سود (ربا)
زمرہ جات | |
| |
|
سود کو عربی میں ربا کہتے ہیں۔ ربا سے مراد معینہ مدت کے قرض پر وہ اضافی مالی رقم ہے جس کا مطالبہ قرض خواہ مقروض سے کرتا ہے اور یہ شرح پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔
سود کی تعریف
[ترمیم]’’ پس سود کی تعریف یہ قرار پائی ہے کہ قرض میں دیے ہوئے راس المال پر جو رقم مدت کے مقابلے میں شرط اور تعین کے ساتھ لی جائے وہ سود ہے ‘‘( مولانا ابواعلیٰ مودودی) ۔یعنی راس المال پر اضافہ ، اضافہ کا تعین مدت کے لحاظ سے کیے جانا اور معاملہ میں اس کا مشروط ہونا ، یہ تین اجزائے ترکیبی ہیں اور وہ معاملہ قرض جس میں تینوں اجزائ پائے جاتے ہوں وہ ایک سودی معاملہ ہے ۔ مولانا ابواعلیٰ مودودی ؒ نے اس تعریف میں سودی معاملہ کے تعین کے لےے تین شرائط کا تعین کیا ہے اور ان شرائط کے مطابق اگر ایک شرط پوری نہ ہو گی تو وہ سودی معاملہ نہیں ہے ۔ کسی رقم پر نفع یا نقصان کا تعین نہ ہو ، اس میں مدت کاتعین ہو اور معاملے رقم سے مشروط ہو۔اس طرح یہ معاملہ حصص کا ہو جائے گا ۔
عہد قدیم میں سود
[ترمیم]- انسان نے جب سے کاروبار کرنا شروع کیا ہے اسی وقت سے ہی بینکاری banking کا آغازہو گیا تھا۔ اگرچہ یہ آج کی طرح منظم نہیں تھا۔
انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا Encyclopedia Britannica میں بینک Bank کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے کہ بابل و مصر کے مندر صرف عبادت گاہیں ہی نہیں بلکہ بینک bank کا کام بھی کرتے تھے۔
- بابل سے پہلے سمیریوں میں بھی تجارتی کمپنیوں Merchant Companies کا پتہ چلتا ہے۔ جس کی ہیت ترکیبی کم و بیش موجودہ کاروباری اداروں
جیسی تھی۔ تجارت کے فروغ نے انھیں سکے کی ایجاد اور بینک Bank کے کاروبار کی طرف متوجہ کیا تھا۔ چنانچہ انھوں نے پہلے پہل سونے کی انگوٹھیاں اور چھڑیاں بطور سکہ تبادلہ میں دینے کا سلسلہ جاری کیا۔ پھر باضابطہ سکے چلائے اور لین دین میں ان کو استعمال کیا۔ ان کے سکے عام طور پر چاندی کے ہوتے تھے۔ جن کو وہ شیکل کہتے تھے۔ سمیری شہروں میں بڑے بڑے بینک قائم تھے۔ جن کا کاروبار دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ کھدائی کے دوران ان کے بینکوں کے سینکڑوں تمسکات جو مٹی کی تختیوں پر کندہ تھے برآمد ہو ئے۔
- بابل کے آثار قدیمہ میں جوشن میں مٹی کی تختیاں ملی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ زمیندار اپنی فصل کاٹنے سے پہلے اپنی زرعی ضروریات کے لیے مندروں سے قرض لیا کرتے تھے اور فصل کاٹنے کے بعد اصل مع سود کے ادا کیا کرتے تھے۔ یہ ساہوکاری نظام دو ہزار سال قبل مسیح پایا جاتا تھا۔ چھٹی صدی قبل مسیح کے لگ بھگ بابل میں پرائیوٹ بینک کام کر رہے تھے۔ 575 قبل مسیح بابل میں ایک ایسے بینک کا پتہ چلتا ہے، جو زمینداروں کو زرعی مقاصد کے لیے قرض دیتا تھا۔ نیز لوگوں کی امانتوں پر سود بھی ادا کرتا تھا۔
- بابلی مندروں کے پجاری اپنے مذہبی تقدس اور سودی کاروبار کی وجہ سے ملک کا سب سے دولت مند طبقہ بن گیا تھا۔ اس کے علاوہ بابل میں تجارت کے لیے بڑی بڑی کمپنیاں Trading Companies بن گئیں تھیں جن میں بڑے بڑے ساہوکار سرمایا لگاتے تھے۔ اس کے علاوہ انفرادی کاروبار کرنے والے ساہوکاروں اور مہاجنوں سے قرض لے سکتے تھے۔ سامان تجارت اور نقد پر سود کی شرح بہت زیادہ تھی۔ یہ بیس سے تیس فیصد تک زر نقد وصول کی جاتی تھی۔ ملک میں کوئی سرکاری بینک نہیں تھا، بلکہ چند ذی حیثیت خاندان مہاجنی کا کاروبار کرتے تھے۔ ان کے گھروں کو بینک کی حیثیت حاصل تھی۔ جہاں رقم کی ادائیگی ہنڈیوں یا تحریری ڈرافٹ کے ذریعے بھی ہوتی تھی۔ بابلی شہروں سے ساہوکاروں کی جو تحریری دستاویزات دستیاب ہوئیں ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خرید و فروخت، ٹھیکا اور شراکت داری کے کمیشن، تبادلہ، تجارتی مفادات اور ہنڈیوں کے متعلق ہیں۔
- حمورابی کے ضابطہ قانون میں بھی سود کے متعلق قوانین درج ہیں۔ ضابطہ قانو ن میں سود کی شرح کی تفصیل پائی جاتی ہے۔ سود کی ایک دفعہ میں لکھا ہے، ’’اگر کسی ساہوکار نے غلہ یا چاندی قرض پر دیا ہو تو وہ فی گر (ایک من سات سیر) غلے پر سو قاع (قاع:آدھاسیر) سود لے سکتا ہے۔ اگر چاندی قرض پر دی ہو تو ایک شیکل چاندی پر آدھا شیکل (59گرین) لے سکتا ہے۔ سود کی زیادہ سے زیادہ شرح بیس فیصد تھی، اگر ثابت ہوجاتا کہ قرض خواہ نے قرض دار سے بیس فیصد سے زیاہ سود وصو ل کیا ہے تو قرضے کی رقم سے ضبط ہو جاتا تھا۔ اسی طرح سود در سود کی سخت ممانعت تھی۔ مجرم ثابت ہونے پر مجرم سے دوگنی رقم وصول کی جاتی تھی۔ مقروض اگر چاندی کے بدلے چاندی ادا کرنے سے قاصر ہو تو اس کے عوض رقم کی مالیت کے برابر اناج مع سود کے ادا کرنا ہوتا تھا۔
- مزروعہ زمین رہن رکھی جا سکتی تھی اور اس کی فصل ملکیت ہوجاتی ہے۔ ضابطہ قانون کے تحت زمین دار کا فرض تھا کہ اپنے حصہ کی فصل میں رہن کے قرض کی رقم معہ سود اور زراعت کے مصارف کے ادا کرے۔ ہاں اگر کسی کاشتکار کی زمین میں سیلاب یا خشک سالی کی وجہ سے فصل نہیں پیدا ہوئی ہو تو کاشتکار سال بھر کے لیے قرض خواہ کو قرض ادا کرنے سے بری ہوجاتا تھا اور اس سال کا سود بھی واجب الادا نہیں ہوتا تھا۔
- اس طرح تجارت کے ضابطے موجود تھے۔ مثلأ پھیری والا کسی سوداگر یا دکان دار سے مال لے جاتا تو فروخت شدہ مال کی قیمت اور سود سوداگر کو ادا کرنا پڑتا تھا۔ البتہ اس پر سود دنوں کے حساب سے لیا جاتا تھا۔ پھیری والے کے مال کے نفع میں سوداگر کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اگر پھیری والا دیوتا کی قسم کھا کر کہتا کہ میرا مال دشمنوں نے لوٹ لیا ہے، تو وہ رقم کی ادائیگی سے بری ہو جاتا تھا۔
- برصغیر پاک و ہند میں آریاؤں کے دور میں تجارت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ اس لیے سکے بھی رواج نہیں پا سکے۔ لیکن پھر بھی کچھ مقامی
قوموں کا تذکرہ ملتا ہے، جو تجارت پیشہ تھیں۔ بعد کے عہد میں یہاں بھی تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ دارا اول نے اپنے سالار اکائی لاکس کو ہندوستان بھیجا جس نے یہاں کے بری اوربحری راستوں کا پتہ لگایا۔ اس کے بعد مغربی حصہ ایرانی سلطنت میں ملالیا گیا۔ اس واقعہ کے بعددونوں ممالک کے درمیان آمد ورفت کی نئی راہ کھل گئی۔
- سکندر کے حملہ کے بعد تجارت کی ایک نئی راہ کھل گئی اور ہندوستان کا تجارتی رابطہ ایران کے علاوہ عراق، شام، یونان اور مصر سے قائم ہو گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوؤں میں بھی بینک اور تجارتی کمپنیاں کھلی ہوں گی۔ کیونکہ اس زمانے میں منو سمرتی تصنیف ہوئی۔ اس میں سود کے متعلق احکام درج ہیں۔ کہ سود کی شرح سوا روپیہ فیصد ہونی چاہیے۔ لیکن دو روپیہ لینا گناہ نہیں ہے۔ اس شرح کے مطا بق برہمن سے دو روپیہ، کشتری سے تین روپیہ، ویش سے چار روپیہ اور شودر سے پانچ روپیہ ماہانہ لیا جا سکتا ہے۔ ویش کا کام کھیتی باڑی کرنا، تجارت کرنا، چوپایوں کو پالنا اور سود لینا تھا۔
- ایتھنز Athens کا دور (480 تا 399 قبل مسیح) جوعہد زرین کہلاتا ہے، اس وقت سے وہاں بینکاری کے اداروں کی داغ بیل پڑ گئی تھی۔ وہاں کچھ لوگ ایسے تھے، جو اشیاء کو رہن رکھ کر 16 تا 18 فیصد شرح سود پر قرض دیاکرتے تھے۔ کچھ لوگ بغیر سود کے بھی قرضے دیا کرتے تھے۔ وہاں معبد Temple بھی بینکوں کا کام کرتے تھے۔ لوگ وہاں اپنی امانتیں جمع کراتے اور قرض لیا کرتے تھے۔ یہ معبد افراد اور حکومتوں کو متبادل شرائط پر قرض دیا کرتے تھے۔ ڈلفی کا اپالو مندر Temple of Apollo in Dalfi ایک حد تک یونان کے لیے بین الاقوامی بینک ہوا کرتاتھا۔ دوسرا مشہور معبدی بینک bank Temple ڈیلاس Delos کا تھا۔ یہ دونوں ادارے امانتیں رکھتے تھے اور 10 سے 30فیصد سالانہ شرح سود پرقرض دیتے تھے۔
صراف Trapeza Money Changer At Histable جو پہلے روپیہ کا مبادلہ اور کھرے کھوٹے کی پرکھ کرتے تھے، پانچویں صدی قبل مسیح میں لوگوں کی امانتیں رکھنے لگے اور 12 سے 30 فیصد تک شرح سود پر قرض دیا کرتے تھے۔ انھوں نے ہی مشرق ادنیٰ Asia Minor سے سیکھ کر روم Rome کے حوالے کیے جہاں سے وہ یورپ پہنچے۔ صرافوں کے ذریعہ روپیہ پہلے سے زیادہ آزادی اور تیزی سے گردش کرنے لگا۔
- یونانی تجارت 480 تا 430 قبل مسیح میں اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ ایتھنز میں آئی سولرٹیر اور تھیوسی ڈائڈز کے مطابق دنیا بھر کی مصنوعات یہاں باآسانی فراہم ہو سکتی تھی اور مہذب دنیا کا کوئی ایسا گوشہ نہیں تھا جہاں کا مال یہاں دستیاب نہ ہو۔ چوتھی صدی قبل مسیح تک یہاں بینکاری اب ہنڈیوں، چیک نقد کی بجائے ادائیگی زر کے حکم ناموں (pay order) کے ذریعہ ہونے لگی۔ رقم کی منتقلی بینک bank کے بھی کھاتوں میں اندراج کے ذریعہ ہونے لگی۔ بعض شہروں میں مثلأ ڈیلاس Delos قسطنطنیہ Byzantium میں عوامی یا قومی بینک Public or National Bankقائم ہوئے۔ جس میں حکومتی پیسہ رکھا جاتا تھا۔ ان کی نگرانی حکومتی افسران کرتے تھے۔
- سکندراعظم کی فتوحات نے ایلام، سمیریا، فارس، بابل، آشوریہ، شام، قیقیا ایشائے کوچک اورفلسطین کو ایک لڑی میں پرو دیا۔ سکندر کا جرنیل سلوکس نے سلیوسیا کو اپنا دار السلطنت بنایا۔ جو اس زمانے میں بین الا قوامی تجارت کا مرکز تھا۔
- قرطاجنہ اور روم کا محکوم اسپین، ہملکار کا قرطاجنہ، ہیرن ثانی کے عہد کا سائرا کار، روم اور موریوں کا ہندوستان، سلوکیوں کا ادنیٰ مشرق، بطلیموسیوں کا مصر، ہانوں کا چین، یہ سب بین الا قوامی تجارت کے رشتہ میں بندھے ہوئے تھے۔ چین کو جانے والے تجارتی راستے ترکستان، فارس اور باختر سے گزرتے ہوئے یا بحرہ ارل، کسیپن اور بحیرہ اسود ہوتے ہوئے گزرتے تھے یا عرب اور پطرا ہوتے ہوئے یروشلم اور دمشق کو اور بحر ہند سے ہوتے ہوئے عدن اور بحیرہ قلزم ہوتے ہوئے اور سوئیز اور پھر اسکندریہ جاتے تھے۔ آخری الذکر راستے کے لیے سلوکسی اور بطلیموسی خاندان کے باہم اتنی جنگیں ہوئیں کہ سلوکسی کمزور ہو گئے اور انھیں رومیوں کا جوا اپنے سر پر رکھنا پڑا۔ پہلی صدی عیسوی میں یہودی مصنف جوزیفس لکھتا ہے کہ اس زمانے کی عظیم تاجر قومیں فنیقی، عرب اور یونانی تھے۔
- مصر جہاں بطلیموسی حکمران تھے، وہاں بینکاری کو بھی بین الاقوامی تجارت کے ساتھ فروغ ملا۔ وہاں کے بینک سود پر روپیہ دیتے تھے اور شاہی خزانے کے حسابات اور مطالبات ادا کیا کرتے تھے۔ اسکندریہ کے مرکزی بینک کی شاخیں تمام ملک میں قائم تھیں۔
- دوسری صدی قبل مسیح میں اٹلی کے شہروں میں سرمایادار طبقہ بینکاری کا کام کرتا تھا۔ یہاں ہر قسم کی بینکاری کا کام نہایت سرعت اور اطمینان سے انجام دیا جاتاتھا۔ سن عیسوی کی ابتدائی دو صدیوں میں بینکار ہر جگہ پائے جاتے تھے۔ یہ صرافے کا کام کرتے تھے، اما نتیں رکھتے تھے،ان پر سود دیتے تھے، سفری چیک اور ہنڈیاں جاری کرتے تھے۔ زمین و جائداد کی خرید و فروخت کرتے تھے، قرضے جمع کرتے اور افراد اور شراکتی کمپنیوں کو قرض دیتے تھے۔ آگٹس اور ٹائی ببرس کے عہد رومی بینکوں کا ذکر ملتا ہے۔ مگر تیسری صدی عیسوی کے بعد روما میں معاشی زوال آگیا۔ قسطین اعظم نے 303 میں مسیحیت قبول کرلی اور330 دار الحکومت قسطنطنیہ منتقل کر دیا۔
سود کے نظریات
[ترمیم]- سود کی تائید میں بہت سے غیر مالی نظریات Non-Monetary theories پیش کیے گئے ہیں۔ جن میں سود کو صلہ بچت، منافع، نفع اور فیاضی فطرت کا انعام کہا گیا ہے۔
سودInterest کے بارے میں مالی نظریہ سب سے پہلے نساؤ سنیر Nasau Senirنے پیش کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ سود یعنی سرمائے کے معاوضہ کا انحصار رسد و طلب Demand & Supply کی قوتوں پر ہے۔ اس کے نظریہ کے مطابق اشیائے اصل Capital Goods کی پیدا وار Output اس پر منحصر ہے کہ صارفین حال صرف consumption سے اجتناب کریں، تاکہ وسائل کو اشیائے اصل کی پیدا وار میں استعمال کیا جاسکے۔ اس کے خیال کے مطابق اصل کی طلب اس کی پیدا وار پر منحصر ہے۔ دوسرے عاملین پیدائش کی طرح کہ اصل سلسلے میں بھی آجروں کا یہ فیصلہ کہ اصل سے کتنی پیداوار کی جا سکتی ہے، سامان طلب اصل کا تعین کرتا ہے۔
- سینر Sinerکے نظریہ کو قبول عام نہیں حاصل ہو سکا۔ خاص کر کارل مارکس نے اس پر اعتراض کیا کہ امرا کو کس قسم کا اجتناب کرنا پڑے گا؟ چنانچہ مارشل Marshall نے اپنے نظریے میں ’اجتناب‘ کو ایک بے رنگ اصطلاح ’انتظار‘سے بدل دیا۔ اس سے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ اشیائے صرف کی پیداوار ایک طویل مرحلہ ہے جس کے لیے وقت درکار ہے۔
قرضہ جات کا نظریہ Lianable Funds Preference Theory
[ترمیم]اسے مارشل نے اپنی کتاب اقتصادیات کے اصول‘ Principles of Economics میں پیش کیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ ہر شخص بخوبی واقف ہے کہ دولت کی افزائش اس وجہ سے رک گئی ہے اور شرح سود اس لیے نہیں گری ہے کہ بنی نوح انسان اپنی ضروریات بجائے بعد میں پورا کرنے کے موجودہ وقت میں پورا کر رہا ہے یا دوسرے الفاظ میں انتظار کرنا گوارا نہیں کرتے ہیں۔ مارشل نے یہ اس لیے کہا انسان پس انداز یا بچت نہیں کرتے ہیں اور نہ ان میں تخلیق سرمایا Capital Formation کا جذبہ ہے اور نہ کافی زر Currency کی فراہمی ہے کہ سرمایا کاری Investment کے لیے قرضے حاصل کیے جائیں۔ اس لیے سرمایہ کاری Investment کے لیے جو سرمایا Capital ہے وہ بہت قلیل ہے۔
ترجیح سیال کا نظریہ Liquidity Preferencs Theory: 1933
[ترمیم]یہ تصور جان مینارڈ کینز John Maynard Keynesنے اپنی کتاب ’روزگار سود اور زر کا عام نظریہ‘ General Theory of Employment Interest and Money میں پیش کیا۔ اس سے پہلے اس کے پیش رو مارشل کا ’قرضہ جاتی ذخائر‘ کانظریہ Loanable Funds Theory مروج تھا۔
- کینزKeynes لکھتا ہے کہ کسادبازاری Market Decline کے زمانے میں قیمتوں کے گرنے کا دور ہوتا ہے اور متوقع شرح منافع (جس کو وہ مختتم کارکردگی اصل Marginal Efficiency of Capital کانام دیتا ہے) بہت گرجاتی ہے۔ اس لیے متوقع شرح منافع شرح سودسے زیادہ ہونی چاہیے۔ تاکہ سرمایہ کار سرمایہ کاری کے لیے قرض کی طرف مائل ہوں۔ فرض کیجئے مروجہ شرح سود 3 فیصد سالانہ ہے تو مختتم کارکردگی یا اصل متوقع شرح منافع 3 فیصد سالانہ سے زیادہ ہونی چاہیے، تاکہ سرمایہ کار سرمایہ کاری میں سرمایہ لگانے پر راغب ہوں۔ کیوں کے سرمایہ لگانے کے عمل میں ہمیشہ نقصان کا اندیشہ رہتا ہے۔ فرض کیجئے سرمایہ کار کو اس شرط پر سرمایہ لگانے میں مائل کیا جا سکتا ہے کہ، متوقع شرح منافع (یا مختتم کارکردگی Marginal Efficiency of Capital) 5 فیصد ہو تو ہم دیکھتے ہیں کہ2 فیصد (5 منفی 3 فیصد) وہ اندازہ ہے جو سرمایہ کار ’’خطرہ نقصان زر‘‘ کی مد میں رکھے گا اور جس کے مد نظر وہ اپنا سرمایہ Invest سرمایہ کاری Investment میں لگانے پر راضی ہوگا۔ فرض کیجئے کہ کساد بازاری Market Decline کے زمانے میں مختتم کارکردگی اصلMarginal Efficiency of Capital یامتوقع شرح منافع 3 فیصد سالانہ تک گر جاتی ہے اور دو فیصد سالانہ جیسا کہ ہم نے بتایا ہے سرمایہ کار Investor کا اندازہ خطرہ زر ہے۔ اس لحاظ سے شرح سود ایک فیصد سالانہ تک (جو 3 فیصد سالانہ مختتم کارکرگی Marginal Efficiency of Capital، اصل اور 2فیصد سالانہ، اندازہ خطرہ فرق) گرجانی چاہیے، تاکہ سرمایہ کار Investor اپنا قرض لیا ہوا سرمایہInvest سرمایہ کاری Investment میں لگا سکے۔ اب فرض کیجئے متوقع شرح منافع یا مختتم کارکردگی اصل Marginal Efficiency of Capital ایک فیصد تک گرجاتی ہے۔ اندازہً خطرہ زر حسب سابق 2 فیصد ہے تو شرح سود منفی ایک فیصد سالانہ تک گر جانی چاہیے۔ (یعنی مختتم کارکردگی اصل Marginal Efficiency of Capital ایک فیصد اور اندازہ خطرہ زر 2 فیصد کے فرق تک) تاکہ سرمایہ کار Investor اپنا سرمایہCapital سرمایہ کاری Investment میں لگا سکے۔ لیکن منفی شرح سود ہونا غیر ممکن ہے، کسی کو کیا ضرورت ہے کہ روپیہ قرض دے کر سود حاصل کرنے کی بجائے الٹا سود دینا برداشت کرے؛ ان حالات میں تووہ اپنا روپیہ بصورت سیال نقد اپنے پاس رہنے دے گا۔ یہی تر جیح سیالLiquidity preference (ترجیح نقد) ہے اور اس پر جس نظریہ کی بنیاد رکھی گئی ہے وہ نظریہ ترجیح سیال Liquidity preference ہے۔
- جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو روپیہ کی قدر میں تخفیف ہو تی ہے۔ قرض خواہ کی نظر میں قدر اصل کا افادہ جو اسے تجارتی سامان کی شکل میں ملتا ہے، جو گھٹ جاتا ہے لیکن مقروض ایک طرح سے فائدے رہتا ہے۔ کیونکہ وہ اصل اور سود کی ادائیگی اس روپیہ سے کرتا ہے جس کی قدر گھٹ چکی ہوتی ہے۔
- انسان کساد بازاری Market Decline کے زمانے میں زر نقد رکھنے کو ترجیح دیتا ہے اس کا ایک اور سبب بھی ہے۔ کسادبازاری Market Decline کے زمانے میں قیمتیں گرتیں ہیں، آج جو روپیہ چار سیر گندم کی قوت خریدرکھتا ہے، وہی کل روپیہ ایک سال کے بعد پانچ سیر گندم خرید سکے گا۔ اس لیے کوئی شخص اپنا روپیہ زر نقد کی صورت میں محفوظ رکھتاہے تو اس کو اس حساب سے 25 فیصد منافع ہوتاہے۔ ظاہر ہے کہ جب کسی شخص کے روپیہ کی قدر تجوری میں رکھے رہنے سے بڑھ رہی ہے۔ تو وہ خواہ مخواہ کاروبار میں روپیہ کیوں پھنسائے گا۔ یہی وجہ ہے کینز Keynes نے گیسل کی Gessl تجویز ’’زرمسکوک‘‘ Stamped Money کی سفارش کی تھی، جس میں روپیہ کی قدر ایک معینہ مدت کے بعد گھٹ جاتی ہے۔ تاکہ لوگ اپنا روپیہ ’’زر نقد‘‘ Liquid Capital کی شکل میں رکھنے کی بجائے کاروبار میں لگانے پر مجبور ہوں۔
- کینز Kenyes اپنی میں لکھتا ہے کہ ’’زر مسکوک Stamped Money‘‘ کے پس پردہ بہت اچھا خیال پوشیدہ ہے، حقیقت میں یہ ہو سکتا ہے کہ معتدل پیمانے پر اس تجویز کو عملی جامع پہنانے کا طریقہ معلوم ہو جائے۔ لیکن اس راہ میں بہت سی مشکلات ہیں جس کا اندازہ گیسل Gessl نے نہیں کیا۔ خصوصیت سے اس نے یہ نظر انداز کر دیا کہ صرف روپیہ ایسی شے نہیں جو سیالی خصوصیت یا کیفیت کا حامل ہے اور دوسری اشیاء کی نسبت اس کے درجہ میں فرق ہے۔ نقد روپیہ کی اہمیت یہی ہے کہ یہ دوسری اشیاء کی نسبت زیادہ سیالی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے کرنسی کے نوٹوں کو مسکوک کر کے ان کی سیالی خصوصیت ختم کر دی جائے تو بینک میں جمع شدہ روپیہ، عندالطلب قرضے، غیر ملکی روپیہ، جواہرات، قیمتی دھاتیں اور اسی نوع کی دیگر چیزیں روپیہ کے نعم البدل کے طور پر وجود میں آجائیں گی۔
سوداوربچت
[ترمیم]- کینز Keynes نے کاروباری افراد کو شرح منافع شرح سود سے زیادہ رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ جس پرآج کی تمام کاروباری دنیا عمل کر رہی ہے، اس وجہ سے قرض لینے والے کو سودی نظام میں بڑی کشش محسوس ہوتی ہے۔ کیونکہ اس طرح قرض لینے والوں کو سود بار نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ اس کا بار ان پر پڑتا ہے، جو ان کی اشیاء خریدتے ہیں یا اشیاء استعمال یا خریدنے والے اپنی خدمات کی قدر بڑھا دیتے ہیں۔ اس طرح قیمتوں میں مسلسل اضافہ کی وجہ سے زر کی قدر میں گیسل Gesslکی تجویز کے مطابق مسلسل کمی ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح مقروض بھی فائدے میں رہتا ہے۔ کیونکہ وہ اصل اور سود کی ادائیگی اس رقم سے کرتا ہے جس کی قدر گرچکی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے تمام دنیا میں نہ صرف سرمایہ کار کاروبار یا صنعت لگانے کے لیے بلکہ عام آدمی بھی مختلف ضرورتوں کے لیے قرض کو ترجیح دیتے ہیں، چاہے انھیں اس کی ضرورت نہ ہو۔ کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ مستقل میں جب وہ اصل اور سود کی ادائیگی کریں گے تو اس کی قدر گھٹ چکی ہو گی۔ جب کہ ان کی سرمایہ کاری کی قدر اس سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہوگی۔ یہی وجہ ہے سود کے خلاف جو ظنی یا نفلی دلائل دیے جاتے ہیں وہ جدید معاشی نظام میں سود پر صادق نہیں آتے ہیں۔ کیونکہ زر کی وقت کے ساتھ مسلسل گرتی قدر نے ان تمام دلائل کو باطل کر دیے ہیں اور اس طرح عام لوگ زر کی گرتی قدر کی وجہ سے اپنی بچتیں بغیر نفع کے بینکوں میں رکھوانا پسند نہیں کرتے ہیں۔ وہ اسی صورت میں اپنا روپیہ بغیر نفع کے بینک میں رکھنے کی بجائے کارو بار یاصنعت میں لگانا زیادہ پسند کریں گے۔ مگر ہر شخص کے لیے آسان نہیں ہے کہ وہ کوئی کاروبار کرے، مگر عام آدمی ناتجربہ کار اور محدود سرمائے کا مالک ہوتا ہے، اس لیے اس کے لیے آسان نہیں ہے کہ وہ نہ کوئی کاروبار یا صنعت لگائے۔ دوسری طرف اس قلیل رقم سے نہ مضاربہ یا شراکت کی جا سکتی ہے۔ اس لیے عام آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ مضاربہ یاشراکت میں اپنے محدود سرمائے سے سرمایہ کاری کرے۔ اس طرح وہ زرکی گرتی قدرکی وجہ سے بینک میں بغیر نفع کے رکھوانا پسند نہیں کرے گا اور ایسی صورت میں وہ اپنی محدود رقم سے اشیاء تعیش اور دوسرے سامان کی خریداری یا زیور اور جائداد کی خریداری کو ترجیح دے گا، گویا وہ اس طرح اپنی محدود رقم کا تحفظ کرے گا۔
- غیر مصروف شدہ بچت کسی ملک کی معاشی راہ میں روڑے کے مترادف ہے۔ یہ کینسی نظام Keynesian System کا اصول ہے کہ ہر شخص زمانہ سابقہ کے مقابلے میں اپنی آمدنی سے زیادہ سے زیادہ بچانے کی کوشش کرے، تو تمام مخلوق بہ حیثیت مجموعی زیادہ بچت نہیں کر سکے گی۔ لارنس کے کلین Lawrence K Klein اپنی کتاب ’کینسی انقلاب‘ The Keynesian Revolution میں لکھتا ہے کہ اس کا ’سبب یہ ہے کہ مجموعی قومی آمدنی (الیف) برابر ہے اس رقم کے جو ضرروریات کی چیزوں پر خرچ کیا جائے۔ جمع اس رقم کے جو سرمایہ کاری پر خرچ کیا جائے (ک) اور ان دونوں رقموں جتنی کمی بطور بچت کے کی جائے اتنی ہی قومی آمدنی میں کمی ہو جائے گی‘۔ سرمایا کاری سے مراد کسی ایسی شے کی پیدائش جس میں انسانی محنت صرف ہوتی ہو۔ مثلأ مشینیں مکانات، سڑکوں، پل، پانی کی نہروں اور بندوں کی تعمیروغیرہ ہیں۔ اس نقطہ نظر سے زمین سونا خریدنا سرمایہ کاری نہیں ہے۔ اس طرح سونے کے زیورات کی خریداری بھی سرمایہ کاری نہیں ہے۔ کیونکہ یہ محفوظ حالت میں رہتی ہے اور سرمایا کی تشکیل میں کوئی حصہ نہیں لیتی ہے۔
- کسی ملک کی ٍقومی آمدنی میں اضافہ کا مطلب ہے کہ پیدا وار میں اضافہ۔ اس کے لیے حکومتی سرمایا کاری ضروری ہے۔ اس کے حصول کے لیے ملکی بچتوں میں اضافہ ضروری ہے، تاکہ سرمایا کاری کے وسائل مہیا ہو سکیں۔ جب کہ غیر مالیاتی بچتیں قدر زر میں تخفیف اور ٹیکس گریزی کا باعث بنتی ہیں۔ بالخصوص جائیدادکی طرف بچتوں کی منتقلی کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ تاکہ ملکی بچتوں سے ہی سرمایا کاری کے وسائل مہیا ہوسکیں۔ اس سے نہ صرف افراط زر میں کمی ہوتی ہے، بلکہ اس سے خود انحصاری میں مدد ملتی ہے اور ادائیگیوں کا توازن بھی درست ہوتا ہے
شرح سود
[ترمیم]- شرح سودکی مقولیت کے بارے میں اگرچہ اختلاف رہا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے شرح سود بازار سے روپیہ کھینچنے اور روپیہ پھیلانے کا معقول طریقہ ہے۔ لہذا ملکی مالیاتی پایسی میں اس کی شرح بہت اہم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے جن ملکوں میں معاشی استحکام ہوتا ہے وہاں اس کی شرح کم ہوتی اور جن ملکوں میں معاشی عدم استحکام ہوتا ہے، یعنی َوہاں افراط زر، بے روزگاری، صنعت و حرفت میں کمی اور ملک عدم توازن کا شکار ہو تو وہاں شرح سود زیادہ ہوتی ہے، تاکہ لوگوں میں بچت کا رجحان بڑھے۔ مگر اتنی زیادہ بھی نہیں کہ صنعت و حرفت اور تجارت کے لیے نقصان دہ ہو۔ یعنی بچت و سرمایاکاری میں توازن رکھنا ضروری ہے اور معیشت میں اس کی شرح معاشی ضروریات کے مطابق ہونی چاہیے۔ یعنی معاشی صورت حال اس کے برعکس ہو تو یہ ملکی معیشت کو نقصان پہچاتی ہے۔ جب کہ مناسب شرح سود نہ صرف افراط زر کم کرتی ہے، بلکہ بچت اور سرمایہ کاری میں توازن قائم رکھتی ہے اور معاشی استحکام کاباعث ہوتی ہے۔ اس طرح ملک ترقی اور کامل روزگار کے زینہ پر قدم رکھ دیتا ہے۔ لہذا ملک کی مالیاتی پالیسی کا تقاضا ہے کہ شرح سود کے بارے میں صحیح وقت پر درست فیصلے کیے جائیں۔
- سود کا رویہ معقول نہیں ہوتا ہے، کیونکہ اس میں لچک نہ ہونے کے باعث مالیاتی پالیسی بنانے والوں کو اس کی شرح کا فیصلہ اپنے فہم و فراست سے کرنا ہوتا ہے اور ان کے بظاہر درست فیصلے ملکی معیشت پر غلط اثر انداز ہوتے ہیں اور ملکی معیشت کونقصان پہنچاتے ہیں۔ جیسا کہ1945 میں بینک آف انگلینڈ کے شرح سود کم کرنے کے فیصلے سے ہوا تھا۔ اس طرح یہ فیصلے جلد اور فوری طور پر کیے جانے چاہیے۔ بعض اوقات درست فیصلہ بھی تاخیرکے بعض نقصان کا باعث بنتا ہے، جیسا کے بینک آف انگلینڈ نے مذکور بالا فیصلہ ایک سال کے بعد واپس لیا تھا۔
- بینک : ملکی معیشت میں ترقی زر مالیات اور قیمتوں کا تعلق بنکاری کے نظام سے ہوتا ہے۔ کیوں کہ صنعتی و زرعی ترقی اور سرمایہ کاری کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کا انحصار بینکوں سے آسان شرائط پر سرمایہ کی دستیابی پر ہوتا ہے۔ اس کے لیے ملک میں بینکاری کا نظام اور مضبوط مالیاتی اداروں کا کافی تعداد میں ہونا ضروری ہے۔ جب صورت حال اس کے برعکس ہوجاتی ہے تو معاشی ترقی کا خواب نامکمل رہتا ہے اور ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ چنانچہ مرکزی بینک عام بینکوں کی مدد سے پیدائش زر کرتا رہتا ہے، تاکہ ملک میں اشیاء کی پیداوار اور صنعت و تجارت میں ترقی و روزگار میں وسعت اور قیمتوں میں استحکام کے لیے بچت و سرمایہ کاری کے لیے توازن قائم رکھے۔
- بالااذکر ہو چکا ہے کہ زر کی گرتی قدر کی وجہ سے لوگ مجبور ہیں کہ اپنی بچتیں کسی کاروبار یا صنعت میں لگائیں یا مختلف اشیا? کی خریداری کریں یا بینک میں جمع کرائیں گے۔ لیکن بینک ان بچتوں کے لیے پرکشش اسکیمیں پیش کرے تو لوگ اپنی بچتیں ان اشیاء کی خریداری میں لگا دیتے ہیں جو غیر مالیاتی بچتیں کہلاتی ہیں۔ مثلأ زیور یا جائداد کی خریداری۔ جو معاشی ترقی میں کسی طرح کا حصہ نہیں لیتی ہیں، اس وجہ سے بچت کی اسکیموں کو پرکشش بنایا جاتا ہے۔ اس لیے ملکی معیشت میں شرح سود نہایت اہم ہوتی ہے۔ یہ شرح سود بچتوں اور سرمایہ کاری کے توازن کے لیے تجویز کی جاتی ہے، تاکہ لوگ اپنی بچتیں بینک میں جمع کروائیں اور اس سے سرمایہ کاری کے وسائل مہیا ہوسکیں۔ اس سے نہ صرف افراط زر میں تخفیف ہوتی ہے، بلکہ روزگار میں ترقی اور خود انحصاری میں مدد ملتی ہے اور ادائیگیوں کا توازن درست ہوتا ہے۔
- ترقی یافتہ ملکوں بچتوں پر شرح سود کم ہوتی ہے۔ کیوں افراط زر وہاں نہایت کم ہوتا ہے اور بچت کی عادت بھی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وافر مقدار میں سرمایہ میسر ہوجاتا ہے۔ یہ مالک ترقی کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ چکے ہوتے ہیں اس لیے نئی سرمایہ کاری محدود بھی ہوتی ہے۔ جبکہ غریب اور ترقی پزیر ملکوں میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔
- جب کوئی ملک روزگار Employment میں ترقی کے لیے خسارے کی سرمایا کاری کرتا ہے تو بازار میں زر کی رسد بڑھا دیتا ہے، اس کی وجہ سے افراط زر پیدا ہوجاتا ہے۔ حکومت افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے جو مالیاتی اقدامات کرتی ہے ان میں سے ایک شرح سود میں اضافہ بھی شامل ہے، تاکہ کنٹرلوگ زیادہ سے زیادہ اپنی بچتیں بینکوں میں جمع کر وائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے بلند شرح سود ہی روپیہ جمع کرانے والوں کے لیے کشش کا باعث ہوتی ہے۔
- پاکستان میں تجارتی بینک Commercial Bank اپنی جمع شدہ رقوم میں لازمی 30 فیصد جس پر شرح سود مارکیٹ سے نصف ہوتی ہے حکومت کو قرض دیتا ہے۔ جب کہ پانچ فیصد روز مرہ کے لین دین کے لیے استعمال کرتا ہے اور باقی رقوم قرضوں اور سرمایا کاری کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جسے وہ حکومتی پالیسی کے مطابق صنعتی یونٹوں،زرعی اور نجی شعبے میں سرمایا کاری کے لیے استعمال کرتا ہے، جس پر شرائط کے مطابق سود لیا جاتا ہے۔
- تجارتی بینک نہ Commercial Bank صرف عام گاہکوں کے لین دین کا حساب رکھتے ہیں بلکہ دولت رکھنے کے لیے ایک محفوظ مقام ہوتے ہیں۔ اس طرح ملک میں سرمایہ کاری کے لیے فروغ اور انحطاط کا باعث بھی ہوتے ہیں۔ یہ نہ صرف تجارتی میدان میں اہم خدمات انجام دیتے ہیں، بلکہ روپیہ کو گردش میں رکھ کر زندگی کے بہت شعبوں کو رواں دواں رکھتے ہیں۔
- مولانا ابوالاعلی مودودی ؒ کا کہنا ہے بینکنگ موجودہ تہذیب کی اہم چیز ہے۔ اول تو وہ بہت سی ایسی جائز خدمات انجام دے رہا ہے، جو موجودہ زمانے کی تمدنی زندگی اور کاروباری ضروریات کے لیے یہ بہت سی ایسی خدمات انجام دیتے ہیں، جو عام کاروباری ضروریات کے لیے مفید اور ناگریز ہیں۔ مثلأ روپیہ کو ایک جگہ سے دو سری جگہ بھیجنا، ادائیگی کا انتظام کرنا، اعتماد نامے یا سفری چیک، گشتی نو ٹ جار ی کر ناکمپنیوں کے حصص Shareکی خرید وفروخت میں بطور ایجنٹ وغیرہ کے ہیں، جنہیں تھوڑے سے کمیشن پر بینک کے سپرد کرکے آج ایک آدمی بہت سی جھنجٹوں سے خلاصی پالیتا ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرے کا بکھرا ہوا سرمایہ، بکھرا ہوا رہنے کی بجائے ایک مرکزی ذخیرہ میں جمع ہوجاتا ہے اور وہاں سے زندگی کے ہر گوشے میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ عام افراد کے لیے بہت سہولت ہے کہ وہ محدود سرمایہ جو ان کی ضروریات سے بچ رہتا ہے اور وہ اسے کسی نفع بخش کام تنہا نہیں لگا سکتے ہیں۔ وہ اسے کسی بینک میں جمع کراتے ہیں، تاکہ کسی صنعت یا کاروبار میں لگ کر ملک و قوم کی ترقی اور روزگار میں ترقی کا باعث بنے۔ مستقل طور پر مالیات کا ہی کام کرتے رہنے کی وجہ سے بینک کے منتظیمن کو اس شعبے میں ایسی بصیرت حاصل ہوجاتی ہے، جو تاجروں، صناعوں اور دوسرے معاشی کارکنوں کو نصیب نہیں ہو سکتی ہے۔ یہ مہارانہ بصیرت بجائے خودایک قیمتی چیز ہے اور بڑی مفید ثابت ہوتی ہے۔
- بینک آج کے دور میں بہت سی مفید خدمات انجام دے رہا۔ مگر اس کا اصل کاروبار عام لوگوں سے پیسہ جمع کرکے سرمایہ کاری کرنا ہے۔ تجارتی بینک عام لوگوں سے پیسہ جمع کرکے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
وضاحت
[ترمیم]اس معاملے میں کلید ی لفظ قرض ہے۔ جب بھی دو فریقین کے مابین تعلق قرض خواہ اور مقروض کا ہوگا تو قرض دینے والا اگر قرض دینے کو اس شرط سے مشروط کر دے کہ وہ ایک معین اضافہ ایک معینہ مدت کے لیے اپنے قرض پر وصول کر ے گا تو اس اضافے کو سود یا ربا کہا جائے گا۔
مزید تشریح
[ترمیم]1۔ کمپنیز آرڈیننس 1984 سے قبل فنانسنگ کا ایک ذریعہ ڈی بنچر(دستاویز قرض) تھا۔ ڈی بنچر ہولڈراور کمپنی کے مابین تعلق کریڈٹر (قرض دینے والا، قرض خواہ) اور ڈیٹر (قرض لینے والا، مقروض) کا ہوتا تھا۔ اس مثال میں ( افراط زر کی شرح کو صفر فرض کرتے ہوئے ) وہ معین اضافہ جس کا استحقاق ایک ڈی بنچر ہولڈر رکھے گا ربا کہلائے گا اس کے برعکس ایک دوسرا تعلق شیئر ہولڈر اور کمپنی کے مابین ہوگا۔ شیئر ہولڈر کو جو اضافہ ملے گا وہ منافع کہلائے گا۔
2۔ اگرمعاملے کی نوعیت ایسی ہے کہ آپ نے کسی کو ایک چیز 'استعمال' کے لیے دی اور لینے والے نے وہ چیز استعمال کرنے کے بعد بعینہ واپس کر دی تو اس پہ آپ اگر متعین اجرت وصول کریں گے تو یہ کرایہ ہوگا۔ نہ کہ ربا۔ جبکہ ربا اس صورت میں ہوگا جب کہ لی جانے والی چیز صرف استعمال نہ ہو بلکہ استعمال کے دوران میں وہ بالکل صرف ہو جائے اور باقی نہ بچے ۔
3۔قرآن مجید نے جب ربا کو ممنوع قرار دیا تو اس وقت اس کے لیے کوئی نئی اصطلاح وضع نہیں کی بلکہ معاشرے میں رائج اصطلاح کو ہی استعمال کیا اور ظاہر ہے کہ اس اصطلاح کا وہاں ایک خاص مطلب تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ قرآن نے شراب اور جوئے کے لیے خمر اور میسر کی اصطلاحیں استعمال کی تو وہ بھی وہی تھیں جو وہاں رائج تھیں۔ اس ماحول کا ہر شخص جس طرح خمر اور میسر کی اصطلاح کا مطلب سمجھ رہا تھا اسی طرح ربا کا مطلب بھی ان پر غیر واضح نہ تھا۔ قرآن نے جب جوئے اور شراب کو ممنوع قرار دیا توصرف اتنا کہا کہ یہ اب سے ممنوع ہیں اور انھیں ممنوع قرار دیتے ہوئے قرآن نے یہ وضاحت بالکل نہیں کی کہ جوئے کا مطلب یہ ہوتا ہے اور خمر کا یہ۔ کیونکہ یہ بات بالکل واضح تھی کہ یہ کیا ہوتی ہیں۔ یہی معاملہ ربا کا تھا قرآن کی براہ راست مخاطبین اس کے مفہوم کو بخوبی سمجھ رہے تھے۔ جب کوئی لفظ مروجہ مفہوم سے ھٹ کر ایک نئے مطلب میں استعمال کیا جاتا ہے تو عبارت کے سیاق و سباق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ یہاں ایک نئے مطلب میں استعمال ہو رہا ہے۔ جس طرح کہ علامہ اقبال نے خودی کے لفظ کو ایک نیا مفہوم دیا تو سیاق و سباق سے یہ بات واضح تھی۔
لفظ کے معنی کے تعین میں یہ بات بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ اہل زبان اس کو کس مفہوم میں بولتے ہیں اور اگر کسی کا یہ دعوی ہو کہ اس کامطلب اور ہے تو پھر بار ثبوت اس کے ذمے ہے۔ مثلا اگر کوئی یہ کہے کہ قرآن نے خمر کا لفظ ایک خاص قسم کی شراب کے لیے استعمال کیا ہے یا اس شراب کے لیے جو بہت زیادہ پی جائے تو پھر یہ بات اس کو ثابت کرنا ہوگی کیونکہ اہل زبان تو اس کو اسی مفہوم میں نہیں سمجھ رہے ہوتے۔ اسی طرح ربا کا لفظ قرآن کی ایک نئی اصطلاح نہیں ہے بلکہ اسی مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے جو عربوں میں رائج تھا۔ اور عرب میں یہ لفظ اسی مفہوم میں مستعمل تھا جیسا کہ پیچھے وضاحت ہو چکی ہے مزید برآں یہ اضافے کے مطلب میں بھی استعمال ہو رہا تھا۔ قرآن نے ان مفاہیم کے اندر کوئی نئے معنی پیدا نہیں کیے بلکہ انھیں اسی طرح استعمال کیا۔ یہ واضح ہے کہ جب قرآن ربا کا لفظ استعمال کرتا ہے تو وہ اس کو قرض پہ ایک متعین اضافے کے لیے ہی استعمال کرتا ہے اگر وہ اس کو محض اضافے کے مفہوم میں لے رہا ہوتا تو پھر اس کا اطلاق ہر اضافے پر ہوتاجبکہ منافع بھی ایک اضافہ ہی ہے۔ لیکن وہ جائز ہے۔
4۔ بعض علما نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن نے ربا کا لفظ صرف استحصالی سود کے لیے استعمال کیا ہے یعنی جس میں دوسروں کی مجبوریوں کا ناجائز استعمال کیا جائے۔ ان کے خیال میں اگر کسی تجارتی مقصد کے لیے فریقین میں باہمی اتفاق سے یہ طے ہو جائے کہ یہ شرح اضافہ ادا کی جائے گی تو وہ ناجائز نہیں ہے۔ اور بنکوں کا شرح سود اسی قسم کا ہوتا ہے کیونکہ اس میں دونوں فریق تجارتی مقاصد کے لیے ایک خاص معاہدہ کرتے ہیں اور پہلے سے ایک خاص اضافہ طے کرلیتے ہیں۔ اس لیے یہ ربا نہیں ہے۔ اس کا تفصیلی جواب اگلے سوال کے ضمن میں دیا گیا ہے۔
5۔ بعض حضرات سنت سے کوئی اور مفہوم ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اصل میں سنت کا تعلق تمام تر عملی چیزوں سے ہوتا ہے عقیدے اور عقائد قسم کی چیزیں سنت کے دائرہ کار میں نہیں آتیں اسی طرح تعریفات بھی اس کے دائرے کی چیز نہیں ہے۔ نبی نے خمر، میسر کی طرح ربا کی بھی کوئی تعریف نہیں کی بلکہ اس کے بعض اطلاقات بیان کیے ہیں۔ یہ اطلاقات اس کی تعریف نہیں ہیں۔ مثلا نبی نے سود کے بارے میں خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہہ اجناس میں بھی سود کے امکانات سے بچو۔ تو اس سے ایک مختلف نتیجہ اخذ کرنا زبان دانی کے ساتھ ظلم ہوگا۔[1]
سود قرآن اور حدیث کی روشنی میں
[ترمیم]قرآن
[ترمیم]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو سود دونے پر دونا نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمھارا چھٹکارا ہو—
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
جو لوگ سود کھاتے ہیں قیامت کے دن وہ نہیں اٹھیں گے مگر جس طرح کہ وہ شخص اٹھتا ہے جس کے حواس جن نے لپٹ کر کھو دیے ہیں یہ حالت ان کی اس لیے ہوگی کہ انھوں نے کہا تھا کہ سوداگری بھی تو ایسی ہی ہے جیسے سود لینا حالانکہ اللہ نے سوداگری کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے پھر جسے اپنے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اوروہ باز آ گیا تو جو پہلے لے چکا ہے وہ اسی کا رہا اور اس کا معاملہ الله کے حوالہ ہے اور جو کوئی پھر سود لے وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے—
وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
اور ان کو سود لینے کے سبب سے حالانکہ اس سے منع کیے گئے تھے اور اس سبب سے کہ لوگو ں کا مال ناحق کھاتے تھے اور ان میں سے جو کافر ہیں ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے—
سود مندرجہ ذیل سات کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]ماخذ
[ترمیم]- 1997 کی اسٹیٹ بنک کی سالانہ رپورٹ جنگ کراچی، 6 جون1997
- نصیر احمد شیخ اسلامی دستور اور اسلامی اقتصادیات کے چند پہلو۔
- BOOK OF ECONOMIC & THEORY …… SIONIER & HAGUE
- ڈاکٹر شمیم احمد صدیقی، اسلامی بینکاری پر چند باتیں۔ جنگ کراچی 17 مئی 1997
- ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی اسلامی مالیاتی ادارے اور پاکستان، جنگ کراچی 24 نومبر 1998
- مولانا ابو الا علیٰ مودودی۔ سود
- پرفیسر مظفر حسین ملاٹھوی۔ اسلامی اصول تجارت مع شرکت و مضاربت
- ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق