فاطمہ بنت اسد
فاطمہ بنت اسد | |
---|---|
(عربی میں: فاطمة بنت أسد) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 568ء حجاز |
وفات | سنہ 625ء (56–57 سال) مدینہ منورہ |
مدفن | مدینہ منورہ |
شوہر | ابو طالب |
اولاد | علی بن ابی طالب [1]، جعفر ابن ابی طالب ، عقیل ابن ابی طالب ، طالب ابن ابی طالب ، ام ہانی بنت ابی طالب ، جمانہ بنت ابی طالب |
والد | اسد بن ہاشم |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
درستی - ترمیم |
فاطمہ بنت اسد ابو طالب کی زوجہ اور علی بن ابی طالب کی والدہ تھیں حضرت محمد کی چچی امام حسن حسین کی دادی تھیں۔سنہ وفات 626ء ہے۔
نام و نسب
فاطمہ نام، اسد بن ہاشم کی بیٹی ،ہاشم کی پوتی ، عبد المطلب جد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھتیجی تھیں۔
نکاح
ابو طالب بن عبد المطلب سے نکاح ہوا، جن سے علی بن ابی طالب پیدا ہوئے۔
اسلام
آغاز اسلام میں خاندان ہاشم نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے زیادہ ساتھ دیا اور ان میں اکثر مسلمان بھی ہو گئے تھے، فاطمہ بھی انہی لوگوں میں تھیں اور ان کی بعض اولاد مشرف بہ اسلام ہوئی، جن میں عقیل ، جعفر ، علی اور بیٹی جمانہ شامل ہیں۔ جب ابو طالب کا انتقال ہوا۔ تو ان کی بجائے فاطمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بازو رہیں۔
ہجرت اور عام حالات
جب مسلمان ہو کر ہجرت کی اجازت ملی تو عورتوں میں فاطمہ پہلی عورت تھیں جنھوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، یہاں علی کا فاطمہ زہرا سے عقد ہوا۔ تو علی المرتضی نے اپنی والدہ فاطمہ بنت اسد سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی آتی ہیں میں پانی بھروں گا اور باہر کا کام کروں گا۔ اور وہ چکی پیسنے اور آٹا گوندھنے میں آپ کی مدد کریں گی۔[2]
اولاد
فاطمہ بنت اسد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو 17 سال تک اپنے بیٹے کی طرح پالا 56 سال تک رسول اللہ کا ساتھ دیا۔ جب ان کے دادا عبد المطلب کی وفات ہوئی اور وہ ابو طالب کے زیرِ کفالت آئے۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انھیں ماں سمجھتے تھے اور کہتے تھے۔ جب بھی وہ فاطمہ بنت اسد کو دیکھتے تو احتراماً کھڑے ہو جاتے۔ اس کے علاوہ ان کی اپنی اولاد درج ذیل ہے۔
علی بن ابو طالب، جعفر طیار، عقیل بن ابو طالب، طالب، ریطہ، ام ہانی اور جمانہ۔
اخلاق
اصابہ میں ہے۔
"وہ نہایت صالح بی بی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی زیارت کو تشریف لاتے اور ان کے گھر میں (دوپہر کا قیلولہ) آرام فرماتے تھے۔"[3]
وفات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں 4ھ میں وفات پائی، بعض کا خیال ہے کہ ہجرت سے قبل فوت ہوئیں لیکن یہ صحیح نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیض اتار کر کفن دیا اور قبر میں اتر کر لیٹ گئے، لوگوں نے وجہ دریافت کی تو فرمایا ابوطالب کے بعد ان سے زیادہ میرے ساتھ کسی نے سلوک نہیں کیا۔ اس بنا پر میں نے ان کو قمیض پہنائی کہ جنت میں ان کو حُلہ ملے اور قبر میں لیٹ گیا کہ شاید قبر میں کمی واقع ہو۔[4]
اس کے بعد انھوں نے ان کی قبر مبارک کے رکھنے کے لیے اپنی قمیض عنایت فرمائی اور ان کی قبر میں خود اتر کر لیٹے اور اسے ملاحظہ کیا اور فاطمہ بنت اسد کا جسم اقدس اس میں اتارا۔ لوگوں نے وجہ دریافت کی تو فرمایا میں نے ان کو قمیض پہنائی کہ جنت میں ان کو حلہ ملے اور قبر میں لیٹ گیا کہ شاید قبر میں کمی واقع ہو۔[5]