مندرجات کا رخ کریں

اجتہاد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شریعت اسلامیہ کی ایک اہم اصطلاح اجتہادہے۔اجتہاد کا لفظ 'جہد' سے نکلا ہے،جس کے معنی ہیں سخت محنت و مشقت کرنا۔ مخصوص شرائط کے ساتھ فقہی منابع میں سے عملی احکام اور وظائف کا استنباط کرنا اجتہاد کہلاتا ہے۔ انسان میں ایسی صلاحیت کا پایا جانا جس کے ذریعے وہ اسلامی احکام کو اس کے مخصوص منابع اور مآخذوں سے اخذ کر سکے اس صلاحیت اور قابلیت کو اجتہاد کہا جا تا ہے۔ جس شخص میں یہ صلاحیت پائی جائے اسے مجتہد کہا جاتا ہے۔ اکثر علما کے نزدیک فقہی منابع،کتاب، سنت، اجماع اور عقل ہے۔ قیاس استحسان وغیرہ کو اہل سنت نے اجتہادمیں داخل کر رکھا ہے جبکہ اہل تشیع کے یہاں قیاس استحسان اور تفسیر بالرائے کی گنجائش نہیں ہے

لغوی معنی

[ترمیم]

اجتہاد کے لغوی معنی ہیں : کسی کام کی انجام دہی میں تکلیف و مشقت اٹھاتے ہوئے اپنی پوری کوشش صرف کرنا۔[1]

گویا اجتہاد اس کوشش کو کہتے ہیں جو کسی کام کی تکمیل میں مشقت برداشت کرتے ہوئے کی جائے، اگر بغیر دقت اور تکلیف کے کوشش ہو گی تو اسے اجتہاد نہیں کہیں گے۔ مثلاً عرب یوں تو کہتے ہیں : فلاں نے بھاری پتھر اٹھانے کی کوشش کی لیکن یہ نہیں کہتے کہ {{{اجتہد فلان فی حمل خردلۃ}}}‎ فلاں نے رائی کا دانہ اٹھانے کی کوشش کی۔

اصطلاحی معنی

[ترمیم]

علامہ زبیدی رح فرماتے ہیں :

    1. 2##‎ ​

ترجمہ : اجتہاد کہتے ہیں کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا اور اس سے مراد ہے کسی قضیہ (مسئلہ) کو قیاس کے طریقے سے کتاب و سنّت کی طرف لوٹانا۔[2]

    1. 3##‎ ​

کسی فقیہ کا کسی حکم_شرعی_ظنی کو حاصل (استنباط) کرنے کے لیے اپنی (پوری) طاقت خرچ کرنا۔[3]

اجتہاد کا شرعی حکم

[ترمیم]

جمہور مسلمین اجتہاد کی حجیت کے قائل ہیں، اجتہاد کی حجیت کتاب و سنت سے ثابت ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

    1. 4##‎ [4]

اے ایمان والو! حکم مانو اللہ (تعالٰیٰ) کا اور حکم مانو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اور اولولاَمر کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اسے "لوٹاؤ" اللہ (تعالیٰ) اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر، یہ بات اچھی ہے اور بہتر ہے اس کا انجام۔[5] اس آیت میں ادلہ اربعہ (چاروں دلیلوں) کی طرف اشارہ ہے : اَطِيْعُوا اللّٰهَ سے مراد "قرآن" ہے، اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ سے مراد "سنّت" ہے اور اُولِي الْاَمْرِ سے مراد "علما و فقہا" ہیں، ان میں اگر اختلاف و تنازع نہ ہو بلکہ اتفاق ہوجاتے تو اسے "اجماع_فقہاء" کہتے ہیں .(یعنی اجماع_فقہاء کو بھی مانو). اور اگر ان اُولِي الْاَمْرِ(علما و فقہا) میں اختلاف ہو تو ہر ایک مجتہد عالم کا اپنی رائے سے اجتہاد کرتے اس نئے غیر واضح اختلافی مسئلے کا قرآن و سنّت کی طرف "لوٹانا" اور استنباط کرنا "اجتہاد_شرعی" یا "قیاس_مجتہد" کہتے ہیں۔

مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا معلم (تعلیم دینے والا) اور حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں :

    1. 5##‎ ​[6]

ترجمہ: جب حضور اکرم نے معاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمھارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انھوں نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا آپ نے فرمایا اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو انھوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ ﷺ نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایا کہ اللہ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔

فقہی نکتے

[ترمیم]

1. قرآن میں سب مسائل کا "واضح و مفصل" حل نہیں .

2. سنّت میں بھی "نئے پیش آمدہ" مسائل کا "واضح و مفصل" حل نہیں .

3. اجتہاد تب کیا جائیگا جب اس نئے مسلے /واقعہ کا واضح جواب قرآن-و-سنّت میں نہ ہو

4. اجتہاد کا کرنے کا "اہل" ہر عامی(عام شخص) نہیں، بلکہ کوئی علمی-شخصیت کسی کے دینی علمی سمجھ میں گہرائی اور مہارت پرکھ لینے کے بعد تائیدی اجازت دے . چنانچہ اس سے مراد وہ حاکم ہے جو عالم ہو حکم دینے کے لائق ہو اور جاہل کا حکم دینا درست نہیں، اگر وہ حکم کرے گا تو گناہگار ہوگا

5. شرعی فیصلہ/فتویٰ دینے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن سے فیصلہ کیا جائیگا، نہ کے سنّت یا قیاس سے . قرآن کے بعد سنّت سے پھر قیاس سے .

6. جب یمن کے عربی عوام کو بلا واسطہ معلم (تعلیم دینے والا) اور قاضی (فیصلہ کرنے والے) کے بذات خود قرآن و حدیث پڑھ سمجھکر عمل کرنے اور ہر ایک کا معلم (تعلیم دینے والا) اور قاضی (فیصلہ کرنے والا) بننے کی بجائے وہاں کے لیے ایک رہبر (امام) معلم و قاضی بناکر بھیجنے کی احتیاج (ضرورت) تھی، تو کسی عالم (جو علوم_انبیاء کے وارث ہوتے ہیں) کی امامت (راہبری) کی احتیاج تو مزید بڑھ جاتی ہے ان عجمی عوام کے لیے جو عربی قرآن کے صحیح ترجمہ و تفسیر اور سنّت_قائمہ (غیر منسوخہ) معلوم کرنے کو عربی احادیث میں ثابت مختلف احکام و سنّتوں میں ناسخ و منسوخ آیات اور افضل و غیر افضل احکام جاننے کے زیادہ محتاج ہیں اور بعد کے جھوٹے لوگوں کی ملاوتوں سے صحیح و ثابت اور ضعیف و بناوٹی روایات کے پرکھنے کے اصول التفسیر القرآن اور اصول الحدیث، جن کا ذکر قرآن و حدیث میں صراحتاً مذکور نہیں بلکہ ائمہ_مسلمین کی دینی فقہ (القرآن : 9:122) کے اجتہادی اصول الفقہ ہیں، یہ اسی اجتہاد کے اصول_شریعت سے ماخوذ ہیں .

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. أبوحبيب، القاموس الفقهی : 71
  2. تاج العروس : 2/330
  3. المسلم الثبوت : 2/362
  4. 4:59
  5. سورۃالنساء:59
  6. سنن ابوداؤد:جلد سوم: فیصلوں کا بیان :قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان;