ابن اسحاق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابن اسحاق
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 704ء[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 767ء (62–63 سال)[3][4][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ ابن شہاب زہری  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص سفیان ثوری،  شعبہ بن حجاج،  سفیان بن عیینہ  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مورخ،  سوانح نگار  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی[3]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل سیرت نبوی،  تاریخ اسلام  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں سیرت ابن اسحاق  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمد بن اسحاق بن یسار بن خیار المدنی (704ء تا 767ء) آٹھویں صدی کے قدیم ترین سیرت نگار ہیں جن کی مشہور کتاب سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سیرت ابن اسحاق کے نام سے مشہور ہے۔ یہ کتاب اب ناپید ہو چکی ہے مگر اس کتاب کا نثری حصہ سیرت ابن ہشام میں لیا گیا ہے۔ ان کی تاریخ اسلامی تاریخ کی قدیم ترین کتاب ہے۔ وہ یسار کے پوتے تھے جسے 12ھ میں عراق کے مقام عین التمر کے گرجا میں سے گرفتار کر کے مدینے لایا گیا تھا، جہاں وہ عبد اللہ بن قیس کے قبیلے کا مولیٰ بن گیا۔[5] ابو عبید اللہ محمد بن اسحٰق بن یسارمطلبی جو ابن اسحٰق کے نام سے مشہور ہیں مدینہ کے رہنے والے تھے -سیرت ابن اسحاق کے مصنف ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

محمد نام،ابو عبد اللہ کنیت والد کا نام اسحٰق تھا،ان کے دادا یسار عین التمر کے قیدیوں میں تھے اورغالباً اسی تعلق سے ابن اسحاق بھی غلامی کے سلسلہ میں منسلک تھے چنانچہ وہ قیس بن مخزمہ بن مطلب بن عبد مناف کے غلام تھے۔

ولادت[ترمیم]

ابن اسحاق مدینہ منورہ میں 85ھ، (704ء)میں پیدا ہوئے مدینہ میں قیام کیا۔ پھر کسی وجہ سے مصر اور وہاں سے کوفہ چلے گئے۔ آخر میں بغداد میں مقیم ہو گئے ۔

مدینہ آمد[ترمیم]

ان کے داد یسار بن خیار(یسار بن کوتان)مسیحی مذہب کے تھے وہ شاہ ایران کے حکم عین التمر میں قید تھے خالد بن ولید انھیں قیدی بنا کر مدینہ لائے قیس بن مخرمہ کی تملیک میں آئے اسی وجہ سے مطلبی یا مخرمی لقب رکھے ہیں۔ یسار اپنے قبیلے کے پہلے شخص تھے جو مسلمان ہو کر آزاد ہوئے۔ ان کے تین بیٹے تھے جن میں ایک ابن اسحاق تھے۔

فضل وکمال[ترمیم]

علمی اعتبار سے ابن اسحاق ممتاز تابعین میں تھے خصوصا فن مغازی اورسیرت کے امام تھے۔

حدیث میں ان کاپایہ[ترمیم]

حدیث کے اکابر حفاظ میں تھے،اگرچہ امام مالک اوربعض دوسرے علما نے ان پر جرح کی ہے لیکن ایک دو کے علاوہ اورباقی تمام ائمہ اور ارباب کمال کا ان کے حفظ پر اتفاق ہے،ابوذرعہ عبد الرحمن بن عمرو النصری روایت کرتے ہیں کہ محمد بن اسحق ایسے شخص ہیں جن سے اخذ حدیث میں تمام بڑے بڑے اہل علم سفیان ثوری،شعبہ،ابن عینیہ،حماد بن زید، حماد بن سلمہ، ابن مبارک اورابراہیم بن سعد وغیرہ کا اتفاق ہے،اکابر میں یزید بن ابی حبیب نے ان سے روایت کی ہے،اہل حدیث نے ان کا امتحان لیا تو انھیں سچا اورخیر پایا۔[6]

علما کا اعتراف[ترمیم]

شعبہ ان کو امیر المومنین فی الحدیث اورامیر الحدثین کہتے تھے لوگوں نے پوچھا کیوں؟ جواب دیا ان کے حفظ کی وجہ سے [7] یزید بن ہارون کہتے ہیں کہ میرے ہاتھوں میں حکومت ہوتی تو محمد بن اسحٰق کو محدثین کا سردار بناتا ،ابو معاویہ انھیں حفظ الناس اوریحییٰ بن معین انھیں ثقہ اورحسن الحدیث کہتے تھے [8] علی بن مدائنی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث کا مدار چھ شخصوں پر تھا،پھر ان چھ آدمیوں کا علم بارہ میں منتقل ہو گیا تھا ان میں ایک ابن اسحٰق تھے۔[9]

امام زہری کا طرز عمل[ترمیم]

خود ان کے استاد امام زہری کو ان کے علم پر اس قدر اعتماد تھا کہ فرماتے تھے،جب تک محمد بن اسحٰق موجود ہیں،اس وقت تک اہل مدینہ میں علم رہے گا [10] چنانچہ جب وہ مدینہ کے باہر جاتے تھے تو ان کو اپنا قائم مقام بناجاتے تھے، ایک مرتبہ باہر جا رہے تھے،بعض شائقین علم نے بھی ساتھ جانا چاہا،زہری نے ان سے کہا کہ احول غلام (ابن اسحاق)کو تم میں چھوڑے جاتا ہوں [11] ان کی یہ جانشینی زہری کے تلامذہ میں مسلم تھی چنانچہ ان کے بعد وہ لوگ ان کی روایات کی تصدیق کے لیے ابن اسحٰق کی طرف رجوع کرتے تھے۔[12]

زہری انھیں اس قدر مانتے تھے کہ دربانوں کو خاص ہدایت دے رکھی تھی کہ ابن اسحٰق جس وقت بھی آئیں انھیں آنے دیا جائے،ایک مرتبہ ابن اسحٰق نے آنے میں معمولی سے دیر کی،زہری نے پوچھا کہاں تھے،انھوں نے کہا حاجبوں اوردربانوں کی وجہ سے کوئی شخص آپ تک پہنچ بھی سکتا ہے،زہری نے اسی وقت دربان کو بلاکر حکم دیا کہ ابن اسحٰق جس وقت بھی آئیں،انھیں روکا نہ جائے۔[13]

مالک اورہشام کی جرح اوراس کے اسباب[ترمیم]

ان محامد اورکمالات کے ساتھ ابن اسحٰق پر امام مالک اورہشام کی جرح بھی ملتی ہے،خصوصاً امام مالک کی رائے ان کے بارہ میں زیادہ سخت تھی اوروہ ان کے متعلق نا ملائم الفاظ تک استعمال کرجاتے تھے۔ ہشام بھی انھیں لائق اعتماد نہ سمجھتے تھے،لیکن محدثین نے خود ان دونوں کی جرح کے اسباب بیان کر دیے ہیں، اس کی تفصیل یہ ہے کہ امام مالک اتنے متشدد تھے اور ا ن کا معیار اتنا بلند تھا کہ اگر کسی میں ادنی خامی بھی ہوتی تھی تو وہ اس کے متعلق سخت الفاظ استعمال کرنے میں دریغ نہ کرتے تھے،خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ بعض علما کا بیان ہے کہ امام مالک کے ہمعصر علما نے ان لوگوں پر جو صلاح ،تقوی، دینداری،ثقاہت اورامامت میں مشہور تھے امام مالک کی درشتی زبان پر نکتہ چینی کی ہے [14]دوسری وجہ یہ تھی کہ ابن اسحٰق خود امام مالک پر طعن کیا کرتے تھے اورلوگوں سے کہتے تھے کہ مالک کی حدیثیں مجھے سنایا کرو میں ان کے امراض کا طبیب ہوں [15]ایسی حالت میں اگر امام مالک نے ان کے متعلق درشت الفاظ استعمال کیے تو اس سے ابن اسحٰق کی ثقاہت مجروح نہیں ہو سکتی۔

تیسرا سبب یہ ہے کہ ابن اسحٰق غزوات کی روایات قبول کرنے میں محتاط نہ تھے اس لیے امام مالک ان کے مغازی پر طعن کرتے تھے،ان کی احادیث کو اس جرح سے کوئی تعلق نہ تھا، ابن حبان لکھتے ہیں کہ مالک نے صرف ایک مرتبہ محمد بن اسٰحق کے بارہ میں کہا تھا،پھر ان کے رتبہ کے مطابق ان سے برتاؤ کرتے تھے، مالک ان کی احادیث کی وجہ سے نہیں ؛بلکہ مغازی کی وجہ سے ان پر جرح کرتے تھے ؛کیونکہ ابن اسحٰق غزوۂ خیبر وغیرہ کے حالات یہودیوں کی نو مسلم اولادوں سے سنتے تھے جن کو وہ اپنے بزرگوں سے سُن کر بیان کرتے تھے گو ابن اسحٰق ان بیانات سے حجت نہیں لاتے تھے،لیکن امام مالک متقن کے علاوہ کسی دوسرے سے روایت لینا جائز نہ سمجھتے تھے۔[16]

بعض علما کا بیان ہے کہ مالک کی جرح مغازی کی بنا پر بھی نہ تھی ؛بلکہ بعض عقائد کی بنا پر تھی عبد الرحمن بن عمرو النصری کا بیان ہے کہ میں نے وحیم کے سامنے ابن اسحق کے بارے میں مالک کی طرح کا تذکرہ کیا تو انھوں نے کہا،یہ احادیث کی وجہ سے نہ تھی؛بلکہ اس لیے تھی کہ امام مالک انھیں قدر کے عقیدے سے مہتمم سمجھتے تھے۔[17] بہر حال ان تمام روایات سے اتنا معلوم ہو گیا کہ امام مالک کی جرح کا سبب ابن اسحٰق کی بے اعتباری اوران کا ضعف نہ تھا؛بلکہ اس کے اسباب دوسرے تھے،اس لیے اس جرح سے ان کی مرویہ احادیث پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا، اسی لیے امام مالک کے علاوہ اورآئمہ اور علما ان کی روایات قبول کرتے تھے،خود امام احمد بن حنبل جو عقیدہ کے تشدد میں امام مالک سے کم نہ تھے،ابن اسحٰق کی روایات قبول کرتے تھے۔ امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے عبد اللہ نے ایک شخص کے جواب میں جس نے ابن اسحٰق کے بارہ میں ان سے پوچھا تھا کہ میرے والدان کی روایات جانچ کر قبول کرتے تھے اورمسند میں لیتے تھے،لیکن سنن میں ان سے احتجاج نہیں کرتے تھے۔[18] امام مالک کے بعد ابن اسحٰق پر جرح کرنے والوں میں دوسرا نام ابن ہشام کا ہے،اسی کی حقیقت یہ ہے کہ ہشام ان کو محض اس لیے لائق اعتماد نہ سمجھتے تھے کہ انھوں نے ان کی بیوی فاطمہ بنت منذر سے بعض روایتیں کی ہیں،ہشام کہتے تھے کہ انھوں نے میری بیوی سے جو ایک پردہ نشین خاتون تھیں اور جن پر نوسال کی عمر سے موت تک کسی مرد کی نظر نہیں پڑی،کیسے احادیث سنیں؛ لیکن جیسا کہ بعض محدثین نے لکھا ہے کہ محض اس دلیل پر ابن اسحٰق کی روایات کو غلط کہنا صحیح نہیں ہے،کیونکہ وہ پردہ کی آڑ سے سن سکتے تھے،ابن حبان لکھتے ہیں کہ محمد بن اسحٰق کے بارہ میں ہشام اورمالک دو آدمیوں نے کلام کیا ہے،لیکن ہشام کے قول سے کوئی انسان بھی مجروح نہیں ہو سکتا، تابعین بغیر چہرے پر نظر ڈالے ہوئے حضرت عائشہؓ سے سُنا کرتے تھے، اسی طریقہ سے ابن اسحٰق نے فاطمہ سے سنا ہوگا،درمیان میں پردہ حائل رہا ہوگا۔ [19]

شیوخ[ترمیم]

ابن اسحٰق خاص شاگرد تو امام زہری کے تھے، لیکن ان کے علاوہ بھی انھوں نے بہت سے شیوخ سے استفادہ کیا تھا، چنانچہ ان کے شیوخ میں عبید اللہ بن عبد اللہ بن عمرو بن کعب ابن مالک،محمد بن ابراہیم تیمی،قاسم بن محمد بن ابی بکر، محمد بن جعفر بن زبیر، عاصم بن عمرو بن قتادہ،عباس بن سہل بن سعد،ابن منکدر،مکحول،ابراہیم بن عقبہ،حمید الطویل،سالم ابی النضر،سعید مقبری،سعید بن ابی ہند، ابی الزناد عبد الرحمن بن اسود نخعی،عطاء بن ابی رباح،عکرمہ ابن خالد علاء بن عبد الرحمن وغیرہ جیسے اکابر علما تھے۔ [20]

تلامذہ[ترمیم]

خود ابن اسحٰق سے فیض اٹھانے والوں کی فہرست نہایت طویل ہے،ان میں بعض ممتاز تلامذہ کے نام یہ ہیں،جریر بن حازم،عبد اللہ بن سعید، ابن عون ،ابراہیم بن سعد،شعبہ سفیان ،زہیر بن معاویہ، ابن ادریس ،ابو عوانہ،عبد الاعلیٰ،عبداہ بن سلیمان ،جریر بن عبد الحمید اورزیاد البکائی وغیرہ۔[21]

سیرت ومغازی[ترمیم]

ابن اسحٰق کا اصل فن مغازی وسیرت تھا،اس کے وہ امام تھے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ مغازی اور سیرت کی معرفت میں حبر تھے [22]امام شافعی کہتے تھے کہ جو شخص مغازی میں تبحر حاصل کرنا چاہتا ہے وہ ابن اسحٰق کا دست نگر ہے (تاریخ خطیب :219)خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اس علم کی طرف توجہ کی اور اس کو اتنا بڑھا یا کہ ان کے بعد پھر کوئی اس پر اضافہ نہ کرسکا اور سلاطین اورامراء کی توجہ بے نتیجہ اورلا یعنی قصص وحکایات سے تاریخ کی طرف پھیردی،اس طرح انھوں نے سب سے پہلے تاریخ کا مذاق پیدا کیا،ابن عدی کا بیان ہے کہ اگر اس فضیلت کے علاوہ ابن اسحٰق میں اورکوئی فضیلت نہ ہوتی کہ انھوں نے سلاطین کا مذاق بدل کر ان کی توجہ اور مشغولیت لاحاصل کتابوں سے رسول اللہ ﷺ کے مغازی آپ کی سنت اورآغاز عالم کی تاریخ کی جانب پھیردی،تو تنہا یہی کارنامہ اوراولیت کا یہ فخر ہی ان کی فضیلت کے لیے کافی تھا، ان کے بعد بہت سے لوگوں نے اس فن پر کتابیں لکھیں؛ لیکن کوئی ان کے درجہ کو نہ پہنچ سکا [23] خود امام زہری جن سے انھوں نے اس فن کو حاصل کیا اس میں ان کی وسعتِ علم کے معترف تھے۔[24]

تاریخ[ترمیم]

اگرچہ مغازی اورسیرت تاریخ ہی کی ایک شاخ ہے،لیکن اس کے علاوہ ابن اسحٰق تاریخ عام کے بھی عالم تھے،خطیب لکھتے ہیں کہ وہ سیرت، مغازی،ایام ناس،آغاز خلق اورقصص انبیا کے عالم تھے۔[25]

تصانیف[ترمیم]

معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے سیرت کا مواد دو جلدوں میں جمع کیا تھا یعنی کتاب المبتداء جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے ابتدائی حالات تھے جو ہجرت تک ہے۔ جبکہ کتاب المغازی میں ہجرت سے وصال تک کے واقعات تھے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کتاب الخلفاء ابتدا ہی میں ان کی اس بڑی تصنیف کے مقابلے میں دوسرے درجے پر شمار ہونے لگی تھی۔ ابن اسحاق کی کئی تصانیف تھیں جو اب اپنی اصل حالت میں نہیں ملتیں مگر ان کے حصے کچھ اور تصانیف میں ملتے ہیں۔ مثلاً سیرت ابن ہشام، جو ایک مشہور اور قدیم تاریخ کی کتاب ہے اصل میں ابن اسحاق کے شاگرد البقائی نے ترتیب دی اور بعد میں ابن ہشام نے مرتب کی۔ اس کتاب میں ابن اسحاق کے نثری حصے موجود ہیں۔ ابن اسحاق نے عربی شاعری بھی شامل کی تھی کیونکہ اس کو تبدیل کرنا اوزان کی وجہ سے قدرے مشکل ہوتا ہے اور تاریخ کے اصل واقعات محفوظ رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ابن اسحاق کے شاگرد سلامہ ابن فضل الانصاری نے ابن اسحاق کی سیرت کو مرتب کیا تھا۔ یہ کتاب خود تو باپید ہو چکی ہے مگر اس کے حصے مشہور تاریخ طبری میں ملتے ہیں۔ دیگر کتب میں بھی بکھرے ہوئے حصے موجود ہیں مگر وہ کچھ زیادہ نہیں۔[26]

عقیدۂ قدر[ترمیم]

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن اسحٰق قدری تھے،لیکن کچھ روایات اس کے خلاف بھی ہیں، محمد بن عبد اللہ بن نمیر کا بیان ہے کہ ابن اسحٰق قدر سے متہم کیے جاتے تھے،حالانکہ ان کو اس سے دور کا لگاؤ بھی نہ تھا۔[27]

وفات[ترمیم]

ابتدا میں وہ مدینہ میں رہتے تھے پھر یہاں کا قیام ترک کرکے کوفہ،جزیرہ اوررے وغیرہ مختلف مقامات میں پھرتے رہے، آخر میں بغداد چلے گئے تھے اوریہیں بغداد میں سنہ 656ھ ،150ھ، 768ء میں وفات پائی۔ اگرچہ ان کا تعلق تابعین کے دور سے تھا اور بعض ان کو تابعین میں بھی شمار کرتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کے مزار کے ساتھ ہارون رشید کی ماں ’’خیزران‘‘ کے قبرستان میں مدفون ہیں۔[28][29]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12172761p — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. ^ ا ب این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jx20061227001 — بنام: Muhammed Ibn Ishák
  3. ^ ا ب http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12172761p — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  4. دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Ibn-Ishaq — بنام: Ibn Ishaq — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — عنوان : Encyclopædia Britannica
  5. کھولیں ڈیٹا پلیٹ فارم فرانسیسی نیشنل لائبریری سے : حاصل — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12172761p — تاريخ حاصل: 27 اپریل 2017 — لائسنس: فری لائسنس
  6. (تاریخ خطیب بغدادی:1/224)
  7. (ایضا:228)
  8. (تاریخ خطیب بغدادی:1/218، 24)
  9. (ایضاً:219)
  10. (ایضاً)
  11. (ابن خلکان اول:484)
  12. (ایضاً:484)
  13. (تاریخ خطیب بغدادی :1/219)
  14. (تاریخ خطیب بغدادی:1/223)
  15. (ابن خلکان :1/482)
  16. (تہذیب التہذیب:9/45)
  17. (تاریخ خطیب :1/224)
  18. (ایضاً:230)
  19. (تہذیب التہذیب:9/45)
  20. (ایضاً:39)
  21. (ایضاً:39)
  22. (تذکرۃ الحفاظ:1/156)
  23. (تہذیب :9/44)
  24. (تاریخ خطیب :1/219)
  25. (ایضاً:25)
  26. (فہرست ابن ندیم:136،طبع مصر )
  27. (تاریخ خطیب :1/222)
  28. سیرت ابن اسحاق ،مکتبہ نبویہ لاہور
  29. (ابن سعد،ج7،ق2،ص27)