حسان بن ثابت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حسان بن ثابت
حسان بن ثابت بن منذر بن حرام بن عمرو بن زید مناہ بن عدی بن عمرو بن مالک ابن نجار

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 554ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 674ء (119–120 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لقب شاعر الرسول، ابو ولید، ابو عبد الرحمن
طبی کیفیت اندھا پن  ویکی ڈیٹا پر (P1050) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ سیرین بنت شمعون
اولاد عبد الرحمن
عملی زندگی
نسب خزرجی
خصوصیت شاعر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
پیشہ شاعر[2]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ (60ق.ھ / 50ھ)صحابی جلیل تھے۔ کنیت ابو ولید تھی۔ اور شاعر رسول اللہ لقب تھا۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہٗ جلیل القدر صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ میں قبیلہ بنو خزرج کے ایک گھر میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کا سلسلۂ نسب یہ ہے: حسان بن ثابت بن منذر بن حرام بن عمرو۔ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا نام فریعہ بنت خالد تھا،جو قبیلہ خزرج سے تھیں اور حضرت سعد بن عبادہؓ سردارِ خزرج کی چچا زاد بہن تھیں۔

حضرت حسانؓ بن ثابت بڑھاپے میں ایمان لائے۔ ہجرت کے وقت آپؓ کی عمر 60 برس تھی۔ آپؓ کی آدھی زندگی دورِ جاہلیت کی اور باقی آدھی عہد ِاسلامی کی یادگار ہے۔ آپؓ کی دینی و عملی خدمات تاریخِ اسلام کا اہم باب ہیں۔ قرآن حکیم کی فصاحت و بلاغت سن کر جو شعرا مسلمان ہو گئے، اس نے ان میں ایک نئی روح پھونک دی، حسان بن ثابتؓ بھی ان میں سب سے زیادہ حصہ لینے والے ہیں۔ آپ ؓ سے چند احادیث مروی ہیں، جو کتب احادیث میں موجود ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ عمر رسیدہ ہونے کے باعث کسی غزوے میں شامل نہ ہوئے، مگر اپنی شعر و شاعری اور زبان کے تیکھے استعمال سے دشمن کے خلاف مثبت پروپیگنڈے کے ذریعے خیال و عمل کی قوتوں کو مہمیز دیتے رہے۔ آپؓ طویل عمر اور تجربے کی وجہ سے دُور رَس نگاہ کے حامل اور صاحبِ بصیرت شخص تھے، جس کی نشان دہی آپؓ کے کلام میں جابہ جا محسوس ہوتی ہے۔ آپؓ قریش کے اسلام دشمن شعرا کی ’’ہجو‘‘ کا مسکت جواب دیتے تھے۔ اس دور کا سوشل میڈیا‘ شعری کلام ہوا کرتا تھا۔ کسی کے خلاف یا حمایت کے لیے اشعار کہے جاتے اور بہت جلد وہ پھیل جاتے اور زبان زدِ عام ہو جاتے تھے۔

رسول اللہ کی وفات پر حضرت حسانؓ بن ثابت نے بڑے پُر درد مرثیے لکھے۔ شاعری کے لحاظ سے عہد ِجاہلیت اور دورِ اسلامی کے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہترین شاعر تھے۔ کفار کی ہجو (بُرائی) اور مسلمانوں کی شان میں بے شمار اشعار کہے ہیں۔ شاعری ان کے خاندان میں نسلاً بعد نسلاً چلی آتی تھی۔ باپ، دادا، بیٹے عبد الرحمن اور پوتے سعید بن عبد الرحمن سب شاعر تھے، بلکہ اصحابِ مُذہَّبَات میں سے تھے، یعنی ایسے شاعر تھے کہ ان کی باتیں آبِ زر (سونے کے پانی) سے لکھی جائیں۔ شاعری آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت کا ایک مستقل عنوان ہے۔

عہد ِاسلام کی شاعری مبالغے سے خالی ہے۔ ظاہر ہے جو شعر مبالغے سے خالی ہو، وہ بالکل پھیکا، بے مزہ ہوگا۔ حضرت حسانؓ خود فرماتے ہیں کہ: ’’اسلام جھوٹ سے منع کرتا ہے، اس وجہ سے میں نے اِفراط (بڑھا چڑھا کر بیان) کو جو جھوٹ کی ایک قسم ہے، بالکل چھوڑ دیا ہے۔ حضرت حسانؓ بن ثابت کی ہجو دفاعِ دین پر مشتمل اور گالی گلوچ سے خالی ہے۔ اہلِ حق کی دینِ حق کے غلبے کی جدو جہد، جہاد کو واضح کرنے کے لیے تھی۔ صاحب ’’الروائع‘‘ نے آپؓ کو شعرِ اسلامی کا بانی و مؤسس قراردیا ہے۔ اس طرح وہ ایک تاریخ داں شاعر ثابت ہوئے۔ انھوں نے اپنے اشعار میں دین و سیاست کو جمع کیا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 50ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی ۔

پیدائش و نسب[ترمیم]

قبیلہ بنو خزرج میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔ سلسلۂ نسب یہ ہے، حسان ابن ثابت بن منذر بن حرام بن عمرو بن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجار بن ثعلبہ بن عمرو بن خزرج، والدہ کا نام فریعہ بنت خالد بن خنیس بن لوذان بن عبد ود بن زید بن ثعلبہ بن خزرج بن کعب بن ساعدہ تھا، وہ بھی قبیلہ خزرج سے تھیں اور سعد بن عبادہ سردار خزرج کی بنت عم تھیں۔[5] حسان نے ایک شعر میں ان کا نام ظاہر کیا ہے۔

امسی الجلابیب قد غروا وقد کثروا وابن الفریعۃ امسی بیضۃ البلد [6] [3]

معمر ترین اجداد[ترمیم]

سلسلۂ اجداد کی چار پشتیں نہایت معمر گذریں، عرب میں کسی خاندان کی چار پشتیں مسلسل اتنی طویل العمر نہیں مل سکتیں، حرام کی عمر جو حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پردادا تھے 120 سال کی تھی ان کے بیٹے منذر اور ثابت بن منذر اور خود حسان بن ثابت سب نے یہی عمر پائی۔[7]

اسلام[ترمیم]

حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ حالتِ ضعیفی میں ایمان لائے، ہجرت کے وقت 60 برس کا سن تھا۔ عمر رسیدہ ہونے اور ضعف قلب کے باعث کسی غزوہ میں شامل نہ ہوئے۔

غزوات[ترمیم]

دل کے فطرۃ کمزور تھے،اس لیے کسی غزوہ میں شریک نہ ہو سکے ،حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوات میں شرکت کی تھی،حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: قيل لابن عباس قدم حسان اللعين قال فقال ابن عباس ما هو بلعين قد جاهد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بنفسه ولسانه [8] عبداللہ ابن عباسؓ سے کہا گیا کہ حسان ملعون آیا ہے، فرمایا ملعون کیونکر ہو سکتے ہیں انھوں نے رسول اللہ کے ساتھ رہ کر اپنے نفس اورزبان سے جہاد کیا ہے۔ لیکن عام تذکرے اس کے خلاف ہیں، غزوۂ خندق میں عورتوں کے ساتھ قلعہ میں تھے نبی کریم کی پھوپھی حضرت صفیہؓ بنتِ عبد المطلب بھی اسی قلعہ میں تھیں، ایک یہودی نے قلعہ کے گرد چکر لگایا، حضرت صفیہؓ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہا کو اندیشہ پیدا ہوا کہ اگر یہودیوں کو اطلاع ہو گئی تو بڑی مشکل پیش آئے گی، کیونکہ آنحضرت جہاد میں مشغول تھے انھوں نے حسان سے کہا اس کو مارو ورنہ یہود سے جاکر خبر کردیگا،انھوں نے جواب دیا تمھیں معلوم ہے کہ میرے پاس اس کا کوئی علاج نہیں،حضرت صفیہؓ نے یہ جواب سن کر خود خیمہ کی چوب اٹھائی اور مردانہ وار نکل کر مقابلہ کیا اور یہودی کو قتل کرکے حسان سے کہا اب جاکر اس کا سامان اتار لاؤ، بولے کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔[9]
حضرت حسانؓ بن ثابت جان کی بجائے زبان سے جہاد کرتے تھے،چنانچہ غزوہ بنو نضیر میں جب آنحضرت نے بنو نضیر کے درخت جلائے تو انھوں نے یہ شعر کہا: فھان علی سراۃ بنی لوئی حریق بالبویرۃ مستطیر بنو نضیر اور قریش میں باہم نصرت و مدد کا معاہدہ تھا، اس بنا پر قریش کو غیرت دلاتے ہیں کہ تم بنو نضیر کی جس وقت کہ مسلمان ان کے باغ جلا رہے تھے کچھ مدد نہ کرسکے یہ شعر مکہ پہنچا تو ابو سفیان بن حارث نے جواب دیا: أَدَامَ اللَّهُ ذَلِكَ مِنْ صَنِيعٍ وَحَرَّقَ فِي نَوَاحِيهَا السَّعِيرُ سَتَعْلَمُ أَيُّنَا مِنْهَا بِنُزْهٍ وَتَعْلَمُ أَيُّ أَرْضَيْنَا تَضِيرُ [10] یعنی خدا تم کو ہمیشہ اسی کی توفیق دے یہاں تک کہ آس پاس کے شعلوں سے خود مدینہ خاکستر ہوجائے اورہم دور سے بیٹھے بیٹھے تماشا دیکھیں۔ میں غزوہ مریسیع سے واپسی کے وقت منافقین نے حضرت عائشہؓ صدیقہ پر اتہام لگایا، عبد اللہ بن ابی ان سب میں پیش پیش تھا، مسلمانوں میں بھی چند آدمی اس کے فریب میں آگئے، جن میں حسان، مسطح بن اثاثہ ،اور حمنہ بنت جحش بھی شامل تھیں، جب حضرت عائشہؓ کی برأت میں آیتیں اتریں تو آنحضرت نے اتہام لگانے والوں پر عفیفہ عورتوں پر تہمت لگانے کی قرآن کی مقرر کردہ حد جاری رکھی۔[11]
گو حضرت حسانؓ حضرت عائشہؓ پر تہمت لگانے والوں میں سے تھے ،لیکن اس کے باوجود جب ان کے سامنے حسانؓ کو کوئی برا کہتا تو منع کرتیں اور فرماتیں کہ وہ آنحضرت کی طرف سے کفار کو جواب دیا کرتے تھے اور آپ کی مدافعت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت حسانؓ حضرت عائشہؓ کو شعر سنا رہے تھے کہ مسروق بھی آگئے اور کہا آپ ان کو کیوں آنے دیتی ہیں، حالانکہ خدا نے فرمایا ہے کہ افک میں جس نے زیادہ حصہ لیا اس کے لیے بڑا عذاب ہے،فرمایا یہ اندھے ہو گئے اس سے زیادہ اور کیا عذاب ہوگا ،پھر فرمایا بات یہ ہے کہ یہ رسول اللہ کے لیے مشرکین کی ہجو کرتے تھے۔[12] میں بنو تمیم کا وفد آیا، جس میں زبرقان بن بدر نے اپنی قوم کی فضیلت میں چند اشعار پڑھے، آنحضرت نے حسان کو حکم دیا کہ تم اٹھ کے اس کا جواب دو،انھوں نے اسی ردیف وقافیہ میں برجستہ جواب دیا:
إن الذوائب من فهر وإخواتهم قد بنوا سنة للناس تتبع يرضي بها كل من كانت سريرته تقوى الإله وبالأمر الذي شرعوا قوم إذا حاربوا ضروا عدوهم أو حاولوا النفع في أشياعهم نفعوا سجية تلك منهم غير محدثة إن الخلائق فاعلم شرها البدع لو كان في الناس سباقون بعدهم فكل سبق لأدنى سبقهم تبع لا يرقع الناس ما أوهت أكفهم عند الدفاع ولا يوهون ما رقعوا ولا يضنون عن جار بفضلهم ولا يمسهم في مطمع طبع أعفة ذكرت للناس عفتهم لا يبخلون ولا يرديهم طمع خذ منهم ما أتوا عفواً إذا عطفوا ولا يكن همك الأمر الذي منعوا فإن في حربهم فاترك عداوتهم شراً يخاض إليه الصاب والسلع [13] 11ھ میں آنحضرت نے انتقال فرمایا، مسلمانوں کے لیے اس سے بڑھ کے کوئی غم نہیں ہو سکتا تھا،چنانچہ حضرت حسانؓ نے کئی پر درد مرثیے لکھے جو ابن سعد نے طبقات میں نقل کیے ہیں، ہم ان کے صرف مطلعوں پر اکتفا کرتے ہیں، پہلے مرثیہ کا مطلع ہے۔ الیت حلفہ برغیر ذی دخل منی الیۃ غیر افتاد باللہ ماحملت انثیٰ ولاوضعت مثل النبی بنی الرحمۃ الماد آگے چل کر لکھتے ہیں: امسی نساء عطلن البیوت فما یضر بن خلف فقا ستریا د تاد مثل الرواھب یلبس المسوح وقد الیقن بالیؤس بعد انعمۃ البادی دوسرے مرثیے میں جس کا مطلع ہے ما بال عینک لا تنام کانما کحلت مافیھا ما بکحل الارمد اپنی مصیبت اوررنج وغم کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ جنبی یقیت النربلھفی لیتنی کنت المغیب فی الضریح الملحد پھر کہتے ہیں۔ اقیم بعدک بالمدینۃ بینھم بالھف نفسی لیتنی لم اولد چوتھے مرثیے کا پہلا شعر ہے۔ نب المساکین ان الخیر ناوقھم مع الرسول تولی عنھم سحرا [14] آنحضرت کے بعد عرصہ تک زندہ رہے۔ [4]

واقعہ افک[ترمیم]

میں غزوہ مریسیع سے واپسی کے وقت منافقین نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر اتہام لگایا، عبد اللہ بن ابی ان سب میں پیش پیش تھا، مسلمانوں میں بھی چند آدمی اس کے فریب میں آ گئے، جن میں حسان، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش بھی شامل تھیں، جب عائشہ صدیقہ کی برأت میں آیتیں اتریں تو آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتہام لگانے والوں پر عفیفہ عورتوں پر تہمت لگانے کی قرآن کی مقرر کردہ حد جاری کی۔[15] گو حسان ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر تہمت لگانے والوں میں سے تھے، لیکن اس کے باوجود جب ان کے سامنے حسان کو کوئی برا کہتا تو منع کرتیں اور فرماتیں کہ وہ آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کفار کو جواب دیا کرتے تھے اور آپ کی مدافعت کرتے تھے۔

ایک مرتبہ حسان عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کو شعر سنا رہے تھے کہ مسروق بھی آ گئے اور کہا: آپ ان کو کیوں آنے دیتی ہیں؟ حالانکہ خدا نے فرمایا ہے: کہ افک میں جس نے زیادہ حصہ لیا اس کے لیے بڑا عذاب ہے، فرمایا: یہ نابینا ہو گئے اس سے زیادہ اور کیا عذاب ہوگا، پھر فرمایا بات یہ ہے کہ یہ رسول اللہ کے لیے مشرکین کی ہجو کرتے تھے۔[16]

منبر رسول پر[ترمیم]

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) حسان بن ثابت کے لیے مسجد میں منبر رکھوایا کرتے تھے، تاکہ اس پر کھڑے ہو کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے مفاخرت کریں۔یعنی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں فخریہ اشعار پڑھیں یا حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مدافعت کریں، یعنی کفار کے الزامات کا جواب دیں۔ یہ شک راوی کا ہے اور حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بھی فرماتے تھے کہ حق تعالیٰ روح القدس سے حسان کی امداد فرماتے ہیں۔ جب تک کہ وہ دین کی امداد کرتے ہیں۔[17]

نبی کریم کے بعد آپ کے جانشین حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے نزدیک بھی حسان کا ایک مرتبہ تھا، انھیں مال غنیمت میں حصہ بھی دیتے رہے ، خصوصا عمر بن خطابؓ، عمر نے اپنے دور میں تو انھیں قاضی شرع بنایا تھا، جب حطیہ نے زباد بن بدر کی ہجو کی تو وہ عمر کے پاس معاملہ لے کر آئے، عمرؓ بن خطاب نے اپنا فیصلہ نہیں سنایا کیونکہ شعر و شاعری سے انھیں واقفیت نہ تھی، لہذا انھوں نے حسان سے اس سلسلے میں مشورہ لیا تھا اور انھیں اس معاملے کا قاضی بنایا، ایک دوسرے واقعے میں نجاشی حارثی نے کچھ افراد کی ہجو کردی تھی تو وہ لوگ حضرت عمرؓ بن خطاب کے پاس شکایت لے کر آئے، تو ان کے لیے بھی حسان کو ہی حکم اور قاضی بنایا، نیز حسان، نعمان بن منذر کے دربار میں نابغہ جیسے شاعر پر پہلے ہی فوقیت لے چکے تھے۔[3]

شاعری[ترمیم]

حضرت حسانؓ بن ثابت کی سیرت میں شاعری ایک مستقل عنوان ہے،شعر و سخن عرب کا مذاق تھا اور چند قبائل خصوصیت کے ساتھ شاعروں کے معدن تھے،مثلاً قیس، ربیعہ، تمیم، مضر، یمن ،موخر الذکر قبیلہ میں اوس وخزرج کا شمار تھا جن سے حضرت حسانؓ کا آبائی سلسلہ ملتا ہے۔ ان قبائل میں بھی چند مخصوص خاندان تھے،جن کے ہاں شاعری اٰباوا جدادسے وراثت کے طور پر چلی آتی تھی،حضرت حسانؓ بھی ان ہی میں سے تھے،ان کے باپ ،دادا، اوروہ خود اوران کے بیٹے عبد الرحمن اورپوتے سعید بن عبد الرحمن سب شاعر گذرے ہیں۔ ان شاعروں میں کچھ لوگ"اصحاب مذہبات" کے نام سے مشہور ہیں، مذہبات ذہب سے مشتق ہے جس کے معنی سونا ہیں چون کہ بعض شاعروں کے منتخب اشعار سونے کے پانی سے لکھے گئے تھے، اس لیے مذہبہ کہلاتے ہیں بعد میں ہر شاعر کے سب سے بہتر شعر کو مذہبہ کہا جانے لگا، حضرت حسانؓ کے مذہبہ کا مطلع یہ ہے۔ لعمرابیک الخیر حقا لما نبا علی لسانی فی الخطوب ولایدی حضرت حسانؓ شاعری کے لحاظ سے جاہلیت کے بہترین شاعر تھے،اصمعی کہتا ہے شعر حسان فی الجاہلیت من اجودالشعر ایک مرتبہ کعب بن زہیر نے فخر یہ کہا۔ فمن للقرانی شانھا من یجولھا اذا مامضیٰ کعب دفوز جردل تو مرزو(برادر شماخ شاعر مشہور) نے فوارً ٹوکا کہ۔ [18] فلست کحسان الحسام بن ثابت آبادی کے لحاظ سے عرب کے باشندے دوحصوں پر منقسم ہیں،اہل وبر(دیہات والے )اور اہل مدر(شہر والے) اہل مدر میں مکہ ،مدینہ،طائف کے باشندے شامل تھے باقی تمام ملک قصبات اور دیہات سے بھرا پڑا تھا، شعرا عموماً انہی دیہاتوں کے باشندے تھے لیکن چند شاعر شہروں میں بھی پیدا ہوئے ان سب میں حضرت حسانؓ کو بالاجماع فوقیت حاصل ہے۔ [19]

خصوصیات شاعری[ترمیم]

شعر کے اگرچہ مختلف اصناف اور قسمیں ہیں؛لیکن ان میں اصولی حیثیت صرف چار کو حاصل ہے رغبت، رہبت، طرب ،غضب، چنانچہ رغبت میں مدح، شکر، رہبت میں معذرت، طلب رافت، طرب میں شوق تغزل اور غضب میں ہجو، عتاب و حشم داخل ہیں، [20] حضرت حسان بن ثابت کا کلام ان میں سے ہر رنگ میں موجود ہے،اگرچہ ہجو کا رنگ ان سب سے زیادہ تندو تیز ہے خصوصیات شاعری حسب ذیل ہیں:
1-جدت استعارات: اگرچہ عربوں کی شاعری تمدن کی پروردہ نہیں تھی؛ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تمدن سے متاثر ضرور تھی ،تمدن عرب کی حقیقی صبح صادق قرآن مجید اور آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات سے طلوع ہوئی ،قرآن مجید فصاحت و بلاغت کا سب سے بڑا معجزہ ہے اس نے بڑے بڑے زبان آوردوں کو اپنے سامنے خاموش کر دیا تھا، اس بنا پر جو شاعر مذہب اسلام میں داخل ہوئے ان میں فصاحت وبلاغت کی ایک نئی روح پیدا ہوئی، حضرت حسان بن ؓثابت ان میں سے سب سے زیادہ تھے۔ قرآن مجید میں صحابہؓ کی تعریف میں لکھا ہے کہ "سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ" حسانؓ بن ثابت اس کو استعارہ بنا کر حضرت عثمانؓ بن عفان کے قاتلین کا ذکر کرتے ہیں: نحوا باشمط عنوان السجود بہ یقطع اللیل تسبیحاوقرآن [21]
لوگوں نے اس کچے پکے بالوں والے کی قربانی کردی جس کی پیشانی میں سجدہ کا نشان تھا اور تمام رات تسبیح وقرآن خوانی میں گزارا تھا۔ دیکھو اس شعر میں چہرہ کو"عنوان السجود بہ" کے لفظ سے تعبیر کیا ہے جو بالکل جدید استعارہ ہے۔
2-اشارہ کی لطافت: اشارہ کی ایک قسم نبتیع یا تجاوز ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ شاعر کسی چیز کا ذکر کرنا چاہتا ہے،لیکن پھر اس سے عمداً گریز کرتا ہے اور ایک ایسی صفت بیان کرتا ہے جس میں وہ چیز بھی صاف طور پر جھلکتی نظر آتی ہے۔ عرب میں سینکڑوں قبیلے صحراؤں اور بیابانوں میں اقامت گزین تھے جو ہمیشہ خانہ بدوش پھرا کرتے تھے،جہاں کہیں پانی مل جاتا وہاں قیام کرتے تھے اور جب ختم ہو جاتا تو کسی اور طرف رخ کر دیتے ،شاعروں نے اس مضمون کو مختلف طور سے باندھا ہے، لیکن حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس طرز سے ادا کیا ہے،وہ بالکل اچھوتا اور نہایت ہی لطیف ہے:
اولا رجفنۃ حول قبرا بینھم قبر ا بن ماریتہ الکریم المفصل جفنہ کی اولاد اپنے باپ ابن ماریہ کی قبر کے گرد رہتی ہے جو نہایت سخی اور فیاض تھا ،ممدوح چونکہ عرب کی نسل سے تھا ،اس بنا پر اس کی تعریف کے ساتھ ایک ملیح اشارہ کر دیا کہ یہ لوگ خانہ بدوش نہیں ؛بلکہ بادشاہ ہیں اوربے خوف وخطر اپنے باپ کی قبر کے ارد گرد رہتے ہیں، ان کا مقام سکونت نہایت سر سبز و شاداب ہے اس بنا پر ان کو مارے مارے پھرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
3- کنایہ کی بداعت:عرب شاعر بعض صفات کو کنایہ اور تعریض کی شکل میں پیش کرتا ہے؛ مثلاً اگر کہنا ہوکہ ممدوح نہایت ذی رتبہ اور فیاض ہے تو وہ کہے گا "المجد بین ثوبیہ والکرام فی برویہ" یعنی یہ اوصاف اس کے کپڑوں کے اندر ہیں، حضرت حسانؓ بن ثابت اس کو بالکل نئے انداز سے ادا کرتے ہیں:
بنی المجد بیتا فاستقرت عمارہ علینا فاعی الناس ان تیحولا مقصود یہ ہے کہ ہم نہایت بلند رتبہ ہیں، اس کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ مجدد بزرگی نے ہمارے ہاں ایک گھر بنایا ہے اور اس کے ستون اس قدر مضبوط گاڑے ہیں کہ لوگ ہٹانا چاہیں تو نہیں ہٹا سکتے اس میں مجدد کا ایک گھر بنانا، پھر اس کے ستون اپنے یہاں قائم کرنا اور لوگوں کا ان کو ہٹانہ سکنا، یہ بالکل جدید انداز بیان ہے۔
4- وزن کی خوبی: اس کا مدعایہ ہے کہ وزن کے لحاظ سے ہلکا ہو، ذیل کے اشعار کس درجہ سبک اور ڈھلے ہوئے نکلے ہیں: ما هَاجَ حسَّانَ رُسُومُ المُقَامْ وَمَظْعَنُ الحيِّ وَمَبْنى الخِيامْ والنُّؤْيُ قد هدَّمَ أعْضَادَهُ تقَادُمُ العَهْدِ بِوَادِ تِهامْ قَدْ أدْرَكَ الوَاشُونَ ما أمَّلُوا وَالحبْلُ مِنْ شَعْثاءِ رَثُّ الرِّمَامْ كأَنَّ فَاهاً ثَغَبٌ بَارِدٌ في رصَفٍ تَحْتَ ظِلالِ الْغَمَامْ [22]
5- قافیہ کی خوبی:اس میں الفاظ کی نشست ،جملوں کی ترکیب اور کلام کی سلاست وروانی کے ساتھ ساتھ یہ صفت ہوتی ہے کہ بیت اول کے پہلے مصرع کا مقطع قصیدہ کا قافیہ بن سکتا ہے۔ اس میدان کا مرد صرف امرء القیس ہے، تاہم اور شاعروں نے بھی کوشش کی ہے حضرت حسانؓ بن ثابت نے ایک قصدیدہ لکھا ہے جس کا مطلع یہ ہے: ألم تَسْأَل الرَّبْعَ الْجَدِيدَ التَكَلُّمَا بِمَدْفَعِ أشداَخ ٍفبُرْقَةِ أظلَمَا [23] اس کے بعد کا یہ شعر ہے۔ أبَى رسمُ دارِ الحيِّ أنْ يتكلمَا وهلْ ينطقُ المعروفَ من كانَ أبكَمَا [24]
6- الفاظ کا حاوی اور جامع ہونا: اس کے یہ معنی ہیں کہ شاعر ایک مفہوم ادا کرتا ہے جس میں وہ تمام چیزیں بیان کردیتا ہے جس میں اس مفہوم کے پورے طور پر ادا ہونے کو دخل ہے ؛مثلا یہ شعر: لم تفتهَا شمسُ النهار بشيءٍ غيرَ أن الشبابَ ليسَ يدومُ [25]
7- قلت مبالغہ: حضرت حسانؓ بن ثابت کی عہد اسلام کی شاعری مبالغہ سے بالکل خالی ہے ظاہر ہے کہ جو شعر مبالغہ سے خالی ہوا وہ بالکل پھیکا اوربے مزہ ہوگا وہ خود کہتے ہیں کہ اسلام جھوٹ سے منع کرتا ہے، اس بنا پر میں نے افراط کو کہ جھوٹ کی ایک قسم ہے بالکل چھوڑدیا ہے۔ [26]
جاہلیت کی شاعری میں بھی مبالغہ کا کم عنصر شامل تھا، نابغہ نے ان کے حسب ذیل شعرمیں اسی نقطۂ خیال سے نکتہ چینی کی ہے: لنا الجَفْنَاتُ الغُرُّ يلمعنَ بالضُّحَى وأَسْيَافُنَا يَقْطُرْنَ مِن نَجْدَةٍ دَمَا [27] اس کے نزدیک "غر" کی بجائے بیض،"ضحی" کے جگہ وحی اور "یقطرن" کے مقام پر "بجرین" کہنا چاہیے تھا۔ لیکن دراصل یہ خیال صحیح نہیں کیونکہ حضرت حسانؓ کو شعر میں پیالوں کی سفیدی بیان کرنا مقصود نہیں ؛بلکہ صرف شہرت اورنباہت کا اظہار مد نظر ہے اور غر سے مشہور چیز کا نام لینا تمام عرب میں عام تھا؛ مثلا یوم اغر، اوریدغرا وغیرہ۔
اسی طرح "ضحی" کی بجائے "دجی"صحیح نہیں ،کیونکہ دن میں وہی چیزیں زیادہ چمکتی ہیں جن کی روشنی نہایت تیز اور شدید ہو اور رات کو ہر چھوٹی اور دھندلی چیز نمایاں ہوجاتی ہے،مثلا ستارے کہ دن کو بھی موجود رہتے ہیں، لیکن ان کی روشنی آفتاب کی وجہ سے ماند رہتی ہے یا چراغ تاریکی میں درندوں کی آنکھیں تک چمک اٹھتی ہیں اور ایک قسم کی مکھی جس کو عربی میں براع اور فارسی میں کمنچہ کہتے ہیں بالکل آگ کا شعلہ معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح یقطرن کے جگہ بحیرین ،محاورہ عرب کے خلاف ہے عرب میں جب کسی بہادر اور جانباز کی تعریف کی جاتی ہے تو کہتے ہیں سیفہ یقطر دما، یہ کوئی نہیں کہتا کہ سیفہ دما بجری۔
[28]

قصیدہ[ترمیم]

اردو ترجمہ:

میرے آقا میرے مولا، میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ​


جہاں میں‌ ان سا چہرہ ہے نہ ہے خندہ جبیں کوئی
ابھی تک جن سکیں نہ عورتیں ان سا حسین کوئی​


نہیں رکھی ہے قدرت نے میرے آقا کمی تجھ میں
جو چاہا آپ نے مولا وہ رکھا ہے سبھی تجھ میں​

میرے آقا میرے مولا، میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ​

بدی کا دور تھا ہر سو جہالت کی گھٹائیں تھیں
گناہ و جرم سے چاروں طرف پھیلی ہوائیں تھیں​


خدا کے حکم سے نا آشنا مکے کی بستی تھی
گناہ و جرم سے چاروں طرف وحشت برستی تھی​


خدا کے دین کو بچوں کا ایک کھیل سمجھتے تھے
خدا کو چھوڑ کر ہر چیز کو معبود کہتے تھے​


وہ اپنے ہاتھ ہی سے پتھروں کے بُت بناتے تھے
انہی کے سامنے جھکتے انہی کی حمد گاتے تھے​


کسی کا نام "عُزی" تھا کسی کو "لات" کہتے تھے
"ہُبل" نامی بڑے بُت کو بتوں کا باپ کہتے تھے​


اگر لڑکی کی پیدائش کا ذکر گھر میں سن لیتے
تو اُُس معصوم کو زندہ زمیں میں دفن کر دیتے​


پر جو بھی بُرائی تھی سب ان میں‌ پائی جاتی تھی
نہ تھی شرم و حیا آنکھوں‌ میں گھر گھر بے حیائی تھی​


مگر اللہ نے ان پر جب اپنا رحم فرمایا
تو عبد اللہ کے گھر میں خدا کا لاڈلا آیا​


عرب کے لوگ اس بچے کا جب اعزاز کرتے تھے
تو عبد المطلب قسمت پر اپنی ناز کرتے تھے​


خدا کے دین کا پھر بول بالا ہونے والا تھا
محمد سے جہاں میں پھر اُجالا ہونے والا تھا​

میرے آقا میرے مولا، میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ​

فرشتہ ایک اللہ کی طرف سے ہم میں حاضر ہے
خدا کے حکم سے جبرئیل بھی اک فرد لشکر ہے​


سپہ سالار اور قائد ہمارے ہیں رسول اللہ
مقابل ان کے آؤ گے ملے گی ذلت کُبری​


ہمیں فضل خدا سے مل چکی ایماں‌ کی دولت ہے
ملی دعوت تمھیں پر سر کشی تم سب کی فطرت ہے​


سنو اے لشکر کفار ہے اللہ غنی تم سے
لیا تعمیر زمیں کا کام ہے اللہ نے ہم سے​


لڑائى اور مدح و ذم میں بھی ہم کو مہارت ہے
قبیلہ معاذ سے ہر روز لڑنا تر سعادت ہے​


زبانی جنگ میں شعر و قوافی خوب کہتے ہیں
لڑائی جب بھی لڑتے ہیں‌ لہو دشمن کے بہتے ہیں​

میرے آقا میرے مولا، میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ​

محمد کے تقدس پر زبانیں جو نکالیں گے
خدا کے حکم سے ایسی زبانیں کھینچ ڈالیں گے


کہاں رفعت محمد کی کہاں تیری حقیقت ہے
شرارت ہی شرارت بس تیری بے چین فطرت ہے​


مذمت کر رہا ہے تُو شرافت کے مسیحا کی
امانت کے دیانت کے صداقت کے مسیحا کی​


اگر گستاخ ناموس احمد کر چکے ہو تم
تو اپنی زندگی سے قبل ہی بس مر چکے ہو تم​


میرا سامان جان و تن فدا ان کی رفاقت پر
میرے ماں باپ ہو جائیں نثار ان کی محبت پر​
زبان رکھتا ہوں ایسی جس کو سب تلوار کہتے ہیں
میرے اشعار کو اہل جہاں ابحار کہتے ہیں​

میرے آقا میرے مولا، میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ​

اہل و عیال[ترمیم]

حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کا نام سیرین رضی اللہ عنہا تھا جو ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حرم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ہمشیرہ تھیں ان سے عبد الرحمن نامی ایک لڑکا پیدا ہوا، اس بنا پر عبد الرحمن ابراہیم بن رسول اللہ حقیقی خالہ زاد بھائی تھے۔[29]

اخلاق و عادات[ترمیم]

ان کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ وہ دربار نبوی کے شاعر تھے اور آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے کفار کی مدافعت میں اشعار کہتے تھے اور آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی کہ خدایا روح القدس سے ان کی مدد کر، اس بنا پر بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کو خاص تقرب حاصل تھا۔ طبیعت کی کمزوری کے باوجود اخلاقی جرأت موجود تھی، ایک مرتبہ مسجد نبوی میں شعر پڑھ رہے تھے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منع کیا تو جواب دیا کہ میں تم سے بہتر شخص کے سامنے پڑھا کرتا تھا۔[30] [31]

وفات[ترمیم]

آنحضرت کے بعد عرصہ تک زندہ رہے 110 برس کی عمر تھی،۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے 50ھ یا 54ھ میں وفات پائی۔

مکان[ترمیم]

جیسا کہ ہم اوپر لکھ چکے ہیں ان کا آبائی مسکن ، فارع کا قلعہ تھا؛ لیکن جب ابو طلحہؓ نے بیر حا کو صدقہ کرکے اپنے اعزہ پر تقسیم کر دیا اور ان کے حصہ میں بھی ایک باغ آیا تو یہاں سکونت اختیار کرلی یہ مقام بقیع سے قریب تھا، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس سے خرید کر کے یہاں ایک قصر بنوایا تھا جو قصر بنی حدیلہ کے نام سے مشہور تھا۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان کو یہ زمین نبی کریم نے اس صلہ میں دی تھی کہ انھوں نے صفوان بن معطل کا وار برداشت کیا تھا، لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ اول تو وہ کبھی میدان جنگ میں شریک نہیں ہوئے، دوسرے خود اس روایت کی سند مشتبہ ہے، ہم نے جو کچھ لکھا ہے اس کی تائید صحیح بخاری سے ہوتی ہے۔

فضل و کمال[ترمیم]

آنحضرت صل اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے چند حدیثیں روایت کی ہیں،راویوں میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ، سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، عروہ بن زبیر، رضی اللہ عنہ ابو الحسن مولی بنو نوفل، خارجہ بن زید بن ثابت یحییٰ بن عبد الرحمن بن حاطب اور دیگر حضرات ہیں۔

دفاعی نظمیں[ترمیم]

حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اسلامی شاعری کا موضوع مدافعت عن الدین یا ہجو کفار ہے، انھوں نے بہت سے کفار کی ہجو لکھی ہے؛لیکن اس کے باوجود ان کا کلام فحاشی سے بالکل پاک ہے عربوں کے نزدیک ہجو کی غرض محض اپنے قبیلہ کی مدافعت ہوتی تھی، اس بنا پر وہ اپنے اشعار صحیح واقعات میں نہایت موزوں اور مناسب پیرایہ میں نظم کرتے ہیں؛ چنانچہ رہیر نے تجاہل کے طور پر یہ اشعار لکھے:

وما ادری وسوف اخال ادری اقوم آل حصن ام نساء

مجھے معلوم نہیں اور عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ آل حصن مرد ہیں یا عورت

فان تکن النساء نحئبات فحق لکل محصنۃ ھداء اگر عورتیں ہیں تو ان کو ہدیہ کرنا چاہیے

لوگوں کو نہایت گراں گذرا کہ عرب میں سب سے سخت ہجو لکھی گئی تھی۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہجو سب دشتم پر مشتمل نہ تھی؛ بلکہ مدافعت تھی اور وہ بھی بطریق احسن و بہ پیرایہ مناسب، صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں: فكان حسان وكعب يعارضانهم، مثل قولهم في الوقائع والأيام والمآثر، ويذكرون مثالبهم[32] یعنی حسان و کعب مشرکین کی رزمیہ اور فخریہ نظموں کا جواب دیتے تھے اور ان کے شالب کا تذکرہ کرتے تھے۔

حضرت حسانؓ بن ثابت نے ہجو گوئی اس طرح شروع کی کہ مشرکین میں ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب، عبداللہ بن زبعری، عمرو بن عاص، ضراء بن خطاب، آنحضرت کی ہجو کرتے تھے، لوگوں نے حضرت علیؓ ؓ سے درخواست کی کہ آپ ان کے جواب میں ہجو لکھیں، فرمایا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہو تو میں آمادہ ہوں، آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ہوئی تو فرمایا ‘ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کام کے لیے موزوں نہیں، اس کام کو انصار کریں گے جنھوں نے تلوار سے میری مدد کی ہے، حضرت حسانؓ نے زبان پکڑ کر کہا میں اس کام کے لیے بخوشی آمادہ ہوں۔ ارشاد ہوا کہ قریش کی ہجو کس طرح کرو گے حالانکہ میں بھی انہی میں سے ہوں ،عرض کیا: لأسلنك منهم كما تسل الشعرة من العجي[33]

میں آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح نکالوں گا جیسے آٹے سے بال نکالا جائے۔

فرمایا تو تم نسب ناموں میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مدد لینا ان کو قریش کے نسب میں اچھی واقفیت ہے۔ [34] حضرت حسان بن ؓثابت،حضرت ابوبکرؓ صدیق کے پاس جاتے اور ان سے دریافت کرتے تھے ، حضرت ابوبکرؓ صدیق بتاتے کہ فلاں فلاں عورتوں کو چھوڑ دینا یہ رسول اللہ کی دادیاں ہیں، باقی فلاں فلاں عورتوں کا تذکرہ کرنا، ابو سفیان بن حارث کی ہجو میں یہ اشعار لکھے: وأن سنام المجد من آل هاشم بنو بنت مخزوم ووالدك العبد. ومن ولدت أبناء زهرة منهم كرام ولم يقرب عجائزك المجد. ولست كعباس ولا كابن أمه ولكن لئيم لا يقام له زند. وأن امرأ كانت سمية أمه وسمراء مغموز إذا بلغ الجهد. وانت بین نیط فی آل ھاشم کما نیط خلفت الراکب القدح الفرد [35] تو بولا کہ ان شعروں میں ابوبکرؓ صدیق کا حصہ ضرور ہے، اس میں انھوں نے حضرت عبد اللہ ادحاب، زبی ، حضرت حمزہ ، حضرت صفیہؓ ، حضرت عباسؓ اور ضراء بن عبدالمطلب کو مستثنیٰ کرکے ابو سفیان کی ماں سمیہ اور اس کے باپ حارث کی ماں سمراء پر طنز کیا ہے۔ [36] اسی ابو سفیان کی ہجو میں کہتے ہیں: هجوت محمداً فأجبت عنه ... وعند الله في ذاك الجزاء هجوت مطهراً براً حنيفاً ... أمين الله شيمته الوفاء أتهجوه ولست له بكفء ... فشركما لخيركما الفداء فإن أبي ووالدتي وعرضي ... لعرض محمد منكم وقاء [37] آنحضرت اس مدافعت سے نہایت خوش ہوتے تھے ایک مرتبہ فرمایا: حسان اجب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم اللهم ايده بروح القدس [38] اے حسان میری طرف سے جواب دے،خداوندا روح القدس کے ذریعہ اس کی تائید کی۔ ایک مرتبہ ارشاد ہوا: اهْجُهُمْ أَوْ قَالَ هَاجِهِمْ وَجِبْرِيلُ مَعَكَ [39] یعنی تم نے مشرکین کی ہجو کو جبریل تمھارے ساتھ ہیں۔ مشرکین پر ان شعروں کا جو اثر پڑتا تھا، اس کو آنحضرت نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: إن قوله فيهم أشد من وقع النبل [40] حسان کا شعر ان میں تیر و نشتر کا کام کرتا ہے اب ہم ہجو کے چیدہ اشعار لکھتے ہیں: أتهجوه ولست له بندٍّ فشركما لخير كما الفداء [41] تو باایں ہمہ کہ آنحضرت کا کفو نہیں ان کی ہجو کرتا ہے پس تم میں کا برا اچھے پر قربان ہے۔ اس شعر کا اخیر مصرع اس قدر مقبول ہوا کہ ضرب المثل کے طور پر مستعمل ہوتا ہے واشھد ان لک من قریش کال السقب من ولد النعام میں جانتا ہوں کہ تیری قرابت قریش سے ہے ؛لیکن اس طرح جیسے اونٹ کے بچہ کی شتر مرغ کے بچہ سے ہوتی ہے۔ ابن مضرغ نے انہی کا پہلا مصرع اڑا کر امیر معاویہؓ کی ہجو لکھی تھی۔ واشھد ان الک من زیار [42] وأُمُّكَ سَوْدَاءُ مَوْدُونَة ٌ كَأنّ أنَامِلَهَا الحُنْظُبُ [43] تیری ماں کالی حبشن ہے اور بے انتہا پست قد ہے اور پورگویا حنظب(ایک چھوٹا جانور ہے) ہیں۔ [44]

مدح[ترمیم]

مدح اچھی لکھتے تھے،آل عنان کی تعریف میں جو اشعار لکھے ہیں ان میں سے بعض ہم اس مقام پر نقل کرتے ہیں: یسقون من ورد البریض علیھم یردی یصفق بالرحیق السلسل جو ان کے ہاں جاتا ہے وہ اس کو بردی (نہر کا نام ہے) کا پانی صاف شراب میں ملاکر پلاتے ہیں۔ مصعب بن زبیر کی مدح میں ابن قیس نے ایک شعر اسی کے قریب قریب کیا ہے؛ لیکن جو مضمون اس میں ادا ہوا ہے اس میں نہیں ادا ہوا۔ [45] اسی طرح یہ شعر یغشون حتی ماتھم کلابھم لا یسلون عن السوار القبل اس بات میں اختلاف ہے کہ مدح کا سب سے بہتر شعر کون ہے 3 شاعروں کے تین شعر اس باب میں سب سے بہتر ہیں؛ لیکن ان میں بھی ترجیح کس کو ہے یہ امرناقابل انفصال ہے،حطیہ حضرت حسانؓ کے شعر کو ترجیح دیتا ہے اور لوگ ابو الطحان اور نابغہ کے شعروں کو بہتر بتاتے ہیں[46] عبد الملک بن مروان کہ اہل زبان اورزبان کا حاکم تھا،اس کا فیصلہ یہ ہے کہ إن أمدح بيت قالته العرب بيت حسان هذا [47] اگر مضمون کے لحاظ سے دیکھا جائے تو واقعی عجیب جدت ہے، شاہان غسان کے جودو سخا کو اس پیرایہ میں بیان کرتے ہیں کہ ان کے یہاں مہمانوں کی اتنی کثرت رہتی ہے کہ کتے تک مانوس ہو گئے ہیں اوران کو دیکھ کر نہیں بھونکتے۔ یہ جاہلیت کے اشعار تھے،۔ آنحضرت ﷺ کی مدح میں جو شعر لکھے ہیں اب ان کو بھی سننا چاہیے: متى يبد في الداجي البهيم جبينه يلح مثل مصباح الدجى المتوقد جب آنحضرت کی پیشانی اندھیری رات میں نظر آتی ہے تو اس کی چمک نہایت روشن چراغ کی طرح ہوتی ہے۔ فمن كان أو من قد يكون كأحمد نظام لحق أو نكال لملحد پس آنحضرت کا مثل کہ حق کا نظام اور ملحد کو عذاب جان ہیں، کون پیدا ہوا اور کون آیندہ ہو سکتا ہے۔ حضرت عائشہؓ صدیقہ نے ایک مرتبہ آنحضرت کا ذکر کیا تو فرمایا کہ آپ ایسے ہی تھے جیسا کہ حسانؓ بن ثابت نے کہا ہے۔ [48] آنحضرت مسجد نبوی میں منبر رکھوا دیتے تھے،حضرت حسانؓ اس پر کھڑے ہوکر رسول اللہ کی مدح کرتے تھے اورآپ نہایت مسرور ہوتے تھے۔ [49] جب بنو تمیم کا وفد آیا اورحسانؓ نے قریش کی مدح میں شعر پڑھے تو سب کے سب بول اٹھے کہ محمد کا خطیب ہمارے خطیب سے اوران کا شاعر ہمارے شاعر سے بہتر ہے۔[50]

افتخار[ترمیم]

حصان رزان ما ترن بريبة وتصبح غرثى من لحوم الغوافل [51] یہ شعر حضرت عائشہؓ صدیقہ کی مدح میں ہے ان کو سنایا تو بولیں خیر میں تو ایسی ہوں؛ لیکن تم ایسے نہیں۔ [52] حسب ذیل اشعار فخر میں ہیں: أهدى لهم مدحاً قلب مؤازره فيما أحب لسان حائك صنع [53] میں ممدوح کی ایسی مدح کرتا ہوں جس میں قلب کی اعانت شامل ہوتی ہے اور جس کو شعر کی درست کرنے والی اور ماہر زبان پسند کرتی ہے۔ اس میں انھوں نے زبان کو صنعت کلام کا ماہر قرار دیا ہے: إليك أرحنا عازب الشعر بعدما تمهل في روض المعاني العجائب ممدوح کے پاس وہ شعر بھیجے ہیں جو نہایت بعید المعنی ہیں اور جو معانی کے گلشن میں قیام کرچکے تھے۔ غرائب لاقت في فنائك أنسها من المجد فهي الآن غير غرائب جو نوادر تھے تمھارے ہاں عزت سے ایسے مانوس ہوئے کہ اب اجنبی نہیں رہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ میرے اشعار نہایت بلندی معنی رکھتے ہیں اوران کو اکابر شعرا کے علاوہ دوسرا شخص نہیں باندھ سکتا ہے یہ ممدوح کی قدر دانی ہے جو اس کی مدح میں شعر نکلتے ہیں ورنہ وہ گلستان معانی میں مقیم ہو گئے ہیں کیوں کہ کسی کو اپنا اہل نہیں پاتے۔ وقافِيَةٍ مِثْلِ السِّنَانِ رُزِئْتُها تَنَاوَلْتُ من جُوِّ السماءِ نُزُولَهَا اور ایک قافیہ جو تیرکی طرح ہے کیا خوب ہے آسمان سے اس کو اڑا لایا ہوں۔ [54]

مرثیہ[ترمیم]

حضرت حسانؓ بن ثابت نے مرثیے لکھے ہیں جن کا ہرہر شعر یکسر سوزوگداز ہے، آنحضرت کے مرثیے ہم اوپر نقل کر چکے ہیں یہاں ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔

اخلاقی نظمیں[ترمیم]

ایک تجربہ کار شاعر، ایک سن رسیدہ بزرگ اور سب سے بڑھ کر ایک مقدس صحابی ہونے کی حیثیت سے حضرت حسانؓ بن ثابت کا موضوع شاعری،وعظ وپند اور اعلیٰ اخلاق کی طرف قوم کو رغبت دلاتا ہے؛ چنانچہ ادب کے متعلق فرماتے ہیں: [55] أصونُ عرضي بمالي لا أدنسهُ لا بَارَكَ اللَّهُ بعدَ العِرْضِ في المالِ میں اپنی آبرو مال کے ذریعہ سے بچاتا ہوں جس مال سے آبرو نہ حاصل ہو وہ اچھا نہیں۔ أحتالُ للمالِ، إن أودى فأجمعهُ ولسْتُ لِلعِرْضِ إن أوْدَى بمُحتالِ مال اگر نہ رہے تو پھر حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن آبرو بار بار حاصل نہیں ہو سکتی۔ نرم وگرم ہونے کے متعلق کہتے ہیں۔ وإني لحلوٌ تعتريني مرارة ٌ وإني لتراكٌ لما لمْ أعودِ [56] میں شیریں ہوں لیکن مجھے تلخی پیش آجاتی ہے اور میں جس چیز کا عادی نہیں اس کو چھوڑ دیتا ہوں ظلم کا انجام برا ہوتا ہے۔ ودعِ السؤالَ عن الأمورِ وبحثها فَلَرُبّ حافِرِ حُفرَة ٍ هُوَ يُصْرَعُ ہم کسی بات کو کھود کرید کر نہیں پڑتے کیونکہ گڑھا کھود نے والا بسا اوقات اسی میں پچھاڑا جاتا ہے۔ آدمی کو ہمیشہ ایک سا رہنا چاہیے امیر ہو کر آپے سے باہر اور غریب ہو کر غمگین نہ ہونا چاہیے۔ فلا المالُ ينسيني حيائي وعفتي ولا واقعاتُ الدهرِ يفللنَ مبردي [57] مال ہوتا ہے تو حیا اور حفاظت کو ہاتھ سے نہیں دیتا اور مصیبت آتی ہے تو آرام میں خلل نہیں ڈالتا ہے۔ اپنی موت کو بلانا۔ ولا تكُ كالشاة ِ التي كانَ حتفها بحفرِ ذراعيها، فلمْ ترضَ محفرا [58] تم اس بکری کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنے کھر سے زمین کھود کر موت بلائی تھی۔ بڑے لوگوں کے کینو ں اور بعض کی حالت وَقَوْمٌ مِنَ البَغْضَاء زَوْرٍ، كأنّمَا بأجْوَافهِمْ، مما تُجِنُّ لنَا، الجَمْرُ [59] بہت سے آدمیوں کے پیٹ میں انگارے بھرے رہتے ہیں۔ يَجِيشُ بما فِيهِ لَنَا الصّدْرُ مِثْلَ ما تجيشُ بما فيها من اللهبِ القدرُ ان کے اندر کینے اس طرح جوش مارتے ہیں جس طرح انگارے پر دیگ کا کھانا تَصُدُّ،إذا ما وَاجهتْني، خُدودُهُم لدى محفلٍ عني كأنهمُ صعرُ تم جب محفلوں میں ان کے متکبرانہ چہرے دیکھتے ہو تو ٹھٹھک کر رہ جاتے ہو۔ بات کا پورا کرنا۔ وإني إذا ما قلتُ قولاً فعلتهُ وأعرضُ عما ليسَ قلبي بفاعلِ میں جب کوئی بات کہتا ہوں تو کر گذرتا ہوں اور جس کام کو دل نہیں چاہتا اس سے اعراض کرتا ہوں۔ ومن مكرهي إن شئتُ أن لا أقولهُ وفجعُ الأمينِ شيمة ٌ غيرُ طائلِ اگر میں نہ کہوں تو کوئی زبردستی کرنے والا نہیں اور دوست کا کسی بات سے روکنا بیکار نہیں ہوتا۔ عذر اورخیانت کی برائی۔ يَا حَارِ مَنْ يَغْدِرْ بِذِمّة ِ جَارِهِ منكمْ، فإنّ محمداً لمْ يغدرِ اے پڑوسی! تم میں جو ہمسایہ ہے دھوکا کرتا ہے،سن لے کہ محمد دھوکا نہیں کرتے۔ إنْ تغدروا فالغدرُ منكم شيمة ٌ والغدرُ ينبتُ في أصولِ السخبرِ اگر تم دھوکا کرتے ہو تو وہ تمھارا شیوہ ہے دھوکا سنجر کی جڑوں سے نکلتا ہے وأمانة ُ المريّ، حيثُ لقيتهُ مثلُ الزجاجة ِ صدعها لمْ يجبرِ مری کی امانت تم جہاں پاؤ،اس شیشے کی طرح ہوگی جس کا شگاف درست نہیں ہو سکتا بری باتوں سے درگزر أعْرِضْ عن العَوْراء إنْ أُسْمِعتَها واقعدْ كأنكَ غافلٌ لا تسمعُ بری بات سن کر اعراض کیا کرو اس طرح کہ تم نے اس کو سنا ہی نہیں۔ ذلت کی زندگی بسر کرنا۔ كرهوا الموتَ فاستبيحَ حماهمْ وأقاموا فِعْلَ اللّئيمِ الذّليلِ انھوں نے موت کو ناپسند کیا اس بنا پر ان کی آبروریزی ہوئی أمنَ الموتِ ترهبونَ؟ فإنّ الموت موتَ الهزالِ غيرُ جميلِ اگر تم موت سے بھاگتے ہو تو کمزوری کی موت اچھی نہیں ہوتی۔ [60]

متفرق چیدہ کلام[ترمیم]

حضرت حسانؓ بن ثابت کے متفرق چیدہ اشعار حسب ذیل ہیں: قومٌ إذا حاربوا ضروا عدوهمُ أوْ حاوَلُوا النّفْعَ في أشياعِهِمْ نَفعوا سجية ٌ تلكَ منهمْ غيرُ محدثة إنّ الخلائِقَ، فاعلَمْ، شرُّها البِدَعُ علم معانی میں بدیع کی ایک قسم نہایت لطیف ہے جو بالکل وجدانی ہے وہ یہ کہ کلام کے تمام اجزا متحد اور ایک دوسرے میں داخل ہوں،ہر لفظ کا ربط نہایت شدید ہو، یہاں تک کہ پورا جملہ موتی کی ایک لڑی معلوم ہو،مذکورہ بالا شعراسی صفت کا ہے اوراس میں تقسیم نے اور بھی لطف زیادہ کر دیا ہے۔[61] وَإنّ سَنَامَ المَجْدِ مِن آلِ هاشِمٍ بَنُو بنتِ مخزومٍ، وَوَالدُكَ العَبْدُ مقصود یہ ہے جس کی ہجو کی ہے اس کو غلام ثابت کریں اوریہ بیان کرے کہ اس کا غلام ہونا سب پر روشن ہے اس کو "العبد" کے الف لام نے ظاہر کر دیا ہے اگر والدک عبد کہتے تو صرف خبر معلوم ہوتی، غلامی کا آشکار ا ہونا سمجھ میں نہ آسکتا۔ [62] اھری حدیث الند مان فی فلق الصبح و مرت المغررالغرر یہ شعر اس درجہ موثر ہے کہ بعض اہل مدینہ کا بیان ہے کہ میں جب پڑہتا ہوں،جذبات شجاعت برانگیختہ ہوجاتے ہیں۔ [63]

دیوان[ترمیم]

حضرت حسانؓ کے اشعار عرصہ تک لوگوں کی زبانوں اور سینوں میں محفوظ رہے؛ لیکن بعد میں زینت دہ سفینہ بھی ہو گئے،ابو سعید سکری نے ان کو جمع کرکے ان کی تشریح کی اصابہ میں اس کے حوالے جا بجا موجود ہیں، [64] بعد میں کسی دوسرے شخص نے اس کی شرح لکھی ،ان کا دیوان ہندوستان اور تونس میں طبع ہوا، 1910ء میں انگلستان کے مشہور ادارے گپ میموریل سیرز، نے لندن، برلن ،پیرس اورسینٹ پڑ سبرگ کے متعدد قلمی نسخوں و نیز مطبوعہ نسخوں سے مقابلہ کرکے بڑے اہتمام سے اس کو چھاپا۔ لیکن باایں ہمہ اس کی صحت کے متعلق قطعی رائے نہیں دی جا سکتی،احادیث ،لغت اور ادب کی کتابوں میں جو اشعار منقول ہیں وہ بے شبہ صحیح ہیں،باقی اشعار کے متعلق اطمینان مشکل ہے۔ حضرت علیؓ کے د یوان میں پہلا شعر الناس فی صورۃ الشہ افکاء ایوھم آدم والام حراء ہے لیکن عبدالقاہر جرجانی کہ ادب کے امام اور حلم معانی وبیان کے موجد تھے اسرار البلاغۃ میں لکھتے ہیں کہ یہ اشعار محمد بن ربیع موصلی کے ہیں۔ [65] دیوان حسانؓ کو بھی اسی پر قیاس کیجئے،صاحب الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب لکھتے ہیں۔ قال الأصمعي حسان بن ثابت أحد فحول الشعراء فقال له أبو حاتم تأتي له أشعر لينة فقال الأصمعي تنسب إليه أشياء لا تصح عنه [66] اصمعی نے کہا کہ حسان نہایت زبردست شاعر تھے ،ابو حاتم بولے بعض اشعار تو بہت کمزور کہتے تھے،اصمعی نے کہا کہ بہت سے شعر ان کے نہیں ؛بلکہ لوگوں نے ان سے منسوب کر دیے۔ اصمعی دوسری صدی ہجری میں تھا اور تیسری صدی میں انتقال کیا، جب تیسری صدی میں اس قدر آمیزش ہو گئی تھی تو 13 صدیاں گذرنے پر خدا جانے کتنے انقلاب ہوئے ہوں گے۔

اخلاق و عادات[ترمیم]

ان کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ وہ دربار نبوی کے شاعر تھے اور آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے کفار کی مدافعت میں اشعار کہتے تھے اور آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی کہ خدایا روح القدس سے ان کی مدد کر،اس بنا پر بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کو خاص تقرب حاصل تھا ۔ طبیعت کی کمزوری کے باوجود اخلاقی جرأت موجود تھی،ایک مرتبہ مسجد نبوی میں شعر پڑھ رہے تھے،حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منع کیا تو جواب دیا کہ میں تم سے بہتر شخص کے سامنے پڑھا کرتا تھا۔ [67] جاہلیت میں شراب پیتے تھے؛ لیکن جب سے مسلمان ہوئے قطعی پرہیز کیا، ایک مرتبہ ان کے قبیلہ کے چند نوجوان مے نوشی میں مصروف تھے، حسانؓ نے دیکھا تو بہت لعنت ملامت کی جواب ملا یہ سب آپ ہی کا فیض ہے آپ کا شعر ہے۔ ونشر بھا تمتر کنا ملوکا واسد اما نیھنھنا القاء ہم اسی کے بموجب پیتے ہیں،فرمایا یہ جاہلیت کا شعر ہے ،خدا کی قسم جب سے مسلمان ہوا شراب منہ نہیں لگائی۔ [68] [69]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Diamond Catalogue ID for persons and organisations: https://opac.diamond-ils.org/agent/13996 — بنام: Ibn ʿAdī ibn Mālik Ḥassān ibn Ṯābit
  2. PoetsGate poet ID: https://poetsgate.com/poet.php?pt=45 — اخذ شدہ بتاریخ: 5 اپریل 2022 — عنوان : بوَّابة الشُعراء
  3. ^ ا ب أسد الغابة
  4. ^ ا ب "المكتبة الإسلامية"۔ 14 اکتوبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2015 
  5. بخاری:2/595
  6. (اصابہ:8/166)
  7. اسد الغابہ
  8. (تہذیب التہذیب،باب من اسمہ حابس:2/217)
  9. (اسد الغابہ:2/2)
  10. (بخاری،باب حدیث بنی النضیر،حدیث نمبر:3728)
  11. (خلاصۃ وفا الوفاء:29)
  12. (اسد الغابہ:2/7)
  13. (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،باب حسیل بن نویرۃ الاشجعی:1/103)
  14. (طبقات ابن سعد،جلد2،قسم2:90،91،92)
  15. خلاصۃ الوفاء
  16. اسد الغابہ:2/7
  17. شمائل ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 236
  18. (طبقات الشعروشعراء ابن قبتیہ:170)
  19. (کتاب الاحد:56، اسد الغابہ:2/6)
  20. (کتاب العمدہ:1/77،78)
  21. (کتاب العمدہ:1/186)
  22. (نقد الشعر،باب الترصیع:1/5،شاملۃ،38)
  23. (نقد الشعر،باب الغلووالاقتصار:1/8،شاملۃ38)
  24. (نقد الشعر،باب الغلووالاقتصار:1/8،شاملۃ38)
  25. (نقد الشعر،باب الغلووالاقتصار:1/25،شاملۃ38)
  26. (اسد الغابہ:2/5)
  27. (نقد الشعر،باب الغلووالاقتصار:1/9،شاملۃ38)
  28. "حسان بن ثابت على فضله وقع في الإفك وتاب منه - إسلام ويب - مركز الفتوى"۔ www.islamweb.net۔ 18 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اکتوبر 2019 
  29. اسدالغابہ:2/6
  30. بخاری:1/909،مسند:5/222
  31. ابن سلام الجمحي، طبقات فحول الشعراء، نسخة موقع الوراق «» [1] آرکائیو شدہ 2016-03-04 بذریعہ وے بیک مشین
  32. (اسد الغابہ، باب حسان بن ثابت:1/255)
  33. اسد الغابہ، باب حسان بن ثابت:1/255
  34. (بخاری:2/909،واسد الغابہ:4/2)
  35. (اسد الغابۃ،باب حسان بن ثابت:1/255)
  36. (اسد الغابہ:2/5)
  37. (الاستیعاب،حسان بن ثابتؓ)
  38. (تاریخ مدینۃ دمشق،باب ذکر من اسمہ حسان:12/384،شاملۃ38)
  39. (بخاری،باب ھجاء المشرکین،حدیث نمبر:5687)
  40. (الاستیعاب ،باب حسان بن ثابت الانصاری:1/101)
  41. (العقد الفرید،باب قولھم فی الھجاء:2/316،شاملۃ38)
  42. (طبقات الشعر والشعرا:212)
  43. (دیوان حسان بن ثابت، باب أبوكَ أبوكَ، وأنتَ ابنهُ:1/27)
  44. عرفات، دائرة المعارف الإسلامية، "حسان بن ثابت"، النسخة الإلكترونية (لغة إنجليزية) [2] آرکائیو شدہ 2020-03-22 بذریعہ وے بیک مشین
  45. (کتاب العمدہ:2/104)
  46. (کتاب العمدہ:2/110)
  47. (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،باب حسان بن ثابت الانصاری:1/102)
  48. (استیعاب:1/130)
  49. (استیعاب:1/120)
  50. (استیعاب:1/131)
  51. (الاستیعاب،باب حسان بن ثابت الانصاری:1/102)
  52. (بخاری:2/597)
  53. (دلائل الاعجاز للجرجانی،باب اللفظ والاستعارۃ وشواھد:1/149)
  54. (الشعروالشعراء،باب النمر بن تولب:1/60)
  55. (دیوان حسان بن ثابت،باب کم للمنازل من شہر:1/172)
  56. (دیوان حسان بن ثابت،باب لعمر ابیک الخیر:1/60)
  57. (دیوان حسان بن ثابت،باب لعمرابیک الخیر:1/60)
  58. (دیوان حسان بن ثابت، لعمرابیک الخیر:1/96)
  59. (دیوان حسان بن ثابت، وقوم من البغضاء:1/118)
  60. معجم البابطين لشعراء العربية في القرنين التاسع عشر و العشرين -سليم بن حسن اليعقوبي آرکائیو شدہ 2021-01-01 بذریعہ وے بیک مشین
  61. (دلائل الاعجاز:74)
  62. (دلائل الاعجاز:140)
  63. (اصابہ:3/78)
  64. (اصابہ:3/78)
  65. (کتاب ذکور:203)
  66. (الاستیعاب،باب حسان بن ثابت الانصاری:1/102)
  67. (بخاری:1/909،مسند:5/222)
  68. (استیعاب :1/129)
  69. "موسوعة الحديث : حسان بن ثابت بن المنذر بن حرام بن عمرو بن زيد مناة بن عدى بن عمرو بن مالك بن النجار"۔ hadith.islam-db.com۔ 28 نومبر 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2023