عائشہ بنت ابی بکر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(عائشہ بنت ابوبکر سے رجوع مکرر)
عائشہ بنت ابی بکر
(عربی میں: عائشة بنت أَبي بكر ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 604ء[1][2][3][4]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 13 جولا‎ئی 678ء (73–74 سال)[5]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ
سلطنت امویہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات محمد بن عبداللہ (620–632)[6]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد ابوبکر صدیق[6]  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ فاطمہ بنت زید  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
تلمیذ خاص طاؤس بن کیسان  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعرہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں پہلا فتنہ  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤمنین کی والدہ
ام المؤمنین
امہات المؤمنین - (ازواج مطہرات)

امہات المومنین

سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں سنہ 678 ء میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جس سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔جنگ جمل کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن وسنت اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے ہیں۔بعض روایات جو کتب احادیث و تاریخ میں اہل بدعت راویوں کی بھی ہیں وہ اس لیے قابل اعتبار نہیں کیونکہ علمائے اسلام نے بدعت سے نسبت رکھنے والی روایات کو مردود قرار دیا ہے۔

نام و القاب

آپ کا نام عائشہ ہے۔ خطاب اُم المومنین ہے۔ القاب صدیقہ، حبیبۃ الرسول، المُبرۃ، المُوَفقہ، طیبہ، حبیبۃ المصطفٰی اور حمیراء ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بنت الصدیق سے بھی آپ کو خطاب فرمایا ہے۔[7][8] علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو یَا عَائشُۃ کے نام سے بھی خطاب فرمایا ہے۔[9]

کنیت

آپ کی کنیت اُمِ عبد اللہ ہے۔ عرب میں کنیت اشراف کی شرافت کا نشان تھا اور چونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی کوئی اولاد نہ تھی، اِس لیے کنیت بھی نہ تھی۔ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ازراہِ حسرت عرض کرنے لگیں کہ اور خواتین نے تو اپنی سابقہ اولادوں کے نام پر اپنی اپنی کنیت رکھ لی، میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟۔ فرمایا: اپنے بھانجے عبد اللہ کے نام پر [10][11] جو آپ کی بہن اسماء بنت ابی بکر اور زبیر ابن عوام کے بیٹے تھے۔

نسب

آپ والد کی طرف سے قریشیہ تیمیہ ہیں اور والدہ کی طرف سے کنانیہ ہیں۔ والد کی طرف سے قبیلہ قریش کی شاخ بنو تمیم سے تعلق ہے اور والدہ کی طرف سے قبیلہ قریش کی شاخ کنانہ سے تعلق ہے۔

  • والد کی طرف سے نسب یوں ہے:

عائشہ بنت ابی بکر الصدیق بن ابی قحافہ عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک۔[11]

  • والدہ کی طرف سے نسب یوں ہے:

عائشہ بنت اُمِ رومان زینب بنت عامر بن عویمر بن عبد شمس بن عتاب بن اذینہ بن سبیع بن وہمان بن حارث بن غنم بن مالک بن کنانہ۔[11]

والد کی طرف سے عائشہ رضی اللہ عنہا کا نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نسب سے مرہ بن کعب پر آٹھویں پشت پر ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے عائشہ رضی اللہ عنہا کا نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نسب سے مالک بن کنانہ پر گیارہویں پشت پر ملتا ہے [12]۔

  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نسب یوں ہے :

محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن کنانہ۔

حلیہ و ہیئت مبارکہ اور لباس

عائشہ رضی اللہ عنہا خوش رو اور صاحب جمال تھیں۔ رنگ سفید تھا جس میں سرخی غالب تھی، اِسی لیے لقب حمیراء سے مشہور ہیں۔[13] نو یا دس سال کی عمر تک آپ بالغ ہو چکی تھیں۔[14] لڑکپن میں دبلی پتلی تھیں [15][16] مگر بعد ازاں فربھی غالب آگئی تو بدن کسی قدر بھاری ہو گیا تھا[16]۔ زہد و قناعت کی وجہ صرف ایک جوڑا لباس کا اپنے پاس رکھتی تھیں اور اُسی کو دھو دھو کر پہن لیا کرتی تھیں۔[17] ایک کرتا جس کی قیمت پانچ درہم تھی اور یہ اُس زمانہ کے لحاظ سے اِس قدر بیش قیمت تھا کہ تقاریب میں دلہن کے واسطے عاریتاً مانگ لیا جاتا۔[18] زعفران میں رنگ کر کپڑے پہن لیا کرتی تھیں۔[11][19]

بعض اوقات سرخ رنگ کا کرتا زیب تن فرماتیں۔[11] اکثر سیاہ رنگ کا دوپٹہ استعمال فرماتیں۔[11] کبھی کبھی زیور بھی پہن لیا کرتیں، گلے میں یمن کا بنا ہوا خاص قسم کا سیاہ و سفید مہروں کا ہار ہوا کرتا۔[20] انگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں بھی پہنا کرتی تھیں۔[11][21] طوافِ کعبہ کے دوران میں چہرہ اقدس پر ایک پردہ نقاب جیسا اوڑھ لیا کرتیں تاکہ لوگوں سے پردے میں رہیں۔[11] ایک ریشمی چادر آپ کے پاس تھی، بعد ازاں وہ چادر آپ نے اپنے بھانجے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو دے دی۔[11][22] یہ ریشمی چادر آپ اوڑھا کرتی تھیں۔[11] آپ فرماتی ہیں : ہم عہد رسالت میں سیراء کے کپڑے پہنا کرتے تھے، سیرا میں کچھ ریشم ہوتا ہے۔[11]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی مہندی استعمال فرماتی رہیں اور زعفران میں رنگے ہوئے لباس میں حج ادا کر لیا کرتیں۔[11] حالتِ احرام میں سرخ لباس زیب تن بھی فرماتیں۔[11] تابعی عطاء بن ابی الرباح کہتے ہیں کہ میں اور عبید بن عمیر عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا جایا کرتے تھے جبکہ آپ کوہِ ثبیر پر ٹھہری ہوئی تھیں (یعنی موسم حج میں) ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا: اُس دِن آپ کا پردہ کیا تھا؟  فرمایا:  آپ اُس وقت اپنے ترکی خیمہ میں تھیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان میں خیمہ کی قناتیں حائل تھیں لیکن میں نے دیکھا کہ آپ زعفران میں رنگا ہوا کرتا پہنے ہوئے ہیں، اُس وقت میں بچہ تھا۔[11]

سر اقدس پر اکثر خوشبو لگا لیا کرتیں۔ خود فرماتی ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے حتیٰ کہ ہم مقام قاحہ میں پہنچے تو میرے سر سے زردی بہہ کر چہرے پر آئی کیونکہ میں نے روانہ ہونے سے قبل سر پر خوشبو لگائی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:  اب تمھارا رنگ بڑا پیارا ہے۔[11]

تابعی اسحٰق اعمیٰ جو نابینا تھے، کہتے ہیں کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، آپ نے مجھ سے پردہ کیا، میں بولا:  آپ مجھ سے پردہ کرتی ہیں حالانکہ میں آپ کو دیکھ نہیں سکتا۔ آپ نے فرمایا:  اگر تم مجھے نہیں دیکھتے تو میں تو تمھیں دیکھتی ہوں۔[11]

والدین

آپ کے والد ابوبکر صدیق ابن ابی قحافہ عثمان رضی اللہ عنہ ہیں جو سب سے پہلے اسلام لائے اور اُن کا اِنتقال بروز پیر 22 جمادی الثانی 13ھ مطابق 22 اگست 634ء کو 63 سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں ہوا، تب عائشہ رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک تقریباً 22 سال تھی۔

  • آپ کی والدہ ام رومان زینب بنت عامر ہیں جن کا سنہ وفات اختلافی ہے۔ بعض مورخین کے مطابق ام رومان رضی اللہ عنہا کی وفات عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ہوئی۔ بعض مورخین نے اُن کا سال وفات اور بھی لکھا ہے، معتبر احادیث کی روشنی میں یہ صریحاً غلط معلوم ہوتا ہے کیونکہ میں پیش آنے والے واقعہ اِفک میں اُن کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے اور اِس سلسلے میں تمام روایات میں اِن کا نام آیا ہے۔ میں پیش آنے والے واقعہ تخییر کے وقت بھی وہ زِندہ تھیں۔ صحیح بخاری میں تو مسروق تابعی کی روایت ام رومان سے متصلاً مروی ہے۔ امام بخاری نے تاریخ الصغیر میں اِن کا نام اُن لوگوں میں لکھا ہے جنھوں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں وفات پائی اور پہلی روایت یعنی اور پر اعتراض کیا ہے۔ یہ بھی مصدقہ ہے کہ ام رومان رضی اللہ عنہا کی وفات بعہد نبوی میں نہیں ہوئی، ایسا کسی روایت میں نہیں ملتا۔ الحافظ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں اِس پر محققانہ نقد لکھا ہے اور ثابت کیا ہے کہ امام بخاری کا بیان بالکل صحیح ہے۔[23]امام بخاری کے بیان کے مطابق ام رومان رضی اللہ عنہا کی وفات غالباً ماہِ ربیع الاول 11ھ مطابق جون 632ء سے ماہِ جمادی الثانی 13ھ مطابق اگست 634ء کے وسطی زمانہ میں ہوئی جو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت ہے۔

ولادت

آپ کی ولادت بعثت کے پانچویں سال ماہِ شوال المکرم مطابق ماہِ جولائی 614ء بمقام مکہ مکرمہ، حجاز مقدس میں ہوئی [12]۔ ابن سعد نے طبقات میں آپ کی ولادت نبوت کے چوتھے سال کے آغاز میں لکھی ہے [11] مگر پہلی روایت پر تمام مورخین کا اتفاق ہے۔ آپ بحالتِ مسلمانی پیدا ہوئیں ہیں کیونکہ آپ کے والد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کی ولادت سے قریباً پانچ سال قبل اسلام لے آئے تھے۔ آپ کا بچپن مکہ مکرمہ میں ہی گذرا۔ اور قریباً 9 سال کی عمر میں ہجرت کرکے مدینہ منورہ لائی گئیں۔

بچپن

غیر معمولی اشخاص اپنے بچپن میں ہی اپنی حرکات و سکنات اور نشو و نما میں ممتاز ہوتے ہیں، اُن کے ایک ایک خط و خال میں کشش ہوتی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بچپن بھی روشن اور سعادت مندی سے بھرپور گذرا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کو لڑکپن میں کھیل کود کا شوق تو تھا مگر دو شوق مرغوب تھے: گڑیاؤں سے کھیلنا اور جھولا جھولنا۔[24]

گڑیائیں تو مدت مدید تک آپ کے پاس رہیں۔ سنن ابوداؤد کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غزؤہ خیبر یا غزؤہ تبوک سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کے پاس گڑیائیں دیکھیں تھیں جو ایک طاق میں رکھی ہوئی تھیں اور اُن کھلونوں میں ایک پروں والا گھوڑا بھی تھا۔[25] اگر یہ روایت غزؤہ خبیر (محرم ) سے متعلق ہے تو غالباً اُس وقت عائشہ رضی اللہ عنہا 14 برس کی تھیں اور اگر یہ روایت غزؤہ تبوک (رجب ) سے متعلق ہے تو اُس وقت عائشہ رضی اللہ عنہا ساڑھے 16 برس کی تھیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کا خود بیان ہے کہ: میں گڑیاؤں سے کھیلتی تھی۔[24]

  • آپ فرماتی ہیں کہ:

"میں گڑیاؤں سے کھیلا کرتی تھی، بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے پاس آتے اور میرے پاس چھوٹی چھوٹی بچیاں بیٹھی ہوتی تھیں، جب آپ داخل ہوتے تو وہ بچیاں باہر نکل جاتیں اور جب آپ تشریف لے جاتے تو وہ داخل ہوجاتیں (یعنی میرے پاس واپس آ جاتیں)۔" [24]

  • رخصتی کے بعد بھی آپ گڑیاؤں سے کھیلا کرتی تھیں، خود بیان فرماتی ہیں کہ: رخصتی کے بعد بھی میں بچیوں کے ساتھ گڑیاؤں سے کھیلا کرتی تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لاتے تو آپ سے میری سہیلیاں چھپ جاتیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے پاس سے ہٹ کر انھیں بھیج دیا کرتے تھے  (یعنی جب میرے پاس سے چلے جاتے تو میری سہیلیوں کو واپس میرے پاس بھیج دیتے)۔[11] بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم سے کہہ دیا کرتے: اپنی اپنی جگہ پر رہو۔[11] عروہ بن زبیر تابعی بیان کرتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: میں عہد رسالت میں گڑیاؤں سے کھیلا کرتی تھی۔[11]
  • آپ فرماتی ہیں کہ: میری گڑیائیں تھیں، جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے پاس تشریف لاتے تو میں ان پر کپڑا ڈال دیا کرتی تھی۔[11]

جھولا جھولنے سے متعلق کئی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جھولا جھولنا مرغوب تھا۔ سنن ابوداؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نکاح سے تھوڑی دیر قبل تک آپ جھولا جھول رہی تھیں۔[26] اور جھولا جھولنے میں اکثر آپ کی سانس پھول جایا کرتی۔[26]

عموماً ہر زمانہ کے بچوں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل کے بچوں کا ہے کہ سات یا آٹھ سال کی عمر تک تو انھیں کسی بات کا مطلق بھی ہوش نہیں رہتا اور نہ ہی وہ کسی بات کی تہ تک ہی پہنچ سکتے ہیں لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا لڑکپن میں بھی ایک ایک بات یاد رکھتی تھیں، اُن باتوں کی روایت بھی کر دیا کرتی تھیں اور اُن سے اکثر احکام بھی اِستنباط فرما لیا کرتیں۔ لڑکپن کے جزئی جزئی واقعات کی مصلحتوں کو بیان فرمایا کرتیں۔  اِسی زمانہ میں اگر کھیل کود کے دوران میں کوئی سن لیتیں تو اُس کو یاد رکھتی تھیں۔

  • خود عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: مکہ مکرمہ میں جب یہ آیت بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُھُمْ وَ السَّاعَۃُ اَدْھٰی وَ اَمَرُّ نازل ہوئی تو میں (اُس وقت) بچی تھی اور کھیل رہی تھی۔[27][28] یہ  سورۃ القمر کی آیت 46 ہے اِس کا ترجمہ یہ ہے: " اصل میں اُن کے وعدے کا وقت تو قیامت ہے اور قیامت بڑی سخت اور بہت تلخ ہوگی۔"

ہجرت کے وقت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سن محض 8 سال کا تھا مگر اِس کم سنی اور کم عمری میں  ہوش مندی اور قوتِ حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام واقعات بلکہ جزئیات بھی یاد تھیں، آپ سے بڑھ کر کسی صحابی نے ہجرت کے واقعات کا تمام مسلسل بیان محفوظ نہیں رکھا۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں باب الہجرۃ کے تحت اِن تمام روایات کو نقل کر دیا ہے۔

نکاح

عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:

میرا نکاح بھی شوال میں ہوا۔رخصتی بھی شوال میں ہوئی۔حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیویوں میں کونسی مجھ سے زیادہ نصیب ور اور حضورؐ کی محبوبہ تھی۔[29]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی زوجہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجیت میں آئیں تو اُس وقت اُن کا سن 40 سال کا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سن مبارک 25 سال کا تھا۔ اور خدیجہ بنت خویلد مزید 25 سال تک شرفِ زوجیت میں رہیں۔ ماہِ رمضان 10 نبوی مطابق اپریل 619ء میں خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا نے 65 سال کی عمر میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سن 50 سال تھا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غمگین رہنے لگے۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا  اپنے شوہر کے ہمراہ ہر موقع پر ساتھ دیتی رہیں، آپ کے ساتھ ہمدردی کرتی رہیں، مصائب میں آپ کا ہاتھ بٹاتی رہیں، سب سے پہلے آپ کے رسول و نبی ہونے کا اقرار کیا، ایسی غمگسار اور رفیق زوجہ کی جدائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہت ملول رہا کرتے، بلکہ تنہائی کے غم میں زندگی میں دشواری آنے لگی۔

جانثاران رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت فکر لاحق ہوئی، مشہور صحابی عثمان بن مظعون (متوفی / 624ء) کی زوجہ خولہ رضی اللہ عنہا بنت حکیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! آپ دوسرا نکاح کر لیں۔ آپ نے فرمایا: کس سے؟  خولہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: بیوہ اور کنواری دونوں طرح کی لڑکیاں موجود ہیں، جس کو آپ پسند فرمائیں اُسی کے متعلق گفتگو کی جائے۔ فرمایا: وہ کون ہیں؟ خولہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بیوہ تو سودہ بنت زمعہ ہیں اور کنواری ابوبکر ( رضی اللہ عنہ) کی بیٹی عائشہ (رضی اللہ عنہا)۔ ارشاد ہوا: بہتر ہے تم اِن کی نسبت گفتگو کرو۔ خولہ رضی اللہ عنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مرضی پا کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر آئیں اور اُن سے تذکرہ کیا۔ دورِ جاہلیت میں دستور تھا جس طرح سگے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز نہیں، اِسی طرح عرب اپنے منہ بولے بھائی کی اولاد سے بھی شادی نہیں کیا کرتے تھے۔ اِس بنا پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: خولہ! عائشہ (رضی اللہ عنہا)  تو آن(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بھتیجی ہے، آپ سے اُس کا کیونکر نکاح ہو سکتا ہے؟ خولہ رضی اللہ عنہا نے آنصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اِستفسار کیا تو آپ نے فرمایا: ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے دینی بھائی ہیں اور اِس قسم کے بھائیوں سے نکاح جائز ہے۔[30] ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو انھوں نے قبول کر لیا۔

لیکن اِس سے قبل عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جبیر بن مطعم کے بیٹے سے ہو چکی تھی، اِس لیے اُن سے پوچھنا بھی ضروری تھا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جبیر سے جا کر پوچھا کہ تم نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی نسبت اپنے بیٹے سے کی تھی، اب کیا کہتے ہو؟ جبیر نے اپنی بیوی سے پوچھا۔ جبیر بن مطعم کا خاندان ابھی اسلام سے آشنا نہیں ہوا تھا، اُس کی بیوی نے کہا: اگر  یہ لڑکی (یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا) ہمارے گھر آگئی تو ہمارا بچہ بے دِین ہو جائے گا (یعنی بت پرستی چھوڑ دے گا)، ہم کو یہ بات منظور نہیں۔[11][31][32]

نکاح کے وقت

عائشہ رضی اللہ عنہا کا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نکاح ہوا تو تب آپ کی عمر 6سال تھی۔۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سن 49 سال 7 ماہ تھا۔ یہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تین سال قبل کا واقعہ ہے۔ آپ کا مہر 500 درہم تھا۔[33] آپ کی رخصتی ہجرت کے پہلے سال ماہِ شوال / اپریل 623ء میں عمل میں آئی۔ اُس وقت آپ کی عمر مکمل 9 سال تھی۔ تابعی عروہ بن زبیر (جو عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں) نے آپ سے نکاح کے متعلق پوچھا تو بیان فرمایا کہ:  جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا تو میں بچیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی، مجھے معلوم نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے نکاح کر لیا ہے حتیٰ کہ مجھے میری والدہ پکڑ کر گھر میں لے گئیں اور گھر ہی مجھے روک دیا، اب مجھے خیال آیا کہ میرا نکاح ہو گیا ہے۔ میں نے اِس بارے میں اپنی والدہ سے نہیں پوچھا، ہاں انھوں نے خود ہی مجھے بتادیا کہ تمھارا نکاح ہو گیا ہے۔[11]

تابعیہ عمرہ بنت عبد الرحمٰن (جو عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھتیجی ہیں) نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ فرماتی تھیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے شوال 10 نبوی میں ہجرت سے تین سال قبل نکاح کیا، اُس وقت میں 6 سال کی تھی [34]، پھر آپ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پیر کے دن 12 ربیع الاول کو آئے اور ہجرت سے آٹھویں ماہ میں آپ نے مجھ سے بیاہ کیا (یعنی رخصتی) اور خلوت کے وقت میں 9 سال کی تھی۔[11][34]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ منورہ ماہ ربیع الاول کو پہنچے اور ربیع الاول سے آٹھواں مہینہ شوال ہوتا ہے۔ جس کے مطابق یہ رخصتی ماہِ شوال / اپریل 623ء میں عمل میں آئی اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک 53 سال 10 ماہ تھی۔ اِس لحاظ سے عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں 9 سال 6 ماہ رہیں۔

بکثرت احادیث میں آیا ہے کہ نکاح سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر آپ کے سامنے کوئی چیز پیش کر رہا ہے،  پوچھا: کیا ہے؟  جواب دیا کہ آپ کی زوجہ ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے کھول کر دیکھا تو عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: میں تم کو دو بار خواب میں دیکھ چکا ہوں،  میں نے دیکھا کہ ایک شخص ریشمی کپڑے میں تم کو میرے پاس لایا ہے اور کہہ رہا ہے: یہ آپ کی اہلیہ ہیں، اِن کا پردہ اُٹھا کر دیکھیے،  میں نے پردہ اُٹھا کر دیکھا تو تم تھیں۔ میں نے کہا: اگر یہ اللہ کے پاس سے ہے تو اللہ اِسے ضرور نافذ فرما دے گا۔[11]

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: جبرئیل امین علیہ السلام ریشم کے سبز کپڑے میں (لپٹی ہوئی) اُن کی تصویر لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ دنیا و آخرت میں آپ کی اہلیہ ہیں۔[35] آپ فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ: میں نے خواب میں تمھیں دو بار دیکھا، میں نے فرمایا کہ تم ریشمی کپڑوں میں لپٹی ہوئی ہو اور مجھے کہا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں۔ سو پردہ ہٹا کر دیکھیے،  جب میں نے دیکھا تو تم ہی تھی۔ تو میں نے کہا: اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ ایسا کرکے ہی رہے گا۔[36][37][38][39][40]

کم سنی کی شادی کے حوالے سے سید سلیمان ندوی کہتے ہیں:

کم سنی کی اِس شادی کا اصل منشا نبوت اور خلافت کے درمیان میں تعلقات کی مضبوطی تھی۔ ایک تو عرب کی گرم آب و ہوا میں خواتین کی غیر معمولی نشوونماء کی طبعی صلاحیت موجود ہے، دوسرے عام طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے جس طرح ممتاز اشخاص کے دماغی اور ذہنی قویٰ میں ترقی کی غیر معمولی استعداد ہوا کرتی ہے، اِسی طرح قد و قامت میں بھی بالیدگی کی خاص قابلیت ہوتی ہے، انگریزی میں اِسے Precocious بھی کہتے ہیں۔ بہرحال اِس کمسنی میں آنصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنی زوجیت میں قبول کرنا اِس بات کی صریح دلیل ہے کہ لڑکپن سے اُن میں نشوونماء، ذکاوت، جودتِ ذہن اور نکتہ رسی کے آثار نمایاں تھے۔[41]

نکاح لڑکپن میں

بہت سے مسلمان مصنفین نے عائشہ کی عمر کا حساب اُن کی بہن اسماء کی عمر کی معلومات سے بھی نکالا ہے۔ جس کے مطابق شادی کے وقت اُن کی عمر 13، 17 یا 19 سال کے درمیان میں تھی۔[42] محمد نکنام عرب شاہی، جو ایرانی اسلامی محقق اور تاریخ دان ہیں، نے 6 مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے کہ منگنی کے وقت عائشہ کی عمر 17 یا 19 سال اور رخصتی کے وقت 20 یا 22 سال تھی۔[43] فاطمہ کی عمر کو بنیاد بنا کر لاہور احمدیہ تحریک کے محقق محمد علی نے اندازہ لگایا ہے کہ نکاح کے وقت عائشہ کی عمر 10 سال سے زیادہ اور رخصتی کے وقت 15 سال سے زیادہ تھی۔[44]

حضرت عائشہ صدیقہ کی رخصتی کے وقت عمر 12 سال تھی ۔ اگر تاریخ پیدائش اور نکاح کی تاریخ کا علم ہو جائے تو یہ بہت آسان معاملہ ہے چنانچہ اگر ایسی تمام روایات جو کتب احادیث میں ملتی ہیں کا جائزہ لیا جائے تو عمر 12 سال ہی نکلتی ہے ۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ کی اپنی روایت کا جہاں تک سوال ہے تو وہ حضرت عائشہ صدیقہ کا ایک اندازہ تھا نہ کہ کوئی حتمی بات بلکہ دو روایات ملتی ہیں اور دونوں میں اندازہ مختلف ہے ۔ ایسا دیکھنے میں اکثر آیا ہے کہ عمر کے تعین اندازے سے ہی کیا جاتا ہے مثلاً میں کہوں کہ جب میرے دادا کی وفات ہوئی اس وقت میری عمر 6 سال تھی مگر حقیقت اس کے برعکس ہوگی ہو سکتا ہے جیسے میں چھ سال سمجھ رہا ہوں وہ سات سال ہو۔

تعلیم و تربیت

عائشہ کی تعلیم و تربیت ان کے والد ماجد ابو بکر صدیق نے کی۔ ابو بکر صدیق علم و فضل اور حکمت و دانائی کے مجموعہ تھے۔ انھوں نے بی بی عائشہ کو زیادہ تر تاریخ و ادب کے علوم پڑھائے۔ مگر ان کی اصلی تعلیم و تربیت کے دور کا آغاز رخصتی کے بعد شروع ہوا۔ انھوں نے شادی کے بعد ہی قرآن پاک کا ناظرہ پڑھا۔

ہجرت

عائشہ رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد تین سال تک میکہ میں مقیم رہیں۔ 2 سال 3 ماہ مکہ مکرمہ میں اور 7 یا 8 مہینے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں مقیم رہیں۔ مسلمانوں نے اپنے وطن سے دو بار ہجرت کی۔ پہلے ملکہ حبشہ میں اور اُس کے بعد مدینہ منورہ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ میرے والد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کرنا چاہی تھی اور برک الغماد نامی مقام (جو مکہ مکرمہ سے پانچ روز کی مسافت پر ہے) پہنچ چکے تھے کہ اتفاق سے ابن الدغنہ نامی ایک شخص کہیں سے آ رہا تھا، اُس نے یہ دیکھ کر کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی اب وطن چھوڑ رہے ہیں، قریش کی بدقسمتی پر اُس کو افسوس ہوا اور نہایت اِصرار سے اپنی پناہ میں اُن کو مکہ مکرمہ لے آیا۔[45] ممکن ہے کہ اِس سفر میں عائشہ رضی اللہ عنہا اور اُن کا خاندان بھی ہمراہ ہو۔

دوسری بار ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب کی۔ اِس ہجرت کا تمام واقعہ تفصیلاً عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، اِس تفصیل کو امام بخاری نے صحیح بخاری باب الہجرۃ جلد اول میں نقل کر دیا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ منورہ پہنچے اور مدینہ منورہ میں مقیم ہو گئے اور اطمینان ہوا تو آپ نے اہل و عیال کو لانے کے واسطے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور اپنے غلام ابو رافع رضی اللہ عنہ کو مکہ مکرمہ بھیجا، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا آدمی ساتھ بھیج دیا۔ چنانچہ عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اپنی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا اور دونوں بہنوں یعنی اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور عائشہ رضی اللہ عنہا کو مکہ مکرمہ سے لے کر روانہ ہوئے۔ بیض منیٰ کے مقام پر جب آپ اپنی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا کے ہودج میں اُن کے ساتھ سوار تھیں، اِتفاق سے وہ اونٹ بھاگ نکلا اور اِس زور سے دوڑا کہ اب یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اب پالان گرا کہ اب گرا، خواتین کا یہ قاعدہ ہے کہ ماں کو اپنی پروا نہ تھی بلکہ لخت جگر کے واسطے رونے لگیں، آخر میلوں پر جاکر جب اونٹ پکڑا گیا تو اُن کو تشفی ہوئی۔ یہ مختصر سا قافلہ مدینہ منورہ پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُس وقت مسجد نبوی کے آس پاس میں مکانات تعمیر کروا رہے تھے۔ آنصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دونوں صاحبزادیاں ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور فاطمہ رضی اللہ عنہا اور سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا اِن نئے گھروں میں فروکش ہوئیں۔ (ابن سعد نے طبقات میں اِس واقعہ کی مکمل تفصیل بیان کردی ہے مگر ہم نے یہاں مختصراً خلاصہ پیش کیا ہے )۔[11] یہ واقعہ ماہِ شوال / اپریل 623ء کا ہے۔

رخصتی

ہجرت مدینہ منورہ کے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے عزیزوں کے ساتھ بنو حارث بن خزرج کے محلہ میں اُتریں۔[46] اور 7 یا 8 مہینوں تک اپنی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا کے ساتھ رہیں۔ اکثر مہاجرین کو مدینہ منورہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی اور متعدد اشخاص بیمار پڑ گئے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی سخت بیمار ہوئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے والد کی تیمارداری میں مصروف رہیں۔ بعد ازاں آپ بھی بخار میں مبتلا ہوگئیں، مرض کی شدت کا یہ حال تھا کہ آپ کے سر کے تمام بال گر گئے۔[47] کچھ مدت بعد آپ صحت مند ہوئیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ! آپ اپنی اہلیہ کو رخصت کیوں نہیں کرا لیتے؟  اِس میں کیا رکاوٹ ہے؟  (مراد یہ تھا کہ آپ اپنی زوجہ اپنے گھر کیوں نہیں بلوا لیتے؟)۔ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: اِس وقت میرے پاس مہر اداء کرنے کے لیے رقم موجود نہیں۔ یہ سن کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو ساڑھے بارہ اوقیہ یعنی 500 درہم دیے۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ تمام رقم عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھجوا دی اور اِس طرح آپ کی رخصتی عمل میں آئی (یہ واقعہ خود عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جسے ابن سعد نے طبقات میں نقل کر دیا ہے)۔[11]

  • عائشہ ماہِ شوال میں خواتین کی رخصتی کو محبوب خیال فرماتی تھیں، تابعی عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے شوال میں نکاح کیا اور شوال میں ہی بیاہ کیا (یعنی رخصتی)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کونسی بیوی آپ کی نگاہ میں مجھ سے زیادہ نصیبا والی تھی؟ [11]

دراصل دورِ جاہلیت میں مدینہ منورہ میں طاعون پھوٹ پڑا تھا جس کے سبب اہلیانِ مدینہ منورہ ماہِ شوال میں رخصتی یا نکاح کو نیک خیال نہیں کرتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذات اقدس کے سبب یہ جاہلانہ رسم ختم ہو گئی۔[11]

سیدنا عائشہ کا زُہد و قناعت

سیدنا سہل بن سعد سے مروی ہے کہ:

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سات دینار اُم المومنین عائشہ صدیقہ کے پاس رکھے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مرض لاحق ہوا تو فرمایا: اے عائشہ! یہ دینار علی کے پاس لے جاؤ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی اور اسی حالت نے عائشہ کو مشغول کر دیا، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انھیں یہی حکم فرماتے اور ہر بار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر غشی طاری ہوجاتی اور یہ حالت سیدنا عائشہ کو مشغول کردیتی حتیٰ کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ دینار علی کی طرف بھیج دیے، علی نے دینار صدقہ کر دیے۔ پیر کی رات حضور اکرم نے موت کی سختی میں گزاری اور ام المومنین سیدنا عائشہ نے اپنے آس پاس کی عورتوں میں کسی عورت کی طرف چراغ دے کر بھیجا کہ اپنے گھی کے برتن میں تھوڑا سا گھی ہدیۃً ہمارے چراغ میں ڈال دیجئے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عالم نزع میں ہیں۔[48]

سیدنا عروہ اُم لمومنین عائشہ صدیقہ سے روایت کرتے ہیں کہ عائشہ صدیقہ نے ان سے فرمایا:

اے بھانجے! ہم دو ماہ میں تین چاند دیکھتے اور حضور سراپا نور، شاہ غیور کے گھروں میں آگ نہیں جلتی تھی۔

عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کی:

آپ کی گزر اوقات کیسے ہوتی تھی؟

انھوں نے فرمایا:

دو سیاہ چیزیں یعنی کھجور اور پانی پر ہوتی تھی۔ سوائے اس کے کچھ انصار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پڑوسی تھے۔ اُن کی کچھ دودھ والی اونٹنیاں تھیں اور وہ ان کا دودھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا کرتے تھے۔اور اپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہ دودھ ہمیں پلادیا کرتے تھے۔[49]

امام مالک بن انس تک ام المومنین سیدنا عائشہ صدیقہ سے یہ روایت پہنچی ہے کہ:

ایک مسکین نے ان سے کچھ مانگا اس وقت وہ روزہ دار تھیں۔ان کے حجرہ مقدس میں صرف ایک روٹی تھی انہوں نے اپنی لونڈی سے فرمایا: ”یہ روٹی اس مسکین کو دے دو“۔ اس لونڈی نے عرض کی: ”ام المومنین اپ روزہ کس سے افطار کریں گی؟“۔ عائشہ صدیقہ نے فرمایا: ”یہ روٹی اس مسکین کو دے دو“۔لونڈی نے کہا: وہ روٹی میں نے مسکین کو دے دی جب شام ہوئی تو ہمیں کسی گھر والوں یا کسی نے ہدیہ بھیجا جو ہمیں بکری یا روٹی بھیجا کرتا تھا۔ ام المومنین نے مجھے بلایا اور فرمایا:”اس میں سے کھاؤ، یہ تمہاری روٹی (ٹکیہ) میں سے بہتر ہے“۔[50]

غزوہ مُرَیسِیع

ماہِ شعبان / جنوری 627ء میں غزوہ المریسیع پیش آیا۔ مریسیع قدید کے اطراف میں ساحل کے قریب ایک چشمہ ہے [51] جس کے گرد بنو مصطلق آباد تھے جو بنو خزاعہ کی ایک شاخ ہیں اور یہ بنی مدلج کے حلفاء میں سے تھے۔ بنو مصطلق اپنے اِس کنویں یعنی مریسیع پر اُترا کرتے تھے۔ اِس کنویں اور الضرع کے مقام کے درمیان میں ایک دن کی مسافت تھی، الضرع اور مدینہ منورہ میں 8 برد یعنی 96 میل کا فاصلہ تھا۔[52]

مریسیع میں بنو مصطلق کا سردار الحارث بن ابی ضرار تھا جو لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جنگ کرنے پر آمادہ کر رہا تھا۔ یہ خبر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے بریدہ بن حصیب الاسلمی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ وہ اِس خبر کا علم لائیں۔ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بنو مصطلق کے حال کی خبر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا اور جمع کیا اور لوگ بوقت روانگی گھوڑوں کی باگ ڈور پکڑ کر روانہ ہوئے، یہ تعداد میں 30 تھے، 10 مہاجرین کے اور 20 انصار کے افراد شامل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ منافقین کے بھی بہت سے آدمی روانہ ہوئے جو اِس سے قبل کسی غزوہ میں روانہ نہیں ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ پر اپنا قائم مقام بنایا۔[52]

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ منورہ سے 2 شعبان / 26 دسمبر 626ء کو روانہ ہوئے، الحارث بن ابی ضرار اور اُس کے ساتھیوں کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کی خبر ملی اور اِس امر کی بھی خبر ملی کہ اُن کا جاسوس قتل کر دیا گیا جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خبر لانے کے لیے روانہ کیا تھا، تو الحارث بن ابی ضرار کے وہ ساتھی سخت ناگواری کا اظہار کرکے اُس سے جدا ہو گئے اور اِسی اثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مریسیع پہنچ گئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا۔ اِس غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دو ازواج عائشہ رضی اللہ عنہا اور اُم سلمہ رضی اللہ عنہا بھی ہمراہ تھیں۔ بنو مصطلق سے جنگ کی تیاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اصحاب کو صف بستہ کیا، مہاجرین کا عَلَم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور انصار کا عَلَم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو دیا۔ تھوڑی دیر انھوں نے مخالفین سے تیراندازی کی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اصحاب کو حکم دیا تو انھوں نے یکبارگی حملہ کر دیا۔ مشرکین میں کوئی شخص نہ بچا، 10 آدمی قتل ہوئے اور باقی گرفتار کرلیے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مردوں، عورتوں اور بچوں اور اونٹ اور بکریاں قید کرلیے۔ مسلمانوں میں ایک شخص شہید ہوا۔ اِسی غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جویریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا جو بنو مصطلق کے سردار الحارث بن ابی ضرار کی بیٹی تھیں۔[52]

مسلمانوں کی مدینہ منورہ آمد سے انھیں جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا، اُن میں منافقین سر فہرست تھے۔ منافقین کا یہ گروہ مسلمانوں اور اسلام مخالف سازشوں میں مصروف رہتا تھا۔ منافقین کی سازشوں کی بروقت سرکوبی کردی جاتی تاکہ وہ کامیاب نہ ہوسکیں مگر وہ مسلمانوں کی عزت و آبرو سے متعلق طرح طرح کی سازشیں تیار کرلیتے تاکہ مسلمان قبیلوں میں پھوٹ پڑوا سکیں۔ کئی غزوات میں منافقین بڑی تعداد میں جمع ہوجاتے تاکہ خونریزی پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ ایسا ہی موقع غزوہ بنو مصطلق یا غزوہ بنو مریسیع (وقوعہ ماہِ شعبان / جنوری 627ء) پیش آیا جو تاریخ میں اِفک کے نام سے مشہور ہے اور یہ منافقین کی سب سے بڑی ذلیل حرکت تھی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ذات مبارکہ پر بھی اُنگلی اُٹھائی اور اِس تہمت کا بنیادی مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اِیذاء پہنچانا تھا، نعوذ باللہ۔ چونکہ منافقین  کو یہ معلوم تھا کہ یہاں (یعنی مریسیع کے مقام پر) کوئی خونریز جنگ نہ ہوگی اِس لیے منافقین کی ایک بہت بڑی تعداد فوج میں شریک ہو گئی تھی۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ: " رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ منافقین کے بھی بہت سے آدمی روانہ ہوئے جو اِس سے قبل کسی غزوہ میں روانہ نہیں ہوئے تھے۔" [52] منافقین ہر چند اِس غزوہ میں اپنی شریر حرکات سے باز نہ آئے، ایک دفعہ قریب تھا کہ مہاجرین اور انصار تلوار کھینچ کر باہم لڑتے، آخر مشکل سے معاملہ رفع دفع کیا گیا۔ اِن شریروں نے انصار کو کہا کہ وہ مسلمانوں یعنی مہاجرین کی مالی خدمت کرنا چھوڑ دیں،  عبد اللہ بن اُبی جو منافقین کا سردار تھا، اُس نے تو برملا کہا کہ: ہم عزت والے اِن ذلیل لوگوں کو مدینہ سے نکال دیں گے (نعوذ باللہ)۔ اللہ تعالیٰ نے اِسی کے قول کو سورہ منافقون میں دہرا دیا ہے کہ

  • هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنْفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّىٰ يَنْفَضُّوا ۗ وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ O يَقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ۚ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ O
  • یہی ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس (رہتے) ہیں ان پر (کچھ) خرچ نہ کرو۔ یہاں تک کہ یہ (خود بخود) بھاگ جائیں۔ حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانے خدا ہی کہ ہیں

لیکن منافق نہیں سمجھتے۔[53] کہتے ہیں کہ اگر ہم لوٹ کر مدینے پہنچے تو عزت والے ذلیل لوگوں کو وہاں سے نکال باہر کریں گے۔ حالانکہ عزت خدا کی ہے اور اس کے رسول کی اور مومنوں کی لیکن منافق نہیں جانتے۔[54]

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن اُبی کا یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچا دیا۔ آپ نے لشکر کے کوچ کا حکم دیا اور اُسی وقت مریسیع سے روانہ ہوئے۔[55] رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انصارِ مدینہ کو جمع کرکے اِس واقعہ کی اطلاع دی گو کہ وہ اِس جرم میں شریک نہ تھے مگر اُن کو ندامت ہوئی اور عبد اللہ بن اُبی کی نسبت اُن میں نفرت سی پیدا ہو گئی۔ خود اُس کے بیٹے نے جب یہ سنا تو اُس نے باپ کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور کہا: میں اُس وقت تک تجھے نہ چھوڑوں گا جب تک تو یہ اقرار نہ کرلے کہ تو ہی ذلیل ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) عزت والے ہیں۔[55][56]

واقعہ اِفک

واقعہ اِفک (واقعہ تہمت) یعنی اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا واقعہ غزوہ بنو مصطلق (جسے غزوہ بنو مریسیع بھی کہا جاتا ہے) سے واپسی پر ماہِ شعبان 5ھ/ جنوری 627ء سے واپسی پر پیش آیا۔ واقعہ اِفک کی تفصیل خود عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی صحیح بخاری میں موجود ہے، یہاں یہ واقعہ اِختصار سے تحریر کیا گیا ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا غزوہ مریسیع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ تھیں، مدینہ منورہ سے روانگی سے قبل انھوں نے اپنی بہن اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے ایک ہار عاریتہً پہننے کو مانگ لیا تھا، ہار کی لڑیاں کمزور تھیں کہ ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھیں، اِس وقت آپ کی عمر بھی 14/15 سے زائد نہ تھی، یہ دور خاتون کے لیے ایسا ہے کہ اُن کے نزدیک معمولی سا زیور بھی گراں قیمت ہوتا ہے۔ چونکہ پردہ کا حکم اِس غزوہ سے قبل ہی نازل ہو چکا تھا اِسی لیے آپ دورانِ سفر محمل یعنی ہودج میں سوار ہوتی تھیں جس پر پردے لٹکے رہتے تھے، ساربان ہودج سمیت آپ کی سواری کو اُتار لیتے اور یونہی ہودج سمیت آپ اونٹ پر سوار ہوجاتیں۔ اُس زمانہ میں عائشہ دبلی پتلی تھیں اور ساربانوں کو یہ مطلق معلوم نہ ہوتا تھا کہ آپ ہودج میں سوار ہیں بھی کہ نہیں۔

بنو مصطلق سے واپسی پر مدینہ منورہ سے ایک منزل پہلے ذی قرع کی بستی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پڑاؤ کا حکم دیا، [57] یہاں ایک رات لشکر نے پڑاؤ کیا، پچھلے پہر لشکر روانگی کو تیار تھا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا لشکر کے کوچ سے قبل قضائے حاجت کے لیے لشکر سے ذرا دور نکل کر باہر آڑ میں چلی گئیں۔ واپس لوٹیں تو اِتفاقاً ہاتھ گلے پر پڑا تو ہار نہیں تھا، وہیں تلاش کرنے لگیں، اُدھر لشکر تیار تھا، سفر کی ناتجربہ کاری سے اُن کو یقین تھا کہ لشکر کی روانگی سے قبل ہی ہار تلاش کرکے میں واپس آجاؤں گی مگر ہار تلاش کرنے میں دیر ہو گئی،  جاتے وقت آپ کسی کو مطلع کیے بغیر چلی گئیں تھیں، ساربانوں نے خیال کیا کہ آپ ہودج میں سوار ہیں، ہودج کے پردے چھٹے ہوئے تھے، سو انھوں نے ہودج اونٹ پر رکھا جو دراصل خالی تھا اور لشکر روانہ ہو گیا۔ اُس زمانہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا غالباً 14/15 سال کی تھیں اور دبلی پتلی تھیں اِسی لیے ہودج رکھنے والوں کو معلوم نہ ہو سکا کہ آپ سوار ہیں یا نہیں؟۔ آپ فرماتی ہیں کہ جب میں ہار کے بغیر واپس آئی تو دیکھا کہ لشکر کوچ کو تیار ہے، میں پھر ہار تلاش کرنے چلی گئی، اب کی بار وہ ہار مجھے مل گیا، جب دوبارہ واپس آئی تو دیکھا کہ لشکر روانہ ہو چکا تھا اور لوگ مجھ کو ہودج میں بیٹھا ہوا سمجھ کر میرا ہودج اونٹ پر کس کر لے گئے تھے۔[58][59]

جب آپ ہار مل جانے کے بعد واپس اُسی مقام پر آئیں تو دیکھا کہ لشکر روانہ ہو چکا ہے اور وہاں کوئی بھی نہ تھا۔  اِس خیال سے کہ جب لوگ مجھے نہ پائیں گے تو میری تلاش میں واپس یہیں آئیں گے، آپ چادر لپیٹ کر لیٹ گئیں۔ اِسی اثناء میں نیند آگئی۔  صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ جو لشکر کی گری پڑی اشیاء اُٹھانے کے لیے پیچھے رہا کرتے تھے، وہ وہاں پہنچے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کو پہچان لیا۔ صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ نے آپ کو پردہ کے حکم نازل ہونے سے قبل دیکھا تھا۔ آپ کو دیکھتے ہی بلند آواز سے اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ  پڑھا۔ غالباً صفوان رضی اللہ عنہ نے با آوازِ بلند اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ اِس لیے پڑھا کہ اُم المومنین بیدار ہوجائیں اور خطاب و کلام کی نوبت نہ آئے اور ایسا ہی ہوا کہ کلام کی نوبت نہیں آئی جیسا کہ آپ خود فرماتی ہیں کہ: اللہ کی قسم! صفوان نے مجھ سے کوئی بات تک نہیں کی اور نہ اُن کی زبان سے سوائے اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ کے میں نے کوئی کلمہ سنا۔[60][59] آپ فرماتی ہیں کہ: کہ صفوان نے اپنا اونٹ میرے قریب کیا اور خود پیچھے ہٹ گئے، میں اُس پر سوار ہوئی اور صفوان اُس اونٹ کی نکیل پکڑ کر آگے ہو لیے اور لشکر کی تلاش میں تیزی سے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ جب صبح ہوئی اور لشکر ٹھہرا تو صفوان مجھ کو لے کر لشکر جا پہنچے اور تمہت لگانے والوں کو جو کچھ کہنا تھا، انھوں نے کہا اور مجھ کو اِس کی کوئی خبر نہ تھی۔[60] آپ خود فرماتی ہیں کہ: لوگ پڑاؤ میں اُتر چکے تھے اور اطمینان سے بیٹھے تھے کہ صفوان مجھے لیے ہوئے آ گئے تو اہل اِفک اور تہمت تراشوں نے جو کہنا تھا، کہا اور لشکر میں تہلکہ مچ گیا،  واللہ!  مجھے اِس ہیجان کا کچھ علم نہ تھا۔[59]

ابن ہشام نے آپ کی لشکر میں آمد کا وقت صبح لکھا ہے جبکہ مستند تواریخ کے مطابق آپ کی لشکر میں آمد دوپہر کے وقت ہوئی اور دوپہر کا وقت زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے جسے امام بخاری نے خود عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے نقل کیا ہے [61] کیونکہ منافقین نے دوپہر میں واضح دیکھا تو خباثت بکنا شروع کی، صبح کا وقت صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اگر صبح کا وقت ہوتا تو منافقین دیکھ نہ پاتے۔ منافقین کے سردار عبد اللہ ابن اُبی بن سلول اور اُس کے ساتھیوں نے یہ منظر دیکھتے ہی اپنی خباثت بکنا شروع کردی کہ اُم المومنین اب پاکدامن نہ رہیں  (نعوذ باللہ)[62] اور جس کو ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوا۔[63] رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اِس غزوہ میں 28 دن مدینہ منورہ سے باہر رہے اور رمضان کو بوقت رؤیتِ ہلال شب جمعرات 22 جنوری 627ء کو مدینہ منورہ پہنچے۔[64]

مدینہ منورہ پہنچ کر عائشہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوگئیں۔ تقریباً ایک مہینہ بیماری میں گذرا۔ اِفتراء پرداز اور طوفان برپا کرنے والے اِسی چرچہ میں تھے مگر عائشہ رضی اللہ عنہا کو مطلق بھی اِس کا علم نہ تھا لیکن آپ فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اُس تلطف اور مہربانی میں کمی آ جانے کی وجہ سے جو سابقہ بیماریوں میں مبذول رہی، دل کو خلجان اور تردد تھا کہ کیا بات ہے کہ آپ گھر تو تشریف لاتے ہیں اور دوسروں سے میرا حال دریافت کرکے واپس ہوجاتے ہیں، مجھ سے دریافت نہیں کرتے، آپ کی اِس بے التفاتی سے میری تکلیف میں مزید اضافہ ہوتا تھا۔ ابن ہشام نے آپ کا قول نقل کیا ہے کہ:  آپ فرماتی ہیں کہ یہاں تک کہ جب ہم مدینہ پہنچے تو میں بیمار ہو گئی اور تہمت لگانے کی خبر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گوش زد ہوئی اور میرے والدین کو بھی پہنچی، مگر کسی نے مجھ سے ذکر تک نہ کیا۔ صرف اِتنی بات ہوئی کہ اِس سے قبل جب میں بیمار ہوتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میری دِلجوئی فرمایا کرتے تھے، اِس مرتبہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ توجہ اپنے حال پر نہ دیکھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھر میں آتے تو میری والدہ اُم رومان سے جو بیماری میں میرے پاس تھیں، فقط اِتنا پوچھتے کہ اب یہ کیسی ہیں؟۔  بس، اِس سے زیادہ اور کچھ نہ فرماتے۔[65] آپ فرماتی ہیں کہ:  اِن حالات میں، میں دل گرفتہ ہو گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اگر آپ مجھے والدین کے پاس جانے کی اجازت دیں اور میں وہاں منتقل ہوجاؤں تو وہ میری تیمارداری اچھی طرح سے کرسکیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: کوئی ہرج نہیں۔[66] ابن ہشام نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: تمھیں اِختیار ہے۔[67] چنانچہ میں اپنی والدہ کے پاس چلی آئی اور میں اِن باتوں سے قطعاً بے خبر تھی اور قریباً ایک ماہ کی بیماری میں نہایت کمزور ہو چکی تھی۔ ہم عرب لوگ تھے، ہمارے گھروں میں اہل عجم کی طرح بیت الخلا نہ تھا۔ قضائے حاجت کے لیے مدینہ کی کھلی فضاء میں چلے جاتے تھے (یعنی کھلے جنگل میں شہر کے باہر) اور خواتین حوائج ضروریہ کے لیے رات کو باہر جایا کرتی تھیں۔ چنانچہ میں بھی ایک شب رفع حاجت کے لیے باہر گئی اور میرے ہمراہ اُم مسطح بنت ابی رہم بن مطلب تھیں،  چلتے چلتے وہ اپنی چادر میں اُلجھ کر ٹھوکر لگی اور گر گئیں تو اُن کے منہ سے نکلا: مسطح ہلاک ہو (مسطح اُن کا بیٹا تھا، لقب مسطح تھا اور نام عوف تھا)۔ یہ سن کر میں نے کہا: اللہ کی قسم! تم نے ایک بدری مہاجر کو بددعاء دے کر برا کیا۔ تو اُم مسطح نے کہا: اے دختر ابی بکر! کیا تم کو وہ بات معلوم نہیں؟ میں نے پوچھا کونسی؟  تو اُم مسطح نے مجھے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ میں نے حیرت سے پوچھا: کیا یہ بات ہو چکی ہے؟۔ اُم مسطح نے کہا: ہاں واللہ!  یہ بات پھیل چکی ہے۔ میرے اوسان خطاء ہو گئے اور میں رفع حاجت کے بغیر ہی واپس چلی آئی، واللہ! میں رات بھر روتی رہی، میں نے محسوس کیا کہ روتے روتے میرا کلیجا پھٹ جائے گا۔ یہ سنتے ہی مرض میں اور شدت آگئی۔[67][66]

میں اپنے والدین کے پاس آئی اور اپنی ماں سے کہا: اے میری ماں آپ کو معلوم ہے کہ لوگ میری بابت کیا کہہ رہے ہیں؟۔  ماں نے کہا: اے میری بیٹی تو رنج نہ کر، دنیا کا قاعدہ یہی ہے کہ جو عورت خوبصورت اور خوب سیرت ہو اور اپنے شوہر کے نزدیک بلند مرتبہ ہو تو حسد کرنے والی عورتیں اُس کے ضرر کے درپے ہو جاتی ہیں اور لوگ بھی اُس پر تمہتیں تراشتے ہیں [67][66](صحیح بخاری میں واقعہ اِفک کے اِس موقع پر لفظ ضرائر آیا ہے جو سوکن کے معنی میں مستعمل ہے، چونکہ اِس واقعہ میں کوئی بھی زوجہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک نہ تھی، اِس لیے یہاں اِس لفظ سے مراد حاسد عورتیں ہیں جو زبان عربی میں مستعمل بھی ہے)۔[68] ابن ہشام کی روایت ہے کہ میں نے کہا:  کیا میرے باپ کو بھی اِس کا علم ہے؟  ماں نے کہا: ہاں۔ ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ میں نے کہا: اے میری ماں! اللہ تمھاری مغفرت کرے، لوگوں میں تو اِس کا چرچہ ہے اور تم نے مجھ سے اِس کا ذکر تک نہ کیا، یہ کہتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میری چیخیں نکل گئیں۔ میرے والد بالاخانہ پر تلاوت قرآن میں مصروف تھے کہ میری چیخ سن کر نیچے آ گئے اور میری ماں سے دریافت کیا۔ ماں نے کہا کہ اِس کو قصے کی خبر ہو گئی ہے۔ یہ سن کر میرے والد رونے لگے۔ مجھ کو شدت کا لرزہ آیا کہ میری والدہ اُم رومان نے گھر کے تمام کپڑے مجھ پر ڈال دیے اور یونہی تمام رات روتے ہوئے گذر گئی۔ ایک لمحہ کے لیے آنسو نہیں تھمتے تھے کہ اِسی طرح صبح ہو گئی۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شدت غم سے صرف ایک بار یہ کہا کہ: اللہ کی قسم! یہ بات تو ہمارے حق میں زمانہ جاہلیت میں بھی نہیں کہی گئی، پھر جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اسلام سے عزت بخشی تو اِس کے بعد کیسے ممکن ہے؟[69] جب اِس معاملہ میں نزول وحی میں تاخیر ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ اور اُسامہ رضی اللہ عنہ سے مشورہ فرمایا۔ اُسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! وہ آپ کے اہل ہیں، جو آپ کے شایانِ شان اور منصبِ نبوت و رِسالت کے مناسب ہیں۔ اُن کی عصمت و عفت کا کیا پوچھنا؟۔  آپ کی حرم محترم کی طہارت و نزاہت تو اظہر من الشمس ہے، اِس میں رائے اور مشورہ کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر حضور کو ہمارا مشورہ اور خیال معلوم فرمانا ہے تو یہ عرض کرتا ہوں کہ جہاں تک ہم کو معلوم ہے، آپ کے اہل اور ازواج المطہرات میں ہم نے کبھی سوائے خیر اور خوبی، نیکی اور بھلائی کے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رنج و غم اور حزن و ملال کے خیال سے یہ عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! اللہ نے آپ پر تنگی نہیں کی، عورتیں اُن کے سواء اور بہت ہیں، آپ اگر گھر کی لونڈی سے دریافت فرمائیں تو وہ سچ سچ بتا دے گی (یعنی آپ مجبور نہیں، مفارقت آپ کے اِختیار میں ہے لیکن گھر کی لونڈی سے تحقیق فرمالیں، وہ آپ کو بالکل سچ سچ بتلادے گی  اِس لیے کہ گھر کی لونڈی بہ نسبت مردوں کے زیادہ خانگی حالات سے باخبر ہوتی ہیں۔ معاذ اللہ، علی رضی اللہ عنہ کو اُم المومنین کی برات و نزاہت میں ذرہ برابر شک بھی نہ تھا، یہ کلمات محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تسلی کے لیے فرمائے، مطلب یہ تھا کہ حزن و ملال کی شدت کی وجہ سے مفارقت میں عجلت نہ فرمائیں، فی الحال تحقیقِ حال سے پہلے کوئی خیال قائم نہ فرمائیں اور بریرہ باندی سے حالت دریافت کرنے کا آپ کو مشورہ دیا کیونکہ علی رضی اللہ عنہ کو یقین کامل تھا کہ مجھ سے زیادہ گھر کی لونڈی زیادہ اُم المومنین کی طہارت و نزاہت کو جانتی ہیں)۔[70]

علی رضی اللہ عنہ کے مشورہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گھر کی باندی بریرہ رضی اللہ عنہا سے پوچھ گچھ کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بریرہ کو بلا کر اُن سے پوچھا:  کیا تو گواہی دیتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟،  بریرہ نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا:  میں تجھ سے کچھ دریافت کرنا چایتا ہوں، چھپانا  نہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ مجھ کو بذریعہ وحی بتلاد دے گا۔ بریرہ نے کہا: جی میں چھپاؤں گی نہیں، آپ دریافت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا: تو نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھی ہے؟   بریرہ کہنے لگیں: نہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بریرہ سے فرمایا:  اے بریرہ!  اگر تو نے ذرہ برابر بھی کوئی شے ایسی دیکھی ہو جس میں تجھ کو شبہ اور تردد ہو تو بتلا۔[71] بریرہ کہنے لگیں:  قسم ہے اُس ذات پاک کی، جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا، میں نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی کوئی بات معیوب اور قابل گرفت کبھی نہیں دیکھی، سوائے اِس کے کہ وہ ایک کمسن لڑکی ہیں، آٹا گندھا ہوا چھوڑ کر سو جاتی ہیں اور بکری کا بچہ آکر اُسے کھا جاتا ہے۔[72]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بریرہ کا یہ جواب سن کر مسجد نبوی چلے گئے اور منبر پر کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا، اول حمد و ثناء بیان فرمائی اور بعد ازاں عبد اللہ بن اُبی کا ذکر کرکے یہ ارشاد فرمایا: اے گروہ مسلمین! کون ہے کہ جو میری اُس شخص کے مقابلہ میں مدد کرے؟  جس نے مجھ کو میرے اہل بیت کے بارے میں اِیذاء پہنچائی ہے۔ اللہ کی قسم! میں نے اپنے اہل سے سوائے نیکی اور پاکدامنی کے کچھ نہیں دیکھا اور علیٰ ہذا جس شخص کا اُن لوگوں نے نام لیا ہے اُس سے بھی سوائے خیر اور بھلائی کے کچھ نہیں دیکھا" [72] (یہ اشارہ صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ کے متعلق تھا)۔ یہ سن کر قبیلہ اَوَس کے سرداد سعد بن معاذ رضی اللہ کھڑے ہو گئے اور عرض کیا:  یا رسول اللہ! میں آپ کی اعانت اور امداد کو حاضر ہوں، اگر یہ شخص ہمارے قبیلہ اَوَس کا ہوا تو ہم خود ہی اُس کی گردن اُڑا دیں گے اور اگر قبیلہ خزرج سے ہوا اور آپ نے حکم دیا تو ہم تعمیل کریں گے۔[72] سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہا جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے، کو یہ خیال ہوا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہم پر تعریض کر رہے ہیں کہ اہل اِفک قبیلہ خزرج میں سے ہیں، اِس لیے انھیں جوش آ گیا۔  ابن اسحاق کی روایت میں اِس کی تصریح ہے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو مخاطب بناکر کہا: اللہ کی قسم! تم اُس کو ہرگز قتل نہ کرسکو گے، یعنی اگر وہ ہمارے قبیلہ کا ہوا تو ہم خود اُس کو قتل کر دیں گے، اگرچہ وہ شخص قبیلہ خزرج کا ہو یا کسی اور قبیلہ کا ہو، کوئی بھی ہم کو روک نہیں سکتا اور کیا تو منافق ہے جو منافقین کی طرف سے جوابدہی کرتا ہے؟  یہ تلخ کلامی حد سے بڑھ گئی، خدشہ تھا کہ کہیں قبیلہ اَوَس قبیلہ خزرج سے لڑ پڑیں۔  اِسی اثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منبر سے اُتر آئے اور لوگوں کو خاموش کروایا۔[73]

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:  یہ دن بھی تمام کا تمام روتے ہوئے گذرا، ایک دقیقہ کے لیے بھی آنسو نہیں تھمتے تھے۔ رات بھی اِسی طرح گذری، میری اِس حالت میں میرے والدین کو گمان ہونے لگا تھا کہ اب اِس کا کلیجا پھٹ جائے گا۔ جب صبح ہوئی تو بالکل میرے قریب آکر میرے والدین بیٹھ گئے اور میں رو رہی تھی اتنے میں انصار کی ایک عورت آگئی اور وہ بھی میرے ساتھ رونے لگی[73][72] کہ اِسی حالت میں اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے اور سلام کرکے میرے قریب بیٹھ گئے۔ اِس واقعہ کے بعد سے کبھی آپ میرے پاس آکر نہیں بیٹھے تھے اور وحی کے اِنتظار میں ایک مہینہ گذر چکا تھا۔ آپ بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیان فرمائی۔ اِس کے بعد یہ فرمایا:

اے عائشہ! مجھ  کو تیری جانب سے ایسی خبر پہنچی ہے، اگر تو بَری ہے تو عنقریب اللہ تجھ کو ضرور بَری کرے گا اور اگر تو نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو اللہ سے توبہ اور استغفار کر، اِس لیے کہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے اور اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ اُس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ [74][75]

آپ فرماتی ہیں کہ:  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِس کلام کو ختم فرمایا اُسی وقت میرے آنسو منقطع ہو گئے۔ آنسو کا ایک قطرہ میری آنکھ میں نہ رہا اور میں نے اپنے والد سے کہا:  آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جواب دیں، انھوں نے کہا:  میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا جواب دوں؟۔  پھر میں نے یہی الفاظ اپنی ماں سے کہے تو ماں نے بھی یہی جواب دیا۔ اِس کے بعد میں نے خود جواب دیا کہ:  اللہ کو خوب معلوم ہے کہ میں بالکل بَری ہوں لیکن یہ بات سب لوگوں کے دلوں پر اس درجہ راسخ ہو گئی ہے کہ اگر میں یہ کہوں کہ میں بَری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بَری ہوں، تو تم سب یقین نہ کرو گے اور اگر بالفرض میں اقرار کرلوں حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بَری ہوں، تو تم سب یقین کروگے اور میں نے روتے ہوئے یہ کہا کہ:  اللہ کی قسم! میں اُس چیز سے کبھی توبہ نہ کروں گی جو یہ لوگ مجھ سے منسوب کرتے ہیں، بس میں وہی کہتی ہوں کہ جو یوسف علیہ السلام کے باپ نے کہا تھا (آپ فرماتی ہیں کہ:  میں نے یعقوب علیہ السلام کا نام یاد کیا تو نام یاد نہ آیا تو اِس لیے یوسف علیہ السلام کے والد کہا) اور پھر کہا:  فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ ( پس صبر و شکر بہتر ہے اور اللہ ہی مددگار ہے اُس بات کے آشکارا کرنے پر جو تم بیان کرتے ہو)۔

آپ فرماتی ہیں کہ: اُس وقت قلب کو یقینِ کامل اور جزمِ تام تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو ضرور بَری فرمائے گا، لیکن یہ وہم و  گمان نہ تھا کہ میرے بارے میں اللہ تعالیٰ ایسی وحی نازل فرمائے گا جس کی ہمیشہ تلاوت ہوتی رہے گی، میں خیال کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ شاید کوئی خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اِس طرح کا دکھا دے گا جس میں میری بریت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معلوم ہو جائے گی۔[76][77] آپ فرماتی ہیں کہ:  ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہیں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ وحی کا نزول شروع ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سر اقدس کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ رکھ دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایک چادر اوڑھا دی گئی۔[78] باوجود شدید سردی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جبین مبارک سے پسینے کے قطرات ٹپکنے لگے۔ آپ فرماتی ہیں کہ جب وحی کا نزول شروع ہوا تو میں بالکل نہیں گھبرائی، کیونکہ میں جانتی تھی کہ میں بَری ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ پر ظلم نہیں فرمائے گا، لیکن میرے والدین کا خوف سے یہ حال تھا کہ مجھ کو اندیشہ ہوا کہ اُن کی جان ہی نہ نکل جائے۔ اُن کو یہ خوف تھا کہ مباداء وحی اُسی کے موافق نہ نازل ہو جائے جیسا کہ لوگ کہہ رہے ہیں۔[76]

میرے والد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا کا یہ حال تھا کہ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب دیکھتے اور کبھی میری طرف،  تو انھیں یہ اندیشہ ہوتا کہ آسمان سے کیا حکم نازل ہوتا ہے؟ جو قیامت تک نہ ٹل سکے گا اور جب میری طرف دیکھتے تو میرے سکون و اطمینان کو دیکھ کر انھیں ایک گونہ اُمید ہوتی۔  سوائے آپ کے تمام گھر والے اِسی خوف سے گھبرائے جا رہے تھے کہ وحی آسمانی کا نزول ختم ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جبین مبارک سے پسینہ صاف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چہرہ انوار پر مسرت و بشاشت کے آثار نمودار ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسکراتے ہوئے اور دست مبارک سے جبین مبارک سے پسینہ صاف کرتے ہوئے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی جانب متوجہ ہوئے، پہلا کلمہ جو زبان مبارک سے نکلا، وہ یہ تھا:  يَا عَائِشَةُ أَمَّا اللَّهُ فَقَدْ بَرَّأَکِ (اے عائشہ! اللہ نے تمھاری پاکدامنی بیان فرما دی)۔[76] آپ فرماتی ہیں کہ: میری والدہ نے کہا: اُٹھ اے عائشہ!  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا شکریہ اداء کر۔ میں نے کہا:  اللہ کی قسم!  سوائے اللہ تعالیٰ کے جس نے میری براءت نازل فرمائی، کسی کا شکر اداء نہ کروں گی [76][78] (یہ شکر الٰہی اور انعامِ یزدانی کے باعث کہا وگرنہ اُم المومنین کا اس حالت میں شکر نبوی سے انکار محض ناز محبوبی کے مقام سے تھا اور ناز محبوبی کی یہ حقیقت ہے جس چیز سے لبریز ہو، زبان سے اُس کے خلاف اِظہار ہو، ظاہر میں ایک ناز ہی تھا اور صد ہزار نیاز مستور میں تھے )۔[79]

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی براءت میں سورۃ النور کی آیات 11 سے 20 تک نازل ہوئیں:

  • 'إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًا لَكُمْ ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ O لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَٰذَا إِفْكٌ مُبِينٌ O لَوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ ۚ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَٰئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ O وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ O إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمٌ O وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَٰذَا سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ O يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ O وَيُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ O إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ O وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ O
  • جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا۔ بلکہ وہ تمھارے لیے اچھا ہے۔ ان میں سے جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اس کے لیے اتنا ہی وبال ہے۔ اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کو بڑا عذاب ہوگا O جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا۔ اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح طوفان ہے O یہ (افتراء پرداز) اپنی بات (کی تصدیق) کے (لیے) چار گواہ کیوں نہ لائے۔ تو جب یہ گواہ نہیں لاسکے تو خدا کے نزدیک یہی جھوٹے ہیںO اور اگر دنیا اور آخرت میں تم پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو جس بات کا تم چرچا کرتے تھے اس کی وجہ سے تم پر بڑا (سخت) عذاب نازل ہوتا O جب تم اپنی زبانوں سے اس کا ایک دوسرے سے ذکر کرتے تھے اور اپنے منہ سے ایسی بات کہتے تھے جس کا تم کو کچھ علم نہ تھا اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے تھے اور خدا کے نزدیک وہ بڑی بھاری بات تھی O اور جب تم نے اسے سنا تھا تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں شایاں نہیں کہ ایسی بات زبان پر نہ لائیں۔ (پروردگار) تو پاک ہے یہ تو (بہت) بڑا بہتان ہے O خدا تمھیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر مومن ہو تو پھر کبھی ایسا کام نہ کرنا O اور خدا تمھارے (سمجھانے کے لیے) اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے۔ اور خدا جاننے والا حکمت والا ہے O اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی یعنی (تہمت بدکاری کی خبر) پھیلے ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہوگا۔ اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے O اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو کیا کچھ نہ ہوتا مگر وہ کریم ہے) اور یہ کہ خدا نہایت مہربان اور رحیم ہے۔(سورۃ النور،  آیات 11 تا 20)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اِن آیاتِ مبارکہ کی تلاوت سے فارغ ہوئے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اُٹھے اور لخت جگر کی جبین مبارک پر بوسہ دیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: اے میرے باپ! پہلے سے آپ نے مجھ کو کیوں نہ معذور اور بے قصور نہ سمجھا؟۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: کون سا آسمان مجھ پر سایہ ڈالے اور کون سی زمین مجھ کو اُٹھائے اور تھامے جبکہ میں اپنی زبان سے وہ بات کہوں جس کا مجھ کو علم نہ ہو۔[80] بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مکان سے مسجد نبوی تشریف لائے اور مجمع عام میں خطبہ دیا اور یہ آیات تلاوت فرمائیں۔

اِس فتنہ کا اصل بانی تو عبد اللہ ابن اُبی تھا اور اُس کے ہمراہ منافقین کا گروہ اِس فتنہ کے پھیلاؤ میں سرگرم تھا۔ مسلمانوں میں سے کوئی بھی اِس فتنہ میں مبتلا نہ ہوا، سوائے تین افراد کے جو منافقین کے بہکاوے میں آ گئے تھے:  مسطح بن اثاثہ،  حسان بن ثابت،  حمنہ بنت جحش۔  اِن تینوں افراد پر حد قذف جاری گئی اور 80، 80 کوڑے مارے گئے اور وہ اپنی غلطی سے تائب ہوئے۔[78] عبد اللہ ابن اُبی کو سزا نہیں دی گئی کیونکہ وہ منافق تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ اِس تمہت کا بانی عبد اللہ بن اُبی بن سلول تھا اور قبیلہ خزرج کے چند لوگ جن میں مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش بھی اُس کے ساتھ شریک تھے۔ حمنہ بنت جحش کے شریک ہونے کا مقصد یہ تھا کہ حمنہ اُم المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی بہن تھی اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جو التفات مجھ سے تھا، وہ کسی اور زوجہ سے نہیں تھا، اِسی لیے اللہ تعالیٰ نے زینب رضی اللہ عنہا کو اُن کی دینداری کے سبب سے رشک و حسد سے محفوظ رکھا، مگر حمنہ بنت جحش بہن کی خاطر مجھ سے ضد رکھتی تھی اور اِسی سبب سے اِس تمہت میں شریک ہوئی۔[78]

مسطح بن اثاثہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خالہ زاد بھائی تھے۔ عسرت و تنگدستی کے سبب سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اُن کو خرچ دیا کرتے تھے۔ مسطح چونکہ اِفک کے فتنہ میں شریک تھے اِسی لیے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ اب مسطح کو کبھی خرچ نہ دوں گا۔ اُن کی اِس قسم پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:

  • وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ O
  • اور جو لوگ تم میں صاحب فضل (اور صاحب) وسعت ہیں، وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور محتاجوں اور وطن چھوڑ جانے والوں کو کچھ خرچ پات نہیں دیں گے۔ ان کو چاہیے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ خدا تم کو بخش دے؟ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے۔ ( سورۃ النور:  آیت 22)

جب یہ آیت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سنی تو کہا: کیوں نہیں، اللہ کی قسم البتہ تحقیق میں اِس کو بہت ہی زیادہ محبوب رکھتا ہوں کہ اللہ میری مغفرت فرمائے۔[81][82]

واقعہ اِفک کے زمانہ کا تعین

واقعہ اِفک کے متعلق مؤرخین کے کئی اقوال ہیں کہ یہ سنہ ماہِ شعبان میں غزوہ مُرَیسیع کے بعد پیش آیا جبکہ بعض مؤرخین کے مطابق یہ سنہ میں پیش آیا۔ سنہ کے متعلق قول قوی ہے کیونکہ اِس واقعہ میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موجودگی کا پتا چلتا ہے جبکہ وہ اِسی سال کے اواخر میں ماہِ ذو الحجہ / اپریل/مئی 627ء میں فوت ہو گئے تھے [83] اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ غزوہ خندق میں موجود تھا حو غزوہ مُرَیسیع کے بعد ماہِ ذوالقعدہ / مارچ 627ء میں پیش آیا تھا۔ سو واقعہ اِفک کے سنہ میں پیش آنے کا قوی ثبوت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات کا ہے جو اِس واقعہ کے 5 ماہ بعد فوت ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غزوہ مُرَیسیع سے واپسی پر مدینہ منورہ ماہِ رمضان کی رؤیتِ ہلال کے وقت پہنچے تھے، علاوہ ازیں اِس واپسی پر عائشہ رضی اللہ عنہا ایک مہینہ بیمار رہیں، غالباً اِمکان ہے کہ سورۃ النور کی آیات 11 تا 20 جو عائشہ رضی اللہ عنہا کی شانِ اقدس میں نازل ہوئیں، ماہِ شوال / فروری/ مارچ 627ء میں نازل ہوئیں۔ اِس طرح ماہ شوال کو یہ نسبت خاص عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہے۔

تحریم، اِیلا اور تحییر

تحریم

تحریم کا سورہ تحریم کی ابتدا‎ئی آیتوں کی طرف اشارہ ہے جس میں اپنی بیوی خوش رکھنے کے لیے ایک حلال کام کو حرام کرنے پر اللہ تعالی، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مذمت کرتے ہیں اور آیتوں کے نزول کی حقیقت تفسیر نمونہ کے مطابق کچھ یوں بیان ہو‎ئی ہے:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کبھی اپنی بیوی زینب بنت جحش کے پاس تشریف لے جاتے تھے زینب آپ کو روکتی تھی اور آپ کے لیے شہد لے آتی تھی جو آپ کے لیے اس نے رکھا تھا۔ اور اس بارے میں عا‎ئشہ کو خبر ملتی ہے اور اس کو یہ کام پسند نہیں آتا ہے اور عا‎ئشہ کہتی ہے: کہ میں اور حفصہ بنت عمر نے یہ طے کیا کہ جب بھی پیغمبر اکرم ہمارے پاس تشریف لے آ‎ئے تو فورا آپ سے کہینگے کہ: کیا آپ نے گندہ بیروزہ (مغافیر) تناول فرمایا ہے؟

- مغافیر اس رس کو کہا جاتا ہے جو عرفط (حجاز کا ایک کانٹا دار درخت) سے نکلتا ہے جسے گندہ بیروزہ کہا جاتا ہے اور بدبودار ہے - جبکہ حضور اکرم ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ آپ کے دھان مبارک یا کپڑوں سے بدبو نہ آ‎ئے

ایک دن آپ حفصہ بنت عمر کے پاس آ‎ئے اور اس نے یہ بات کی تو آپ نے فرمایا: میں نے مغافیر نہیں بلکہ زینب بنت جحش کے ہاں شہد کھایا ہے اور قسم کھاتا ہوں کہ آیندہ کبھی نہیں کھاوں گا لیکن تم اس بات کے کسی کے پاس مت بتانا کیونکہ اگر یہ بات لوگوں تک پہنچ جا‎ئے تو وہ یہ نہ کہیں کہ کیوں پیغمبر نے حلال چیز کو اپنے پر حرام کیا ہے؟ یا کہیں لوگ بھی اس کام میں پیغمبر اکرم کی پیروی نہ کریں، یا اگر یہ بات زینب کے کان تک پہنچ جا‎ئے تو اس کی دل آزاری نہ ہوجا‎ئے۔[84]

یہ روایت مختلف تحریروں میں تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ نقل ہو‎ئی ہے[85] اور امام بخاری نے بھی اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔[86][87] اس واقعے میں اللہ کے رسول ان دونوں سے ناراض ہوتے ہیں اور امام قرطبی نے ناراض گی کی مدت کو ایک مہینہ ذکر کیا ہے۔[88] امام قرطبی اور ابن قیم اس یہاں تک کہتے ہیں کہ سورہ تحریم کی دسویں آیت (:ضَرَبَ اللَّہ مَثَلاً لِلَّذینَ کفَرُوا امْرَأَةَ نُوحٍ وَامْرَأَةَ لُوطٍ کانَتا تَحْتَ عَبْدَینِ مِنْ عِبادِنا صالِحَینِ فَخانَتاہما فَلَمْ یغْنِیا عَنْہما مِنَ اللَّہ شَیئاً وَقیلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدَّاخِلینَ)۔ عا‎ئشہ (رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ) اور حفصہ (رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ) کو ڈرانے کے لیے ہی نازل ہو‎ئی ہے۔[89][90]

زمانہ بیوگی

بروز پیر 12 ربیع الاول 11ھ مطابق 8 جون 632ء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں واقع مسجد نبوی سے ملحقہ حجرہ عائشہ میں وفات پائی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک اُس وقت 18 سال تھی۔ آپ 9 سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ رہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وفات پائی تب آپ کی عمر 18 سال تھی [11][91] اور قریباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال 6 ماہ 5 یوم (قمری) اور 46 سال 1 ماہ 5 یوم (شمسی) تک بقید حیات رہیں۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے 9 سال، خلافت راشدہ کے مکمل 30 سال اور امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے 17 سالوں کی وہ عینی شاہد تھیں۔ اِس تمام عرصہ میں آپ کی شخصیت نمایاں نظر آتی ہے، کبھی آپ لوگوں کو مناسک حج کی تعلیم دیتی نظر آتی ہیں اور کبھی آپ عبادات و ایمانیات کے متعلق تعلیم دیتی ہیں، کبھی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات اقدس کے روشن پہلو بیان فرماتی ہیں اور کبھی امت میں اصلاح کے واسطے مہمل و کجاوے میں مسند نشیں نظر آتی ہیں۔ گویا اِس تمام مدت میں آپ کی شخصیت محور و مرکز بنی ہوئی تھی اور تمام مملکت اسلامیہ میں آپ بحیثیت مرکز و محور تسلیم کی جاتی تھیں، خلافت راشدہ کے اختتام پر اور اُموی خلافت کے زمانہ میں یہ شانِ جلالت اوجِ کمال پر رہی۔ حرم نبوت کی یہ شمع اپنی آب و تاب سے ملت اسلامیہ کو ہر وقت روشن کرتی رہی، اِس بات کا اندازہ اِس سے کیا جا سکتا ہے جس روز آپ کا اِنتقال ہوا تو مدینہ منورہ میں کثرت اژدھام کی وجہ سے عید کا گماں ہونے لگا تھا۔

عہد خلفائے راشدین

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ اول منتخب کیا گیا اور انھیں خلیفۃ الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ کے لقب سے پکارا گیا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بروز پیر 12 ربیع الاول 11ھ/ 8 جون 632ء کو خلیفہ منتخب ہوئے اور بروز پیر 22 جمادی الثانی 13ھ/ 22 اگست 634ء کو مدینہ منورہ میں اِنتقال فرمایا۔ آپ کا عہدِ خلافت 2 سال 3 ماہ 10 دن بلحاظ قمری سال کے ہے۔

ربیع الاول 11ھ/ جون 632ء میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہو گئے تو آنصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تجہیز و تکفین کے بعد ازواج المطہرات نے چاہا کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجیں تاکہ وہ وراثت کا مطالبہ کرسکیں لیکن عائشہ رضی اللہ عنہ نے یاد دلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ: میرا کوئی وارث نہ ہوگا، میرے تمام متروکات صدقہ ہوں گے۔ یہ سن کر سب خاموش ہوگئیں۔[92]

امیر معاویہ کے عہد میں

بروز بدھ 25 ربیع الاول 41ھ/ 28 جولائی 661ء کو امام حسن ابن علی رضی اللہ عنہ نے خلافت امیر معاویہ بن ابو سفیان کو سپرد کردی۔ سنہ 41ھ سے سنہ 60ھ تک تقریباً 20 سال تک امیر معاویہ بن ابوسفیان مسلم دنیا پر حکمرانی کرتے رہے، امیر معاویہ بن ابوسفیان کی مدت خلافت کے اِختتام سے 2 سال قبل عائشہ رضی اللہ عنہا نے 58ھ/ 678ء میں وفات پائی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کم و بیش 18 سال امیر معاویہ بن ابوسفیان کی خلافت میں بسر کیے اور یہ تمام زمانہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خاموشی سے گزارا، مگر کئی مواقع پر یہ سکوت ختم بھی ہوتا رہا بلکہ آپ براہِ راست حکمران پر تنقید کر لیا کرتی تھیں، ایسے کئی مواقع تاریخ میں محفوظ ہو چکے ہیں۔

  • ایک بار امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ آئے تو عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملنے گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تم اِس طرح بے خطر تنہا میرے گھر آ گئے، ممکن تھا کہ میں کسی کو چھپا کر کھڑا کردیتی کہ جیسے ہی تم آتے وہ تمھارا سر اُڑا دیتا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ دارالامان ہے، یہاں آپ ایسا نہیں کرسکتی تھیں، آنصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ایمان قتل ناگہانی کی زنجیر ہے۔ پھر دریافت کیا کہ میرا برتاؤ آپ کے ساتھ کیسا ہے؟ آپ بولیں: ٹھیک ہے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میرا اور اُن (یعنی بنو ہاشم) کا معاملہ چھوڑ دیجئیے، اللہ کے ہاں سمجھا جائے گا۔[93][94]
  • صحابی رسول حجر بن عدی رضی اللہ عنہ، علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں کوفہ میں علوی فرقہ کے سرکردہ اور علی رضی اللہ عنہ کے طرفدار تھے۔ کوفی کے والی نے کچھ لوگوں کی شہادت پر اُن تمام اشخاص کو گرفتار کروا کر دمشق بھیج دیا۔ حجر بن عدی یمن کے خاندان حجر سے تعلق رکھتے تھے، کوفہ عرب کے بڑے بڑے قبائل کا مرکز بن چکا تھا، خود قبیلہ کندہ یہاں موجود تھا، لیکن کسی نے حجر بن عدی کی حفاظت میں انگلی تک نہ اُٹھای، تاہم حجر بن عدی کا صحابہ میں اِس قدر نہایت اقتدار تھا کہ تمام ملک عرب میں اِس واقعہ کے خلاف ناگواری محسوس کی گئی۔ رئیسانِ قبائل نے اُن کے حق میں سفارش کی لیکن قبول نہ ہوئی۔ مدینہ منورہ خبر پہنچی تو اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی طرف سے ایک قاصد اُن کی سفارش میں دمشق روانہ فرمایا لیکن افسوس کے قاصد کے پہنچنے سے قبل ہی حجر بن عدی قتل کیے جاچکے تھے۔[95] کچھ عرصہ بعد حب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ آئے اور آپ سے ملاقات کو آئے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے سب سے پہلے جو گفتگو کی وہ حجر بن عدی رضی اللہ عنہ سے متعلق تھی، آپ نے فرمایا: "معاویہ! حجر کے معاملہ میں تمھارا تحمل کہاں تھا؟ حجر کے قتل میں تم خدا سے نہ ڈرے؟" امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:  اِس میں میرا قصور نہیں، قصور اُن کا ہے جنھوں نے گواہی دی۔[96] حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کی شہادت مع اُن کے اصحاب کے 51ھ/ 671ء میں بمقام دمشق میں ہوئی۔[97]
  • سنہ 56ھ/ 676ء میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد یزید کو اپنا جانشین مقرر کیا۔[98] مروان بن حکم مدینہ منورہ کا والی تھا، مجمع عام میں اُس نے یزید کا نام بطور جانشین امیر معاویہ پیش کیا تو عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ (عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سگے بھائی تھے ) نے اُٹھ کر مخالفت کی، مروان بن حکم نے اُن کو گرفتار کرنا چاہا، وہ دوڑ کر اپنی بہن عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں گھس گئے۔ مروان بن حکم گھر کے اندر گھسنے کی جرات نہ کرسکا، کھسیانا ہوکر بولا: یہی وہ ہے جس کی شان میں یہ آیت اُتری: وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے اوٹ کے پیچھے سے فرمایا: ہم لوگوں (یعنی آل ابوبکر) کی شان میں اللہ نے  کوئی آیت نہیں اُتاری، بجز اِس کے کہ میری برات فرمائی۔[99] (یہ سورۃ الاحقاف کی آیت 17 ہے جس کا ترجمہ ہے: اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ اُف اُف! ) اِس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ یزید کی جانشینی سے خوش نہ تھیں۔

وفات امام حسن اور تدفین کا مسئلہ

امام حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے ماہِ ربیع الاول 49ھ/ اپریل 669ء میں مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ حجرہ عائشہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مدفون ہیں۔ حجرہ عائشہ کے ایک گوشہ میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے اِسی گوشہ مین مدفون ہونے کی وصیت کی تھی اور مزید یہ کہا تھا کہ اگر کوئی تدفین میں مزاحمت کرے تو جنگ و جدل کی ضرورت نہیں، مجھے میری والدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا  کے قریب قبرستان بقیع الغرقد میں دفن کر دینا۔ جب حسن بن علی رضی اللہ فوت ہو گئے تو آپ کے بھائی حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے اِس وصیت کی تکمیل کرنا چاہی تو مروان بن حکم مخالفت پر اُتر آیا اور کہنے لگا کہ جب یہاں باغیوں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دفن نہ ہونے دیا تو کسی اور کو بھی اجازت نہیں ہو سکتی۔ مروان بن حکم بنو اُمیہ کی معیت میں ہتھیار لگائے باہر نکل آیا اور حسین بن علی رضی اللہ عنہ بنو ہاشم کی معیت میں ہتھیار لگائے سامنے آ گئے، قریب تھا کہ خونریز جنگ و جدل کی اِبتداء ہوجاتی مگر درمیان میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آ گئے اور مروان بن حکم سے کہا: نواسہ اگر اپنے نانا کے پہلو میں دفن ہوتا ہے تو تم کو اِس میں دخل دینے کا کیا حق ہے؟ اور حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی: امام مرحوم کی یہ بھی تو وصیت تھی کہ اگر میری تدفین میں کوئی مزاحمت ہو تو جنگ و جدل سے پ رہی ز کیا جائے۔ غرض یہ کہ امام حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی تدفین قبرستان بقیع الغرقد میں اُن کی والدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پہلو میں کی گئی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس سارے معاملہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا طرز عمل کیا تھا؟ بعض شیعی مؤرخین نے اِس واقعہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے کردار کو منفی انداز میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے جو دراصل بے سرو پا کذاب روایات ہیں اور شیعی مؤرخیں کی یہ بے سرو پا روایات گستاخئ حرم نبوی (عائشہ رضی اللہ عنہا) پر دلالت کرتی ہیں۔ اِن تمام بے سرو پا روایات کا کوئی راوی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سند۔ اِن شیعی روایات کی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ تدفین حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے وقت عائشہ رضی اللہ عنہا خود سفید خچر پر سوار ہو کر حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے جنازہ کو روکنے کے لیے نکلیں۔ سپاہیوں نے تیر چلائے اور اِتنی دیر میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی آئے اور انھوں نے کہا: ابھی جنگ جمل کی شرم ہمارے خاندان سے مٹی نہیں کہ تم ایک اور جنگ کے لیے آمادہ ہو۔ یہ سن کر عائشہ رضی اللہ عنہا واپس چلی گئیں۔

یہ موضوع روایت ابن جریر طبری کی تاریخ الرسل والملوک کی ایک فارسی ترجمہ میں جو برصغیر میں اُنیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں طبع ہوا تھا، پڑھنے کو ملتی ہے۔ اصل نسخہ عربی میں یہ روایت ہی موجود نہیں بلکہ یہ تو شیعی مؤرخین کا فارسی ترجمہ میں اضافہ کیا ہوا ہے، اِس فارسی ترجمہ میں دراصل کئی اضافے موجود ہیں جن میں کئی ضعیف اور کذاب روایات بیان کی گئی ہیں جو عربی کے اصل نسخہ میں موجود نہیں ہیں۔ فارسی کے مترجم نے اِس کتاب کے مقدمہ میں اِس بات کی تصریح بھی کردی ہے کہ بعض روایات موضوع اور من گھڑت ہیں جو فارسی کے اِس ترجمہ میں اضافہ شدہ ہیں یا جن کی کوئی اصل موجود ہی نہیں۔ یعقوبی جو تیسری صدی ہجری کا شیعہ مؤرخ ہے وہ بھی اِس واقعہ کو بغیر کسی سند کے بیان کرتا ہے۔ بغیر کسی سند کے کوئی واقعہ مصدقہ نہیں ہو سکتا۔ اصل واقعہ کے بیان کے بعد کہ در حقیقت فعل مروان بن حکم کا تھا، قیل یعنی ضعفِ روایت کے ساتھ صیغہ کے ساتھ اِس کا ذکر کیا گیا لیکن یہ نہیں لکھا گیا کہ انھوں نے نعوذ باللہ تیر چلائے یا جنگ کی۔

تمام معتبر کتب ہائے تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بطیب خاطر حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی تدفین کی اجازت دے دی تھی۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے سعید ابن ابی العاص جو والئ مدینہ منورہ تھا، اُس نے بھی تدفین سے نہیں روکا، مگر مروان بن حکم چند افراد کو لے کر فساد برپا کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ امام موصوف نے یہ وصیت کی تھی کہ اگر میری تدفین میں جنگ و جدل کا خطرہ ہو تو مجھے مسلمانوں کے عام قبرستان یعنی بقیع میں دفن کردینا۔ مروان بن حکم کی اِس شرارت سے حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو نہایت غصہ آیا اور آپ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو بذریعہ زور حجرہ عائشہ میں دفن کرنے پر تیار ہو گئے اور اپنے بھائی کی وصیت سے گو اِنحراف کرنا چاہا۔[100][101][102]

محدث ابن عبد البر نے الاستیعاب میں اور امام جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں ایک راوی سے روایت بیان کی ہے جو امام موصوف حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے اُن کے پاس موجود تھا: امام حسن بن علی رضی اللہ عنہ وصیت فرماتے ہیں کہ میں نے اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے درخواست کی تھی کہ مجھے آنصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ اپنے گھر (یعنی حجرہ عائشہ) میں دفن ہونے کی اجازت دیں، انھوں نے مجھے اجازت دے دی، لیکن معلوم نہیں کیا انھوں نے شرما شرمی میں مجھے اجازت دی یا نہیں۔ میرے مرنے ک بعد اُن سے جا کر پھر اجازت لینا، اگر وہ خوشی سے اجازت دیں تو وہیں دفن کرنا۔ میں سمجھتا ہوں کہ لوگ تم کو ایسا کرنے سے روکیں گے، اگر واقعتاً وہ روکیں تو اِس میں اُن لوگوں سے ردوکد کرنے کی ضرورت نہیں، مجھے بقیع میں دفن کردینا۔ جب حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے جا کر عائشہ رضی اللہ عنہا سے اجازت طلب کی، انھوں نے کہا: بخوشی۔مروان بن حکم کو واقعہ معلوم ہوا تو اُس نے کہا: حسین (رضی اللہ عنہ) اور عائشہ (رضی اللہ عنہا) غلط کہتے ہیں، حسن (رضی اللہ عنہ) کبھی وہاں دفن نہیں کیے جا سکتے، عثمان (رضی اللہ عنہ) کو قبرستان تک میں دفن کرنے نہ دیا گیا اور حسن (رضی اللہ عنہ) عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے گھر (حجرہ عائشہ) میں دفن ہوں گے؟۔ (خلیفہ سوم عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو باغیوں نے بقیع میں دفن نہیں کرنے دیا تھا مگر اصحاب کبار نے بقیع سے متصل باغ حش کوکب میں آپ کو دفن کیا، بعد ازاں وہ باغ قبرستان بقیع میں ضم کر لیا گیا تھا، مروان بن حکم کا اِشارہ اِسی جانب تھا)۔

مروان بن حکم کی مخالفت کا بڑا سبب یہ تھا کہ وہ اُن دِنون امارت مدینہ منورہ سے معزول تھا، مروان بن حکم کو 48ھ/ 668ء میں امارت مدینہ منورہ سے معزول کر دیا گیا تھا۔ اِس بہانے سے مروان بن حکم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خوشنودی کا طلب گار تھا کیونکہ 35ھ/ 656ء میں جب خلیفہ سوم عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو باغی اُن کی حجرہ عائشہ میں تدفین میں آڑے آئے اور انھیں حجرہ عائشہ میں دفن نہیں کیا گیا بلکہ تدفین بقیع الغرقد میں کی گئی۔ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ چونکہ اُموی تھے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی خاندان بنو اُمیہ سے تھے، اِسی لیےمروان بن حکم نے خاندان بنو ہاشم اور خاندان بنو اُمیہ کی قدیمی مخاصمت کو دوبارہ چھیڑنا چاہا جس میں ہرگز بھی کامیاب نہ ہو سکا۔

صحابہ میں ممتاز حیثیت

عروہ بن زبیر فرماتے ہیں "میں نے کسی ایک کو بھی معانی قرآن، احکام حلال و حرام، اشعار عرب اور علم الانساب میں عائشہ سے بڑھ کر نہیں پایا"۔ عائشہ کی خصوصیت تھی کہ جب کوئی نہایت مشکل و پیچیدہ مسئلہ صحابہ میں آن پڑتا تھا تو وہ آپ ہی کی طرف رجوع فرمایا کرتے تھے اور آپ کے پاس اس سے متعلق علم ضرور موجود ہوتا تھا۔ عائشہ کو علمی حیثیت سے عورتوں میں سب سے زيادہ فقیہہ اور صاحب علم ہونے کی بنا پر چند صحابہ کرام پر بھی فوقیت حاصل تھی۔ فتوے دیا کرتی تھیں اور بے شمار احادیث ان سے مروی ہیں۔ خوش تقریر بھی تھیں۔

  • مسروق تابعی سے پوچھا گیا: کیا عائشہ رضی اللہ عنہا فرائض میں ماہر تھیں؟ فرمایا: ہاں! اُس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے مشائخ و اکابر صحابہ کرام کو دیکھا کہ آپ سے فرائض کے مسائل پوچھا کرتے تھے۔[11]
  • ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے جب کبھی کوئی حدیث مشکل ہوجاتی (یعنی کوئی مسئلہ درپیش آ جاتا) تو ہم اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اِس کے بارے میں پوچھتے تو اُن کے ہاں اِس حدیث کا صحیح علم پالیتے۔[103]
  • تابعی عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے لوگوں میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر قرآن، فرائض، حلال و حرام، شعر، عربوں٘ کی باتیں اور نسب کا عالم نہیں دیکھا۔[104][105]
  • تابعی عطاء بن ابی الرباح بیان کرتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں سے بڑھ کر فقیہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر جاننے والیں اور تمام لوگوں سے بڑھ کر عام معاملات میں اچھی رائے رکھنے والی تھیں۔[106][107][108][109][110][111]
  • تابعی عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر شعر، فرائض اور فقہ کا عالم کسی کو نہیں دیکھا۔[112][110][108][109][111]
  • تابعی امام زہری (متوفی 124ھ) بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اگر اِس اُمت کی تمام عورتوں کے جن میں اُمہات المومنین بھی شامل ہوں، علم کو جمع کر لیا جائے تو عائشہ کا علم اُن سب کے علم سے زیادہ ہے۔[113][110][114][107][115] امام ہیثمی نے کہا ہے کہ اِس حدیث کے تمام رجال ثقہ ہیں۔[115]
  • قاسم بن محمد بن ابی بکر کہتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے کسی بھی خطیب کو عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر بلاغت و فطانت (ذہانت) والا نہیں دیکھا۔[113][116][115]

تلامذہ

آپ سے احادیث کو روایت کرنے والے تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں مشہور حضرات یہ ہیں:

ابراہیم بن یزید النخعی (مرسلاً)، ابراہیم بن یزید التمیمی، اسحاق بن طلحہ، اسحاق بن عمر، الاسود بن یزید، ایمن المکی، ثُمامہ بن حزن، جُبیر بن نُفیر، جُمَیع بن عمیر، الحارث بن عبد اللہ بن ابی ربیع ہ المخزومی، الحارث بن نوفل، حسن ابن علی، حمزہ بن عبد اللہ بن عمر، خالد بن سعید، خالد بن معدان، خباب، خبیب بن عبد اللہ بن الزبیر، خلاس الہجری، خیار بن سلمہ، خیثمہ بن عبد الرحمن، ذکوان السمان، مولیٰ ذکوان، ربیع ہ الجرشی، زاذان ابو عمر الکندی، زُرار ہ بن اوفی، زِر بن حُبَیش، زید بن اسلم، سالم بن ابی الجعد، زید بن خالد الجُہنی، سالم بن عبد اللہ، سالم سبلان، سائب بن یزید، سعد بن ہشام، سعید المَقبری، سعید بن العاص، سعید بن مسیب، سلیمان بن یسار، سلیمان بن بریدہ، شریح بن ارطاہ، شریح بن ھانی، شریق الہوزنی، شقیق ابو وائل، شہر بن حوشب، صالح بن ربیع ہ بن الہدیر، صعصہ، طاووُس، طلح ہ بن عبد اللہ التیمی، عابس بن ربیعہ، عاصم بن حمید السکونی، عامر بن سعد، الشعبی، عباد بن عبد اللہ بن الزبیر، عباد ہ بن الولید، عبد اللہ بن بریدہ، ابوالولید عبد اللہ بن الحارث البصری، عبد اللہ ابن الزبیر، عرو ہ ابن الزبیر، عبد اللہ بن شداد اللیثی، عبد اللہ بن شقیق، عبد اللہ بن شہاب الخولانی، عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ، عبد اللہ ابن عمر، عبد اللہ ابن عباس، عبد اللہ بن فروخ، عبد اللہ بن ابی مُلَیکہ، عبد اللہ بن عبید ابن عمیر، ابن عمیر، عبد اللہ بن حکیم، عبد اللہ بن ابی قیس، عبد اللہ و القاسم، ابنا محمد، عبد اللہ بن ابی عتیق محمد، عبد الرحمن بن ابی عتیق، عبد اللہ بن واقد العمری، عبد اللہ بن یزید، عبد اللہ البھی، عبد الرحمن بن الاسود، عبد الرحمن بن الحارث بن ہشام، عبد الرجمن بن سعید بن وہب الہمدانی، عبد الرحمن بن شُماسہ، عبد الرحمن بن عبد اللہ بن سابط الجُمَحی، عبد العزیز، والد ابن جُریج، عبید اللہ بن عبد اللہ، عبید اللہ بن عیاض، عرو ہ المزنی، عطاء بن ابی رباح، عطاء ابن یسار، عکرمہ، علقمہ، علقمہ بن وقاص، علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب، عمرو بن سعید الاشدق، عمرو بن شرحبیل، عمرو بن غالب، عمرو ابن میمون، عمران بن حطان، عوف بن الحارث، عیاض ابن عروہ، عیسیٰ بن طلحہ، غُضیف بن الحارث، فرو ہ بن نوفل، القعقاع بن حکیم، قیس بن ابی حازم، کثیر بن عبید الکوفی، کُریب، مالک بن ابی عامر، مجاہد، محمد بن ابراہیم التیمی، محمد بن الاشعث، محمد بن زیاد الجُمَحی، ابن سیرین، محمد بن عبد الرحمن بن الحارث بن ہشام، ابوجعفر محمد الباقر، محمد بن قیس بن مخرمہ، محمد بن المنتشر، محمد ابن المنکدر، مروان العقیلی ابولبابہ، مسروق، مصدع ابو یحیی، مُطرف بن الشِخِیر، مِقسَم، مولیٰ ابن عباس، المطلب بن عبد اللہ بن حنطب، مکحول شامی، موسیٰ بن طلحہ، میمون بن ابی شبیب، میمون بن مہران، نافع بن جُبیر، نافع ابن عطاء، نافع العمری، نعمان بن بشیر، ہمام بن الحارث، ہلال ابن یساف، یحیی بن الجزار، یحیی بن عبد الرحمن بن حاطب، یحیی بن یعمر، یزید بن بابنوس، یزید بن الشِخِیر، یعلیٰ بن عقبہ، یوسف بن ماھَک، ابواُمام ہ بن سہل، ابوبرد ہ بن ابی موسیٰ، ابوبکر بن عبد الرحمن بن الحارث، ابوالجوزاء الربعی، ابو حذیفہ الارحبی، ابو حفصہ، ابو الزبیر المکی، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، ابو الشعشاء المحاربی، ابو الصدیق الناجی، ابو ظبیان الجنبی، ابو العالیہ رُفَیع الریاحی، ابو عبد اللہ الجدلی، ابو عبید ہ بن عبد اللہ بن مسعود، ابوعثمان النہدی، ابو عطیہ الوادعی، ابو قلابہ الجرمی، ابو الملیح الہذلی، ابو موسیٰ الاشعری، ابو ہریرہ، ابو نوفل بن ابی عقرب، ابو یونس مولیٰ عائشہ، بُھَیَّہ، مولا ہ الصدیق، جسر ہ بنت دُجاجہ، ذِفر ہ بنت غالب، زینب بن ابی سلمہ، زینب بنت نصر، زینب السہمیہ، سمیہ البصریہ، شُمَیسہ العتکیہ، صفیہ بن شیبہ، صفیہ بنت ابی عبید، عائشہ بنت طلحہ، عمر ہ بنت عبد الرحمن، مرجانہ، والدہ علقمہ بن ابی علقمہ، معاذ ہ العدویہ، ام کلثوم بنت ابی بکر (بہن)، اُم محمد۔[117]

جودو سخاء

ایک صحابی کا بیان ہے کہ آپ نے ایک روز میں 70 ہزار درہم اللہ کی راہ میں صرف کیے اور خود پیوند لگے کپڑے پہنا کرتی تھیں۔ طیبہ صدیقی اثر ترقی اسلام پر ہے جو تفقہ آپ نے دین میں حاصل کیا اور جو تبلیغ آپ نے امت کو فرمائی اور علم نبوت کی اشاعت میں جو مساعی انھوں نے کیں اور حو علمی فوائد انھوں نے فرزندان امت کو پہنچائے وہ ایسک درجہ ہے جو کسی اور زوجہ محترمہ کو حاصل نہیں۔

  • آپ کے بھانجے عروہ تابعی کہتے ہیں کہ میں نے صدیقہ (یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا) کو دیکھا کہ آپ نے 70 ہزار درہم خیرات کیے اور اپنے کرتے کا دامن جھاڑ کر کھڑی ہوگئیں۔[11]
  • ایک بار عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس دو تھیلے بھر کر ایک لاکھ کی رقم بھیجی، آپ نے ایک طباق منگوایا، اُس دن آپ کا روزہ تھا۔ آپ وہ رقم لوگوں میں بانٹنے لگیں۔ جب شام ہو گئی تو کنیز کو افطاری لانے کا حکم دیا، اُمِ ذرہ بولیں: اُم المومنین! آپ اِن درہموں میں سے ایک درہم کا گوشت منگو لیتیں جس سے آپ روزہ کھول لیتیں۔ فرمایا: مجھے مت کہو، اگر تم مجھے یاد دلا دیتی تو میں گوشت منگوا لیتی۔[11] واضح رہے کہ آپ کی خدمت میں ایسے نذرانے امیر معاویہ اور عبد اللہ بن زبیر کی جانب سے پیش کیے جاتے تھے کہ اس زمانہ میں افواج اسلامی کثرت سے فتوحات حاصل کر رہی تھیں۔

امام ابو نُعَیم الاصبہانی نے اِس روایت کو تفصیلاً بیان کیا ہے کہ:

  • اُم ذرہ جو عائشہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ (کنیز) تھیں، وہ بیان کرتی ہیں کہ: عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے دو تھیلوں میں آپ کو 80 ہزار یا ایک لاکھ کی مالیت کا مال بھیجا، آپ نے (مال رکھنے کے لیے) ایک تھال منگوایا اور آپ اُس دن روزے سے تھیں۔ آپ وہ مال لوگوں میں تقسیم کرنے کے لیے بیٹھ گئیں۔ پس شام تک اُس مال سے آپ کے پاس ایک درہم بھی نہ بچا، جب شام ہو گئی تو آپ نے فرمایا: اے لڑکی! (دراصل جاریہ کنیز کو عربی زبان میں کہتے ہیں، ہم نے یہاں جاریہ کا معنی کنیز نہیں بلکہ لڑکی سے کیا ہے) میرے افطار کے لیے کچھ لاؤ،  وہ لڑکی ایک روٹی اور تھوڑا سا گھی لے کر حاضر ہوئی۔  پس اُم ذرہ نے عرض کیا:  کیا آپ نے جو مال آج تقسیم کیا ہے، اُس میں سے ہمارے لیے ایک درہم کا گوشت نہیں خرید سکتی تھیں؟ جس سے آج ہم افطار کرتے،  عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اب میرے ساتھ اِس لہجے میں بات نہ کرو، اگر اُس وقت (جب میں مال تقسیم کر رہی تھی) تو نے مجھے یاد کرایا ہوتا تو شاید میں ایسا کر لیتی۔[118][119][120]
  • تابعی عطاء بیان کرتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو سونے کا ایک ہار بھیجا جس میں ایک ایسا جوہر لگا ہوا تھا جس کی قیمت ایک لاکھ درہم تھی، پس آپ نے وہ قیمتی ہار تمام امہات المومنین میں تقسیم فرما دیا۔[121][122]
  • عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:  میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا اور اسماء رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر سخاوت کرنے والی عورت نہیں دیکھی اور دونوں کی سخاوت میں فرق ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھوڑی تھوڑی اشیاء جمع فرماتی رہتی تھیں اور جب کافی ساری اشیاء آپ کے پاس جمع ہوجاتیں تو آپ انھیں (غرباء اور محتاجوں میں) تقسیم فرما دیتیں،  جبکہ اسماء رضی اللہ عنہا اپنے پاس کل کے لیے بھی کوئی چیز نہیں بچا رکھتی تھیں۔[123][124]

فضائل و مناقب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: " عورتوں پر عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو فضیلت حاصل ہے۔[11] ثرید اُس کھانے کو کہتے ہیں جس کے شوربے میں روٹی بھگودی جائے اور بعد میں تناول کی جائے۔ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ثرید تمام کھانوں میں ممتاز سمجھا جاتا تھا۔

تابعی قاسم بن محمد بن ابی بکر  (جو عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے ہیں) بیان کرتے ہیں کہ: عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:  مجھے ازواج المطہرات پر دس وجوہات سے فضیلت حاصل ہے۔ پوچھا گیا:  اُم المومنین وہ دس وجوہات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا:

  • نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میرے سواء کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا۔[34]
  • میرے سواء کسی ایسی خاتون سے نکاح نہیں کیا جس کے والدین مہاجر ہوں۔
  • اللہ تعالیٰ نے آسمان سے میری براءت نازل فرمائی۔
  • نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جبرئیل امین علیہ السلام ایک ریشمی کپڑے میں میری تصویر لائے اور فرمایا: اِن سے نکاح کرلیجئیے، یہ آپ کی اہلیہ ہیں۔
  • میں اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک ہی برتن سے نہایا کرتے تھے۔[125]
  • میرے سواء اِس طرح آپ اپنی کسی اور بیوی کے ساتھ غسل نہیں کیا کرتے تھے۔
  • آپ میرے پاس ہوتے تو وحی آ جایا کرتی تھی اور اگر کسی اور بیوی کے پاس ہوتے تو وحی نہیں آیا کرتی تھی۔
  • نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات میرے گلے اور سینہ کے درمیان میں ہوئی  (جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا سر اقدس صدیقہ رضی اللہ عنہ کی رانِ مبارک اور زانوئے مبارک کے درمیان میں تھا)۔
  • نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میری باری کے دن فوت ہوئے (یعنی جب میرے یہاں مقیم تھے)۔
  • نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے حجرے میں مدفون ہوئے۔[126]

دوسری روایت میں ہے کہ تابعی عمیر نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ فرماتی ہیں کہ: مجھے چند چیزیں حاصل ہیں جو کسی عورت کو حاصل نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نکاح کے وقت میری عمر سات سال تھی، آپ کے پاس فرشتہ اپنے ہاتھ میں میری تصویر لے کر آیا اور آپ نے میری تصویر دیکھی، رخصتی کے وقت میں نو سال کی تھی، میں نے جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا، انھیں میرے سواء کسی عورت نے نہیں دیکھا، میں آپ کی سب سے زیادہ چہیتی تھی، میرے والد آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھے، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میرے گھر میں مرض الموت کے ایام گزارے اور میں نے آپ کی تیمارداری کی پھر جب آپ نے وفات پائی تو آپ کے پاس صرف میں اور فرشتے تھے، کوئی اور نہ تھا۔[127] بکثرت احادیث و روایات سے یہ مسلمہ ہے کہ بوقت نکاح آپ کی عمر 6 سال تھی، یہاں سات سال سے مراد یہ ہے کہ بوقت نکاح 6 سال مکمل ہوکر ساتویں سال کا آغاز ہوا چاہتا تھا۔

  • ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ!   جنت میں آپ کی بیویاں کون ہیں؟  فرمایا:  اُن میں سے ایک تم بھی ہو۔ [11]
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:  مجھے جنت میں عائشہ دکھائی گئیں تاکہ مجھ پر موت آسان ہو جائے، گویا میں اُن کے دونوں ہاتھ دیکھ رہا ہوں۔[11]
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:  عائشہ جنت میں بھی میری بیوی ہوں گی۔ [11]

تابعی عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ مجھے اُم المومین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بھانجے!  مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:  تمھاری ناراضی اور رضا مجھ سے چھپی نہیں رہتی۔ میں بولی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں،  آپ کس طرح پہچان جاتے ہیں؟  فرمایا:  رضا کے وقت جب تم قسم کھاتی ہو تو محمد کے رب کی قسم کہتی ہو اور ناراضی کے وقت ابراہیم کے رب کی قسم کہتی ہو۔ میں بولی:  یارسول اللہ!   آپ سچ فرماتے ہیں۔[11][128][129][130]

تابعی مسروق جو عائشہ رضی اللہ عنہا کے شاگرد ہیں، جب عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی حدیث بیان کرتے تو فرماتے: مجھ سے یہ حدیث صدیقہ بنت صدیق نے اور اللہ کے محبوب کی معصومہ محبوبہ نے بیان فرمائی۔[11]  یہ اُن کی اُم المومنین سے والہانہ عقیدت کا اظہار ہے۔

ابی حازم عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا:  یا رسول اللہ!  آپ کو سب سے زیادہ کون پیارے ہیں؟  فرمایا:  عائشہ،  بولے: میں مردوں میں سے پوچھ رہا ہوں۔ فرمایا:  اُن کے والد۔[11]

عبد اللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ جب عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث روایت کرتے تو فرماتے:  اللہ کی قسم! عائشہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کبھی بھی جھوٹ نہیں باندھ سکتیں۔[11]

زیارت جبرائیل علیہ السلام

آپ فرماتی ہیں کہ: میں انے اپنے اِس حجرے کے دروازے پر جبرئیل امین علیہ السلام کو گھوڑے پر سوار دیکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ سے چپکے چپکے باتیں کر رہے تھے، پھر جب آپ اندر تشریف لائے تو میں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! یہ کون تھے جن سے آپ چپکے چپکے باتیں کر رہے تھے؟ فرمایا: کیا تم نے انھیں دیکھا تھا؟ میں بولی: جی۔ فرمایا: تم نے انھیں کس کے مشابہ پایا؟ میں بولی: دحیہ کلبی کے۔ فرمایا: تم نے فراوانی کے ساتھ خیر دیکھی، وہ جبرئیل علیہ السلام تھے، تھوڑی دیر کے بعد آپ نے فرمایا: عائشہ یہ جبرئیل ہیں، تم کو سلام کہہ رہے ہیں۔ میں بولی: وعلیہ السلام، اللہ تعالیٰ اِس آنے والے کو بہتر صلہ عطاء فرمائے۔[11] دوسری روایت میں ہے کہ آپ فرماتی ہیں کہ: میں نے اُن کو (یعنی جبرئیل علیہ السلام) کو نہیں دیکھا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہ دیکھتے تھے جو میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔[11][131]

امام بخاری نے ابو سلمہ سے روایت کیا ہے کہ:  عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:  اے عائشہ! یہ جبرائیل  (علیہ السلام) ہیں اور تمھیں سلام کہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا: اُن پر بھی سلام ہو اور اللہ کی رحمت و برکات ہوں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو کچھ دیکھ سکتے ہیں، وہ میں نہیں دیکھ سکتی۔[132][133][134][135][136][137][138][139][140][141][142][143][144][145][146][147]

روایت کردہ احادیث کی تعداد

آپ سے 2210 احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم روایت ہیں جبکہ اِن میں سے 174 متفق علیہ ہیں، یعنی اِن کو امام بخاری نے صحیح بخاری اور امام مسلم نے صحیح مسلم میں سنداً روایت کیا ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم نے متفق روایات 174 لی ہیں جن میں امام بخاری 54 میں منفرد ہیں اور امام مسلم 69 احادیث میں منفرد ہیں۔[148] 2210 احادیث والی تعداد کو سید سلیمان ندوی نے سیرت عائشہ میں لکھا ہے مگر یہ بات تحقیق سے ثابت ہے کہ صرف مسند احمد بن حنبل میں ہی عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 2524 ہے۔

اگر صحاح ستہ میں مکرر رویات حذف نہ کی جائیں تو روایات عائشہ رضی اللہ عنہا کی تعداد یوں ہے:

  • صحیح بخاری: 960 احادیث۔
  • صحیح مسلم: 761 احادیث۔
  • سنن ابوداود: 485 احادیث۔
  • سنن نسائی: 690 احادیث۔
  • جامع سنن ترمذی: 535 احادیث۔
  • سنن ابن ماجہ: 411 احادیث۔
  • موطاء امام مالک: 141 احادیث۔
  • مشکوٰۃ المصابیح: 553 (روایاتِ احادیث کا یہ مجموعہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے اخذ کیا گیا ہے۔ اِس لیے انھیں شمار نہیں کیا گیا)۔
  • سنن الدارمی: 200 احادیث۔
  • مسند امام احمد بن حنبل: 2524 احادیث۔
  • موطاء امام محمد: 80 احادیث۔
  • صحاح ستہ کے ساتھ موطاء امام مالک کی روایات کو جمع کر لیا جائے تو تعدادِ روایات 3983 ہوتی ہے۔

علالت وفات و تدفین

آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقیدِ حیات رہیں۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اواخر سال عائشہ رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کے اواخر سال ہیں۔ سنہ 58ھ مطابق 678ء میں جب آپ کی عمر مبارک 67 سال کے قریب قریب تھی کہ ماہِ رمضان 58ھ/ جولائی 678ء میں علیل ہوگئیں اور چند روز تک علیل رہیں۔ کوئی حال پوچھتا تو فرماتیں: اچھی ہوں۔[11]

جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو فرمانے لگیں: کاش میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی، کاش میں ایک درخت ہوتی کہ اللہ کی پاکی میں رطب اللسان رہتی اور پوری طرح سے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتی، کاش میں مٹی کا ایک ڈھیلا ہوتی، کاش اللہ تعالیٰ مجھے پیدا نہ فرماتا، کاش میں زمین کی بوٹیوں میں سے کوئی بوٹی ہوتی اور قابل ذکر شے نہ ہوتی۔[11]

  • عیسیٰ بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر سے پوچھا کہ اِن تمناؤں سے کیا مراد تھا؟  کہنے لگے: اُم المومنین اِن تمناؤں سے دعا میں توبہ کا وسیلہ اختیار فرما رہی تھیں [11] (یہ تمام تمنائیں آپ کسر نفسی میں فرما رہی تھیں حالانکہ آپ ازل سے اُم المومنین کے خطاب سے سرفراز ہوئی ہیں)۔
  • اسماعیل بن قیس کہتے ہیں کہ بوقت وفات عائشہ رضی اللہ عنہا نے وصیت فرمائی کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد نئی نئی باتیں اِختیار کر لی تھیں، لہٰذا مجھے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج المطہرات کے پاس دفن کرنا (یہ آپ نے کسر نفسی میں فرمایا تھا)۔[11]
  • ذکوان جو آپ کے غلام تھے، کہتے ہیں کہ جب آپ علیل ہوئیں تو میں اجازت حاصل کرکے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا،  آپ کے س رہانے آپ کے بھتیجے عبد اللہ بن عبد الرحمٰن تھے۔ میں نے کہا:  آپ کے پاس عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آنا چاہتے ہیں، اُس وقت آپ دنیا سدھارنے والی تھیں، بولیں: ابن عباس کو نہ آنے دو،  اِس وقت مجھے اُن کی اور اُن کی تعریفوں کی ضرورت نہیں۔ ذکوان نے کہا: اُم المومنین! ابن عباس آپ کے ایک نیک و صالح فرزند ہیں۔ آپ کو سلام کرنے اور رخصت کرنے آئے ہیں۔ بولیں: اچھا تو اگر تم چاہو تو انھیں بلا لو،  آخر کار میں نے انھیں بلا لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آتے ہی آپ کو سلام کیا اور بیٹھ گئے اور بولے: بشارت ہو۔  بولیں:  کس چیز کی؟   کہنے لگے:  اُس کی جو آپ کے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اور دیگر احباب کی ملاقات کے درمیان میں ہے،  بس جسم سے روح نکلنے کی دیر ہے آپ اُن سب سے جاکر ملاقات کریں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی انتہائی لاڈلی بیوی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پاکیزہ چیز سے ہی محبت کیا کرتے تھے اور دیکھیے ابواء کے دن آپ کا ہار کھو گیا تھا، اُسے ڈھونڈنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منزل میں صبح تک ٹھہرے رہے، لوگوں کے پاس پانی نہ تھا پھر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی۔ مسلمانوں کو یہ سہولت آپ کی بدولت نصیب ہوئی پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی براءت ساتوں آسمانوں کے اوپر سے اُتاری جسے روح الامین لے کر آئے، اب ایسی کوئی مسجد نہیں جس میں آپ کی براءت کی آیتیں صبح و شام نہ پڑھی جاتی ہوں۔  آپ فرمانے لگیں:  ابن عباس! تعریفیں چھوڑو، اُس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،  میری تو یہ تمناء ہے کہ میں بھولی بسری ہوئی جاتی۔<[11]
  • تابعی ابن ابی عتیق عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے جب کہ وہ علیل تھیں، بولے:  اُم المومنین کسی طبیعت ہے؟  میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، فرمانے لگیں:  اللہ کی قسم  یہ موت ہے۔[11]
  • عبید بن عمیر تابعی کہتے ہیں کہ آپ نے وصیت فرمائی کہ میرے جنازے کے پیچھے آگ لے کر نہ جانا اور میری میت پر سرخ مخملی چادر نہ بچھانا۔[11] اپنے غلام ذکوان کو آزاد کرنے کی وصیت کی تھی۔[11]

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے منگل 17 رمضان 58ھ مطابق 13 جولائی 678ء کی شب کو اِس دارِ فانی سے عالم بقاء کو لبیک کہا۔[149][11][150][34] آپ کی وفات کی خبر اچانک ہی تمام مدینہ منورہ میں پھیل گئی اور انصارِ مدینہ منورہ اپنے گھروں سے نکل آئے۔ جنازہ میں ہجوم اِتنا تھا کہ لوگوں کا بیان ہے کہ رات کے وقت اِتنا مجمع کبھی نہیں دیکھا گیا، بعض عورتوں کا اژدھام دیکھ کر روزِ عید کے ہجوم کا گماں گزرتا تھا۔ آپ کی مدتِ حیات شمسی سال کے اعتبار سے 64 سال اور قمری سال کے اعتبار سے 66 سال 11 ماہ تھی۔ نمازِ جنازہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور آپ کی تجہیز و تکفین شب میں ہی عمل میں آئی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اُن دِنوں مدینہ منورہ کے قائم مقام امیر تھے کیونکہ مروان بن حکم مدینہ منورہ میں موجود نہ تھا، وہ عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ گیا ہوا تھا اور مدینہ منورہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب اور قائم مقام امیر بنا کر گیا تھا۔[11] بوقت تدفین آپ کی قبر اطہر کے چاروں اطراف ایک کپڑے سے پردہ کر دیا گیا تھا تاکہ آپ کے احترام میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔[11] آپ کو قبر اطہر میں آپ کے بھانجوں، بھتیجوں یعنی جناب قاسم بن محمد بن ابی بکر، عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، عروہ بن زبیر، عبد اللہ بن محمد بن عبد الرحمٰن بن ابی بکر اور عبد اللہ بن عبد الرحمٰن بن ابی بکر نے قبر اطہر میں اُتارا۔[11] شب بدھ میں تہجد کے وقت تدفین عمل میں آئی۔

  • اُم المومنین ام سلمہ ہند بنت ابی امیہ رضی اللہ عنہا لوگوں کی آہ و فغاں سن کر بولیں: عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے لیے جنت واجب ہے کہ وہ آنصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب سے پیاری بیوی تھیں [151]۔
  • امام ابوداؤد طیالسی نے اُم المومنین ام سلمہ ہند بنت ابی امیہ کا قول نقل کیا ہے کہ جب انھیں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی وفات کی خبر معلوم ہوئی تو بولیں: اللہ اُن پر رحمت بھیجے کہ اپنے باپ کے سواء وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔[152][151]
  • عبید بن عمیر تابعی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے میرے والد سے پوچھا: لوگوں نے اُم المومنین کا غم کیا کیا؟  بولے:  آپ کی وفات پر ہر وہ غمگین تھا جس جس کی آپ ماں تھیں۔[11]

اولاد

عائشہ رضی اللہ عنہا کے کوئی اولاد نہیں ہوئی، ابن الاعرابی نے لکھا ہے کہ ایک ناتمام بچہ ساقط ہوا تھا، اس کا نام عبد اللہ تھا اور اسی کے نام پرانہوں نے کنیت رکھی تھی؛ لیکن یہ قطعاً غلط ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا کی کنیت ام عبد اللہ ان کے بھانجے عبد اللہ بن زبیر کے تعلق سے تھی، جن کوانہوں نے متبنیٰ بنایا تھا۔

حلیہ

عائشہ رضی اللہ عنہا خوش رواور صاحب جمال تھیں، رنگ سرخ وسفید تھا۔

واقعات و تعینِ عمر مبارکہ

عائشہ رضی اللہ عنہا کی ولادت بعثت نبوی کے چوتھے سال ماہِ شوال مطابق جولائی 614ء میں ہوئی اور آپ کی وفات بروز منگل 17 رمضان 58ھ مطابق 13 جولائی 678ء کو ہوئی۔ شمسی سال کے اعتبار سے مدت حیات مکمل 64 سال ہوتی ہے اور قمری سال کے اعتبار سے 66 سال 11 ماہ ہوتی ہے یعنی ماہِ شوال 4 نبوی سے ماہِ رمضان 58ھ تک۔ اِس کو باآسانی یوں شمار کیا جا سکتا ہے کہ 4 نبوی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک 44 سال تھی یعنی 44 سال میلادی۔ 11ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رحلت فرمائی تو وہ 64 سال میلادی تھا۔ ہجرت کا سال میلادی 53 تھا۔ اگر 58ھ میں سال میلادی 53 جوڑ دیے جائیں تو 111 سال ہوتے ہیں۔ اِن 111 سالوں میں 44 سال نفی کر دیں (جو ولادت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سال ہے اور اُس میں سال میلادی 44 تھا) تو باقی رہے 67 سال۔ یعنی 4 نبوی سے 58ھ تک 67 سال قمری ہوتے ہیں جو قریب قریب آپ کی مدت حیات 66 سال 11 ماہ کے ہے۔

عبادت اور خشیتِ الٰہی

  • نماز چاشت پابندی سے اداء فرماتیں۔[153][154] چاشت کی 8 رکعت ادائیگی آپ کا معمول تھا۔[155] اکثر فرمایا کرتیں:  اگر میرے والدین کو بھی زندہ کر دیا جائے، میں پھر بھی یہ رکعتیں ترک نہ کروں گی[155] (مراد اِس سے یہ تھا کہ اگر میرے والدین زندہ ہوکر آئیں اور مجھے اِس نماز سے روکیں تو میں اِس نماز کی ادائیگی نہیں چھوڑوں گی)۔
  • نمازِ چاشت کی ادائیگی میں اکثر طویل وقت صرف ہوجاتا، عبد اللہ بن ابی موسیٰ تابعی کہتے ہیں کہ ایک بار مجھے ابن مدرک نے کچھ سوالات کے جوابات کی خاطر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا کہ جوابات دریافت کرکے لاؤ، جب میں حجرہ کے قریب پہنچا تو آپ چاشت کی نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے سوچا کہ اُن کے فارغ ہونے تک بیٹھ کر اِنتظار کرلیتا ہوں لیکن لوگوں نے مجھے بتایا کہ انھیں بہت دیر لگے گی، میں نے اُسی اطلاع دینے والے سے پوچھا کہ میں اُن سے کس طرح اجازت طلب کروں؟  اُس نے کہا کہ یوں کہو:  السَلَامُ عَلَیکَ اَیُھَا النَبِیُ وَرَحمَتُ اللہِ  وَ بَرَ کَاتُہ، السَلَامُ عَلَینا وَ عَلَی عِبَادِ اللہِ الصَالِحِینَ السَلاَ مُ عَلیَ اُمَھِاتِ المُومِنِینَ،   میں اِس طرح سلام کرکے اندر داخل ہوا اور آپ سے سوالات کے جوابات دریافت کرنے لگا۔[156]
  • تابعی عروہ بیان کرتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا مسلسل روزے سے ہوتی تھیں۔ قاسم بن محمد بن ابی بکر بیان کرتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا مسلسل روزہ سے ہوتی تھیں اور صرف عیدالاضحیٰ اور عید الفطر کو افطار فرماتی تھیں (یومِ عیدین کو روزہ نہیں رکھا جا سکتا اِس لیے اِس روایت میں افطار سے مراد یہی ہے)۔ قاسم بن محمد بن ابی بکر بیان کرتے ہیں کہ میں صبح کو جب گھر سے روانہ ہوتا تو سب سے پہلے سلام کرنے کی غرض سے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاتا،  پس ایک صبح میں آپ کے گھر گیا تو آپ حالت قیام میں تسبیح فرما رہی تھیں اور یہ آیت مبارکہ پڑھ رہی تھیں: فَمَنَّ اللہُ عَلَیْنَا وَ وَقَانًا عَذَابَ السَّمُوْمِ اور دعا کرتی اور روتی جا رہی تھیں اور اِس آیت کو بار بار دہرا رہی تھیں،  پس میں (انتظار کی خاطر) کھڑا ہو گیا، یہاں تک کہ میں کھڑا ہو ہو کر اُکتا گیا اور اپنے کام کی غرض سے بازار چلا گیا،  پھر میں واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ اِسی حالت میں کھڑی نماز اداء کر رہی ہیں اور مسلسل روئے جا رہی ہیں۔[157][158][159][160]
  • جب آپ یہ آیت وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ پڑھتیں تو آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا [11] (یہ سورۃ الاحزاب کی آیت 33 ہے اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے:  "اپنے گھروں میں ٹھہری رہو")۔
  • آپ شدت سے ادائیگی حج کی پابند تھیں۔ آپ نے حجۃ الوداع کے بعد (سنہ 11ھ سے 57ھ / 632ء تا 677ء تک) مزید 47 حج اداء فرمائے۔

کتابیات عائشہ

مزید دیکھیے

== بیرونی روابط ==* [1]* [2]* [3][مردہ ربط]* [4]* [5]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ urduencyclopedia.org (Error: unknown archive URL)* [6]

مزید پڑھیے

اردو مآخذ

  • ابن قیم، محمد بن أبی بکر، إعلام الموقعین عن رب العالمین، تحقیق طہ عبد الرؤوف سعد، دار الجیل، بیروت، 1973۔
  • ابن قیم، محمد بن أبی بکر أیوب، الأمثال فی القرآن الکریم، تحقیق إبراہیم محمد، مکتبۃ الصحابۃ، طنطا، مصر، 1406، الطبعۃ الأولی۔
  • ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، علی بن الحسین بن محمد بن أحمد بن الہیثم المروانی الأموی القرشی، أبو الفرج الأصبہانی(356ق)، المحقق السید أحمد صقر، دار المعرفۃ، بیروت۔
  • بابایی، احمد علی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1382ش۔
  • ابن ہشام، عبد الملک (م218)، السیرہ النبویہ، تحقیق مصطفٰی السقا و ابراہیم الأبیاری و عبد الحفیظ شلبی، بیروت، دار المعرفۃ، بی‌تا۔
  • ابن الاثیر، عزالدین (م۔630)، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت، دار الفکر، 1409/1989۔
  • ابن اثیر، علی بن أبی الکرم(630ق)، الکامل فی التاریخ، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، الطبعۃ: الأولی، 1417ق۔
  • ابن الجوزی، عبد الرحمن بن علی(597ق)، زاد المسیر فی علم التفسیرالمکتب الإسلامی، بیروت، الطبعۃ: الثالثۃ، 1404ق۔
  • ابن سعد، محمد (م۔230)، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، 1410/1990
  • ابن عبد البر، یوسف بن عبد اللہ (م۔463)، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجیل، 1412/1992۔
  • ابن قتیبہ، عبد اللہ بن مسلم (م۔276)، المعارف، تحقیق ثروت عکاشۃ، القاہرۃ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، ط الثانیۃ، 1992
  • ابن قتیبہ، عبد اللہ بن مسلم(م۔276)، الإمامۃ و السیاسۃ المعروف بتاریخ الخلفاء، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، ط الأولی، 1410ق۔* أبی حیان، محمد بن یوسف(745ق)، تفسیر البحر المحیط، تحقیق الشیخ عادل أحمد عبد الموجود، دار الکتب العلمیۃ، لبنان، بیروت، الطبعۃ الأولی، 1422ق۔
  • ابن خلکان، أحمد بن محمد بن إبراہیم بن أبی بکر ابن خلکان برمکی إربلی (681ق)، وفیات الأعیان وأنباء أبناء الزمان، محقق إحسان عباس، دارصادر، بیروت۔
  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، مصر، دارالحیاء الکتب العربیہ، 1387ش۔
  • ثعلبی، أحمد بن محمد(427ق)، الکشف والبیان، أبی محمد بن عاشور، دار إحیاء التراث العربی - بیروت، الطبعۃ: الأولی، 1422ہ-2002م۔
  • حسین فاطمی، سید علی، نقد و بررسی دیدگاہ‌ہای موجود دربارہ افشای راز پیامبر(ص) در آیات ابتدایی سورہ تحریم، مجلہ تاریخ در آینہ پژوہش، شمارہ11، پاییز 85۔
  • زمخشری، محمود بن عمر جار اللہ، الکشاف عن حقائق التنزیل، تحقیق عبد الرزاق المہدی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ اسلام، تحقیق تدمری، دار الکتاب العربی، بیروت، چاپ دوم، 1413ق۔
  • سمرقندی، نصر بن محمد(367ق)، بحر العلوم، تحقیق د۔ محمود مطرجی، دار الفکر، بیروت۔
  • سید بن طاوس، الطرائف فی معرفۃ مذاہب الطوائف، الخیام، قم، چاپ اول، 1399ق۔
  • صالحی الشامی، محمد بن یوسف (942م۔ ق۔)، سبل الہدی و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، 1414۔
  • عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، قم، دارالحدیث، 1426ق۔
  • عسکری، مرتضی، احادیث ام المومنین عا‎ئشہ، بیروت، مجمع العلمی الاسلامی۔
  • عسکری، سید مرتضی، نقش عا‎ئشہ در تاریخ اسلام، ترجمہ عطا سردارنیا، تہران، مجمع علمی اسلامی۔
  • قرطبی، ابو عبد اللہ محمد بن أحمد(671ق)، الجامع لأحکام القرآن، دار الشعب القاہرۃ۔
  • مسلم نیشابوری، مسلم بن الحجاج(261ہ)، صحیح مسلم، تحقیق محمد فؤاد عبد الباقی، دار إحیاء التراث العربی، بیروت۔
  • مقاتل بن سلیمان(متوفای150ق)، تفسیر مقاتل بن سلیمان، تحقیق أحمد فرید، دار الکتب العلمیۃ، لبنان، بیروت، الطبعۃ الأولی، 1424ق۔
  • نباطی، علی من محمد، الصراط المستقیم إلی مستحقی التقدیم، محقق رمضان، میخائیل، المکتبۃ الحیدریۃ، نجف، چاپ اول، 1384ق۔
  • ندوی، سلیمان، سیرہ السیدہ عائشہ‌ام المومنین، ترجمہ بہ عربی محمد رحمہ اللہ حافظ الندوی، دمشق، دار القلم، 2010م۔
  • نیشابوری، حسن بن محمد(728ق)، تفسیر غرائب القرآن ورغائب الفرقان، تحقیق الشیخ زکریا عمیران، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، الطبعۃ: الأولی، 1416ق۔
  • واردی، تقی، نقش ہمسران رسول خدا در حکومت امیر مومنان، قم، بوستان کتاب،
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب(م۔292)، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌تا
  • یوسفی غروی، محمد ہادی، موسوعہ التاریخ الاسلامی، قمع مجمع الفکر الاسلامی، 1423ق۔
  • بخاری، محمد بن إسماعیل(256ق)، صحیح البخاری، ، تحقیق د۔ مصطفٰی دیب البغا، دار ابن کثیر، الیمامۃ، بیروت، الطبعۃ الثالثۃ، 1407ش۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف، ج1، تحقیق محمد حمید اللہ، مصر، دار المعارف، 1959۔
  • تقی زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر در دایرہ المعارف اسلام، قم، شیعہ شناسی۔* ثعالبی، عبد الرحمن بن محمد(875ق)، الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، بیروت۔

عربی مآخذ

  • الطبري، تاريخ الطبري، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، بيروت۔
  • المسعودي، مروج الذهب و معادن الجواهر، ترجمة أبو القاسم بايندہ، انتشارات علمي و فرهنكي، طهران۔
  • خليفة بن خياط، تاريخ خليفة بن خياط، طبعة مصطفى نجيب فوّاز و حكمت كشلي فوّاز، بيروت۔
  • ابن سعد، الطبقات الكبرى
  • الذهبي، سير أعلام النبلا
  • ابن عبد البر، الاستيعاب
  • ابن حبان، الثقاة
  • ابن حجر، الإصابة في تمييز الصحابة ج
  • ابن قتيبة، المعارف* البخاري، الجامع الصحيح
  • مسلم النيسابوري، الجامع الصحيح
  • ابن هشام، السيرة النبوية
  • ابن أبي الحديد، شرح نهج البلاغة
  • البلاذري، أنساب الأشراف
  • القاضي أبو بكر بن العربي، العواصم من القواسم، تحقيق محب الدين الخطيب
  • الحاكم النيسابوري، المستدرك على الصحيحين
  • ابن الجوزي، صفة الصفوة
  • المزي، تهذيب الكمال
  • ابن عساكر، تاريخ مدينة دمشق
  • الذهبي، تاريخ الاسلام
  • ابن الأثير، البداية والنهاية

حوالہ جات

  1. https://www.britannica.com/biography/Aishah
  2. https://snl.no/Aisha
  3. https://snl.no/Aisha — مصنف: احمد بن شعیب النسائی رضوان — عنوان : الْمُجْتَبَى
  4. ربط : بی این ایف - آئی ڈی  — اخذ شدہ بتاریخ: 6 نومبر 2018 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  5. مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://bigenc.ru/ — اخذ شدہ بتاریخ: 13 مارچ 2017 — عنوان : Большая российская энциклопедия — اجازت نامہ: کام کے حقوق نقل و اشاعت محفوظ ہیں
  6. ^ ا ب عنوان : Аиша бинт Абу Бакр
  7. امام ابوداود: سنن ابوداود، کتاب الادب۔
  8. امام احمد بن حنبل: مسند احمد، مسند عائشہ، جلد 6 صفحہ 93 اور 107۔
  9. امام مسلم: صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، باب 59: باب فی فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 1214، الرقم الحدیث 6198 مکرر 2447۔  مطبوعہ دارالفکر، بیروت، لبنان، 1424ھ۔
  10. امام احمد بن حنبل: مسند احمد، مسند عائشہ، جلد 9 الرقم الحدیث 4726، حدیث مرفوع۔
  11. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر​ ڑ​ ز ژ س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل​ م​ ن و ہ ھ ی ے اا اب ات اث اج اح اخ اد اذ ار از اس اش اص اض اط اظ اع اغ اف ابن سعد (؟)۔ طبقات ابن سعد۔ لاہور: ؟۔ صفحہ: 55 تا 70 (جلد دوم، حصہ 8)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 مئی 2017 
  12. ^ ا ب
  13. امام احمد بن حنبل: مسند احمد، جلد 6 صفحہ 138، بابت ذکر لقب حمیراء۔
  14. امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب تزویج عائشہ رضی اللہ عنہا۔
  15. امام بخاری: صحیح بخاری، واقعہ اِفک
  16. ^ ا ب امام ابوداود: سنن ابوداود، باب السبق
  17. امام بخاری: صحیح بخاری، باب ہل تصلیٰ المراۃ فی ثوب حاضت فیہ۔
  18. امام بخاری: صحیح بخاری، باب الاستعار للعروس۔
  19. امام بخاری: صحیح بخاری، باب ما یبس المحرم من الثیاب۔
  20. امام بخاری: صحیح بخاری، باب التیمم و الافک۔
  21. امام بخاری: صحیح بخاری، باب الخاتم النساء۔
  22. امام مالک: موطاء امام مالک، کتاب اللباس، باب 3: ما جاء فی لُبس الخز، صفحہ 976، مطبوعہ لاہور۔
  23. سید سلیمان ندوی: سیرت عائشہ، صفحہ 21، مطبوعہ لاہور 2010ء۔
  24. ^ ا ب پ امام ابوداؤد:  سنن ابوداؤد،  کتاب الادب، باب فی اللعب فی البنات، جلد 3، صفحہ 508، الرقم الحدیث 4283، مطبوعہ لاہور۔
  25. امام ابوداؤد:  سنن ابوداؤد،  کتاب الادب، باب فی اللعب فی البنات، جلد 3، صفحہ 508، الرقم الحدیث 4284، مطبوعہ لاہور۔
  26. ^ ا ب امام ابوداؤد:  سنن ابوداؤد،  کتاب الادب، باب فی اللعب فی البنات، جلد 3، صفحہ 509، الرقم الحدیث 4284، مطبوعہ لاہور۔
  27. امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ:  بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُھُمْ وَ السَّاعَۃُ اَدْھٰی وَ اَمَرُّ،  جلد 2 صفحہ،  856،  الرقم 4525، مطبوعہ لاہور
  28. امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب 6: باب قولہ:  بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُھُمْ وَ السَّاعَۃُ اَدْھٰی وَ اَمَرُّ، الرقم 4886،  مجلد اول،  صفحہ 1230،  مطبوعہ دار ابن کثیر، دمشق، 1423ھ۔
  29. مولانا محمد زکریا صاحب شیخ الحدیث:فضائلِ اعمال، دسواں باب: باب:عورتوں کا دینی جذبہ، عنوان: عائشہؓ کے حالات، صفحہ 141۔ مطبوعہ مکتبہ مدینہ، لاہور۔
  30. امام بخاری: باب تزویج الصغار من الکبار۔
  31. امام احمد بن حنبل: مسند احمد، جلد 6 صفحہ 211۔
  32. سید سلیمان ندوی: سیرت عائشہ،  صفحہ 25،  مطبوعہ لاہور۔
  33. امام احمد بن حنبل: مسند احمد، مسند عائشہ، صفحہ 94۔
  34. ^ ا ب پ ت امام ابن العمرانی: الانباء فی تاریخ الخلفاء، صفحہ 46۔  دار الآفاق العربیہ، قاہرہ، مصر۔ 1419ھ۔
  35. امام ترمذی: السنن الترمذی، کتاب المناقب، باب 63: باب مِن فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، جلد 3 صفحہ 574،  الرقم الحدیث 3880۔ مطبوعہ مکتبۃ المعارف، الریاض، سعودی عرب، 1420ھ۔
  36. امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب المناقب الانصار، باب 44: باب تزویج النبی عائشۃ، و قدومھا المدینۃ و بنائہ بھا،  الرقم الحدیث 3895،  صفحہ 954۔   مطبوعہ دار ابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔
  37. امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب 9: باب نکاح الابکار،  الرقم الحدیث 5078، صفحہ 1295۔  مطبوعہ دار ابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔
  38. امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب 35: باب النظر الی المراۃ قبل التزویج،  الرقم الحدیث 5125، صفحہ 1306۔ مطبوعہ دار ابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔
  39. امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب التعبیر، باب 20: باب کشف المراۃ فی المنام،  الرقم الحدیث 7011، صفحہ 1737۔ مطبوعہ دار ابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔
  40. امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب التعبیر، باب 21: باب ثیاب الحریر فی المنام،  الرقم الحدیث 7012، صفحہ 1737۔ مطبوعہ دار ابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔
  41. سید سلیمان ندوی: سیرت عائشہ، صفحہ 26، مطبوعہ لاہور۔
  42. Asma Barlas (2012)۔ "Believing Women" in Islam: Unreading Patriarchal Interpretations of the Qur'an۔ University of Texas Press۔ صفحہ: 126۔ On the other hand, however, Muslims who calculate 'Ayesha's age based on details of her sister Asma's age, about whom more is known, as well as on details of the Hijra (the Prophet's migration from Mecca to Madina)، maintain that she was over thirteen and perhaps between seventeen and nineteen when she got married. Such views cohere with those Ahadith that claim that at her marriage Ayesha had "good knowledge of Ancient Arabic poetry and genealogy" and "pronounced the fundamental rules of Arabic Islamic ethics. 
  43. تاریخ صحیح اسلام et al.

    According to these sources, we can conclude that Aisha was much older than what she claimed and narrated in some hadith.۔۔ and she was 17 or 19 years old when she got engaged and she would be 20 or 22 when she had sex. (Original: از اين روايات می توان چنين نتيجہ گرفت کہ عايشہ بسيار بزرگتر از آن چيزی است کہ خودش ادعا می کند و در روايت ها نقل شدہ است؛۔۔۔و در هنگام ازدواج 17 يا 19 سالہ و در هنگام دخول 20 يا 22 سالہ خواهد بود)

  44. Ali 1997, p. 150
  45. امام بخاری: صحیح بخاری، باب الہجرۃ۔
  46. امام ابوداؤد:  سنن ابوداؤد،  کتاب الادب۔
  47. امام بخاری: صحیح بخاری، باب الہجرۃ
  48. المعجم لکبیر، سهل بن سعد، یعقوب بن عبد الرحمنٰ الزهری، 535/35، الحدیث:5857
  49. صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب کان عیش النبیﷺ۔۔۔۔۔الخ، ص۔1589، الحدیث:6459
  50. مؤطا امام مالک، کتاب الصدقۃ، باب لترغیب فی الصدق، ص۔524، الحدیث: 1969
  51. دکتور شوقی ابو خلیل: اطلس سیرت نبوی، صفحہ 276،  اُردو مترجم، مطبوعہ لاہور 1425ھ۔
  52. ^ ا ب پ ت ابن سعد: طبقات ابن سعد، جلد 1، جزء 1،  صفحہ 295، تذکرہ غزوہ مریسیع،  مطبوعہ لاہور۔
  53. سورۃ المنافقون: آیت 7، پارہ 28
  54. سورۃ المنافقون: آیت 8، پارہ 28
  55. ^ ا ب ابن سعد: طبقات ابن سعد، جلد 1، جزء 1،  صفحہ 297، تذکرہ غزوہ مریسیع،  مطبوعہ لاہور۔
  56. سید سلیمان ندوی: سیرت عائشہ، صفحہ 72/73،  مطبوعہ لاہور۔
  57. امام ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 4 صفحہ 131، واقعہ اِفک، ذکر تحت سنۃ الہجریہ 6ھ۔ مطبوعہ لاہور
  58. ابن ہشام:  سیرت النبی،  باب 116 تذکرہ تحت واقعہ اِفک،  جلد 2  صفحہ 201۔  مطبوعہ لاہور۔
  59. ^ ا ب پ امام ابن کثیر الدمشقی: سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 219۔ مطبوعہ لاہور۔
  60. ^ ا ب ابن ہشام:  سیرت النبی،  باب 116 تذکرہ تحت واقعہ اِفک،  جلد 2  صفحہ 202۔  مطبوعہ لاہور۔
  61. امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1017۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔
  62. سید سلیمان ندوی: سیرت عائشہ، صفحہ 74،  مطبوعہ لاہور۔
  63. محمد ادریس کاندھلوی: سیرت المصطفٰی، جلد 2 صفحہ 274، مطبوعہ لاہور
  64. ابن سعد: طبقات ابن سعد، جلد 1 جزء 1، صفحہ 297۔ مطبوعہ لاہور۔
  65. ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 202۔ ذکر واقعہ اِفک، مطبوعہ لاہور
  66. ^ ا ب پ امام ابن کثیر الدمشقی: سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 220۔ مطبوعہ لاہور۔
  67. ^ ا ب پ ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 202۔ ذکر واقعہ اِفک، مطبوعہ لاہور۔
  68. محمد ادریس کاندھلوی: سیرت المصطفٰی، جلد 2 صفحہ 275۔ مطبوعہ لاہور۔
  69. امام ابن حجر عسقلانی:  فتح الباری فی شرح الصحیح البخاری، جلد 8 صفحہ 369۔ مطبوعہ قاہرہ، مصر۔
  70. محمد ادریس کاندھلوی: سیرت المصطفٰی، جلد 2 صفحہ 276۔ مطبوعہ لاہور۔
  71. امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1016۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔
  72. ^ ا ب پ ت امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1018۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔
  73. ^ ا ب ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 203/204،  مطبوعہ لاہور۔
  74. امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1018/1019۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔
  75. ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 204،  مطبوعہ لاہور۔
  76. ^ ا ب پ ت امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1019۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔
  77. ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 204۔ مطبوعہ لاہور۔
  78. ^ ا ب پ ت ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 205۔ مطبوعہ لاہور۔
  79. محمد ادریس کاندھلوی:  سیرت المصطفٰی،  جلد 2 صفحہ 281۔ مطبوعہ لاہور۔
  80. محمد ادریس کاندھلوی:  سیرت المصطفٰی،  جلد 2 صفحہ 283/284۔ مطبوعہ لاہور۔
  81. ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 206۔ مطبوعہ لاہور۔
  82. محمد ادریس کاندھلوی:  سیرت المصطفٰی،  جلد 2 صفحہ 284/285۔ مطبوعہ لاہور۔
  83. امام الحافظ الذھبی:  سیر اعلام النبلا،  جلد 1 صفحہ 289/290، الرقم الترجمہ 56:  سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ۔ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ۔
  84. بابایی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ج5، ص222
  85. حسینی فاطمی، نقد و بررسی دیدگاہ‌ہای موجود دربارہ افشای راز پیامبر(ص) در آیات ابتدایی سورہ تحریم
  86. صحیح البخاری، ج 5، ص4964، ح4966، کتَاب الطَّلَاقِ، بَاب لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللہ لک،
  87. صحیح البخاری، ج 4، ص1868، ح4630، کتَاب التفسیر، بَاب: وَإِذْ أَسَرَّ النبی إلی بَعْضِ أَزْوَاجِہ حَدِیثًا
  88. الأنصاری القرطبی، أبو عبد اللہ محمد بن أحمد، الجامع لأحكام القرآن، ج 5، ص 172، دار الشعب – القاہرة۔
  89. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، ج 18، ص202
  90. ابن قیم، إعلام الموقعین عن رب العالمین، ج 1، ص179؛ ابن قیم، الأمثال فی القرآن الکریم، ج 1، ص57،
  91. امام ابن حبان: کتاب الثقات، جلد 3، صفحہ 323۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد دکن، ہند۔ 1393ھ۔
  92. امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب الفرائض
  93. امام احمد بن حنبل: مسند عائشہ، ج 4 صفحہ 92، مطبوعہ قاہرہ، مصر۔
  94. ابن جریر طبری: تاریخ الرسل والملوک، ج 4 حصہ اول، صفحہ 102، تذکرہ تحت سنہ ہجریہ 51ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  95. ابن جریر طبری: تاریخ الامم والملوک، جلد 7 صفحہ 145، مطبوعہ قاہرہ، مصر۔
  96. ابن جریر طبری: تاریخ الرسل والملوک، ج 4 حصہ اول، صفحہ 101، تذکرہ تحت سنہ ہجریہ 51ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  97. ابن جریر طبری: تاریخ الرسل والملوک، ج 4 حصہ اول، صفحہ 82، تذکرہ تحت سنہ ہجریہ 51ھ۔
  98. ابن جریر طبری: تاریخ الرسل والملوک، ج 4 حصہ اول، صفحہ 114، تذکرہ تحت سنہ ہجریہ 51ھ۔ مطبوعہ لاہور۔
  99. امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا، جلد 2 صفحہ 840، الرقم الحدیث 4478،  مطبوعہ لاہور۔
  100. ابن اثیر الجزری:  التاریخ الکامل لابن اثیر،  جلد 3 صفحہ 383،  مطبوعہ لائیڈن، جرمنی یورپ۔
  101. ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 8 صفحہ 63/64،  تذکرہ سنہ ہجریہ 49ھ۔  مطبوعہ لاہور۔
  102. سید سلیمان ندوی:  سیرت عائشہ، ملخصاً از صفحہ 123 تا 125،  مطبوعہ لاہور۔
  103. امام ترمذی:  السنن الترمذی، کتاب المناقب، باب 63: باب مِن فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، جلد 3 صفحہ 575/576،  الرقم الحدیث 3883۔  مطبوعہ مکتبۃ المعارف، الریاض، سعودی عرب، 1420ھ۔
  104. امام ابو نُعَیم الاصبہانی: حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء،  جلد 2 صفحہ 49/50،  مطبوعہ دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1400ھ۔
  105. امام ابن الجوزی: صفۃ الصفوۃ،  جلد 2 صفحہ 32، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1409ھ۔
  106. امام الحاکم:  مستدرک علی الصحیحین، جلد 4 صفحہ 15،  الرقم الحدیث 6748۔ مطبوعہ دارالباز للنشر والتوزیع، مکہ مکرمہ، سعودی عرب، 1400ھ۔
  107. ^ ا ب امام الحافظ الذھبی: سیر اعلام النبلا، جلد 2 صفحہ 185۔ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1413ھ۔
  108. ^ ا ب امام یوسف المزی: تہذیب الکمال، جلد 35 صفحہ 234۔ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1400ھ۔
  109. ^ ا ب امام ابن عبد البر:  الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، جلد 4 صفحہ 1883۔ مطبوعہ دارالجیل، بیروت، لبنان، 1412ھ۔
  110. ^ ا ب پ امام ابن حجر عسقلانی: تہذیب التہذیب،  جلد 12 صفحہ 463۔ مطبوعہ دارالفکر، بیروت، لبنان، 1404ھ۔
  111. ^ ا ب امام ابن حجر عسقلانی: الاصابہ فی تمیز الصحابہ،  جلد 8 صفحہ 18۔ مطبوعہ دارالجیل، بیروت، لبنان، 1412ھ۔
  112. امام ابن ابی شیبہ:  المصنف،  جلد 5 صفحہ 286،  الرقم 26044۔ مطبوعہ مکتبۃ الرشد، الریاض، سعودی عرب، 1409ھ۔
  113. ^ ا ب امام طبرانی: المعجم الکبیر، جلد 23 صفحہ 184،  الرقم الحدیث 299۔ مطبوعہ مطبعۃ الزہراء الحدیثہ، موصل، عراق، 1380ھ۔
  114. امام ابن الجوزی: صفۃ الصفوۃ،  جلد 2 صفحہ 33، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1409ھ۔
  115. ^ ا ب پ امام ہیثمی: مجمع الزوائد،  جلد 9 صفحہ 243۔ مطبوعہ  دارالریان للتراث، قاہرہ، مصر، 1407ھ۔ مطبوعہ دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1407ھ۔
  116. امام ابن ابی عاصم:  الآحاد والمثانی، جلد 5 صفحہ 398،  الرقم 3027۔ مطبوعہ بیروت، لبنان، 1400ھ۔
  117. الحافظ الذہبی: سیر اعلام النبلا، جلد 2، صفحہ 136 تا 139۔ مطبوعہ بیروت لبنان۔
  118. امام ابو نُعَیم الاصبہانی: حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء،  جلد 2 صفحہ 47،  مطبوعہ دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1400ھ۔
  119. امام ہناد بن سری الکوفی (متوفی 243ھ): کتاب الزھد، جلد 1 صفحہ 337۔ مطبوعہ دارالخلفاء للکتاب الاسلامی، کویت، 1406ھ۔
  120. الحافظ الذھبی: سیراعلام النبلا، جلد 2 صفحہ 187، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1413ھ۔
  121. امام ہناد بن سری الکوفی (متوفی 243ھ): کتاب الزھد، جلد 1 صفحہ 337، الرقم 618، مطبوعہ دارالخلفاء للکتاب الاسلامی، کویت، 1406ھ۔
  122. امام ابن الجوزی: صفۃ الصفوۃ،  جلد 2 صفحہ 29، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1409ھ۔
  123. امام بخاری:  الادب المفرد،  صفحہ 106،  الرقم 286،  مطبوعہ دارالبشائر الاسلامیہ، بیروت، لبنان، 1409ھ۔
  124. امام ابن الجوزی: صفۃ الصفوۃ،  جلد 2 صفحہ 58/59، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1409ھ۔
  125. امام احمد بن حنبل: مسند احمد، مسند عائشہ، جلد 11 صفحہ 4، الرقم 24515۔ مطبوعہ لاہور۔
  126. ابن سعد: طبقات ابن سعد، جلد 4 جز 8، صفحہ 59، مطبوعہ لاہور۔
  127. ابن سعد: طبقات ابن سعد، جلد 4 جز 8، صفحہ 60، مطبوعہ لاہور۔
  128. امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب 108: باب غیر ۃِ النساء ووَجْدِھن،  صفحہ 1332،  الرقم الحدیث 5228۔  مطبوعہ دار ابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔
  129. امام احمد بن حنبل: مسند احمد، مسند عائشہ، جلد 11 صفحہ 4، الرقم 24513۔ مطبوعہ لاہور۔
  130. امام ابن حبان: صحیح ابن حبان، جلد 16 صفحہ 49، الرقم الحدیث 7112۔ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1414ھ۔
  131. مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 4436 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 23366۔  مطبوعہ لاہور۔
  132. امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب 30: باب فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 924، الرقم الحدیث 3768۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام  1423ھ۔
  133. امام بخاری: صحیح بخاری،  کتاب بدء الخلق، باب 6: باب ذکر الملائکۃ، صفحہ 796، الرقم الحدیث 3217۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام  1423ھ۔
  134. امام بخاری: صحیح بخاری،  کتاب الادب، باب 111: باب من دَعا صاحبہ فنَقص من اسمہ حرفاً،  صفحہ 1547،  الرقم الحدیث 6201۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام  1423ھ۔
  135. امام بخاری: صحیح بخاری،  کتاب الاستئذان، باب 16: باب تسلیم الرجال علی النساء، والنساء علی الرجال،  صفحہ 1559،  الرقم الحدیث 6249۔   مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام  1423ھ۔
  136. امام مسلم: صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ،  باب 59: باب فی فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 1214،  الرقم الحدیث 6195  مکرر 2447۔
  137. امام مسلم: صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ،  باب 59: باب فی فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 1214،  الرقم الحدیث 6196  مکرر 2447۔
  138. امام مسلم: صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ،  باب 59: باب فی فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 1214،  الرقم الحدیث 6197  مکرر 2447۔
  139. امام مسلم: صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ،  باب 59: باب فی فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 1214،  الرقم الحدیث 6198  مکرر 2447۔
  140. امام ترمذی: السنن الترمذی، کتاب الاستئذان، باب 5: باب ما جاء فی تبلیغ السلام،  جلد 3 صفحہ 76، الرقم الحدیث 2693۔  مطبوعہ مکتبۃ المعارف، الریاض، سعودی عرب، 1420ھ۔
  141. امام ابوداؤد:  السنن ابوداؤد،  کتاب الادب، باب 166: باب فی الرجل یقول: فلان یقرئک السلام،  جلد 3 صفحہ 284،  الرقم الحدیث 5232۔  مطبوعہ مکتبۃ المعارف، الریاض، سعودی عرب، 1419ھ۔
  142. مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 4260 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 23190۔  مطبوعہ لاہور۔
  143. مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 4785 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 23715۔  مطبوعہ لاہور۔
  144. مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 4826 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 23756۔  مطبوعہ لاہور۔
  145. مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 5092 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 24022۔  مطبوعہ لاہور۔
  146. مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 5132 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 24062۔  مطبوعہ لاہور۔
  147. مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 5807 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 24737۔  مطبوعہ لاہور۔
  148. الحافظ الذہبی: سیر اعلام النبلا، جلد 2، صفحہ 139۔ مطبوعہ بیروت لبنان۔
  149. امام محمد بن عبد اللہ بن زبر الربعی متوفی 379ھ:  تاریخ مولد العلماء وَ وفیاتہم، صفحہ 66، ذکر تحت سنۃ الہجریہ 58ھ۔ مطبوعہ منشورات مرکز المخطوطات والتراث و الوثائق، الکویت، 1410ھ۔
  150. امام ابن حجر عسقلانی: تہذیب التہذیب، جلد 4 صفحہ 681، مطبوعہ موسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1416ھ۔
  151. ^ ا ب سید سلیمان ندوی: سیرت عائشہ، صفحہ 126، مطبوعہ لاہور۔
  152. امام ابوداؤد طیالسی: مسند طیالسی، من مسند اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 224۔
  153. امام مالک: موطاء امام مالک،  کتاب قصر الصلٰوۃ،  باب 11: باب صلاۃ الضحیٰ، الرقم الحدیث 391، جلد 2، صفحہ 30۔ مطبوعہ مکتبۃ الفرقان، دوبئی، 1424ھ۔
  154. امام احمد بن حنبل:  مسند احمد، مسند عائشہ، جلد 9،  الرقم الحدیث 5386۔  مطبوعہ لاہور۔
  155. ^ ا ب امام مالک: موطاء امام مالک،  کتاب قصر الصلٰوۃ،  باب 11: باب صلاۃ الضحیٰ، الرقم الحدیث 391، جلد 2، صفحہ 31۔ مطبوعہ مکتبۃ الفرقان، دوبئی، 1424ھ۔
  156. امام احمد بن حنبل:  مسند احمد، مسند عائشہ، جلد 9،  الرقم الحدیث 4911۔ مطبوعہ لاہور۔
  157. امام عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی: المصنف، جلد 2 صفحہ 451،  الرقم الحدیث 4048۔ مطبوعہ  المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ۔
  158. الاسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ۔ امام بیہقی: شعب الایمان، جلد 2 صفحہ 375۔  مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1410ھ۔
  159. امام ابن ابی عاصم:  کتاب الزھد،  جلد 1 صفحہ 164۔ مطبوعہ دارالریان للتراث، قاہرہ، مصر، 1408ھ۔
  160. امام ابن الجوزی: صفۃ الصفوۃ،  جلد 2 صفحہ 31، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1409ھ۔