تصوف

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(صوفیاء سے رجوع مکرر)

{{اسلامی تصوف}}

تصوف[مردہ ربط] کا لفظ اس طریقۂ کار یا اسلوبِ عمل کے لیے اختیار کیا جاتا ہے جس پر کوئی صوفی (جمع: صوفیا) عمل پیرا ہو۔ اسلام سے قربت رکھنے والے صوفی، لفظ تصوف کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ؛ تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂ نفس [1] اور حدیث کی اصطلاح میں احسان [2] کہتے ہیں۔ تصوف کی اس مذکوہ بالا تعریف بیان کرنے والے افراد تصوف کو قرآن و سنت کے عین مطابق قرار دیتے ہیں؛ اور ابتدائی ایام میں متعدد فقہی علمائے کرام بھی اسی تصوف کی جانب مراد لیتے تھے مگر بعد میں تصوف میں ایسے افکار ظاہر ہونا شروع ہوئے جن پر شریعت و فقہ پر قائم علما نے نہ صرف یہ کہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ ان کو رد بھی کیا۔

اللہ کو صرف دین اسلام ہی پسند ہے اور دین اسلام وہی ہے جو اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں پورا کر دیا اور اس کے بعد کسی کو ترمیم یا تجدید کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔

مختصر یہ کہ وہ مسلم علماء جنہوں نے اپنی توانائیاں انسانی جسم کے لیے معیاری خطوطِ راہنمائی کو سمجھنے پر مرکوز کیں وہ فقیہ کہلائے اور وہ جنھوں نے اس بات پر زور دیا کہ سب سے اہم مہم (task)، درست فہم تک رسائی کے لیے عقل کی تربیت ہے وہ پھر تین مکاتیب میں تقسیم ہو گئے ۔ ماہرین الٰہیات، فلاسفہ اور صوفیا۔ یہاں ہمارے پاس اس انسانی وجود سے متعلق تیسرا ساحہ رہ جاتا ہے، (یعنی) روح؛ متعدد مسلمان، جنھوں نے اپنی زیادہ تر کوششیں انسانی شخصیت کی (ان) روحانی ابعاد کی پرورش کے لیے مختص کر دیں وہ صوفی کے نام سے جانے گئے (اصل عبارت کے لیے ربط دیکھیے)[3]۔

ان مذکورہ بالا دو تعریفوں کے علاوہ بھی تصوف کی بے شمار تعریفیں بیان کی جاتی ہیں۔

مضامین بسلسلہ

تصوف

صوفی[ترمیم]

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ صوفی صوف سے نکلا ہے جس کا معنی اون کا کپڑا ہے جبکہ یہ بھی یونانی لفظ سوفیا (σοφία) سے آیا جس کا معنی حکمت ہے۔

موافقت و مخالفت[ترمیم]

تصوف کا لفظ، اسلامی ممالک (بطور خاص برصغیر ) میں روحانیت، ترکِ دنیا داری اور اللہ سے قربت حاصل کرنے کے مفہوم میں جانا جاتا ہے اور مسلم علما میں اس سے معترض اور متفق، دونوں اقسام کے طبقات پائے جاتے ہیں؛ کچھ کے خیال میں تصوف شریعت اور قرآن سے انحراف کا نام ہے اور کچھ اسے شریعت کے مطابق قرار دیتے ہیں۔ اس لفظ تصوف کو متنازع کہا بھی جا سکتا ہے اور نہیں بھی؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اشخاص خود تصوف کے طریقۂ کار سے متفق ہیں وہ اس کو روحانی پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے قرآن و شریعت سے عین مطابق قرار دیتے ہیں اور جو اشخاص تصوف کی تکفیر کرتے وہ اس کو بدعت کہتے ہیں اور شریعت کے خلاف قرار دیتے ہیں یعنی ان دونوں (تصوف موافق و تصوف مخالف) افراد کے گروہوں کے نزدیک تصوف کوئی متنازع شے نہیں بلکہ ان کے نزدیک تو معاملہ صرف توقیر اور تکفیر کا ہے۔ دوسری جانب وہ افراد، عالم یا محققین (مسلم اور غیر مسلم) ہیں جو مسلمانوں میں موجود تمام فرقہ جات کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے تصوف کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے نزدیک تصوف کا شعبہ مسلمانوں کے مابین ایک متنازع حیثیت رکھتا ہے۔[4]

نظریاتِ آغاز[ترمیم]

مسلم و غیر مسلم محققین نے اسلام میں تصوف کے آغاز کی وجوہات و اسباب پر متعدد نظریات پیش کیے ہیں جن میں خاصی حد تک مشترکہ باتیں پائی جاتی ہیں۔

داخلیتِ اسلام[ترمیم]

اسلام پر علامہ (scholar) کہلائے جانے والے ایک فرانسیسی لوئی ماسینیؤن (Louis Massignon) عہد بمطابق (1883ء تا 1962ء) نے تصوف کو ---- داخلیتِ اسلام ---- قرار دیا ہے، یعنی اسلام کو اپنے آپ میں داخل کرلینا؛ اس کے مطابق قرآن کی مسلسل تلاوت (تکرار)، مراقبہ اور تجربے سے تصوف پیدا ہوا (ہوئی) اور بڑھی۔[5] تصوف کا قرآن میں لغوی (lexically) طور پیوست ہونے کا یہ نظریہ، باطنیتِ کلام، سے بہت مختلف بھی نہیں کہا جا سکتا؛ صوفیا بھی اسی ظاہریت اور باطنیت کی تقسیمِ اسلام کے قائل ہیں، یعنی قرآن کے الفاظ کا مسلسل ورد اور ان میں وہ معنی (باطنی) تلاش کرنا کہ جو ظاہر میں نظر نہیں آتے یا پوشیدہ ہیں، صوفیا کے نزدیک تصوف کی بنیاد ہیں۔[6]

باطنیتِ کلام[ترمیم]

اسلام ایک کامل دین ہونے کے ناطے انسانی زندگی کے ہر پہلو پر راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ تصوف کے آغاز کے بارے میں کچھ نظریہ دان ان پہلوؤں کو تین اقسام میں دیکھتے ہیں؛ جسمانی، عقلی اور روحانی پہلو؛ یہ تیسرا پہلو ہی ہے جس پر اختصاص (specialization) حاصل کرنے والوں کو صوفی کہا جانے لگا۔[7] اسی بات کو تصوف سے تعلق رکھنے والے علما بھی ایک حدیث کے حوالے سے روایت کرتے ہیں جس میں اسلامی تعلیمات کے ان تین پہلوؤں کا ذکر آتا ہے اور احسان (excellence) کے بارے میں عبارت یوں ہے؛

"احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہ دیکھ سکے تو وہ یقینا تجھے دیکھ رہا ہے۔"[2]

تصوف کے لیے احسان اور روح کے علاوہ بھی متعدد الفاظ بطور متبادل استعمال میں دیکھے جا سکتے ہیں؛ مثال کے طور پر صوفیا کے نزدیک تزکیۂ نفس، علم السلوک اور تہذیب نفس بھی تصوف کے ہی مختلف نام ہیں۔ مذکورہ بالا تمام افکار و طریقہ ہائے کار اصل میں پیغمبر اسلام اور صحابہ کرام کے زمانے سے ہی رائج ہیں اور ان کو اسلام ہی کی تعلیمات کہا جاتا تھا۔

رد عملِ دنیا پرستی[ترمیم]

حضرت عمر کے زمانے سے تیز رفتاری سے وسعت اختیار کرنے والی اسلامی حکومت میں نومسلمین (غیر عرب) کی کثیر تعداد شامل ہوتی جا رہی تھی جس کے بارے میں صحابہ اور علما ہمیشہ فکرمند بھی رہتے تھے کہ اچانک اسلام سے آشنا ہونے والے نومسلمین کی تربیت کا مقصد کس طرح حاصل کیا جائے کہ اسلامی افکار میں ان علاقوں کے قبل از اسلام کے افکار شامل نہ ہونے پائیں جو نئے فتح ہوئے تھے۔ 661ء میں حضرت علی کی شہادت کے بعد، امت کے افکار میں افتراق وسیع ہونے لگے۔ خلافت راشدہ کے بعد آنے والے حکمران اپنے پیشروؤں جیسی اسلامی حکومت کی مثال قائم نہ رکھ سکے اور متعدد علما ان سے بدظن ہونے لگے۔ یہ علما، مسلمانوں میں آنے والی دولت و آسائش طلب زندگی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور ابتدائی اسلام کی سادہ گذر بسر کی تعلیمات پر زور دیتے تھے؛ ان میں حسن البصری[8] اور ابو ھاشم جیسے علما شامل ہیں اور علما کی دنیاداری سے دور رہتے ہوئے زاہدانہ زندگی کا اختیار کرنا آگے چل کر تصوف کی صورت میں نمو پایا؛ ابو ھاشم کو وہ پہلا شخص کہا جاتا ہے کہ جن کو ان کے بعد آنے والوں نے صوفی کا لقب دیا۔[9]

حبسِ اسلامِ راسِخ[ترمیم]

ایک نظریہ جو بطور خاص تصوف سے شغف اور اسلام سے بغض رکھنے والے غیر مسلم بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ؛ تصوف اصل میں اسلامِ راسِخ (orthodox islam) کی پابندیوں، اپنے نفس پر قابو رکھنے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے عقیدے کو مضبوط رکھنے کے لیے درکار مشقتِ شاقہ اور شرائطِ عُبودیت پر عمل پیرا ہونے کو دشوار سمجھنے اور اس سے نفسیاتی طور پر حبس کی کیفیت محسوس کرنے کے طور پر پیدا ہونے والا رد عمل ہے۔[10] ان محققین کے نزدیک اسلامِ راسِخ کی شرائطِ بندگی اور صعب مجاہدۂِ نفس سے آزاد ہونے اور دوسرے مذاہب کے افکار سے دوستانہ ہونے کی وجہ سے اسلامی حکومت کے پھیلاؤ کے وقت اسلام، سیاست کی بجائے تصوف سے جلد پھیلا ۔[11]

مختلف فرقے، مختلف تعریفیں[ترمیم]

اصطلاح term

تصوف
تصوف
غامض
غامضیت
الٰہیات
معرفت
عرفان
باطنیت
ظاہریت
باطنی
ظاہری
باطن
ظاہر
خفیت
خفیت
روحانیت
تبصیر
استبصار
خود
خودی
ذات
مراقبہ
تُعمِّق
تُعمِّق

sufism
islamic mysticism
mystic
mysticism
theology
gnosticism
sufism (farsi)
esotericism
exotericism
esoteric
exoteric
inner
outer
Immanence
Immanentism
spiritualism
enlighten
enlightenment
auto (self)
self
self
muraqibah
meditation
tuammiq


لفظ، تصوف تو اصل میں خود اس پر عمل کرنے والے (یعنی صوفی) کے نام سے مشتق ہے، گویا صوفی کا لفظ تصوف سے قدیم ہے۔[12] رہی بات تصوف کی تعریف کی، تو مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والے افراد کی جانب سے تصوف کی مختلف تعریفیں بیان کی جاتی ہیں۔ سیدھے سادھے الفاظ میں تو تصوف کی تعریف یوں بیان کرسکتے ہیں کہ تصوف اس طریقۂ کار کو کہا جاتا ہے جس پر صوفی عمل پیرا ہوتے ہیں۔

  • جبکہ خود صوفیا، تصوف کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ؛ تصوف، اسلام کی ایک ایسی شاخ ہے جس میں روحانی نشو و نما پر توجہ دی جاتی ہے۔[13] صوفیا، تصوف کی متعدد جہتوں میں؛ اللہ کی ذات کا شعور حاصل کرنا، روحانی کیفیات اور ذکر (رسماً و جسماً) اور شریعت بیان کرتے ہیں۔
  • دیوبند مکتب فکر جن پر وھابی ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے کے ایک عالم اور اشرف علی تھانوی صاحب کے خلیفہ کہلائے جانے والے محمد مسیح اللہ خان، تصوف کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ؛ اعمالِ باطنی سے متعلق شریعت کا شعبہ تصوف اور سلوک کہلاتا ہے اور اعمالِ ظاہری سے متعلق شریعت کا شعبہ فقہ کہلاتا ہے۔[14] ایک اور دیوبندی عالم قاری محمد طیب کے الفاظ میں؛ مذہبی طور پر علمائے دیوبند مسلم ہیں، تفرقاتی طور پر یہ اہلسنت والجماعت سے تعلق رکھتے ہیں، بطور مقلد یہ حنفی ہیں، طریقت میں صوفی ہیں، مدرسی طور پر یہ ماتریدی اور سلوک میں چشتی ہیں۔[15]
  • برصغیر میں عام طور پر بریلوی مکتب فکر کو تصوف یا اہلسنت سے جوڑا جاتا ہے جو بریلی(شہر) سے تعلق رکھنے والے عالم دین احمد رضا خان بریلوی کو مجدد و امام کہتے ہیں،جنہیں قادریہ سمیت تصوف کے تیرہ دیگر سلاسل کی جانب سے خلافت حاصل تھی۔[16]
یہاں ایک دلچسپ اور قابلِ غور بات یہ ہے تصوف پر عمل پیرا دونوں (بریلوی اور دیوبندی) امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں اور تصوف میں بلند درجے پر تسلیم کیے جانے والے ایک صوفی جلال الدین رومی نے خود اس بات کا تذکرہ کیا کہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کا تصوف سے کوئی تعلق نہیں۔[17]
  • تصوف سے نالاں علمائے اسلام اور سلفی حضرات کی تصوف کی تعریف دیکھی جائے تو ان کے مطابق؛ تصوف، محمد کے بعد اسلام میں پیدا ہونے والی ایک بدعت ہے اور یہ کہ تصوف، قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہے۔ لیکن ان میں ایسے علما بھی نظر آتے ہیں جو چند صوفیا (جیسے امام غزالی) کو تکفیر صوفیت کے دوران مُستثنٰی رکھتے ہیں۔[18]
  • اہل تشیع کے محقق علما اور قدیم متکلمین اور محدثین صوفیت کو کفر اور دشمنی اہل بیت سے تعبیر کرتے ہیں تاہم بعض علما عرفان کے نام پر صوفیت کے قائل ہیں، ان کے نزدیک تصوف، عملی معرفت (gnosis) کا نام ہے اور عرفان سے مراد ایسے علوم کی لی جاتی ہے کہ جو حواس اور تجربات سے نہیں بلکہ باطنی کشف سے حاصل ہو۔[19] فی الحقیقت یہ esoteric اور exoteric والا فلسفہ ہی ہے جس کے لیے ایرانی علاقوں میں عرفانِ نظری (theoretical gnosis) کی اصطلاح بھی مروج ملتی ہے اور شیعہ اور سنی تصوف میں مشترکہ خصوصیات پائی جاتی ہیں اور ان کو مدغم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے۔[20]
  • تصوف کی مذکورہ بالا تعریفوں کے بعد اگر حجت تمام کے لیے غیر مسلم (اور بطور خاص مستشرقین) کا تصوف کے بارے میں نظریہ دیکھا جائے تو بہت سے حقائق واضح ہو جاتے ہیں جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ غیر مسلم، تصوف کو اسلام سے کس طرح جدا دیکھتے ہیں، اس کا تفصیلی ذکر اس کے لیے مخصوص قطعے میں آئے گا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق؛ تصوف، اسلام میں ایک باطنیہ تحریک کا نام ہے جو خدا کے براہ راست شخصی (ذاتی) تجربات کے ذریعے آسمانی (الٰہی) حب و علم کی متلاشی ہے۔ صوفیت محمد کے بعد ایسے اشخاص (مجمع) میں ایک منظم تحریک کے طور پر ابھری جو اسلامِ راسِخ کو روحانی طور پر حبسِ نفس (محبوس) سمجھتے تھے۔[10]

صوفی کی اصل الکلمہ[ترمیم]

جیسا کہ قطعۂ تعریف میں بیان ہوا کہ لفظ تصوف تو اصل میں صوفی سے مشتق ایک اسم ہے جو نویں صدی عیسوی (قریباً 286 ھجری) سے مروج ہونا شروع ہوا[6][12]۔ لفظ صوفی کے بارے میں محققین مختلف نظریات رکھتے ہیں جو نیچے درج کیے جا رہے ہیں۔

اصحابِ صُفّہ[ترمیم]

تصوف سے شغف رکھنے والے علمائے کرام، لفظ صوفی کی اصل الکلمہ، اصحاب صفہ سے منسلک کرتے ہیں۔ صفۃ اصل میں عربی کا لفظ ہے جس میں ص پر زیر اور ف پر زبر (صِفَة) کے ساتھ صفت یا اہلیت کے اور ص پر پیش اور ف پر تشدید (صُفَّة) کے ساتھ چبوترے کے معنی آتے ہیں۔ یہ بعدالذکر معنی ہی اختیار کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ لفظ صوفی اسی صفہ سے اخذ ہے کہ مسجد نبوی کے شمال میں واقع صفہ (چبوترے یا سائبان) میں جو اصحاب رہا کرتے تھے ان کو اصحاب صفہ کہا جاتا ہے اور اصحاب صفہ چونکہ، فقراء، تارکِ دنیا اور بالکل صوفیوں کے حال میں ہوتے تھے اس لیے یہی لفظ صوفی کی اصل الکلمہ ہے۔[21] امام ابن تیمیہ کے مطابق حضرت محمد نے اصحاب کو سوال کرنے سے بالکل منع کر دیا تھا یعنی اصحاب صفہ، عام فقراء کی مانند دست سوال دراز نہیں کرتے تھے۔ نہ ہی ان میں کوئی صوفیانہ کیفیات (حال، وجد وغیرہ) پائی جاتی تھیں اور نہ ہی اصحاب صفہ نے خود کو تارک الدنیا کیا تھا بلکہ وہ دیگر اصحاب کی طرح جہاد میں بھی شریک ہوا کرتے تھے۔[22] مزید یہ کہ علم لسانیات کے مطابق، لفظ صفہ سے صوفی مشتق کرنا قواعد کے لحاظ سے غلط ہے کہ اوپر بیان کردہ اعراب کی رو سے لفظ صفہ سے صُفّی (suffi) مشتق ہوگا نا کہ صوفی (soofi یا sufi) مشتق کر لیا جائے۔[23]

صف الاول[ترمیم]

بعض صوفیا کے خیال میں یہ لفظ صوفی اصل میں صف اول کی صف سے ماخوذ ہے کہ صوفی تمام دیگر انسانوں کی نسبت اپنا دل خدا کی جانب کرنے اور اس سے رغبت رکھنے میں پہلی صف میں ہوتا ہے۔ یہاں بھی دیگر متعدد ماخذ کی طرح لسانی قواعد کی پیچیدگی پیش آتی ہے کیونکہ اگر صوفی، صف سے اخذ کیا گیا ہوتا تو پھر اس لفظ کو صَفّی (saffi) ہونا چاہیے تھا نا کہ صوفی (sufi) جو مروج ہے۔[24]

صوفہ[ترمیم]

زمانۂ جاہلیت میں ’’صوفہ ‘‘ نام سے ایک قوم تھی اس قوم کے لوگ خانہ کعبہ کے مجاور تھے اور جن لوگوں نے ان سے مشابہت اختیار کی وہ صوفیہ کہلائے۔ گو عربی قواعد کی رو سے لفظ ’’صوفہ‘‘ سے ’’صوفی'' نہیں بلکہ ’’صوفانی‘‘ بنتا ہے لیکن بعض ماہرین اس اشتقاق کو درست مانتے ہیں اور اس سلسلہ میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر ’’کوفہ‘‘ سے ’’کوفانی‘‘ کی بجائے ’’کوفی‘‘ بن سکتا ہے تو ’’صوفہ‘‘ سے ’’صوفی‘‘ کا اشتقاق بھی ممکن ہے۔[21] اس دلیل کے باوجود اس اصل الکلمہ کے خلاف متعدد دیگر وجوہات بھی بیان کی جاتی ہیں۔[23]

  • قوم صوفہ ایک غیر معروف قوم تھی جس کی جانب صوفیا کی توجہ مرکوز ہونا یا اس کے نام سے تشبیہ کا امکان قوی نہیں ہے۔
  • اگر بالفرض یہ اصل الکلمہ درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر صوفی کا لفظ خود حضرت محمد اور صحابۂ کرام کے زمانے سے موجود ہونا چاہیے تھا نہ کہ دوسری صدی ہجری (امام قشیری کے مطابق 822ء میں[24]) سامنے آتا۔[9]
  • قبل از اسلام کے زمانۂ جاہلیت سے انتساب کو مسلمان اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتے تھے اور صوفیا کی جانب سے ایسا انتخاب ممکن نظر نہیں آتا۔

سوفیہ[ترمیم]

سوفیہ اصل میں ایک یونانی لفظ، sophos سے لیا گیا ہے جس کے معنی حکمت اور فارسی متبادلِ تصوف کی اصطلاح کے مطابق عرفان کے ہوتے ہیں اور اسی مناسبت سے تھیو صوفی کو اردو میں حکمت یزدانی کہا جاتا ہے۔ اس اصل الکلمہ کا تذکرہ سب سے پہلے البیرونی سے روایت کیا جاتا ہے[23]۔ اس کو رد کرنے والے محققین کے نزدیک، ادبی طور پر یا فقۂ لسانیات کے لحاظ سے ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ ان کے مطابق sophos کو یونانی میں لکھنے کے لیے لفظ سگما استعمال کیا جاتا ہے اور عربی تراجم کے دوران اس کا متبادل سین آتا ہے نا کہ حرف صاد کا آتا ہو۔ برخلاف، وہ محققین جو تصوف میں تھیو صوفی اور نو افلاطونیت جیسے افکار پر توجہ دیتے ہیں (مثال کے طور پر Rene Guenon المعروف عبدالواحد یحیٰی (1886ء تا 1951ء)) وہ لفظ صوفی کے لیے sophos کی اصل ابائٹ کے حق میں علم الاعداد کا سہارا لیتے ہیں اور ان کے مطابق لفظ صوفی میں موجود اعداد کی تعداد حکمت الٰہیہ کے برابر ہے اس لیے صوفی، سوفیہ سے ہی مشتق ہے۔[25]

الصّفاء[ترمیم]

فقہی امام، احمد بن حنبل کے استاد بشر ابن الحارث (767ء تا 840ء) جنہیں بشر الحافی بھی کہا جاتا ہے کہ مطابق؛ صوفی وہ ہے جس کا دل اللہ کی جانب مخلص (صاف) ہو[24]۔ اگر لفظ الصفاء کو اخلاص، پاکیزگی اور صفائی کے معنوں میں لے کر اسی کو صوفی کی بنیاد یا اصل الکلمہ تسلیم کیا جائے تو پھر قواعدی طور پر لفظ صوفی کی بجائے صفوی یا صفاوی اخذ ہونا چاہیے تھا[23]۔

صوف[ترمیم]

لفظ صوف کے معنی اون کے آتے ہیں اور گمان غالب ہے کہ یہ لفظ کوئی آٹھویں صدی عیسوی سے دیکھنے میں آ رہا ہے جب ابن سیرین (وفات 729ء) سے روایت کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اس لباس کی حضرت عیسی کی جانب نسبت سے پہنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کا ذکر کیا[26]۔ ابن خلدون کے مطابق صوف (اون) کے کپڑے پہننے کا رجحان دنیا پرستانہ زندگی کی جانب رغبت کے رد عمل کے طور پر ہوا (دیکھیے قطعہ؛ ردعملِ دنیا پرستی) جب بزرگ اور نیک انسانوں نے قیمتی اور ریشمی لباسوں کی نسبت سادہ صوف کے لباس کو ترجیح دینا شروع کی[21]۔

بلا ماخذ[ترمیم]

امام قشیری کے مطابق یہ لفظ 822ء سے دیکھنے میں آیا اور یہ وہ زمانہ تھا کہ جب دنیا پرستی سے نالاں اور زاہد عبادت گزار کسی متعبر نام (لقب / شناخت) سے محروم ہو چکے تھے؛ یعنی خود محمد کے زمانے میں تو سب سے معتبر لقب یا شناخت، لفظ صحابی ہی کا تھا پھر ان کے بعد والی نسل نے تابعین کی شناخت اختیار کی اور ان کے بعد کی نسل نے تبع تابعین کے لفظ سے شناخت اختیار کی مگر پھر تبع تابعین کے بعد زاہدین اور مخلص عبادت گذاروں اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والوں کے لیے یہ لفظ صوفی اختیار کیا گیا[24]۔

تفرقِ ظاہریت و باطنیت[ترمیم]

ایک لفظ جو تصوف میں بکثرت استعمال ہوتا ہے وہ ہے باطنیت (esotericism) کا لفظ اور اس کو ظاہری زندگی یعنی ظاہریت (exotericism) سے اندرونی زندگی کو الگ شناخت دینے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے، گو ظاہری زندگی سے یوں تو مراد دنیاوی زندگی کی لی جا سکتی ہے اور عام انسان اس سے وہ زندگی لے سکتا ہے جو مذہبی زندگی (عبادت کے اوقات) سے علاوہ ہو لیکن تصوف میں ایک صوفی کی مراد اس ظاہری زندگی سے اس زندگی کی ہوتی ہے جو غیر صوفی بسر کرتے ہیں۔ جنید (830ء تا 910ء) کے مطابق صوفی، خود کے لیے مرا ہوا اور خدا کے لیے زندہ ہوتا ہے۔[24][27]

صوفیت اور اسلام[ترمیم]

صوفیا کے نزدیک اسلامی علوم کی دو قسمیں ہیں ایک ظاہری اور دوسری باطنی[14]۔ ظاہری علوم سے مراد شریعت ہے، جو عوام کے لیے ہے۔ اور باطنی علم وہ ہے جو ان کے کہنے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چند صحابہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علی اور حضرت ابوذر کو تعلیم کیا۔ حضرت ابوبکر سے حضرت سلیمان فارسی اور حضرت علی سے حضرت حسن بصری فیضیاب ہوئے۔ صوفیا کے نزدیک تصوف کے چاردرجے ہیں۔

جب تک یہ تمام درجات اپنے درست مقام پر حاصل نہ کیے جائیں اس وقت تک انسان صوفی نہیں ہو سکتا۔ شریعت اسلام کا ظاہر ہے اور طریقت اس کا باطن۔ اس کی سادہ سی مثال یوں دی جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں بھی منافقین مسلمانوں کی صفوں میں شامل تھے جو ظاہر میں تو ہر وہ عمل کرتے تھے جس کے کرنے کا اسلام نے حکم دیا ہے جیسے کہ نماز روزہ، جہاد وغیرہ مگر دل ہی دل میں وہ کافروں کے ساتھ تھے اور یہ گمان کرتے تھے کہ ہم ان مسلمانوں کو دھوکا دے رہے ہیں۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کی طرف سے ان کے سب حالات معلوم تھے اور بعض اوقات تو اکابر صحابہ کی جانب سے بھی ان کو قتل کر دینے تک کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے جان و مال کو بالکل اسی طرح محفوظ رکھا جیسے کہ کسی مسلمان کا رکھا جاتا ہے یہاں پر ان کے ظاہر پر حکم لگایا گیا ہے جو شریعت ہی ہے۔ پس اگر کوئی شخص ظاہر میں نماز روزے کی پابندی اور دیگر فرائض ادا کرتا ہے تو زبان شریعت میں اسے کوئی کافر نہیں کہہ سکتا۔ اب چونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کی حقیقت معلوم تھی اور اس بارے میں سورۃ المنافقین بھی اتری جس من ان کی نیتوں کو بے نقاب کر دیا گیا تو طریقت کے اعتبار سے یہ لوگ کافر ہیں اور ہمیشہ جہنمی ہیں مگر ان کے اس ظاہر کی وجہ سے مسلمانوں کا کوئی قاضی ان کو کچھ نہیں کہہ سکتا اور کوئی مفتی ان کے خلاف فتوی نہیں دے سکتا۔ یہاں پر اہل اللہ اور اولیاء اللہ اپنے باطنی نور سے ان کی حقیقت معلوم کر لیتے ہیں اور لوگوں کو ان کے شرور سے متنبہ کر دیتے ہیں۔

اسلام اور صوفیت[ترمیم]

قرآن میں صوفی یا تصوف و صوفیت نام کی کوئی اصطلاح نہیں ملتی اور جیسا کہ ابتدائیہ میں مذکور ہوا کہ یہ تصور اسلام کی اولین نسل میں موجود ہی نہیں تھا اور ابن خلدون کے مطابق کوئی دوسری صدی سے دیکھنے میں آیا (حوالہ 1) ؛ ابن خلدون کے الفاظ میں اس سے مراد "خود کو اللہ کی مکمل سپردگی میں دینے کی ہے" (جو اسلام کا تصور بھی ہے) اور یہ لوگ مکمل روحانی پاکیزگی، انسان کی اندرونی کیفیات، وجود کی فطرت اور دنیاوی مسرتوں سے دور ہو کر عبادت اور اللہ کی بندگی پر زور دیتے تھے۔ جب تک یہ تمام طریقۂ کار حضرت محمد کی جانب سے لائے گئے اللہ کے پیغام کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اختیار کیے جاتے رہیں اس وقت تک لفظ صوفی اور تصوف کی بجائے ان کو شریعت ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ جب سب کچھ قرآن اور سنت کے مطابق ہی ہے تو پھر اسے تصوف کیوں کہا جائے کہ اس کے لیے تو شریعت کی اصطلاح حضرت محمد کے قریب ترین زمانے سے موجود ہی تھی۔ لیکن پھر اس میں اسلام حکومت کی وسعت کے ساتھ قبل از اسلام کے ایرانی و یونانی فلسفیانہ خیالات شامل ہونے لگے؛ انسان اور کائنات کا تعلق، اللہ سے قربت، دنیا داری سے کنارہ کشی، انسان کی لاچارگی وغیرہ جیسے تصورات شامل ہونے کے بعد صوفیت اپنی شکل اختیار کرنے لگی؛ اس قسم کی روحانی پاکیزگی اور عبادت کے تصور کو قرآن کی سورت الحدید کی آیت 27 میں رہبانیت (monasticism) کا نام دیا گیا ہے اور اسے خود انسان کی تخلیق کہا گیا ہے[28] اور کہا گیا ہے کہ؛ نہیں فرض کیا تھا ہم (اللہ) نے اسے ان پر۔
اردو کے ایک مفکر اور شاعر، اقبال نے اسلام میں تصوف کے تصور کو اسلام کی زمین پر ایک بدیسی / اجنبی (alien) تصور قرار دیا ہے جو غیر عرب (اسلام کی وسعت کی وجہ سے ) اور (قبل از اسلام کے ) ایرانی عقلیت پسند ماحول میں پروان چڑھا، اقبال نے یہ تصوف کے بارے میں یہ رائے سید سلیمان ندوی کے نام تیرہ نومبر 1917ء کو اپنے ایک مکتوب میں ان الفاظ میں تحریر کی۔

Even th ہرconcept of tasawwuf is an alien plant on the soil of Islam, one which has been brought up in the intellectual climate of Ajamis (non-Arabs, specially Persians).< ref name=iqbal1>IQBAL IN YEARS at allamaiqbal.com اقبال کا بیانآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ allamaiqbal.com (Error: unknown archive URL)۔</ref>

یہ درست ہے کہ اسلام میں تزکیۂ نفس و روح پر زور دیا جاتا ہے اور اس تزکیے کو حاصل کرنے کے سلسلے میں صوفیا کی دو اقسام نظر آتی ہیں ایک وہ کہ جو مکمل طور پر خود کو قرآن اور شریعت کی حدود میں رکھتے ہوئے ایسا کرتے رہے (اور ہیں) اور دوسرے وہ کہ جو غیر مسلم افکار اور فلسفے سے مکدر تصوف پر چلتے تھے (اور ہیں) ؛ یعنی ہمیشہ ایک ایسی صوفیت بھی موجود رہی ہے کہ جو کسی بھی طور اسلام سے تعلق نہیں رکھتی اور بہت سے صوفیا ایسے ہیں کہ جو صوفیت کی ریاضتوں سے گذرنے کے بعد ایک ایسے درجے تک پہنچے جس کے بعد انھوں نے خود کو اسلام سے جدا کر لیا۔[29]

صوفیا اکرام[ترمیم]

اس قطعے میں معروف صوفیا کو ترتیب زمانی کے لحاظ سے تحریر کیا جا رہا ہے؛ عام تاثر کے برعکس تصوف کو خصوصیت حاصل ہے کہ اس کے صوفیا میں صرف مسلم صوفیا اکرام ہی نہیں ہیں بلکہ ہندومتی، بدھ متی اور دیگر ادیان کے غیر مسلم صوفیا اکرام بھی شامل ہیں۔

مسلم صوفیا اکرام[ترمیم]

درج ذیل میں معروف صوفیا اکرام کی ایک مختصر فہرست بلحاظِ ترتیبِ زمانی دی جا رہی ہے۔ یہ بات وثوق سے کہنا کہ پہلا صوفی کون تھا شاید مشکل ہے لیکن متعدد علما کی نظر میں سب سے پہلے لفظ صوفی کو ابو ھاشم (وفات : 763ء؟) کے لیے اختیار کیا گیا اور ابو سفیان الثوری (716ء تا 778ء) کی روایت سے اس بات تذکرہ ابونعیم الحافظ (1038ء؟) اور ابن الجوزی (1114ء تا 1201ء) کی تصانیف میں آتا ہے[9]۔ اب رہی بات تصوراتی اور روحانی طور پر اسلاف سے تعلق قائم کرنے کی تو اہل تصوف کے ذرائع (بلکہ غیر مسلم ذرائع تک۔[30]) کے مطابق تو پہلے صوفی خود حضرت محمد ہیں اور ان کے بعد یہ تصوف ان اہل افراد (مثال کے طور پر حضرت علی) کو عطا ہوا جو اس کے اہل تھے یوں پیغمبر اسلام سے تصوف کی لڑی کو شروع کرنے کے بعد اس میں حضرت سلمان فارسی، حضرت اویس قرنی اور پھر حضرت جعفر الصادق کے نام بھی شامل کیے جاتے ہیں[31]

مسلم صوفیا، بلحاظ ترتیبِ زمانی۔

مذکورہ بالا فہرست میں شامل صوفیا کے نظریات کے لیے ان کے مخصوص صفحات موجود ہیں۔


غیر مسلم صوفیا اکرام[ترمیم]

غیر مسلم صوفیا اکرام ان صوفیا اکرام کو کہا جاتا ہے کہ جنھوں نے خود کو ناصرف یہ کہ تصوف بلکہ تصوف کے کسی خاص سلسلے سے جوڑنے کے باوجود کبھی قبولیت اسلام کا اعلان نہیں کیا۔ مسلمان، غیر مسلم صوفی کی اصطلاح کو جو بھی نام دیں حقیقت یہ ہے کہ غیر مسلم دنیا میں یہ غیر مسلم صوفی ہی کہلائے جاتے ہیں[32]۔

غیر مسلم صوفیا، بلحاظ ترتیبِ زمانی۔

برصغیر اور صوفیا اکرام[ترمیم]

برصغیر پاک و ہند میں اشاعت اسلام کے لیے صوفیا اکرام کا کردار بھی بہت اہم تسلیم کیا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم کے سندھ کو فتح کرنے اور محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملوں کے ساتھ ہی بزرگان دین اور صوفیا اکرام کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ جن میں میر سید علی ہمدانی،حضرت سید عون قطب شاہ علوی البغدادی،عبداللہ شاہ غازی، داتا گنج بخش ہجویری، ضیغم الدین محمد رزاق علی گیلانی، شاہ رکن عالم، خواجہ معین الدین چشتی، سلطان سخی سرور، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، بابا فرید گنج شکر، مخدوم علاؤ الدین صابر، شیخ نظام الدین اولیاء، شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، شیخ المسلمین حضرت علامہ مولانا عبد العزیز پرہاڑوی ، سلیم چشتی، شیخ محمد غوث گوالیاری، مخدوم عبد القادر ثانی، شیخ داؤد کرمانی، شاہ ابوالمعالی، ملاشاہ گادری، شاہ اکبر داناپوری، حضرت خواجہ باقی باللہ، حضرت میاں میر، حضرت مجددالف ثانی، شاہ ولی اللہ، مرزا مظہر جان جاناں ،اور شاہ غلام علی , خواجہ غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری، کے علاوہ دیگر بے شمار ہستیاں شامل ہیں۔ ان صوفیا کے حسن اخلاق اور تبلیغ دین کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔

کتب تصوف[ترمیم]

کائناتی تصوف[ترمیم]

کائناتی تصوف کو ایک ایسا شعبۂ فلسفۂ دماغِ انسانی و نفسانی کہا جا سکتا ہے کہ جو مذہب اسلام کی تعلیمات کو انسانی خواہشات و تخیلات کے مطابق ڈھال کر اسلام کو اسلام سے نفرت کرنے والے اذہان کے لیے قابل قبول بنائے اور ظاہر ہے کہ یہ تصور غیر مسلم افراد کے لیے زیادہ کشش رکھتا ہے[33] اور اسلام کے خمیر سے اٹھنے والے اسلام سے متنفر اشخاص (مثال کے طور پر ادریس شاہ وغیرہ جیسے صوفیا اکرام) کے لیے اپنے گرد ایک جم غفیر لگانے کا نہایت آسان طریقہ فراہم کرتا ہے۔ تصوف کی اس عالمی شاخ سے منسلک افراد کے لیے تصوف، اسلام پر تقدمِ زمانی کا حامل ہے اور اسلام سے پہلے سے وجود رکھتا ہے یعنی اسلام کی حیثیت ثانوی ہے اور جب اسلام ثانوی ٹھہرا تو پھر نہ تو تصوف کو قرآن کی ضرورت باقی ہے اور نہ محمد کی۔

مشہور صوفی شعرا[ترمیم]

تناسخ و تصوف[ترمیم]

آواگون

اہتجار یا آواگون (اور بعض اوقات تناسخ یا حول) کے نظریات صوفیا کی تعلیمات میں ملتے ہیں[34]۔[35] یہ بات بھی بیان کی جاتی ہے کہ یہ جس طرح تمام اسلامِ راسخ پر قائم علمائے کرام، تناسخ اور اہتجار و حلول جیسے نظریات کی یکسر تردید کرتے ہیں اسی طرح حقیقی تصوف کی تعلیمات پر چلنے والے صوفی بھی ان نظریات کو نہیں تسلیم کرتے۔[36] لیکن عمومی طور پر یہ تاثر (بطور خاص مغرب میں) پایا جاتا ہے کہ صوفیا اس نظریے کے قائل ہیں اور ان کی تحریروں میں اس کی موجودگی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے جس سے کم از کم صوفیا کی طرح باطنیت (esotericism) میں مہارت نہ رکھنے والا ایک عام مسلمان بھی لازمی طور پر دھوکا کھا جائے گا، تصوف میں تناسخ و ہندو، آواگون جیسے نظریات کی موجودگی کا واضح ثبوت سری لنکا کے ایک صوفی باوا محی الدین کے اقتباسات سے لگایا جا سکتا ہے[37] گو جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ بعد میں ان کے کسی مرید نے ہر ممکن کوشش کی کہ باوا محی الدین کی واضح طور پر آواگون کے نظریے کو تسلیم کرنے والی تحریر میں باطنیت کا سہارا لے کر اس کی حقیقت کو چھپا سکیں لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ آن لائن روابط تبدیل ہو سکتے ہیں اس لیے ایسی صورت حال میں پیچیدگی سے بچنے کی خاطر چند اقتباسات مع ترجمہ درج ہیں۔

یہ انسانی پیدائش ہے، جس میں ہم الہامی تجزیاتی عقل رکھتے ہیں، شعور کی چھٹی حس۔ یہ عقل ہمیں صحیح اور غلط کے مابین تفریق کے قابل بناتی ہے ۔۔۔ اگر ایک انسانی زندگی ختم ہو جائے اور دوبارہ پیدا ہو، خواہ صرف ایک بار، تو اس کی قدر (و قیمت) کمتر ہو جاتی ہے۔ چھٹی حس اور صحیح اور غلط میں تمیز کی صلاحیت گھٹ جاتی ہے، اور اگلی بار کی پیدائش پر شعور کی (صرف) پانچ حسیں ملتی ہیں۔

تجاوز و فتاویٰ[ترمیم]

تصوف کا ظاہر بھی وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ نت نئی اختراعات اور فلسفیوں کے افکار مبالغانہ سے سیراب ہوکر طرح طرح کی شکلوں میں تبدیل ہوتا رہا مگر ان لوگوں کا تصوف سے کوئی لینا دینا نہیں اور ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ کیا تم نے ناچ گانا اور تالیاں بجانا ہی اپنا مذیب بنا رکھا ہے۔ ان میں وہ بھی ہیں جو ڈھول ڈبے بجانے اور جھومنے اور ناچنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور اپنے آپ کو پہنچے ہوئے تصور کرتے ہیں یہ شیطان تک ہی پہنچے ہیں اور شیطان ہی ان پر وجی کرتا ہے جس کو یہ تحلی حق سمجھتے ہیں۔
تصوف کی اس موجودہ بگڑی ہوئی شکل سے کے بارے میں اسلام کے علمائے کرام نے منتبہ کیا ہے کہ تصوف کی اس حد سے تجاوز کردہ بگڑی ہوئی شکل سے دور رہا جائے۔ Islamweb کے مرکز فتویٰ سے جاری کیا جانے والا ایک آن لائن فتویٰ سے چند سطور (وضاحتی عبارت کے ساتھ) درج ذیل ہیں۔ اصل عبارت کے لیے متعلقہ موقع دیکھیے۔[38]

  • ابتدا میں صوفیا کا خطاب ان لوگوں کو دیا جاتا تھا کہ جو خود کو اللہ کی عبادت میں مصروف رکھتے تھے اور زاہدوں کی سی زندگی بسر کیا کرتے تھے۔[39][40]
  • بعد میں صوفیت (عام طور پر تصوف کے متبادل ادا کیا جاتا ہے) میں متدد بدعتیں اور مبالغات حلول کر گئے اور فلسفیوں کے کئی ممنوع تفکرات نے اس میں جگہ بنالی، جیسے وحدت الوجود، باطنیت اور لادینی (ممکن ہے کہ اس فتوی میں atheism دھریت یا انحراف کے معنوں میں آیا ہو) جن کے بعد یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ ان سے گذرنے کے بعد ایک حد وہ آتی ہے کہ جب وہ شخص اسلام کی پیروی سے بھی آزاد ہوجاتا ہے؛ ارشاد الملوک (مولانا عاشق الہی مراٹھی) کے مطابق ذکر کے لیے شرائط میں سے ایک، ذکر کو شیخ سے حاصل کرنا ہے بالکل ایسے ہی جیسے صحابہ اپنا ذکر رسول اللہ (ص) سے لیا کرتے تھے۔[15]

کاذب تصوف[ترمیم]

گویا کہ ابتدائی تصوف اسلام کی اصل روح سے قریب تر ہے اور اس میں بہت سی قابل ذکر شخصیات کے نام آتے ہیں جنھوں نے اسلام کی تبلیغ میں نہایت گراں قدر خدمات انجام دیں جیسے امام غزالی اور معین الدین چشتی وغیرہ۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ صوفیا اکرام کو دی جانے والی عزت و مقام سے متاثر ہوکر کاذب صوفیا بھی نمودار ہوتے رہے اور تصوف نے بہت سے مفاد پرست افراد کو بھی اپنی جانب راغب کر لیا[41] جنھوں نے درویشی اور صوفیت کے نام کا استحصال کیا اور اس کا تصور مکدر کرنے میں کردار ادا کیا۔ ان کی وجہ سے ناصرف یہ کہ تصوف میں مختلف مسلم و غیر مسلم فلسفیوں کے خیالات کی آمیزش ہوتی گئی بلکہ بہت سے افکار دیگر مذاہب سے بھی شامل ہو گئے۔
داتا گنج بخش ؛ منصور بن حلاج اور ابوسلمان کے اسلام منافی تصوف کے بارے میں لکھتے ہیں۔

میں نہیں جانتا فارسی کون ہے اور ابوسلمان کون اور انہوں نے کیا کیا اور کیا کہا۔ لیکن جو شخص تحقیق اور توحید کے خلاف چلتا ہے، اس کو دین میں کچھ نصیب نہیں ہوتا اور جب دین جو اصل ہے مضبوط نا ہو تو تصوف جو اس کی شاخ ہے کس طرح مفید ہو سکتا ہے[42]۔

اسلام کا پھیلاؤ اور تصوف[ترمیم]

اسلامی افکار کو دیگر مذاہب کے اشخاص تک پہنچانے کا پرامن طریقہ اختیار کرنے کی وجہ سے صوفیا نے اسلام کی اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ؛ گو یہ اور بات ہے کہ حقیقتاً دیگر مذاہب پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ، تصوف میں بھی ان دیگر مذاہب کے افکار شامل کر کے اس کو اسلام کا نام دیے جانے اور قرآن کی پوشیدہ معلومات کہے جانے کی روش اختیار کی جاتی رہی۔ نظام الدین اولیاء کے ہندو یوگیوں سے مکالمات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ ہندوؤں کے شوا اور شاکتی نظریات سے متاثر تھے ۔[43] البیرونی نے بھی اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ سانکھیہ یوگا فلسفے اور ہندوستان کے صوفی نظریات میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ اس طرح وہ ہندو، بدھ اور دیگر مذاہب کے افراد ان صوفیا اکرام کی جانب رجوع کرنے میں سکون محسوس کرتے تھے جو اپنے مذاہب میں موجود ذات پات کے نظام سے متنفر ہو چکے تھے اور یوں ان اشخاص کو اسلامی افکار سے آشنا کرنے میں سہولت رہتی تھی؛ تصوف سے منسلک افراد کا اسلامی نظریات کو پھیلانے کا سلسلہ اس قدر وسیع اور اہمیت اختیار کر گیا تھا کہ عبد القادر جیلانی جیسے جلیل القدر مسلم علمائے کرام نے اسلام اور تصوف کے مابین آنے والی خلیج کو عبور کرنے اور تصوف کو اسلام سے واپس قریب لانے کی جد و جہد بھی کی۔[44]

بلا جواب، سوال[ترمیم]

تمام تر تصوف سے متعلق کتب و موقع ہائے آن لائن میں کسی نا کسی الفاظ میں ایک بات کا تذکرہ لازمی شامل ہوتا ہے (حوالہ کے لیے حوالہ جات کی فہرست میں شامل کسی بھی حوالے سے رجوع کیا جا سکتا ہے) اور وہ یہ ہے کہ تصوف، شریعت سے الگ نہیں ہے؛ یا یہ کہ تصوف، شریعت کے بغیر تصور نہیں کیا جا سکتا ؛ یا یہ کہ تصوف دراصل روح کی پاکیزگی کا نام ہے ؛ یا یہ کہ تصوف، دل میں آنے والی برائیوں سے دل کو پاک کرنے کا نام ہے ؛ یا یہ کہ تصوف دل کو خوبصورت (احسان / پاک) بنانے کا طریقہ ہے۔ یہاں ایک سوال یہ ذہن میں ابھرتا ہے کیا مذکورہ بالا تمام باتیں اسلامی تعلیمات نہیں؟ پھر آخر اس تمام تر طریقۂ کار کو اسلام یا شریعت کی بجائے تصوف کا نام دینے کی کیا وجہ ہے؟ اب تک مختلف کتب و ذرائع سے اس بات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جاچکی ہے لیکن تمام جگہ ہی بات شریعت سے اقرار اور تصوف کو شریعت کے مطابق ثابت کرنے پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اس مضمون کا یہ آخری قطعہ ابھی کسی ایسے عالم کا منتظر ہے کہ جو اس بات کا جواب فراہم کرسکے کہ جب جھوٹے تصوف کی موجودگی اور اس کی معاشرتی برائیاں خود تصوف سے قربت رکھنے والے تسلیم کرتے ہیں اور ان کے مطابق سچی تصوف اصل میں شریعت ہی ہے تو پھر آخر وہ کون سی بات ہے جس پر تصوف قائم ہے؟ اگر تصوف، شریعت ہی ہے تو پھر اس کا الگ سے نام کیوں؟ اور اگر کوئی چیز تصوف میں ایسی ہے جو شریعت اور قرآن سے الگ ہے یعنی جس کی وجہ سے اس کو ایک الگ نام (تصوف) نہ دیا جائے تو بات واضح نہ ہوگی تو پھر ظاہر ہے کہ تصوف میں کچھ وہ بھی شامل ہے جو اسلام نہیں۔ جواب:صوفیت کی بنیاد اس باطنی علم پر ہے جو کو یہ باطنی کہتے ہیں مگر منصور حلاج اور بلھے شاہ جیسے صوفیوں نے اسے کئی بار طشت از بام کر کے ساری دنیا کے سامنے ثابت کر دیا ہے کہ صوفیت کا دراصل اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ فارسی نظریہ حلول اور ہندو آواگون، تناسخ کا قائل ہے۔ جیسے بلھے شاہ کہتا ہے۔ گل سمجھ لئی تے رولا کی۔ اے رام رحیم تے مولا کی۔ اسی وجہ سے صوفی اور بھگت زیادہ تر فارس اور ہندوستان کے علاقوں میں ہی پیدا ہوئے۔ عرب میں ان کا کوئی نام نہیں۔ ہندوستان میں سکھ مذہب کے بانی بھی صوفی ہیں۔ سکھوں کی روحانی کتاب گرنتھ گرو صاحب لکھنے والوں میں 10 سکھ، چند ہندو بھگت اور 15 مسلمان کہلانے والے صوفیا شامل ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صوفیت اسلام ہے تو اس کتاب کے ماننے والے اور اس کو مقدس جاننے والے اپنے آپ کو مسلمان کیوں نہیں کہتے۔
دوسری بات اسلام کی بنیاد توحید پر ہے۔ یعنی خالق سب ایک ہے باقی ساری مخلوق اسی کی محتاج ہے اور اس کے حضور شاہ و گدا، آقا و غلام سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اسلام کے اسی عقیدہ سے نظریہ مساوات، اخوت اور بھائی چارہ جنم لیتا ہے۔ جس سے متاثر ہوکر ہندوستان میں برہمن کے خود ساختہ اور ذات پات، اونچ نیچ اور چھوت چھات پر مبنی استحصالی نظام کے ستائے ہوئے عام ہندو جوق در جوق اسلام کے دائرہ میں داخل ہونا شروع ہوئے۔ جن کو روکنے کے لیے برہمن نے ایک چال چلی اور ظالم و جابر برہمن سے بے ضر اور پرامن بھگت بن کر ان شودروں اور ویشوں کو بھی گلے لگانا شروع کیاجن کا چھو لینا بھی ان برہمنوں کو گوارا نہ تھا۔ اسلام کی آمد سے یہ برہمن خود کو ایشور کا روپ کہتے تھے اور اپنے آپ کو اعلیٰ ذات منواتے تھے مگر اسلام کی اشاعت سے برہمن سامراج کو ختم ہوتا دیکھ کر برہمنوں نے بھگت کا لبادہ اوڑھ لیا اور عام ہندوؤں کو بھی ایشور کا روپ بتا کر انھیں عزت دینا شروع کی۔ یہ ابلیسی حربہ عام ہندوؤں کو اسلام کی طرف جانے سے روکنے کے لیے اتنی شدت کے ساتھ استعمال کیا گیا کہ پورے ہندوستان میں بھگت تحریک چلائی گئی۔ ہندوستان میں بحث مباحثے کا دور عروج پر پہنچ گیا اور جس کے نتیجے میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے بدنام زمامہ دین اکبری ایجاد کیا۔ یہی دور ہندوستان میں صوفی ازم کے عروج کا دور ہے اور اسی دور میں سکھ مذہب بھی پروان چڑھا۔ گرو گرنتھ لکھی گئی۔ اور ایسے صوفی پیدا ہوئے جو ہندو، سکھوں اور مسلمانوں میں یکساں طور پر مقبول تھے مگر نہ تو انھوں نے خود کو کبھی مسلمان کہا اور نہ ہی اپنے چیلوں کو مسلمان ہونے دیا۔ جیسے گرو نانک جی وغیرہ۔ نتیجہ یہ نکلا کے ہندوستان میں صوفی ازم عام انسانوں کو اسلام کی بنیاد عقیدہ توحید سے دور کرکے انھیں گمراہ کیا۔ دین اکبری جیسی خرافات کے نتیجے میں قادیانی، احمدی ،جیسے درجنوں نئے فرقے وجود میں آئے۔ مسلمانوں میں بھی شرک اور بدعات پھیلیں۔ جن کے خلاف مجدد الف ثانی، شاولی اللہ جیسے سچے مسلمانوں نے تحریک چلائی اور اسلام میں سے ہندو اثرات اور رسوم ورواج خارج کرکے مسلمانوں کا علٰیحدہ قومی تشخص از سرنو بحال کیا۔
صوفیت کی بنیاد اس باطنی علم پر ہے جو کو یہ باطنی کہتے ہیں مگر منصور حلاج اور بلھے شاہ جیسے صوفیوں نے اسے کئی بار طشت از بام کر کے ساری دنیا کے سامنے ثابت کر دیا ہے کہ صوفیت کا دراصل اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ فارسی نظریہ حلول اور ہندو آواگون، تناسخ کا قائل ہے۔ جیسے بلھے شاہ کہتا ہے۔ گل سمجھ لئی تے رولا کی۔ اے رام رحیم تے مولا کی۔ اسی وجہ سے صوفی اور بھگت زیادہ تر فارس اور ہندوستان کے علاقوں میں ہی پیدا ہوئے۔ عرب میں ان کا کوئی نام نہیں۔ ہندوستان میں سکھ مذہب کے بانی بھی صوفی ہیں۔ سکھوں کی روحانی کتاب گرنتھ گرو صاحب لکھنے والوں میں 10 سکھ، چند ہندو بھگت اور 15 مسلمان کہلانے والے صوفیا شامل ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صوفیت اسلام ہے تو اس کتاب کے ماننے والے اور اس کو مقدس جاننے والے اپنے آپ کو مسلمان کیوں نہیں کہتے۔؟؟؟ دوسری بات اسلام کی بنیاد توحید پر ہے۔ یعنی خالق سب ایک ہے باقی ساری مخلوق اسی کی محتاج ہے اور اس کے حضور شاہ و گدا، آقا و غلام سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اسلام کے اسی عقیدہ سے نظریہ مساوات، اخوت اور بھائی چارہ جنم لیتا ہے۔ جس سے متاثر ہوکر ہندوستان میں برہمن کے خود ساختہ اور ذات پات، اونچ نیچ اور چھوت چھات پر مبنی استحصالی نظام کے ستائے ہوئے عام ہندو جوق در جوق اسلام کے دائرہ میں داخل ہونا شروع ہوئے۔ جن کو روکنے کے لیے برہمن نے ایک چال چلی اور ظالم و جابر برہمن سے بے ضر اور پرامن بھگت بن کر ان شودروں اور ویشوں کو بھی گلے لگانا شروع کیاجن کا چھو لینا بھی ان برہمنوں کو گوارا نہ تھا۔ اسلام کی آمد سے یہ برہمن خود کو ایشور کا روپ کہتے تھے اور اپنے آپ کو اعلیٰ ذات منواتے تھے مگر اسلام کی اشاعت سے برہمن سامراج کو ختم ہوتا دیکھ کر برہمنوں نے بھگت کا لبادہ اوڑھ لیا اور عام ہندوؤں کو بھی ایشور کا روپ بتا کر انھیں عزت دینا شروع کی۔ یہ ابلیسی حربہ عام ہندوؤں کو اسلام کی طرف جانے سے روکنے کے لیے اتنی شدت کے ساتھ استعمال کیا گیا کہ پورے ہندوستان میں بھگت تحریک چلائی گئی۔ ہندوستان میں بحث مباحثے کا دور عروج پر پہنچ گیا اور جس کے نتیجے میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے بدنام زمانہ دین اکبری ایجاد کیا۔ یہی دور ہندوستان میں صوفی ازم کے عروج کا دور ہے اور اسی دور میں سکھ مذہب بھی پروان چڑھا۔ گرو گرنتھ لکھی گئی۔ اور ایسے صوفی پیدا ہوئے جو ہندو، سکھوں اور مسلمانوں میں یکساں طور پر مقبول تھے مگر نہ تو انھوں نے خود کو کبھی مسلمان کہا اور نہ ہی اپنے چیلوں کو مسلمان ہونے دیا۔ جیسے گرو نانک جی وغیرہ۔ نتیجہ یہ نکلا کے ہندوستان میں صوفی ازم عام انسانوں کو اسلام کی بنیاد عقیدہ توحید سے دور کرکے انھیں گمراہ کیا۔ دین اکبری جیسی خرافات کے نتیجے میں قادیانی، احمدی ،جیسے درجنوں نئے فرقے وجود میں آئے۔ مسلمانوں میں بھی شرک اور بدعات پھیلیں۔ جن کے خلاف مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ جیسے سچے مسلمانوں نے تحریک چلائی اور اسلام میں سے ہندو اثرات اور رسوم ورواج خارج کرکے مسلمانوں کا علٰیحدہ قومی تشخص از سرنو بحال کیا ۔۔ تصوف پرچند اعتراضات کے جوابات:مشہور حدیث، حدیث ِجبرائیل میں دین کے شعبے بتائے گئے ہیں۔ جس میں پہلا شعبہ عقائد، دوسرا اعمال اور تیسرا احسان ہے۔ یہ تینوں چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کے دور میں بھی موجود تھیں۔ لیکن بعد میں علومِ عقائد کے ماہرین کا نام متکلمین، اعمال کے طریقہء کار کے ماہرین کا نام فقہا اور اور احسان کے فن کو تصوف کہا جانے لگا۔ لیکن نام جو بھی رکھ لیا جائے ،ہمیں تو کام سے غرض ہونی چاہیے۔ اور تصوف کاکام خلوصِ دل کے ساتھ شریعت پر عمل کرانا ہے۔ تصوف کا یہ مقصد شروع سے ہی یہی رہا ہے اور آئندہ بھی یہی رہے گا چاہے اس کا نام جو بھی رکھ لیا جائے۔ ہاں ایک بات جو تصوف میں تغیر پزیر ہے اس کو ذرائع تصوف کہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ،صوفیا اصلی مقصد کے حصول کے لیے اپنے طریقے تبدیل کرتے رہتے ہیں اور یہ بات بھی خلافِ شریعت نہیں ،کیونکہ شریعت میں مقاصد پر جمود ہے نہ کہ ذرائع پر۔ تمام بڑے فقہا، حضرت امام ابو حنیفہ رح، حضرت امام شافعی رح، امام حنبل رح اور امام مالک رح ائمہ فقہ ہونے کے ساتھ، صوفیا بھی تھے۔ مجدد الف ثانی اور شاولی اللہ رح بھی صوفی تھے۔

تصوف کے مشہور سلاسل[ترمیم]

تصوف کے مشہور سلاسل مندرجہ ذیل ہیں :[45]

بیرونی روابط[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

جہاں تک ممکن ہو سکا، آن لائن (online) حوالہ جات کو ترجیح دی گئی ہے۔ موضوع پر تمام مسلم و غیر مسلم، تفرقاتی و طبقاتی پہلوؤں کو سامنے لانے کی خاطر حوالہ جات پر کوئی دینی و لادینی، اسلامی و غیر اسلامی یا تفرقاتی پابندی نہیں ؛ ماسوائے کہ (اپنے مقام پر) مصدقہ ہوں۔ آن لائن مقامات تبدیل بھی ہو سکتے ہیں اس لیے مضامین کے عنوانات انگریزی ہی میں دیے جا رہے ہیں۔ کسی حوالے پر اعتراض ہو تو تبادلۂ خیال پر بیان کیجئے۔

  1. "[[القرآن]]، [[سورۃ الجمعۃ]]، آیت 2"۔ 01 مارچ 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مئی 2009 
  2. ^ ا ب صوفیوں کی جانب سے اکثر استعمال کی جانے والی لفظ احسان کے بارے میں حدیث[مردہ ربط]
  3. Mysticism in Islam: In short, Muslim scholars who focused their energies on understanding the normative guidelines for the body came to be known as jurists, and those who held that the most important task was to train the mind in achieving correct understanding came to be divided into three main schools of thought--theology, philosophy, and Sufism. This leaves us with the third domain of human existence, the spirit. Most Muslims who devoted their major efforts to developing the spiritual dimensions of the human person came to be known as Sufis (آن لائن مضمون) آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ meti.byu.edu (Error: unknown archive URL)
  4. Tasawwuf - the distorted image انٹراسلام . آرگ نامی موقع
  5. Louis Massignon, Essai sur les origines du lexique technique de la mystique musulmane ISBN 2-204-06253-7 کتاب کا ایک دستیابی موقع
  6. ^ ا ب The Oxford Encyclopedia of the Islamic World: Sufism by Kazuo Ohtsuka آن لائن مضمون آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ oxfordislamicstudies.com (Error: unknown archive URL)
  7. Mysticism in Islam; William C. Chittick موقع آن لائن آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ meti.byu.edu (Error: unknown archive URL)
  8. words of ecstasy in sufism by carl w. ernst
  9. ^ ا ب پ الف: ابونعیم الحافظ ؛ حلیۃ الاولياء ب: ابن الجوزی ؛ صفۃ الصفوۃ (ایک آن لائن موقع) آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ sunnah.org (Error: unknown archive URL)
  10. ^ ا ب Encyclopedia Britannica صوفیت پر مقالہ
  11. Sufis and Sufism: some reflections. edited by Neeru Misra. New Delhi ایک کتب دستیابی موقع آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ highbeam.com (Error: unknown archive URL)
  12. ^ ا ب The Place of Tasawwuf in Traditional Islam نوح حا ميم كيلير کا مقالہ
  13. What Is Tasawwuf تصوف . آرگ نامی موقع آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ tasawwuf.org (Error: unknown archive URL)
  14. ^ ا ب Shariat and Tasawwuf by Maseehullah Khan مجلس . نیٹ نامی موقع پر
  15. ^ ا ب The Jamaa'at Tableegh and the Deobandis; Chapter 1.6 احیاء . آرگ نامی موقع آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ahya.org (Error: unknown archive URL)
  16. Ahmad Raza as a devout Sufi مدنی پروپیگیشن . آرگ نامی موقع آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ madanipropagation.com (Error: unknown archive URL)
  17. Mawlana Jalaluddin Rumi انگریزی اور فارسی آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ iptra.ir (Error: unknown archive URL)
  18. The Necessity of a Measure of Proper Sufi education شيخ يوسف القرضاوی آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ sunnah.org (Error: unknown archive URL)
  19. Islamic Gnosis ('Irfan) and Wisdom (Hikmat) اہل بیت ڈیجیٹل اسلامک لائبریری
  20. Theoretical Gnosis and Doctrinal Sufism and Their Significance Today آن لائن مقالہ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ allamaiqbal.com (Error: unknown archive URL)
  21. ^ ا ب پ اردو ویکیپیڈیا پر ہی ایک مضمون تصوف لغوی مباحث، (گو مضمون اصلاح طلب ہے)
  22. اصحابِ صُفّہ اور تصوف کی حقیقت از امام ابن تیمیہ ؛ ترجمہ عبد الرزاق ملیح آبادی : المکتبۃ السلفیۃ۔ شیش محل روڈ لاہور
  23. ^ ا ب پ ت Sufism, Origin and Development by Dr. Saleh As-Saleh (آن لائن، پی ڈی ایف فائل)[مردہ ربط]
  24. ^ ا ب پ ت ٹ The quranic sufism by mir valiuddin
  25. Islamic Esotérime and Taoism, Rene Guenon, p. 21 (موقع آن لائن) آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ speedylook.com (Error: unknown archive URL)
  26. خواجہ معین الدین چشتی سے متعلق ایک موقع آن لائن پر تصوف کی تاریخ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ dargahajmer.com (Error: unknown archive URL)
  27. islamicity forum پر مضمون
  28. ایک آن لائن قرآن اردو ترجمے کے ساتھ[مردہ ربط]۔
  29. Al-Ghazali as sufi (پی ڈی ایف فائل)
  30. Sufism: The Esoteric Side Of Islam ہندو دیوتائی فعالیت (پیکر) ادی شکتی نامی موقع آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ adishakti.org (Error: unknown archive URL)
  31. Mystical Dimensions of Islam by Annemarie Schimmel: The Univ of North Carolina Press (آن لائن موقع)[مردہ ربط]
  32. Sufism -- Sufis -- Sufi Orders at The University of Georgia موقع آن لائن
  33. Thelemapedia آن لائن ربط
  34. What is sufism (آن لائن مضمون) آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ davidberryart.com (Error: unknown archive URL)
  35. Volume VIIIa - Sufi Teachings: Karma and Reincarnation (آن لائن مضمون)
  36. Is Reincarnation Compatible With Islam (آن لائن مضمون)
  37. A Sufi View of Spiritual Rebirth (آن لائن مضمون)
  38. Fatwa Title: Muslims and other groups, Fatwa No. 82721 اسلام ویب نامی موقع
  39. Mohammedan Confraternities at Catholic Encyclopedia اسلام کی تاریخ اور ابتدائی تصوف کا ذکر
  40. Sufism: The Columbia Encyclopedia آن لائن موقع آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bartleby.com (Error: unknown archive URL)
  41. Introduction to Sufism by Dr. Qadeer Shah Baig تصوف ؛ ایک اسماعیلی موقع
  42. آب کوثر: شیخ محمد اکرام ؛ ادارۃ ثقافت اسلامیہ لاہور آن لائن کتاب
  43. Sikhism origin and development by Dalbir singh dhillon
  44. The spread of islam: the contributing factors by Abu al fazal izzati, A. ezzati
  45. مشہور روحانی سلاسل