اسماء بنت یزید

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اسماء بنت یزید (Asma`- bint- Yazid) یہ معاذ بن جبل کی پھوپھی زاد بہن ہیں اور ان کی کنیت ام سلمہ ہے۔ قبیلہ انصار سے تعلق رکھنے والی صحابیہ ہیں۔ یہ بہت عقل مند اور ہوش گوش والی عورت تھیں۔

نام و نسب[ترمیم]

اسماء نام، اُمّ سلمہ کنیت۔ سلسلۂ نسب یہ ہے : اسماء بنت یزید بن سکن بن رافع بن عمرو القیس بن زید بن عبد الاشہل بن جُشم بن حارث بن خزرج بن عمرو بن مالک بن اوس۔

حالات زندگی[ترمیم]

ایک مرتبہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ یا رسول ﷲ! میں بہت سی عورتوں کی نمائندہ بن کر آئی ہوں۔ سوال یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے آپ کو مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے چنانچہ ہم عورتیں آپ پر ایمان لائی ہیں اور آپ کی پیروی کا عہد کیا ہے اب صورت حال یہ ہے کہ ہم عورتیں پردہ نشین بنا کر گھروں میں بٹھا دی گئی ہیں اور ہم اپنے شوہروں کی خواہشات پوری کرتی ہیں اور ان کے بچوں کو گود میں لیے پھرتی ہیں اور ان کے گھروں کی رکھوالی کرتی ہیں اور ان کے مالوں اور سامانوں کی حفاظت کرتی ہیں اور مرد لوگ جنازوں اور جہادوں میں شرکت کر کے اجر عظیم حاصل کرتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ان مردوں کے ثوابوں میں سے کچھ ہم عورتوں کو بھی حصہ ملے گا یا نہیں؟ یہ سن کر حضور ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ دیکھو اس عورت نے اپنے دین کے بارے میں کتنا اچھا سوال کیا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے اسماء! تم سن لو اور جا کر عورتوں سے کہہ دو کہ عورتیں اگر اپنے شوہروں کی خدمت گزاری کر کے ان کو خوش رکھیں اور ہمیشہ اپنے شوہروں کی خوشنودی طلب کرتی رہیں اور ان کی فرماں برداری کرتی رہیں تو مردوں کے اعمال کے برابر ہی عورتوں کو بھی ثواب ملے گا یہ سن کر اسماء بنت یزید مارے خوشی کے نعرہ تکبیر لگاتی ہوئی باہر نکلیں۔[1][2]

بیعت[ترمیم]

جامعہ ترمذی ، ابن سعد اور مسند ابن حنبل میں اس بیعت کا کسی قدر تذکرہ آیا ہے، مسند میں ہے کہ اس بیعت میں اسماء رضی اللہ عنہا کی خالہ بھی شریک تھیں، جو سونے کے کنگن اور انگوٹھیاں پہنے ہوئی تھیں، آپ نے فرمایا ان کی زکوٰۃ دیتی ہو؟ بولیں نہیں، فرمایا تو کیا تم کو یہ پسند ہے کہ خدا آگ کے کنگن اور انگوٹھیاں پہنائے، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا خالہ ان کو اُتار دو؛ چنانچہ فوراً تمام چیزیں اُتار کر پھینک دیں، اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہم زیور نہ پہنیں گے تو شوہر بے وقعت سمجھے گا، ارشاد ہوا تو پھر چاندی کے زیور بنواؤ اور ان پر زعفران مل لو کہ سونے کی چمک پیدا ہو جائے؛ غرض ان باتوں کے بعد جب بیعت کا وقت آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زبانی چند اقرار کرائے، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہم آپ سے بیعت کرتے ہیں، اپنا ہاتھ بڑھائیے، فرمایا میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ کنگن کا واقعہ خود حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا تھا۔[3]

عام حالات[ترمیم]

سنہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہوئی اور وہ میکہ سے کاشانہ نبوت میں آئیں تو جن عورتوں نے ان کو سنوارا تھا، ان میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بھی داخل تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو جلوے میں بٹھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع کی، آپ ان کے پاس آ کر بیٹھ گئے، کسی نے دودھ پیش کیا تو تھوڑا سا پی کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا، ان کو شرم معلوم ہوئی اور سر جھکا لیا، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے ڈانٹا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) جو دیتے ہیں لے لو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دودھ لے کر کسی قدر پی لیا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس کر دیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو دیا؛ انھوں نے پیالہ کو گھٹنے پر رکھ کر گردش دینا شروع کیا جس طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمایا تھا وہاں بھی منہ لگ جائے، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اور عورتوں کو بھی دو؛ لیکن سب نے جواب دیا کہ ہم کو اس وقت خواہش نہیں ہے، ارشاد ہوا بھوک کے ساتھ جھوٹ بھی؟۔ [4] سنہ15ھ میں یرموک کا واقعہ پیش آیا، اس میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنے خیمہ کی چوب سے 9 رومیوں کو قتل کیا۔ [5]

وفات[ترمیم]

یرموک کے بعد مدت تک زندہ رہیں اور پھر وفات پائی، وفات کا سال 70ھ ہے۔

فضل وکمال[ترمیم]

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چند حدیثیں روایت کی ہیں جن کے راوی اصحاب ذیل ہیں: محمود بن عمرو انصاری، مہاجر بن ابی مسلم، شہر بن حوشب، مجاہد، اسحاق بن راشد؛ لیکن ان میں سب سے زیادہ شہر بن حوشب نے روایتیں کی ہیں۔

اخلاق[ترمیم]

استیعاب میں ہے: کَانَتْ مِنْ ذَوَاتِ الْعَقْلِ وَالدِّیْنِ۔ ترجمہ:یعنی وہ عقل اور دین دونوں سے متصف تھیں۔ [6] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتی تھیں [7] ایک مرتبہ ناقہ غضباء کی مہار تھامے تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پروحی نازل ہوئی، ان کا بیان ہے کہ وحی کا اتنا بار تھا کہ مجھے خوف ہوا کہ کہیں اونٹنی کے ہاتھ پاؤں نہ ٹوٹ جائیں۔ [8] حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اکثر اوقات کاشانۂ نبوت میں حاضر ہوتیں، ایک مرتبہ بیٹھی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر فرمایا، گھر میں کہرام مچ گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ واپس آئے تووہی حالت قائم تھی، فرمایا کیوں روتی ہو؟ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا ہماری حالت یہ ہے کہ لونڈی آٹاگوندھنے بیٹھی ہے، ہم کوسخت بھوک ہوتی ہے وہ پکاکر فارغ نہیں ہوتی کہ ہم بھوک سے بیتاب ہو جاتے ہیں؛ پھردجال کے زمانہ میں جوقحط پڑے گا اس پرکیونکر صبر کرسگیں گے (یعنی فوراً اس کے دام میں پھنس جائیں گے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس دن تسبیح اور تکبیر بھوک سے بچائے گی؛ پھرکہا رونے کی ضرورت نہیں؛ اگرمیں اس وقت تک زندہ رہا تومیں خود سینہ سپرہوں گا؛ ورنہ میرے بعد خدا ہر مسلمان کی حفاظت کریگا۔ [9] مہمان نواز تھیں (ایک بار حضرت) شہر بن حوشب آئے تو (انہو ں نے) ان کے سامنے کھانا رکھا (حضرت شہر بن حوشب نے) انکار کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ بیان کیا (جس سے یہ اشارہ مقصود تھا کہ انکار مناسب نہیں ہے؛ انہو ں نے کہا: اب دوبارہ ایسی غلطی نہ کروں گا)۔ [10]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. الاستیعاب، باب النساء، باب الالف 3267، أسماء بنت یزید، ج 4، ص 350
  2. جنتی زیور، عبد المصطفٰی اعظمی، ص 529 و 530، ناشر مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی
  3. (ان واقعات کے لیے دیکھیے، مسند:6/453،4670،461)
  4. (مسند:6/458)
  5. (اصابہ:8/13)
  6. (الإستيعاب في معرفة الأصحاب:2/76، شاملہ، موقع الوراق)
  7. (مسند:6/459)
  8. (مسند:6/455،458)
  9. (مسند:6/453،454)
  10. (مسند:6/458)