ریحانہ بنت زید

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ریحانہ بنت زید
 

معلومات شخصیت
پیدائش 590ء کی دہائی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حجاز  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 631ء (40–41 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات محمد بن عبداللہ (629–631)  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤمنین کی والدہ
ام المؤمنین
امہات المؤمنین - (ازواج مطہرات)

امہات المومنین

نام ونسب

ریحانہ نام، باپ کا نام شمعون یا زید تھا (ریحانہ بنتِ شمعون ہی آپ کا صحیح سلسلۂ نسب ہے، اس لیے کہ ان کے والد کا شمار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں ہے، حافظ ابن عبدالبر نے استیعاب میں آپ کا سلسلۂ نسب شمعون بن زید لکھنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا کے والد تھے؛ اسی لیے جس سلسلہ میں شمعون کا نام کئی ناموں کے بعد ہے، وہ صحیح نہیں ہے) باختلافِ روایت سلسلۂ نسب یہ ہے: ریحانہ بنتِ شمعون بن زید، بعض روایتوں میں ریحانہ بنت زید بن عمر بن جنافہ بن شمعون بن زید ہے، قبیلہ بنو قریظہ سے تھیں (بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ بنو نضیر سے تھیں؛ لیکن یہ صحیح نہیں ہے؛ جیسا کہ حضرت شمعون رضی اللہ عنہ کے حالات میں تفصیل آچکی ہے، حافظ ابن عبدالبر نے شمعون کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ قرظی تھے اور انصار، خزرج کے حلیف تھے، اس لیے ہو سکتا ہے کہ اسی طرح بنونضیر سے بھی ان کے عزیزانہ تعلقات رہے ہوں)۔

نکاح

پہلے بنوقریظہ کے ایک شخص حکم سے نکاح ہوا تھا، غزوۂ بنوقریظہ کے دوسرے دن یہودیوں کے ساتھ حکم بھی قتل کر دیا گیا، اس روز جو عورتیں اور بچے اسیر ہو کر آتے تھے ان ہی میں حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بڑی احتیاط کے ساتھ ام المنذر بنتِ قیس کے گھر میں ٹھہرایا۔ [1]

اسلام

ان سے فرمایا تمھیں اختیار ہے چاہے اسلام قبول کرلو یا اپنے مذہب (یہودیت) پرقائم رہو؛ انھوں نے اپنے قدیم دین پررہنا پسند کیا؛ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواُن کے اسلام نہ لانے کا بڑا رنج ہوا اور دوبارہ فرمایا: اگرتم اسلام قبول کرلو تو میں تمھیں اپنے پاس رکھوں گا؛ لیکن انھوں نے پھر انکار کیا، یہ مزاجِ اقدس پر اور زیادہ گراں گذرا اور خاموشی اختیار فرمالی گئی، ایک دن آپ مجلس میں تشریف فرما تھے کہ یکا یک ایک شخص کے پیر کی چاپ سنائی دی، آپ نے فرطِ مسرت سے تمام حاضرین سے فرمایا کہ یہ ثعلبہ بن سعید ہیں، جو ریحانہ کے اسلام لانے کی خوشخبری لے کرآ رہے ہیں (ان کے اسلام کے سلسلہ میں پہلی روایت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ ثعلبہ بن سعید کے ذکر میں تمام اہلِ رجال نے اس روایت کا ذکر کیا ہے)۔ [2] دوسری روایت یہ ہے کہ آپ نے اُن سے فرمایا اگر تم اللہ اور رسول (اسلام) کو اختیار کرتی ہوتو میں تمھیں اپنے لیے خاص کرلوں گا، اس پرحضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہاں! میں اللہ اور اس کے رسول کواختیار کرتی ہوں۔ [3] ہو سکتا ہے کہ ابتدا میں انھوں نے اسلام قبول کرنا اپنی قدیم دینی اور قومی حمیت کے خلاف سمجھا ہو اور بعد میں جب اس کی خوبیوں سے واقف ہو گئی تو قبول کر لیا ہو، قبولِ اسلام کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی ملک میں رکھا اور بعض روایتوں کے مطابق آپ نے انھیں آزاد کرکے اپنے حبالۂ عقد میں لے لیا اور وہ ازواجِ مطہرات میں داخل ہوئیں۔ [4] ابن سعد اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ نے انھیں ازواجِ مطہرات میں اور اکثر اہلِ سیر اور اہلِ رجال نے انھیں سراری میں شمار کیا ہے؛ لیکن ابنِ اسحاق کی ایک روایت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ نے ان سے نکاح نہیں کیا تھا؛ بلکہ انھیں یہ اختیار بخشا تھا کہ اگروہ چاہیں توآپ ان سے نکاح فرمالیں اور انھیں ازواجِ مطہرات میں شامل کر لیں؛ لیکن انھوں نے فرمایا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرآپ اپنی ملک ہی میں رکھیں تومیرے اور آپ دونوں کے لیے آسانی ہو؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی ملک ہی میں رکھا۔ [5]

وفات

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے سے چند مہینے پہلے ہی اس دارِ فانی کوچھوڑ کرداربقاء میں پہنچ گئیں (بعض روایتوں میں ہے کہ آپ کی وفات کے چھ مہینے پہلے آپ کا انتقال ہوا اور بعض روایتوں میں ہے کہ آپ نے حجۃ الوداع سے واپس آنے کے بعد آپ کی وفات ہوئی)۔ [6] آپ جوانی کی حالت میں رحلت فرما گئیں۔ آپ سن ( 630ء ) میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حیات مبارکہ میں ہی انتقال کر گئیں۔ آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔[7]

تدفین

جنۃ البقیع میں سپردِ خاک کی گئیں۔ [8]

حلیہ

خدائے تعالیٰ نے آپ کو حسنِ صورت اور حسنِ سیرت دونوں سے نوازا تھا۔ [9]

قیام گاہ

ابتدا میں ام المنذر کے مکان میں ٹھہرائی گئیں، اس کے بعد غالباً دارِقیس بن فہد مستقل قیام گاہ رہی اور وہیں وفات پائی۔ [10]

فضائل

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بڑی محبت تھی، جب وہ کوئی فرمائش کرتی تھیں تو آپ ضرور پوری کرتے تھے، ابنِ سعد میں ہے کہ ازواجِ مطہرات کی طرح ان کی بھی باری کا دن مقرر تھا اور باپردہ رہتی تھیں۔ [11]

حوالہ جات

  1. (ابنِ سعد)
  2. (ابنِ سعد:8/93)
  3. (ابن سعد:8/93)
  4. (ابن سعد:8/93)
  5. (اصابہ:4/309)
  6. (اصابہ:4/309)
  7. Nur al-Din al-Halabi۔ Sirat-i-Halbiyyah۔ Uttar Pradesh: Idarah Qasmiyyah Deoband۔ vol 2, part 12, pg. 90  Translated by Muhammad Aslam Qasmi.
  8. (اصابہ:4/309)
  9. (ابن سعد:8/93)
  10. (اصابہ:4/309)
  11. (ابن سعد:8/93)