6ھ کے واقعات میں سے ابورافع یہودی کا قتل بھی ہے۔ ابورافع یہودی کا نام عبد اللہ بن ابی الحقیق یا سلام بن الحقیق تھا۔ یہ بہت ہی دولت مند تاجر تھا لیکن اسلام کا زبردست دشمن اور بارگاہ نبوت کی شان میں نہایت ہی بدترین گستاخ اور بے ادب تھا۔ یہ وہی شخص ہے جو حیی بن اخطب یہودی کے ساتھ مکہ گیا اور کفار قریش اور دوسرے قبائل کو جوش دلاکر غزوهٔ خندق میں مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے دس ہزار کی فوج لے کر آیا تھا اور ابوسفیان کو اُبھارکر اسی نے اس فوج کا سپہ سالار بنایا تھا۔
قبیلۂ خزرج کے لوگوں نے مشورہ کیا کہ اب رسول اللہ ﷺ کا دشمن ابورافع ہے۔ لہٰذا ہم لوگوں کو چاہے کہ اس کو قتل کرڈالیں تاکہ دشمن رسول کو قتل کرنے کا اجروثواب حاصل کر لیں۔ چنانچہ عبد اللہ بن عتیک و عبد اللہ بن انیس و ابوقتادہ و حارث بن ربعی و مسعود بن سنان و خزاعی بن اسود اس کے لیے مستعد اور تیار ہوئے۔ ان لوگوں کی درخواست پر حضور ﷺ نے اجازت دے دی اورعبداللہ بن عتیک کو اس جماعت کا امیر مقرر فرما دیااور ان لوگوں کو منع کر دیا کہ بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کیا جائے۔[1]
براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسالت مآب ﷺنے چند انصاریوں کو ابورافع کے (قتل) کے لیے بھیجا تھا چنانچہ عبد اللہ بن عتیک نے رات کے وقت اس کے کمرہ میں داخل ہو کر سوتے ہی میں اس کو مار ڈالا۔[2]
اس کی تفصیل صحیح بخاری میں اس طرح ہے۔
براء بن عازب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ابورافع کے پاس کئی انصاریوں کو بھیجا اور عبد اللہ بن عتیک کو سردار مقرر کیا ابورافع دشمن رسول تھا اور مخالفین رسول کی مدد کرتا تھا اس کا قلعہ حجاز میں تھا اور وہ اسی میں رہا کرتا تھا جب یہ لوگ اس کے قلعہ کے قریب پہنچے تو سورج ڈوب گیا تھا اور لوگ اپنے جانوروں کو شام ہونے کی وجہ سے واپس لا رہے تھے عبد اللہ بن عتیک نے ساتھیوں سے کہا تم یہیں ٹھہرو میں جاتا ہوں اور دربان سے کوئی بہانہ کرکے اندر جانے کی کوشش کروں گا چنانچہ عبد اللہ گئے اور دروازہ کے قریب پہنچ گئے پھر خود کو اپنے کپڑوں میں اس طرح چھپایا جیسے کوئی رفع حاجت کے لیے بیٹھتا ہے قلعہ والے اندر جا چکے تھے دربان نے عبد اللہ کو یہ خیال کرکے کہ ہمارا ہی آدمی ہے آواز دی اور کہا! اے اللہ کے بندے اگر تو اندر آنا چاہتا ہے تو آ جا کیونکہ میں دروازہ بند کرنا چاہتا ہوں عبد اللہ بن عتیک کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر اندر گیا اور چھپ رہا اور دربان نے دروازہ بند کرکے چابیاں کیل میں لٹکا دیں جب دربان سو گیا تو میں نے اٹھ کر چابیاں اتارلیں اور قلعہ کا دروازہ کھول دیا تاکہ بھاگنے میں آسانی ہو ادھر ابورافع کے پاس رات کو داستان ہوتی تھی وہ اپنے بالا خانے پر بیٹھا داستان سن رہا تھا جب داستان کہنے والے تمام چلے گئے اور ابورافع سو گیا تو میں بالا خانہ پر چڑھا اور جس دروازہ میں داخل ہوتا تھا اس کو اندر سے بند کرلیتا تھا اور اس سے میری یہ غرض تھی کہ اگر لوگوں کو میری خبر ہو جائے تو ان کے پہنچنے تک میں ابورافع کا کام تمام کردوں غرض میں ابورافع تک پہنچا وہ ایک اندھیرے کمرے میں اپنے بچوں کے ساتھ سو رہا تھا میں اس کی جگہ کو اچھی طرح معلوم نہ کرسکا اور ابورافع کہہ کر پکارا اس نے کہا کون ہے؟ میں نے آواز پر بڑھ کر تلوار کا ہاتھ مارا میرا دل دھڑک رہا تھا مگر یہ وار خالی گیا اور وہ چلایا میں کوٹھڑی سے باہر آ گیا اور پھر فورا ہی اندر جا کر پوچھا کہ اے ابورافع تم کیوں چلائے؟ اس نے مجھے اپنا آدمی سمجھا اور کہا تیری ماں تجھے روئے ابھی کسی نے مجھ سے تلوار سے وار کیا ہے یہ سنتے ہی میں نے ایک ضرب اور لگائی اور زخم اگرچہ گہرا لگا لیکن مرا نہیں آخر میں نے تلوار کی دھار اس کے پیٹ پر رکھ دی اور زور سے دبائی وہ چیرتی ہوئی پیٹھ تک پہنچ گئی اب مجھے یقین ہو گیا کہ وہ ہلاک ہو گیا پھر میں واپس لوٹا اور ایک ایک دروازہ کھولتا جاتا تھا اور سیڑھیوں سے اترتا جاتا تھا میں سمجھا کہ زمین آگئی ہے چاندنی رات تھی میں گر پڑا اور پنڈلی ٹوٹ گئی میں نے اپنے عمامہ سے پنڈلی کو باندھ لیا اور قلعہ سے باہر آکر دروازہ پر بیٹھ گیا اور دل میں طے کر لیا کہ میں اس وقت تک یہاں سے نہیں جاؤں گا جب تک اس کے مرنے کا یقین نہ ہو جائے آخر صبح ہوئی مرغ نے اذان دی اور قلعہ کے اوپر دیوار پر کھڑے ہو کر ایک شخص نے کہا کہ لوگو! ابورافع حجاز کا سوداگر مر گیا میں یہ سنتے ہی اپنے ساتھیوں کی طرف چل دیا اور ان سے آکر کہا اب جلدی چلو یہاں سے اللہ نے ابورافع کو ہلاک کرا دیا اس کے بعد ہم نے رسول اللہ ﷺ کو آکر خوشخبری سنائی آپ ﷺ نے میرے پیر کو دیکھا اور فرمایا کہ اپنا پاؤں پھیلاؤ میں نے پھیلایا آپ ﷺ نے دست مبارک پھیر دیا بس ایسا معلوم ہوا کہ اس پیر کو کوئی صدمہ نہیں پہنچا۔[3]