محمد بن حنفیہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(محمد ابن حنفیہ سے رجوع مکرر)
محمد بن حنفیہ
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 637ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 25 فروری 700ء (62–63 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد Hasan ibn Muhammad ibn al-Hanafiyyah  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد علی بن ابی طالب  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ خولہ بنت جعفر  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ امام  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمد بن حنفیہ یا محمد بن علی یا محمد اکبر ابو القاسم (پیدائش: 636ء— وفات: 25 فروری 700ء) علی بن ابی طالب اور خولہ بنت جعفر بن قیس کے فرزند تھے۔اور جلیل القدر تابعین میں سے ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

محمد نام، ابو القاسم کنیت، حضرت علیؓ کے فرزند اورحضرت حسین علیہما السلام کے سوتیلے بھائی تھے، سیدنا علیؓ نے سیدہ فاطمہ زہرا س کے انتقال کے بعد کئی شادیاں کیں ان بیویوں میں ایک خاتون بی بی خولہ المعروف بہ حنفیہ تھیں، بی بی خولہ بنت جعفر بنی حنفیہ کی معزز خاتون تھیں،اور سردار کی بیٹی تھیں محمد انہی کے بطن سے پیدا ہوئے، بی بی خولہ کا نسب نامہ یہ ہے، خولہ بنت جعفر بن قیس بن سلمہ بن ثعلبہ ابن یربوع بن ثعلبہ بن الاول بن حنفیہ بن لحیم بن صعب بن علی بن بکر بن وائل، محمد بن حنفیہ علم تقویٰ کے اعتبار سے کبار تابعین میں تھے۔

پیدائش[ترمیم]

عہد فاروقی کے اختتام کے دو سال پہلے پیدا ہوئے [1] اس لحاظ سے ان کی پیدائش 16 ھجری کے شروع میں ہوئی۔

محمد بن حنفیہ
چھوٹی شاخ بنو قریش
پیدائش: 633ء  وفات: 700ء
مناصب اہل تشیع
ماقبل  کیسانیہ کے چوتھے امام
؟ – 681
مابعد 

جنگ جمل[ترمیم]

ان کے بچپن کے حالات پردہ خفا میں ہیں، جنگ جمل سے ان کا پتہ چلتا ہے، شجاع تھے، جنگ جمل میں جب کہ ان کی عمر مشکل سے پندرہ سولہ سال کی تھی حضرت علیؓ نے ان کو فوج کا نشان مرحمت فرمایا تھا۔ [2]

جنگ کے ابتدائی انتظامات کے بعد حضرت علیؓ نے انھیں آگے بڑھنے کا حکم دیا انھوں نے حکم کی تعمیل کی اوربے محابا علم لے کر آگے بڑھے، اہل بصرہ نیزے اور تلواریں سنبھال کر ان کی طرف لپکے، ابھی وہ بالکل کم سن تھے، اس لیے زیادہ بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی حضرت علیؓ نے ان کے ہاتھوں سے علم لے کر خود حملہ کیا، دوسرے سرفروشوں نے بھی آپ کا ساتھ دیا اورجنگ شروع ہو گئی، آغاز جنگ کے بعد حضرت علیؓ نے پھر محمد بن حنفیہ کو علم دے دیا۔ [3]

یہ واقعہ خود محمد بن حنیفہ کی زبانی بھی منقول ہے، ان کا بیان ہے کہ جنگِ جمل میں ہماری فوجیں صف آرا ہوئیں تو والد نے علم مجھے مرحمت فرمایا، پھر جب دونوں فوجیں بالمقابل ہوئیں اورایک دوسرے کی طرف بڑھیں اور والد نے مجھ میں پسپائی کے آثار دیکھے تو علم میرے ہاتھ سے لے کر جنگ شروع کردی، میں نے بڑھ کر ایک بصری پر حملہ کیا جب وہ زد پر آگیا تو پکارا کہ میں ابی طالب کے مذہب پر ہوں، یہ سُن کر میں رک گیا، ان لوگوں کے شکست کھانے کے بعد والد نے منادی کرادی کہ کوئی شخص زخمیوں کو پامال نہ کرے، میدان چھوڑ دینے والوں کا تعاقب نہ کیا جائے، اختتام جنگ کے بعد وہ گھوڑے اوراسلحہ جو دشمنوں نے جنگ میں استعمال کیے تھے والد نے بطور مال غنیمت کے تقسیم کر دیے۔

جنگ صفین[ترمیم]

جنگ جمل کے بعد ہی جنگ صفین کے مقدمات شروع ہو گئے تھے، محمد بن حنفیہ اس جنگ میں شروع سے آخر تک اپنے والد بزرگوار کے ساتھ رہے؛چنانچہ صفین کے ابتدائی حالات ان سے اس طرح منقول ہیں کہ میرے والد، معاویہ اوراہل شام سے جنگ کرنے کا ارادہ کرتے تھے اور جنگی علم تیار کرکے قسم کھاتے کہ جب تک یہ میدان جنگ میں نہ آئے گا اس وقت تک اس کو نہ کھولوں گے، لیکن ان کے آدمی ان کی مخالفت کرتے تھے، ان کی رائیں مختلف ہوجاتی تھیں اور جنگ سے پہلو تہی کرنے لگتے، ان کی مخالفت دیکھ کر والد علم کھول دیتے اور قسم کا کفارہ ادا کرتے، اس طریقہ سے انھوں نے چار مرتبہ، علم تیار کیا اور چار مرتبہ کھولا مجھے یہا بات پسند نہ آئی میں نے مسور بن مخرمہ سے کہا کہ آپ والد سے کہتے نہیں کہ ان حالات میں وہ کہاں کا قصد کر رہے ہیں، خدا کی قسم مجھے ان لوگوں سے کسی فائدہ کی امید نہیں نظر آتی، مسور نے کہا انھوں نے جس کام کا ارادہ کر لیا ہے وہ یقینی اورطے شدہ ہے میں نے ان سے گفتگو کی تھی وہ جانے کا تہیہ کرچکے ہیں۔ [4]

بہرحال جب جنگ کسی طرح نہ ٹلی اور حضرت علیؓ امیر معاویہ سے لڑنے کے لیے صفین روانہ ہوئے تو محمد بھی ان کے ہمرکاب تھے اور حضرت علیؓ نے جنگ جمل کی طرح صفین میں بھی انھیں علم مرحمت فرمایا۔ جنگ صفین کا سلسلہ مدتوں قائم رہا تھا، ابتدا میں تو عرصہ تک متحدہ اورفیصلہ کن جنگ کی بجائے فریقین کے ایک ایک دو دو دستے میدان میں آتے تھے، ایک دن محمد بن حنفیہ ایک دستے کر لے کر نکلے، شامی فوج سے عبید اللہ بن عمران کے مقابلہ میں آئے اور محمد بن حنفیہ کو للکارا، انھوں نے کہا گھوڑے سے اترو، اس للکار پر دونوں گھوڑے سے اتر پڑے حضرت علیؓ نے دیکھا تو گھوڑا بڑھا کر ابن حنفیہ کے پاس پہنچے اورگھوڑا انھیں دے کر خود عبیداللہ کے مقابلہ کے لیے بڑھے، وہ انھیں دیکھ کر ہٹ گئے اورکہا میں آپ سے نہیں ؛بلکہ آپ کے لڑکے سے مقابلہ کرنا چاہتا تھا، عبیداللہ کے چلے جانے کے بعد ابن حنفیہ نے حضرت علیؓ سے کہا کہ اگر آپ نے مجھے مقابلہ کرنے دیا ہوتا تو مجھے امید تھی کہ میں ان کو قتل کردیتا، حضرت علیؓ نے فرمایا امید تو مجھے بھی یہی تھی لیکن خطرہ سے خالی نہ تھا، مجھے خوف تھا کہ تمھاری جان کو کوئی صدمہ نہ پہنچ جائے، اس کے بعد فریقین کے سوار دوپہر تک لڑتے رہے لیکن کوئی ایک دوسرے کو مغلوب نہ کرسکا۔

ایک موقع پر حضرت علیؓ نے ان کو شامیوں کے ایک دستہ کی طرف بڑھنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ ان کے سینوں میں نیزے پیوست کرنے کے بعد ہاتھ روک لینا اورمیرے دوسرے حکم کا انتظار کرنا، انھوں نے اس حکم کی تعمیل کی حضرت علیؓ نے ایک اور دستہ ان کی مدد کے لیے بھیجا، اس نے ابن حنفیہ کی قیادت میں شامی دستے کو مار کر اس کی جگہ سے ہٹادیا۔ [5] جنگ صفین میں بہت سے نازک مواقع پر ابن حنفیہ اپنے والد بزرگوار کی حفاظت میں اپنے برادرانِ محترم (حسن وحسین) کے دوش بدوش سینہ سپر ہوئے؛چنانچہ جب حضرت علیؓ پر ہر طرف سے تیروں کی بارش ہورہی تھی اور تیر آپ کے کانوں اور شانے کے پاس سے اڑتے ہوئے گذر جاتے تھے، محمد بن حنفیہ اور حسینؓ ان تیروں کو اپنے جسم سے روکتے تھے۔ [6]

ابن حنفیہ کے متعلق حضرت علیؓ کی آخری وصیت[ترمیم]

جنگ صفین کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد حضرت علیؓ کی شہادت کا حادثہ پیش آگیا، دم آخر آپ نے جب حضرت حسینؓ کو وصیتیں فرمائیں تو محمد بن حنفیہ سے ارشاد ہوا کہ میں نے تمھارے بھائیوں کو جو وصیتیں کی ہیں وہی تمھارے لیے بھی ہیں، میرے بعد تم دونوں بھائیوں کو جو وصیتیں کی ہیں وہیں کرنا ان کے کاموں کو سنوارنا، ان کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہ کرنا، پھر حسین ؓ سے فرمایا کہ ان کے ( محمد بن حنفیہ) بارہ میں میری یہ وصیت ہے کہ وہ تمھارے حقیقی بھائی کے برابر اور تمھارے باپ کے لڑکے ہیں، اس کو ہمیشہ یاد رکھنا کہ تمھارے باپ ان سے محبت کرتے تھے۔ [7]

حضرت حسنؓ کی وصیت[ترمیم]

حضرت حسینؓ نے اس وصیت کو پورے طور پر ملحوظ رکھا اور کسی موقع پر بھی ابن حنفیہ کو نظر انداز نہ ہونے دیا؛چنانچہ جب حضرت حسنؓ کا وقت آخر ہوا تو حضرت حسینؓ سے فرمایا کہ میں تم کو تمھارے بھائی محمد کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں، وہ دونوں آنکھوں کے درمیانی چمڑے کی طرح عزیز ہیں پھر محمد بن حنفیہ سے فرمایا کہ تم کو بھی یہ وصیت کرتا ہوں کہ ضرورت کے وقت حسینؓ کے گردجمع ہوکر ان کی مدد کرنا۔ [8]

یزید کے مطالبہ بیعت پر حضرت حسین کو مشورہ[ترمیم]

حضرت حسن کے بعد محمد بن حنفیہ حضرت حسینؓ کو اپنا بڑا بھائی سمجھتے رہے اوران کی مشکلات میں ایک وفادار بھائی کی حیثیت سے ان کے مخلص وغمگسار رہے، امیر معاویہ کی وفات کے بعد جب یزید کے حکم پر ولید حاکم مدینہ نے حضرت حسینؓ سے بیعت کا مطالبہ کیا اور اس کے ردوقبول کے بارہ میں کشمکش میں مبتلا ہوئے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مدینہ چھوڑدینا چاہاتو اس وقت محمد حنفیہ نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ بھائی آپ مجھ کوسب سے زیادہ محبوب و عزیز ہیں۔

دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس کا میں آپ سے زیادہ خیر خواہ ہوں، میرا مشورہ یہ ہے کہ اس موقع پر جہاں تک آپ سے ہو سکے یزید کی بیعت اورکسی خالص شہر میں جانے کا ارادہ سے بالکل الگ رہئے اور اپنے دُعاۃ بھیج کر لوگوں کو اپنی خلافت کی دعوت دیجئے، اگر وہ بیعت کر لیں تو ہمارے لیے موجب شکر ہوگا اوراگر آپ کے علاوہ کسی اورشخص پر مسلمانوں کا اتفاق ہوجائے تو اس سے آپ کے مذہب اورآپ کی عقل میں کوئی کمی نہ آئے گی اور آپ کے فضائل پر اس کا کوئی اثر نہ پڑے گا اور اگر آپ کسی متعین شہر اورمتعین مقام پر جائیں گے تو مجھے ڈر ہے کہ وہاں کے لوگوں میں اختلاف ہوجائے گا، ان میں ایک جماعت تو آپ کا ساتھ دے گی ؛لیکن ایک جماعت آپ کے خلاف جائے گی، پھر یہ دونوں جماعتیں باہم لڑیں گی اور درمیان میں آپ کی ذات ان کے نیزوں کا نشانہ بنے گی، اگر یہ صورت حال پیدا ہو گئی تو نسب اورذاتی اوصاف کے اعتبار سے اس امت کا معزز اوربلند ترین شخص سب سے زیادہ ذلیل اور پست ہوجائے گا اوراس کا خون سب سے زیادہ ارزاں ہوگا

یہ مشورہ سن کر حضرت حسین ؓ نے فرمایا پھر کہاں جاؤں، ابن حنفیہ نے کہا مکہ جائیے، اگر وہاں آپ کواطمینان سے بیٹھنے کا موقع مل جائے تو خود ہی کوئی سبیل نکل آئے گی اور اگر حالات خلاف ہوئے توریگستان اورپہاڑی علاقوں میں نکل جایے گا اور جب تک ملک کوئی فیصلہ نہ کرلے اس وقت تک برابر ایک شہر سے دوسرے شہر میں منتقل ہوتے رہیے اس دوران میں آپ کی کوئی نہ کوئی رائے قائم ہوجائے گی اورآپ کسی نہ کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں گے ؛کیونکہ جب حالات کا سامنا ہوجاتا ہے، اس وقت آپ کی رائے نہایت صائب اور آپ کا عمل نہایت محتاط ہوجاتا ہے، یہ باتیں سُن کر حضرت حسینؓ نے فرمایا تم نے بہت محبت آمیز نصیحت کی، مجھ کو امید ہے کہ تمھاری رائے صائب ہوگی۔ [9]

حضرت حسینؓ نے ایک حد تک ان کے مشورہ پر عمل بھی کیا؛چنانچہ مدینہ سے مکہ چلے گئے، پھر کوفیوں کی پیہم دعوت پر چند دنوں کے بعد کوفہ روانہ ہو گئے، لیکن تقدیر الہیٰ کچھ اورہی تھی، اس لیے آپ کی شہادت کا حادثہ عظمیٰ پیش آگیا، محمد بن حنفیہ اس حادثہ میں آپ کے ساتھ نہ تھے۔

مختار بن ابی عبید ثقفی کا خروج اورابن حنفیہ کی سرپرستی[ترمیم]

حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے بنی امیہ کے مقابلہ میں خلافت کا دعویٰ کیا اور اس سلسلہ میں برسوں دونوں میں جنگ جاری رہی، عین اسی زمانہ میں بنی ثقیف کا ایک نہایت معمولی اورگمنام شخص مختار بن ابی عبید جو کسی وقت اموی عمال کے ہاتھوں سزایاب ہو چکا تھا، وجاہت دنیاوی کی طمع میں ابن زبیرؓ کے ساتھ ہو گیا اور چند دنوں تک ان کے ساتھ رہا؛ لیکن جب اس کو یہاں امید پوری ہوتی ہوئی نظر نہ آئی، تو اس نے ان سے الگ ہوکر قسمت آزمائی کا ارادہ کیا، لیکن اس کے جیسے فرومایہ شخص کے لیے بغیر کسی امداد وسہارے کے اپنے ارادہ میں کامیاب ہونا مشکل تھا، اس لیے اس نے حضرت حسینؓ کے خون بے گناہی کے انتقام کو آڑ بنایا؛چونکہ یہ حادثہ ابھی تازہ تھا، مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت اس سے متاثرتھی، اس لیے بہت سے لوگ اس کے دام میں آگئے، اس دعوت کے ساتھ ہی اس نے حضرت امام حسینؓ کے جانشین امام زین العابدینؓ کے پاس نذرانہ بھیج کر ان سے سرپرستی کی درخواست کی کہ آپ ہمارے امام ہیں، ہم سے بیعت لے کر ہماری سرپرستی قبول فرمائیے، لیکن امام موصوف اس کی حقیقت سے آگاہ تھے، اس لیے اس کے فریب میں نہ آئے اور نہایت حقارت سے اس کی درخواست ٹھکرادی اور مسجد نبویﷺ میں علی الاعلان اس کے فسق وفجور کا پردہ چاک کرکے فرمایا کہ یہ شخص محض لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے اہل بیت کو آڑ بنانا چاہتا ہے، حقیقت میں اس کو اس سے کوئی تعلق نہیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب مطالبہ بیعت کے سلسلہ میں ابن زبیرؓ اورمحمد بن حنفیہ میں ناخوشگواری پیدا ہو چکی تھی، مختار نے اس سے فائدہ اٹھایا اور امام زین العابدین سے مایوس ہوکر ابن حنفیہ کے پاس پہنچا، امام زین العابدین کو معلوم ہوا تو انھوں نے اس کو بھی روکا اورفرمایا کہ مختار اہل بیت کی محبت کا دعویٰ محض لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے کرتا ہے، حقیقت میں اس کو اس سے کوئی تعلق نہیں ؛بلکہ وہ ان کا دشمن ہے، میری طرح آپ کو بھی اس کا پردہ فاش کرنا چاہیے، محمد بن حنفیہ نے ابن عباسؓ سے اس کا تذکرہ کیا ان کو ابن زبیرؓ کی جانب سے بڑا خطرہ تھا اس لیے انھوں نے ابن حنفیہ سے کہا کہ اس معاملہ میں تم زین العابدین کا کہنا نہ مانو۔ [10]

محمد بن حنیفہ بھی مختار کو اچھا آدمی نہ سمجھتے تھے اور انھیں اس پر مطلق اعتماد نہ تھا لیکن محض ابن زبیرؓ کے مقابلہ میں اس کی امداد واعانت حاصل کرنے کے لیے (ابن زبیرؓ محمد بن حنفیہ کو اپنی بیعت کے لیے مجبور کر رہے تھے) اس کی سرپرستی قبول کرلی۔

محبانِ اہل بیت کا اصل مرکز عراق تھا، اس لیے محمد بن حنفیہ کو سرپرست بنانے کے بعد مختار ان سے اجازت لے کر عراق روانہ ہو گیا، لیکن ؛چونکہ ابن حنفیہ کو اس پر اعتماد نہ تھا اوروہ اس کے متعلق اچھی رائے نہ رکھتے تھے اس لیے انھوں نے اپنا ایک آدمی عبد اللہ بن کامل ہمدانی اس کے ساتھ کر دیا اوراس کو خفیہ ہدایت کردی کہ مختار زیادہ لائق اعتماد نہیں ہے اس سے بچتے رہنا، اب تک ابن زبیرؓ کو اس ساز باز کا علم نہ ہوا تھا اور وہ بدستور مختار کو اپنا خیر خواہ سمجھ رہے تھے، اس نے جاکر ان سے کہا کہ میرا قیام مکہ سے زیادہ آپ کے لیے عراق میں مفید ہوگا، اس لیے میں وہاں جاتا ہوں، ابن زبیرؓ نے بخوشی اجازت دے دی اورمختار، عبد اللہ بن کامل کے ساتھ عراق روانہ ہو گیا، مقام غدیب میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی، اس سے مختار نے پوچھا عراق میں لوگوں کا کیا حال ہے، اس نے کہا وہ بغیر ملاح کی کشتی کی طرح جھکو لے لے رہے ہیں، مختار نے کہا میں ان کا ملاح بنوں گا۔ [11]

عراق میں ورود اور ابن حنفیہ کی دعوت[ترمیم]

محبانِ اہل بیت کی سب سے بڑی تعداد کوفہ میں تھی، اس لیے مختار سیدھا کوفہ پہنچا اوراپنے کو محمد بن حنفیہ کا داعی ظاہر کرکے ان کے زہد وورع کی تبلیغ اورابن زبیرؓ کی مذمت اوران کی تشہیر شروع کردی کہ ابن زبیرؓ درحقیقت محمد بن حنفیہ کے کارکن تھے اورابتداء میں وہ ان ہی کے لیے کوشش کرتے تھے، لیکن پھر خود اس پر غاصبانہ قابض ہو گئے، اس لیے ابن حنفیہ نے مجھے اپنا داعی بنا کر بھیجا ہے، ان کے دست وقلم کی لکھی ہوئی سند بھی دیتا تھا، غرض اس چالاکی سے بہت سے محبانِ اہل بیت اس کے فریب میں آگئے اورایک اچھی خاصی جماعت نے اس کے ہاتھوں پر بیعت کرلی، لیکن کچھ لوگوں کو شک ہوا وہ ابن حنفیہ کے پاس مکہ پہنچے اور ان سے مختار کے بیانات کی تصدیق چاہی، یہ نہ صاف اقرار ہی کرسکتے تھے اور نہ انکار، اقرار اس لیے نہیں کرسکتے تھے کہ مختار کے بیانات بہت کچھ مبالغہ آمیز بلکہ جھوٹ تھے لیکن اس حد تک صحیح تھا کہ ابن حنفیہ نے اس کی سر پرستی قبول کرلی تھی ؛لیکن ان کو اس کی صداقت پر خود اعتماد نہ تھا، اس لیے جواب دیا کہ، تم لوگ خود دیکھتے ہوکہ ہم لوگ (اہل بیت) صابر وشاکر بیٹھے ہیں، میں کسی مسلمان کا خون گرا کر دنیاوی حکومت نہیں چاہتا ؛لیکن اسے ہم پسند کرتے ہیں کہ اللہ نے جس بندے کے ذریعہ سے چاہا ہماری مدد کی البتہ تم لوگ کذابین سے ڈرتے رہو اور اپنی جان اوراپنے دین کی حفاظت کرو، یہ سُن کر یہ لوگ عراق لوٹ گئے، کوفہ میں ابراہیم بن اشترنخعی بڑے بااثر محبانِ اہل بیت میں تھے، مختار نے محمد بن حنفیہ کی جانب سے ان کو ایک فرضی خط دے کر انھیں اپنا حامی ومددگار بنالیا۔ [12]

کوفہ پر قبضہ اورقاتلین حسین کا قتل[ترمیم]

ابراہیم نخعی کی حمایت سے مختار کی قوت بہت بڑھ گئی اوروہ علانیہ میدان میں آگیا، ابن زبیرؒ کے پولیس افسر یاس بن نضار نے روک ٹوک شروع کی تو ابراہیم بن اشتر نے اسے قتل کر دیا، عبد اللہ بن مطیع کو جو ابن زبیر کی جانب سے کوفہ کے والی تھے، خبر ہوئی تو انھوں نے مختار کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے اورمختار اورابراہیم دونوں نے اس کو نہایت فاش شکست دی، ابن مطیع نے ان سے اپنی جان بخشی کرا کے کوفہ چھوڑ دیا اوریہاں مختار کی حکومت قائم ہو گئی۔ [13]

کوفہ پر قابض ہونے کے بعد مختار کی قوت بڑھ گئی، اس وقت اسے اپنی کارگزاری دکھانے کا موقع ملا؛چنانچہ اس نے حضرت حسینؓ کے قاتلوں اوران کے معاونوں کو قتل کرنا شروع کیا اورچند دنوں کے اندر ان سب کا صفایا کر دیا، ابن زیاد کا سر قلم کرکے محمد بن حنفیہ اورامام زین العابدین کی خدمت میں بھیجا، مختار کے مکروفریب کے باوجود اس کی یہ کار گزاری ایسی تھی کہ یہ بزرگوار اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کی زبان نے بے ساختہ اس کے خدمات کا اعتراف کیا۔ [14]

ابن حنفیہ کی قید ورہائی[ترمیم]

ابن زبیرؓ نے ابتدا میں حنفیہ پر اپنی بیعت کے لیے زیادہ زورڈالا تھا، مگرجب کوفہ وغیرہ پر مختار کا قبضہ ہو گیا اوراس کی قوت میں اضافہ کے ساتھ عراق میں ابن حنفیہ کے بیعت کرنے والوں کا دائرہ زیادہ وسیع ہو گیا، تو ابن زبیرؓ کو ان کی جانب سے خطرات بڑھ گئے، اس وقت انھوں نے ابن حنفیہ اوران کے ساتھ ابن عباسؓ پر بھی دباؤ ڈالنا شروع کیا، لیکن یہ لوگ بیعت کے لیے آمادہ نہ ہوئے آخر میں انھیں اور ان کے تمام اہل خاندان کو مکہ کی ایک گھاٹی میں نظر بند کر دیا، ایک روایت یہ ہے کہ ابن حنفیہ کو چاہ زمزم کی چار دیواری میں قید کرکے لکڑیوں کا انبار لگوادیا اوردھمکی دی کہ اگر وہ بیعت نہ کریں گے تو انھیں پھونک دیا جائے گا، یہ نازک صورت پیدا ہونے کے بعد ابن حنفیہ نے ابن عباسؓ سے پوچھ بھیجا کہ اب کیا رائے ہے، انھوں نے کہلا بھیجا کہ ہرگز ہرگز اطاعت نہ کرنا، اپنی بات پر قائم رہنا، لیکن مکہ میں رہتے ہوئے انکار پر قائم رہنا مشکل تھا، اس لیے ابن حنفیہ نے مکہ چھوڑ کر کوفہ چلے جانے کا ارادہ کیا، مختار کو اس ارادہ کی اطلاع ہوئی تو اسے بہت گراں گذرا کہ ابن حنفیہ کے عراق پہنچ جانے کے بعد اس کی ہستی ختم ہوئی جاتی تھی ؛کیونکہ وہ محض آپ کا نام استعمال کرنا چاہتا تھا؛چنانچہ اس نے ان کو روکنے کے لیے اہل کوفہ سے کہنا شروع کیا کہ مہدی کی نشانی یہ ہے کہ جب وہ تمھارے یہاں آئیں گے، تو ایک شخص بازار میں ان پروار کرے گا، لیکن اس سے مہدی کو کوئی صدمہ نہیں پہنچے گا، ابن حنفیہ کو اپنے متعلق اس کرامت کی خبر ہوئی تو انھوں نے کوفہ جانے کا عزم ترک کر دیا اورابو الطفیل عامر بن واثلہ کی زبانی اپنے عراقی متبعین کے پاس اپنے حالات کہلا بھیجے، عامر نے وہاں پہنچ کر تفصیلی حالات سنائے، یہ حالات سُن کر مختار نے ابو عبد اللہ دجلی کو چار ہزار فوج کے ساتھ محمد بن حنفیہ کو چھڑانے کے لیے بھیجا اورہدایت کردی کہ اگر بنی ہاشم زندہ مل جائیں تو ان کی ہر قسم کی مدد اوران کے احکام کی تعمیل کرنا اوراگر قتل کیے جاچکے ہوں تو جس طرح ممکن ہو آل زبیرؓ کا خاتمہ کردینا۔

ابن زبیرؓ میں مختار کے فرستادہ دستہ کے مقابلہ کی طاقت نہ تھی، اس لیے ایک بیان یہ ہے کہ اس کے ورود مکہ کے وقت وہ دارالندوہ چلے گئے اوردوسری روایت یہ ہے کہ انھوں نے خانہ کعبہ میں پناہ لی اور عراقی دستہ نے مکہ پہنچ کر ابن حنفیہ اورابن عباسؓ کو لکڑیوں کے انبار سے نکالا اس دوران میں ابن زبیرؓ کے آدمی پہنچ گئے، لیکن جنگ کی نوبت نہیں آئی، عراقیوں نے ابن عباسؓ سے کہا اگر اجازت ملے تو ہم ابن زبیرؓ کا خاتمہ کرکے لوگوں کو ان کی مصیبت سے نجات دلادیں، لیکن ابن عباسؓ نے کہا نہیں اس شہر کو خدانے حرمت دی ہے، صرف نبی ﷺ کے خاطر چند ساعتوں کے لیے اس کی حرمت اٹھ گئی تھی، ورنہ نہ اس سے پہلے کسی کے لیے اٹھی تھی نہ اس کے بعد اٹھے گی، بس اتنا کافی ہے کہ ہمیں بچا کر نکال لے چلو؛چنانچہ عراقی ان لوگوں کو قید سے نکال کر منیٰ لے آئے، چند دنوں یہاں ٹھہرنے کے بعد یہ لوگ ابن زبیرؓ کے جبر سے بچنے کے لیے طائف چلے گئے۔[15]

امارت حج[ترمیم]

یہ طوائف الملوکی کا دور تھا، متعدد اشخاص خلافت کے مدعی تھے؛چنانچہ اس سال کا حج چار امرا کے زیر امارت ہوا، محمد بن حنفیہ اہل طائف کے ساتھ، ابن زبیرؓ اپنے متبعین کے ساتھ نجدہ بن عامر حروری خوارج کے ساتھ، اوربنی امیہ اہل شام کے ساتھ حج کے لیے آئے، ایک ساتھ ان چاروں کا اجتماع خطرہ سے خالی نہ تھا اور ارض حرم میں خوں ریزی کا اندیشہ تھا اس لیے محمد بن جبیر نے چاروں جتھوں کے امرا کے پاس جاکر انھیں سمجھایا سب سے پہلے ابن حنفیہ کے پاس گئے اور ان سے کہا ابو القاسم خدا کا خوف کرو ہم لوگ مشعر حرام اوربلد حرام میں ہیں، حجاج خانہ کعبہ میں خدا کے وفود اوراس کے مہمان ہیں، اس لیے ان کا حج نہ خراب کرو، انھوں نے کہا خدا کی قسم میں خود یہ نہیں چاہتا اورمیں کسی مسلمان کو بیت اللہ سے نہ روکوں گا اورنہ میری جماعت کا کوئی حاجی جائے گامیں تو اپنی مدافعت کرتا ہوں اور صرف اس صورت میں خلافت کا خواہاں ہوں جب دو آدمیوں کو بھی میری خلافت سے اختلاف نہ ہو، میری طرف سے پورا اطمینان رکھیے، میرے بجائے ابن زبیرؓ اورنجدہ حروری سے جاکر گفتگو کیجئے، ان کا جواب سننے کے بعد ابن جبیرؓ ابن زبیرؓ کے پاس گئے اور ان سے بھی وہی کہا جو ابن حنفیہ سے کہہ چکے تھے، انھوں نے جواب دیا، میری خلافت پر مسلمانوں کا اجماع ہو گیا ہے سب نے میری بیعت کرلی ہے، صرف یہ لوگ (بنی ہاشم)میری مخالفت کر رہے ہیں، ابن جبیر نے کہا جو کچھ بھی ہو ہر حال میں اس وقت آپ کے لیے ہاتھ روکے رکھنا مناسب ہے، انھوں نے کہا بہتر ہے، میں اس پر عمل کروں گا، ان کے بعد وہ نجد ہ حروری کے پاس پہنچے، اس نے کہا میں اپنی جانب سے ابتدا نہ کروں گا، لیکن جو شخص ہم لوگوں سے لڑے گا ہم بھی اس کا مقابلہ کریں گے، اس کے بعد ابن جبیر بنی امیہ کے پاس گئے، انھوں نے بھی یہی جواب دیا کہ ہم تو اپنے علم کے پاس ہیں، جب تک خود کوئی ہم سے نہ لڑے گا، اس وقت تک ہم ابتدا نہ کریں گے، ابن جبیر کا بیان ہے کہ ان چاروں جماعتوں کے پرچموں میں سب سے زیادہ پر امن وسکون پرچم ابن حنفیہ کا تھا[16] اس طرح ابن جبیر کی کوششوں سے ایک بڑا خطرہ ٹل گیا۔

مختار کا خاتمہ اورابن حنفیہ کے پاس ابن زبیرؓ کا پیام[ترمیم]

اسی سنہ یعنی 68 میں ابن زبیرؓ کے بھائی مصعب نے بڑی معرکہ آرائیوں کے بعد مختار کا خاتمہ کر دیا، ان تمام معرکوں میں ابن حنفیہ نے عملاً کوئی حصہ نہیں لیا اور نہ ان کو اس سے کسی قسم کا تعلق تھا اس لیے ان کی تفصیلات کی ضرورت نہیں۔ مختار کے خاتمہ کے بعد ابن حنفیہ کا کوئی سہارا باقی نہ رہ گیا اوروہ بے یار ومددگار ہو گئے اس لیے ابن زبیر نے پھر ان سے بیعت کا مطالبہ شروع کیا اوراپنے بھائی عروہ کو ان کے پاس بھیجا، انھوں نے جاکر ان کی جانب سے ابن حنفیہ کو یہ پیام دیا کہ میں تم کو بغیر بیعت لیے ہوئے چھوڑنے والا نہیں ہوں، اگر بیعت نہ کرو گے تو پھر قید کردوں گا جس کذاب کی امداد واعانت کا تم کو سہارا تھا، اس کو خدا نے قتل کر دیا اور اب عرب وعراق کا میری خلافت پر اتفاق ہو گیا ہے

اس لیے تم بھی میری بیعت کرلو، ورنہ جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ، ابن حنفیہ نے اس تہدیدی پیام کا یہ جواب دیا کہ تمھارے بھائی (ابن زبیرؓ) قطع رحم اوراستحقافِ حق میں کتنے تیز اورخدا کی عقوبت سے کتنے غافل ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے، ابھی تھوڑے دنوں پیشتر (جب تک مختاران) کا حامی تھا وہ مختار اوراس کی روش کے مجھ سے زیادہ مداح ومعترف تھے، خدا کی قسم نہ مختار کو میں نے اپنا داعی بنایا تھا اورنہ مددگار، ابھی کچھ ہی دنوں کا ذکر ہے کہ وہ مجھ سے زیادہ خود ان کی طرف مائل تھا اوران کے ساتھ تھا، اس لیے اگر وہ کذاب تھا تو انھوں نے مدتوں تک اس کذاب کو اپنے ساتھ رکھا اور اگر وہ کذاب نہیں تھا تو ابن زبیرؓ مجھ سے زیادہ اس سے واقف ہیں میں ان کا (ابن زبیرؓ) کا مخالف نہیں ہوں اگر مخالف ہوتا تو ان کے قریب نہ رہتا، اورجو لوگ مجھے بلاتے ہیں ان کے یہاں چلا جاتا، لیکن میں نے کسی کی دعوت قبول نہیں کی

تمھارے بھائی کا ایک اورحریف عبد الملک ہے، جو تمھارے بھائی ہی کی طرح دنیا کا طالب ہے، اس نے اپنی قوتوں سے تمھارے بھائی کی گردن پکڑ لی ہے، میرے نزدیک عبد الملک کا جوار تمھارے بھائی کے جوار سے میرے لیے زیادہ بہتر ہے، عبد الملک نے مجھے خط لکھ کر اپنے یہاں آنے کی دعوت دی ہے، یہ سُن کر عروہ نے کہا پھر اس کے پاس جانے سے کون امر مانع ہے، ابن حنفیہ نے جواب دیا میں اس بارہ میں عنقریب خدا سے استخارہ کروں گا یہ صورت (یعنی میرا یہاں سے چلا جانا) تمھارے بھائی کے لیے زیادہ پسندیدہ اورخوش آیندہ ہوگا، عروہ نے کہا میں بھائی سے اس کا تذکرہ کروں گا، اس گفتگو کے بعد عروہ لوٹ گئے، ابن حنفیہ کے بعض آدمی عروہ کو قتل کرنا چاہتے تھے، لیکن انھوں نے ان کو روک دیا تھا، عروہ کے واپس جانے کے بعد ان لوگوں کو بڑا افسوس ہوا، انھوں نے ابن حنفیہ سے کہا اگر آپ نے ہمارا کہنا مانا ہوتا تو ہم ان کی گردن اڑادیئے ہوتے، ابن خفیہ نے کہا آخر کس قصور میں وہ تو محض اپنے بھائی کے قاصد بن کر آئے تھے اورہمارے جوار میں تھے، ہمارے اوران کے درمیان میں گفتگو ہوئی گفتگو کے بعد ہم نے ان کو ان کے بھائی کے پاس واپس کر دیا، تم لوگ جو کچھ کہتے ہو وہ فریب ہے، اورفریب میں کوئی بھلائی نہیں ہے اگر میں تمھارے کہنے پر عمل کرتا تو مکہ میں خوں ریزی ہوتی اوراس بارے میں تم لوگ میرے خیالات سے واقف ہو اگر سارے مسلمان میری خلافت پر متفق ہوجائیں اورصرف ایک شخص کو اختلاف باقی رہے تو بھی میں اس ایک شخص سے لڑنا پسند نہ کروں گا۔

عروہ نے واپس جاکر اپنے بھائی کو ابن حنفیہ کا جواب سنایا اورانہیں مشورہ دیا کہ میری رائے میں آپ ان سے کوئی تعرض نہ کیجئے، ان کو آزاد کردیجئے، تاکہ وہ ہمارے یہاں سے نکل جائیں اور ہم سے دور ہوجائیں، عبد الملک بغیر ان سے بیعت لیے ہوئے کبھی ان کو شام میں ٹکنے نہ دے گا اوروہ جب تک عبداملک پر اجماع نہ ہوجائے کبھی اس کی بیعت نہ کریں گے، ایسی صورت میں عبد الملک یا انھیں قتل کر دے گا یا قید کرلے گا اس طرح آپ کا کام اس کے ہاتھوں میں انجام پاجائے گا اور آپ کا دامن بالکل محفوظ رہے گا، ابن زبیرؓ نے عروہ کایہ مشورہ قبول کر لیا اور پھر محمد بن حنفیہ سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ [17]

عبد الملک کی دعوت اورابن حنفیہ کا سفر شام اورواپسی[ترمیم]

عبد الملک ابن زبیرؓ کے مقابلہ میں ابن حنفیہ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے عرصہ سے ان کو اپنے یہاں شام چلے آنے کی دعوت دے رہا تھا، محمد بن حنفیہ کے یہاں سے عروہ کی واپسی کے بعد پھر ابن حنفیہ کے پاس عبد الملک کابلاوے کا خط پہنچا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ابن زبیر بیعت لینے کے لیے آپ کو تنگ اورپاس عزیز داری کو چھوڑ کر آپ کے حقوق پامال کر رہے ہیں، آپ نے جو کچھ کیا وہ اپنی جان اوراپنے مذہب کو ملحوظ رکھ کر کیا ہے، شام کا ملک آپ کے لیے موجود ہے یہاں آپ جس جگہ چاہیں قیام فرمائیں، ہم لوگ آپ کی بزرگذاشت اورعزیز داری کا پورا لحاظ رکھیں گے اور آپ کے حقوق ادا کریں گے

یہ خط پاکر ابن حنفیہ شام روانہ ہو گئے اورشب سے پہلے ایلہ میں اترے، یہاں کے باشندوں نے ان کا اوران کے ہمراہیوں کا بڑے جوش سے استقبال کیا اور ابن حنفیہ کے ساتھ بڑی عقیدت ظاہر کی وہ نہایت عزت وتوقیر کے ساتھ یہاں ٹھہر گئے اور دوہی چار دن میں امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کی تبلیغ واشاعت شروع کردی کہ ان کے لواحقین پر اوران کی نگاہوں کے سامنے کسی پر ظلم نہ کیا جائے، عبد الملک کو محمد بن حنفیہ کی پزیرائی اورمقبولیت کی خبر ہوئی تو اس پر سخت گراں گذرا، اوراس نے اپنے اہل الرائے مشیر کا رقبیصہ بن ذویب اورروع بن زنباع جذامی سے اس کا تذکرہ کیا، ان دونوں نے کہا کہ بغیر بیعت لیے ہوئے، انھیں اتنے قریب اس طرح آزادنہ چھوڑنا چاہیے یا تو وہ بیعت کریں ورنہ حجاز واپس کردیجئے، اس مشورہ کے بعد عبد الملک نے ابن حنفیہ کو پھر خط لکھا کہ آپ ہمارے ملک میں آکر ٹھہرے ہیں ہم میں اورابن زبیرؓ میں جنگ چھڑی ہوئی ہے

آپ کا ایک خاص مرتبہ اور اعزاز ہے اس لیے میرے ملک میں بغیر میری بیعت کے آپ کا قیام میرے مصالح کے خلاف ہے اگر آپ بیعت کے لیے تیار ہیں تو آپ کی خدمت میں سو کشتیاں مع ساز وسامان کے جو ابھی بحر قلزم سے آئی ہیں اوربیس لاکھ درہم نذر کیے جاتے ہیں، ان میں سے پانچ لاکھ فوراً پیش کر دیے جائیں گے اور پندرہ لاکھ بعد میں بھجوادیئے جائیں گے، اس نذرانہ کے علاوہ آپ جس قدر فرمائیں گے آپ کی اولاد، آپ کے اعزہ اورآپ کے موالی اورآپ کے ساتھیوں کا وظیفہ مقرر کر دیا جائے گا اوراگر بیعت نہیں کرتے تو فوراً میرا ملک چھوڑدیجئے اورمیرے حدود حکومت سے نکل جائے۔

ابن حنفیہ نے اس تحریر کا یہ جواب دیابسم اللہ الرحمن الرحیم محمد بن علی کی جانب سے عبد الملک کو سلام پہنچے، میں اس خدا کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں حمد کرتا ہوں، اما بعد تم کو خلافت کے بارہ میں میرے خیالات معلوم ہیں، اس معاملہ میں کسی کو بیوقوف بنا کر دھوکا نہیں دیتا، خدا کی قسم اگر ساری امت اسلامیہ میری خلافت پر متفق ہوجائے اورصرف اہل زرقاء باقی رہ جائیں تو بھی میں ان سے جنگ نہ کروں گا اور نہ انھیں چھوڑ کر علاحدہ ہوں گا تا آنکہ وہ سب متفق ہوجائیں، مدینہ کے پر آشوب حالات کی وجہ سے مکہ چلا آیا تھا اور ابن زبیرؓ کے جوار میں ٹھہرا تھا، لیکن انھوں نے میرے ساتھ بدسلوکی کی مجھے بیعت لینی چاہی، میں نے انکار کیا کہ جب تک تمھارے اوران کے اختلافات میں عام مسلمانوں کا کوئی متفقہ فیصلہ نہ ہو جائے

اس وقت تک میں بیعت نہ کروں گا، وہ جو فیصلہ کریں گے میں بھی ان کے ساتھ ہوں گا، ان حالات اوراس کشمکش میں تم نے مجھے اپنے یہاں آنے کی دعوت دی میں نے قبول کرلی اورتمہارے ملک کے ایک گوشہ میں آکر اتر گیا، خدا کی قسم! مجھ میں مخالفت کا کوئی جذبہ نہیں ہے، میرے تمام آدمی میرے ساتھ تھے میں نے دیکھا کہ یہ مقام ارزاں زندگی کا ہے، اس لیے خیال کیا کہ اچھا ہے تمھارے جوار میں قیام کرکے تمھارے تعلقات سے فائدہ اٹھاؤں، لیکن اب تم وہ لکھتے ہو جو تم کو نہ لکھنا چاہئیے اس لیے ہم ان شاء اللہ لوٹ جائیں گے۔ [18]

یہ جواب بھیج کر محمد بن حنفیہ نے اپنے سات ہزار ساتھیوں کے سامنے یہ تقریر کی خدا جملہ امور کا والی اورحاکم ہے وہ جو چاہتا ہے ہوتا ہے اورجو نہیں چاہتا نہیں ہوتا جو باتیں ہونے والی ہیں، اس کا وقوع قریب ہے تم لوگوں نے امر (خلافت) میں اس کے پیش آنے سے قبل جلدی کی، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، ہم لوگوں کی پشت میں وہ جان نثار پنہاں ہیں جو آل محمد کی حمایت میں لڑیں گے، آل محمد کا حق اہل شرک پر مخفی نہ رہے گا، دیر میں سہی مگر پورا ہوگا، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے جس طرح یہ امر (خلافت) شروع میں تم میں تھا، ایک دن پھر تم میں لوٹ کر آئے گا، اس خدا کا شکر ہے جس نے تمھارے خون کو بچایا اور تمھارے دین کی حفاظت کی، تم میں سے جو شخص امن وحفاظت کے ساتھ اپنے شہر اور اپنے مقام پر واپس جانا چاہتا ہو وہ جا سکتا ہے، اس اجازت پر ابن حنفیہ کے بیشتر ساتھی چلے گئے، سات ہزار میں سے صرف نوسو باقی رہ گئے ان کو لے کر وہ مکہ واپس ہوئے۔ [19]

ایلہ سے واپسی کے بعد ابن حنفیہ کے حالات کے متعلق دو روایتیں ہیں، ایک یہ کہ یہ حج کا زمانہ تھا، اس لیے ابن حنفیہ عمرہ کی نیت سے احرام باندھ کر اورقربانی کے جانوروں کو لے کر سیدھے مکہ پہنچے لیکن جب حرم میں داخل ہونا چاہا تو ابن زبیرؓ کے سواروں نے روکا، ابن حنفیہ نے ابن زبیرؓ کے پاس کہلا بھیجا کہ مکہ سے جاتے وقت بھی میں لڑنے کے ارادہ سے نہیں نکلاتھا اور اب واپسی کے بعد بھی اس کا کوئی خیال نہیں ہے، اس لیے ہمارا راستہ چھوڑدو کہ ہم بیت اللہ جاکر مناسک حج ادا کر لیں، انھیں پورا کرنے کے بعد یہاں سے چلے جائیں گے، لیکن ابن زبیرؓ نے بیت اللہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی اورابن حنفیہ سواری کے جانوروں کو یوں ہی لیے ہوئے مدینہ چلے گئے۔ [20]

دوسری روایت یہ ہے کہ وہ مکہ پہنچ کر منیٰ کی گھاٹی میں ٹھہرے دوہی دن کے بعد ابن زبیرؓ نے کہلا بھیجا کہ یہاں سے ہٹ جاؤ، ہمارے قریب نہ ٹھہرو، یہ پیام سن کر ابن حنفیہ نے کہا جب تک خدا ہمارے لیے کوئی راہ نہ پیدا کر دے اس وقت تک ہم چار وناچار صبر کرتے ہیں، خدا کی قسم میں نے اب تک تلوار اٹھانے کا ارادہ نہیں کیا، اگر میں تلوار اٹھالیتا تو خواہ تنہا ہی کیوں نہ ہوتا اور ان کے ساتھ پوری جماعت کیوں نہ ہوتی وہ میرے ساتھ اس طرح نہیں کھل سکتے تھے، لیکن میں تلوار اٹھانا نہیں چاہتا، ابن زبیر ہمسایہ آزاری سے باز آنے والے نہیں یہ کہہ کر وہ طائف چلے گئے، ان کے یہاں آنے کے چند مہینوں بعد حجاج نے 72 میں ابن زبیر کا خاتمہ کر دیا۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ ابن زبیر کے حصار کے زمانہ میں ابن حنفیہ مکہ ہی میں تھے؛چنانچہ حجاج نے ان کے پاس عبد الملک کی بیعت کے لیے کہلا بھیجا، انھوں نے جواب دیا کہ تم کو میرے مکہ کے قیام، طائف اورشام کے سفر کے حالات معلوم ہیں، تمام زحمتیں میں نے صرف اس لیے اٹھائی تھیں کہ میں اس وقت تک کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنا نہیں چاہتا تھا جب تک ان میں سے کسی ایک پر سب کا اتفاق نہ ہوجائے، مجھ میں مخالفت کا کوئی جذبہ نہیں ہے، لیکن جب میں نے دیکھا کہ خلافت کے بارہ میں لوگوں کی رائیں مختلف ہیں تو میں نے اس وقت تک ان معاملات سے الگ رہنے کے لیے جب تک کسی پر اجماع نہ ہوجائے خدا کے اس شہر میں جس کی حرمت سب سے بڑی اورسب سے زیادہ ہے اورجس میں طیور تک کے لیے امان حاصل ہے، پناہ لی ہے

ابن زبیرؓ نے میرے ساتھ بدسلوکی کی، اس لیے میں شام چلا گیا، لیکن وہاں عبد الملک نے بھی میرا قرب پسند نہ کیا، اس لیے میں پھر حرم چلا آیا، اب اگر ابن زبیرؓ قتل ہوجائیں گے اور عبد الملک پر مسلمانوں کا اتفاق ہوجائے گا تو میں تمھارے ہاتھوں پر بیعت کرلوں گا، لیکن حجاج نے ذرا توقف بھی گوارا نہ کیا اور بیعت کے لیے برابر مصر رہا، لیکن محمد بن حنفیہ کسی نہ کسی طرح ٹالتے رہے تاآنکہ ابن زبیر قتل ہو گئے۔ [21]

عبد الملک کا دور[ترمیم]

ابن زبیرؓ کے شہید ہوجانے کے بعد عبد الملک نے حجاج کو لکھا کہ محمد بن حنفیہ میں مخالفت کا کوئی جذبہ نہیں ہے، امید ہے کہ اب وہ تمھارے پاس آکر بیعت کر لیں گے، ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا، محمد بن حنفیہ خود بھی شروع سے یہی کہتے چلے آ رہے تھے کہ جب کسی ایک شخص پر مسلمانوں کا اتفاق ہوجائے گا تو میں بھی اس کو تسلیم کرلوں گا [حوالہ درکار] چنانچہ عبد الملک پر اتفاقِ عام کے بعد جب عبد اللہ بن عمرؓ نے اس کی بیعت کرلی تو محمد بن حنفیہ سے بھی کہا کہ اب کوئی اختلافی مسئلہ باقی نہیں رہا اس لیے تم بھی بیعت کرلو ان کا پہلے سے یہی خیال تھا، اس لیے آمادہ ہو گئے اورحجاج کے ہاتھ پر بیعت کرکے عبد الملک کو حسب ذیل خط لکھا۔[حوالہ درکار]

بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد بن علی کی جانب سے خدا کے بندے عبد الملک کو اما بعد اس وقت جب تک امت میں خلیفہ کے بارے میں اختلاف تھا میں لوگوں سے کنارہ کش رہا اب جماعت میں شامل ہوں اور اس بھلائی میں جس میں وہ سب داخل ہوئے میں بھی داخل ہوتا ہوں میں نے حجاج کے ہاتھوں پر تمھاری بیعت کرلی ہے اور اب یہ تحریر بیعت تم کو بھیجتا ہوں ؛کیونکہ تم پر مسلمانوں کا اجماع ہو گیا ہے، اب میں یہ چاہتا ہوں کہ تم لوگوں کو امان اورایفائے عہد کا یقین دلاؤ، فریب میں کوئی بھلائی نہیں ہے اوراگر اب بھی تم کو اس میں تامل یا اس سے انکار ہے تو خدا کی زمین وسیع ہے۔ [حوالہ درکار]

عبد الملک کو یہ خط ملا تو اس نے اپنے مشیروں قبیصہ بن ذویب اورروع بن ذنباع جذامی سے مشورہ کیا، انھوں نے کہا، ابن حنفیہ پر آج بھی آپ کو کوئی قابو نہیں حاصل ہے، وہ جس وقت چاہیں جنگ وفساد برپا کرسکتے ہیں، ایسی حالت میں جب کہ انھوں نے آپ کی خلافت تسلیم کرکے بیعت کرلی ہے، میری رائے میں آپ فوراً ان کو جان بخشی وامان کا عہد وپیمان لکھ دیجئے اور ان کے ساتھیوں کے لیے بھی وعدہ کرلیجئے ان کے اس مشورہ پر عبد الملک نے یہ جواب لکھا، آپ میرے نزدیک لائق ستائش، مجھ کو زیادہ محبوب اورابن زبیرؓ سے زیادہ میرے قریب عزیز ہیں، اس لیے میں خدا اوررسول کو حاضر وناظر جا ن کر وعدہ کرتا ہوں کہ آپ اورآپ کے تمام ساتھیوں کو کسی ایسے طرز عمل سے جسے آپ ناپسند کرتے ہیں پریشان نہ کیا جائے گا، آپ اپنے شہر واپس جایے اور جہاں دل چاہے اطمینان کے ساتھ رہیے، میں جب تک زندہ رہوں گا عزیز داری کا پورا لحاظ رکھوں گا اورآپ کی مدد سے کبھی دست کش نہ ہوں گا۔

اس خط کے ساتھ ہی حجاج کے نام علاحدہ ان کے ساتھ حسن جوار اوران کے اعزاز واحترام ملحوظ رکھنے کا حکم بھیجا، اس خوش آیند مصالحت کے بعد ابن حنفیہ مدینہ واپس گئے اور اطمینان وسکون کے ساتھ ان کو رہنے کا موقع ملا۔

(نوٹ: ویکیپیڈیا عربی نے مروان کے دور حکومت کا آغاز 80ھ اور محمد بن حنفیہ کی وفات [22]بھی 80 ھ لکھی ہے، تو کیسے ممکن ہے کہ اس مروان کی یا اس کے بعد حکمران بننے والے عبد الملک کی بیعت محمد بن حنفیہ نے کی تھی)

شام کا سفر اور عبد الملک کا حسن سلوک[ترمیم]

چند برسوں کے بعد ابن حنفیہ نے عبد الملک کو خط لکھ کر اس کے پاس جانے کی اجازت چاہی، اس نے نہایت خوشی سے منظور کیا؛چنانچہ انھوں نے 78ھ میں شام کا سفر کیا،[حوالہ درکار] (غلط ہے کیونکہ آپ کی وفات 73ھ کی ہے)

سے بھی پڑھیں) عبد الملک نے بڑی خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کیا اوران کے شایانِ شان ان کی پزیرائی اوربزر گذاشت کی، اپنے محل کے قریب ہی ٹھہرایاان کے اوران کے جملہ ہمراہیوں کی میزبانی کے لیے شاہی خزانہ کھول دیا، ایک مہینہ سے کچھ زیادہ ابن حنفیہ دمشق میں رہے، اس دوران میں وہ وقتا فوقتا عبد الملک سے ملتے رہے دربار کے داخلہ میں شاہی خاندان والوں کے بعد ان کا نمبر تھا، ایک دن انھوں نے تنہائی میں عبد الملک کے سامنے اپنے قرض کا تذکرہ کیا

عبد الملک نے اسے ادا کرنے کا وعدہ کیا اور ان سے ان کی اورضروریات پوچھیں، انھوں نے قرض کی ادائیگی اوربعض اورضروریات کے ساتھ اپنی اولاد اپنے خواص اور اپنے غلاموں کے وظائف مقرر کیے جانے کی خواہش کی، عبد الملک نے غلاموں کے وظائف کے علاوہ ان کی جملہ ضرورتیں اور خواہشیں پوری کر دیں، پھر ان کے اصرار پر غلاموں کے وظائف بھی مقرر کر دیے، لیکن ان کی مقدار کم رکھی، لیکن پھر ابن حنفیہ کا اصرار اتنا بڑھا کہ عبد الملک کو ان وظائف کی مقدار بھی پوری کرنی پڑی، ان ضروریات کے پورے ہونے کے بعد ابن حنفیہ مدینہ واپس ہوئے [23] اور تادم آخر ان کے اورعبدالملک کے تعلقات نہایت خوش گوار رہے۔

وفات[ترمیم]

محمد بن حنفیہ کے سنہ وفات اورجائے وفات کے بارہ میں مختلف روایتیں ہیں، ایک روایت یہ ہے کہ 81 میں انھوں نے مدینہ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن کیے گئے۔ اگر 81 بھی مانا جائے تو عبد الملک تو 85 میں تخت نشین ہوا تھا

گذشتہ حالات پر تبصرہ[ترمیم]

اوپر جو حالات لکھے گئے ہیں ان کی حیثیت محض سوانح کی ہے جن میں واقعات کو صرف واقعات کی حیثیت سے لکھ دیا گیا ہے اور ان پر کوئی نقد وتبصرہ نہیں کیا گیا ہے، لیکن ان میں بہت سے واقعات ومسائل نقد ونظر کے محتاج ہیں ورنہ محض اوپر کے واقعات کے آئینہ میں ابن حنفیہ کی تصویر حیات داغدار نظر آتی ہے، اس لیے آیندہ سطور میں مذکورۂ بالا واقعات پر تنقیدی نظر ڈالی جاتی ہے۔

حضرت امام حسینؓ کے حقیقی وارث اورجانشین امام زین العابدین تھے، لیکن اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد وہ دنیا سے ایسے برداشتہ خاطر ہو گئے تھے کہ خلافت اورامامت کے جھگڑوں سے کنارہ کش ہوکر گوشہ عزلت کی زندگی اختیار کرلی تھی، شیعیان علیؓ نے انھیں بہت میدان میں لانا چاہا، لیکن وہ ایسے دل شکستہ تھے کہ گھر سے باہر قدم نہ نکالا ان سے مایوس ہونے کے بعد شیعیان علی نے ابن حنفیہ کو اس بارِ امانت کا حامل بنادیا اس لیے خلافت وامامت اوراہل بیت وغیر اہل بیت کے سوالات اوراس سے متفرع عقائد خیالات اورمسائل کا تعلق ابن حنفیہ کی ذات سے ہو گیا اوراس سلسلہ میں بعض افعال ابن حنفیہ سے ایسے سرزد ہو گئے اوربہت سے ایسے عقائد وخیالات ان کی جانب غلط منسوب ہو گئے جو بظاہر ان کی ذات سے فرو تر ہیں، انھیں واقعات پر تنقید مقصود ہے۔[حوالہ درکار]

(یہاں شیعت سے مراداثناء عشری نہیں ہے کیونکہ اس دور میں اس کا وجود ہی نہ تھا،[حوالہ درکار] پھر ان کا سلسلہ امامت امام زین العابدین سے چلتا ہے، امام حسینؓ کے بعد زین العابدین ان کے بعد ان کے فرزند امام باقر اورجعفر صادق وغیرہ اثنا عشری جماعت کے ائمہ زین العابدین کی نسل سے پورے ہوتے ہیں؛بلکہ اس عہد کی وہ سیاسی جماعت مراد ہے جو غیر فاطمی خلفاء کے مقابلہ میں ان کی پشت وپناہ تھی۔)

شیعی تحریک اوراہل بیت وغیر اہل بیت وغیرہ مسائل کی بنیاد تمام تر پروپگنڈے پر ہے اس جماعت نے اپنی تحریک اوراپنے مقاصد کو کامیاب بنانے کے لیے بہت سے ایسے عقائد وخیالات بزرگانِ اہل بیت کی جانب منسوب کر دیے ہیں، جن کی وجہ سے وہ حرصِ خلافت کا مجسم پیکر معلوم ہوتے ہیں، ان میں سے بعض خیالات تو ایسے گمراہ کن ہیں کہ اگر وہ ان بزرگوں کے زمانے میں ظاہر کیے جاتے یا ان کو معلوم ہوجاتے تو وہ ان کے اختراع کرنے والوں کو اپنے اتباع کی جماعت سے خارج کردیتے۔[حوالہ درکار]

اس میں شبہ نہیں کہ خلافت اسلامیہ نے جب دنیاوی حکومت کا قالب اختیار کر لیا، اس وقت اہل بیت کرام میں حصول خلافت کا جذبہ ضرور ہو گیا تھا، جو بڑی حد تک درست تھا، اس لیے کہ اسلامی حکومت اسی وقت تک نیابت الہیٰ اورخلافت نبویﷺ ہے، جب تک وہ جمہوری ہے اوراسی وقت وہ جمہوری ہے، جب تک وہ خلافت ہے، شخصی حکومت کا قالب اختیار کرلینے کے بعد اس کی حیثیت مذہبی باقی نہیں رہتی، اس وقت اگر اس حکومت کے بانی کے ورثہ کے دلوں میں اس کے حصول کا جذبہ پیدا ہو یا کوئی جماعت ان کی حمایت کے لیے کھڑی ہوجائے، تو یہ دونوں امور قابل اعتراض نہیں کہے جا سکتے، لیکن اس سلسلہ میں مدعیانِ محبت اہل بیت نے عجیب گمراہ کن عقائد اختراع کرکے ان بزرگوں کی جانب منسوب کر دیے ہیں، جس سے ان کا دامن بالکل پاک ہے۔[حوالہ درکار]

محمد بن حنفیہ اس موحد اعظم کی نسل میں تھے، جس نے اپنے متعلق غلط عقیدہ رکھنے والوں کو زندہ جلادیا تھا، اس لیے ان کا دامن فاسد عقائد سے آلودہ ہو ہی نہیں سکتا تھا، ان کے کانوں میں جب اس قبیل کے خیالات پڑتے تھے تو وہ اس کی پوری تردید کرتے تھے، ایک مرتبہ ان کو معلوم ہوا کہ مختار کے متبعین کہتے ہیں کہ ان کے (ابن حنفیہ)پاس قرآن کے علاوہ علم (سینہ) کا کچھ حصہ ہے، یہ روایت سن کر انھوں نے مخصوص تقریر کی کہ خدا کی قسم اس کتاب کے علاوہ جو دو لوحوں کے درمیان میں ہے (قرآن پاک) رسول اللہ ﷺ سے وراثت میں ہم کو اورکوئی علم نہیں ملا۔[24]

ان کے بہت سے عقیدت مند انھیں مہدی کہہ کر سلام کرتے تھے کہ سلام علیک یا مہدی یہ جواب دیتے، میں اس معنی میں بے شک مہدی ہوں کہ میں لوگوں کو نیکی اوربھلائی کی ہدایت کرتا ہوں، لیکن میرا نام نبی اللہ کے نام پر اورمیری کنیت نبی اللہ کی کنیت پر ہے، اس لیے جب تم لوگ سلام کیا کرو تو مہدی کی بجائے السلام علیک یا محمد اور السلام علیک یا اباالقاسم کہا کرو۔[25]

عام لوگوں نے قریش کے دو خانوادوں بنی امیہ اور بنی ہاشم کا رتبہ ایک کا دنیاوی وجاہت کی بنا پر اور دوسرے کا مذہبی سیادت کی بنا پر ستش کی حد تک پہنچادیا تھا ابن حنفیہ اس کو سخت ناپسند کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہمارے قریش کے دو گھرانوں کو خدا کے علاوہ اس کا ایک اور مثیل ٹھرالیا گیا ہے، ہم کو (اہل بیت ) اوربنی اُمیہ کو۔[26]

بعض فرقے حضرت علیؓ کو الوہیت کے درجہ تک پہنچادیتے ہیں، لیکن ابن حنفیہ انھیں بندگی ہی کے درجہ میں رکھتے تھے؛چنانچہ فرماتے تھے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی انسان کی نجات اوراس کے جنتی ہونے کی یقینی شہادت نہیں دے سکتا، حتیٰ کہ اپنے باپ علیؓ کے متعلق بھی جنھوں نے مجھے پیدا کیا ہے، یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا۔[27]

مختار ثقفی کی سرپرستی کے اسباب[ترمیم]

غرض ان کا کوئی عقیدہ صحیح عقائد، اسلامی کے خلاف نہ تھا مختار ثقفی کے دامِ تزویر میں پھنس جانا ضرور بظاہر نظر کھٹکتا ہے، لیکن یہ فطرت انسانی کا تقاضا تھا۔ امیر معاویہ نے زندگی بھر اہل بیت کے حقوق اوران کے مراتب کا خیال رکھا، ان کے بعد یزید سے لے کر عبد الملک کے زمانہ تک ان بزرگوں کے ساتھ اموی خلفاء کا جو طرز عمل رہا وہ بالکل عیاں ہے، امام حسین ؓ اورنبوت کے سارے کنبہ کو جس بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا وہ اموی حکومت کے دامن کا ایسا داغ ہے جو کبھی نہیں مٹ سکتا، ان حالات میں نہ صرف ابن حنفیہ ؛بلکہ سارے بنی ہاشم کے دل امویوں کی طرف سے پھرے ہوئے تھے، اس کے علاوہ ابن زبیرؓ کا خطرہ علاحدہ ان کے سروں پر مسلط تھا، ان حالات میں مختار خونِ حسینؓ کے انتقام کی دعوت لے کر اٹھا اور قاتلین حسینؓ کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر قتل کیا اور بنی امیہ اورابن زبیرؓ دونوں کے مقابلہ میں ابن حنفیہ کا پشت پناہ بنا، ایسی حالت میں اگر ابن حنفیہ فطرت انسانی کے مطابق یا کسی مصلحت کی بنا پر اس سے متاثر ہو گئے، تو ایک حد تک معذور تھے، پھر بھی انھوں نے کبھی اس پر اعتماد نہیں کیا اور اس کو آلہ کار سے زیادہ حیثیت نہیں دی، اوپر گذر چکا ہے کہ جب مختار نے ابن حنفیہ سے عراق جانے کی اجازت چاہی تھی تو انھوں نے اجازت تو دے دی لیکن چونکہ اس پر اعتماد نہ تھا، اس لیے اپنے ایک آدمی عبد اللہ ابن کامل ہمدانی کو اس کے ساتھ کر دیا اور اس کو ہدایت کردی کہ یہ شخص لائق اعتماد نہیں ہے، اس سے بچتے رہنا [28] یا جب عروہ بن زبیرؓ کی جانب سے ابن حنفیہ کے پاس پیام لے کر آگئے تو انھوں نے اس سے کہا کہ میں نے نہ اس کو اپنا داعی بنایا تھا، نہ مدد گار [29] یا جب بعض اہل عراق کو مختار کے بیانات پر شبہ ہوا اور وہ ابن حنفیہ کے پاس اس کی تصدیق کے لیے گئے، تو انھوں نے کہا کہ، اسے ہم پسند کرتے ہیں کہ اللہ نے جس بندے کے ذریعہ سے چاہا ہماری مدد کی، البتہ تم لوگ کذابین سے ڈرتے ر ہواور ان سے اپنی جان اوراپنے دین کی حفاظت کرو۔ [30] لیکن ابن حنفیہ میں خاندانی عصبیت اورحصولِ خلافت کی فطری خواہش ضرور تھی اور اس کا باعث بھی بنی امیہ کی غیر محتاط روش اوران کا جابرانہ طرز عمل تھا، ابن زبیرؓ اورعبدالملک کے اختلافات اورابن حنفیہ پر ابن زبیرؓ کے جبر نے اس جذبہ کو اورزیادہ قوی کر دیا تھا، لیکن اس کے لیے بھی انھوں نے کوئی عملی کوشش نہیں کی ؛بلکہ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ میں خلافت ضرور چاہتا ہوں مگر اس صورت میں کہ کسی ایک مسلمان کو بھی اس سے اختلاف نہ ہو، یہ جذبہ بنی اُمیہ کے مقابلہ میں کسی طرح ناروا نہیں کہا جا سکتا۔

ابن حنفیہ کی پیرو ایک جماعت[ترمیم]

اگرچہ ابن حنفیہ فرقہ اثنا عشری کے امام نہیں ہیں، ان کے تمام ائمہ حضرت فاطمہؓ کی اولاد سے ہیں، لیکن شیعیوں کی ایک جماعت حضرت حسینؓ کے بعد انھیں کو امام تسلیم کرتی ہے، اس جماعت کا نام کیساینہ ہے، اس کا عقیدہ ہے کہ ابن حنفیہ نے وفات نہیں پائی؛بلکہ اپنے چالیس اصحاب کے ساتھ کوہ رضوی میں چلے گئے تھے اوراب تک وہاں موجود ہیں، ایک شیر اورایک چیتا ان کی پاسبانی کرتا ہے اوران کی سیرابی کے لیے ایک شہد اورایک پانی کا چشمہ رواں ہے، خدا انھیں اس گوشہ میں روزی پہنچاتا رہتا ہے، ایک دن وہ اس دنیا میں آئیں گے اوراس کو عدل وانصاف سے معمور کر دیں گے، ابن حنفیہ کے بعد ان کے بیٹے عبد اللہ ان کے جانشین ہوئے تھے۔ [31]

فضل وکمال[ترمیم]

ابن حنفیہ علی مرتضیٰؓ جیسے مجمع العلم باپ کے فرزند تھے، اس لیے علم کی دولت ان کو ورثہ میں ملی تھی، علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ وہ بڑے صاحب علم تھے [32]، ابن حبان ان کو ان کے خاندان کے فاضل ترین افراد میں شمار کرتے ہیں [33] لیکن اس کی تفصیلات کتابوں میں مذکور نہیں۔

حدیث[ترمیم]

حدیث میں انھوں نے اپنے والد بزرگوار اورحضرت عثمانؓ، عمار بن یاسرؓ، معاویہ بن ابی سفیان، ابوہریرہ اورابن عباسؓ سے فیض اٹھایا تھا، بعض محدثین کے نزدیک حضرت علیؓ کی مستند ترین روایات انھیں سے مروی ہیں۔ [34] ان کے تلامذہ کا دائرہ بھی خاصہ وسیع تھا، آپ کے چار بیٹے، ابراہیم، حسن، عبد اللہ اورعون، بھتیجے محمد بن عمر بن علی، بھائی کے پوتے محمد بن علی بن حسن، بھانجے عبد اللہ بن محمد بن عقیل اوربیرونی اشخاص میں عطاء بن ابی رباح، منہال بن عمرو، محمد بن قیس بن مخرمہ، منذر بن یعلیٰ، محمد بن بشیر ہمدانی، سالم بن ابی الجعد اور عمرو بن دینار آپ کے فیض یافتگان میں تھے۔ [35]

کلماتِ طیبات[ترمیم]

آپ کے مختصر کلمات طیبات نہایت پر حقیقت اورسبق آموز ہیں، فرماتے تھے، جس کا نفس اس کی نگاہ میں معزز ہوا، اس کی نگاہ میں دنیا کی کوئی قیمت باقی نہیں رہتی، جو شخص ان لوگوں کے ساتھ جن کے ساتھ زندگی بسر کرنا ہے، نہیں نباہ سکتا وہ عقلمند نہیں ہے، خدا نے جنت کو تمھارے نفس کی قیمت قرار دیا ہے، اس لیے اس کو دوسری چیز کے بدلہ میں فروخت نہ کرو، جو چیز لوجہ اللہ نہیں کی جاتی وہ فنا ہوجاتی ہے۔ [36]

عبادت وریاضت[ترمیم]

علم کے ساتھ وہ بڑے عابد وزاہد تھے، ابن عماد حنبلی لکھتے ہیں کہ وہ علم اورعبادت دونوں میں انتہائی درجہ پر تھے۔

ماں کی خدمت[ترمیم]

ماں کے بڑے خدمت گزار تھے، اپنے ہاتھوں سے ان کے بالوں میں خضاب لگاتے تھے، کنگھی کرتے تھے، چوٹی گوندھتے تھے، ایک مرتبہ گھر سے نکلے، ہاتھوں میں مہندی کا اثر تھا، کسی نے پوچھا یہ کیا، فرمایا ماں کے بالوں میں خضاب لگارہا تھا۔ [37]

قوت وشجاعت[ترمیم]

اسد اللہ الغالب کے خلف الصدق تھے، اس لیے علم کے ساتھ قوت وشجاعت بھی ورثہ میں ملی تھی، اتنے قوی اورطاقتور تھے کہ زرہ کو دونوں ہاتھوں سے کھینچ کر چیر ڈالتے تھے، حضرت علیؓ کی ایک زرہ آپ کے جسم سے زیادہ لمبی تھی، آپ نے بقدر زیادتی نشان لگا کر ان کو دیا کہ اس کو نشان سے کم کردو، انھوں نے ایک ہاتھ سے زرہ کا دامن پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے بڑھا ہوا حصہ کھینچ کر دوٹکڑے کر دیے، ابن زبیرؓ جسمانی طاقت میں ان کے حریف تھے، ان کے سامنے جب اس واقعہ کا تذکرہ کیا جاتا تھا تو وہ غصہ سے کانپنے لگتے۔ ایک مرتبہ قیصر روم نے اپنے یہاں کے دو پہلوان امیر معاویہؓ کے پاس قوت آزمائی کے لیے بھیجے، ان میں سے ایک کو قیس نے زیر کیا، دوسرے کے مقابلہ کے لیے امیر معاویہ نے ابن حنفیہ کو بلایا، انھوں نے مقابلہ کی یہ صورت پیش کی کہ رومی پہلوان بیٹھ کر اپنے ہاتھ کو ان کے ہاتھ میں دے، دونوں زور کریں یا وہ کھینچ کر انھیں بٹھا دے یا یہ بیٹھ کر زور کریں رومی پہلوان نے پہلی صورت پسند کی ؛ چنانچہ دونوں میں مقابلہ ہوا رومی نے ہر چند زور لگایا لیکن ان کو نہ بٹھا سکا اور انھوں نے کھینچ کر اس کو کھڑا کر دیا، اس کے بعد یہ خود بیٹھے، رومی نے کھڑا کرنے کی ہر چند کوشش کی مگر ناکام رہا، مگر انھوں نے اس کو کھینچ کر بٹھادیا۔ [38] اس طاقت کی وجہ سے وہ ہمیشہ اپنے والد بزرگوار کے دست راست اورپشت وپناہ رہے ہر میدان میں ان کے دوش بدوش داد شجاعت دیتے تھے، جمل اور صفین کے معرکوں میں علوی علم انہی کے ہاتھ میں تھا، ایک مرتبہ کسی نے ان سے سوال کیا :کیا بات ہے کہ تمھارے والد خطرات کے موقع پر تم ہی کو آگے بڑھاتے تھے اورحسنؓ وحسینؓ کو علاحدہ رکھتے تھے ؟جواب دیا وہ دونوں ان کی آنکھ کی بجائے تھے اورمیں ان کا دست وبازو تھا اس لیے وہ ہاتھ سے آنکھوں کی حفاظت کرتے تھے۔ [39]

حلیہ ولباس[ترمیم]

میانہ قد تھا، آخر عمر میں بال سپید ہو گئے تھے، بالوں میں مہندی کا خضاب کرتے تھے، خز کا لباس پہنتے تھے، سیاہ عمامہ باندھتے تھے، ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔ [40]

اولاد وازواج[ترمیم]

آپ نے متعدد شادیاں کیں اور ان سے بہت سی اولادیں ہوئیں، ان کی تفصیل یہ ہے، ابو ہاشم، عبد اللہ، حمزہ، علی، جعفر اکبر، یہ چاروں ایک ام ولد کے بطن سے تھے حسن جنھوں نے سب سے پہلے رجاء کا عقیدہ ایجاد کیا یہ عبد الملک کی پوتی جمال کے بطن سے تھے، ابراہیم یہ مسرعہ بنت عباد کے بطن سے تھے، قاسم، عبد الرحمن یہ دونوں برہ بنت عبد الرحمن بن حارث مطلبی کے بطن سے تھے، جعفر اصغر، عون، عبد اللہ، الاصغر یہ تینوں جعفر بن ابی طالب کی پوتی ام کلثوم کے بطن سے تھے، عبد اللہ اورفیہ یہ دونوں ام ولد سے تھے۔ [41]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (ابن خلکان :1/450)
  2. (اخبار الطوال:156)
  3. (اخبار الطوال:158)
  4. (ابن سعد:5/67)
  5. (ابن اثیر:3/262)
  6. (اخبار الطوال:194)
  7. (ابن اثیر:3/329)
  8. (اخبار الطوال:235)
  9. (ابن اثیر:4/12)
  10. (مروج الذہب مسعودی:2/479، 480)
  11. (ابن سعد:5/271)
  12. (ابن سعد:5/72)
  13. (اخبار الطوال:257، 300، ملخصاً)
  14. (ابن سعد:5/73)
  15. (ابن سعد:5/73، 75 ملخصاً)
  16. (ابن سعد:5/75، 76، ملحضاً)
  17. (ابن سعد:5/77، 78)
  18. (ابن سعد:5/78، 79)
  19. (ابن سعد:5/80)
  20. (ابن سعد:5/80)
  21. (ابن سعد ایضاً)
  22. الطبقات الکبری، ج۵۔ محمد بن سعد۔ صفحہ: 87 
  23. (ابن سعد:5/85، 86)
  24. (ابن سعد:5/77)
  25. (ابن سعد ایضاً:68، 69)
  26. (ایضاً:68، 69)
  27. (ایضاً)
  28. (ابن سعد:5/71)
  29. (ایضاً:78)
  30. (ابن خلکان:1/45)
  31. (ابن خلکان:1/45)
  32. (ابن سعد:5/67)
  33. (تہذیب التہذیب:9/355)
  34. (تہذیب التہذیب:5/454)
  35. (ایضاً)
  36. (مختصر صفولہ الصفوہ:132)
  37. (ابن سعد:5/88)
  38. (یہ تمام واقعات ابن خلکان :1/449)
  39. (ابن سعد:5/84، 85)
  40. (ابن سعد:5/82، 85)
  41. (ابن سعد:5/67)