غزوہ سویق
جنگ ِ بدر کے بعد مکہ کے ہر گھر میں سرداران قریش کے قتل ہو جانے کا ماتم برپا تھااور اپنے مقتولوں کا بدلہ لینے کے لیے مکہ کا بچہ بچہ مضطرب اور بے قرار تھا۔ چنانچہ غزوهٔ سویق اور جنگ ِاُحد وغیرہ کی لڑائیاں مکہ والوں کے اسی جوشِ انتقام کا نتیجہ ہیں۔ عتبہ اور ابو جہل کے قتل ہو جانے کے بعد اب قریش کا سردارِ اعظم ابوسفیان تھا اور اس منصب کا سب سے بڑا کام غزوهٔ بدر کا انتقام تھا۔ ابوسفیان نے نذر مانی تھی کہ جب تک محمدﷺ سے غزوہ بدر کے مقتولوں کا بدلہ نہ لوں گا نہ غسل جنابت کروں گانہ سر میں تیل ڈالوں گا۔ جنگ ِ بدرکے دو ماہ بعد ذو الحجہ 2ھ میں ابو سفیان دو سو شترسواروں کا لشکر لے کر مدینہ کی طرف بڑھا۔ اس کو یہودیوں پر بڑا بھروسا بلکہ ناز تھا کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ اس کی امداد کریں گے۔ اسی امید پر ابو سفیان پہلے 'حیی بن اخطب یہودی کے پاس گیا مگر اس نے دروازہ بھی نہیں کھولا۔ وہاں سے مایوس ہو کر سلام بن مشکم سے ملا جو قبیلہ بنو نضیر کے یہودیوں کا سردار تھااور یہود کے تجارتی خزانہ کا مینجر بھی تھا اس نے ابو سفیان کا پرجوش استقبال کیا اور حضور ﷺ اور مدینہ منورہ کی اطراف میں عریض نام کے مقام پر چھاپہ مار کر کھجور کے کچھ درخت کاٹے اور دو آدمیوں کو بھی قتل کر کے راہِ فرار اختیار کی۔ البتہ انھوں نے اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ستو اور توشے پھینک دیے۔ مسلمانوں نے انکا بہت تعاقب اور پیچھا کیا مگر ہاتھ نہ لگ سکے،مسلمانوں نے قرقرۃ الکدر تک ان کا تعاقب کیا تھا۔ اسی لیے اس مہم کا نام غزوہِ سویق اور غزوہ قرقرہ الکدر کہا جاتا ہے۔ سویق عربی زبان میں ستو کو کہا جاتا ہے۔[1]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ مدارج النبوت،قسم سوم، باب دوم، ج2،ص104