جمیلہ بنت سعد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ان کا نام جمیلہ تھا اور وہ شکل و صورت اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے اسم بامسمیٰ تھیں۔ اپنے والد کی شہادت کے وقت ان کی عمر بہت کم تھی۔ ابو بکر صدیق کی ازواج میں سے ایک زوجہ محترمہ انصار میں سے تھیں۔ وہ سعدبن ربیع کی چچا زاد تھیں۔ یعنی یتیم بچی جمیلہ کی پھوپھی ہوتی تھیں۔ یوں ابوبکر صدیق اس لڑکی کے پھوپھا بھی لگتے تھے۔ یہ رشتے داری کا تعلق بھی بہت اہمیت کا حامل ہے مگر سیدنا ابو بکر صدیق کی محبت سیدہ جمیلہ کے والد حضر ت سعد کے دینی مقا م و مرتبہ اور اسلام کے لیے ایثار و قربانی کی مرہون منت تھی۔ جمیلہ ایک مرتبہ ابو بکر صدیق کے دور خلافت میں ان کے ہاں حاضر ہوئیں۔ اب وہ بڑی ہو چکی تھیں، مگر ابھی نو عمر ہی تھیں۔ سیدنا ابو بکر صدیق نے ان کا استقبال کیا اور نہایت محبت کے ساتھ ان کے لیے اپنی چادر بچھا دی۔ عمر بن خطاب بھی اس وقت وہاں موجود تھے۔ انھوں نے پوچھا ” اے خلیفہ رسول یہ لڑکی کون ہے؟ “ خلیفہ اول نے فرمایا ” یہ سعد بن ربیع کی بیٹی ہے جو ہم دونوں سے بہتر تھے۔“ عمر نے پوچھا ” وہ کیسے؟ “ابو بکر صدیق نے جواب دیا ” اے عمر ہم اور تم ابھی تک اس دنیا میں بیٹھے ہیں جبکہ اس کے باپ نے اللہ کے رسول کے سامنے جام شہادت نوش کیا اور جنت کا مستحق قرار پایا۔“ جمیلہ ا ام سعد کی کنیت سے معروف تھیں۔ وہ بہت بڑی عالمہ فاضلہ تھیں۔ صحابیات کے علاوہ کئی صحابہ نے بھی ان سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی۔ بعض روایات کے مطابق تو وہ حافظہ قرآن بھی تھیں۔ جمیلہ بنت سعد کی شادی آنحضور کے عظیم المرتبت صحابی زید بن ثابت سے ہوئی۔ زید کے فہم قرآن کی تعریف خود آنحضور نے بھی فرمائی تھی۔ انھیں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انھوں نے ابیؓبن کعب کے ساتھ مل کر خلیفہ رسول سیدنا ابو بکر صدیق کے حکم پر قرآن مجید کو یکجا کر کے مدون کیا اور کتاب اللہ ایک مصحف کی صورت میں محفوظ ہو گئی۔ زید کے بیٹے خارجہ بن زید بن ثابت مشہور تابعی ہیں جو جمیلہ کے بطن سے تھے۔ وہ مدینہ کے مشہور محدث اور فقیہہ تھے۔ تمام بلاد اسلامیہ سے طالبان علم حصول علم کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ یوں جمیلہ کو کئی اعزاز حاصل ہیں۔ ان کے والد کی نسبت سے ان کا مقام متعین کیا جائے تو بہت بلند ہے۔ ابو بکر صدیق کی شفقت و محبت کا حوالہ آئے تو ان کی قسمت پر رشک آتا ہے۔ زید بن ثابت سے ان کے عقد کو دیکھیں تو یہ ان کی بہت بڑی فضیلت معلوم ہوتی ہے اور پھر خارجہ بن زید کی والدہ ہونے کے ناتے ان کی شان اور بھی دوبالا ہو جاتی ہے کہ ان کی گود میں اتنا بڑا عالم دین پروان چڑھا جو علم و عرفان کے اس سنہری دور میں مدینہ کے سات فقہا میں اعلیٰ مرتبے کا حامل تھا ۔

حوالہ جات[ترمیم]