جان مینارڈ کینز

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
جان مینارڈ کینز
(انگریزی میں: John Maynard Keynes ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 5 جون 1883ء[1][2][3][4][5][6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کیمبرج[8][9]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 21 اپریل 1946ء (63 سال)[1][10][2][3][4][5][6]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات دورۂ قلب  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مملکت متحدہ
متحدہ مملکت برطانیہ عظمی و آئر لینڈ (–12 اپریل 1927)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت لبرل پارٹی  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز،  برٹش اکیڈمی،  امریکی اکادمی برائے سائنس و فنون  ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
رکن ہاؤس آف لارڈ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
1942  – 21 اپریل 1946 
عملی زندگی
مادر علمی ایٹن کالج[11]
کنگز (1902–1905)[11]
جامعہ کیمبرج  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈاکٹری مشیر الفریڈ نارتھ وائٹ ہیڈ  ویکی ڈیٹا پر (P184) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ الفریڈ مارشل (معاشیات)  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ماہر معاشیات،  ریاضی دان،  سیاست دان[12]،  فلسفی،  پروفیسر،  سفارت کار،  غیر فکشن مصنف،  کاروباری شخصیت،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان انگریزی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی[13][14]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل جزیاتی معاشیات  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ کیمبرج  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک بلومزبری گروپ  ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
ایڈم سمتھ انعام (1909)[11]
 سی بی
فیلو آف برٹش اکیڈمی  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نامزدگیاں
دستخط
 

جان مینارڈ کینز (انگریزی: John Maynard Keynes) ایک انگریز ماہر معاشیات اور فلسفی تھا۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

کینز ایک فاتح مملکت انگلستان میں آسودہ ماحول میں پیدا ہوا تھا۔ اس کی پیدائش 1883ء میں کیمبرج میں ہوئی تھی۔ وہ کیمبرج یونیورسٹی کے زیر سایہ پروان چڑھا جہاں اس کا باپ ملازم تھا۔

تعلیم و تدریس[ترمیم]

کیمبرج میں واقع کنگز کالج

کینز نے ایٹن (Eton) کالج اور کنگز کالج سے تعلیم حاصل کی اور فیلوشپ مکمل کی۔ اپنے استادوں کی حوصلہ افزائی پر اُس نے معاشیات کو اپنایا۔ اس کے بعد اس کی خواہش تھی کہ برطانوی ٹریژری میں ملازمت حاصل کرے لیکن مقابلے کے امتحان (سول سروس کے امتحان) میں اس کی دوسری پوزیشن آئی جبکہ ٹریژری میں صرف اول آنے والے کے لیے جگہ تھی۔1904ء میں اس نے برٹش امپائر کے انڈیا آفس میں ملازمت کر لی مگر ایک سال میں ہی وہ ملازمت چھوڑ دی۔ اس کے بعد اس نے معاشیات کے لیکچرار کے طور پر کیمبرج یونیورسٹی میں کام کیا۔

عملی زندگی[ترمیم]

کینز شروع میں فلسفے میں دلچسپی رکھتا تھا مگر حالات اسے معاشیات اور مالیات کی طرف لے آئے۔ اگلے کئی سالوں تک وہ رائل کمیشن برائے ہندوستانی کرنسی اور مالیات کے لیے کام کرتا رہا۔ اسے گولف کھیلنے اور بیلے ڈانس دیکھنے کا شوق تھا۔

1913ء میں اس نے اپنی پہلی کتاب ہندوستانی کرنسی کے بارے میں لکھی (Indian Currency and Finance)۔ اس کے فوراً بعد پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی۔ کینز کو برطانوی ٹریژری میں جونیئر اکنومک ایڈوائزر کی نوکری کی پیشکش ہوئی جو اس نے قبول کر لی۔ اس نے بڑی جلدی ترقی کری اور برطانیہ کے جنگی اخراجات پورے کرنے کے لیے امریکا سے قرض لینے کی کارروائیاں انجام دیں۔
بہت سارے دوسرے یورپیوں کی طرح اس کا بھی خیال یہی تھا کہ جنگ زیادہ عرصہ نہیں چلے گی۔ لیکن اس کی پیشن گوئی کے برعکس جنگ بہت طول کھینچ گئی۔ جنگ کے بعد اسے برطانوی ٹریژری کے نمائندے کی حیثیت سے پیرس کی امن کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جہاں اس نے یورپی معیشت بحال کرنے کا اپنا منصوبہ پیش کیا۔ اس نے تجویز دی کہ جرمنی پر تاوان جنگ 5 ارب ڈالر ہونا چاہیے اور برطانیہ اور فرانس کی طرف سے امریکا کو قرضوں کی واپسی اس بات سے مشروط ہونی چاہیے کہ آیا جرمنی برطانیہ اور فرانس کو تاوان جنگ کی قسطیں بروقت ادا کر رہا ہے یا نہیں۔ اگرچہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ لوئڈ جارج نے اس منصوبے کی حمایت کری لیکن امریکی صدر ووڈرو ولسن نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ قرضوں کی واپسی کا تاوان جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ امریکا کو خطرہ تھا کہ تاوان جنگ سے مشروطی کی وجہ سے قرضوں کی واپسی ناممکن نہ ہو جائے۔ اس اختلاف کی وجہ سے کینز نے مئی 1919ء میں استعفاء دے دیا۔

نومبر 1919ء میں اس کی دوسری کتاب امن کا معاشی نتیجہ (The Economic Consequences of the Peace) چھپی۔ اس میں اس نے بتایا کہ جرمنی پر اتنا زیادہ تاوان جنگ (132 ارب سونے کے مارک) عائید کیا گیا ہے کہ اس کے دور رس نتائج خود اتحادی ممالک کے لیے بڑے نقصان دہ ہوں گے۔ جرمنی سے اتنے زیادہ تاوان کا مطالبہ بے وقوفی ہو گی۔ اس کی کتاب نے جلد ہی بہت شہرت حاصل کر لی۔
جرمنی اس وقت تک تاوان جنگ ادا کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ اس کا بنایا ہوا سامان دوسرے یورپی ممالک نہ خریدیں۔ لیکن دوسرے یورپی ممالک اگر جرمن اشیاء خریدنا شروع کرتے تو ان کی اپنی صنعتیں کمزور پڑ جاتیں۔ دوسرا طریقہ بس یہ ممکن تھا کہ جرمنی امریکا سے قرض لے کر برطانیہ اور فرانس کو ادا کرے جو اُسی رقم سے پھر امریکا کا قرض اتاریں۔ غالباً امریکا کا سوچا سمجھا منصوبہ بھی یہی تھا۔ لیکن 1930ء کے گریٹ ڈپریشن کے بعد جرمنی کو امریکی قرضے حاصل کرنے میں شدید دشواری ہونے لگی[16] اور 1931ء میں جرمنی قسطیں ادا کرنے کے قابل نہ رہا۔ اس کے نتیجے میں فرانس بھی برطانیہ کا نادہندہ ہو گیا۔ اور پھر 18 مہینوں بعد کینز کے مشورے پر 1934ء میں برطانیہ بھی امریکا کے 4 ارب ڈالر کا نادہندہ ہو گیا۔[17] اس طرح دوسری جنگ عظیم کا بیج بو دیا گیا۔
کینز کی پیشنگوئی درست ثابت ہوئی اور کینز کی شہرت میں بڑا اضافہ ہوا۔ 1923ء میں کینز کی اگلی کتاب زر مبادلہ کی اصلاح کا راستہ (Tract on Monetary Reform) تھی۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے کینز گولڈ اسٹینڈرڈ کا کٹر حامی تھا۔ لیکن جنگ کے بعد اس کتاب میں اس نے گولڈ اسٹینڈرڈ کی مخالفت شروع کر دی۔ یوں لگتا ہے کہ اب کینز کاغذی کرنسی چھاپنے والے مرکزی بینکاروں کے زیر اثر آ چکا تھا۔ کینز کا کہنا تھا کہ ماضی میں گولڈ اسٹینڈرڈ اس لیے کامیاب ہوا تھا کیونکہ سونے کی پیداوار بھی بڑھی تھی۔ اور اب پہلے کی طرح لوگ کاغذی کرنسی پر شک نہیں کرتے۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ پہلے ہارڈ کرنسی کی مقدار کاغذی کرنسی سے بہت زیادہ تھی اور اس وجہ سے گولڈ اسٹینڈرڈ بظاہر کامیاب رہا تھا۔ ہر پونزی اسکیم شروع میں کامیاب رہتی ہے اور بعد میں کرائسس کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس وقت کئی ممالک کی کرنسیاں انہدام کے نزدیک تھیں اور حکومتیں گولڈ اسٹینڈرڈ ترک کر رہی تھیں۔ چونکہ امریکا کی معیشت بہت مضبوط تھی اور جنگ سے اسے نقصان کی بجائے فائدہ ہوا تھا اس لیے امریکا 1920ء کی دہائی میں بھی گولڈ اسٹینڈرڈ برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔

1920ء میں کینز اپنی ہونے والی بیوی کے ساتھ۔

1922ء کے آخر میں کینز نے شرح تبادلہ میں آنے والی تبدیلیوں کا درست اندازہ کر کے 1یک لاکھ بیس ہزار ڈالر کمائے۔ اسی زمانے میں اسے ایک شادی شدہ روسی بیلے رقاصہ لیڈیا لوپوکووا (Lydia Lopokova) سے عشق ہو گیا۔ اس سے پہلے کینز کی شہرت ہم جنس پرست (gay) کی رہی تھی۔ 1925 میں، جب لیڈیا اپنے پہلے شوہر سے طلاق حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو کینزاور لیڈیا کی شادی ہو گئی جو کینز کی وفات تک قائم رہی۔
1924ء میں کینز ونسٹن چرچل سے ملا اور اسے قائل کرنے کی کوشش کی کہ دوبارہ گولڈ اسٹینڈرڈ نہ اپنائے لیکن ناکام رہا۔ 1925ء میں چرچل نے گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ اپنا لیا مگر یہ 6 سال بھی نہ چل سکا۔ اگرچہ باقی دنیا میں گریٹ ڈپریشن 1929ء میں آیا لیکن برطانیہ میں 1926ء سے ہی معیشت زوال پزیر ہو چکی تھی جو چرچل کی غلط پالیسی کی وجہ سے تھی[18]
کینز نے 1927ء میں پیشنگوئی کی تھی کہ اب اسٹاک مارکیٹ میں کوئی بڑا کریش نہیں ہو گا۔ "We will not have any more crashes in our time."[19] لیکن 1929ء میں اسٹاک مارکیٹ میں بدترین کریش ہوا۔ 1937ء میں اسٹاک مارکیٹیں دوبارہ ڈوب گئیں۔ اسی سال کینز کو پہلا دل کا دورہ پڑا۔ (اسی طرح فیڈرل ریزرو کی سابقہ چیرمین جینٹ یلن نے دسمبر 2020ء میں یقین دہانی کرائی ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں کوئی کرنسی کرائسس نہیں دیکھنا پڑے گا۔ [20] لیکن ماہرین اقتصادیات اس سے بالکل متفق نہیں ہیں۔[21] [22])

1936ء میں کینز نے ایک اور کتاب شائع کی جس کا نام The General Theory of Employment, Interest and Money تھا۔ اس میں اس نے لگاتار کئی ایسے مفروضے پیش کیے جنہیں اب Keynesian Economics کہا جاتا ہے۔ کینز کا کہنا تھا کہ ڈپریشن اور رسیشن خود بخود ختم نہیں ہوتے اور حکومت کو انھیں ختم کرنے کے لیے مداخلت کرنی چاہیے۔ مداخلت سے اس کی مراد یہ تھی کہ حکومت نجی مرکزی بینکوں سے قرض لے کر عوامی بہبود کے کام کرے تاکہ بے روزگاری اور عوامی بے چینی کم ہو۔ یہ عین مرکزی بینکاروں کی خواہش کی ترجمانی تھی جو حکومت پر زیادہ سے زیادہ قرض چڑھانے کے متمنی ہوتے ہیں حالانکہ غربت کی اصل وجہ بینکاروں کی حد سے زیادہ کاغذی کرنسی کی چھپائی (انفلیشن) ہوتی ہے۔ یہی بینکار ہارڈ کرنسی کے سخت دشمن ہوتے ہیں حالانکہ ہارڈ کرنسی کے دور میں مہنگائی اور ڈپریشن بہت کم وقوع پزیر ہوتے تھے۔

ناقدین کہتے ہیں کہ کینز کی 1936 کی اس کتاب میں کینز کا انداز بیان بالکل ہی بدلا ہوا ہے۔ کتاب سمجھ میں نہیں آتی [23][24] اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ کینز خود بھی کنفیوزڈ تھا۔ اس کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ

  • قدرتی طور پر معیشت کبھی بھی سارے لوگوں کو روزگار فراہم نہیں کرتی۔( اس سے پہلے نیوکلاسیکل اکنومک والے کہتے رہے تھے کہ اگر تنخواہیں لچکدار ہوں تو فری مارکیٹ میں بے روزگاری بالکل ختم ہو سکتی ہے۔)
  • بہت زیادہ بے روزگاری اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ حکومت مداخلت نہ کرے اور بہ زور طاقت کھپت (consumption) نہ بڑھائے۔
  • کم شرح سود پر مرکزی بینکوں کا قرض فراہم کرنا مسئلہ کا حل نہیں ہوتا۔
  • مندی کے زمانے میں حکومت کو خسارے کا بجٹ بنا کر معیشت کو سہارا دینا چاہیے۔

جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی اور کینز نے کئی مقالے لکھے کہ جنگ کے اخراجات کیسے پورے کیے جائیں تو چرچل نے اسے بھی اکنومک ایڈوائیزر مقرر کیا۔ اسے بینک آف انگلینڈ کا ڈائریکٹر بنایا گیا اور "لارڈ کینز آف ٹلٹن" کا خطاب بھی ملا۔

1946 میں جورجیا میں آئی ایم ایف کے افتتاح کے موقع پر کینز اور ہیری ڈکسٹر واہیٹ

دوسری جنگ عظیم کے آخری دنوں میں بریٹن اووڈز کا عالمی معاہدہ طے پایا جس میں کینز روح رواں تھا۔ اس کی کوششوں سے آئی ایم ایف وجود میں آیا جس نے تیسری دنیا کے ممالک کو کنگال اور انتہائی مقروض بنا دیا۔ کینز نے پوری کوشش کی کہ bancor نامی ایک عالمی کاغذی کرنسی تخلیق کی جائے مگر وہ مندوبین کو قائل نہ کر سکا اور ناکام رہا۔ آج کا ایس ڈی آر کینز کے bancor کی نزدیک ترین شکل ہے۔
1946ء میں کینز دل کا دورہ پڑنے سے مر گیا۔ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔

کینز کا ملٹیپلائر[ترمیم]

اپنی کتاب The General Theory of Employment, Interest and Money (1936) میں کینز نے یہ تصور دیا کہ جب حکومت ایک ڈالر خرچ کرتی ہے تو جی ڈی پی میں ہونے والا اضافہ ایک ڈالر سے زیادہ کا ہوتا ہے کیونکہ ڈالر کی گردش کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح خسارے کا بجٹ بھی ملکی ترقی کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن دوسرے ماہرین معاشیات سمجھتے ہیں کہ ایسا صرف اس وقت تک ممکن ہے جب تک ملکی قرضہ بہت زیادہ نہ ہو چکا ہو۔ جب قرضہ بہت بڑھ جائے تو ڈالر پر اعتماد گر جاتا ہے اور شرح سود بڑھانی پڑتی ہے۔ اس طرح قرض کا بوجھ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔[25]

کینز کے بیانات[ترمیم]

  • "ایک لمبے عرصے بعد ہم سب مر چکے ہوں گے۔"
"In the long run we're all dead"[26]
  • "تقریباً صحیح ہونا عین غلط ہونے سے بہتر ہے۔"
It is better to be roughly right than precisely wrong.
  • "پیسہ درحقیقت حال اور مستقبل کے درمیان کی ایک کڑی ہے"
“the importance of money essentially flows from it being the link between the present and the future”[27][28]
  • "مسلسل نوٹ چھاپ کر حکومت نہایت خاموشی اور رازداری سے اپنے عوام کی دولت کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیتی ہے۔ اور صرف قبضہ نہیں کرتی بلکہ جتنا چاہے اتنا قبضہ کرتی ہے۔ یہ طریقہ اکثریت کو غریب بنا دیتا ہے مگر چند لوگ امیر ہو جاتے ہیں۔"
"By a continuing process of inflation governments can confiscate, secretly and unobserved, an important part of the wealth of their citizens. By this method they not only confiscate, but they confiscate arbitrarily; and, while the process impoverishes many, it actually enriches some."
  • "حقیقت یہ ہے کہ 1899ء سے (1913ء تک ہندوستان میں) سونے کی قیمت کے استحکام کی بڑی وجہ حکومتی کنٹرول ہے"
The fact that since 1899 the gold value of the rupee has only fluctuated within narrow limits is solely due to administrative measures
  • اپنی کتاب A Tract on Monetary Reform میں کینز نے لکھا "حکومت جو بھی خرچے کرتی ہے اس کا بل (ملکی یا غیر ملکی) عوام بھرتے ہیں۔ صریح خسارہ کوئی چیز نہیں ہوتی۔"
“What a government spends the public pays for. There is no such thing as an uncovered deficit.”
  • ہندوستانی کرنسی کے نظام کے بارے میں 1913 میں کینز کا کہنا تھا کہ" ہندوستان کی حکومت کے موجودہ نظام کی کوئی منطق نہیں ہے۔ اسے سمجھنا بہت ہی مشکل ہے اور اس وجہ سے اکثر اس بارے میں کافی غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے۔"
The Government of India’s present system has no logical basis, is exceedingly difficult to understand, and has often led, in consequence, to a good deal of misunderstanding.
  • کاغذی کرنسی میں پوشیدہ عیاری اور مکاری کو دس لاکھ لوگوں میں ایک آدمی بھی سمجھ نہیں پاتا۔ کینز لکھتا ہے
"لینن یقیناً درست تھا۔ معاشرے کی بنیادیں اکھاڑنے کے لیے اس سے زیادہ خفیہ اور موثّر کوئی طریقہ نہیں ہے کہ کرنسی کے ساتھ زیادتی کی جائے۔ یہ عمل معاشیات کے سارے قوانین کی خفیہ طاقتوں کو تخریب کے لیے استعمال کرتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ دس لاکھ لوگوں میں ایک آدمی بھی اسے سمجھ نہیں پاتا"
"Lenin was certainly right. There is no subtler, no surer means of overturning the existing basis of society than to debauch the currency. The process engages all the hidden forces of economic law on the side of destruction, and does it in a manner which not one man in a million is able to diagnose."
  • "20 سال پہلے میں نادیدہ ہاتھ کا تصور معاشیات سے نکالنا چاہ رہا تھا لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے مسائل کا حل اسی نادیدہ ہاتھ کے پاس ہے"۔ نادیدہ ہاتھ سے کینز کی مراد سینٹرل بینکرز تھے۔[29] یہ بیان دینے کے دس دن بعد کینز کا انتقال ہو گیا۔
“I find myself more and more relying for a solution of our problems on the invisible hand which I tried to eject from economic thinking twenty years ago.”[30]
  • 1913 میں اپنی پہلی کتاب میں کینز نے لکھا تھا کہ"حالیہ دنوں میں ہندوستان میں ہونے والی مہنگائی نے یہ بالکل واضح کر دیا ہے کہ کرنسی کی گرتی ہوئی قوت خرید معاشرے کے بہت بڑے حصے کو کئی طرح سے نقصان پہنچاتی ہے اگرچہ کہ یہ عارضی طور پر چند لوگوں کے لیے منافع بخش ہو سکتی ہے۔"
The recent spell of rising prices in India has shown clearly in how many ways a depreciating currency damages large sections of the community, although it may temporarily benefit other sections.
  • 1913 میں کینز نے لکھا کہ "پچھلے 60 سالوں میں ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں لگ بھگ 20 کروڑ تولے (2190 ٹن) سونا جذب ہو گیا۔ چاندی اس کے علاوہ ہے۔ اس میں وہ سونا شامل نہیں ہے جوپہلے سے ہندوستان میں موجود تھا۔"
During the past sixty years India is supposed to have absorbed, in addition to her previous accumulations, more than £300,000,000 of gold (apart from enormous quantities of silver)۔
  • کینز ہندوستانیوں کی سونے کا سکہ استعمال کرنے اور سونے کی شکل میں بچت کرنے کی عادت کو غیر مہذبانہ اور فضول خرچی قرار دیتا ہے۔
India, as we all know, already wastes far too high a proportion of her resources in the needless accumulation of the precious metals. The Government ought not to encourage in the slightest degree this ingrained fondness for handling hard gold. By the elimination of both precious metals, to the utmost extent that public opinion will permit, from amongst the hoards and the circulation of the country, they ought to counteract an uncivilised and wasteful habit.
  • "اگر کبھی ایسا وقت آیا جب ہندوستانی لوگ اپنی سونا جمع کرنے کی غیر سود مند عادت کو ترک کر دیں اوراپنے اثاثے صنعت کاری اورزراعت کی ترقی پر خرچ کریں تو دنیا بھر کی مالیاتی مارکیٹیں (لندن کی بجائے) ہندوستان کے رحم و کرم پر ہوں گی۔"
if a time comes when Indians learn to leave off their unfertile habits and to divert their hoards into the channels of productive industry and to the enrichment of their fields, they will have the money markets of the world at their mercy.
  • "غیر محسوس طور پر (قانون میں موجود) لفظوں کے مطلب بدل چکے ہیں جو پرانے (مالیاتی) نظام کو مشکلات میں کچھ سودمندی کا موقع فراہم کرتے ہیں۔"
but by unforeseen chance the words have changed their meanings, and have permitted the old system to acquire through inadvertence a certain degree of usefulness.
  • ہندوستان میں چاندی کی کرنسی ختم کرنے اور اس کی جگہ کاغذی کرنسی رائج کرنے کے لیے برطانوی حکومت نے 1893 میں چاندی کا روپیہ بنانے والی ٹکسالیں بند کر دیں تھیں۔ لیکن عوام میں چاندی کے روپے کی طلب برقرار رہی۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے 29 اپریل 1898 میں Fowler Committee بنائی گئی جس کی سفارش پر گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ نافذ کیا گیا۔ اس طرح ہندوستان میں بھی کاغذی کرنسی کی راہ ہموار ہو گئی۔ کینز کے الفاظ میں"1899 سے ہندوستان میں (کاغذی) کرنسی کے نظام نے بڑی تیزی لیکن خاموشی سے ترقی کری"
The evolution of the Indian (paper) currency system since 1899 has been rapid, though silent.
  • یورپ، امریکا،ہندوستان اور چین میں عوام چاندی کے سکے استعمال کیے جانے کے زبردست حامی تھے مگر کیپیٹلسٹ حکومتوں نے کاغذی کرنسی کو فروغ دینے کے لیے زبردستی چاندی کی ٹکسالیں بند کروا دیں۔ 1913 میں کینز کا خیال تھا کہ ہندوستان میں اب چاندی کی طلب ختم ہو چکی ہے۔
Time has muffled the outcries of the silver interests
لیکن پہلی جنگ عظیم شروع ہوتے ہی ثابت ہو گیا کہ کینز کا خیال غلط تھا اور لوگ اُس وقت بھی کاغذی کرنسی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے کیونکہ لوگوں نے بینکوں سے نوٹ کے بدلے بڑی مقدار میں چاندی کے سکے طلب کرنا شروع کر دیے۔
Gold is an international, but not a local currency.[31]
  • " ہندوستانی کرنسی کا سوال کچھ دلچسپ بن گیا۔ (ہندوستان کی پارلیمنٹ کے ) ارکان ایک دوسرے سے سے پوچھتے رہے کہ "گولڈ اسٹینڈرڈ ریزرو" کیا ہے۔ اور جب اخبارات میں لکھنے والوں نے انھیں بتایا کہ "گولڈ اسٹینڈرڈ ریزرو" میں کوئی سونا نہیں ہے تو وہ بجا طور پر خوفزدہ ہو گئے۔ مزید جانچ پڑتال سے کچھ اور حقائق سامنے آئے جن کا شبہہ بھی نہ تھا۔ یہ انکشاف ہوا کہ لندن کی مالیاتی مارکیٹ کے سب سے اہم ارکان کی ایک بڑی تعداد یہودی ہے اور ہندوستانی حکومت کے خریدے ہوئے برطانوی کاغذی اثاثوں (کونسولز) کی قیمت کافی گر چکی ہے۔ اس بات پر کافی توجہ دی گئی کہ لندن میں رکھی ہندوستانی رقومات، جوکافی اتار چڑھاو کے بعدپچھلے سال کافی بڑھ چکی تھیں، بہت ہی کم شرح سود پر غیر ملکیوں کو اُدھار دے دی گئیں۔ پارلیمنٹ کا ایک عام ممبرکس طرح یقین کر سکتا تھا کہ کچھ یہودی بین الاقوامی بینکاروں کا گروہ اُن ہندوستانی عوام کا خون نہیں چوس رہا ہے، جن عوام کا وہ نمائیندہ ہے؟"
It turned out that they had made insufficient allowance for the deep interest which the House of Commons takes in suggestions of personal scandal. The question of Indian currency became almost interesting. Members asked one another what the Gold Standard Reserve might be, and, when writers in the Press told them, were duly horrified to learn that it contained no gold. Closer inquiry elicited further facts unsuspected hitherto. It was discovered that a number of the most prominent members of the London Money Market were Jews, and that the Government of India’s holdings of Consols had depreciated in market value since they were bought. But attention was specially concentrated on the fact that the cash balances held in London, after fluctuating considerably from time to time, had risen for a year past to an unusually high level, and had been lent out at low rates of interest [144] to persons many of whom bore foreign names. How was the ordinary member of Parliament to be sure that some cosmopolitan syndicate of Jews was not fattening at the expense of the ryots of India, whose trustee he had often declared himself to be? Indian currency is too complicated a subject to be mastered at a moment’s notice; and many persons, without paying much attention to random charges of corruption, felt, quite legitimately, that there was a great deal going on of which they had no conception, and that they would like to be fully satisfied for themselves, and not merely on the word of the officials, that everything was really in order. The situation in its fundamentals has arisen before, and will arise from time to time in the future so long as the relations of the House of Commons to India combine in a high degree responsibility and ignorance.
  • 1864 میں برطانوی حکومت نے برطانوی سونے کا سکہ sovereign ہندوستان میں رائج کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ 1893 میں ہندوستان میں ٹکسالوں کی بندش کے بعد 1899 میں یہی کوشش دوبارہ کی گئی جو ابتدائی ناکامی کے بعد کامیاب رہی۔ کینز اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھتا ہے کہ "15 روپے کا یہ سکہ ہندوستان کی غریب عوام کے لیے بہت مہنگا تھا اس لیے نہ چل سکا۔" مغربی میڈیا بھی کینز کے اس بیان کو جا بجا دہراتا ہے۔ لیکن درحقیقیت یہ ایک جھوٹا اور گمراہ کن بیان تھا۔
unsuitability of the sovereign, by reason of its high value, for so poor a country as India.

اپنے جھوٹ کی تردید خود کینز نے ہی کی۔ آگے چل کر اسی کتاب میں کینز یہ بھی لکھتا ہے کہ

"جب موجودہ حالات میں ان کی ضرورت پڑتی ہے تو سوورین کے سونے کے سکے انڈیا کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔"
Sovereigns are readily attracted to India when required under existing conditions.۔۔۔
"سوورین کے سونے کے سکے مقبول ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی گردش بڑھ رہی ہے۔ وہ بازار میں بطور کرنسی قبول کر لیے جاتے ہیں جو لوگوں کی ذہانت کی عکاسی ہے۔"
sovereigns are becoming popular and that their circulation is increasing. They are accepted as legal tender in the bazaars, and this may be attributed to the intelligence of the people
جان مینارڈ کینز اپنی کتاب "انڈین کرنسی اینڈ فائیننس" میں لکھتا ہے کہ مالی سال 1900-1901ء میں حکومت ہند نے عوام کو سونے کا برطانوی ایک پاونڈ کا سکہ sovereign چاندی کے 15 روپے کے عوض جاری کرنا شروع کیا۔ ایک سال میں £6,750,000 کے سکے جاری کیے گئے لیکن توقع کے خلاف ان کی نصف مقدار بھی لوٹ کر بینکوں یا ٹریزری میں واپس نہیں آئی اور یہ تجربہ بری طرح ناکام رہا۔

حقیقت یہ تھی کہ ہندوستان کی برطانوی حکومت چاہتی تھی کہ یہ سکہ عوام میں زیر گردش رہے اور اس کی آڑ میں کاغذی کرنسی کے رواج کو فروغ ملے جیسا کہ برطانیہ میں ہو چکا تھا۔ مگر ہندوستان میں عوام اس سکے کو بچت (hoarding) کرنے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ یہ برطانوی سونے کے ذخائر میں کمی لانے کا سبب بن رہا تھا اس لیے حکومت نے خود ہی اسے رائج کرنے کی کوشش ترک کر دی۔

کینز کے مطابق صرف 1912 میں ہندوستان میں 2 کروڑ 15 لاکھ سوویرین سکے امپورٹ ہوئے (یعنی 157 ٹن سونا)۔ کینز نے تسلیم کیا ہے کہ ہندوستان میں سونے کی طلب بہت ہی زیادہ ہے۔
Perhaps we may fairly sum this evidence up by saying that it goes to show the existence in India at the present time of an enormous demand for gold bullion, a very considerable demand for sovereigns for purposes of hoarding، and a relatively smaller demand for them, chiefly confined to the United Provinces, the Punjab, Madras, and Bombay, for purposes of currency.
  • کینز نے یہ تسلیم کیا ہے کہ برطانوی حکومت ہندوستان میں صدیوں سے رائج چاندی کی کرنسی کا نظام جان بوجھ کر تباہ کررہی تھی۔
In 1893 four possible bases of currency seemed to hold the field: debased and depreciating currencies usually of paper; silver; bimetallism; and gold. It was not to be supposed that the Government of India intended to adopt the first; the second they were avowedly upsetting
  • ہندوستان میں برطانوی حکومت نے کئی دفعہ سونے کو کرنسی بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا مگر یہ محض ایک جھانسہ تھا۔ کینز نے بھی شک ظاہر کیا ہے کہ ہندوستان کی برطانوی حکومت سونے کو واقعی کرنسی بنانا چاہتی تھی۔
The Committee of 1898 explicitly declared themselves to be in favour of the eventual establishment of a gold currency.
This goal, if it was their goal، the Government of India have never attained.
  • 1898 میں ہندوستان میں گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ مسٹر لنڈسے کی تجویز پر نافذ کیا گیا تھا۔ اُس کا کہنا تھا کہ یہ اسکیم کوئی نہیں سمجھ پائے گا سوائے ان چند لوگوں کے جوبہت ہی ذہین ہیں۔ اور اس طرح ہندوستان میں کاغذی کرنسی کا نظام آ جائے گا۔ کینز لکھتا ہے کہ
The prophecy of 1898 by Mr. A. M. Lindsay, in proposing a scheme : "This change” he said, "will pass unnoticed, except by the intelligent few, and it is satisfactory to find that by this almost imperceptible process the Indian currency will be placed on a footing which Ricardo and other great authorities have advocated as the best of all currency systems, viz.، one in which the currency media used in the internal circulation are confined to notes and cheap token coins, which are made to act precisely as if they were bits of gold by being made convertible into gold for foreign payment purposes."
  • انگریز حکومت ہندوستان میں کاغذی کرنسی کا رواج اس وعدے کے ساتھ بڑھا رہی تھی کہ لوگ جب چاہیں اس کاغذی نوٹ کے بدلے چاندی کے سکے حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر لوگ کاغذی نوٹ پر بجا طور پر شک کرتے تھے۔ حکومت کو اکثر نوٹ کے بدلے لوگوں کو چاندی کے سکے واپس دینے میں مشکل پیش آتی تھی۔ کینز کا کہنا تھا کہ "ہندوستانی عوام کوپڑھایا ہی نہیں گیا ہے کہ وہ یہ سمجھیں کہ نوٹ کے بدلے چاندی کے سکے صرف اس لیے واپس نہیں کیے جا سکتے کیونکہ عالمی منڈی میں مناسب مقدار میں چاندی دستیاب نہیں ہے۔" جبکہ حقیقت یہ تھی کہ عالمی مارکیٹ میں چاندی کی قیمت بڑھ رہی تھی اور حکومت یہ ادا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
the Indian people were not educated to understand that inconvertibility was forced merely by the inability to find sufficient silver in the world markets
  • کینز اپنی پہلی کتاب میں بتاتا ہے کہ کس طرح انگلستان نے "شرح سود" کی مدد سے تجارتی خسارے کے باوجود اپنا سونا دوسرے ملکوں کے حوالے کرنے سے بچایا۔
To guard against a possible drain of gold abroad, a complicated mechanism has been developed which in the details of its working is peculiar to this country. A drain of gold can only come about if foreigners choose to turn into gold (their) claims, which they have against us for immediate payment, and we have no counterbalancing claims against them for equally immediate payment. The drain can only be stopped if we can rapidly bring to bear our counterbalancing claims. When we come to consider how this can best be done, it is to be noticed that the position of a country which is preponderantly a creditor in the international short-loan market is quite different from that of a country which is preponderantly a debtor. In the former case, which is that of Great Britain, it is a question of reducing the amount lent; in the latter case it is a question of increasing the amount borrowed. A machinery which is adapted for action of the first kind may be ill suited for action of the second. Partly as a consequence of this, partly as a consequence of the peculiar organisation of the London Money Market, the "bank rate" policy for regulating the outflow of gold has been admirably successful in this country,۔۔۔
The essential characteristics of the British monetary system are, therefore, the use of cheques as the principal medium of exchange, and the use of the bank rate for regulating the balance of immediate foreign indebtedness (and hence the flow, by import and export, of gold)۔
  • کینز کا خیال تھا کہ کیپیٹل ازم (تخلیقِ دولت) کی خامیاں وقت کے ساتھ ختم ہو جائیں گی۔ ایک دفعہ معاشی مسائل حل ہو جائیں تو ُپھر نہ جنگیں ہوا کریں گی نہ کبھی کساد بازاری ہوا کرے گی۔ 1930 کے گریٹ ڈپریشن کے دوران میں اپنے طالب علموں کو لیکچر دیتے ہوئے کینز نے کہا تھا کہ کیپیٹل ازم کے نتیجے میں اتنی خوش حالی آ جائے گی کہ 2030ء تک لوگوں کو اپنی اچھی گذر اوقات کے لیے ہفتے میں 50 گھنٹوں کی بجائے صرف 15 گھنٹے کام کرنے کی ضرورت ہو گی۔
capitalism would progress so that by 2030 the standard of living would be dramatically higher; people would be liberated from want and would work no more than 15 hours a week, devoting the rest of their time to leisure and culture.۔۔
The love of money as a possession – as distinguished from the love of money as a means to the enjoyments and realities of life – will be recognised for what it is: a somewhat disgusting morbidity; one of those semi-criminal, semi-pathological propensities which one hands over with a shudder to the specialists in mental disease. All kinds of social customs and economic practices, affecting the distribution of wealth and of economic rewards and penalties, which we now maintain at all costs, however distasteful and unjust they may be in themselves, because they are tremendously useful in promoting the accumulation of capital, we shall then be free, at last, to discard.[32]
  • کینز نے پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر ہونے والے امن معاہدے (معاہدہ ورسائے) کے بعد پیشنگوئی کر دی تھی کہ 20 سال کے اندر دوبارہ جنگ ہو گی۔ اس کی پیشنگوئی درست ثابت ہوئی۔
In 1919, Keynes wrote The Economic Consequences of the Peace in which he criticized the Versailles treaty and its authors, while accurately predicting its grave socio-economic and political effects: high inflation, stagnation, and revanchism.... His prediction, that another war would begin in the next twenty years, was surgically precise.[33]
  • کینز دوسری جنگ عظیم کا حامی تھا کیونکہ اسلحہ سازی کی وجہ سے بے روزگاری بہت کم ہو گئی تھی۔
if expenditure on armaments really does cure unemployment, a grand experiment has begun,” Keynes declared in 1939. I predict that we shall never go back all the way to the old state of affairs. Good may come out of evil. We may learn a trick or two, which will come in useful when the day of peace comes.[34]
  • کینز سے اکثر یہ غلط بیان منسوب کیا جاتا ہے کہ gold is a barbarous relic۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کینز نے لکھا تھا کہ “the gold standard is already a barbarous relic”
Those who advocate the return to a gold standard do not always appreciate along what different lines our actual practice has been drifting. If we restore the gold standard, are we to return also to the pre-war conceptions of bank-rate, allowing the tides of gold to play what tricks they like with the internal price-level, and abandoning the attempt to moderate the disastrous influence of the credit-cycle on the stability of prices and employment? Or are we to continue and develop the experimental innovations of our present policy, ignoring the "bank ration" and, if necessary, allowing unmoved a piling up of gold reserves far beyond our requirements or their depletion far below them? In truth, the gold standard is already a barbarous relic. A Tract on Monetary Reform (1923)، chapter 4, p. 172[35]
  • Markets can remain irrational longer than you can remain solvent.[36]
  • 1944میں ہونے والی بریٹن اووڈز کانفرنس کے نمائیندوں کے بارے میں کینز نے کہا تھا
The negotiators had taken on roles ranging from, as Keynes said, “the economist, to the journalist, to the propagandist, to the lawyer, to the statesman—even, I think, to the prophet and to the soothsayer.”

نیو-کینزیت[ترمیم]

کینز کی تھیوری میں بتایا گیا تھا کہ بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تنخواہیں لچکدار ہوں۔ نیو کینزینزم میں کہا جاتا ہے کہ بے روزگاری کو کم ترین شرح پر برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تنخواہیں غیر لچکدار ہوں۔
John Hicks, Franco Modigliani اور Paul Samuelson نیو کینزینزم کے بانیوں میں سے ہیں جبکہ Robert Clower اور Axel Leijonhufvud کا کہنا ہے کہ کینز کو اس طرح بالکل غلط طور پر پیش کیاجاتا ہے۔
1970ء کی دہائی میں بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں اسٹیگفلیشن (stagflation) آیاجو کینزینزم اور نیوکینزینزم دونوں کی تھیوریوں کے مطابق ناممکن تھا۔ اس وجہ سے نیو کینزینزم کے حامیوں پر سے حکومت کا دست شفقت ہٹ گیا۔ ملٹن فریڈمین جیسے معاشیات دان جو عرصہ دراز سے کینزینزم کی مخالفت کرتے چلے آئے تھے اور اس کی تھیوری میں خامیوں کی نشان دہی کرتے آئے تھے، اب زیادہ نمایاں ہونے لگے۔ ملٹن فرائڈمین کا ہمیشہ سے یہ کہنا تھا کہ معیشت میں حکومت کی مداخلت کم ہونی چاہیے اورمارکیٹوں کو زیادہ آزادی ملنی چاہیے۔
میڈیا آج بھی اس بات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے کہ 1970ء کی دہائی میں آنے والے اسٹیگفلیشن کی اصل وجہ نکسن شاک تھا۔ اگست 1971ء میں جب امریکا نے ڈالر کا سونے سے ناتا توڑا تھا تو سارے ترقی یافتہ ممالک جن کی کرنسیاں عالمی اعتبار رکھتی تھیں، انھوں نے بڑی تعداد میں کرنسی چھاپی اور دنیا بھر میں پھیلائی جس کی وجہ سے انفلیشن میں یکدم اضافہ ہوا۔ انفلیشن اور کرنسی کی گرتی ہوئی قیمت (یعنی سونے کی بڑھتی ہوئی قیمت) کو روکنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کرنا پڑا۔ لیکن میڈیا میں یہی بتایا گیا کہ یہ سب کچھ تیل کی قیمتیں یکدم بڑھنے کی وجہ سے ہوا تھا۔[37] [38]

تنقید[ترمیم]

کینز کی موت کے بعد 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں ساری کیپیٹلسٹ حکومتوں نے کینز کی پالیسیاں اپنائیں جو کینز کو بہت بڑا معاشیات دان ثابت کرتی ہیں۔ لیکن تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ آثار سے پتہ چلتا ہے کہ کیپیٹلسٹ بینکاروں نے کینز کو رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے بطور مہرہ استعمال کیا جو بینکار ہمیشہ سے کرتے چلے آئے ہیں۔ چونکہ میڈیا بھی مرکزی بینکاروں کے قبضے میں ہے اس لیے اِس نے کینز کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔[39]

  • 1999ء میں ٹائم میگزین نے کینز کے بارے میں تبصرہ کیا کہ کینز کے بنیادی تصوارات (کہ حکومت کوقرض لے کر اخراجات بڑھانے چاہیئں) نے کیپیٹل ازم کو تباہی سے بچا لیا۔
In 1999, Time magazine included Keynes in their list of the 100 most important and influential people of the 20th century, commenting that: "His radical idea that governments should spend money they don't have may have saved capitalism."(English Wikipedia)
  • کینز کی آخری کتاب کا پوشیدہ مقصد یہ تھا کہ معیشت میں کسی طرح حکومت کا کردار شامل کیا جا سکے۔
an economic role could be created for the state, which was the hidden purpose behind his General Theory.
  • کینز اس بات کا کوئی ذکر نہیں کرتا کہ (معیشت میں) بینک کریڈٹ (تخلیق دولت) کا کردار کیا ہے۔
Nowhere is there mentioned the role of bank credit expansion.[40]
  • شرح سود کی تبدیلی قیمتوں کی تبدیلی کے بعد آتی ہے لیکن کینز اور اس کے ساتھیوں کا آج بھی ماننا ہے کہ پہلے شرح سود میں تبدیلی آتی ہے جس کی وجہ سے قیمتیں تبدیل ہوتی ہیں۔
Essentially, interest rates changed as a lagging indicator, not a leading one as Keynes and his acolytes to this day still assume.[21]

اقتباسات[ترمیم]

  • اُسے گولڈ اسٹینڈرڈ سے نفرت تھی۔ He hated the gold standard
  • کینز کا نظام عوام کو نہیں بلکہ صرف اشرافیہ کو فائیدہ پہنچاتا ہے۔[41]
  • یہودیوں کے بارے میں اس نے کہا تھا

"love of money [as] a somewhat disgusting morbidity, one of the semi-criminal, semi-pathological propensities which one hands over with a shudder to specialists in mental disease." "I still think the race (the jews) has shown itself, not merely for accidental reasons, more than normally interested in the accumulation of usury."

  • Keynes' first academic article, "Recent Economic Events in India," published in 1909 when he was 26, marked the true beginning of his enduring intellectual love affair with matters of money. Generating "statistics of verification" linking Indian price movements with gold flows put him into a "tremendous state of excitement," he wrote to painter Duncan Grant. "Here are my theories -- will the statistics bear them out? Nothing except copulation is so enthralling."All that is missing here is the information that it was Duncan Grant with whom Keynes was copulating.
  • کینز چاہتا تھا کہ کاغذی کرنسی کی تخلیق کا اختیار نجی مرکزی بینکوں کے پاس رہے (یعنی حکومت کے پاس یہ اختیار نہ رہے)۔ یہ 1923 میں کینز کی معاشیات کا محور تھا۔

Keynes wanted fiat money created by the central bank. This was the heart of Keynesian economics in 1923.

  • 1944 کے بریٹن اووڈز کانفرنس کے ڈرامے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ "جیسا کہ کامن ویلتھ کے ایک برطانوی افسر نے اس کانفرنس کے بعد بتایا تھا کہ ہندوستانی وفد کچھ زیادہ ہی منہ پھٹ تھا حالانکہ اس وقت ہندوستان برطانیہ کی کالونی تھا۔ ۔۔۔ اگرچہ برطانیہ کی اس کانفرنس میں یہ ایک شکایت رہی تھی لیکن یہ حیران کن نہیں ہے کہ ہندوستانی وفد کیوں اتنا منہ پھٹ تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ برطانیہ ہندوستان کا مقروض تھا اور ہندوستان اس قرض کی واپسی چاہتا تھا۔ جو کچھ آپ دستاویزات میں ہندوستانی قرض کی واپسی کے بارے میں پڑھتے ہیں وہ دراصل اُس طرح نہیں تھی۔ یہ گفتگو بڑے محتاط طریقے سے لارڈ کینز، سر جیریمی ریزمین اور ڈاکٹر وائیٹ نے پس پردہ ترتیب دی تھی"۔ (خیال رہے کہ پچھلے 12 سالوں میں انگریز ہندوستان سے 1300 ٹن سے زیادہ سونا لے جا چکے تھے اور وہ سونا ہندوستان کو پھر کبھی واپس نہیں ملا۔)

The Indian delegation is said to have been particularly outspoken, despite the fact that India was still then a colony of the UK. It’s not actually surprising that the Indian delegation was outspoken; this was one of the UK’s complaints about the conference. The problem was that the UK owed India money, and India wanted to get paid. Of course what you read in the transcripts about the Indian debt conversations isn’t everything that went on – “These conversations were carefully stage-managed by Lord Keynes, Sir Jeremy Raisman, and Dr. White,” as one official of the UK Commonwealth office said after the conference.

  • کینز کا خیال غلط ہے کہ قلت زر موت کا کنواں ہے۔

Deflation is not a death spiral as the Keynesians believe.

  • دوسرے الفاظ میں (1933 میں) روزویلٹ کے صدر بننے سے پورے ایک سال پہلے اُس نے کینز کی تائید سے اُس منصوبے کی جزیات طے کی تھیں جو 1944 میں بریٹن اووڈز کا منصوبہ بنا، یعنی کرنسیوں کو مستحکم شرح تبادلہ پر رکھا جائے گا، لیکن ہر ملک کی معاشی خوش حالی کی ضرورتوں کے لحاظ سے شرح تبادلہ میں ردوبدل کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ بریٹن اووڈز کا منصوبہ کرنسی نوٹ چھاپنے والے بینکاروں کا پوری دنیا کو بیوقوف بنانے کا عالیشان منصوبہ تھا۔[42]
(It was a gigantic fraud on the world – especially the poor, developing countries. And the fraud continues.)

In other words, before Roosevelt had been in office a full year, he had articulated, with Keynes’s approval, all the elements of what would become the Bretton Woods monetary policy in 1944: currencies would be kept at stable exchange rates, but would be adjustable in keeping with the needs of economic prosperity in each country.[43]

  • 1934 میں ہیری ڈیکسٹر واہیٹ نے محسوس کیا کہ فکسڈ ایکسچینج ریٹ اور لچکدار ایکسچینج ریٹ دونوں سے فائیدہ اٹھانا ممکن ہے۔ جب ایکسچینج ریٹ فکسڈ ہوتا ہے تو تجارت کرنا آسان ہو جاتا ہے اور جب ایکسچینج ریٹ لچکدار ہو اور بُرا وقت آن پڑے تو کرنسی چھاپ کر یا شرح سود میں ردوبدل کر کے صورت حال سے نمٹا جا سکتا ہے۔

میرے خیال میں یہی چیز بعد میں adjustable peg بنی۔ peg کے نام پر آپ کو فکسڈ ایکسچینج ریٹ کا منافع ملتا ہے۔ جبکہ ضرورت پڑنے پر ایکسچینج ریٹ کو adjustable ہونے کے بہانے تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔
In 1934, Harry Dexter White noted you could derive benefits from a fixed exchange rate (easier trade) and from a flexible exchange rate (without having to worry about the exchange rate, you’d be free to use monetary policy to fight off a downturn)۔ This sounds to me like what became known as the adjustable peg: you derive some of the benefits of fixed exchanges (that’s the peg part) while holding out the possibility of changing the exchange rate in time of need (that’s the adjustable part)۔

  • دو جلدوں پر مشتمل اپنی 1930 کی کتاب میں کینز نے بڑی تفصیل سے بینک کے کردار اور ان کی کاغذی کرنسی کی تخلیق کی نہایت اہم ذمہ داری کا ذکر کیا ہے۔ کینیز نے خاص طور پر کرنسی کی دو قسمیں بتائی ہیں۔ ایک حکومتی کرنسی اور دوسری بینک کی کرنسی (یعنی کھاتہ کرنسی)۔ حکومتی کرنسی بڑی طاقتور ہوتی ہے اور مرکزی بینک سے برآمد ہوتی ہے (کیش یعنی بینک نوٹ اور سکے)۔ جبکہ بینک کرنسی (چیک، ڈرافٹ، پے آرڈر، کریڈٹ کارڈ وغیرہ) کمرشیئل بینک (فریکشنل ریزرو بینکنگ کے ذریعے) کھاتوں میں جمع شدہ رقم سے تخلیق کرتے ہیں۔[44]

اس کتاب میں کینز نے کئی صفحے بینک کرنسی کے بارے میں لکھے ہیں۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ کینز نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ 1930 میں بینک کرنسی کی مقدار حکومتی کرنسی سے بہت زیادہ تھی۔ اور اب تک زیادہ کچھ نہیں بدلا۔ آج بھی برطانیہ میں کل کرنسی کا 82 فیصد بینک کرنسی پر مشتمل ہے۔

Then, in his two-volume 1930 work, A Treatise on Money, Keynes devotes a great deal of space to banks and their important role in creating money. In particular, Keynes separates money into two classes: state money and bank money. State money is the high-powered money that is produced by central banks. Bank money is produced by commercial banks through deposit creation. Keynes spends many pages in The Treatise dealing with bank money. This isn’t surprising because, as Keynes makes clear, bank money was much larger than state money in 1930. Well, not much has changed since then. Today, bank money accounts for almost 82 percent of the broad money supply (M4) in the United Kingdom.[45]

  • یہ حکومت کی نہیں بلکہ لوگوں کی دولت ہوتی ہے جو کھپت پر اثر ڈالتی ہے۔

it is the wealth of the people – not that of the government – that dictates consumption.[46]

  • کینز کا دنیا کے بارے میں سیدھا سادھا نظریہ دھوکا بازی پر مبنی ہے۔ کینز کے مطابق معیشت کی بنیاد قابل استعمال اشیاء اور خدمات کی مجموعی طلب پر قایم ہے۔ لوگ زیادہ سامان اور خدمات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جب تک ان کی قوت خرید ساتھ دیتی ہے وہ ایسا کرتے ہیں۔( اس طرح کی خریداری کو حیوانی جبلت کہا جاتا ہے)

کینز کے خیال میں وقت کی سب سے بڑی ایجاد کریڈٹ (نوٹ چھپائی) ہے کیونکہ کریڈٹ لوگوں کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ مستقبل کی آمدنی کی امید پر قرض لے کر آج ہی خرچے کر لیں۔ اس طرح کریڈٹ مجموعی طلب میں اضافہ کرتا ہے۔ کینز کا نظریہ بس یہ ہے کہ قرضے لو اور اخراجات بڑھاو جبکہ ایسا مسلسل ہوتے رہنا ناممکن ہے۔ (کینز اس بات کا کوئی ذکر نہیں کرتا کہ آخر یہ قرضے کس طرح بھرے جائیں گے۔)

The Keynesian world-view is doggedly simplistic. The economy is based on aggregate demand for more goods and services. People want more stuff and services, and as long as they have the means to buy more stuff and services, they will avidly do so (this urge is known as animal spirits)۔
The greatest single invention of all time in the Keynesian universe is credit, because credit enables people to borrow from their future earnings to consume more in the present. Credit thus expands aggregate demand for more goods and services, which is the whole purpose of existence in this world-view: buy more stuff.
But credit, aggregate demand for more stuff and animal spirits make for a volatile cocktail.[47]
  • I do know all the Keynesian models are wrong. I also know that the idea that a group of alleged economic wizards can sit in a room and divine the correct interest rate to achieve a dual mandate of low unemployment and high growth is absurd.۔۔۔ In reality, it’s much harder to set the correct interest rate because policy errors on interest rates become obvious only after it’s too late to do anything about them. The housing bubble is a classic example.[48]
  • "کینز کا یہ خیال بالکل غلط نکلا کہ اگر لوگوں کی جیب میں زیادہ پیسے ہوں گے تو کھپت بڑھے گی جس کی وجہ سے جی ڈی پی (ملکی آمدنی) بڑھے گی۔ پچھلے 30 سالوں سے ایسا نہیں ہو رہا۔ کینز کے ماڈل 1980ء میں مر چکے ہیں۔"

The Keynesian view that “more money in people’s pockets” will drive up consumer spending, with a boost to GDP being the end result, has been clearly wrong. It hasn’t happened in 30 years. The Keynesian model died in 1980.[49]

  • 1933ء میں کینز نے لکھا تھا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد آنے والا کیپیٹل ازم کا نظام کوئی کامیابی نہیں ہے، یہ دانش مندانہ نہیں ہے، یہ خوبصورت نہیں ہے، یہ منصفانہ نہیں ہے، یہ شفاف نہیں ہے اور اس میں بھلائی نہیں ہے۔ مختصر الفاظ میں ہم اسے پسند نہیں کرتے اور ہمیں اس سے نفرت ہوتی جا رہی ہے۔۔۔ جہاں تک ممکن ہو استعمال کی اشیاء اپنے ملک میں ہی بنا لینی چاہیئں۔ لیکن 1940 کی دہائی میں کینز اور دوسرے آزاد خیال معیشت دانوں کا ایمان پھر چکا تھا۔
Over the course of the 1930s and 40s, liberals – John Maynard Keynes among them – who had previously regarded departures from free trade as “an imbecility and an outrage” began to lose their religion. “The decadent international but individualistic capitalism, in the hands of which we found ourselves after the war, is not a success,” Keynes found himself writing in 1933. “It is not intelligent, it is not beautiful, it is not just, it is not virtuous – and it doesn’t deliver the goods. In short, we dislike it, and we are beginning to despise it.” He claimed sympathies “with those who would minimise, rather than with those who would maximise, economic entanglement among nations,” and argued that goods “be homespun whenever it is reasonably and conveniently possible”۔[50]
  • As Ludwig von Mises pointed out: “At the bottom of the interventionist argument there is always the idea that the government or the state is an entity outside and above the social process of production, that it owns something which is not derived from taxing its subjects, and that it can spend this mythical something for definite purposes. This is the Santa Claus fable raised by Lord Keynes to the dignity of an economic doctrine and enthusiastically endorsed by all those who expect personal advantage from government spending. As against these popular fallacies there is need to emphasize the truism that a government can spend or invest only what it takes away from its citizens and that its additional spending and investment curtails the citizens’ spending and investment to the full extent of its quantity.”[51]
  • Printing / borrowing money to generate the unsustainable illusion of "growth" sets up the collapse of the entire Keynesian edifice...[52]
  • "The message unanimously churned out by politicians, central bankers, and ‘mainstream’ economists is that central banks are there for the ‘greater good’...However, unfortunately, nothing could be further from the truth."[53]
  • 'In Washington Lord Halifax Once whispered to Lord Keynes: "It's true they have the moneybags. But we have all the brains.'" [54]
  • it turns out it isn’t capital that creates economic growth, it’s people; and it isn’t self-interest that promotes the public good, it’s reciprocity; and it isn’t competition that produces our prosperity, it’s cooperation.
...Hyman Minsky wrote, stability breeds instability.[55]
  • یہ دعویٰ کرنا احمقانہ ہے کہ کینز جرمنی کے خلاف تاوان جنگ کا مخالف تھا۔ تاوان جنگ کے تصفیہ میں سب سے بڑا کردار کینز کا تھا۔۔۔ پھر اس نے استعفا کیوں دیا؟ اس نے پہلی جنگ عظیم کے اتحادیوں کے مابین قرض کا ایک ایسا نظام بنا دیا جس کے نتیجے میں ریزرو کرنسی کا درجہ برطانیہ کے ہاتھ سے نکل کر امریکا کے ہاتھ میں چلا گیا۔
Clearly, it is absurd to claim that Keynes opposed German reparations; he was the single most important architect of the reparations settlement.
...So why did Keynes resign? He devised the system of inter-allied war loans, and he understood that his system had passed financial hegemony from Britain to the United States.[56]
  • اب یہ اچانک واضح ہو گیا ہے کہ کینز کا 90 سالہ عالمی تجربہ اب اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہے۔
It is suddenly becoming clear that the global Keynesian experiment of the last ninety years faces an existential crisis.[57]

مزید دیکھیے[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]

Generating currency out of thin air and trading it for tangible goods is the definition of hegemony. Is there is any greater magic power than that?[58]

بھارتی کرنسی اور خزانہ کا لنک[ترمیم]

Indian Currency and Finance, by John Maynard Keynes

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب ربط : https://d-nb.info/gnd/118561804  — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اپریل 2014 — اجازت نامہ: CC0
  2. ^ ا ب http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12041754c — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. ^ ا ب http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12041754c — اخذ شدہ بتاریخ: 22 اگست 2017
  4. ^ ا ب ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6q81dnz — بنام: John Maynard Keynes — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  5. ^ ا ب NE.se ID: https://www.ne.se/uppslagsverk/encyklopedi/lång/john-maynard-keynes — بنام: John Maynard Keynes — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — عنوان : Nationalencyklopedin
  6. ^ ا ب فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/13917737 — بنام: John Maynard Keynes — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  7. بنام: John Maynard Keynes — IMSLP ID: https://imslp.org/wiki/Category:Keynes,_John_Maynard — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  8. ربط : https://d-nb.info/gnd/118561804  — اخذ شدہ بتاریخ: 10 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
  9. ربط : https://d-nb.info/gnd/118561804  — اخذ شدہ بتاریخ: 28 ستمبر 2015 — مدیر: الیکزینڈر پروکورو — عنوان : Большая советская энциклопедия — اشاعت سوم — باب: Кейнс Джон Мейнард
  10. ربط : https://d-nb.info/gnd/118561804  — اخذ شدہ بتاریخ: 27 ستمبر 2015 — مدیر: الیکزینڈر پروکورو — عنوان : Большая советская энциклопедия — اشاعت سوم — باب: Кейнс Джон Мейнард
  11. ^ ا ب اوکسفرڈ بائیوگرافی انڈیکس نمبر: https://www.oxforddnb.com/view/article/34310 — عنوان : Oxford Dictionary of National Biography — ناشر: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس
  12. Hansard (1803–2005) ID: https://api.parliament.uk/historic-hansard/people/mr-john-keynes — اخذ شدہ بتاریخ: 22 اپریل 2022
  13. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12041754c — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  14. کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/60685411
  15. http://www.nobelprize.org/nomination/archive/show_people.php?id=4817
  16. Congress passes Johnson Debt Default Act, April 13, 1934
  17. "THE UK'S UNPAID WAR DEBTS TO THE UNITED STATES, 1917-1980"۔ 22 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2019 
  18. Paul Volcker: The Last Of His Kind
  19. Quotes and Political "Spin" of a Different Era[مردہ ربط]
  20. When Money Dies, 100 Years Later
  21. ^ ا ب Macleod: The Upside-Down World Of Currency
  22. "You Can't Put It Back Together" - Jim Rickards Warns Of 'Unstoppable Crisis Worse Than 2008'
  23. Keynes: A Master of Confused and Confusing Prose
  24. Don't Blame Trump When The World Ends
  25. Rickards: Monetary And Fiscal Policy Won't Help
  26. Keynes Is Dead - This Is The 'Long-Run'
  27. The 'Theft Of Time' Always Ends In A Credit-Driven Crisis
  28. The Burden Of Government Debt And James Buchanan's Corrective
  29. The Future of What's Called "Capitalism"
  30. By Michael J. Kosares
  31. Wikisource
  32. Optimism amongst mainstream economists is clearly misplaced
  33. How The Allies Guaranteed A 2nd World War
  34. John Maynard Keynes Explains Cure to High Unemployment
  35. wikiQuote
  36. wikiquote
  37. Stagflation: What Is It, What Causes It, and Can It Happen Again?[مردہ ربط]
  38. I. S. Gulati (1977)۔ "INTERNATIONAL MONETARY REFORMS IN RETROSPECT AND PROSPECT"۔ Commonwealth Secretariat. Marlborough House.London SW1Y 5HX۔ 25 دسمبر 2018 میں Jamaica Agreement 1976 اصل تحقق من قيمة |url= (معاونت) سے آرکائیو شدہ 
  39. Ron Paul: The Fed Is In The Stock Market And They Don't Want Us To Know The Details
  40. Explaining the credit cycle
  41. We Have Reached The End Of Monetary Policy As We All Once Knew It
  42. Anuraag Sanghi (2008)۔ "جو بات وہ آپ کو کبھی نہیں بتائیں گے"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  43. Roosevelt’s money policy, 1933–1934
  44. Where Does Money Come From?
  45. Monetary Policies Misunderstood
  46. RC AKA Darryl, Ron said.۔۔
  47. The Keynesian Cult Has Failed: "Emergency" Stimulus Is Now Permanent
  48. "Two Options: Reform the Economic System Now or the Populists Will"۔ 19 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 دسمبر 2016 
  49. The Breaking Point & Death Of Keynes
  50. Globalisation: the rise and fall of an idea that swept the world
  51. The Government Debt Paradox: Pick Your Poison
  52. Keynesian Economics Is An Artifact Of Cheap Energy
  53. How Central Banks Enrich The Few, Harm The Many
  54. Postwar
  55. Mauldin: The Time That Keynes Had A Point
  56. The Economic Consequences Of The Peace: 100 Years Later
  57. Payments-Panic & The Endgame Of Fiat Currencies
  58. "کیا اس سے بڑا جادو بھی کوئی ہو سکتا ہے؟"۔ 15 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اپریل 2016 

Biographical Summary of John Maynard Keynesآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ academics.utep.edu (Error: unknown archive URL)