عمرو بن حمق
عمرو بن حمق | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | جزیرہ نما عرب |
تاریخ وفات | سنہ 670ء |
درستی - ترمیم |
حضرت عمروؓبن حمق صحابی رسول تھے۔جمل ،صفین اورنہروان کے معرکوں میں حضرت علیؓ کے ساتھ جان فروشانہ شریک ہوئے۔
نام ونسب
[ترمیم]عمرو نام،باپ کا نام حمق تھا،نسب نامہ یہ ہے،عمروبن حمق بن کاہن بن حبیب بن عمرو بن قین زراح بن عمرو بن سعد بن کعب بن عمرو بن ربیعہ خزاعی۔
اسلام
[ترمیم]عمرو کے زمانہ اسلام کے بارہ میں دو روایتیں ہیں،ایک یہ کہ صلحِ حدیبیہ کے زمانہ میں مشرف باسلام ہوئے اور مشرف با سلام ہونے کے بعد مدینہ آگئے،دوسری یہ ہے کہ حجۃ الوداع میں اسلام قبول کیا، پہلی روایت زیادہ مرجح ہے،حافظ ابن حجر بھی اسی کو مرجح سمجھتے ہیں۔ [1]
حضرت عثمانؓ کی مخالفت
[ترمیم]عہد نبوی سے لے کر حضرت عمرؓ کے زمانہ تک عمرو کے حالات پر دۂ خفا میں ہیں حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں مصر میں رہتے تھے اورآپ کے بڑے مخالفوں میں تھے، ان کی مخالفت اس حد تک تھی کہ قصر خلافت پر حملہ کرنے والوں میں ان کا نام بھی لیا جاتا ہے۔
حضرت علیؓ کی حمایت
[ترمیم]حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد کوفہ چلے آئے اور شروع سے آخر تک حضرت علیؓ کے پرجوش حامیوں میں رہے،جمل ،صفین اورنہروان کے معرکوں میں حضرت علیؓ کے ساتھ جان فروشانہ شریک ہوئے [2] جنگِ جمل میں اس بے جگری سے لڑے کہ تلوار کی دھار الٹ الٹ گئی [3] تحکیم کے سخت مخالف تھے،لیکن جب حضرت علیؓ کو چاروناچار حکم کی تجویز ماننی پڑی اور التوائے جنگ کا معاہدہ لکھا گیا،تو عمرونے بھی اس پر بحیثیت گواہ کے دستخط کیے۔
حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد بھی عمرو اسی طرح بنی امیہ کے مخالف رہے اورحضرت علیؓ کے مشہور حامی صحابی رسول حجر بن عدی کے ساتھ ہو گئے،امیرمعاویہ کے زمانہ میں جب زیاد عراق کا حاکم مقرر ہوا اور شیعان علیؓ پر سختیاں ہونے لگیں اور شیعی تحریک کے بانی شہید کیے جانے لگے تو عمرو عراق چھوڑ کر موصل بھاگ گئے اورایک غار میں چھپ گئے،اس غار میں ایک زہریلے سانپ نے کاٹ لیا اور یہی غار غارِ قبر بن گیا،عمرو کی،برابر تلاش جاری تھی،تلاش کرنے والے غار تک پہنچ گئے اور عمرو کی مردہ لاش کا سرکاٹ کر زیاد کے پاس بھجوادیا۔ [4]
شہادت
[ترمیم]ان کے سر پر نو ضربیں لگانے کا حکم ہوا تھا دوسری ضرب پر ہی شہید ہو گئے۔
تعمیر مقبرہ
[ترمیم]336ھ میں مصر کے مشہور حکمران سیف الدولہ کے چچازاد بھائی ابو عبد اللہ سعید بن حمدان نے ان کے مزار پر مقبرہ تعمیر کرایا،یہ مقبرہ مدتوں تک مرجع خلایق رہا،اس کی وجہ سے شیعیوں اورسنیوں میں بڑی لڑائیاں ہوئیں۔ [5]
فضل وکمال
[ترمیم]جبیر بن نفیرہ اور رفاعہ بن شداد نے ان سے روایت کی ہے [6] صاحب اخبار الطوال لکھتے ہیں کہ عمرو کوفہ کے عابد وزاہد لوگوں میں تھے۔ [7]