث سے محروم کرنے کا ذریعہ بناسکتے تھے، اس لیے صحابہ نے ظلم کے سد باب کی غرض سے ایسی مطلقہ کو بھی مستحق میراث قرار دیا، حضرت عثمان غنیؓ کا خیال تو یہ تھا کہ اگر عدت ختم ہونے کے بعد شوہر کی موت ہو، تب بھی عورت وارث ہوگی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ عدت کے اندر شوہر کی وفات کی صورت میں عورت کو میراث ملے گی۔ اسی طرح امن و امان اور حفاظتِ جان کی مصلحت کے پیشِ نظر حضرت علیؓ کے مشورہ پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص کے قتل میں ایک جماعت شریک ہو تو تمام شرکاء قتل کیے جائیں گے۔

  1. صحابہ فروعی مسائل میں اختلاف رائے کو برا نہیں سمجھتے تھے اور ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے، ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے؛ اگرکوئی شخص سوال کرنے آئے تو ایک دوسرے کے پاس تحقیق مسئلہ کے لیے بھیجتے تھے اور اپنی رائے پر شدت نہ اختیار کرتے تھے، حضرت عمرؓ سے ایک صاحب ملے اور حضرت علیؓ اور زید بن ثابتؓ کا فیصلہ انھیں سنایا، حضرت عمرؓ نے سن کر کہا: کہ اگر میں فیصلہ کرتا تو اس کے برخلاف اس طرح کرتا، ان صاحب نے کہا کہ آپ کو تو اس کا حق اور اختیار حاصل ہے؛ پھر آپ اپنی رائے کے مطابق فیصلہ فرمادیں، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس اللہ، رسول کا حکم ہوتا تو میں اس کو نافذ کردیتا؛ لیکن میری بھی رائے ہے اور رائے میں سب شریک ہیں؛ چنانچہ انھوں نے حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ کے فیصلہ کو برقرار رکھا:

"والرأی مشترک فلم ینقص ماقال علی وزید"۔[36]

فقہاِ صحابہ کے درمیان میں اختلافِ رائے کے مختلف اسباب[ترمیم]

(الف)قرآن وحدیث کے کسی لفظ میں ایک سے زیادہ معنوں کا احتمال، جیسے قرآن نے تین "قرؤ" کوعدت قرار دیا ہے "قرأ" کے معنی حیض کے بھی ہیں اور طہر کے بھی؛ چنانچہ حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم نے اس سے حیض کا معنی مراد لیا اور حضرت عائشہ، حضرت زید بن ثابتؓ نے طہر کا۔

(ب)بعض احادیث ایک صحابی تک پہنچی اور دوسرے تک نہیں پہنچی، جیسے جدہ کی میراث کے سلسلہ میں حضرت ابوبکرؓ اس بات سے واقف نہیں تھے کہ آپﷺ نے اسے چھٹا حصہ دیا ہے، حضرت مغیرہ بن شعبہ اور محمد بن مسلم نے شہادت دی کہ حضورﷺ نے دادی کو چھٹا حصہ دیا ہے؛ چنانچہ اسی پر فیصلہ ہوا۔

(ج)بعض دفعہ حضورﷺ کے کسی عمل کا مقصد و منشا متعین کرنے میں اختلافِ رائے ہوتا تھا، جیسے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ طواف میں رمل کا عمل آپ نے مشرکین کی تردید کے لیے فرمایا، جو کہتے تھے کہ مدینہ کے بخار نے مسلمانوں کو کمزور کرکے رکھ دیا ہے، یہ آپ کی مستقل سنت نہیں، دوسرے صحابہ اس کو مستقل قرار دیتے تھے یا حج میں منی سے مکہ لوٹتے ہوئے وادی ابطح میں توقف، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت عائشہؓ اسے سنت نہیں سمجھتے تھے اور اس کو حضور کا ایک طبعی فعل قرار دیتے تھے کہ اس کا مقصد آرام کرنا تھا؛ لیکن دوسرے صحابہؓ اسے سنت قرار دیتے تھے۔ جن مسائل میں کوئی نص موجود نہ ہوتی اور اجتہاد سے کام لیا جاتا، ان میں نقطہ نظر کا اختلاف پیدا ہوتا، مثلاً اگر کوئی مرد کسی عورت سے عدت کے درمیان میں نکاح کرلے، تو حضرت عمرؓ بطورِ سرزنش اس عورت کو ہمیشہ کے لیے اس مرد پر حرام قرار دیتے تھے اور حضرت علیؓ کی رائے یہ تھی کہ دونوں میں تفریق کردی جائے اور سرزنش کی جائے؛ لیکن اس کی وجہ سے ان دونوں مرد و عورت کے درمیان میں دائمی حرمت پیدا نہیں ہوگی؛ اسی طرح حضرت ابوبکرؓ کا طریقہ یہ تھا کہ بیت المال میں جو کچھ آتا، اسے تمام مسلمانوں پر مساوی تقسیم فرماتے اور حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ میں برابر تقسیم کرنے کی بجائے لوگوں کے درجہ و مقام اور اسلام کے لیے ان کی خدمات کو سامنے رکھ کر تقسیم کرنا شروع کیا۔

  1. غور کیا جائے! تو صحابہ کے درمیان میں اختلاف رائے کا ایک سبب ذوق اور طریقہ استنباط کا فرق بھی تھا، بعض صحابہ کا مزاج حدیث کے ظاہری الفاظ پر قناعت کا تھا، جیسے حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت ابوذر غفاریؓ وغیرہ بعض صحابہؓ حدیث کے مقصد و منشا پر نظر رکھتے تھے اور قرآن مجید اور دین کے عمومی مزاج و مذاق کی کسوٹی پر اسے پرکھنے کی کوشش کرتے تھے، حضرت عمرؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اور حضرت علیؓ وغیرہ اسی گروہ سے تعلق رکھتے تھے، چند مثالوں سے اس کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے:

حضرت فاطمہؓ بنت قیس نے روایت کیا کہ مطلقہ بائنہ عدت میں نہ نفقہ کی حق دار ہے، نہ رہائش کی، حضرت عمرؓ نے سنا تو اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ میں ایک عورت کی بات پر نہ معلوم کہ اس نے یاد رکھا یا بھول گئی، کتاب اللہ اور سنتِ رسول کو نہیں چھوڑ سکتاــــــ حضرت عمرؓ کو خیال تھا کہ یہ فاطمہ بنت قیس کا وہم ہو سکتا ہے؛ کیونکہ قرآن (الطلاق:1) میں مطلقہ کے لیے رہائش فراہم کرنے کی ہدایت موجود ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے روایت کیا کہ مردہ کو اس کے لوگوں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، حضرت عائشہؓ نے اس پر نکیر فرمائی اور کہا کہ یہ قرآن کے حکم "وَلَاتَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى" (فاطر:18) یعنی"ایک شخص پردوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں ہوگا" کے خلاف ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کیا کہ جنازہ کو اُٹھانے والے پر وضو واجب ہے، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے سوال کیا کہ کیا سوکھی ہوئی لکڑیوں کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ پھر تو گرم پانی سے غسل کیا جائے تو اس سے بھی وضو واجب ہو جائے گا؟ اس طرح کی بہت سی مثالیں صحابہ کے درمیان میں باہمی مناقشات کی پائی جاتی ہیں، جن سے ظاہر ہے کہ مسائل شرعیہ کو اخذ کرنے کے سلسلہ میں دونوں طرح کا ذوق پایا جاتا تھا اور یہی ذوق بعد کو فقہا مجتہدین تک منتقل ہوا اور اس کی وجہ سے الگ الگ دبستانِ فقہ وجود میں آئے۔

  1. اس عہد میں سب سے اہم کام حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں سرکاری طور پر قرآن مجید کی جمع وت دوین کا اور حضرت عثمان غنیؓ کے دور میں قرأت قریش پر مصحفِ قرآنی کی کتابت اور اس کی اشاعت کا ہوا، حضرت عمرؓ کے دل میں جمع احادیث کا داعیہ بھی پیدا ہوا؛ لیکن انھوں نے کافی غور و فکر اور تقریباً ایک ماہ استخارہ کرنے کے بعد اس کا ارادہ ترک کر دیا کہ کہیں یہ قرآن مجید کی طرف سے بے توجہی اور بے التفاتی کا سبب نہ بن جائے۔[37]
  2. یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ صحابہ سب کے سب فقیہ و مجتہد تھے؛ بلکہ ایک محدود تعداد ہی اس جانب متوجہ تھی؛ کیونکہ استعداد و صلاحیت کے فرق کے علاوہ دین کے بہت سے کام اور وقت کے بہت سے تقاضے تھے اور سب کے لیے افرادِ کار کی ضرورت تھی، علامہ ابن قیمؒ نے ان صحابہ کا ذکر کیا ہے، جن سے فتاویٰ منقول ہیں، مرد و خواتین کو لے کر ان کی تعداد 130/ہوتی ہے؛ پھر ان کے تین گروہ کیے ہیں، ایک وہ جن سے بہت زیادہ فتاویٰ منقول ہیں، ان کی تعداد سات ہے، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، خلیفہ مامون کے پڑ پوتے ابو بکر محمد نے صرف حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے فتاویٰ کو جمع کیا تو ان کی بیس جلدیں ہوئیں۔

بیس صحابہؓ متوسطین میں شمار کیے گئے ہیں، جن سے بہت زیادہ نہیں؛ لیکن مناسب تعداد میں فتاویٰ منقول ہیں اور بقول ابنِ قیمؒ ان کے فتاویٰ کو ایک چھوٹے جزء میں جمع کیا جا سکتا ہے، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت اُم سلمہؓ اور حضرت ابوہریرہؓ وغیرہ اسی گروہ میں ہیں، بقیہ صحابہ وہ ہیں جن سے ایک دو مسئلہ میں فتویٰ دینا منقول ہے، ان کی تعداد (125) ہے؛ اسی گروہ میں حضرت حسن و حسین، سیدۃالنساء حضرت فاطمہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت صفیہؓ، حضرت اُم حبیبہؓ، حضرت میمونہؓ، حضرت بلالؓ، حضرت عباد اور حضرت اُمِ ایمن ؓ وغیرہ ہیں۔[38]

اصاغر صحابہؓ اور اکابر تابعین[ترمیم]

یہ مرحلہ حضرت معاویہؓ کی امارت سے شروع ہوتا ہے اور بنواُمیہ کی حکومت کے خاتمہ کے قریبی زمانہ تک کا احاطہ کرتا ہے، اس عہد میں بھی بنیادی طور پراجتہادواستنباط کا وہی منہج رہا جوصحابہ نے اختیار کیا تھاــــ اس عہد کی چند خصوصیات قابل ذکر ہیں:

  1. فقہا صحابہ کسی ایک شہر میں مقیم نہیں رہے؛ بلکہ مختلف شہروں میں مختلف صحابہؓ کا ورود ہوا، وہاں لوگوں نے ان سے استفادہ کیا اور اس شہر میں ان کی آراء اور فتاویٰ کوقبولیت حاصل ہوئی، مدینہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، مکہ میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور ان کے تلامذہ مجاہد بن جبیرؒ، عطاء بن ابی رباحؒ، طاؤس بن کیسانؒ، کوفہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اور ان کے شاگردانِ باتوفیق، علقمہ، نخعیؒ، اسود بن یزیدؒ اور ابراہیم نخعیؒ، بصرہ میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ، حضرت حسن بصریؒ، حضرت انس بن مالکؓ اور ان کے شاگرد محمدبن سیرینؒ، شام میں حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت عبادہ بن صامتؓ اور ان صحابہؓ سے استفادہ کرنے والے تابعین، ابوادریس خولانیؒ؛ اسی طرح مصر میں حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاصؓ اور ان کے بعد یزید بن حبیبؒ وغیرہ کے فتاویٰ کوبقول حاصل ہوا۔

(اعلام الموقعین:1/21 اور اس کے بعد، فصل:الائمۃ الذین نشر والدین والفقہ)

  1. صحابہ اور فقہاِ تابعین کے مختلف شہروں میں مقیم ہونے کی وجہ سے فقہی مسائل میں اختلافاف کی بھی کثرت ہوئی؛ کیونکہ ایک توخلافتِ راشدہ میں خاص کر حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت تک اہل علم یکجا تھے یاایک دوسرے سے قریب واقع تھے، اس کی وجہ سے بہت سے مسائل میں اتفاق رائے ہوجاتا تھا، اب عالم اسلام کا دائرہ وسیع ہوجانے، دراز شہروں میں مقیم ہونے اور ذرائع ابلاغ کے مفقود ہونے کی وجہ سے اجتماعی اجتہاد کی جگہ انفرادی اجتہاد کا غلبہ تھا، دوسرے مختلف شہورں کے خالات، رواجات، کاروباری طریقے اور لوگوں کے فکری وعملی رحجانات بھی مختلف تھے، اس اختلاف کا اثر مختلف شہروں میں بسنے والے فقہا کے نقطہ نظر پربھی پڑتا تھا؛ اس لیے بمقابلہ گذشتہ ادوار کے، اس دور میں اختلافِ رائے کی کثرت ملتی ہے۔
  2. یوں تواکابرِ صحابہ میں بھی دونوں طرح کے فقہا پائے جاتے تھے، ایک وہ جن کی نگاہ حدیث کے ظاہری الفاظ پر ہوتی تھی، دوسرے وہ جومعانی حدیث کے غواص تھے اور احکامِ شرعیہ میں شریعت کی مصالح اور لوگوں کے احوال کوبھی پیشِ نظر رکھتے تھے، تابعین کے عہد میں یہ دونوں طریقہ اجتہاد اور ان کے طرزِ استنباط کا تفاوت زیادہ نمایاں ہو گیا، جولوگ ظاہر حدیث پرقانع تھے وہ "اصحاب الحدیث" کہلائے اور جونصوص اور ان کے مقاصد ومصالح کوسامنے رکھ کررائے قائم کرتے تھے وہ "اصحاب الرائے" کہلائے، اصحاب الحدیث کا مرکز مدینہ تھا اور اصحاب الرحائے کا عراق اور خاص طور پرعراق کا شہرکوفہ، گومدینہ میں بعض ایسے اہل علم موجود تھے، جواصحاب الرائے کے طریقہ استنباط سے متاثر تھے، جیسے امام مالکؒ کے استاذ ربیعہ بن عبد الرحمنؒ، جواصحاب الرائے کے طرزِ استنباط میں ماہر ہونے سے "ربیعۃ الرای" کہلائے اور "رائی" ان کے نام کا جزوٹھہرا؛ اسی طرح کوفہ میں امام عامرشراحیل شعبیؒ جوامام ابوحنیفہؒ کے اساتذہ میں ہیں؛ لیکن ان کا منہج اصحاب الحدیث کا تھا۔

اصحاب الرائی اور اصحاب الحدیث کے درمیان میں دواُمور میں نمایاں فرق تھا، ایک یہ کہ اصحاب الحدیث کسی حدیث کوقبول اور رد کرنے میں محض سند کی تحقیق کوکافی سمجھتے تھے اور خارجی وسائل سے کام نہیں لیتے تھے، اصحاب الرائے اُصولِ روایت کے ساتھ اُصولِ درایت کوبھی ملحوظ رکھتے تھے، وہ حدیث کوسند کے علاوہ اس طور پر بھی پرکھتے تھے کہ وہ قرآن کے مضمون سے ہم آہنگ ہے یااس سے متعارض؟ دین کے مسلمہ اُصول اور مقاصد کے موافق ہے یانہیں؟ دوسری مشہور حدیثوں سے متاعرض تونہیں ہے؟ صحابہ کا اس حدیث پرعمل تھا یانہیں؟ اور نہیں تھاتواس کے اسباب کیا ہو سکتے ہیںـــــــ حقیقت یہ ہے کہ اصحاب الرائی کا منہج زیادہ درست بھی تھا اور دشوار بھی؛ دوسرا فرق یہ تھا کہ اصحاب الحدیث ان مسائل سے آگے نہیں بڑھتے تھے جوحدیث میں مذکور ہوں؛ یہاں تک کہ بعض اوقات کوئی مسئلہ پیش آجاتا اور ان سے اس سلسلہ میں رائے دریافت کی جاتی؛ اگرحدیث میں اس کا ذکر نہیں ہوتا تووہ جواب دینے سے انکار کرجاتے اور لوگ ان رہنمائی سے محروم رہتے، ایک صاحب سالم بن عبد اللہ بن عمرؓ کے پاس آئے اور ایک مسئلہ دریافت کیا؛ انھوں نے نے کہا کہ میں نے اس سلسلہ میں کوئی حدیث نہیں سنی، استفسار کرنے والے نے کہا کہ آپ اپنی رائے بتائیں؛ انھوں نے انکار کیا، اس نے دوبارہ استفسار کیا اور کہا کہ میں آپ کی رائے پرراضی ہوں، سالم نے کہا کہ اگراپنی رائے بتاؤں توہو سکتا ہے کہ تم چلے جاؤ اس کے بعد میری رائے بدل جائے اور میں تم کونہ پاؤں۔(تاریخ الفقہ الاسلامی، للشیخ محمد علی السایس:77)

یہ واقعہ ایک طرف ان کے احتیاط کی دلیل ہے؛ لیکن سوال ہے کہ کیا ایسی احتیاط سے اُمت کی رہنمائی کا حق ادا ہو سکتا ہے؟ اصحاب الرائی نہ صرف یہ کہ جن مسائل میں نص موجود نہ ہوتی، ان میں مصالح شریعت کوسامنے رکھتے ہوئے اجتہاد کرتے؛ بلکہ جومسائل ابھی وجود میں نہیں آئے؛ لیکن ان کے واقع ہونے کا امکان ہے، ان کے بارے میں بھی پیشگی تیاری کے طور پرغور کرتے اور اپنی رائے کا اظہار کرتے، اسی کو "فقہ تقدیری" کہتے ہیں، اصحاب حدیث اصحاب الرائی کے اس طرزِ عمل پرطعنہ دیتے تھے؛ لیکن آج اسی فقہ تقدیری کا نتیجہ ہے کہ نئے مسائل کوحل کرنے میں قدیم ترین فقہی ذخیرہ سے مدد مل رہی ہے۔ اس وضاحت سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اصحاب الرائی کا کام بمقابلہ اصحاب الحدیث کے زیادہ دُشوار تھا؛ اسی لیے متقدمین کے یہاں "اصحاب الرائی" میں سے ہونا ایک قابل تعریف بات تھی اور مدح سمجھی جاتی تھی، بعد کوجن لوگوں نے اس حقیقت کونہیں سمجھا؛ انھوں نے رائے سے مراد ایسی رائے کوسمجھا جوقرآن وحدیث کے مقابلہ خودرائی پرمبنی ہو، یہ کھلی ہوئی غلط فہمی اور ناسمجھی ہے۔ حجاز کا اصحاب الحدیث کا مرکز بننا اور عراق کا اصحاب الرائی کا مرکز بننا کوئی اتفاقی امر نہیں تھا، اس کے چند بنیادی اسباب تھے، اوّل یہ کہ حجاز عرب تہذیب کا مرکز تھا، عرب اپنی سادہ زندگی کے لیے مشہور رہے ہیں، ان کی تہذیب میں بھی یہی سادگی رچی بسی تھی، عراق ہمیشہ سے دُنیا کی عظیم تہذیبوں کا مرکز رہا ہے اور زندگی میں تکلفات وتعیشات اس تہذیب کا جزوتھا؛ پھرمسلمانوں کے زیرنگین آنے کے بعد یہ علاقہ عربی اور عجمی تہذیب کا سنگم بن گیا تھا؛ اس لیے بمقابلہ حجاز کے یہاں مسائل زیادہ پیدا ہوتے تھے اور دین کے عمومی مقاصد ومصالح کوسامنے رکھ کراجتہاد سے کام لینا پڑتا تھا؛ یہاں کے فقہا اگرعلمائے اصحاب حدیث کی طرح منصوص مسائل کے آگے سوچنے کوتیار ہی نہ ہوتے توآخر اُمت کی رہنمائی کا فرض کیوں کرادا ہوتا؟۔ دوسرے دبستانِ حجاز پرحضرت عبد اللہ بن عمرؓ وغیرہ صحابہ کی چھاپ تھی، جن کا ذوق ظاہر نص پرقناعت کرنے کا تھااور عراق کے استاذ اول حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جیسے فقہا تھے، جن پراصحاب الرائی کے طریقہ اجتہاد کا غلبہ تھا، اس لیے دونوں جگہ بعد کے علما پران صحابہ کے اندرازِ فکر کی چھاپ گھری ہوتی چلی گئی۔ تیسرے اکثرفرقِ باطلہ کا مرکز عراق ہی تھا، یہ لوگ اپنی فکر کی اشاعت کے لیے حدیثیں وضع کیا کرتے تھے، اس لیے علماِ عراق تحقیق حدیث میں اُصول روایت کے ساتھ ساتھ اُصولِ درایت سے کام لیتے تھے، اس کے برخلاف علما حجاز کووضع حدیث کے اس فنتہ سے نسبتاً کم سابقہ تھا۔

  1. اسی دور میں فرقِ باطلہ کا ظہور ہوا اور سیاسی اختلاف نے آہستہ آہستہ مذہبی رنگ اختیار کر لیا، ایک طرف شیعانِ علی تھے جو اہل بیت کوہی خلافت کا مستحق جانتے تھے اور چند صحابہ کوچھوڑ کر تمام ہی صحابہ کی تکفیر کیا کرتے تھے، دوسری طرف ناصبیہ تھے، جواہل بیت پربنواُمیہ کے ظلم وجورکوسند جواز عطا کرتے تھے اور حضرت علیؓ اور اہلِ بیت کوبرا بھلا کہنے سے بھی نہیں چوکتے تھے؛ تاہم ناصبیہ کی تعداد بہت کم تھی اور انھیں کبھی کسی طبقہ میں قبول حاصل نہیں ہوا، تیسرا گروہ خوارج کا تھا، جوحضرت عثمان غنیؓ، حضرت علیؓ، حضرت معاویہؓ اور بعد کے تمام صحابہ کوقرار دیتا تھا، شیعہ اور خوارج کا مرکز عراق اور مشرق کا علاقہ تھا؛ حالانکہ اس اختلاف کی بنیاد سیاسی تھی؛ لیکن چونکہ لوگوں کے ذہن پرمذہب کی گرفت بہت مضبوط تھی، اس لیے جلد ہی اس اختلاف نے عقیدہ کی صورت اختیار کرلی اور اس کوتقویت پہنچانے کے لیے لوگوں نے روایتیں گھڑنی شروع کر دیں؛ پس اسی دور سے وضع حدیث کا فتنہ بھی شروع ہوا۔
  2. عہد صحابہ میں اکثرلوگ وہ تھے؛ جنھوں نے حضورﷺ کے عمل کواپنی آنکھوں سے دیکھا تھا؛ اس لیے روایت حدیث کی ضرورت کم پیش آتی تھی، اب چونکہ زیادہ ترصحابہ رخصت ہو چکے تھے اور دوسری طرف فرقِ باطلہ کے نمائندوں نے اپنی طرف سے حدیثیں گھڑنی شروع کردی تھیں، اس لیے روایتِ حدیث کے سلسلہ میں بمقابلہ گذشتہ دورکے اضافہ ہو گیا۔
  3. البتہ اس دور میں حدیث یافقہ کی باضابطہ تدوین عمل میں نہ آئی، حضرت عمربن عبد العزیزؒ نے اس سلسلہ میں کوشش توکی اور گورنرمدینہ ابوبکر محمدبن عمروبن حزم کواس کام کی طرف متوجہ کیا؛ لیکن اس سے پہلے کہ ابن حزم اس خواب کوشرمندہ تعبیر کرتے، خود حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی وفات ہو گئی۔
  4. اس دور کے اہم فقہا وارباب افتاء کے نام اس طرح ہیں:

مدینہ:اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت ابوہریرہؓ، سعید بن مسیبؓ، عروہ بن زبیر، ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام، امام زین العابدین علی بن حسین، عبد اللہ بن مسعود، سالم بن عبد اللہ بن عمر، سلیمان بن یسار، قاسم بن محمدبن ابوبکر، نافع مولیٰ عبد اللہ بن عمر، محمدبن مسلم ابن شہاب زہری، امام ابوجعفر محمدباقر، ابوالزناد عبد اللہ بن ذکوان، یحییٰ بن سعید انصاری، ربیعۃ الرائے رضی اللہ عنہم اجمعین۔ مکہ:حضرت عبد اللہ بن عباس، امام مجاہد، عکرمہ، عطاء بن ابی رباح۔ کوفہ:علقمہ، نخعی، مسروق، عبید ۃ بن عمروسلمانی، اسود بن یزید نخعی، قاضی شریح، ابراہیم نخعی، سعید بن جبیر، عامر بن شراحیل شعبی رحمہم اللہ۔ بصرہ:حضرت انس بن مالک انصاریؓ، ابوالعالیہ، رفیع بن مہران، حسن بن ابی الحسن یسار، ابوالثعثاء، جابر بن زید، محمدبن سیرین، قتادہ رحمہم اللہ۔ شام: عبد الرحمن بن غانم، ابوادریس خولانی، مکحول، قبیصہ بن ذویب، رجاء بن حیوٰہ، حضرت عمربن عبد العزیز رحمہم اللہ۔ مصر:حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاصؓ، مرثد بن عبد اللہ بن البزی، یزید بن ابی حبیب رحمہم اللہ۔ یمنل:طاؤس بن کیسان، وہب بن منبہ صنعانی، یحییٰ بن ابی کثیر۔ چوتھا مرحلہـــــــ اوائل دوسری صدی تانصف چوتھی صدی تدوین فقہ کا چوتھا مرحلہ جوعباسی دور کی ابتدا سے شروع ہوکر چوتھی صدی ہجری کے وسط تک محیط ہے، نہایت اہم ہے اور اسے نہ صرف فقہ اسلامی بلکہ تمام ہی اسلامی وعربی علوم وفنون کا سنہرا دور کہہ سکتے ہیں، فقہ اور فقہ سے متعلق جوعلوم ہیں ان کے علاوہ اسی عہد میں تفسیر قرآن کے فن کوکمال حاصل ہوا اور تفسیر طبری جیسی عظیم الشان تفسیر وجود میں آئی، جوآج تک کتبِ تفسیر کا نہایت اہم مرجع ہے؛ اسی عہد میں عربی زبان کے قواعد مرتب ہوئے؛ اسی دور میں عباسی خلفاء کی خواہش پریونانی علوم، منطق اور فلسفہ وغیرہ عربی زبان میں منتقل کیا گیا اور اس کوبنیاد بناکر مسلمان محققین نے بڑے بڑے سائنسی کارنامے انجام دیے اور علم و تحقیق کی دنیا میں اپنی فتح مندی کے علم نصب کیے اور فقہ کے لیے تویہ دور نہایت ہی اہم ہے۔

اس دور کی چند اہم خصوصیات اس طرح ہیں
# یوں تورسول اللہﷺکے عہدِ مبارک ہی سے حدیث کی جمع وکتابت کا کام شروع ہو چکا تھا؛ لیکن کتابی انداز پراس کی ترتیب عمل میں نہیں آئی تھی؛ بلکہ مختلف لوگوں نے اپنی اپنی یادداشتیں لکھ رکھی تھیں، سب سے پہلے احادیث کوباضابطہ طور پرجمع کرنے کا خیال حضرت عمررضی اللہ عنہ کو اور ان کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کوآیا؛ لیکن حضرت عمرؓ نے اسے مناسب نہ سمجھا اور حضرت عمربن عبد العزیزؒ کی اس کام کی تکمیل سے پہلے ہی وفات ہو گئی، اب عباسی دور میں باضابطہ حدیث کی تدوین کا کام شروع ہوا۔

یہ تدوین تین مرحلوں میں انجام پائی، پہلے مرحلہ میں حضورﷺ کی احادیث اور صحابہؓ کے فتاویٰ اور فیصلے؛ بلکہ کہیں کہیں تابعین کے فتاویٰ بھی ملے جلے جمع کیے گئے، امام ابویوسفؒ اور امام محمد رحمہ اللہ کی کتاب الآثار اور امام مالک رحمہ اللہ کی مؤطا میں آج بھی اس طریقہ ترتیب کوملاحظہ کیا جا سکتا ہے؛ پھردوسری صدی ہجری کے آخر میں مسانید کا طریقہ مروج ہوا کہ راوی پنی تمام مرویات کوصحابہؓ کے ناموں کی ترتیب سے جمع کرتا اور حدیث کے مضامین وموضوعات سے قطع نظر ایک صحابی کی تمام مرویات ایک جگہ ذکر کی جاتیں، اس سلسلہ کی سب سے ممتاز کتاب "مسندامام احمد بن حنبل" ہے؛ لیکن ان میں صحیح ومستند اور ضعیف ونامعتبر دونوں طرح کی روایتیں مذکور ہوتیں؛ چنانچہ تیسری صدی ہجری میں دواُمور کی رعایت کے ساتھ کتب حدیث مرتب کی گئیں، ایک یہ کہ ان کی ترتیب مضمون کے اعتبار سے ہو اور فقہی ابواب کی ترتیب پرروایتیں جمع کی جائیں، دوسرے یہ کہ نقل حدیث میں صحیح وضعیف کا فرق ملحوظ رکھا جائے اور اپنے گمان کے مطابق صحیح روایتیں نقل کی جائیں، صحاحِ ستہ؛ اسی دور کی یادگاریں ہیں، جن کوکتبِ حدیث میں خاص طور پرقبولِ عام اور شہرت ودوام حاصل ہوا۔ اس وقت جوکتبِ حدیث موجود ہیں، ان میں امام ابویوسف رحمہ اللہ کی کتاب الآثار، امام مالک رحمہ اللہ کی مؤطا اور امام محمد رحمہ اللہ کی مؤطا اور کتاب الآثار سب سے قدیم کتابیں ہیں، باقی بہت سی کتابیں وہ ہیں کہ ان کے مصنفین کی نسبت سے تاریخ کی کتابوں میں ان کا ذکر ملتا ہے؛ لیکن اب دستیاب نہیں ہیں، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مسندگوایک قدیم ترین مسند ہے؛ لیکن یہ ان کے تلامذہ کی جمع کی ہوئی ہے نہ کہ خود امام صاحب رحمہ اللہ کی۔

  1. چونکہ تدوین حدیث کے شانہ بشانہ بلکہ اس سے پہلے ہی گمراہ فرقوں اور خداناترس افراد واشخاص کی طرف سے وضع حدیث کا قبیح سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا اس لیے کچھ عالی ہمت، اہل علم نے روایت کی تحقیق کواپناموضوع بنایا اور کسی رعایت اور لحاظ کے بغیر مشکوک ونامعتبر راویوں کے احوال سے لوگوں کوباخبر کرنے کی اہم ترین ذمہ داری اپنے سرلی، یہ فن "جرح و تعدیل" کہلاتا ہے؛ اسی دور میں اس فن کی بنیاد پڑی، اس فن کے سب سے بڑے امام یحییٰ بن سعید القطانؒ (متوفی:89) اسی عہد کے تھے؛ اسی طرح امام عبد الرحمن بن مہدیؒ (متوفی:198ھ)، یحییٰ بن معینؒ (متوفی:230ھ) اور امام احمد بن حنبلؒ (متوفی:241ھ) جواس فن کے اوّلین معماروں میں ہیں؛ اسی خوش نصیب عہد کی یادگار ہیں۔
  2. مسائل فقہیہ کے استنباط اور اجتہاد میں قرآن مجید کی مختلف قرأتوں کابھی بڑا دخل ہے؛ چنانچہ اس عہد میں قرأت کے فن نے بھی بڑا عروج حاصل کیا اور قراءِ سبعہ نافع رحمہ اللہ (متوفی:167ھ)، عبد اللہ بن کثیرؒ (متوفی:120ھ)، ابوعمروبن علاءؒ (متوفی:154ھ)، عبد اللہ بن عامرؒ (متوفی:118ھ)، ابوبکر عاصمؒ (متوفی:128ھ) جن کے تلامذہ میں حفص بن سلیمانؒ ہیں، حمزہ بن حبیب زیارتؒ (متوفی:145ھ) اور ابو الحسن کسائی رحمہ اللہ (متوفی:189ھ) اسی عہد کے قراء ہیںــــــ قراء سبعہ پرجن تین قراء کا اضافہ کیا گیا ہے اور ان کوقراءِ عشرہ کہا جاتا ہے، ان کا تعلق بھی اسی عہد سے ہے۔
  3. اُصولِ فقہ کی باضابطہ تدوین بھی اسی عہد میں ہوئی، کہا جاتا ہے کہ اس موضوع پرامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کوئی تالیف "کتاب الرائی" کے نام سے تھی؛ لیکن اب اس کا کوئی وجود نہیں، امام محمد رحمہ اللہ کی طرف بھی اُصول کی ایک کتاب اسی نام سے منسوب کی جاتی ہے، یہ بھی دستیاب نہیں؛ لیکن ماضی قریب میں ابو الحسین بصری معتزلی کی کتاب "المعتمد فی اُصول الفقہ" طبع ہوئی ہے، اس کتاب میں امام ابویوسف رحمہ اللہ کی کتاب کا حوالہ موجود ہے؛ اس لیے حقیقت یہی ہے کہ اس فن کے موسس اوّل امام ابوحنیفہؒ اور ان کے تلامذہ ہیں، اس وقت اس موضوع پرجوقدیم ترین کتاب پائی جاتی ہے، وہ امام شافعی رحمہ اللہ کی "الرسالہ" ہے۔

یہ نہایت اہم کتاب ہے اور ابتدائی دور کی تالیف ہونے کے لحاظ سے نہایت جامع، واضح اور مدلل تالیف ہے، جس میں قرآن مجید کے بیان کے اُصول، سنت کی اہمیت اور قرآن سے اس کا ربط، ناسخ ومنسوخ، علل حدیث، خبرواحد کی حجیت، اجماع، قیاس، اجتہاد، استحسان اور فقہی اختلافِ رائے کی حیثیت پرگفتگو کی گئی ہے، امام شافعیؒ نے اس کتاب میں استحسان پربہت شدید تنقید کی ہے او ران کا یہی لب ولہجہ "کتاب الام" میں بھی پایا جاتا ہے؛ لیکن یہ تنقید زیادہ ترغلط فہمیـــــــ اوراگراس تنقید کا نشانہ حنفیہ ہوں توـــــــ حنفیہ کے نقطۂ نظر سے ناواقفیت پرمبنی ہے۔# اس دور میں فقہی اصطلاحات کا ظہور ہوا اور احکام میں فرض، واجب، سنت، مباح اور مستحب جیسی اصطلاحات نے رواج پایا، تابعین کے عہد میں عام طور پر ایسی اصطلاحات قائم نہیں تھیں؛ بلکہ شریعت میں جن باتوں کا حکم دیا گیا، لوگ بلاتفریق اس پرعمل کرتے تھے اور جن باتوں سے منع کیا گیا، بلاکسی فرق کے ان سے اجتناب کرتے تھے۔

  1. بمقابلہ پچھلے ادوار کے اس عہد میں اجتہاد واستنباط کی کثرت ہوئی، اس کے دوبنیادی اسباب تھے، ایک عباسی حکومت کا علمی ذوق، عباسیوں نے جہاں بغداد جیسا متمدن شہرآباد کیا اور عقلی علوم کوعربی زبان کا جامہ پہنایا، وہیں اسلامی علوم سے بھی ان کواعتناء تھا اور خود خلفاء علمی ذوق کے حامل ہوا کرتے تھے؛ بلکہ بعض دفعہ کسی رائے سے تاثراور غلو کی وجہ سے نقصان بھی ہوتا تھا؛ چنانچہ بعض عباسی خلفاء کے معتزلہ سے متاثر ہونے کی وجہ سے "خلق قرآن کا فتنہ" پیدا ہوا جس کی خوں آشام داستانیں اب بھی تاریخ میں محفوظ ہیں، عباسی خلفاء کوفقہ سے بھی تعلق تھا؛ یہی وجہ ہے کہ منصور اور پھرخلیفہ ہارون رشید نے امام مالک رحمہ اللہ کی مؤطا کوملکی دستور کی حیثیت دینی چاہی؛ لیکن یہ امام مالک رحمہ اللہ کا اخلاص تھا کہ انھوں نے اس سے منع فرمادیا، بعض عباسی خلفاء نے امام مالک رحمہ اللہ سے یہ شکایت بھی کی کہ ان کی کتاب میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور بنو ہاشم کے صحابہ کی مرویات کووہ اہمیت نہیں دی گئی ہے، جودوسرے صحابہ کی مرویات کو دی گئی ہے، امام مالکؒ نے اس پرمعذرت کی کہ مجھے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ وغیرہ کے تلامذہ سے استفادہ کا موقع نہیں ملا۔

یہ ان کے علمی ذوق ہی کی بات تھی کہ ہارون رشید قاضی ابویوسف سے حکومت کے مالیاتی قوانین کے موضوع پرتالیف کا طلب گار ہوتا ہے اور اسی خواہش کے نتیجہ میں ان کی معروف مقبول تالیف "کتاب الخراج" وجود میں آتی ہے اور یہ بھی خلفاء کی علم پروری ہی ہے کہ ان کے عہد میں بغداد ہرفن کے علما وماہرین کا مرکز وملجا بن جاتا ہے، اس حوصلہ افزائی اور علمی پزیرائی نے علما کواپنے اپنے فن کوپایہ کمال تک پہنچانے کا حوصلہ دیا۔ دوسرا سبب عالم اسلام کی وسعت تھی، اب مسلمانوں کی حکومت یورپ میں اسپین سے لے کرایشیاء میں مشرق بعید چین تک تھی، مختلف قوموں، مختلف تہذیبیں، مختلف لسانی گروہ اور محتلف صلاحیتوں کے لوگ عالم اسلام کے سایہ میں تھے اور ان میں بڑی تعداد نومسلموں کی تھی؛ اس لیے لوگوں کی طرف سے سوالات کی کثرت تھی اور اس نسبت سے فقہی اجتہادات کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع ترہوتا گیا؛ اسی عہد میں بڑے بلند پایہ، عالی ہمت اور اپنی ذہانت وفطانت کے اعتبار سے محیرالعقول علما وفقہا پیدا ہوئے؛ کیونکہ اس عہد میں اسی درجہ کے اہلِ علم کی ضرورت تھی؛ پھران میں سے بعض بلند پایہ فقہا نے مستقل دبستانِ فقہ کی بنیاد رکھی اور ان سے علمی تاثر کی وجہ سے اہلِ علم کی ایک تعداد ان کے ساتھ ہو گئی اور اس نے ان کے علوم کی اشاعت وتدوین اور تائید وتقویت کے ذریعہ مستقل فقہی مدارس کووجود بخشا، ان شخصیتوں میں سب سے ممتاز شخصیتیں ائمہ اربعہ کی ہیں۔

  1. لیکن فقہ کی باضابطہ تدوین کا شرف سب سے پہلے جس شخصیت کو حاصل ہوا، وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ذات والا صفات ہے؛ اسی لیے امام شافعیؒ نے فرمایا:

"مَنْ أَرَادَ الْفِقْهَ فَهُوَعِيَالٌ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ"۔[39]

اس کا اعتراف تمام ہی منصف مزاج علما نے کیا ہے، حافظ جلال الدین سیوطیؒ، شافعیؒ فرماتے ہیں: "إنہ اوّل من دون علم الشریعۃ ورتبہا ابوابا ثم تبعہ مالک ابن انس فی ترتیب الموطا ولم یسبق أباحنیفۃ احد"۔[40]

ترجمہ:امام ابوحنیفہؒ پہلے شخص ہیں؛ جنھوں نے علم شریعت کی تدوین کی اور اسے باب وار مرتب کیا؛ پھرمؤطا کی ترتیب میں امام مالکؒ نے انھیں کی پیروی کی، امام ابوحنیفہؒ سے پہلے کسی نے یہ کام نہیں کیا۔

علامہ ابن حجرمکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "إِنَّهُ أَوَّلُ من دون عِلْم الْفِقْهَ وَرَتَّبَهُ أَبْوَابًا وَكُتُبًا عَلَى نَحْوِ مَاھُوَعَلَيْهِ الْيَوْمَ، وَتَبِعَهُ مَالِكٌ فِي مُؤَطائہ"۔[41]

ترجمہ:امام ابوحنیفہؒ پہلے شخص ہیں؛ جنھوں نے علم فقہ کومدون کیا اور کتاب اور باب پر اس کومرتب فرمایا، جیسا کہ آج موجود ہے اور امام مالک نے اپنی مؤطا میں انھیں کی اتباع کی ہے۔

پھر اہم بات یہ ہے کہ امام صاحبؒ نے دوسرے فقہا کی طرح انفرادی طور پر اپنی آراء مرتب نہیں کی؛ بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح شورائی انداز اختیار کیا؛ چنانچہ علامہ موفق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "فوضع ابوحنیفۃ مذھبہ شوریٰ بینہم لم یستمد بنفسہ دونہم"۔[42]

ترجمہ:امام ابوحنیفہ نے اپنا مذہب شورائی رکھا، وہ شرکاءِ شوریٰ کوچھوڑکر تنہا اپنی رائے مسلط نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ تھا کہ بعض اوقات ایک مسئلہ پرایک ماہ یااس سے زیادہ بحث ومباحثہ کا سلسلہ جاری رہتا تھا؛

چنانچہ موفق رحمہ اللہ ہی رقم طراز ہیں: "کان یلقی مسئلۃ مسئلۃ یقلبہم ویسمع ماعندہم ویقول ماعندہ ویناظرہم شہراً اواکثر من ذالک حتی یستقر احدا لأقوال فیہا"۔[42]

ترجمہ:امام صاحب ایک ایک مسئلہ پیش کرتے، ان کے خیالات کا جائزہ لیتے اور ان کی بھی باتیں سنتے، اپنے خیالات پیش کرتے اور بعض اوقات ایک ماہ یااس سے زیادہ تبادلہ خیال کا سلسلہ جاری رکھتے؛ یہاں تک کہ کوئی ایک قول متعین ہوجاتا۔

اس مجلس تدوین میں جو مسائل مرتب ہوئے اور جوزیرِ بحث آئے ان کی تعداد کیا تھی؟ اس سلسلہ میں تذکرہ نگاروں کے مختلف بیانات ملتے ہیں، مسانید امام ابوحنیفہؒ کے جامع علامہ خوارزمی نے تراسی ہزار کی تعداد لکھی ہے، جس میں اڑتیس ہزار کا تعلق عبادات سے تھا اور باقی کا معاملات سے۔[43]

بعض حضرات نے 6/لاکھ اور بعضوں نے 12/لاکھ سے بھی زیادہ بتائی ہے، مشہور محقق مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ اس تعداد میں ان مسائل کوبھی شامل کر لیا گیا ہے، جوامام کے مقرر کیے ہوئے اُصول وکلیات کی روشنی میں مستنبط کیے گئے تھے۔[44]

پس اگر تراسی ہزار مسائل ہی اس مجلس تدوین کے مستنبط کیے ہوئے مانے جائیں تویہ کیا کم ہے؟ عام طور پریہ بات نقل کی جاتی ہے کہ اس مجلس میں اپنے عہد کے چالیس ممتاز علما شامل تھے؛ لیکن ان کے سنین وفات اور امام صاحبؒ سے وابستگی کے زمانہ کو دیکھتے ہوئے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ سارے لوگ شروع سے آخر تک اس کام میں شریک نہیں رہے؛ بلکہ مختلف ارکان نے مختلف ادوار میں کارِتدوین میں ہاتھ بٹایا اور ان میں بعض وہ تھے جنھوں نے آخری زمانہ میں اس کام میں شرکت کی، عام طور پر شرکاء مجلس کا نام ایک جگہ نہیں ملتا ہے، مفتی عزیز الرحمن اور ڈاکٹر محمد میاں صدیقی نے ان ناموں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی نے ان ہی کے حوالہ سے اسے نقل کیا ہے، نام اس طرح ہیں:

امام ابویوسف(متوفی:182ھ) محمد بن حسن شیبانی (متوفی:189ھ)

حسن بن زیاد (متوفی:204ھ) زفر بن ہذیل(متوفی:158ھ)

مالک بن مغول (متوفی:159ھ) داؤد طائی (متوفی:160ھ)

مندل بن علی (متوفی:168ھ) نصر بن عبد الکریم(متوفی:169ھ)

عمرو بن میمون(متوفی:171ھ) حبان بن علی (متوفی:172ھ)

ابوعصمہ (متوفی:173ھ) زہیر بن معاویہ (متوفی:173ھ)

قاسم بن معن (متوفی:175ھ) حماد بن ابی حنیفہ (متوفی:176ھ)

ہیاج بن بطام (متوفی:177ھ) شریک بن عبد اللہ (متوفی:178ھ)

عافیہ بن یزید (متوفی:181ھ) عبد اللہ بن مبارک(متوفی:181ھ)

نوح بن دراج(متوفی:182ھ) ہشیم بن بشیر سلمی (متوفی:183ھ)

ابوسعید یحییٰ بن زکریا(متوفی:184ھ) فضیل بن عیاض (متوفی:157ھ)

اسد بن عمرو(متوفی:188ھ) علی بن مسہر(متوفی:189ھ)

یوسف بن خالد(متوفی:189ھ) عبد اللہ بن ادریس(متوفی:192ھ)

فضل بن موسیٰ(متوفی:192ھ) حفص بن غیاث(متوفی:194ھ)

وکیع بن جراح(متوفی:197ھ) یحییٰ بن سعید القطان(متوفی:198ھ)

شعیب بن اسحاق(متوفی:198ھ) ابوحفص بن عبد الرحمن(متوفی:199ھ)

ابومطیع بلخی(متوفی:199ھ) خالد بن سلیمان(متوفی:199ھ)

عبد الحمید(متوفی:203ھ) ابوعاصم النبیل(متوفی:212ھ)

مکی بن ابراہیم(متوفی:215ھ) حماد بن دلیل (متوفی:215ھ)

ہشام بن یوسف(متوفی:197ھ)

  1. اس دور میں فقہا اپنی قوتِ اجتہاد اور لیاقتِ استنباط میں نہایت اعلیٰ درجہ کے حامل تھے، اللہ تعالٰیٰ کے یہاں یہ بات مقدر نہیں تھی کہ ان کے مذہب کوبقاء واستحکام حاصل ہو سکے؛ چنانچہ کم ہی عرصہ میں یہ مذاہب ناپید ہو گئے؛ البتہ ان کی چیدہ چیدہ آراء، کتابوں اب بھی موجود ہیں، ان میں سے چار شخصیتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں:

امام اوزاعی: ان کا پورا نام ابوعمرعبدالرحمن بن محمدؒ ہے، یمن کے قبیلہ ذی الکاع کی ایک شاخ اوزاع تھی؛ اسی نسبت سے اوزاعی کہلائے، 88ھ میں شام میں پیدا ہوئے سنہ157ھ میں وفات پائی، حدیث کے بڑے عالم تھے، اصحاب حدیث کے گروہ سے تعلق تھا اور قیاس سے اجتناب کرتے تھے، شام اور اندلس کے علاقہ میں ان کے مذہب کوقبولیت حاصل ہوئی؛ لیکن جلد ہی ان کے متبعین ناپید ہو گئے۔[45]

سفیان ثوری: ابو عبد اللہ سفیان بن سعید ثوریؒ سنہ97ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے اور سنہ161ھ میں بصرہ میں وفات پائی، فقہ اور حدیث دونوں پرنظر تھی، عام طور پر ان کی آراء سے قریب ہوتی ہیں، ابتدا امام صاحب سے چشمک تھی؛ پھربعد کوغلط فہمی دور ہو گئی اور امام ابوحنیفہؒ کے قدرداں ہو گئے۔

لیث بن سعدؒ: یہ مصرمیں پیدا ہوئے اور وہیں سنہ175ھ میں وفات پائی، کہا جاتا ہے کہ تفقہ میں ان کا درجہ امام مالکؒ اور شافعیؒ سے کم نہیں تھا، خود امام شافعیؒ ان کوامام مالکؒ سے زیادہ فقیہ قرار دیتے تھے؛ لیکن ان کے مذہب کوزیادہ رواج حاصل نہیں ہو سکا اور جلد ہی ختم ہو گیا۔

داؤد ظاہریؒ: ان کا پورا نام ابو سلیمان داؤد بن علی اصفہانی ہے سنہ200ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے اور سنہ270ھ میں وفات پائی، ابتدامیں فقہ شافعیؒ کے متبع تھے، بعد میں پھراپنے مسلک کی بنیاد رکھی، ظاہر نص پرعمل کرنے میں غلو تھا اور اسی غلو کی وجہ سے بعض آراء حد معقولیت سے گذرجاتی ہیں، داؤد ظاہریؒ نے بہت سی کتابیں بھی تالیف کی ہیں، اس مکتب فکر کی نمائندہ شخصیت علامہ ابن حزمؒ اندلسی (متوفی:456ھ) ہیں؛ جنھوں نے اپنی معروف کتاب "المحلیٰ" لکھ کر اصحاب ظواہر کی فکر کی آراء کومحفوظ کر دیا ہے، ابن حزمؒ ہی کی کتاب "الاحکام فی اصول الاحکام" بھی ہے، جس میں اصحاب ظواہر کے اُصولِ فقہ مدون ہیں، پانچویں صدی ہجری تک یہ مذہب پایا جاتا تھا (تاریخ التشریع الاسلامی لحضرمی:180) ابنِ خلدون نے لکھا ہے کہ آٹھویں صدی ہجری تک بھی یہ مذہب باقی تھا؛ پھراس کا نام ونشان مٹ گیا، موجودہ دور میں سلفیت کواسی دبستانِ فقہ کا حیاء قرار دیا جا سکتا ہے۔

ابن جریر طبریؒ: ابوجعفر محمدبن جریر طبریؒ سنہ224ھ میں طبرستان یں پیدا ہوئے سنہ310ھ میں وفات پائی؛ انھوں نے فقہ حنفی، فقہ مالکی اور فقہ شافعی تینوں کوحاصل کیا؛ لیکن کسی کی تقلید نہیں کی اور خود اجتہاد کیا، تفسیرطبری اور تاریخ طبری ان کی معروف کتابیں ہیں، جوبعد کے اہلِ علم کے لیے اولین مرجع کا درجہ رکھتی ہیں؛ اسی طرح فقہی اختلافات پر "کتاب اختلافات الفقہا" چھپ چکی ہے، ختم ہوجانے والے مذاہب میں اسی کوزیادہ دنوں تک زندگی حاصل رہی اور پانچویں صدی کے نصف تک بہت سے لوگ اس فقہ پرعمل تھے۔[46]

فقہ سقوطِ بغداد تک (656ھ)[ترمیم]

فقہ کی تدوین و ترتیب کا چوتھا مرحلہ چوتھی صدی ہجری کے اوائل سے شروع ہوتا ہے اور 656ھ میں سقوطِ بغداد پر ختم ہوتا ہے، جب چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے عالمِ اسلامی کے دار الخلافہ بغداد پر غلبہ حاصل کیا، آخری عباسی خلیفہ کو نہایت بے دردی سے قتل کر دیا اور ایسی خوں آشامی اور ہلاکت خیزی کا ثبوت دیا کہ انسانیت سوزی اور قتل و غارت گری کی تاریخ میں کم ہی اس کی مثال مل سکے گی۔

اس عہد کی خصوصیات اس طرح ہیں:

  1. اسی عہد میں شخصی تقلید کا رواج ہوا اور لوگ تمام احکام میں ایک متعین مجتہد کی پیروی کرنے لگے، تقلید کی اس صورت کو مختلف اسباب کی وجہ سے تقویت پہنچی، جن کا تذکرہ مناسب محسوس ہوتا ہے:

(الف) بہت سے ایسے لوگ دعویٰ اجتہاد کرنے لگے جو حقیقت میں اس منصب کے اہل نہیں تھے اور وہ اجتہاد کو قرآن و حدیث سے انحراف کا چور دروازہ بنانے لگے، اس لیے دین کے تحفظ اور دفع فساد کے لیے اس زمانہ کے بالغ نظر اور محتاط علما نے ضروری سمجھا کہ موجودہ حالات میں باب اجتہاد کو بند کر دیا جائے اور اُمت کو ان آوارہ خیالوں کے فتنہ سے بچایا جائے۔

(ب) ائمہ مجتہدین کی سعی و محنت سے فقہ اسلامی کی ترتیب و تدوین پایہ کمال کو پہنچ چکی تھی اور ان کی مساعی کی وجہ سے لوگوں کے لیے ہر طرح کے مسائل کا حل موجود تھا؛ اس لیے گذشتہ ادوار میں جس درجہ اجتہاد و استنباط کی ضرورت تھی اب اتنی ضرورت باقی نہیں رہ گئی تھی اور یہ اللہ تعالٰیٰ کا قدرتی نظام ہے کہ جب کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے تو اس طرف لوگوں کی توجہ بھی کم ہوجاتی ہے۔

(ج) بعض مجتہدین کو من جانب اللہ لائق تلامذہ اور لائق ماہرین و متبعین ہاتھ آئے اور انھوں نے اس مجتہد کی آراء و افکار کو نہایت بہتر طور پر مرتب کر دیا، اس کی وجہ سے لوگوں میں ان کے اجتہادات کے تئیں قبولِ عام کا رحجان پیدا ہو گیا اور اس طرح ایک مستقل دبستانِ فقہ کی تشکیل عمل میں آگئی، جن فقہا کو ایسے لائق شاگرد میسر نہیں آئے، ان کی فقہ باضابطہ طور پر مدون نہیں ہو پائی اور آہستہ آہستہ علمی زندگی سے اس کا رشتہ کٹ گیا، اس کی واضح مثال امام اوزاعیؒ اور لیث بن سعدؒ ہیں، جن کو ان کے معاصرین تفقہ کے اعتبار سے بعض ائمہ متبوعین سے بھی فائق قرار دیتے تھے؛ لیکن آج کتابوں میں چند مسائل سے متعلق ان کی آراء مل جاتی ہیں اور بس۔

(د) صحابہ اور تابعین کے عہد میں کسی کو قاضی بنایا جاتا تو اسے ہدایت دی جاتی کہ وہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول کو اصل بنائے اور اگر کتاب و سنت میں حکم نہ ملے تو اجتہاد سے کام لے، اس سلسلہ میں وہ خط جو حضرت عمرؓ نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا تھا حدیث و فقہ اور قضاء سے متعلق اکثر کتابوں میں نقل کیا گیا ہے، بعد کے ادوار میں یوں ہوا کہ بعض قضاۃ حق اجتہاد کو جور و زیادتی اور کسی فریق کے حق میں طرف داری کا ذریعہ بنانے لگے، اس پس منظر میں حکومتیں جب کسی کو قاضی مقرر کرتیں تو ان کو پابند کردیتیں کہ فلاں مذہب کے مطابق فیصلہ کیا کریں؛ تاکہ فیصلوں میں یکسانی رہے اور جانب داری کی گنجائش باقی نہ رہے؛ چنانچہ عباسی خلفاء عام طور پر فقہ حنفی پر قاضی مقرر کیا کرتے؛ اسی طرح ترکوں نے بھی عہدۂ قضاء کو احناف کے لیے مخصوص رکھا؛ صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے مصر میں اور سلطان محمود سبکتگین رحمہ اللہ اور نظام الملک طوسی نے مشرقی علاقہ کی عدالتوں کو فقہ شافعی کے مطابق فیصلے کرنے کا حکم دیا، یہ بھی تقلیدِ شخصی کی ترویج کا ایک اہم سبب بنا۔

(ہ)تقلید پر انحصار کا ایک سبب علمی انحطاط بھی تھا، اللہ تعالٰیٰ کا نظام یہ ہے کہ ہر عہد میں اس عہد کی ضرورت کے مطابق افراد پیدا ہوتے ہیں اور ضرورت جوں جوں کم ہوتی جاتی ہے؛ اس طرح کے افراد بھی کم ہوتے جاتے ہیں؛ یہی دیکھیے کہ روایتِ حدیث کے دور میں کیسے قوی الحفظ محدثین پائے جاتے تھے؛ جنھیں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں حدیثیں یاد ہوتی تھیں اور سند و متن صفحہ ذہن پر اس طرح نقش ہوجاتا تھا کہ گویا وہ پتھر پر کندہ کر دیے گئے ہیں؛ لیکن تدوین حدیث کا کام مکمل ہونے کے بعد پھر اس صلاحیت کے لوگ پیدا نہیں ہو سکے، زمانۂ جاہلیت میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہیں تھا، تو لوگوں کو شاعروں کی پوری پوری دیوان نوکِ زبان ہوتی تھیں اور اس طرح جاہلیت کا ادب محفوظ ہو سکا، بعد کے ادوار میں ایسی مثالیں شاذ و نادر ہی مل سکیں؛ اسی طرح جب تک شریعتِ اسلامی کے ایک مکمل نظامِ حیات کی ترتیب و تدوین اور زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق مسائل کے حل کی ضرورت تھی اور اس ضرورت کو پوری کرنے کے لیے مجتہدانہ بصیرت مطلوب تھی، اجتہادی صلاحیتوں کے لوگ پیدا ہوتے رہے، جب اس کی ضرورت کم ہو گئی تو اس نسبت سے ایسے افراد کی پیدائش بھی کم ہو گئی۔

  1. تقلید کے رواج نے جو ایک منفی اثر پیدا کیا وہ فقہی تعصب و تنگ نظری اور جدل و مناظرہ کی کیفیت کا پیدا ہوجانا ہے؛ گذشتہ ادوار میں بھی فقہی مسائل میں اختلافِ رائے پایا جاتا تھا؛ لیکن ایک دوسرے سے تعصب کی کیفیت نہیں تھی اور نہ اس کے لیے معرکہ جدل برپا ہوتا تھا، اس دور میں بدترین قسم کی تنگ نظری وجود میں آئی، لوگ اپنے امام کی تعریف میں مبالغہ کی آخری حدود کو بھی پار کرجاتے تھے اور مخالف نقطہ نظر کے حامل امام ذی احترام کی شان میں گستاخی اور بدکلامی سے بھی باز نہیں رہتے تھے؛ یہاں تک کہ ان مذموم مقاصد کے لیے بعض خداناترس لوگوں نے روایتیں بھی گھڑنی شروع کر دیں۔

چونکہ عوام میں فقہ حنفی اور فقہ شافعی کو زیادہ رسوخ حاصل تھا؛ اس لیے معرکے بھی انھیں دونوں مکاتب فکر کے درمیان میں نسبتاً گرم ہوتے تھے اور اپنے مسلک کی ترویج کے لیے بعض اوقات بہت ہی پست حرکات کی جاتی تھیں، سلطان محمود سبکتگین اصل میں حنفی تھا اور کچھ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا، ایک شافعی عالم نے اس کو متاثر کرنے کے لیے اس کے سامنے بے ترتیبی کے ساتھ جیسے تیسے وضو کیا، پھر جلدی جلدی نماز پڑھی اور سلام پھیرنے سے پہلے قصداً وضو توڑنے کا ارتکاب کیا اور بادشاہ سے کہا کہ یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی نماز ہے؛ پھر اچھی طرح وضو کیا اور بہتر طریقہ پر نماز ادا کی اور بادشاہ سے کہا کہ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کی نماز ہے؛ چنانچہ سلطان محمود نے اس واقعہ سے متاثر ہوکر شافعیت کو اختیار کر لیا اور نقل کرنے والوں کے بہ قول اس حرکت کا ارتکاب کرنے والا کوئی عامی نہیں تھا؛ بلکہ یہ تھے ممتاز شافعی فقیہ قفال شاشی۔ (تاریخ الفقہ الاسلامی، محمدعلی سائس:132)

اب یہ فقہی تعصبات ہی کا حصہ ہے کہ ہمارے کتابوں میں یہ بحث ملتی ہے کہ حنفی شافعی اور شافعی حنفی کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ رسول اللہﷺ نے تو فاجر کے پیچھے بھی نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی اور صحابہ نے تو حجاج بن یوسف کے پیچھے بھی نماز ادا فرمائی؛ لیکن متأخرین کے ہاں یہ ایک سوال بن گیا، احکامِ نماز میں جو اختلافِ رائے مثلاً احناف اور شوافع کے درمیان میں پایا جاتا ہے، یہ صحابہ کے درمیان میں بھی تھا اور تابعین و ائمہ مجتہدین کے زمانہ میں بھی تھا؛ لیکن وہ بے تکلف ایک دوسرے کے پیچھے نماز ادا کرتے رہے اور یہ بات ان کے یہاں چنداں قابل اعتناء نہیں تھی۔

اسی طرح احناف کے یہاں یہ بحث ملتی ہے کہ شوافع سے نکاح دُرست ہے یا نہیں؟ اور "انا مؤمن انشاء اللہ" (انشاء اللہ میں مؤمن ہوں) کہنے کی وجہ سے کیا ان کو مسلمان سمجھا جائے گا؟ یہاں تک کہ بعض لوگوں نے لکھ دیا کہ ان کے ساتھ اہل کتاب کا سا معاملہ کیا جائےــــــ یہ کس قدر تعصب انگیز اور مزاجِ دین کے مغائر باتیں ہیں؟ سلفِ صالحین کے زمانہ میں مناظرہ ایک طرح کا تبادلہ خیال ہوتا تھا، جس میں ایک دوسرے کا پورا احترام ملحوظ رکھا جاتا اور جو بات صحیح نظر آتی تھی اسے لوگ قبول کرتے تھے؛ لیکن اس دور میں مناظرہ کے نام پر مجادلہ اور باہمی سب و شتم کا سلسلہ شروع ہوا، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بادشاہوں اور رئیسوں کے دربار اور بڑی بڑی مسجدیں مناظرہ کا اکھاڑہ بن گئی تھیں اور بہت سے جاہل فرماں روا، جیسے مرغوں اور جانوروں کا مقابلہ کراتے اور تماشا دیکھتے تھے؛ اسی طرح علما سے مناظرہ کرا کر ان سے لطف لیا جاتا تھا؛ اسی لیے اس عہد کے بہت سے حنفی اور شافعی علما کے حالات میں خاص طور سے اس کا ذکر ملے گا کہ یہ مذہب مخالف کے فلاں عالم سے مناظرہ کرتے تھے اور یہ کہ مناظرہ میں ان کو بڑا کمال حاصل تھا۔ # اس عہد میں مقلد علما نے دو اہم کام کیے، ایک تو اپنے دبستانِ فقہ کی آراء کے لیے دلائل کی تلاش اور استنباط؛ کیونکہ اصحاب مذہب سے بہت سے مسائل میں صرف ان کی رائے ملتی تھی اور اس رائے پر دلیل منقول نہیں تھی؛ لہٰذا کچھ تو علمی اور تحقیقی ضرورت اور کچھ مناظروں کی گرم بازاری اور فریق مخالف کی جواب دہی کے پس منظر میں نصوص اور عقل و قیاس سے مذہب کی آراء پر دلیل فراہم کی گئیں؛ دوسرا کام ایک ہی مذہب فقہی کی حدود میں مختلف آراء کے درمیان میں ترجیح کا ہوا، یہ ترجیح کی ضرورت دو موقعوں پر پیش آتی ہے، ایک اس وقت جب امام سے مختلف راویوں نے الگ الگ رائے نقل کی ہو، اس صورت میں راوی کے استناد و اعتبار کے لحاظ سے ترجیح دی جاتی ہے کہ کونسی نقل زیادہ دُرست ہے؟ اسی بنا پر حنفیہ کے یہاں ظاہر روایت کو نوادر پر، مالکیہ کے ہاں ابن قاسم کی روایت کو ابن وھب، ابن ماجشون اور اسد ابن فرات کی روایت پر اور شوافع کے یہاں ربیع ابن سلیمان کی روایت کو مزنی کی روایت پر مقدم رکھا جاتا ہے، دوسرے اُس وقت جب امام سے ایک سے زیادہ اقوال صحیح و مستند طریقہ پر ثابت ہوں؛ ایسی صورت میں امام کے اصول استنباط اور کتاب و سنت اور قیاس سے موافقت اور ہم آہنگی کی بنیاد پر بعض اقوال کو ترجیح دی جاتی ہے؛ اس لیے ان میں اختلاف رائے کا پیدا ہونا فطری ہے؛ اسی لیے ایک ہی مذہب کے مختلف مصنفین کے نزدیک اقوال وآراء کی ترجیح میں خاصا اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔

اس دور کا ایک قابل ذکر کام ائمہ مجتہدین کے اقوال کی تشریح و توضیح بھی ہے، یعنی مجمل احکام کی توضیح، بعض مطلق اقوال سے متعلق شرائط و قیود کا بیان اور آراء کی تنقیح ـــــ اس طرح اس عہد میں ائمہ متبوعین کے مذاہب کی تنظیم و تدوین اور توضیح و تائید کا بڑا اہم کام انجام پایا ہے۔

  1. اس دور کا تذکرہ نامکمل ہوگا؛ اگر اس دور کے اہم فقہا اور اہلِ علم کا ذکر نہ کیا جائے؛ اس لیے اختصار کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے:

حنفیہ[ترمیم]

امام ابو الحسن عبيد اللہ بن الحسین بن دلال الكرخی (260ھ۔340ھ)

امام ابوبکر جصاص رازی (م370ھ)

ابوجعفر محمدبن عبد اللہ بلخی ھندوانی (م362ھ)

ابواللیث نصر بن محمد سمرقندی، امام الھدیٰ (م373ھ)

ابو عبد اللہ یوسف بن محمد جرجانی (م398ھ)

ابو الحسن احمد قدوری (م427ھ)

ابو زید عبد اللہ دبوسی، سمرقندی (م400ھ)

ابو عبد اللہ حسین صیمری (م436ھ)

ابوبکر خواہر زادہ بخاری (م433ھ)

شمس الائمہ عبد العزیز حلوانی (م418ھ)

شمس الائمہ محمد بن احمد سرخسی صاحب المبسوط (م483ھ)

ابو عبد اللہ محمد بن علی دامغانی (م400ھ۔ 478ھ)

علی بن محمد بزدوی (م483ھ)

شمس الائمہ بکر بن محمد زربخری (427۔ 512ھ)

ابو اسحاق ابراہیم بن اسماعیل صفار (574ھ)

طاہر بن احمد بخاری (م542ھ)

ظہیر الدین عبد الرشید والوالجی (م540ھ)

ملک العلماء ابوبکر ابن مسعود کاسانی (م587ھ)

فخر الدین حسن اوز جندی قاضی خان (م592ھ)

علی ابن ابی بکر مرغینانی صاحب ہدایہ (م593ھ)

بکر بن علاقشیری (م314ھ)

ابوبکر بن عبد اللہ المعیطی (م367ھ)

یوسف بن عمر بن عبد البر (م380ھ)

ابو محمد عبد اللہ بن اُبی زید قیروانی (م386ھ)

ابوبکر محمد بن عبد اللہ أبھری (م395ھ)

قاضی عبد الوھاب بغدادی (م422ھ)

ابو القاسم عبد الرحمن حضرمی (م440ھ)

ابوالولید سلیمان باجی (م494ھ)

ابو الحسن علی لخمی (م498ھ)

ابوالولید محمدبن رشد قرطبی (م525ھ)

ابو عبد اللہ محمد تمیمی (م526ھ)

ابوبکر محمد بن عربی صاحب احکام القرآن (م536ھ)

ابوالفضل قاضی عیاضی (م541ھ)

محمد بن احمد بن محمد بن ارشد'دبیز متن' صاحب ہدایۃ المجتہد (م595ھ)

یہ اُوپر ذکر کیے گئے ابنِ رشد'دبیز متن' صاحب کتاب المقدمات کے پوتے ہیں، اس لیے "ابن رشد الحفید" کہلاتے ہیں۔

عبد اللہ بن نجم سعدی (م610ھ)

شوافع:

ابواسحاق ابراہیم مروزی (م240ھ) ابو علی حسین، المعروف بابن ابی ہریرہ (م345ھ)

قاضی ابوحامد مروزی (362ھ) محمدبن اسماعیل قفال کبیرشاشی (م365ھ)

ابو القاسم عبد العزیزدارکی (375ھ) ابو القاسم عبد الواحد یعمری (386ھ)

ابوعلی حسین سنجی (403ھ) ابو حامد ابن محمداسفرائنی (م408ھ)

عبد اللہ ابن احمدقفال صغیر (م417ھ) ابو اسحاق ابراہیم اسفرائنی (م418ھ)

ابوالطیب طاہرطبری (م450ھ) ابو الحسن علی ماوردی (350ھ)

ابوعاصم محمدمروزی (م458ھ) ابو اسحاق ابراہیم شیرازی (م476ھ)

ابونصر محمدبن صباغ (م477ھ) امام الحرمین ابوالمعالی عبد الملک جوینی (م487ھ)

حجۃ الاسلام ابوحامد محمدعزالی (450۔505ھ) ابو القاسم عبد الکریم رافعی (م623ھ)

محی الدین ابوزکریا نووی (م631ھ)

فقہ، سقوطِ بغداد تا اختتام تیرہوی صدی[ترمیم]

یہ عہد بھی بنیادی طور پر پہلے ہی عہد کے مماثل ہے، جس میں مختلف مسالک کے اہل علم نے اپنے مذہب فقہی کی خدمت کی، مختلف مذاہب سے متعلق متون اور متون پر مبنی شروح و حدیث کی ترتیب عمل میں آئی، فتاویٰ مرتب ہوئے، فتاویٰ سے مراد دو طرح کی تحریریں ہیں، ایک متاخرین کے اجتہادات، دوسرے مستفتیوں کے سوالات کے جوابات اسی طرح علمی اعتبار سے اس دور کی خصوصیات کو تین نکتوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

اوّل: یہ کہ گذشتہ ادوار میں علما کے درمیان میں باہمی ارتباط اور افادۂ و استفادہ کا دائرہ بہت وسیع تھا، خاص کر حج کا موسم ایک ایسی بڑی درسگاہ کی شکل اختیار کرلیتا تھا، جس میں پوری دنیا کے اہلِ علم ایک دوسرے سے کسب فیض کرتے تھے اور ان کی آراء اور علوم سے فائدہ اُٹھاتے تھے؛ لیکن مذہبی تصلب اور مسلمان آبادیوں کی مختلف مملکتوں میں تقسیم وغیرہ کی وجہ سے اب افادہ و استفادہ کا یہ عالمی مزاج محدود ہو گیا اور ایک ملک اور ایک علاقہ کے علما ایک دوسرے سے استفادہ پر اکتفاء کرنے لگے۔

دوسرے: متقدمین کی کتابوں میں طرزِ گفتگو مجتہدانہ ہوا کرتا ہے، متأخرین کے یہاں زیادہ سے زیادہ جزئیات کو جمع کرنے کا اہتمام پیدا ہوا، اس دور میں متقدمین کی کتابوں سے اہلِ علم کا رشتہ کمزور ہو گیا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جزئیات کی کثرت سے آدمی مسائل کا حافظ ہو سکتا ہے؛ لیکن اس میں تفقہ کی شان پیدا نہیں ہو سکتی۔

تیسرے: متقدمین کے یہاں طریقہ تالیف سادہ، سلیس اور واضح ہوا کرتا تھا، عبارت سہل ہوا کرتی تھی اور اصل توجہ فن اور مضمون پر ہوتی تھی؛ لیکن متاخرین کے یہاں الفاظ کی کفایت اور مختصر نویسی کمال ٹھہرا؛ یہاں تک کہ عبارتیں چیستاں بن گئی؛ پھر کئی کئی مصنفین نے اس کی عقدہ کشائی میں اپنا زورِ قلم صرف کیا، حاشیے، شرحیں؛ پھر ان شرحوں پر حواشی اور کبھی ان شروح پر شروح، نتیجہ یہ ہوا کہ فن سے توجہ ہٹ گئی اور غیر متعلق اُمور پر محنتیں صرف ہونے لگیں، اس اختصار نویسی کا نمونہ علامہ نسفی کی "کنزالدقائق" زکریا انصاری کی "منہج الطلاب" اور مالکیہ میں "مختصرخلیل" میں دیکھی جا سکتی ہے، خاص کر مالکیہ کے یہاں مسائل کی تعبیر میں اور بی زیادہ اغلاق پایا جاتا ہے۔

اِس صورتِ حال نے فقہی ارتقا کے راستے روک دیے اور زیادہ تر متون کی مختصرات اور پھر ان مختصرات پر شروح و حواشی کا کام ہوتا رہا؛ ہیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سی گراں قدر تالیفات بھی اسی عہد کی یادگار ہیں؛ خاص کر دسویں صدی ہجری کے اوائل تک متعدد صاحب نظر اہل علم پیدا ہوئے، جن میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے:

حنفیہ:

ابو البرکات عبد اللہ بن احمدنسفی (م710ھ) ابومحمدعثمان فخر الدین زیلعی (م743ھ)

محمدبن عبد الواحد کمال الدین ابن ھمام (م761ھ) محمدبن احمد بدرالدین عینی (م762۔ 855ھ)

زین العابدین ابن نجیم مصری (م969ھ) شمس الدین محمدبن امیرالحاج حلبی (م879ھ)

حافظ سیف الدین قطلوبغا (م798۔881ھ) عمر بن ابراہیم ابن نجیم، صاحب النہرالفائق (م1005ھ)

مالکیہ:

ابو ضیاء خلیل کردی (م776ھ) ابو الحسن نور الدین اجھوری (م967۔1066ھ)

محمدبن عبد اللہ قریشی (م111ھ) نور الدین عدوی (م112ھ)

شوافع:

تقی الدین سبکی (م683۔752ھ) شیخ الاسلام زکریا انصاری(م626۔692ھ)

شہاب الدین ابن حجر ہیثمی (م909۔995ھ)

حنابلہ:

تقی الدین احمد بن تیمیہ (م661۔728ھ) شمس الدین ابن قیم جوزی (م691۔751ھ)

فقہ اسلامی عہدِ جدید میں[ترمیم]

فقہ اسلامی کے ارتقا کے سلسلہ میں جدید دور کا نقطہ آغاز تیرہویں صدی ہجری کے اواخر کو قرار دیا جا سکتا ہے، جب خلافتِ عثمانیہ کے حکم پر "مجلۃ الاحکام العدلیۃ" کی ترتیب عمل میں آئی، اس عہد میں فقہ اسلامی کی خدمت کا ایک رحجان پیدا ہوا ہے اور اس سلسلہ میں جو کاوشیں ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں، وہ یہ ہیں:

  1. مسلکی تعصب جو خلافتِ عباسیہ کے سقوط کے بعد سے بہت شدت اختیار کر گیا تھا اور فقہی مسائل مناظرہ و مجادلہ کا موضوع بن چکے تھے، الحمد للہ اب اس صورتِ حال میں بہتری آئی ہے، اب اہلِ علم مختلف ائمہ اور مجتہدین کی آراء کو پورے احترام اور انصاف کے ساتھ ذکر کرتے ہیں، عوامی مجلسوں میں تمام ہی سلفِ صالحین کے موعظت آمیز واقعات نقل کیے جاتے ہیں، کتابوں میں مخالف دلائل کا بھی انصاف کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے، حرمین شریفین میں چار علاحدہ مصلی کی صورت ختم ہوجانے کے بعد سے ایک دوسرے کے پیچھے نماز ادا کرنے کا مزاج عام ہوا ہے، ان موضوعات پرمناظروں کی گرم بازاری ختم ہوئی ہے اور نئے مسائل پر غور کرنے کے لیے مختلف مسالک کے علما ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے اور پورے جذبہ مسامحت کے ساتھ تمام نقاطِ نظر کو سنتے ہیں، یہ بہت ہی مثبت تبدیلی ہے، جو خاص کر گذشتہ نصف صدی میں اُبھر کر سامنے آئی ہے۔
  2. مقلدین کے مطابق موجودہ دور میں دوسرا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جہاں احناف و شوافع اور شوافع و مالکی کی بے معنی آتش جنگ بجھ چکی ہے، وہیں اس دور میں "ظاہریت" اپنے اسی مزاج کے ساتھ جو ابن حزم وغیرہ کی تحریروں سے ظاہر ہے، نئے لباس اور نئے پیکر میں ظہور پزیر ہوئی ہے، یہ حضرات اپنے آپ کو اہل حدیث، سلفی، محمدی، اثری، مختلف ناموں سے موسوم کرتے ہیں؛ مقلدین کے نزدیک انھوں نے نماز سے متعلق چار، پانچ مسائل، طلاق سے متعلق ایک مسئلہ اور طریقہ مصافحہ کو اپنی تمام علمی کاوشوں اور محنتوں کا محور بنا رکھا ہے اور اپنے گمان میں اسے تبلیغ دین تصور کرتے ہیں؛ مقلدین کے نزدیک اس فرقہ نے اُمت کے سوادِ اعظم اور سلفِ صالحین پر طعن و تشنیع اور فروعی مسائل پر مناظرہ و مجادلہ؛ نیز دوسرے مسلمانوں کی تکفیر و تفسیق کا اس سے زیادہ بدترین طریقہ اختیار کر رکھا ہے، جو کسی زمانہ میں تنگ نظر مقلد عوام ایک دوسرے کے خلاف کیا کرتے تھے۔

مقلدین کے بقول یہ غلو پسند فرقہ برصغیر میں اپنی نسبت شیخ محمدبن عبد الوھاب نجدی اور عرب علما سے کرتا ہے؛ لیکن بقول مقلدین شیخ نجدی نے خود اپنے آپ کو حنبلی قرار دیا ہے اور عام عرب علما و محققین ایسی تنگ نظری اور تعصب میں مبتلا نہیں ہیں جو اس فرقہ کا امتیاز ہے، بقول مقلدین خود ہندوستان میں اس مکتبِ فکر کے بزرگوں نواب صدیق حسن خان، ثناء اللہ امرتسری، مولانا عبد اللہ غزنوی وغیرہ کے یہاں اس طرح کا غلو نہیں ملتا، مقلدین کے بقول برصغیر میں غیر مقلدین کی جو نئی نسل نشو و نما پا رہی ہے افسوس کہ ان کی اکثریت اس وقت اُمت میں تفریق و انتشار کی نقیب و ترجمان بنی ہوئی ہے۔

  1. سترھویں صدی کے انقلاب کے بعد سے جدید مسائل کی ایجاد، عالمی تعلقات میں قربت اور مختلف ممالک کے درمیان میں باہمی ارتباط میں اضافہ، تہذیبی اقدار میں تبدیلی اور سیاسی و معاشی نظام میں آنے والے تغیرات کے پسِ منظر میں جس تیزی سے نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، بحمدللہ علما اور ارباب افتاء کی توجہ ان مسائل کے حل کی طرف مبذول ہوئی ہے، اس سے دوہرا فائدہ ہوا، ایک تو شریعت اسلامی کو اس وقت جس خدمت کی ضرورت ہے، اہلِ علم کی صلاحیتیں اس خدمت میں صرف ہو رہی ہے، دوسرے گذشتہ دو تین صدیوں سے کسی نئے علمی کام کی بجائے تفصیل کا اختصار اور اختصار کی تفصیل؛ نیز غیر اہم مسائل کی تحقیق اور فریق مخالف کے نقطہ نظر کو کمزور ثابت کرنے پر جو کاوشیں ہو رہی تھیں، صحیح میدانِ عمل مہیا ہونے کی وجہ سے اب اس رویہ کی اصلاح ہوئی ہے۔
  2. اس دور میں جو علمی کارنامے انجام پائے ہیں یا پا رہے ہیں، ان کو ہم چار حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:

اوّل فقہی مضامین کو دفعہ وار جدید قانونی کتابوں کے انداز پرمرتب کرنا کہ اس سے لوگوں کے لیے استفادہ آسان ہوجاتا ہے اور عدالتوں کے لیے یہ باب ممکن ہوتی ہے کہ وہ اس قانون کو اپنے لیے نشانِ راہ بنائے، اس کی ابتدا "مجلۃ الاحکام" سے ہوئی حکومتِ عثمانیہ ترکی نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے، وزیر انصاف کی صدارت میں اکابر فقہا کی ایک کمیٹی تشکیل دی اور انھیں حکم دیا کہ فقہ حنفی کے مطابق نکاح، تجارت اور تمام معاملات کے احکام کو دفعہ وار مرتبہ کریں، 1285ھ مطابق 1869ء میں یہ کام شروع ہوا اور سات سال کی محنت کے بعد 1293ھ مطابق 1876ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا؛ پھر شعبان 1293ھ کو حکومت کے حکم سے اس کی تنفیذ عمل میں آئی، اس مجموعہ کے شروع میں فقہ، اس کی اقسام اور نوے قواعد پر مشتمل مقدمہ ہے، یہ مجموعہ سولہ مرکزی عنوانات اور اس کے تحت مختلف ابواب پر مشتمل ہے، ہر باب کے شروع میں اس باب سے متعلق فقہی اصطلاحات نقل کی گئی ہیں، کل دفعات (1851) ہیں، یہ مجموعہ فقہ حنفی کے راجح اقوال پر مبنی ہے؛ البتہ بعض مسائل میں احوالِ زمانہ کی رعایت کرتے ہوئے ضعیف اقوال کو بھی قبول کیا گیا ہے۔

اس کے بعد مختلف مسلم ممالک میں حکومت کی زیرنگرانی احوالِ شخصیہ سے متعلق مجموعہ قوانین کی ترتیب عمل میں آئی، یہ مجموعے کسی ایک فقہ پر مبنی نہیں تھے؛ بلکہ ان میں مختلف مذاہب سے استفادہ کیا گیا تھا؛ لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مختلف ممالک میں یورپ کے اثر سے قانونِ شریعت میں ناقابلِ قبول تبدیلیاں کردی گئی ہیں، جیسے تعدادِ ازدواج کا مسئلہ، احکامِ طلاق، میراث میں مرد و عورت کے درمیان میں فرق، وغیرہ؛ اسی طرح مجموعہ قوانین کی ترتیب کی بہت ہی قابل قدر انفرادی کوششیں بھی عمل میں آئی ہیں، اس سلسلہ میں فقیہ محمد قدری پاشاہ کی "مرشدالحیران لمعرفۃ احوال الانسان" فقہ حنفی کے مطابق احوالِ شخصیہ، وقف اور معاملات سے متعلق احکام پر مشتمل ہے اور جس کی دفعات (1045) ہیں، شیخ ابو زہرہ کی "الاحوال الشخصیۃ" (جس میں کسی ایک مذہب کی پابندی نہیں کی گئی) اور شیخ احمد بن عبد اللہ قاری کی "مجلۃ الاحکام الشرعیۃ علی مذہب الامام احمد بن حنبل شیبانی" (جومجلۃ الاحکام کے طرز پر فقہ حنبلی کے نقطہ نظر سے معاملات کے احکامات کا مجموعہ ہے، 2384 دفعات پرمشتمل ہے) نیز جرم و سزا کے اسلامی قانون سے متعلق ڈاکٹر عبد القادر عودہ شہید کی "التشریع الجنائی الاسلامی" (2/حصے، 984 دفعات) خصوصیت سے قابل ذکر ہیں، عالم عرب میں اس طرح کی اور بھی بہت سی کوششیں ہوئی ہیں، جس نے عام لوگوں کے لیے استفادہ کو آسان کر دیا ہے۔

برصغیر میں اس سلسلہ میں جو کوشش ہوئی ہیں ان میں ڈاکٹر تنزیل الرحمن کی مجموعہ قوانین اسلام اور ہندوستان میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر نگرانی پرسنل لا سے متعلق مجموعہ قوانین (جوغالباً 6/جلدوں پرمشتمل ہے) نہایت اہم ہے، یہ دونوں مجموعے بنیادی طور پر فقہ حنفی کے لحاظ سے مرتب کیے گئے ہیں؛ البتہ بعض مسائل میں دوسرے دبستانِ فقہ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے؛ اسی سلسلہ کی ایک اہم کوشش اسلام کے عدالتی قوانین سے متعلق قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی اسلامی عدالت ہے جو 740/دفعات پر مشتمل ہے اور اُردو زبان میں اس موضوع پر منفرد کتاب ہے، اس کا عربی ترجمہ بھی بیروت سے شائع ہو چکا ہے۔

  1. اس دور میں قدیم کتابوں کی خدمت میں بھی بعض نئے پہلو اختیار کیے گئے ہیں، جیسے مضامین کی فقہ بندی، تفصیلی فہرست سازی، تعلیق و تحقیق اور ایک اہم سلسلہ حروفِ تہجی کی ترتیب پر مضامین فہرست سازی کا بھی شروع ہوا ہے، جو کتاب سے مراجعت کرنے والوں کے لیے بہت ہی سہولت بخش ہے، چنانچہ احمد مہدی نے "ردالمحتار" کی، محمد اشقر نے "المغنی لابن قدامہ" کی اور محمد منتصر کتانی نے "المحلی لابن حزم" کی ابجدی فہرست بنائی ہے؛ اسی طرح فقہ مالکی میں "الشرح الصغیر للدردبر" ابجدی فہرست کے ضمیمہ کے ساتھ شائع ہوئی ہے، ان فہارس نے طویل کتابوں سے استفادہ اور مطلوبہ مضامین کے حصول کو آسان کر دیا ہے، خاص کر جن کتابوں کو کمپیوٹر میں فہارس کے ساتھ محفوظ کر دیا گیا ہے، ان سے استفادہ مزید سہل ہو گیا ہے۔

موجودہ دور میں مختلف علوم کی انسائیکلوپیڈیا مرتب کرنے کا رحجان عالمی سطح پر اور ہر زبان میں بڑھ رہا ہے، بحمدللہ فقہ اسلامی میں بھی اس سلسلہ میں متعدد کوششیں کی گئی ہیں؛ چنانچہ جب مشہور اسلامی مؤلف اور داعی ڈاکٹر مصطفٰی سباعی دمشق یونیورسٹی میں "کلیۃ الشریعۃ" کے صدر شعبہ بنے تو فقہ اسلامی کی "دائرۃ المعارف" کی ترتیب کا منصوبہ پیش کیا اور 1956ھ میں حکومتِ شام نے اسے منظور کر لیا، اس مقصد کے لیے ڈاکٹر مصطفٰی سباعی، ڈاکٹر احمد سمان، ڈاکٹر مصطفٰی زرقاء، ڈاکٹر معروف دوالیبی اور ڈاکٹر یوسف العش جیسے ممتاز اصحاب تحقیق پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی اور کام چار مراحل پر تقسیم کیا گیا، جن میں پہلا مرحلہ موسوعہ میں آنے والے فقہی موضوعات کی تعیین و ترتیب تھی، افسوس کہ طویل عرصہ گذرجانے کے باوجود اس کا پہلا مرحلہ ہی تشنہ تکمیل ہے۔

1958ء میں جب مصر و شام کا اتحاد ہوا تو مشترکہ طور پر مصر اور شام نے مل کر اس موسوعہ کی ترتیب کا ذمہ لیا؛ لیکن یہ اتحاد جلد ہی 1961ء میں ٹوٹ گیا؛ چنانچہ 1962ء میں حکومتِ مصر نے ازسرنو اس کی منصوبہ سازی کی اور ایک مضحکہ خیز بات یہ ہوئی کہ جمال عبد الناصر جیسے دین بیزار شخص کی طرف منسوب کرکے اس کا نام "موسوعۃ جمال عبد الناصر فی الفقہ الاسلامی" رکھ دیا گیا، موسوعۃ کے لیے مقررہ یہ کمیٹی کام کر رہی ہے اور اب تک اس کی پندرہ سولہ جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں، اس موسوعۃ میں حنفیہ، مالکیہ، شوافع، حنابلہ اور ظاہریہ کے علاوہ امامیہ، زیدیہ اور اباضیہ فرقوں کے نقطہ نظر کو بھی ضروری دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اُصولِ فقہ اور قواعدِ فقہ کو بھی شامل رکھا گیا ہے۔

اسی طرح کی ایک اور کوشش "جمعیۃ الدراسات الاسلامیۃ قاھرہ" نے شیخ محمد ابوزہرہ کی صدارت میں شروع کی تھی، جس میں مذکورہ آٹھوں مذاہب کا نقطہ نظر جمع کرنا پیش نظر ہے؛ لیکن غالباً یہ کوشش منظر عام پر نہیں آسکی ہے۔

اس سلسلہ کی سب سے کامبیاب اور نتیجہ خیز کوشش وزارتِ اوقاف کویت کی طرف سے ہوئی ہے، جس نے 1966ء میں "الموسوعۃ الفقہیہ" کے منصوبہ کو منظوری دی اور اس مقصد کے لیے فقہی موسوعہ کا تصور پیش کرنے والی پہلی شخصیت ڈاکٹر زرقاء کی حدمات حاصل کیں، اس موسوعہ میں بھی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری، زیدی، اثناء عشری اور اباضی نقاط نظر کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، یہ عظیم الشان کام پینتالیس جلدوں میں مکمل ہو چکا ہے اور واقعہ ہے کہ اس موضوع پر ایک تاریخی علمی کام ہوا ہے، جو یقیناً فقہ اسلامی کی نشاۃ ثانیہ کا حصہ ہے، مقامِ مسرت ہے کہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے اس موسوعہ کو اُردو کا جامہ پہنایا ہے، تادمِ تحریر چالیس جلدوں کا ترجمہ مکمل ہو چکا ہے اور اس وقت نظرِثانی اور مراجعت کے آخری مراحل میں ہے، دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اشاعت کو آسان فرمائے اور اُردو دنیا کو اس عظیم علمی ذخیرہ کے ذریعہ شاد کام کرے۔

انسائیکلوپیڈیائی کاوشوں میں ڈاکٹر رواس قلعہ جی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ انھوں نے عہدِ صحابہ اور عہدِ تابعین کے ان فقہا کی آراء کو یکجا، منضبط اور مرتب کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، جن کے اقوال مختلف کتابوں میں بکھرے ہوئے تھے اور سلف کا ایک بہت بڑا علمی اور فقہی ورثہ لوگوں کی نگاہ سے اوجھل ہوتا جا رہا تھا، ڈاکٹر رواس نے الف بائی ترتیب سے عمر، علی، عبد اللہ بن مسعود، عائشہ، عبد اللہ بن عمر، حسن بصری اور ابراہیم نخعی وغیرہ کی فقہ کو جمع کیا ہے اور اس طرح اہلِ علم کی نئی نسل کو ابتدائی دور کے فقہا کے اجتہادات سے مربوط کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

  1. اس عہد میں ایک بہتر رحجان نئے مسائل پر اجتماعی غور و فکر کا بھی پیدا ہوا ہے، جس میں مختلف فقہی مذاہب کے اہلِ علم سے استفادہ کیا جائے اور اس دور کی مشکلات کو حل کیا جائے؛ چنانچہ رابطہ عالم اسلامی کی مؤتمر منعقدہ مکہ مکرمہ 1384ھ میں "مجمع الفقہ الاسلامی" کے سلسلہ میں ڈاکٹر مصطفٰی زرقاء نے نہایت اہم تجویز پیش کی، یہ تجویز قبول کی گئی، مجمع کی تشکیل عمل میں آئی چنانچہ اب تک اس کے دسیوں اجلاس ہو چکے ہیں اور کئی درجن مسائل زیر بحث آچکے ہیں، ان ہی خطوط پر زیادہ وسعت کے ساتھ 1983ء میں جدہ (O.I.C) کے تحت فقہ اکیڈمی کی تشکیل ہوئی، جو اس وقت عالمی سطح پر سب سے زیادہ باوقار اور فعال اکیڈمی سمجھی جاتی ہے 2004ء تک اس اکیڈمی کے 14/سیمینار ہو چکے تھے اور اس میں 133/مسائل زیر بحث آچکے تھے، ان دونوں اکیڈیمیوں کے سمیناروں کی تجاویز کا اُردو ترجمہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا سے شائع ہو چکا ہے؛ اسی طرح یورپ میں "یورپی افتاء کونسل" قائم ہے، جس کا مرکز برطانیہ ہے اور جس کے عالم اسلام میں اور بھی کئی ادارے ہیں جو خاص کر مسلمانوں کو درپیش جدید فقہی مسائل کو اجتماعی غور و فکر اور تبادلہ خیال کے ذریعہ حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

ہندوستان کے علما نے بھی اس سمت میں کوششیں کی ہیں، دار العلوم ندوۃ العلماء نے مجلس تحقیقاتِ شرعیہ اور جمعیۃ علماءِ ہند نے "ادارۃ المباحث الفقہیۃ" کواسی مقصد کے تحت قائم کیا تھا، پاکستان میں مفتی محمد شفیع اور محمد یوسف بنوری وغیرہ نے "مجلس تحقیق مسائل حاضرہ" کی بنیاد رکھی تھی، ان مجالس نے وقتا فوقتا اجتماعات منعقد کیے ہیں اور متعدد مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے؛ لیکن مسائل کی رفتار کے اعتبار سے کام آگے نہیں بڑھ سکا؛ کیونکہ ان اداروں کی حیثیت ضمنی تھی اور جن تنظیموں اور اداروں کے تحت یہ رکھا گیا تھا، ان کے کام کا دائرہ خود بہت وسیع ہے۔

اسی پس منطر میں 1889ء میں قاضی مجاہد الاسلامی قاسمی نے اسلامک فقہ اکیڈمی کی بنیاد رکھی، اکیڈیمی نے اب تک 15سیمینار کیے ہیں اور ان سیمیناروں میں پچاس سے زیادہ مسائل زیربحث آئے ہیں، ان سیمیناروں میں پیش کیے جانے والے مقالات کی 20/سے زیادہ ضخیم جلدیں طبع ہوکر منظرعام پر آچکی ہیں، اس کے علاوہ فقہی تحقیق اور نئی نسل کو صحیح خطوط پر تربیت کے سلسلہ میں اکیڈیمی نے نہایت اہم اور ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔

  1. اس عہد سے پہلے عام طور پر فقہی ذخیرہ عربی زبان ہی میں ہوا کرتا تھا یا چند کتابیں فارسی زبان میں لکھی گئی تھیں؛ لیکن موجودہ عہد میں فقہ کے عربی ذخیرہ کو اُردو اور دوسری زبانوں میں منتقل کرنے کا ذوق پیدا ہوا اور مختلف علاقائی اور عالمی زبانوں میں فقہ کے موضوع پر یا تو ترجمے کیے گئے یا مستقل طور پر کتابیں لکھی گئیں، ان زبانوں میں اُردو زبان کو اوّلیت کا شرف حاصل ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت اُردو زبان میں علوم اسلامی اور فقہ کا جتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے، عربی زبان کے سوا کسی اور زبان میں اس کی مثال ملنی مشکل ہے؛ بلکہ بعض کتابیں تو ایسی ہیں کہ عربی و انگریزی میں بھی ان کے ترجمے ہوئے اور انھیں قبول عام و خاص حاصل ہوا، ان میں اُصولِ فقہ، تاریخ فقہ، قواعدِ فقہ، فقہ کے تمام ابواب کوجامع اور فقہ کے کسی ایک باب نیز فقہ حنفی، فقہ شافعی اور فقہ سلفی سے متعلق ہر طرح کی کتابیں موجود ہیں۔

اور ظاہر ہے کہ بہت سی کتابیں نایاب ہوجانے یا ان تک رسائی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹ بھی گئی ہوں گی؛ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس موضوع پر اُردو زبان میں کم و بیش ڈیڑھ ہزار تالیفات موجود ہیں اور یقیناً یہ اُردو زبان کی بڑی سعادت اور اس کے لیے تمغا افتخار ہے، سنہ2000ء تک کے جائزہ کے مطابق 1247/ کتابیں موجود ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. بخاری، الصحيح، کتاب العلم، باب من يرد اﷲ بہ خيرا يفقهہ فی الدين
  2. ابن ماجہ، بَاب فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ،
  3. ابن منظور، لسان العرب، 13 : 522
  4. الزرکشی، المنثور، 1 : 68
  5. فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت:1/13; البحرالرائق:1/6
  6. الموسوعۃ الفق
  7. مقدمہ ابن خلدون:2/341
  8. شامی، بیروت:1/120
  9. الاتقان:الفصل فی شرف التفاسیر، النوع الثامن والسبعون:2/468،
  10. الاشباہ والنظائر کا مقدمہ:1/20
  11. مقدمہ درمختار:1/6
  12. (الانعام:151)
  13. (الانعام:8)
  14. (الانعام:136)
  15. (الانعام:118)
  16. (الکہف:110)
  17. مسلم، كِتَاب الْفَضَائِلِ، بَاب وُجُوبِ امْتِثَالِ مَاقَالَهُ شَرْعًا دُونَ مَاذَكَرَهُ مِنْ مَعَايِشِ الدُّنْيَا،
  18. بخاری، كِتَاب الصَّوْمِ، بَاب مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صَوْمٌ، حدیث نمبر:1817، شاملہ، موقع الإسلام۔ السنن الکبری للبیہقی، حدیث نمبر:8484،
  19. (التوبۃ:43)
  20. الفقيہ والمتفقہ للخطيب البغدادي:2/78
  21. مسنداحمد، حدیث نمبر:1779
  22. بخاری:5112۔ مسلم:3465
  23. (النساء:19،32)
  24. (النساء:6)
  25. (فتح القدیر:3/13)
  26. (البقرۃ:23)
  27. احکام القرآن للجصاص:1/370
  28. (احکام القرآن للجصاص:3/417)
  29. (المجادلہ:4۔2)
  30. بیان القرآن، سورۃ البقرۃ: 182۔180
  31. (احکام القرآن للجصاص:1/510)
  32. (بخاری، حدیث نمبر:2147)
  33. (البقرۃ:199)
  34. جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر، باب اجتہاد الرأی علی الأصول من عدم النصوص،
  35. سنن دارمی:1/53، باب الفتیا ومافیھا من الشدۃ
  36. (اعلام الموقعین:1/54)
  37. (تاریخ التشریع الاسلامی لخضری بک:171)
  38. (دیکھیے اعلام الموقعین:1/12۔14)
  39. (الانتقاء لابن عبد البر:210)
  40. (تبیض الصحیفہ:36)
  41. (الخیرات الحسان:28)
  42. ^ ا ب (مناقب ابوحنیفہ:2/133)
  43. (مناقب الامام اعظم لملاعلیٰ قاری:473)
  44. (دیکھیے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی سیاسی زندگی:235)
  45. (دیکھیے، تذکرۃ الحفاظ للذھبی:1/170،172)
  46. (دیکھیے، تذکرۃ الححفاظ:2/251۔ کتاب الفہرست، لابن ندیم:326۔ تاریخ التشریع الاسلامی:183)