لنڈسے اسکیم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ سب سے پہلے انڈیا میں نافذ ہوا۔ اس منصوبے کی تجویز دینے والے کا نام لنڈسے (Mr. Alexander Martin Lindsay,) تھا جو بینک آف بنگال میں ڈپٹی سیکریٹری تھا۔ لنڈسے نے اگرچہ 1876ء میں پہلی دفعہ اپنی تجویز دی تھی مگر 22 سالوں تک کسی نے اس کی بات پر دھیان نہیں دیا۔ 1898 میں فاولر کمیٹی (Fowler Committee) نے اس کی تجاویز پر پوری تفصیل سے غور کیا اور اسے قابل عمل پایا۔ لنڈسے کی اسکیم یہ تھی کہ ضرورت پڑنے پر ہندوستان میں ریورس کونسل بل بیچے جائیں اور اس طرح سونے کی بجائے سونے کی رسید دے کر ہندوستانیوں کو بہلایا جائے۔ یہ روپے کی قیمت کو گرنے سے روکنے کا موثر طریقہ تھا۔
14 مہینوں کے غور و فکر کے بعد 1898 میں فاولر کمیٹی نے اپنی رپورٹ جاری کی لیکن اس میں لنڈسے کی گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ اور Lesley Probyn کی گولڈ بلین اسٹینڈرڈ دونوں اسکیموں کو اس لیے رد کر دیا کہ ابھی ان کے لیے مناسب وقت نہیں آیا ہے۔ کمیٹی کی حتمی رپورٹ میں سونے کو کرنسی قرار دیا گیا اور چاندی کی کرنسی کی مخالفت کی۔ سونے کا سکہ sovereign قانونی سکہ (لیگل ٹینڈر) قرار دیا گیا۔ ساتھ ہی کمیٹی نے حکومت کے اس منصوبے کو بھی رد کر دیا کہ موجودہ چاندی کے سکے پگھلا دیے جائیں۔ اگرچہ ظاہری طور پر فاولر کمیٹی نے چاندی کی کرنسی کی مخالفت کی تھی لیکن عملاً حکومت ہند نے اس کے عین برعکس کام کیا۔ چاندی کے سکے کا اجرا جو 1893ء سے ختم کر دیا گیا تھا اسے دوبارہ جاری کرنا شروع کر دیا اور 1899ء سے 1907ء کے دوران حکومت ہند نے ایک ارب 20 کروڑ چاندی کے روپے کے سکے جاری کیے۔ اس کے بعد انڈیا کی برطانوی حکومت نے گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ اپنا لیا۔[1]

اقتباسات[ترمیم]

  • فاولر کمیٹی کی 1898ء کی تجاویز کے فوراً بعد ہندوستان میں جو نظام کرنسی بنا اسے کینز نے گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ بتایا ہے جو لنڈسے کی اسکیم تھی۔ حالانکہ کینز جانتا تھا کہ ایسا نہیں ہے۔ ہندوستانی لوگ روپے کے عوض سونا حاصل نہیں کر سکتے تھے جب تک لندن اجازت نہ دے۔ 1906-1907 میں امریکا میں ہونے والے مالیاتی بحران نے بینک آف انگلینڈ کو کمزور کر دیا تھا۔ اسی موقع پر ہندوستان میں قحط کی وجہ سے عالمی معیشت پر برا اثر پڑا اور مالیاتی نظام کی خامیاں واضح ہونے لگیں۔ لیکن پھر بھی کینز انڈیا آفس کا دفاع کرتا رہا۔

The exchange standard that emerged shortly after the long 14 months of deliberations of the Fowler Committee was styled by Keynes as a gold exchange standard, advocated by Lindsay. But he knew it was really not so. It consisted of a 16d token rupee, unlimited legal tender, freely coined and sold for council bills (or sovereigns, in India), no exchange reserve except coinage profits sent to London, and no legal convertibility of the rupee into sterling or gold, except at London's discretion. The crises of 1906-07 in the US affecting the Bank of England, then famines in India and slackening of world economy, revealed serious cracks. Yet Keynes persisted in shielding India Office.[2]

  • جان مینارڈ کینز لکھتا ہے کہ ہندوستان میں گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ مسٹر لنڈسے کی تجویز پر نافذ کیا گیا تھا۔ لنڈسے کا کہنا تھا کہ یہ اسکیم کوئی نہیں سمجھ پائے گا سوائے ان چند لوگوں کے جو بہت ہی ذہین ہیں۔ اور اس طرح ہندوستان میں کاغذی کرنسی کا نظام آ جائے گا۔ اور واقعی یہی ہوا۔ 1899 سے 1907ء کے دوران حکومت ہند کو ایک ارب 20 کروڑ چاندی کے روپے جاری کرنے پڑے تھے۔ لیکن 1913 تک حکومت 70 کروڑ کاغذی روپے جاری کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی۔
The prophecy of 1898 by Mr. A. M. Lindsay, in proposing a scheme : "This change” he said, "will pass unnoticed, except by the intelligent few, and it is satisfactory to find that by this almost imperceptible process the Indian currency will be placed on a footing which Ricardo and other great authorities have advocated as the best of all currency systems, viz., one in which the currency media used in the internal circulation are confined to notes and cheap token coins, which are made to act precisely as if they were bits of gold by being made convertible into gold for foreign payment purposes."[3]
  • جان مینارڈ کینز نے اپنی کتاب انڈین کرنسی اینڈ فائیننس میں گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کے مرکزی منصوبے کے بارے میں لکھا ہے کہ مقامی کرنسی کسی سستی چیز سے بنا کر اسے مصنوعی طور پر بین الاقوامی کرنسی کے ہم پلہ بنا دیا جائے۔ کسی دوسری جگہ کینیز لکھتا ہے کہ سونا بین الاقوامی کرنسی ہے۔ (یعنی گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کا مقصد یہ ہے کہ کاغذی کرنسی کو سونے کا متبادل قرار دے کر غریب ممالک کا سونا ہتھیا لیا جائے)۔
it contains one essential element-the use of a cheap local currency artificially maintained at par with the international currency or standard of value
  • گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ اور گولڈ اسٹینڈرڈ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ میں ریزرو ملک دوسرے ملکوں کے سینٹرل بینک کو تو سونا دے سکتا ہے مگر ان کے عوام کو نہیں۔

One key difference in this (gold exchange standard) system from a gold standard is that the reserve country does not agree to exchange gold for currency with the general public, only with other central banks.[4]

  • جان مینارڈ کینز نے 1913 میں اپنی کتاب انڈین کرنسی اینڈ فائیننس میں گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کے منصوبے کے بارے میں لکھا ہے کہ لنڈسے کی اسکیم پر سرکاری حکام اور بڑے بینکاروں نے شدید تنقید کری۔ لارڈ روتھشیلڈ اور دوسرے بینکاروں نے فاولر کمیٹی کے سامنے بیان دیا کہ کسی بھی ایسے نظام کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا جس میں سونے کی کرنسی نظر نہ آئے۔ مسٹر الفریڈ ڈی روتھشیلڈ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مجھے تو گولڈ کے بغیر گولڈ اسٹینڈرڈ بالکل ناممکن لگتا ہے۔
Lindsay's scheme was severely criticised both by Government officials and leading financiers. Lord Farrer described it as "far too clever for the ordinary English mind it is ineradicable prejudice for an immediately tangible gold backing to all currencies." Lord Rothschild, Sir John Lubbuck (Lord Avebury), Sir Samuel Montagu (the late Lord Swaythling) all gave evidence before the Committee that any system without a visible gold currency would be looked on with distrust. Mr. Alfred de Rothschild went so far as to say that "in fact a gold standard without a gold currency seemed to him an utter impossibility."[5]
  • لنڈسے کا منصوبہ بعد میں گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کہلایا۔ لنڈسے نے انکشاف کیا تھا کہ انڈیا میں درحقیقت سونے کی کرنسی کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ غیر ممالک سے تجارت کے لیے سونے کا چاندی سے ربط طے شدہ ہو۔ جس طرح گولڈ اسٹینڈرڈ ممالک میں تجارتی توازن سونے کی درآمد یا برآمد سے خود بخود متوازن ہو جاتا ہے اسی طرح کسی ایسے طریقے کی ضرورت ہے جو تجارتی توازن کو خود بخود متوازن کر دے۔ اس لیے اس نے تجویز دی کہ انڈیا میں سونے کے بدلے چاندی اور چاندی کے بدلے سونا نہ دیا جائے بلکہ لندن میں پیش کیے جانے والے سونے یا چیک کے بدلے میں انڈیا میں چاندی دے دی جائے اور اسی طرح انڈیا میں جمع کرائی جانے والی چاندی کے بدلے میں لندن میں سونا یا چیک دے دیا جائے۔(چیک یا کاغذی کرنسی کا تصور نیا نہیں تھا مگر اس میں مصیبت یہ تھی کہ وقفے وقفے سے bank run ہوتے رہتے تھے۔ اس نئے طریقے سے بینک رن ناممکن ہو گئے کیونکہ سارے ہندوستانی یکدم لندن نہیں جا سکتے تھے۔ اس اسکیم کا نچوڑ یہ تھا کہ سونا لیا جا سکے مگر کبھی دینا نہ پڑے۔)

The Lindsay plan was for what is known now as the gold-ex change standard. Lindsay pointed out that there was no real need for a gold currency in India, but that there was a need for a fixed gold value of the rupee in foreign trade, and for some means by which the balance of payments could be adjusted as automatically as it was adjusted between gold-standard countries by the shipment of gold. He proposed therefore that, instead of offering to give rupees for sovereigns and sovereigns for rupees in India, the Government should stand ready to give rupees in India for sovereigns or checks in Lon don, and to give sovereigns or checks in London for rupees in India. Such transactions would be made at rates respectively above and below the established par of 1s. 4d. by an amount sufficient to represent the expenses of shipping gold between India and London. The market exchange rate always would remain between the gold shipping points; when it reached either of these points, the banks would not actually ship gold, but would make exchange transactions through the Government.[6]

  • 1907 میں ہندوستان میں بارشیں بہت کم ہویئں۔ فصل بہت کم ہونے کی وجہ سے معاشی حالات بگڑنے لگے۔ ہندوستانی برآمدات کم ہونے کی وجہ سے روپے کی قیمت گرنے لگی۔ اس موقع پر پہلی دفعہ لنڈسے کی اسکیم کو استعمال کرتے ہوئے روپے کی قیمت کو 16 پنس سے نیچے گرنے سے بچایا گیا۔ عام حالات میں کونسل بل (جو ایک طرح کا بینک ڈرافٹ ہوتا تھا) کی فروخت کے ذریعے روپے کی قیمت کو 16 پنس سے زیادہ بڑھنے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ لنڈسے کی اسکیم پر عمل کرتے ہوئے 26 مارچ 1908 ء سے برطانوی حکومت نے ہندوستان میں 6 مہینوں کے دوران 80 لاکھ پاونڈ کے ریورس کونسل بل بیچے جس کے بعد حالات بہتر ہو گئے اورکونسل بل کی فروخت دوبارہ شروع ہو گئی۔

On March 26, 1908 such bills were sold for the first time. They were known as “Reverse Councils.” In effect they were exactly what the Lindsay plan had recommended to be used when it was necessary to keep exchange up to 1s. 4d,, ordinary Councils having the effect of keeping it down to 1s. 4d. Reverse Councils were sold until September, when conditions had improved greatly and the offer was withdrawn. A total of over £8,000,000 was sold; of course, no Council bills were sold during the period.[7]

  • چاندی کی قیمت کا انحصار ان کونسل بل پر تھا۔ جب بھی بینک آف انگلینڈ چاندی کی قیمت گرانا چاہتا تھا تو وہ کونسل بل کی قیمت گرا دیتا تھا۔ اگر کوئی اور چاندی ہندوستان بھیجنے کی کوشش کرتا تھا تو بینک آف انگلینڈ کونسل بل کی قیمت بڑھا دیتا تھا جس کی وجہ سے چاندی ہندوستان کی نسبت لندن میں زیادہ مہنگی ہو جاتی تھی۔ بہت سارے لوگوں نے چاندی ایشیا بھیجنے کی کوشش کری اور ناکام رہے اور آخر کار اپنے ارادوں سے دست بردار ہو گئے کیونکہ بینک آف انگلینڈ سے مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔

the price of silver depends upon these council bills. Whenever the Bank of England wants to put down silver it lowers the price of council bills. If anybody else attempts to ship silver to India the bank puts the council bills up so that the silver will be worth more in London than in India. Several have tried it and failed; it has been given up, and the world now has ceased to make any attempt to compete with the bank of England in the purchase of silver for Asiatic consumption.[8]

  • جیمز ریکارڈز اپنی کتاب “کرنسی کی موت“ میں گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کے بارے میں لکھتے ہیں: "گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ ایک جانب حقیقی گولڈ اسٹینڈرڈ کی سنہری نقل تھا تو دوسری جانب ایک بہت ہی بڑا فراڈ بھی تھا۔"
The gold exchange standard was, at best, a pale imitation of a true gold standard and, at worst, a massive fraud.[9]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]