غزوہ ذی امر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
غزوہ ذی امر / غزوہ غطفان
سلسلہ غزوات نبوی

نقشہ غزوہ ذی امر
تاریخ3 ہجری، ربیع الاوّل
624ء
مقامذی امر (نخیل کے علاقے میں)
نتیجہ
  • محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم 450 ساتھیوں کے ساتھ دفاع کے لیے نکلے، مگر دشمن بھاگ گیا۔
  • قبیلہ ثعلبہ و محارب کے افراد پہاڑوں میں فرار ہو گئے [1]
مُحارِب
مدینہ کے مسلمان بنو محارب اوربنو ثعلبہ قبائل
کمان دار اور رہنما
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دعثور بن حارث محاربی
بعض کے مطابق غورث /عورک
طاقت
450 بنو ثعلبہ اور بنو محارب
تعداد نامعلوم
ہلاکتیں اور نقصانات
0 1 گرفتار

غزوہ ذی امر یا غزوہ غطفان (عربی:غزوة ذي أمر) ربیع الاول 3 ہجری بنو ثعلبہ و بنو محارب اور مدینہ کے 450 مسلمانوں کے درمیان پیش آیا۔

وجہ تسمیہ[ترمیم]

یہ غزوہ غطفان میں ذی امر مقام پر ہوا جس بنا پر اس کو غزوہ ذی امر اور غزوہ غطفان کہتے ہیں۔

واقعات[ترمیم]

بنو ثعلبہ اور بنو محارب کی ملی جلی ایک جماعت مدینہ پر حملہ کے ارادہ سے جمع ہوئی، اس کا سالارنجد کے ایک مشہور بہادر دعثور بن حارث محاربی تھا، بعض نے سالار کا نام غورث اور عورک بھی بیاں کیا ہے۔ محمدﷺا 450افراد کو لے کر دفاع کے لیے شہر سے نکلے، دشمن اطلاع پا کر پہاڑوں کی چوٹیوں میں چھپ گیا۔[2] اتفاق سے اس روز زور دار بارش ہو گئی۔ حضور ﷺایک درخت کے نیچے لیٹ کر اپنے کپڑے سکھانے لگے۔ پہاڑ کی بلندی سے کافروں نے دیکھ لیا کہ آپ بالکل اکیلے اور اپنے اصحاب سے دور بھی ہیں، ایک دم دعثور بجلی کی طرح پہاڑ سے اتر کر ننگی شمشیر ہاتھ میں لیے ہوئے آیااور حضور ﷺ کے سر مبارک پر تلوار بلند کرکے بولا کہ بتائیے اب کون ہے جو آپ کو مجھ سے بچا لے؟ آپ نے جواب دیا کہ میرا اﷲ مجھ کو بچا لے گا۔ تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی اور دعثور کانپنے لگ گیا۔ رسول اﷲﷺ نے فوراً تلوار اٹھا لی اور فرمایا کہ بول اب تجھ کومیری تلوار سے کون بچائے گا؟ دعثور نے کانپتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہکوئی نہیں۔ رحمۃ للعالمینﷺ کو اس کی بے کسی پر رحم آ گیااور آپ نے اس کا قصور معاف فرما دیا۔ دعثور اس اخلاقِ نبوت سے بے حد متاثرہوااور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیااور اپنی قوم میں آ کر اسلام کی تبلیغ کرنے لگا۔ اس غزوہ میں کوئی لڑائی نہیں ہوئی اورحضورﷺ گیارہ یاپندرہ دن مدینہ سے باہررہ کرپھرمدینہ آ گئے۔[3]

نتائج[ترمیم]

مسلمانوں کی آمد کی اطلاع پا کر دشمن بھاگ گیا، ان کا ایک آدمی حبان نام کا مسلمانوں نے پکڑ لیا، یہ بنو ثعلبہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس پر اسلام پیش کیا گیا تو اسلام قبول کر لیا۔[2]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Saifur Rahman Al Mubarakpuri (2005)، The sealed nectar: biography of the Noble Prophet، Darussalam Publications، صفحہ: 286–287، ISBN 978-9960-899-55-8 
  2. ^ ا ب ڈاکٹر شوقی ابو خلیل، اٹلس سیرت نبوی، صفحہ 237
  3. (زرقانی ج2ص15وبخاری ج2ص513