عروہ بن زبیر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عروہ بن زبیر
(عربی میں: عروة بن الزبير بن العوام الأسدي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 644ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 713ء (68–69 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت امویہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن فقہائے سبعہ  ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد ہشام بن عروہ،  عثمان بن عروہ،  عبداللہ بن عروہ،  یحییٰ بن عروہ  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد زبیر ابن العوام  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ اسماء بنت ابی بکر  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ مورخ،  فقیہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل شریعت  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سات فقہائے مدینہ


امام عروہ بن زبیر بن العوام (عربی: عروة بن الزبير بن العوام الأسدي) کا شمار تابعین کے دور میں مدینہ منورہ کے سات فقہا میں ہوتا ہے۔ وہ صحابی زبیر ابن العوام کے بیٹے تھے۔

نام و نسب[ترمیم]

عروہ نام، ابو عبد اللہ کنیت، مشہور صحابی اور حواری رسول ؐ۔ زبیر بن عوام جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے کے فرزند تھے۔ ان کی ماں اسماء بنت ابی بکر تھیں۔ ام المؤمنین عائشہ ان کی خالہ تھیں ،، اس طرح عروہ کی رگوں میں ایک جانب حواری رسول اوردوسری جانب صدیق رسول کا خون تھا۔

پیدائش[ترمیم]

آپ کی ولادت 23ھ میں ہوئی۔حضرت عمرؓ کے آخر یا حضرت عثمانؓ کے آغاز عہد خلافت میں پیدا ہوئے پہلی روایت زیادہ مرحج ہے۔ [1]

جنگِ جمل و صفین[ترمیم]

جنگ جمل میں اپنی خالہ حضرت عائشہ کے ساتھ نکلنا چاہا۔ لیکن آپ کی عمر اس وقت تیرہ سال کی تھی اس لیے شریک نہیں کیے گئے۔ حضرت علی اور امیر معاویہ کی جنگ میں وہ کسی جانب نہ تھے ۔

بھائی کی حمایت[ترمیم]

اپنے بھائی عبد اللہ بن زبیر اورعبدالملک کی معرکہ آرائیوں میں اپنے بھائی کے ساتھ تھے، عبد اللہ کے مقتول ہونے کے بعد حجاج نے ان کی لاش سولی پر لٹکوادی تھی اورتجہیز وتکفین کے لیے حوالہ نہ کرتا تھا، اس وقت عروہ ہی عبد الملک کے پاس شام گئے تھے، وہ بڑی محبت اور عزت سے پیش آیا،عروہ کو گلے لگا کر اپنے ساتھ تخت پر بٹھا یا اس وقت تک اس کو عبد اللہ بن زبیرؓ کے قتل ہونے کی خبر نہ پہنچی تھی،عروہ ہی کی زبانی اسے معلوم ہوا یہ خبر سن کر اس نے سجدہ شکر ادا کیااور عروہ کی درخواست پر فوراً حجاج کے نام لاش حوالہ کرنے کا حکم جاری کر دیا اور اس کی اس حرکت پرسخت ناپسند یدگی ظاہر کی۔ [2]

عبد الملک کی بیعت[ترمیم]

ادھر مکہ میں عبد اللہؓ کے قتل کے بعد حجاج عروہ کے تلاش میں تھا، جب ان کا پتہ نہ چلا تو اس نے عبد الملک کو لکھا کہ عروہ اپنے بھائی کے ساتھ تھے، ان کے قتل ہونے کے بعد خدا کا مال لے کر بھاگ گئے، اس وقت عروہ شام میں موجود تھے، اس لیے عبد الملک نے جواب دیا کہ وہ بھاگے نہیں ہیں؛بلکہ میری بیعت کرلی ہے، میں نے ان کی خطاؤں کو معاف کرکے انھیں،امان دے دی ہے وہ مکہ واپس جاتے ہیں وہاں ان کے ساتھ کسی قسم کی بدسلوکی نہ کی جائے، غرض وہ عبد الملک سے بیعت کرکے مکہ واپس آئے،ان کی واپسی کے بعد ان کے بھائی کی لاش دفن کی گئی۔ [3]

عقیق کا قیام[ترمیم]

اگرچہ عروہ نے عبد الملک کی بیعت کرلی تھی اوردونوں میں کوئی ناخوشگواری باقی نہ رہ گئی تھی،مگر وہ امویوں کی بے عنوانیوں اورجابرانہ طریق حکومت کو سخت ناپسند کرتے تھے،لیکن ان کاروکنا بھی ان کے بس میں نہ تھا، اس لیے انھوں نے شہر کا قیام ترک کرکے مدینہ کے قریب عقیق کے دیہات میں سکونت اختیار کرلی۔ [4]

عبد اللہ بن حسن کا بیان ہے کہ علی بن حسین (زین العابدین) اور عروہ روزانہ بعد عشاء مسجد نبوی کے ایک گوشہ میں بیٹھتے تھے، میں بھی ان کے ساتھ بیٹھتا تھا، ایک دن گفتگو میں بنی اُمیہ کے مظالم کا تذکرہ آیا اور یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ جب کسی میں ان مظالم کو روکنے کی طاقت نہیں ہے تو ان کے ساتھ رہنا کہاں تک مناسب ہے،خدا ان مظالم کی سزا میں ایک نہ ایک دن ان پر عذاب نازل کرے گا ،عروہ نے علی بن حسین سے کہا کہ جو شخص ظالموں سے علاحدہ رہے گا اور خدا اُس کی بیزاری سے واقف ہوگا، تو امید ہے کہ جب خدا اُن کو کسی مصیبت میں مبتلا کرے گا تو ظالموں سے علاحدہ رہنے والا شخص خواہ ان سے تھوڑے ہی فاصلہ پر ہواس مصیبت سے محفوظ رہے گا،اس گفتگو کے بعد عروہ مدینہ چھوڑ کر عقیق چلے گئے،لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا ان کی مسجدیں لہو ولعب اوران کے بازار لغویات کا گہوارہ ہیں اوران کے راستوں میں بے حیائی کی گرم بازاری ہے۔ [5]

مصر کا قیام[ترمیم]

ابن یونس کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ عروہ سات سال تک مصر میں بھی رہے۔ [6]

فضل و کمال[ترمیم]

عروہ ان اسلاف اوران بزرگوں کی یادگار تھے جو علم وعمل کا مجمع البحرین تھے،ان کے والد زبیر بن عوام حواری رسول تھے،ان کے نانا صدیق اورخلیل رسول تھے، ان کی خالہ عائشہ ام المومنین تھی،ان کی ماں اسماء کو زبان رسالت سے ذات النطاقین کا خطاب ملا تھا ان کے بڑے بھائی عبد اللہ بڑے صاحب علم صحابی تھے غرض ان کا ساراگھرانا علم وعمل اور مذہبی اوراخلاقی فضائل وکمالات کا پیکر تھا،عروہ نے اسی ماحول میں آنکھ کھولی اور اسی میں پرورش پائی، اس لیے یہ دولت انھیں وراثت میں ملی تھی اور ان کا دامن جملہ علمی اوراخلاقی فضائل سے معمور تھا،امام نووی لکھتے کہ ان کے مناقب بے شمار ہیں،ان کی جلالت،علو مرتبت اوروفور علم پر سب کا اتفاق ہے۔[7]حافظ ذہبی انھیں امام اور عالمِ مدینہ لکھتے ہیں:[8] انھیں حدیث اور فقہ دونوں میں یکساں کمال حاصل تھا ،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں : کان ثقۃ کثیر الحدیث فقیھا عالیا مامونا ثبتا ۔ [9]

حدیث[ترمیم]

تابعین میں حدیث اور مغازی کے بہت بڑے عالم تھے، ان تک ایسی روایات پہنچیں جن تک شاید دوسرے تابعین کی رسائی نہ تھی،ان کے مغازی پر جمع کردہ مواد کا اکثر حصہ کتب سیرت میں محفوظ ہے البتہ ان کی اپنی کتاب المغازی ناپید ہو گئی(کشف الظنون) محمد بن اسحاق،واقدی، طبریاور ابن سید الناس نے اپنی کتابوں میں ان کا مواد نقل کیا ہے یہ قدیم ترین روایات ہیں جو ہم تک پہنچے ہیں۔ ان سے خلیفہ عبد الملک مختلف اوقات میں سوالنامے بھیجا کرتا جن کے جواب کو اکٹھا کرکے انھوں نے اپنی مغازی لکھی تھی۔[10] انھوں نے رسول اللہ کے مکتوبات بھی کوشش کر کے اکٹھے کیے تھے ان کی کتاب المغازی بعد میں آنے والوں کے لیے ایک شاہراہ کی مانند ہے۔ عروہ نے اپنے والد، بھائی، ماں، خالہ سب سے]]حدیث]] میں فیض اٹھایا تھا۔ حضرت عائشہ سے زیادہ استفادہ کیا۔ اس کے علاوہ اکابر صحابہ میں زید بن ثابت، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر ؓ، ابن عمر بن العاص، ابو ایوب انصاری وغیرہ سے فیضیا ب ہوئے۔ ابن شہاب زہری لکھتے ہیں کہ عروہ حدیث کا بحر زخار تھے۔ان بزرگوں کے فیض نے عروہ کا دامنِ علم نہایت وسیع کر دیا تھا،ابن شہاب زہری کہتے تھے کہ عروہ حدیث کا بحر زخار تھے [11] عروہ کے صاحبزادے ہشام جو خود بڑے محدث تھے کہتے کہ ہم نے والد کی احادیث کے دوہزار حصوں میں ایک حصہ بھی حاصل نہ کیا۔ [12]

فقہ[ترمیم]

مگر ان کا خاص اورامتیازی فن فقہ تھا، اس فن کو بھی انھوں نے اپنی خالہ حضرت عائشہؓ سے حاصل کیا تھا اور اس میں ان کو اتنا کمال تھا کہ مدینہ کے سات مشہور فقہا میں سے ایک فقیہ مانے جاتے تھے، "فقیہ المدینۃ احد الفقھاء السبعۃ فقھا المدینۃ"

فقہ میں تصانیف[ترمیم]

آپ نے فقہ میں کتابیں بھی تالیف کی تھیں، ان میں سے بعض حرہ کے ہنگامہ کے زمانہ میں جب یزیدی لشکر نے مدنیۃ الرسول کو لوٹاتھا خود جلادیں مگر بعد میں ان کے جلانے کا افسوس ہوا؛چنانچہ فرماتے تھے کہ ہم لوگ کتاب اللہ کی موجودگی میں دوسری کتاب نہیں لکھتے تھے،اس لیے میں نے اپنی کتاب ضائع کر دیں؛ لیکن اب خدا کی قسم میری یہ خواہش ہے کہ میری کتابیں میرے پاس موجود ہوتیں اور خدا کی کتاب اپنی جگہ پر دائم وقائم رہتی۔ [13]

بعض اقوال[ترمیم]

فرماتے تھے جس آدمی میں تم کو ایک اچھائی دیکھو تو اس سے محبت کرو اور یقین کرو کہ اس میں اوراچھائیاں بھی ہوں گی اور اگر کوئی برائی دیکھو تو اس سے نفرت کرو اور یقین رکھو کہ اس میں ایسی اوربرائیاں بھی ہوں گی۔ [14]

صحابہ کا استفادہ[ترمیم]

ان کا فقہی کمال اس قدر مسلم تھا کہ بڑے بڑے صحابہ رسول مسائل میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔

احتیاط[ترمیم]

لیکن اس کمال کے باوجود عروہ اس قدر محتاط تھے کہ کوئی مسئلہ محض رائے سے نہ بیان کرتے تھے۔ [15]

ترغیب علم[ترمیم]

یہ کہہ کر نوجوان کو تحصیلِ علم کی ترغیب دلاتے تھے کہ ہم لوگ بھی ایک زمانہ میں چھوٹے تھے، آج وہ دن آیا کہ ہمارا شمار بڑوں میں ہے، تم بھی گو آج کم سن ہو لیکن ایک زمانہ آئے گا جب بڑے ہوگے،اس لیے علم حاصل کرکے سردار بن جاؤ کہ لوگوں کو تمھاری احتیاج ہو۔ [16]

عبادت و ریاضت[ترمیم]

بڑے عابد و زاہد تھے۔ ابن عماد حنبلی لکھتے ہیں کہ ان کی ذات میں علم، سیاست اور عبادت سب جمع تھیں۔ تلاوت قرآن محبوب ترین مشغلہ تھا۔

فضائل اخلاق[ترمیم]

اس علم کے ساتھ عروہ عمل کے زیور سے بھی آراستہ تھے، وہ اپنے اسلاف کرام کا نمونہ تھے، عجلی کا بیان ہے کہ عروہ صالح آدمی تھے [17] ابن شہاب ز ہری کا قول ہے کہ وہ علما خیر میں تھے۔ [18]

عبادت وریاضت[ترمیم]

بڑے عابد وزاہد تھے،ابن عماد حنبلی لکھتے ہیں کہ ان ذات میں علم، سیاست اورعبادت سب جمع تھیں [19] تہجد اس التزام کے ساتھ پڑھتے کہ ایک شب کے سوا جب ایک مرض کے سلسلہ میں، ان کا پاؤ ں کاٹا گیا تھا اور کبھی ناغہ نہ ہوئی،[20]عید الفطر اورعید الاضحی کے ممنوعہ ایام کے علاوہ باقی بار ہ مہینے روزہ رکھتے تھے،سفر کی حالت میں بھی نہ چھوٹتا تھا، مرض الموت میں بھی اس معمول میں فرق نہ آتا ؛چنانچہ انتقال کے دن بھی روزے سے تھے۔ [21] تلاوتِ قرآن محبوب ترین مشغلہ تھا،ایک چوتھائی قرآ ن دن میں ناظرہ پڑھتے تھے،باقی رات کو تہجد میں تمام کرتے تھے۔ [22]

صبرواستقامت[ترمیم]

صبر واستقامت کا مجسم پیکر تھے ،بڑی سے بڑی آزمائش اورتکلیف کے موقع پر زبان سے ‘اُف نہ نکلتی تھی، ایک مرتبہ عبد الملک کے پاس شام گئے ہوئے تھے، ان کے لڑکے محمد بھی ساتھ تھے، وہ شاہی اصطبل دیکھنے گئے، ایک جانور نے ان کو پٹک دیا، اس کے صدمہ سے وہ اسی وقت جان بحق ہو گئے، اس کے بعد ہی عروہ کے پاؤں میں ایک خراب قسم کا زہریلا زخم پیدا ہوگیااطباء نے پاؤں کاٹے جانے کا مشورہ دیااورنہ کاٹے جانے کی صورت میں تمام جسم میں زہر پھیل جانے کا اندیشہ ظاہر کیا ،عروہ اگرچہ اس وقت ضعیف ہو چکے تھے؛ لیکن انھوں نے جوانوں سے زیادہ ہمت و استقلال سے کام لیا،پاؤں کاٹنے سے پہلے طبیب نے کہا تھوڑی سی شراب پی لیجئے،تاکہ تکلیف کا احساس کم ہو،فرمایا: جس مرض میں مجھ کو صحت کی امید ہو،اس میں بھی حرام شے سے مددنہ لوں گا، اس نے کہا تو پھر غافل کردینے والی دوا ہی استعمال کرلیجئے،فرمایا میں یہ بھی نہیں پسند کرتا کہ میرے جسم کا ایک عضو کاٹا جائے اورمیں اس کی تکلیف محسوس نہ کروں،اپریشن کے وقت چند آدمی سنبھالنے کے لیے آئے، عروہ نے پوچھا تمھاراکیا کام ہے،انھوں نے کہا زیادہ تکلیف کے وقت صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے،اس لیے آپ کو سنبھالنے کے لیے آئے ہیں فرمایا مجھ کو امید ہے کہ تمھاری امداد کی ضرورت نہ ہوگی اور نہایت استقلال کے ساتھ پاؤں کٹوادیا،جس وقت پاؤں ٹخنوں سے الگ کیا گیا، اس وقت زبان پر تسبیح وتہلیل تھی، جب خون بند کرنے کے لیے زخم کو داغا گیا،توشدت تکلیف سے بے ہوش ہو گئے لیکن جلد ہی ہوش آگیا اور چہرہ کا پسینہ پونچھ کر کٹے ہوئے پاؤں کو منگا کر دیکھا اور اس کو الٹ پلٹ کر اس سے خطاب کرکے فرمایا ، اس ذات کی قسم جس نے تجھ سے میرا بوجھ اٹھوایا، وہ خوب جانتا ہے کہ میں کسی حرام راستہ پر گامزن نہیں ہوا۔ [23]

صبر و شکر[ترمیم]

ان حوادث اورمصائب کے باوجود زبان شکوہ وشکایت سے آلودہ نہ ہوئی اور ہمیشہ خدا کا شکر ہی ادا کرتی رہی؛چنانچہ فرمایا کرتے تھے کہ خدایا تیرا شکر ہے کہ میرے چار ہاتھ پاؤں میں سے تونے ایک ہی کو لیا، اورتین باقی رکھے اورچار لڑکوں میں سے ایک ہی کو لیا اور تین باقی کر رکھے،اگرتونے کچھ لیا ہے تو بہت کچھ باقی رکھا اگر مصیبت میں مبتلا کیا ہے تو بہت دنوں عافیت میں بھی رکھ چکا ہے۔

دولتِ دنیا سے بے نیازی[ترمیم]

ان کی نگاہ میں دولت دنیااور چند روزہ عیش و تنعم کی کوئی وقعت نہ تھی، اس کے لیے انھوں نے خدا سے کبھی دنیا نہیں مانگی،ایک مرتبہ امیر معاویہ کے زمانہ میں یہ ان کے بھائی عبد اللہؓ اورمصعب بن زبیرؓ اورعبدالملک چاروں آدمی مسجد حرام میں جمع تھے کسی نے تجویز پیش کی کہ ہم لوگ اس گھر میں خدا کے روبرو اپنی اپنی آرزوئیں پیش کریں،سب نے اسے پسند کیا سب سے پہلے عروہ کے بھائی عبد اللہ نے کہا کہ میری آرزو یہ ہے کہ میں حرم کا بادشاہ ہوجاؤں اورمجھے تخت خلافت ملے، ان کے بعد ان کے دوسرے بھائی مصعب نے کہا کہ میری تمنا یہ ہے کہ قریش کی دونوں حسین عورتیں سکینہ بنت حسین اور عائشہ بنت طلحہ میرے عقد میں آجائیں ،ان کے بعد عبد الملک نے کہا میری آرزو یہ ہے کہ میں کل روئے زمین کا بادشاہ ہوجاؤں اور امیر معاویہ کا جانشین بنوں، سب سے آخیر میں عروہ نے کہا کہ مجھے تم لوگوں کی خواہشات میں سے کچھ نہ چاہیے میں دنیا میں زہد وآخرت میں کامیابی اورعلم چاہتا ہوں۔ [24]خدانے ان چاروں کی دعا قبول کی ابن زبیرؓ حرم کے سات برس تک خلیفہ رہے ،سکینہ اور عائشہ دونوں مصعب کے عقد میں آئیں،عبد الملک سندھ سے لے کر اسپین تک کافرماں روا ہوا اورامیر معاویہ کی قائم کردہ سلطنت کا وارث بنا اور عروہ کو خاصان خدا کا مرتبہ ملا

تمول اور فارغ البالی[ترمیم]

اگرچہ عروہ دولت دنیا سے بے نیاز اور بے پروا تھے،لیکن خدا نے ان کو اس سے وافر حصہ دیا تھا،وہ بڑے صاحب ثروت تھے، ان کے والد حضرت زبیر بن عوام عرب کے بڑے متمول لوگوں میں تھے، اپنے بعد کئی کروڑ دولت چھوڑی،یہ دولت ان کے بیٹوں کو ملی،جن میں ایک عروہ بھی تھے، حضرت زبیر کی دولت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ان کی چاربیویوں کو آٹھواں حصہ میں بارہ بارہ لاکھ ملا تھا۔ [25]

فیاضی وسیر چشمی[ترمیم]

خدانے عروہ کو جس طرح دولت عطا فرمائی تھی ویسے ہی وہ فیاض بھی تھے،ان کے کھجوروں کے باغات تھے،کھجوروں کی فصل میں باغ کی دیوار توڑوادیتے تھے اورہرشخص کے لیے صلائے عام ہوتی تھی لوگ آکر کھاتے تھے اور باندھ باندھ کر ساتھ لے جاتے تھے۔ [26]

خوش لباسی اورنفاست[ترمیم]

عروہ اگرچہ بڑے عابد وزاہد تھے؛ لیکن مزاج میں بڑی نفاست تھی، روزانہ غسل کرتے تھے ،کپڑے نہایت بیش قیمت پہنتے تھے، گرمیوں میں جسم پر سندس کی قبا ہوتی تھی جس میں حریر کا استر ہوتا تھا،خزا کی چادر اوڑھتے تھے۔ [27]

وفات[ترمیم]

94ھ میں نواح مدینہ میں انتقال کیا۔[28]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تہذیب التہذیب:7/183)
  2. (ابن اثیر:4/291)
  3. (ابن اثیر ایضاً)
  4. (ابن سعد:5/135)
  5. (مختصر صفوۃ الصفوہ:32)
  6. (تہذیب التہذیب:7/185)
  7. (تہذیب الاسماء:1/322)
  8. (تذکرۃ الحفاظ:1/53)
  9. (تذخرۃ الحفاظ:1/53)
  10. تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 118
  11. (ایضا:182)
  12. (تہذیب الاسماء:1/332)
  13. (تہذیب التہذیب:7/183)
  14. (مختصر صفوۃ الصفلوہ:131)
  15. (صفوۃ الصفلوہ ایضاً)
  16. (ایضاً:182)
  17. (تہذیب التہذیب:7/182)
  18. (ابن خلکان :1/54)
  19. (شذ رات الذہب :1/103)
  20. (تذکرہ الحفاظ:1/54)
  21. (ابن سعد:5/134)
  22. (تہذیب التہذیب:7/183)
  23. (ابن خلکان:1/216)
  24. (ابن خلکان:1/31)
  25. (بخاری کتاب المغازی باب برکۃ الغازی فی مالہ)
  26. (مختصر صفوۃ النصفوہ:131)
  27. (ابن سعد:5/134)
  28. (بحوالہ تذکرۃ الحفاظ، امام ابو عبد اللہ شمس الدین محمد الذہبی جلد نمبر3صفحہ111۔ تہذیب التہذیب، شہاب الدین احمد ابن حجر العسقلانی جلد نمبر ۔۔ صفحہ123)