شجاع بن وہب
شجاع بن وہب | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ وفات | سنہ 633 |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | سریہ شجاع بن وہب اسدی، فتنۂ ارتداد کی جنگیں |
درستی - ترمیم ![]() |
شجاع بن وہب سابقون الاولون صحابی ہجرت حبشہ کرنے والے مہاجرین اورغزوہ بدر میں شامل تھے۔
نام،نسب[ترمیم]
شجاع نام، ابووہب کنیت والد کا نام وہب تھا،پورا سلسلہ نسب یہ ہے: شجاع ابن وہب بن ربیعہ بن اسد بن صہیب بن مالک بن کبیر بن غنم بن دودان بن خزیمہ ،ایام جاہلیت میں ان کا خاندان بنوعبدشمس کا حلیف تھا۔[1]
اسلام وہجرت[ترمیم]
شجاع ان بزرگوں میں ہیں جنہوں نے ابتداہی میں داعیِ توحید ﷺ کو لبیک کہا تھا، اورمشرکین کے ظلم سے مجبور ہوکر سرزمین حبش کی دوسری ہجرت میں شریک ہوئے تھے۔[2] یہ عقبہ بن وہب کے بھائی ہیں جو غزوہ بدر میں شامل تھے۔ حبش میں جب یہ افواہ پھیلی کہ تمام قریش مکہ نے آنحضرت ﷺ کے سامنے گردن اطاعت خم کردی ہے تو وطن کی محبت ان کو پھر مکہ کھینچ لائی، لیکن یہاں پہنچ کر افواہ غلط ثابت ہوئی اس لیے چند روز قیام کے بعد متلاشیانِ امن کے ساتھ مدینہ پہنچے، یہاں اوس بن خولی سے مواخات ہوئی۔[3]
غزوات[ترمیم]
بدر، اُحد اورتمام دوسرے مشہور غزوات میں شریک تھے، ماہ ربیع الاول 8ھ میں بنو ہوازن کی ایک جماعت کی سرکوبی پر مامور ہوئے جو مدینہ سے پانچ دن کی مسافت پر مقامِ رسی میں خیمہ افگن تھی، شجاع اپنے ساتھ چوبیس جانباز مجاہدین کی ایک جمعیت لے کر دن کو چھپتے ہوئے اور رات کو یلغار کرتے ہوئے یکا یک ان پر جاپڑے اورشکست دے کر بہت سے اونٹ اوربھیڑبکریاں چھین لائے، مالِ غنیمت کی کثرت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ہر ایک سپاہی کو پندرہ پندرہ اونٹ ملے تھے دیگراسباب وسامان اس کے علاوہ تھا۔
سفارت[ترمیم]
غزوۂ حدیبیہ سے واپس آنے کے بعد آنحضرت ﷺ نے اکثر سلاطین عالم کے پاس دعوتِ اسلام کے خطوط روانہ فرمائے، اسی سلسلہ میں شجاع بن وہب بھی حارث ابن ابی شمر غسانی کے پاس جو دمشق کے قریب مقام غوطہ کا رئیس تھا سفیر بناکر بھیجے گئے ،خط کے ابتدائی فقرے یہ تھے:[4] "بِسْمِ اللّهِ الرّحْمَنِ الرّحِيمِ مِنْ مُحَمّدٍ رَسُولِ اللّهِ إلَى الْحَارِثِ بْنِ أَبِي شِمْرٍ سَلَامٌ عَلَى مَنْ اتّبَعَ الْهُدَى وَآمَنَ بِاَللّهِ وَصَدّقَ وَإِنّي أَدْعُوكَ إلَى أَنْ تُؤْمِنَ بِاَللّهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ يَبْقَى لَكَ مُلْكُك" نام خدا کے ساتھ جو بڑا مہربان ورحیم ہے،محمد رسولِ خدا کی طرف سے حارث بن ابی ثمر کو ،سلام ہے اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے، ایمان لائے اور تصدیق کرے،بیشک میں تم کو اس خدا پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہوں جو ایک ہے اوراس کا کوئی شریک نہیں اسی صورت میں تمہاری سلطنت باقی رکھی جائے گی۔ حارث کو خدانے اس دعوت پر لبیک کہنے کی توفیق نہ دی؛ لیکن اس کے وزیر "مری" نے اسلام قبول کیا اورشجاع کی معرفت بارگاہِ نبوت میں پیام وسلام بھیج کر پوشیدہ طور سے دین حنیف پر قائم رہنے کی خبردی۔[5]
شہادت[ترمیم]
چالیس برس سے کچھ زیادہ عمر پاکر جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔[6]
حلیہ[ترمیم]
طویل القامت،لاغراندام اوربال نہایت گھنے۔ [7]